رشتے میں والدین کی رضا مندی
سوال:دو خاندان کے بالغ لڑکے اورلڑکی اگر آپس میں رشتہ کرنا چاہیں لیکن لڑکے کے والدین اپنے بیٹے کی پسند سے اتفاق نہ رکھتے ہوں توایسی صورت میں کیا لڑکا اپنے والدین کی ناراضی اورعدم موافقت کے باوجود یہ رشتہ کرسکتا ہے ؟ شریعت میں والدین کی رضا مندی کا کہاں تک اعتبار کیا گیا ہے ؟ براہ کرم قرآن وحدیث کے حوالے سے رہ نمائی فرمادیں۔
جواب : والدین پر اولاد کے جوحقوق شریعت نے عائد کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ والدین ان کی اچھی طرح پرورش و پرداخت کریں ، انہیں تعلیم وتربیت سے آراستہ کریں اور جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا نکاح کرنے میں جلدی کریں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کے سرپر ستوں کومخاطب کرکے ارشاد فرمایا :
اِذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَہٗ وَخُلُقَہٗ فَزَوِّجُوْہُ اَلَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ (ترمذی، کتاب النکاح ، ۱۰۸۴)
’’جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کی طرف سے پیغام آئے جس کا دین واخلاق تمہارے نزدیک پسندیدہ ہوتو اس سے ( اپنی لڑکی کا ) نکاح کردو ۔ اگرتم ایسا نہ کروگے توفتنہ اور بڑا فساد برپا ہوجائے گا ۔‘‘
والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد (لڑکا یا لڑکی ) کا اچھے سے اچھا رشتہ کریں، اسی لیے وہ حتی الامکان خوب تلاش وتحقیق کے بعد اورچھان پھٹک کرکوئی رشتہ طے کرتے ہیں ، لیکن تنازعہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب والدین اور اولاد کی پسند و نا پسندمیں اختلاف ہوجاتا ہے ۔والدین جورشتہ پسند کرتے ہیں وہ کسی وجہ سے ان کے لڑکے یا لڑکی کو پسند نہیں آتا اور لڑکا یا لڑکی اپنے والدین کے سامنے اپنی پسند کے کسی رشتے کو نشان دہی کرتے ہیں تووہ والدین کی نگاہوں میںنہیں جچتا، چنانچہ وہ اسے اپنی منظوری نہیں دیتے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ رشتے کرنے کے سلسلےمیں والدین اور اولاد کی پسند و ناپسند میں ٹکراؤ ہو اور موافقت کی کوئی صو رت نہ نکل رہی ہو توکس کی رائے کو ترجیح حاصل ہوگی ؟
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اگر لڑکا یا لڑکی بالغ ہے تو وہ اپنی مرضی سے اپنا نکاح کرسکتے ہیں ۔ ان کے لیے ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے ۔ مولانا مجیب اللہ ندویؒ نے امام ابوحنیفہ ؒ کے مسلک کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’بالغ لڑکے اورلڑکیوں کوشریعت نے یہ حق دیا ہے کہ وہ جس معقول مسلمان لڑکی یا لڑکے سے چاہیں، نکاح کرلیں۔ ولی کی اجازت کی ان کو ضرورت نہیں ہے ، خواہ ولی اس رشتے کوپسند کریں یا نہ کریں ۔ یہ امام ابوحنیفہؒ کا مسلک ہے ۔ اسی کوتمام فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے ۔‘‘
(اسلامی فقہ ،تاج کمپنی ، دہلی ،۱۹۹۲:۲؍۳۵)
ان کے دلائل یہ ہیں:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہٗ …….( البقرۃ: ۲۳۰)
’’ پھر اگر (دو طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار ) طلاق دے دی تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الا یہ کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکا ح کرلے …….)
اسی سورت میں آگے ہے :
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ(البقرۃ: ۲۳۲)
’’ جب تم اپنی عورتوں کوطلاق دے چکواور وہ عدّت پوری کرلیں تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہر و ں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم نکاح کرلینے پر راضی ہوں۔‘‘
مزید ملاحظہ کیجئے :
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْ مَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ (البقرۃ :۲۴۰)
’’ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ (عورتیں ) جوکچھ بھی کریں۔ اس کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر نوجوانوں کومخاطب کرکے فرمایا :
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاءَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ (بخاری : ۱۹۰۵، مسلم : ۱۴۰۰)
’’ اے نوجوانو! تم میں سے جوبھی نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہواسے نکاح کرلینا چاہیے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات اورحدیث دونوں میں نکاح کر نے کی نسبت لڑکے اورلڑکی کی طرف کی گئی ہے ، اسے ان کے اولیاء پر موقوف نہیں کہاگیا ہے ۔
دیگر ائمہ کے نزدیک بغیر ولی کی اجازت کےنکاح جائز نہیں ہے ۔ یہ حضرات بھی بعض آیات قرآن اوراحادیث نبوی کو دلیل میں پیش کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا(البقرۃ : ۲۲۱)
’’اور(اپنی لڑکیوں کے ) نکاح مشرک مردوں سے بھی کبھی نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔‘‘
حضرت ابوموسیؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِّی (ابوداؤد : ۲۰۸۵، ترمذی : ۱۱۰۱، ابن ماجہ: ۱۸۸۱)
’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں ۔‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَیُّمَا اِمْرَأَۃِ نَکَحَتْ بِغَیْرِ اِذْنِ وَلِیُّہَا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتِ(ابوداؤد: ۲۰۸۳، ترمذی : ۱۱۰۲، ابن ماجہ: ۱۸۷۹)
’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ یہ بات آپؐ نے تین بار فرمائی۔
درج بالا آیت اور احادیث میں لڑکیوں کے سرپرستوں کومخاطب کیاگیا ہے یا ان کی اجازت کو مشروط کیا گیا ہے۔
علامہ ابن رشد ؒ نے حقِ ولایت کے موضوع پرتفصیل سے بحث کی ہے ۔ انہوںنے لکھا ہے کہ ہر فریق نے جودلائل دیے ہیں وہ اس کے حق میں صریح نہیں ہیں ، بلکہ ان میں مفہومِ مخالف کا بھی احتمال ہے ۔ (بدایۃ المجتہد)ان دلائل میںبہ ظاہر تضاد محسوس ہوتا ہے ، لیکن یہ تضاد ایسا نہیں ہے کہ اسے دور نہ کیا جاسکے ، بلکہ اِن میں بہ آسانی تطبیق دی جاسکتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک توجیہ یہ کی جاسکتی ہے کہ قانونی طور پر تو بالغ لڑکا یا لڑکی اپنی پسند ونا پسندکے معاملے میں خود مختار ہیں،البتہ اخلاقی اور سماجی طور پر انہیں والدین یا اولیاء کی مرضی کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ والدین دنیا دیکھے ہوئے ہوتے ہیں ، انہیں زمانے کے سردوگرم کابہ خوبی علم ہوتا ہے ، وہ تجربہ کار ہوتے ہیں ، ساتھ ہی وہ اپنی اولاد کے سلسلے میں مخلص ہوتے ہیں، وہ جوکچھ رائے قائم کرتے ہیں اس کے پس پردہ اخلاص کارفرہوتا ہے ،جب کہ نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں پرعموما ً جذبانیت غالب ہوتی ہے ۔ اس لیے دانش مندی کا تقاضا ہے کہ تنازع ہونے کی صورت میں نوجوان اپنی پسند ونا پسند پر اصرار نہ کریں، بلکہ والدین کی رائے کوترجیح دیں اور اس پر سر تسلیم خم کردیں۔
عورت کی آواز کا پردہ
سوال : اسلام میں عورت کی آواز کے پردے سے کیا مراد ہے ؟ اگر آواز کا پردہ ہے تواس کا دائرہ کہاں تک ہے ؟ کیا کوئی خاتون مردوں اورعورتوں کے مشترکہ اجتماع میں درس قرآن یا درس حدیث یا تقریر کرسکتی ہے ؟ زندگی میں کئی مواقع ایسے آتے ہیں کہ عورت کوغیر مرد سے بات کرنی پڑتی ہے ۔ ایسے حالات میں عورت اپنی آواز کا پردہ کہاں تک کرسکتی ہے ؟
جواب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا (الاحزاب :۳۲)
’’اے پیغمبر کی بیویو! تم اورعورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم پر ہیز گار رہنا چاہتی ہو تو (کسی اجنبی شخص سے ) نرم نرم باتیں نہ کرو ، تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے ، کوئی امید (نہ ) پیدا کرے ، اور دستورکے مطابق بات کیا کرو۔‘‘
اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجِ مطہرات سے ہے ، لیکن مفسرین کرام نے بیان کیا ہے کہ تبعاً امت کی تمام عورتیں بھی مخاطب ہیں۔ (تفسیر القرآن العظیم ، ابن کثیر ، طبع دیوبند: ۳؍۳۶۱)
قابلِ غور یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمان عورتوں کو اجنبی مردوں سے بات چیت کرنے سے بالکلیہ نہیں منع کیا گیا ہے ، بلکہ معروف طریقے سے بات چیت کی اجازت دی گئی ہے ، البتہ آوازمیں لوچ پیدا کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
کیا عورت کی آواز کا پردہ ہے ؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض فقہاء اس کے قائل ہیں ، جب کہ بعض دوسرے ا س کا انکار کرتے ہیں، جن میں شافعی فقہاء خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔ الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے :
أما صوت المرآۃ فلیس بعورۃ عندالشافعیۃ ، ویجوز الاستماع الیہ عند امن الفتنۃ (الموسوعۃ الفقہیۃ ، کویت: ۳۱؍۴۷)
’’رہی عورت کی آواز تو شوافع کے نزدیک اسے چھپانے کی ضرورت نہیں۔ فتنے کا اندیشہ نہ ہوتو اسے سنا جاسکتا ہے ۔‘‘
جہاں تک مردوں اور عورتوں کے مشترکہ اجتماع میں کسی خاتون کے ذریعے درس قرآن ، درس حدیث یا تقریر کرنے کا معاملہ ہے تو راقم سطور اگرچہ اس کے جواز کی رائے رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے نزدیک عام حالات میں اس سے بچنا چاہیے۔ شدید ضرورت کے تحت ہی ایسا کوئی موقع فراہم کرنا چاہیے۔ اگر دینی اجتماعات میں تقریر کرنے کے لیے باصلاحیت مرد موجود ہوں تو خواتین کے ذریعے اسٹیج سے یا پس پردہ درس یا تقریر کروانے سے اجتناب کرنا اولیٰ ہے ۔
اس موضوع پر زندگی نو میں اس سے پہلے بھی ’رسائل ومسائل ‘ کے تحت جواب دیا جاچکا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے زندگی کے عام فقہی مسائل ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی ، ۲۰۱۱ء ، جلد دوم ، ص ۱۲۲۔ ۱۳۵
چچی سے نکاح
سوال: کیا چچی سے نکاح ہوسکتا ہے ؟ بہ راہ کرم یہ بھی بتائیں کہ کیا بیوہ اور مطلقہ کے حکم میں کچھ فرق ہے ؟
جواب: سورۂ نساء آیت ۲۳ میں حرام رشتوں کی تفصیل مذکور ہے ، جویہ ہیں:
(۱) ماں (۲) بیٹی(۳) بہن (۴) پھوپھی (۵) خالہ( ۶) بھتیجی (۷) بھانجی(۸) رضاعی ماں (۹) رضاعی بہن (۱۰) ساس (۱۱) ربیبہ یعنی بیوی کی لڑکی جودوسرے شوہر سے ہو(۱۲) بہو۔ اسی آیت میں بہ یک وقت دو بہنوں سے نکاح کوبھی حرام کیا گیا ہے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ اوربھانجی ، اسی طرح پھوپھی اوربھتیجی کوبھی ایک ساتھ نکاح میں رکھنے سے منع کیا ہے ۔
ان رشتوں میں چچا کی بیوی کا تذکرہ نہیں ہے ۔ اس لیے اگر چچی سے حرمت کا کوئی دوسرا رشتہ نہ ہو تو ان کے بیوہ یا مطلقہ ہو جانے پر عدت گزر نے کے بعد ان سے نکاح کیا جا سکتا ہے ۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2016