رسائل و مسائل

عدّت کے احکام

سوال (۱)

میری بھانجی کے شوہر کا کچھ دنوںقبل انتقال ہوا ۔ ابھی وہ عدّت ہی میں ہے۔ اس دوران میں تعزیت کے لیے اس کےگھر گیا ۔ گھر والوں نے بتایا کہ وہ عدّت پوری ہونے سے قبل کسی سے ملاقات نہیں کریں گی ۔ مجھے عجیب سا لگا ۔ کیا دورانِ عدّت بیوہ عورت کے لیے محرم رشتہ داروں سے بھی ملاقات جائز نہیں ہے۔

سوال(۲)

میری ایک عزیزہ چند ایام قبل بیوہ ہوگئی ہیں۔ ان کی سسرال کے بعض لوگ ان کے شوہر کی جائیداد پر زبردستی قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تھانے میں رپورٹ لکھوائی جائے اور ضرورت پڑے تو عدالت میں کیس دائر کیا جائے ۔ کیا بیوہ عورت دورانِ عدّت ان کاموں کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے ؟

سوال(۳)

میری پھوپھی ایک پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر ہیں۔ گزشتہ دنوںمیرے پھوپھا صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ۔ ابھی پھوپھی عدّت کے دن گزاررہی ہیں ۔ اسکول والے ایک ماہ سے زیادہ چھٹی دینے پر کسی طرح تیار نہیں ہیں۔ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔کیا پھوپھی اسکول جانا شروع کردیں یا ملازمت چھوڑدیں؟

سوال(۴)

ہم تین بھائی اوردو بہنیں ہیں ۔ سب شادی شدہ اوراپنے اپنے گھر ہیں ۔ ہم تینوں بھائی  ملازمت کے سلسلے میں باہر ہیں۔ گھر پر صرف والدین رہتے تھے ۔ ایک مہینہ قبل والد صاحب کا انتقال ہوگیا تو ہم سب بھائی بہن اکٹھا ہوئے ۔اب ہم لوگوں کوواپس جانا ہے ۔ والدہ گھر میں اکیلی نہیں رہ سکتیں۔ کیاہم میں سے کوئی بھائی یا بہن انہیں اپنے ساتھ لےجاسکتا ہے ؟

جواب:

(۱)   اسلامی شریعت میں پردہ کے احکام تفصیل سے بیان کردیے گئے ہیں ۔ ایک عورت کواجنبی اور غیر محرم مردوں سے ہمیشہ پردہ کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں ایّام عدّت اوردیگر ایام میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بیوہ عورت کواس کے ایّام عدّت میں گھر کی کوٹھری میں بند کرکے رکھا جاتا ہے ، یہاںتک کہ محرم رشتے داروں سے بھی اس کوملنے کی اجازت نہیں دی جاتی یا اسے پسند نہیں کیا جاتا، حالاں کہ یہ چیز صحیح نہیں ہے ۔ محرم رشتے داروں سے عورت حسبِ سابق ایّام عدّت میں بھی ملاقات کر سکتی ہے۔

(۲)  عام حالات میں عورت کے لیے حکم ہے کہ وہ دورانِ عدّت گھر سے باہر نہ نکلے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کی بہن حضرت فریعہ بنت مالک ؓ بیوہ ہوگئیں تواللہ کے رسولِ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا :

اُمْکُثِیْ فِیْ بَیْتِکَ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتَابَ اَجَلَہٗ (ابوداؤد : ۲۳۰۰، ترمذی : ۱۲۰۴)

’’اپنے مکان میں ہی رہو ، یہاں تک کہ عدّت پوری ہوجائے۔‘‘

لیکن وقت ِ ضرورت بیوہ عورت گھر سے باہر نکل سکتی ہے ، چنانچہ اگر اس کی پراپرٹی ، زمین جائیداد پر کچھ لوگ قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں تووہ گھر سے باہر جاکر اس کے تحفظ کی کارروائی کرسکتی ہے۔

(۳)  یہی معاملہ ملازمت کا ہے ۔ عورت سرکاری ملازمت میں ہویا پرائیویٹ میں، وہ کوشش کرے کہ اسے پورے ایّامِ عدّت کی رخصت مل جائے، لیکن اگر ایسا نہ ہوسکے تووہ عدّت مکمل ہونے سے قبل سروس جوائن کرسکتی ہے ۔ ملازمت سے ہٹ کربھی اگر دورانِ عدّت بیوہ عورت کی کفالت کرنےوالا کوئی نہ ہواوروہ ذریعہ معاش کے لیےگھر سے نکلنے پر مجبور ہوتووہ ایسا کرسکتی ہے۔

حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہوگئی ۔ انہوں نے دورانِ عدّت ہی اپنے کھجور کے درختوں سے پھل اتارنے کے لیے جانا چاہاتو ایک آدمی نے انہیں سختی سے منع کیا ۔وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس سلسلے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا :بَلی، جُدِّی  نَخْلَکِ فَاِنَّکَ عَسٰی اَنْ تَصَدَّقِیْ اَوْتَفْعَلِیْ خَیْراً (مسلم: ۱۴۸۳)

’’ہاں کیوںنہیں ، تم کھجور توڑنے کے لیے نکلو ۔ اس سے امید ہے ، تم کوصدقہ کرنے یا کوئی اورنیک کام کرنے کی توفیق ہوگی۔‘‘

البتہ فقہاء نے لکھا ہے کہ بیوہ عورت وقتِ ضرورت دن میں تو گھر سے باہر جاسکتی ہے ، لیکن رات اسے ضرور اپنے گھر ہی میں گزارنی چاہیے۔ (فتاویٰ عالم گیری ،۱/۵۳۴ ، بدائع الصنائع ،۳/۲۰۵، ۲۰۶، فتح القدیر ،۳/۲۸۵)

(۴) جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ، عام حالات میں عورت کو اپنے مرحوم شوہر کے گھر ہی عدّت گزارنی چاہیے ، لیکن اگر کوئی عذر ہو ، مثلاً مکان کرایے کا ہو اور اسے فوراً خالی کرنا ہو، یا عورت تنہا ہو اور اس صورت میں اس کی عزت وآبرو کو خطرہ ہو، یا کسی اوروجہ سے اس مکان میں اس کا تنہا رہنا ممکن نہ ہوتو وہ دوسری جگہ جا کر عدّت گزار سکتی ہے ۔ لیکن وہ جہاں بھی جائے وہاں ٹِک کر پورے ایّام عدّت گزارے۔ اپنا غم غلط کرنے کے لیے کچھ دن ایک کے یہاں ، کچھ دن دوسرے کے یہاں گزارنا ٹھیک نہیں۔

وراثت کا مسئلہ

سوال:

میرے والد صاحب نے میری والدہ کوایک پلاٹ، بہ طور مہر دے دیا تھا اوراسے ان کے نام رجسٹرڈ کرادیا تھا ۔ والدہ کا انتقال تقریباً بارہ سال قبل ہوگیا تھا ۔ اس کے بعد والدصاحب نے دوسری شادی کرلی۔ میری سوتیلی ماں سے کوئی اولاد نہیں ہے ۔ دو سال قبل والد صاحب کا بھی انتقال ہوگیا ۔ ہم دو بھائی اوردوبہنیں ہیں ۔ بہ راہ کرم مطلع فرمائیں کہ ہمارے درمیان وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟

جواب:

آپ کی والدہ کے انتقال کے بعد ان کی میراث( پلاٹ جوان کے نام تھا اوران کی مملوکہ دیگر چیزیں )  تقسیم ہونی چاہیے تھی ، جس کی تفصیل یہ ہے کہ صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہے ۔ بقیہ کی تقسیم اولاد کے درمیان اس طرح ہوگی کہ ہر لڑکے کوہر لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔

اب آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوا ہے توان کی میراث اس طرح تقسیم ہوگی کہ ان کی اہلیہ (آپ کی سوتیلی ماں ) کو آٹھواں حصہ ملے گا اوربقیہ میراث آپ دوبھائیوں اوردوبہنوں کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر لڑکے کا حصہ ہر لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ہوگا۔ یعنی بقیہ میراث کے چھ حصے کیے جائیں اورایک ایک حصہ ہر لڑکی کواور دو دو حصے ہر لڑکے کو دیے جائیں ۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223