رسائل و مسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

بیوہ عدّت کہاں گزارے؟

سوال: ہمارے تایا زاد بھائی کا انتقال ہوا۔ ان کا گھر چھوٹا ہونے کی وجہ سے میت ان کی بہن کے گھر لے جائی گئی۔ وہیں ان کی اہلیہ بھی آگئیں۔ کیا اب وہ (بیوہ) عدّت کے ایام مرحوم شوہر کی بہن کے گھر میں گزار سکتی ہیں؟ یا تدفین ہوجانے کے بعد وہ اپنے گھر جاکر عدّت گزاریں ؟ اگر اپنے گھر جاکر عدّت گزارنی ضروری ہو تو انھیں کب تک اپنے گھر پہنچ جانا چاہیے؟

جواب: کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی بیوہ کو عدّت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی مدّت چار ماہ دس دن مقرر کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَالَّذِینَ یتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَیذَرُونَ أَزْوَاجًا یتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (البقرة: ۲۳۴) ( تم میں سے جن لوگوں کی وفات ہوجائے اوراُن کے پیچھے اگراُن کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں۔ )

عدّت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ عورت کو وہیں گزارنی چاہیے جہاں وہ شوہرکے ساتھ رہتی تھی۔ بلا کسی عذر کے بیوہ کے لیے شوہر کے گھر کے علاوہ کہیں اور عدّت گزارنا جائز نہیں ہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کی بہن حضرت فریعة بنت مالک بیوہ ہوئیں تو انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : کیا میں اپنے میکے جاکر عدّت گزار سکتی ہوں؟ اللہ کے رسولﷺ نے پہلے توانہیں اجازت دے دی، لیکن تھوڑی دیر کے بعد بلا کر فرمایا : امْكُثِی فِی بَیتِكِ حَتَّى یبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ۔ ’’اپنے (شوہر کے) گھر میں ہی ٹھہری رہو، یہاں تک کہ قرآن میں مذکور عدّتِ وفات کی مدّت پوری ہوجائے۔ ‘‘ (ابوداؤد حدیث نمبر: ۲۳۰۰، ترمذی حدیث نمبر ۱۲۰۴)

لیکن عورت کے لیے شوہر کے گھر میں رہ کر عدّت گزارنے میں اگر کوئی عذر ہو، مثلًا مکان کرایے کا ہو اور مالک مکان اسے خالی کروارہا ہو، یا ساتھ میں رہنے والا کوئی نہ ہو اور بیوہ عورت کے اکیلے رہنے سے اس کی عزت و آبرو اور جان و مال کو خطرہ ہو، یا وہ کسی کے سہارے کی محتاج ہو، تو وہ دوسری جگہ منتقل ہوکر وہاں عدّت گزار سکتی ہے۔

البتہ ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ عدّت کو سیر وتفریح یا غم غلط کرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے کہ جیسے عورت چاہے کہ میں کچھ دن بیٹے کے پاس رہ لوں، کچھ دن بیٹی کے پاس گزار لوں، کچھ دن بہن کے ساتھ وقت گزاری کرلوں، بلکہ اسے چاہیے کہ جس جگہ منتقل ہو وہیں پوری عدّت گزارے۔

اگر شوہر کا انتقال وطن سے دور کسی اور جگہ ہوا ہو اور وہیں اس کی تدفین ہوئی ہو، جس کی بنا پر بیوی بھی وہیں آگئی ہو، تو تدفین کے بعد بیوی کو وہیں لوٹ جانا چاہیے جہاں وہ شوہر کے ساتھ رہتی تھی اور وہیں مکمل عدّت گزارنی چاہیے۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ تدفین کے بعد بلا تاخیر فوراً روانہ ہوجائے۔ حسب سہولت وہاں کچھ وقت وہ رک سکتی ہے۔ البتہ اسے جلد ازجلد اپنے گھر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

مستحقینِ وراثت کو زندگی میں ہبہ کرنا

سوال : میری شادی دینی گھرانے میں ہوئی ہے۔ میری عمر اس وقت 66 سال ہے۔ اہلیہ اور دو بچیاں ہیں۔ میرے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں، جو الحمدللہ سب خوش حال ہیں۔ کیا میں اپنی ملکیت کی جملہ چیزیں اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کو ہبہ کرسکتا ہوں؟ میں ان کے درمیان کس طرح تقسیم کرکے انھیں مالک بنادوں؟

جواب: کسی شخص کی پراپرٹی دوسرے کو منتقل ہونے کی تین صورتیں ہیں : اول وراثت کے ذریعے: یعنی اس کے مرنے کے بعد اس کی ملکیت کی جملہ چیزیں اس کے ورثہ میں تقسیم ہوجائیں گی۔ دوم : وصیت کے ذریعے۔ اس کی دو شرطیں ہیں : ایک یہ کہ وصیت کسی وارث کے حق میں جائز نہیں۔ دوسری یہ کہ غیر وارث کے حق میں ایک تہائی سے زیادہ وصیت نہیں کی جاسکتی۔ تیسری صورت ہبہ کی ہے، یعنی کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا مال کسی کو بھی تحفے میں دے سکتا ہے۔

شریعت کی روٗ سے ہر وہ شخص جو اپنے مال کا مالک ہے، اسے اپنے مال میں تصرف کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ وہ جسے چاہے ہبہ کرسکتا ہے، البتہ وارثوں کو محروم کرنے یا انھیں نقصان پہنچانے کے مقصد سے کسی اور کو ہبہ کرنا درست نہیں۔ اسی طرح شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے میں ان کے درمیان مساوات کا خیال رکھنا چاہیے، یہاں تک کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان بھی فرق نہیں کرنا چاہیے۔

کوئی شخص اپنی ملکیت کی چیزیں اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کو ہبہ کرسکتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ جتنا چاہے اپنی اہلیہ کے نام کردے، باقی دونوں بیٹیوں کے درمیان برابر تقسیم کردے۔ البتہ ہبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیز جس کے قبضے میں ہے اس سے نکل کر اُس شخص کے قبضے میں چلی جائے جسے ہبہ کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا مکان ہبہ کررہا ہے تو وہ اس میں بعد میں بھی رہ سکتا ہے، مگر اس کی اجازت سے جسے ہبہ کیا گیا ہے۔

اولاد کو وراثت سے محروم کرنا

سوال: میرے ایک دوست کا مسئلہ ہے۔ براہ کرم اس سلسلے میں شریعت کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں۔ ان کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ بڑا لڑکا اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گیا۔ وہاں اس نے والدین کی اطلاع اور اجازت کے بغیر ایک امریکن لڑکی سے اس کے مسلمان ہوئے بغیر شادی کرلی۔

میرے دوست اپنے اس لڑکے سے بہت ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بے دین ہوگیا ہے، اس کا میری وراثت میں کوئی حصہ نہیں۔ کیا ان کی بات صحیح ہے؟ کیا یہ لڑکا کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنے کی وجہ سے باپ کی وراثت سے محروم ہوسکتا ہے؟

براہ کرم شریعت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔

جواب: اسلامی شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ کسی مسلمان مرد کا کسی غیر مسلم عورت سے نکاح جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اس کی صراحت آئی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ یؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ (البقرة: ۲۲۱) (تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ )

البتہ اہل کتاب (یہود و نصاری) کے معاملے میں شریعت میں کچھ رخصت دی گئی ہے۔ کسی مسلمان خاتون کا تو کسی یہودی یا عیسائی سے نکاح جائزنہیں، لیکن مسلمان مرد کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کرسکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

الْیوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّیبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ (المائدة: ۵) (آج تمھارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں، خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں، یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ )

بعض علما کہتے ہیں کہ یہ اجازت صرف عہد نبوی کے اہل کتاب کے لیے تھی۔ اب ان کے عقائد اوراعمال میں بہت زیادہ فساد آگیا ہے۔ اس لیے اب کسی مسلمان مرد کے لیے کسی یہودی یا عیسائی عورت سے نکاح جائز نہیں۔ لیکن یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی۔ عہد نبوی کے یہود و نصاریٰ میں بھی بہت زیادہ بگاڑ تھا۔ ان کے مشرکانہ عقائد کی قرآن مجید میں صراحت کی گئی ہے۔ اس کے باوجود ان کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی۔ درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ اجازت اب بھی باقی ہے۔

سوال میں جس نوجوان کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس نے اگر کسی یہودی یا عیسائی لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس نے کوئی حرام کام نہیں کیا۔ لیکن اگر وہ لڑکی ملحد یا مشرک ہے تو اس سے نکاح ناجائز ہے۔ یہ بہت غلط کام ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس لڑکے کو مرتد نہیں قرار دیا جائے گا۔ اس بنا پر وہ اپنے باپ کی وراثت میں اپنا حصہ پانے سے محروم نہیں ہوگا۔

کوئی مسلمان کسی وجہ سے اپنے کسی بیٹے سےناراض ہو تو اسے عاق کرکے اپنی وراثت سے محروم کردینا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ وراثت اللہ تعالی کا دیا ہوا حق ہے۔ بیٹے کی کسی نالائقی کی وجہ سے ناراضی کی بنا پر اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2022

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau