جمعہ کے دن مسجد میں ظہر کی باجماعت نماز
سوال: ہمارے گاؤں میں تین مسجدیں ہیں: ایک جامع مسجد اور دو محلہ کی مساجد۔ جمعہ کی نماز صرف جامع مسجد میں ہوتی ہے، باقی دو مسجدوں میں نہیں ہوتی۔
سوال یہ ہے کہ کچھ بوڑھے اور معذور لوگ، جو جمعہ کی نماز پڑھنے جامع مسجد نہیں جاسکتے، کیا وہ ان دو مسجدوں میں ظہر کی نماز ادا کرسکتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا ان کے لیے اذان دینا ضروری ہے؟ براہ مہربانی شریعت کی روشنی میں رہ نمائی کریں؟
جواب: جمعہ کی نماز مسلمانوں پر فرض ہے۔ حکم دیا گیا ہے کہ جمعہ کی اذان ہوتے ہی تمام دنیاوی کام ترک کر دیے جائیں اور نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کا رخ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ .(الجمعة: 9)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم جانو۔‘‘
جمعہ کی نماز مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ یک جا ہوکر ادا کرنی چاہیے، تاکہ ان کی بھاری تعداد اور شوکت کا اظہار، ایک دوسرے سے ملاقات اور حالات کا علم ہوسکے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے جمعہ کی نماز مسجد میں جاکر باجماعت ادا کرنے کی بہت تاکید کی ہے اور سستی و تن آسانی کی وجہ سے نماز ترک کرنے والے کے لیے شدید وعید سنائی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ. (ابوداؤد: 1052، نسائی: 1369)
’’جس شخص نے تین ہفتے جمعہ کی نماز محض سستی میں چھوڑ دی، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر (غفلت کی) مہر لگا دیتا ہے۔‘‘
مسند احمد کی ایک روایت (15498) میں، جس کی سند محدثین نے حسن قرار دی ہے، ’مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ‘کا اضافہ ہے، یعنی یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو بغیر کسی عذر کے جمعہ کی نماز چھوڑ دے۔
فقہا نے کسی بستی میں نماز جمعہ کے لیے کچھ شرائط عائد کی ہیں۔ جہاں وہ شرائط پائی جائیں وہیں نماز جمعہ ادا کرنی درست ہوگی۔ جس آبادی میں وہ شرائط نہ پائی جائیں وہاں کی مسجد میں نماز ظہر باجماعت ادا کی جائے گی۔
جس بستی میں کئی مساجد ہوں اور وہاں کسی ایک مسجد میں جمعہ کی نماز ہورہی ہو تو دیگر مساجد میں ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنا درست نہیں ہے۔ یہ حکم عام لوگوں کے لیے ہے اور مریضوں اور معذوروں کے لیے بھی۔
فقہا نے جمعہ کے دن ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنے کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب دُرِّ مختار میں ہے:
و کُرہ تحریماً لمعذورٍ و مسجونٍ و مسافرٍ أداءُ ظھرٍ بجماعةٍ في مصر قبل الجمعة وبعدھا لتقلیل الجماعة وصورة المعارضة، وأفاد أن المساجدَ تُغلق یومَ الجمعةِ إلا الجامع، وکذا أھل مصر فاتتھم الجمعة فإنھم یصلون الظھر بغیر اذان ولا إقامةٍ ولا جماعةٍ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجمعة، ۳/ ۳۲۔ ۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
’’ کسی شہر میں جمعہ کے دن ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے، معذور، قیدی اور مسافر کے لیے بھی، چاہے جمعہ کی نماز کے بعد ہو یا پہلے۔ اس لیے کہ اس سے نماز جمعہ میں حاضری کم ہوجانے کا اندیشہ ہے اور ایسا کرنے سے معارضہ کی صورت بھی پیدا ہوتی ہے۔ فاضل مصنف نے یہ بھی بتایا ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد کے سوا دیگر تمام مساجد بند رکھی جائیں۔ اسی طرح اگر شہر میں کچھ لوگوں کی نماز جمعہ چھوٹ جائے تو وہ نمازِ ظہر ادا کریں گے۔ اس کے لیے نہ اذان دی جائے گی نہ اقامت کہی جائے گی اور نہ جماعت کی جائے گی۔ ‘‘
نکاح کا خطبہ، نکاح سے پہلے یا بعد؟
سوال: نکاح کا خطبہ نکاح سے پہلے دینا ضروری ہے یا نکاح کے بعد بھی دیا جا سکتا ہے؟
جواب: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نکاح کے موقع پر سورۃ البقرۃ، آیت: ۱۰۲، سورۃ النساء، آیت ۱، اور سورۃ الاحزاب، آیات: ۷۰۔۷۱ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔اسے خطبۂ نکاح، خطبۂ مسنونہ اور خطبۃ الحاجۃ بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں۔
علّمنا رسول اللہ ﷺ خطبۃ الحاجۃ (فی النکاح وغیرہ)
’’رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبۃ الحاجۃ کی تعلیم دی ہے۔ یہ خطبہ آپؐ نکاح کے موقع پر دیا کرتے تھے اور دیگر مواقع پر بھی۔‘‘
نکاح کے موقع پر خطبہ ایجاب و قبول سے قبل دینا چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر دلالت کرنے والے نصوص سے اسی کا اشارہ ملتا ہے اور فقہا کرام نے بھی اسی کی صراحت کی ہے۔
در مختار میں ہے: ویندب اعلانه وتقدیمه خطبة (الدر المختار: ۳؍۸)
’’نکاح کا اعلان کرنا مستحب ہے۔ اسی طرح نکاح (ایجاب و قبول) سے قبل خطبہ دینا بھی مستحب ہے۔‘‘
علامہ شیرازیؒ نے لکھا ہے:
ویستحب أن یخطب قبل العقد (المھذب: ۲؍۵۳)
’’مستحب یہ ہے کہ خطبہ عقد نکاح سے قبل دیا جائے۔‘‘
البتہ اگر کسی موقع پر خطبہ نکاح کے بعد دیا جائے تو اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نکاح درست ہوگا۔ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے کتاب الغنیۃ میں لکھا ہے:
ویسنّ أن تکون الخطبة قبل التواجب، فان أخّرت جاز (الغنیۃ: ۱؍۴۶)
’’خطبہ ایجاب و قبول سے قبل دینا مسنون ہے۔ اگر بعد میں دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔‘‘
کیا لاولد شخص اپنی کل پراپرٹی ہبہ یا وقف کر سکتا ہے؟
سوال: زید کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے بیٹے اور بیٹیوں میں شرعی اعتبار سے وراثت کی تقسیم بھی ہوچکی ہے۔ زید کا ایک بیٹا بکر ہے، جس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ کیا بکر کے انتقال کے بعد اس کے بھائیوں کا بھی بکر کے مال و جائیداد میں کچھ حق ہوگا؟
اگر بکر اپنی موت سے قبل اپنی تمام جائیداد کسی کو ہبہ کردے، یا مسجد یا مدرسہ اور بھائیوں کو کچھ نہ دے، یہ سوچ کر ان کو والد سے تو مل ہی چکا ہے تو کیا اس کا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب: کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو دیکھا جائے گا کہ اس کے کون سے رشتے دار زندہ ہیں۔ قریبی رشتے داروں کی موجودگی میں دوٗر کے رشتے داروں کا وراثت میں حصہ نہیں ہوگا۔ (النساء: ۷) مالِ وراثت اصحاب الفرائض کے درمیان تقسیم ہوجانے کے بعد کچھ بچ رہے تو عصبہ میں سے موجود لوگ علی الترتیب حصہ پائیں گے۔
بکر کے انتقال کے وقت اگر صرف اس کی بیوی اور بھائی زندہ ہیں تو بیوی چوتھائی (25%) حصہ پائے گی، باقی (75%)بھائی کو عصبہ ہونے کی وجہ سے ملے گا۔ اگر بھائی ایک ہے تو وہ کل پائے گا۔ کئی بھائی ہیں تو ان سب کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگا۔ اگر بھائی اور بہن دونوں ہیں تو ان کے درمیان باقی مالِ وراثت 2: 1کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔ (النساء: ۱۷۶)
ہر شخص اپنے مال کا مالک ہے۔ وہ اپنی زندگی میں اس میں حسبِ منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ وہ اس میں سے جتنا چاہے، کسی کو ہبہ کرسکتا ہے اور چاہے تو کسی کارِ خیر کے لیے وقف کر سکتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے مال کے ایک تہائی حصہ کی غیر ورثہ کے حق میں وصیت کر سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی میں نہ ہبہ کرے نہ وصیت اور اس کا انتقال ہوجائے تو اس کا تمام مال اس کے ورثہ کے درمیان شریعت کی بتائی ہوئی تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگا۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2022