جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان ﴿اپریل ۲۰۱۱-مارچ ۱۵،۲۰﴾ کا اجلاس ۳/اپریل سے جاری تھا۔ جناب محمد شفیع مونس اپنی ضعیف العمری اور علالت کے باوجود حسب معمول وقت کی پوری پابندی کے ساتھ نشستوں میںوھیل چیئر پر شریک ہوتے رہے۔ چہارسالہ رپورٹ کے جائزے اور شرکا کے تبصروں کے بعد امیر جماعت اسلامی ہند کے انتخاب کے لیے مجوزہ ناموں پر بحث و گفتگوکا سلسلہ شروع ہوچکاتھا کہ اچانک ۶/اپریل ۲۰۱۲کو اطلاع ملی کہ جناب محمد شفیع مونس اللہ کو پیارے ہوگئے۔ یہ خبر سنتے ہی خیال آیاکہ موت تو سب کو آنی ہے لیکن کچھ لوگوں کی موت ان کے بلند درجات اور شان ولایت کی غماز معلوم ہوتی ہے۔
تحریک اسلامی سے وابستہ آسام وبنگال سے لے کر کیرالا اور گوا تک کے منتخب افراد مرحوم کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ ہندستان کے طول وعرض سے آئے ہوئے یہ نمائندہ افراد گواہی دے رہے تھے کہ مونس صاحب مرحوم نے جوانی، ادھیڑپن اور بوڑھاپے کا ایک ایک لمحہ اور رگوں میں دوڑتے ہوئے لہو کاایک ایک قطرہ اقامت دین کی راہ میں نچوڑدیا۔ انھوں ننے زندگی کی ساری توانائیاں، عقل وخرد کے سارے پیچ وتاب، جذبے اور حوصلے کی ساری جولانیاں، آرزوئوںاور تمنائوں کی پوری کائنات تحریک اقامت دین کی نذر کردی۔ احسان کی صفت سے متصف اولوالعزم اہلِ ایمان کی یہی منزل ہے۔
کوئی تحریک جب اٹھتی ہے اور نت نئے منزلیں طے کرتی ہے تو اس میں ہرطرح کے لوگ آتے اور شامل ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنا وقت دیتے ہیں، کچھ صلاحیتوں کو لگاتے ہیں اور کچھ مال وزر کی قربانی دیتے ہیں ، لیکن کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زندگی کا ایک ایک لمحہ، آرزئوں کا پورا سوز وساز، صلاحیتوں کی پوری آن بان، دل کی ساری دھڑکنیں تحریک کے لیے لگادیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ تحریک کے محسنین ہیںاور جس تحریک کو ایسے لوگ ہر مرحلے میں میسر آجائیں کام یابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ان صلاتی ونسکی محیای ومماتی للہ رب العٰلمین ﴿بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرنا مرنا سب اللہ رب العٰلمین ہی کے لیے ہے﴾ کا یہی وہ بلند مقام ہے جس پر پہنچنے کے بعد یہ کردار آنے والوں کے لیے ماڈل بن جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگ کسی تحریک کے لیے بنیاد کاپتھر ہوتے ہیں جو زمین میں دفن ہوکر عمارت کی مضبوطی اور استحکام کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ پوری مجلس نمائندگان نماز جنازہ کے وقت زبان حال سے گواہی دے رہی تھی کہ شفیع مونس صاحب جماعت اسلامی ہند کی بنیاد کاآخری پتھر تھے۔
بنیاد کاپتھر ہونے کے لیے فنائیت پہلی شرط ہے۔تحریکوں میں بعض شخصیتوں کے حصے میں دستار کا پھول بن کر کھلنا آتا ہے۔ ایسی شخصیتیں کم ہوتی ہیں جو کھاد بن کر تحریک کی جڑوں کو مضبوط کرتی ہیں اور مٹی میں جذب ہوکر پھولوں کی رنگت اور پھلوں کی شیرینی میںاضافہ کرتی ہیں۔ شفیع مونس صاحب مرحوم ایسے ہی لوگوں میں تھے۔ آخری سانس تک وہ نظم جماعت، تحریک اسلامی اور ملت اسلامیہ کے اتحاد کے لیے وقف رہے۔ اِس حقیقت کا عملی اعتراف کرتے ہوئے دہلی کے اہل علم و ہنر کے ساتھ پوری مجلس نمائندگان نے ان کی آخری آرام گاہ تک ان کو کاندھا دیا۔ نمائندگان کا اجلاس نہ ہوتا تو یہ قرض جماعت پر باقی رہ جاتا جس کی ادائی کے لیے شاید آل انڈیا تعزیتی اجلاس کا انعقاد کرنا پڑتا۔ یہ مبالغہ نہیں، بنیاد کو مستحکم کرنے والی شخصیتوں کا حق ہے۔ جو قوم اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہے، وہ راہ عزیمت سے بآسانی ہٹ جاتی ہے۔ کیوں کہ ایسے ہی لوگوں کے نقش قدم سے عزیمت کی راہیں روشن رہتی ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ شفیع مونس صاحب تحریک میں آنے کے بعد اس کے ہر نشیب وفراز، اتار چڑھاؤ اور نرم و گرم میں پوری طرح شریک رہے۔ قیدو بند کی صعوبتیں جھیلیں، ایمرجنسی کے اندھیرے، اس کے بعد داغ داغ اجالے سب سے ہنستے کھیلتے گزرتے رہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ جو ذمے داریاں ان کے سپرد کردی گئیں، جو بوجھ ان پر ڈال دیاگیا، جس خدمت پر ان کو مامور کردیاگیا، جس مہم پر ان کو لگادیاگیا، سب میں یکساں خلوص، لگن، ہمت، ولولے اور حوصلے سے لگ گئے۔ بچوں کی تربیت، تعلیم کا میدان، تنظیم کی راہیں، خدمت خلق کی وادی، فورم برائے ڈیموکریسی کی گھاٹی، مشاورت کی رہ گزر، ادب کا کوہ سار، دفتر حلقہ کا سائبان یا مرکز کا آنگن ہر جگہ مونس صاحب اپنے منطقی استدلال ، فولادی عزم اور اخلاص کی گرمی کے ساتھ تن، من سے لگ گئے۔
ابتدا میں مولانا مودودیؒ نے بچوں کے ادب اور تعلیم کے میدان کے لیے ان کو متوجہ کیا۔ چناںچہ ۱۹۴۸میں تعلیم وتربیت کے لیے درس گاہ میں مامور کیے گئے۔ فن تعلیم و تربیت افضل صاحب نے مرتب کیاہے۔ لیکن اس تخلیقی عمل کے مراحل اور منصوبے کے نفاذ میں مونس صاحب مددگار رہے۔ کم لوگوں کو یاد ہوگاکہ ۶۵۹۱ میں جماعتی لائحہ عمل کو قابل اشاعت بنانے کے لیے جو سہ نفری کمیٹی بنائی گئی، اس میں مولانا ابواللیث ندوی مرحوم اور مولانا صدرالدین اصلاحی مرحوم کے ساتھ تیسرے شخص محمد شفیع مونس مرحوم ہی تھے۔ مرکزی ذمے داری کے علاوہ شمالی ہند ہو کہ جنوبی ہند، یوپی ہو یا آندھرا پردیش، جہاں بھی امارت حلقہ کی ذمے داری دی گئی، انھوں نے اسے بخوبی نبھایا۔ رام پور میں ادب اسلامی کا کارواں جب پہلی دفعہ مائل بہ سفر ہوا تو مونس صاحب ہی اس کے سالار تھے۔
مشترکہ فورم میں جماعت کے موقف کی ترجمانی میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ ملت ہو یا جماعت، مشوروں کی مجلس میں بڑے رکھ رکھائو اور آداب کے ساتھ اپنی بات رکھتے تھے۔ اُن کو محفل کی گرمی گفتار سے پگھلتے اور بحث ومباحثے کے دھوئیں سے اوبتے نہیں دیکھا۔ اختلاف رائے کے اظہار میں محتاط الفاظ استعمال کرتے اور جملے کی تراش کاخاص خیال رکھتے تھے۔ مسائل کی گرمی میں ان کو پسینہ نہیں آتاتھا۔ ماحول اور حالات کی نزاکت کا پورا احساس رہتاتھا۔ مجال نہیں کہ کوئی جملہ معیار ادب سے گرجائے اور کوئی بات منطق کی خراد سے گرکر زبان پر آجائے۔ اپنے عمل ہی کا نہیں، اپنی بات کا پورا حساب کرتے تھے۔ کوئی بات ان کی طرف منسوب کردی جائے تو فوراً کہتے مونس سب غلطی کرسکتا ہے، لیکن غیرمنطقی گفتگو نہیں کرسکتا۔ اس کے ذہن کی ساخت ایسی ہے کہ نامعقول بات اُس میں سما نہیں سکتی۔پھر اپنی بات کی وضاحت کرتے کہ میں نے یوں نہیں، یوں کہاتھا۔ الفاظ کی ذرا سی تبدیلی سے مفہوم بدل جاتا اور اس میں ایک نئی معونیت پیدا ہوجاتی۔
شوریٰ کی قرارداد کی بحث میں ایسا ہواکہ کسی نے کہاسیکولرزم کے ہندستانی مفہوم کو تو ہم بھی مانتے ہیں اور اس کی تائید کرتے ہیں۔ مونس صاحب مرحوم ایسی باتیں سنتے تو زور دے کر کہتے ہرگز نہیں اور قیم جماعت کو مخاطب کرتے قیم صاحب ذرا قرارداد نکالیے پھر اپنی یاد داشت سے کہتے ہم نے قرارداد میں یہ کبھی نہیں کہاکہ سیکولرزم کے رائج مفہوم کی ہم تائید کرتے ہیں۔ صرف یہ کہاہے کہ سیکولرزم کا ہمارے ملک میں جو محدود مفہوم بیان کیاجاتاہے، ہم نے اس کی مخالفت نہیں کی ہے۔ پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے کہ سب سے پہلے اس اصطلاح کا وہ مفہوم جو ہمارے یہاں عوامی و سیاسی سطح پر بیان کیاجارہاہے وہ رادھا کرشنن نے سمجھایاتھا۔ اس کے بعد وہ ایک سے دوسرے کی زبان پر اور پھر پورے ملک کی زبان پر جاری ہوگیا۔
شوریٰ کی مجلس میں نظریاتی بحثوں میں اکثر گرماگرمی ہوجاتی تھی۔ بعض ایسے ارکان شوریٰ جن کی علمی وجاہت کا ہم لوگ احترام کرتے تھے، ان کو بسا اوقات زیادہ پُرجوش ہوتے دیکھا اور یہ بھی دیکھاکہ ان کے علم کے مقابلے میں مونس صاحب کا حلم بالآخر بھاری پڑتاتھا۔
مونس صاحب کی یاد داشت بلاکی تھی ۔ یہ محض حافظے کا کمال نہیں تھا،بل کہ ان کے ذہن نے منطقی خانے بنالیے تھے۔ جن میں وہ مختلف سطح اور سائز کی باتوں اور واقعات کو اسٹور کرکے رکھ لیتے تھے۔ غیرمتعلق باتوں کو وہ ذہن کے کسی اندھیرے گوشے میں رکھ لیتے تھے۔ اس لیے ان کا ذہن کباڑخانہ نہیں بن پاتاتھا۔ نیپولین کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی فوج میں کس سپاہی کی سواری کی لگام ٹوٹی ہوئی ہے، وہ یادرکھتاتھا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے، یہ اللہ کا فضل ہے۔ باتوں کو اس طرح سجاکر رکھناکہ وقت ضرورت اُن سے فوراً کام لیاجائے، بہت مشکل فن ہے۔ مونس صاحب کی قوت حافظہ ہی مضبوط نہیں تھی، ان کے اعصاب بھی بڑے مضبوط اور فولادی تھے۔ ابوالفضل انکلیومیں اسکالر اسکول کا مسئلہ تھا۔ ایک طرف نامعقول ضِد اور دوسری طرف مونس صاحب کی اصول پر ڈٹے اور جمے رہنے کی قوت۔ سب کو معلوم ہے کہ اس موقع پر نوجوانوں تک کی نیندیں اڑنے لگی تھیں لیکن شفیع مونس صاحب کے شب و روز کی سیاہی و سفیدی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آج وہی اسکول کام یابی کے ساتھ چل رہاہے اور مونس صاحب کے عزم و حوصلے کی گواہی دے رہاہے۔
جماعت کا کیمپس پُرانی دہلی چتلی قبر سے ابوالفضل انکلیولانے اور یہاں آباد کرنے میں مونس صاحب ہی روح رواں رہے۔ یہ انھی کی تدابیر اور تگ و دو کا نتیجہ ہے۔جماعت اسلامی شخصیتوں کے معاملے میں حد درجہ حساس ہے۔ ہمیں اطمینان ہے کہ جماعت میں کبھی شخصیت پرستی نہیں آسکتی۔تحریک اور تنظیم کے حوالے سے ایک نازک سوال اکثر کھڑا ہوجاتاہے کہ جو لوگ فنا فی الجماعت ہوتے ہیں، وہ اپنی خودی کی حفاظت کیسے کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ہے اِنسانوں پر مشتمل جماعتی زندگی میں اہل منصب کے اندر اقتدار کی طلب پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر وہ ہمہ وقتی ہوں تو اور بھی نزاکت بڑھ جاتی ہے۔ ایسے وقت میں فرد کے ذہن کی آزادی، ضمیر کی طمانیت اور احساسات و جذبات سب کا امتحان ہوتا ہے۔ ان حالات میں ناپختہ افراد تو اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ غالب جماعتی رنگ سے اپنے کو پوری طرح ہم رنگ کرلیاجائے اور تنقید واحتساب تو دور رپورٹوں اور جائزوں کے دائرے میں بھی بڑی کہلانے والی شخصیتوں کے قول وفعل کو زیرِبحث نہ لایاجائے۔
شفیع مونس صاحب کو میں نے مولانا ابواللیث ندوی مرحوم، مولانا سراج الحسن صاحب، ڈاکٹر عبدالحق انصاری اور مولانا جلال الدین عمری چاروں کے دور امارت میں دیکھا۔میں نے صاف محسوس کیاکہ صاحب منصب شخضیتوں کے ذاتی ذوق و رجحان سے یہ شخصیت بالکل بے نیاز و بے پروا ہے۔ وہ اصولی موقف کے معاملے میں بے لچک رہتے تھے۔ پچھلی میقات سے قبل ایک اہم مسئلے میں ہمیشہ ان کااختلاف رہا۔ بہت سے احباب جس کام کو ملت کی سب سے بڑی خدمت سمجھتے تھے، شفیع مونس صاحب اس طرز کے اقدام کو تحریک اسلامی کے لیے ہلاکت کا سبب سمجھتے تھے۔ ان بحثوں میں بات بسااوقات حد ادب اور اعتدال سے باہر بھی نکل جاتی تھی، لیکن مونس صاحب کے ٹھنڈے رویے پر یہ مصرع زبان پر بار بار آجاتا ہے :
ہم تک ہی رہے قائم آداب مے و مینا
تحریک اسلامی ہند اس وقت تیسری نسل کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ تحریک اسلامی کی تاریخ پر جن لوگوں کی نگاہ ہے وہ تائید کریںگے کہ پہلا مرحلہ مولانا ابواللیث ندوی اور مولانا محمد یوسف صاحب مرحوم کی قیادت کا تھا جو ۱۸۹۱ پر ختم ہوگیا۔ ۱۸۹۱ تا ۰۹۹۱ کے دوران مولانا ابواللیث ندوی مرحوم نے مشروط طورپر امارت کی ذمے داری سنبھالی اور اس کو پہلے دور ہی کا تتمہ قرار دینا چاہیے۔ دوسرے دور کاآغاز مولانا محمدسراج الحسن صاحب کی امارت سے ہوتا ہے۔ اس وقت شفیع مونس صاحب قیم جماعت اسلامی تھے۔ افضل حسین صاحب کی علالتِ مرگ سے ان کے انتقال کے بعدجولائی ۰۹۹۱ تک مونس صاحب ہی قیم جماعت رہے۔اس سے قبل اپریل ۲۷۹۱ میں جب مولانا محمدیوسف صاحب امیرجماعت تھے اس وقت بھی عارضی طورپر وہ قیم رہ چکے تھے۔ افضل صاحب کے قیم مقرر ہونے کے بعد مونس صاحب کو یوپی کا امیر حلقہ بنایاگیاتھا۔ اس سے قبل ۱۹۵۱میں وہ یوپی کے قیم رہ چکے تھے۔ سیّدمحمدجعفر صاحب نے شفیع مونس صاحب سے اگست۱۹۹۰ میں قیم کا چارج لیاتھا۔
مولانا محمد سراج الحسن صاحب کے دور امارت میں ووٹ کی اجازت کے فیصلے کے حوالے سے جوبھونچال آیاتھا اس کو سنبھالنے میں سب سے زیادہ کلیدی رول شفیع مونس صاحب ہی کا تھا۔ وہ سراج الحسن صاحب کے پورے دور امارت میں نائب امیر جماعت اور قائم مقام امیر جماعت کی حیثیت سے اہم فیصلے کرتے اور اُن پر عمل درآمد کی نگرانی کرتے رہے۔ کوئی فیصلہ ان کی خاموش تائید اور توثیق کے بغیر نہیں ہوتاتھا۔ اسی پس منظر میں مرکز جماعت میں ایک مستند عالم دین کی موجودگی کی ضرورت پر ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی مرحوم نے زوردار بحث کی تھی۔ میں مجلس شوریٰ کی ان بحثوں میں شریک تھا۔ مونس صاحب اس طرح کی تمام نرم وگرم بحثوں میں اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ ایک اصولی موقف اختیار کرتے تھے اور اجتماعی فیصلے کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ شفیع مونس صاحب ۱۹۶۴سے مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ اس سے قبل بھی ان کو ۱۹۸۴ میں تعلیم اور انتظام کے خصوصی معاملات میں مشوروں کے لیے بھی بلایا گیاتھا۔
جناب محمد شفیع مونس مرحوم کی یاد آتی ہے تو ان کی پوری تصویر ذہن میں گھوم جاتی ہے۔ فجر کی نماز میں سب سے پہلے مسجد میں منبر کے قریب بیٹھ کر تلاوت کرتے رہنا، جاڑے کی دھوپ میں مرکز کے باہربے تکلفانہ انداز میں بیٹھ کر آنے جانے والوں سے ملاقات اور اسی درمیان آفس کے کاموں کو انجام دینا، وقت کی پوری پابندی سے اجتماعات اور شوریٰ میں شریک ہونا، مرکز میں آنے جانے والے بڑے بوڑھے، جوان، امیر وغریب سب کی خیروعافیت دریافت کرنا، حال چال لینا، قیام و طعام کے بارے میں خیال رکھنا۔ ان کے انداز و مزاج میں ایک چاشنی تھی۔ ان کی شخصیت بھی بڑی سڈول تھی۔ کوہستانی قدوقامت اور گٹھا ہوا جسم تھا۔ کہیں کوئی ٹیڑھ میڑھ یا ترچھا پن نہیں تھا۔ چہرے کی بناوٹ میں ایک موزونیت، چہرے کو پڑھیے تو اس کی تمام لکیریں سیدھی صاف معلوم ہوتی تھیں، آنکھوں میں چھوٹے چھوٹے دو خصوصی لینس اس طرح لگے ہوئے تھے کہ دروں بینی اور جہاں بینی دونوں کام بیک وقت انجام دیتے تھے۔ ان آنکھوں کے اردگرد ایک ہالہ جس میں خوداعتمادی اور خوش گواری ہمیشہ جھانکتی رہتی تھی۔ دور سے دیکھیے تو ایسا معلوم ہوتا تھاکہ کوئی چینی مفکر مصروف کار ہے۔ ٹوپی ایک خاص وضع کی استعمال کرتے تھے۔ مجلسوں میں جاتے تو شیروانی پہن لیتے تھے۔ جس سے شخصیت کی وجاہت میں اضافہ ہوجاتاتھا۔ شفیع مونس صاحب لباس اور وضع قطع میں چلتے ہوئے فیشن کے آدمی بالکل نہیں تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک رباعی کا حسن تھا، جس کے چاروں مصرعے ہم قافیہ تھے۔ منطقیت ، تحریکیت، اجتماعیت، رجائیت اور یہ چاروں مصرعے مقصدیت کے دھاگے میں پروئے ہوئے تھے، جن سے مل کر ان کی شخصیت کی تعمیر ہوئی تھی۔
ان کو سفر وحضر،دکھ سکھ، اچھے بُرے جس حال میں دیکھا، ایک طرح سے ملتے دیکھا۔ مزاج میں اتھل پتھل نہیں تھی۔ کبھی آگ ، کبھی دھواں اور کبھی پانی جیسی شخصیت نہیں تھی۔ ساری ادائیں نپی تلی، نظم و ضبط میں ڈھلاہوا مزاج، شورائیت اور تنظیمی آداب میںرچی بسی طبیعت، حفظ مراتب کاپورا لحاظ، انسانی رشتوں اور پُرانے تعلقات کو نباہنے کا فن، باتوں کی دھاراور الفاظ کی کاٹ کی پوری سمجھ، مسائل کے پیچ وخم کا بھرپور فہم، موقعے کی نزاکت کا احساس، کسی فیصلے کے دوررس اثرات کا ادراک، اظہار اختلاف میں اعتدال، گرما گرم بحثوں میں پوری شرکت لیکن یک گونہ احتیاط کے ساتھ۔ واقعی مونس صاحب مرحوم جماعت اسلامی ہند کا ایک قیمتی سرمایہ تھے۔ اس کااظہار ایک دفعہ بھری مجلس میں مولانا سراج الحسن صاحب نے بھی کیاتھا۔ کبھی ایسا نہیں ہواکہ ہم لوگ مرکز جماعت یا ابوالفضل انکلیو پہنچیں اور مولانا شفیع مونس کے مصافحے اور خیروعافیت کی دریافت کے مرحلے سے نہ گزریں۔ وہ جاڑے میں مرکز بلڈنگ کے باہر لان کے قریب دوچار کرسیاں ڈال کر اپنا آفس بنالیتے تھے اور پھر ہر آنے جانے والے سے سلام ودعا کاسلسلہ جاری رہتا تھا۔
بظاہر شفیع مونس صاحب کے یہاں کتابی مطالعے کی وسعت اور رسمی فلسفیانہ گہرائی نہ تھی۔ لیکن تجربے کی وُسعت ، تحریکی شعور کی بالیدگی اور فکر کی پختگی پائی جاتی تھی۔ ان کی ہر بات میں صحت مند منطقیت تھی۔ جس سے ان کی شخصیت میں صداقت کا جمال نکھر آتاتھا، جو ناپختہ لوگوں کی علمی رعونت، دستارفضیلت اور مریضانہ انانیت کے مقابلے میں بڑا فطری اور پُرکشش تھا۔ اپنی بات پر جمنا اور اپنے موقف پر مضبوطی سے ڈٹ جانا ان کو آتاتھا۔ کبھی کبھی دعوت مبارزت بھی قبول کرلیتے تھے۔ لیکن اس میں صداقت کی پاسداری تھی۔ حلم تھا، زعم نہ تھا۔ حمایت حق کا جذبہ تھا، مقابل کو شکست دینے کی خواہش نہ تھی۔ اس لیے ہر محفل میں وہ جماعت کے موقف کی وکالت اور تحریک اسلامی کی ترجمانی کرلیتے تھے۔ مولانا محمد سراج الحسن صاحب کے ابتدائی دور امارت میں جماعت کی داخلی فضا ووٹ دینے اور نہ دینے کے حوالے سے گردآلود ہوگئی تھی۔ اس کو سنبھالنے میں جہاں جناب محمد سراج الحسن صاحب کے اخلاص کی گرمی، گداز باطنی، عاجزی و خاکساری کو دخل تھا، وہیں محمد شفیع مونس مرحوم کے اس رویے کا بھی دخل رہاہے، جس میں اختلاف کے باوجود نظم جماعت کے فیصلے کی انھوں نے مضبوط وکالت کی۔ اختلاف میں اتحاد کی راہ نکالنا، نظم کی آبرو کی حفاظت، اجتماعی فیصلے کا احترام اور ساتھ ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنا کوئی مونس صاحب مرحوم سے سیکھے۔
ایک بارے مجھے ان کے دورۂ بہار کے موقعے پر اُن سے تفصیلی ملاقات اور انٹرویو لینے کا موقع ملا۔ انھوں نے بڑی شفافیت کے ساتھ اپنے تحریکی سفر، اجتماعی زندگی کے تجربات، مرکز کے احوال اور شخصیتوں کے فکری وعملی اختلافات پر روشنی ڈالی۔ وہ عام طورپر ان موضوعات پر گفتگو نہیں کرتے تھے۔ اس انٹرویو سے مجھے معلوم ہواکہ مونس صاحب فکری اعتبار سے مولانا صدرالدین اصلاحی کے معتقد تھے۔ مولانا مودودی کے بعد تحریک اسلامی کا سب سے بڑا مزاج شناس وہ مولانا صدرالدین اصلاحی کو سمجھتے تھے۔ دستور جماعت پر نظرثانی ، میقاتی منصوبے کے خدوخال کی تزئین اور تربیتی خاکے کی تیاری میں مولانا صدرالدین اصلاحی کی خدمات کے بڑے مداح تھے۔ وہ قصیدے یا مرثیے کے آدمی نہ تھے کہ علی الاعلان کسی شخصیت پر تنقید یا کسی کی توصیف کرنے لگیں، لیکن اس گفتگو میں انھوں نے تفصیل سے اہم فیصلوں کے پس منظر، شخصیتوں کے اختلاف ِ ذوق و مزاج اور حالات کے اتارچڑھاؤ پر روشنی ڈالی۔
مونس صاحب گروپ بندی کی خرابی سے نظم کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمیشہ کوشش کرتے رہے۔ وہ اس معاملے میں بڑے حساس تھے۔ ایک دفعہ وہ حلقہ بہار کے اجتماع میں تشریف لے گئے۔ اجتماع ارکان میں سوال وجواب اور تجاویز کی مجلس کے دوران حلقہ بہار کے ایک رکن شوریٰ نے اپنی تحریری تجویز ڈائس پر بیٹھے ہوئے جناب محمد شفیع مونس صاحب کو بھیجی۔ مونس صاحب نے تجویز پڑھ کر سنائی اور مجوزکا نام بھی پڑھا۔ تحریر سننے کے بعد مجوزصاحب کھڑے ہوگئے اور کہاکہ مولانا آپ نے میری تجویز ادھوری پڑھی ہے۔ میں نے اپنی تجویز کے ساتھ چند لوگوں کا نام بھی پیش کیاہے کہ ان لوگوں سے مجوزہ کام لیاجاسکتا ہے۔ مونس صاحب نے کہا ٹھیک ہے لیکن آپ کی اصل تجویز تو وہ ہے جو میں نے پڑھ دی ہے۔ رہا فرد کا نام کہ ان لوگوں کے ذریعے یہ کام لیاجائے وہ تو ایک ذیلی اور ضمنی بات ہے۔ اس میں تو آپ کو بھی اصرار نہیں ہوگا کہ انھی افراد کے ذریعے کام ہونا چاہیے۔ مجوز کا اصرار بڑھاکہ جب تجویز میں افراد کا نام پیش کیاگیاہے تو اس کو پڑھنے میں کیا ہرج ہے۔ ادھر مونس صاحب کا استدلال تھا کہ ناموں کا پڑھنا غیرضروری ہے، پہلے تو اصل تجویز کے حق میں فیصلہ ہونا چاہیے۔ پھر افراد کے سلسلے میں طے ہوگا کہ کون افراد اس کام کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔ اجتماع ارکان تھا،اس لیے حاضر ارکان جماعت کا تجسس بڑھ گیا۔ ہر طرف سے آواز آنے لگی نام پڑھ دینے میں کیا ہرج ہے۔ جب مطالبہ بڑھا تو مونس صاحب مرحوم نے کہا: ہرج ہے اسی لیے تو نہیں پڑھ رہاہوں۔ پھر وضاحت کی کہ تجویز اجتماع ارکان میں پیش ہورہی ہے۔ فیصلہ حلقے کی شوریٰ میں ہوگا۔ وہاں نام زیرغور آئیں گے۔ اس لیے میں اس تجویز کو امیرحلقہ بہار کو دے رہاہوں۔ وہ شوریٰ کے اجلاس میں اصل تجویز کے بعد ناموں کو بھی زیرِغور لائیں گے۔ میں نے دیکھاکہ ہزار تکرار اور اصرار کے باوجود مونس صاحب ٹس سے مس نہیں ہوئے اور مجوزہ ناموں کو اجتماع ارکان میں نہیں پیش کیا۔ اجلاس کے اختتام پر ڈائس سے اترتے ہوئے امیرحلقہ اور ذمے داران سے مونس صاحب نے کہاکہ اسی طرح تجویزوں کے حق میں رائیں ہموار کی جاتی ہیں۔ جن لوگوں کے نام مجوز نے پیش کیے ہیں وہ اسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس طرح کبھی کبھی غیرصحت مند فضا بنتی ہے کہ میں ان کا نام پیش کروں، وہ میرا نام پیش کریں۔ ملت کے جلسوں اور اداروں میں اسی طرح تو کم زوریاں آئی ہیں۔ پھر زور دے کر کہاکہ منصب اور ذمے داریوں کے فیصلے ہمیشہ متعلق افراد کی غیرموجودگی میں آزادانہ غورو فکر کے بعد کیے جانے چاہئیں۔ متعلق شخص کی موجودگی میں جائزہ مکمل اور صحیح نہیں ہوتا۔ بظاہر دیکھنے میں چھوٹی بات تھی لیکن اجتماعی زندگی میں صحت مند ماحول کی برقراری کے لیے یہ بڑے نکتے کی بات ہے۔
جماعت پر پابندی لگ جانے کے بعد F.D.C.A.﴿فورم برائے جمہوریت﴾ کی شاخ کے قیام کے لیے وہ پٹنہ تشریف لائے۔ بہار کی یونٹ میں اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر وہ چند افراد کو رکھنا چاہتے تھے۔ ایک نام وہاں کی ایک نمایاں شخصیت کابھی تھا۔ ادھر پٹنہ میں جو ٹیم F.D.C.A.کے لیے تیار کی گئی تھی، اُس کے افراد ان ناموں سے متفق نہ تھے جو مونس صاحب کے پیش نظر تھے۔ بہار کے امیر حلقہ چاہتے تھے کہ ناموں کے سلسلے میں مونس صاحب کی تجویز قبول کرلی جائے۔ صورت حال یک گونہ تناؤکی بن گئی۔ مجھے وہاں کے نوجوانوں کی رائے زیادہ مناسب معلوم ہوتی تھی۔ بالآخر شفیع مونس صاحب اپنی تجویز سے دست بردار ہوگئے۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے۔ چنانچہ فضا میں ایک نئی خوش گواری آگئی اور F.D.C.A.کا پروگرام پٹنہ میں بہت کام یاب رہا۔
مولانا ابواللیث ندوی مرحوم کی امارت کا دور تھا۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ لندن سے مجھے ایک دعوت نامہ ملا۔ میں خود اس پروگرام میں شریک ہوناچاہتاتھا۔ مقالہ بھی میں نے تیار کرلیاتھا۔ ٹکٹ اور ویزے کا مرحلہ طے ہونے والا تھا۔ اچانک خبر ملی کہ مرکز کی ہدایت ہے کہ جماعت کے ارکان اس پروگرام میں شریک نہیں ہوں گے۔ یہ سیمینار حج کے موضوع پر تھا۔ انقلاب ایران کے بعد انقلاب سے متاثر حلقوں کی طرف سے پروگرام کا انعقاد کیاجارہاتھا۔ بہرحال میں چتلی قبر دہلی پہنچا، قیم جماعت افضل حسین صاحب نے مجھے مرکز کے فیصلے سے آگاہ کردیا۔ میں اس کے بعد شفیع مونس صاحب سے ملاکہ فیصلے کی مصلحت سمجھ میں نہیں آئی۔ شفیع مونس صاحب بھی شاید یہ خیال رکھتے تھے کہ مجھے جانا چاہیے۔ موصوف نے ایک تحریر امیر جماعت مولانا ابواللیث ندوی کے نام مجھے اِملا کرائی۔ افسوس کہ اس تحریر کی نقل میں نہیں رکھ سکا۔ البتہ یہ یاد ہے کہ شفیع مونس صاحب نے بہت ضروری حدود و قیود کے ساتھ تحریر لکھوائی تھی۔ اس میں بہرصورت حکم کی تعمیل کی یقین دہانی تھی۔ سیمینار میں شرکت کی اجازت طلب کرنے کے ساتھ جماعت کے موقف کی ترجمانی کا وعدہ کیاگیاتھا اور مزید ہدایات کی خواہش کے ساتھ اجازت طلب کی گئی تھی۔ افضل حسین صاحب مرحوم نے کہا: میں مولاناابواللیث صاحب کے سامنے یہ تجویز پیش کردوںگا۔ آپ ساتھ چلیں۔ مونس صاحب بھی موجود تھے۔ بہرحال مولانا ابواللیث ندوی صاحب کو تحریر دی گئی۔ مولانا نے اوپر سے نیچے تک تحریر کو ایک نظر میں دیکھ لیا۔ اور معاملے کو بھانپ گئے، ان کی چشم و ابرو میں جنبش ہوئی جس کو ہم لوگوں نے ان کی عینک کی تھرتھراہٹ سے محسوس کیا۔ انھوں نے مونس صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا: آپ نے تحریر لکھوائی ہے، حالانکہ مرکز کا فیصلہ آپ کو معلوم ہے۔ مونس صاحب نے بڑے اطمینان سے جواب دیا: دیکھیے اگر کوئی گنجایش نکلتی ہے تو ٹھیک ہے۔ مولانا ابواللیث ندوی مرحوم پرکسی قدر جھنجلاہٹ طاری ہوئی، لیکن کچھ بولے نہیں۔ بس عینک کی تھرتھراہٹ بڑھ گئی۔ افضل حسین صاحب نے باہر نکل کر کہاکہ میں کہہ رہاتھا کہ اجازت نہیں ملے گی۔ مونس صاحب نے کہاکہ کوشش کرنے میں کیا ہرج تھا۔ تحریک کی تینوں شخصیتوں کے مزاج کا فرق اس وقت نمایاں تھا۔ ایک نے جھنجلاہٹ کی کیفیت پر قابو پایا اور اُس کا اظہار نہیں ہونے دیا اور دوسرے کے اندر احساس ندامت کہ اجازت نہیں ملی، جب کہ مونس صاحب بالکل مطمئن تھے۔ فن کار اگر مخلص ہوتو اس کی تخلیق اس کی ذات کاآئینہ بن جاتی ہے۔ مونس صاحب کے اس شعر کو ان کی ذات کے آئینے میں دیکھیے:
وہ لمحات محبت ہائے اکثر یاد آتے ہیں
کہ جن لمحات میں تم سے نہ تھا کوئی گلہ مجھ کو
مونس صاحب سے ایک بار میں نے پوچھاکہ کن لمحات محبت کا تجربہ آپ نے بیان کیاہے۔ محبت کی تو ابتدا ہی گلہ سے ہوتی ہے اور ہرلمحہ ایک تازہ شکایت کے ساتھ محبت آگے بڑھتی ہے۔ انھوںنے بتایاکہ یہ تحریک کی ابتدائی منزل کاتجربہ ہے ۔ آگے چل کر ساتھ چلنے والے رفقا مختلف مناصب اور ذمے داریوں پر ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک کسک پیداہوتی ہے اور ماضی کے لمحات یاد آتے ہیں۔
جناب محمد شفیع مونس صاحب ملت کے مسائل کے حل کے لیے مجلس مشاورت کی افادیت اور ملکی حالات پر اثرانداز ہونے کے لیے F.D.C.A. کی اہمیت کے قائل رہے۔ MPJکے قیام کے لیے وہ تیار تھے۔ ملت کی سیاسی بے وقعتی دور کرنے کے لیے اور ایک جمہوری ملک میں صالح نظریات کی روشنی میں اقتدار پر اثرانداز ہونے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں، یہ ایک مشکل سوال تھا۔ ان کا خیال تھا کہ موجودہ الیکشنی سیاست میں اقتدار کی جو جنگ ہے، اس میں داخل ہونا اس کے فلسفے اورآدابِ بزم (Rules of Game) کو اختیار کرنے کے مترادف ہے اور یہ چیزتحریک اسلامی کی اخلاقیات کے لیے سم قاتل ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق انصاری صاحب نے جب امارت سنبھالی تو اس مسئلے پر ازسرنو بحث شروع ہوئی۔ دو فکری دھاروں کے مابین بحث ومباحثے کا منظر اِجلاس شوریٰ میں ہم لوگ دیکھتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالحق میں تازہ تازہ جوش تھا اور مونس صاحب میں پرانا ہوش تھا۔ مونس صاحب کا ایک شعر یاد آرہاہے:
یہ مونس اپنا اپنا ظرف ہے رنج محبت میں
کوئی تو ہوش کھو بیٹھے، کوئی ہشیار ہوجائے
مونس صاحب کبھی ہوش نہیں کھوتے تھے۔ بل کہ اختلافی گفتگو ہوتی تو اور ہوشیار ہوجاتے۔ ڈاکٹرفضل الرحمن فریدی مرحوم اس معاملے میں ان کے ہم خیال تھے۔ جب کہ محترم عبدالحق صاحب اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ شوریٰ میں بحثیں ہوتی تھیں۔ ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی بھی اختلاف رکھتے تھے۔ وہ اکثر اس موضوع پر اظہار خیال کرتے رہے۔
ایک اعتبار سے تنظیمی زندگی یک گونہ خشک ہوتی ہے۔ اِس نوعیت کی ذمے داری اٹھانے والوں کو چاہیے کہ تخلیقی عمل بھی کریں یا کوئی ثقافتی مشغلہ ڈھونڈیںتاکہ مزاج میں خشکی و بے رنگی نہ آئے۔ شفیع مونس صاحب کی شخصیت کا اہم پہلو شاعری کی لطافت سے عبارت ہے۔ افضل حسین صاحب نے فن تعلیم و تربیت لکھی اور درسی کتب تخلیق کیں۔ ذات کے توازن کے لیے اِس پہلو کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر ایک شخص اِنسانی نفسیات کے متنوع تقاضوں کے حقوق توازن کے ساتھ ادا کرے تو اُس کی اپنی ذات کا توازن برقرار رہ سکتا ہے۔ تنظیمی زندگی میں یہ متنوع تقاضے کبھی قربان ہوتے نظر آتے ہیں، پھر عدم توازن پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ مونس صاحب نے اپنی ذات کو اس عدم توازن سے محفوظ رکھا ، بل کہ انھوںنے بظاہر خشک تنظیمی امور میں بھی ایک شان دل رُبائی پیدا کرلی تھی۔ ایک دور وہ تھا جب چتلی قبر میں کمرہ نمبر ۶۲ اُن کا کائونسلنگ روم تھا۔مختلف تعلیمی اجلاسوں اور تربیتی پروگراموں میں جب بات گرم انداز میں ہونے لگتی تو مونس صاحب فرماتے آپ نشست کے بعد کمرہ نمبر ۶۲ میں ملاقات کیجیے گا۔ وہ اس بات کو اس انداز سے کہتے گویا مولانا محض منطقی انداز میں سمجھاتے ہی نہیں ہیں بل کہ فہمائش بھی کرتے ہیں۔ اس کمرے کے تذکرے سے فضا کا تنائو ختم ہوجاتاتھا۔
بوجھل فضا کو ہلکا کرنے، مکدر ماحول کو پُرلطف بنانے، گفتگو کا رخ مثبت انداز سے موڑدینے کا مونس صاحب کے اندر ایک خاص ملکہ تھا۔ اس معاملے میں وہ اسلوب تخاطب کی ایک خاص تکنیک کا بھی استعمال کرتے تھے۔ مثلاً کہہ دیتے: بھائی اس میں اصل قصور مونس کا ہے۔ چوک مجھ سے ہوئی۔ اکیلے میں شکایت کرلیجیے گا۔ کبھی اس طرح گویا ہوتے: بھائی جان آپ تو اپنے آدمی ہیں، بیٹھ جائیے۔ احسن مستقیمی صاحب سے پرانا یارانہ تھا۔ اُن سے کہتے: بھلے آدمی یوں نہیں اس طرح سوال کرتے ہیں۔ مونس تو آپ کا ہم خیال ہے، ذرا پوچھ تو لیا ہوتا۔ پُرانے آدمی، اپنے آدمی، خاص آدمی، بھلے آدمی، اس طرح کے الفاظ سے ماحول کے تنائو میں خوش گواری پیدا کرتے تھے۔ بڑے بڑے اجتماعات میں رفقا کو سمجھانے، بجھانے اور اُن کے جذبات کو کنٹرول کرنے کا ان کا اپنا انداز اور خاص طریقہ تھا۔ جس میں وہ کبھی تھکتے نہیں تھے۔ بڑے مجمع کو اپنی حاضر جوابی سے لاجواب کردیتے تھے۔
ان کی تقریر میں جذباتیت کا عنصر کم رہتا۔ یوں بھی مقرر کی انفرادیت ، انداز اور آہنگ سے تقریر میں تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ مونس صاحب مرحوم کی ذات بھی نپی تلی تھی۔ انداز و آہنگ سنبھلاسنبھلا۔ دھواں دھار تقریر کے وہ آدمی ہی نہیں تھے۔ ان کی تقریر سننے کے لیے نہ پروانہ وار رفقا کو جاتے ہوئے دیکھا، نہ دیوانہ وار سر دُھنتے ہوئے پبلک کو۔ بس جو بات کہنی ہے اس کو سلیس ،سادہ اور مناسب اندازمیں کھڑے ہوکر بیان کردیتے۔ گفتگو میں ایک منطقی ربط اور تسلسل ضرور رہتا، جس سے سننے والے کوترسیل وابلاغ کی شکایت نہیں ہوتی تھی۔
ان کی شاعری میں بھی سرمستی و سرشاری نہیں ہے۔ من کی موج والی شاعری انھوںنے نہیں کی۔ مونس صاحب کی شاعری عشق کی نہیں عقل کی شاعری ہے۔ حدود ناآشنا جنوں کے بجائے تجربے اور حکمت کا شاعرانہ اظہار ہے۔ لیکن ان تجربوں کے اظہار میں ایک اعتماد، خلوص اور تازگی ہے۔ اور ان میںذات کے حوالے سے جماعت اور معاشرے کی اجتماعی نبض پر گرفت بھی ہے۔ اور یہی ان کی شاعری کی معنویت ہے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2012