رسائل و مسائل

رضاعت کا ایک مسئلہ

سوال:  میری شادی نہیں ہوئی۔ میں نے ایک بچے کو گود لیا ہے۔ بڑے ہونے پر پردہ کے احکام لاگو ہوتے ہیں، اس لیے میں سوچ رہی ہوں کہ اسے اپنا دودھ پلا دوں۔ کیا اس صورت میں اس کی رضاعی ماں بن جاؤں گی؟

آج کل ڈاکٹر دوا کے ذریعے بغیر بچے کی پیدائش کے عورت کے پستان سے دودھ کی افزائش کو ممکن بنا دیتے ہیں۔ کیا اس طرح کا دودھ کسی بچے کو پلا دینے سے رضاعت کے احکام لازم آئیں گے؟

جواب:  قرآن مجید میں حرام رشتوں (جن سے نکاح جائز نہیں ہے) کو بیان کیا گیا تو اس میں رضاعت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِی أَرْضَعْنَكُمْ (النساء: ۲۳)

(تم پر حرام کی گئیں….اور تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور تمھاری دودھ شریک نہیں۔)

اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

یحرم من الرضاعة ما یحرم من النسب(بخاری: ۲۶۴۵)

(رضاعت سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔)

فقہا نے حرمتِ رضاعت ثابت ہونے کے لیے چار شرطیں عائد کی ہیں:

بچہ عورت کا دودھ پیے (اور کوئی چیز: پانی، خون یا پیپ وغیرہ نہیں)

دودھ کسی انسان (عورت) کا ہو۔

دودھ پینے کی مقدار و حرمت کی حد کو پہنچے۔

بچے کی عمر دو برس سے زیادہ نہ ہو۔

کیا دودھ پلانے والی عورت کا شادی شدہ ہونا ضروری ہے؟ اس سلسلے میں فقہا کی دو رائیں ہیں: امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ شرط ہے، چناں چہ ان کے نزدیک اگر کسی غیر شادی شدہ عورت کا دودھ اتر جائے اور وہ کسی بچے کو دودھ پلادے تو اس سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ مالکیہ، شوافع (اور ایک رائے امام احمد کی بھی یہی ہے) کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے۔ چناں چہ بچہ کسی غیر شادی شدہ عورت کا دودھ پی لے تو اس سے رضاعت ثابت ہوجائے گی۔

فقہ حنفی میں بھی اگر کسی غیر شادی شدہ لڑکی / عورت کو دودھ اتر آئے اور وہ کسی بچے کو پلادے تو حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی، بہ شرطے کہ اس کی عمر نو برس یا اس سے زائد ہو – درّ مختار میں ہے :

و لبن بکر بنت تسع سنین فاکثر محرّم، والّا لا ( باب الرضاع : 302/4)

اجماعی مسائل کو مدون کرنے والے مشہور فقیہ علامہ ابن المنذر (م ۳۱۹ھ) نے لکھا ہے:

’’فقہاکا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی غیر شادی شدہ عورت کا دودھ اتر آئے اور وہ اسے کسی بچےکو پلادے تو وہ اس کا رضاعی بیٹا قرار پائے گا، اگرچہ اس کا کوئی رضاعی باپ نہ ہوگا۔‘‘ (الاجماع، ص ۷۷)

آیتِ قرآنی سے بھی اس کا اشارہ ملتا ہے۔ اس میں : وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِی أَرْضَعْنَكُمْ (تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو۔)گویا دودھ اگر عورت کے جسم سے نکلا ہو تو اس سے رضاعت ثابت ہوجائے گی، چاہے دودھ کا نکلنا کسی بھی ترکیب و تدبیر سے ہو۔

الموسوعة الفقہیة کویت میں ہے: ’’جمہور کے نزدیک (اور یہ حنابلہ کی بھی ایک رائے ہے) رضاعت سے حرمت ثابت ہونے کے لیے اس سے قبل عورت کا حاملہ ہونا ضروری نہیں۔‘‘(الموسوعة الفقہیة کویت: ۲۲؍۲۴۲۔۲۴۳)

کیا حالتِ حیض میں میت کو غسل دے سکتی ہے؟

سوال:   میرے دو سوال ہیں۔ بہ راہِ کرم ان کے جواب مرحمت فرمائیں:

۱۔ کیا کوئی حائضہ عورت میت کو غسل دے سکتی ہے؟

۲۔ کیا جاتا ہے کہ غسل میت کے بعد غسل دینے والے مرد یا عورت کو خود بھی غسل کرلینا چاہیے۔ اگر بہ یک وقت کئی میتوں کو غسل دینا ہو تو کیا ہر میت کو غسل دینے کے بعد غسل کرنا ہوگا، یا تمام میتوں کو غسل دینے کے بعد آخر میں غسل کرنا کافی ہوگا؟

جواب:  میت کو غسل دینے والے پاکی کی حالت میں ہوں تو بہتر ہے،ورنہ وقتِ ضرورت جنبی شخص اور حائضہ کا غسل کرانے والوں میں شامل ہونا جائز ہے۔

حیض ایک طبیعیاتی حالت ہے، جس سے بالغ عورت ہر ماہ چند ایام دوچار ہوتی ہے۔ ان ایام میں اس کی شرم گاہ سے فاسد خون نکلتا ہے۔ لیکن یہ اس کی صحت کی علامت ہے۔ اس حالت میں بعض کاموں کی انجام دہی اس کے لیے ممنوع ہے، مثلاً نماز، روزہ، طواف وغیرہ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حالتِ حیض میں اس کے ہاتھ پیر اور پورا جسم ناپاک رہتا ہے اور اس مدت میں اگر وہ کسی چیز کو ہاتھ لگادے تو وہ بھی ناپاک ہوجائے گی۔

ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہؓ حیض کی حالت میں تھیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے مسجدسے تولیہ اٹھالینے کو کہا۔ انھوں نے عرض کیا: میں حیض سے ہوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ان حیضک لیس فی یدک(مسلم: ۲۹۸) تمھارا حیض تمھارے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘‘

ام المومنین حضرت میمونہ بنت الحارثؓ حضرت ابن عباسؓ کی خالہ تھیں۔ ایک مرتبہ وہ ان کے پاس اس حالت میں گئے کہ ان کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ انھوں نے ٹوکا تو ابن عباسؓ نے جواب دیا: ’’میری بیوی ہی میرے بالوں میں کنگھی کرتی تھی۔ آج کل وہ حیض سے ہے۔‘‘ انھوں نے فرمایا: ’’بیٹے! حیض ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ ہم امہات المومنین میں سے کوئی حیض سے ہوتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس جاتے تھے تو وہ آپ کا ہر کام کرتی تھی۔‘‘ (مسند احمد، نسائی)

فقہا نے حائضہ عورت کے ذریعے میت کو غسل دینے کو جائز قرار دیا ہے۔ عطا بن ابی رباح کا قول ہے: ’’میت کو جنبی یا حائضہ غسل دیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘سفیان ثوری، حسن بصری اور علقمہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ایک خاتون نے یہی مسئلہ ابو ثورؒ سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا: ’’حائضہ عورت کسی زندہ شخص کے بالوں میں کنگھی کر سکتی ہے اور اس کا سر دھلا سکتی ہے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے تو مردہ کو غسل دینا بہ درجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ ‘‘

علامہ ابن رشد مالکیؒ نے امام مالکؒ کی یہ رائے نقل کی ہے: ’’حائضہ عورت کے میت کو غسل دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘(البیان والتحصیل: ۲؍۲۰۹)

امام نوویؒ شافعی فرماتے ہیں: ’’جنبی اور حائضہ بلا کراہیت میت کو غسل دے سکتے ہیں۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ وہ دونوں دوسرے انسانوں کی طرح طاہرہ ہیں۔‘‘(المجموع: ۵؍۱۸۷)

علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ نے لکھا ہے: ’’ہمیں اس معاملے میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں ہے کہ جنبی اور حائضہ میت کو غسل دے سکتے ہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ غسل و تکفین کے کاموں کو انجام دینے والا طاہر ہو۔یہ طریقہ زیادہ مکمل اور زیادہ اچھا ہے۔‘‘ (المغنی: ۲؍۲۳۶)

بعض روایات اور بعض فقہا کے اقوال میں جنبی اور حائضہ کے ذریعے میت کو غسل دینے کو مکروہ کہا گیا ہے۔ ان سے مراد وہ جنبی ہے جس نے محض سستی کی وجہ سے غسل نہ کیا ہو اور وہ عورت ہے جس نے خون بند ہوجانے کے بعد بھی محض سستی کی وجہ سے غسل نہ کیا ہو۔

فقہ حنفی میں اگر میت کو غسل دینے کے لیے حیض سے پاک کوئی عورت موجود ہو تو حائضہ عورت کا اسے غسل دینا مکروہ ہے، کوئی موجود نہ ہو تو گنجائش ہے – (فتاویٰ ھندیہ، کتاب الصلاة، باب ٢١ فی الجنائز، فصل ٢ فی غسل المیت، /1)

جہاں تک دوسرے مسئلے (یعنی میت کو غسل دینے والے کا خود غسل کرنا) کا تعلق ہے تو بعض احادیث میں اس کا حکم ملتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

من غسل المیّت فلیغتسل (ابو اداؤد: ۳۱۶۱)

(جو شخص کسی میت کو غسل دے اسے خود بھی غسل کرنا چاہیے۔)

لیکن محدثین نے اس کو استحباب پر محمول کیا ہے۔ بعض آثارِ صحابہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا ہے: ’’میت کو غسل دینے سے تمھارے لیے غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔اس لیے کہ میت ناپاک نہیں ہوتی۔ تمھارا صرف اپنے ہاتھ دھولینا کافی ہے۔‘‘(صحیح الجامع: ۴۵۰۸) اور حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں: ’’ہم میت کو غسل دیتے تھے تو ہم میں سے بعض لوگ غسل کر لیتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے۔‘‘ (احکام الجنائزللالبانی، ص ۷۲)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میت کو غسل دینے کے بعد آدمی کا خود غسل کرنا ضروری نہیں، ہاں مستحب ہے۔ کئی کو ایک ساتھ غسل دیا گیا ہو تو غسل کرانے والے کا آخر میں غسل کرلینا کافی ہے۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223