انسانیت کے عظیم محسن، مفکر شاعر علامہ اقبالؒ نے موجودہ تہذیب کے اٹھان کے وقت ہی اس کی بنیادکو دیکھ کر ایک پیشنگوئی کی تھی کہ ’’یہ قوم اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پر بنے گآآشیانہ ناپائیدار ہوگا۔‘‘ آج اگرہم پوری دنیا کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو مشرق سے مغرب تک شمال سے جنوب تک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ تک ہر جگہ اور انسانی معاشرہ کے ہر طبقہ میں اور معاشرہ کو کنٹرول کرنےوالے نظام کے ہرچیزمیں فساد وبگاڑ لاعلاج ہونے کی حد تک بڑھ چکا ہے۔ یہاں تک کہ اس فساد نے قرآنی الفاظ میں ’’خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجہ میںاس لئے کہ انھیں ان کے بعض کرتوتوں کاپھل اللہ چکھادے بہت ممکن ہے کہ وہ بازآجائیں۔‘‘ (الروم۴۱)
مغربی تہذیب کے علمبرداروں نے یہ فساد اور بگاڑ دانستہ اور نادانستہ دونوں طورپر پیدا کیا اور بڑھایا ہے۔ اس فساد کو اور اپنی کرتوتوں، مکاریوں اور سازشوں کو چھپانے کے لئےطرح طرح کے فرضی، جعلی اور مصنوعی مسائل پیدا کردیے ہیں۔ حقوق انسانی، جمہوریت ، حقوقِ نسواں، دہشت گردی، آزادی، کھلی تجارت، کھلی مارکیٹ، گلوبل ولیج جیسے ثانوی اور غیراہم مسائل اور ان کی وجوہات کومیڈیا کے بل بوتے پر خاص وعام کے دل و دماغ میںپیوست کردیتے ہیں جس کے نتیجہ میں دنیا کے اہم مسائل سے اور ان کے پیچھے ہونے والے کھیل سےعوام ناواقف رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں I.P.C.C نے جو کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی پر عالمی ادارہ ہے اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس نے سائنسی طریقہ پر مطالعہ کے بعد اعداد شمار کی روشنی میںزمین میںماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید مہلک اور تباہ کن اثرات کےبارے میں وارننگ دی ہے۔ گرین ہائوس گیسوں (وہ گیس جن کے اخراج سے زمین کادرجۂ حرارت غیرفطری طریقہ سے بڑھتا ہے) کے غیرمعمولی اخراج سے زمین پر پچھلے ۳۰ سال گزشتہ ۱۴۰۰ سالوں میں سب سے گرم سال تھے۔ اس کے نتیجہ میں موسمی غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ سمندروں کی سطح پردرجۂ حرارت بڑھ رہا ہے،سمندروں کی تیزابیت نارمل سے ۲۶فیصد بڑھ چکی ہے۔ آرکٹک گلیشیرپر برفانی چادر ۳ء۵فیصد ہر دس سال کی شرح سے گھٹ رہی ہے۔ جس کے نتیجہ میں پانی کی کمی، فصلوں کی گھٹتی پیداوار، جانوروں، کیڑے مکوڑوں وغیرہ کی نابودگی اور سمندری سواحل کے آس پاس ملکوں اور آبادیوں کے زیرِآب آنے کےخطرات اور امکانات بڑھ رہے ہیں۔ ماحولیات میں کثافت کی مختلف شکلوں کے نتیجہ میں ہوا، پانی، زمین، زمین اور پانی سے اگنے والی ہر فصل میں انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر اور قاتل مادوں کی موجودگی بڑھ رہی ہے۔ جن میں پارہ، سیسہ اور سنکھیا کے Arseni یوریا وغیرہ بہت اہم ہیں۔ جن سے کینسر جیسے موذی امراض کے علاوہ دمہ، بانجھ پن تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ کیمیاوی کھادوں کے استعمال سے زیرزمین پانی تک آلودہ ہوگیا ہے۔ پنجاب اور مغربی یوپی کے بعض علاقے کینسر کی بڑھتی پکڑسے زندگی اورموت کےمسئلہ سے جوجھ رہے ہیں۔ مسئلہ کتنا نازک ہوتاجارہا ہے۔ اسے صرف ایک چھوٹے سے مسئلہ سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سانتاباربرا کے ماحولیاتی ماہر مارک برائون نے ایک تحقیق میں دنیا کے اٹھارہ سمندری ساحلوں (ہندوستان، برطانیہ، سنگاپور سمیت) سے اکٹھا پانی کے نمونہ حاصل کرکے پایاکہ ان میں مصنوعی مادوں سے بنائےگئے کپڑوں کی دھلائی کے دوران فی دھلائی ایک ہزار نوسو فائبر پلاسٹک کے ذرات خارج ہوتے ہیں اور یہ سمندر میں جمع ہورہے ہیں۔ اور یہ باریک ذرات سمندری جانوروں کے گوشت پوست میں جگہ بنارہے ہیں۔ خشکی پر بھی یہی عمل ہورہاہے۔ پلاسٹک کھانے والے جانوروں میں ہضم ہوکر یہ ذرات ان کے خون اور گوشت میں اکٹھاہوکر انسانوں کے خوراک کے دائرہ (Food – Cycle) میں شامل ہوکر انسان کو امراض میں مبتلاکررہے ہیں۔ (آگ، لکھنؤ۲۰۱۴۔۰۹۔۲۳) انسانی خوراک کے دائرہ میں جگہ جگہ سے زہر شامل ہورہاہے جس میں سینچائی کا پانی، زیرِ زمین پانی کی آلودگی، کیمیاوی کھادیں ، کیڑے مارنے والی زہریلی دوائیں سب شامل ہیں۔ حضرتِ انسان کی بے اعتدالی اور فطرت سے بغاوت کے سبب ذرہ ذرہ میں فساد اور ہلاکت خیزی پرورش پارہی ہے۔ ایک دیگر سائنسی مطالعہ میں بتایاگیاہے کہ زمین اور ماحول کے گرم ہونے کے ساتھ ساتھ زمین پر بجلی گرنے کے واقعات میںاضافہ ہوگا۔ سائنس دانوںنےحساب لگایاکہ عالمی درجہ حرارت میں ایک ڈگری کے اضافے سے بجلی گرنے کی شرح ۱۲ فیصد بڑھ جاتی ہے۔ جب آسمان سے بجلی گرتی ہے تو یہ کچھ مقدار میں زمین کو گرم کرنے والی گیس (گرین ہائوس گیس) G.H.G. نائٹروجن آکسائڈ کا اخراج کرتی ہے اور اس کے بعد دوسری گرین ہائوس گیسوں میتھن کا اخراج ہوتا ہے جس سے پھر ماحول اور گرم ہوتا ہے۔ اس طرح یہ چکر چلتا رہے گا۔ (حالاتِ وطن ۲۰۱۴۔ ۱۱۔۲۱) حالات کے بگاڑ میں دولت مند طبقہ، حکمراں اور صنعت کاروں کارول سب سے زیادہ مجرمانہ ہے۔ یہ سب مل کر میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اور تعلیمی نظام کی مادہ پرستانہ تفسیر کے ذریعہ سماج کو زیادہ سے زیادہ صرف کرنے Consume کرنے کی کمزوری اور حکمرانوں اور صنعت کاروں کی زیادہ سے زیادہ نفع کمانے (وہ بھی کم سے کم خرچ اور ذمہ داریوں کے ساتھ) کی خصلت کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ دنیا کے تمام قدرتی ذرائع اور وسائل جنگل، زمین، ندی، نالے، معدنیات کی کانیں Mines، آبشار، پیڑپودے، جانور سب کچھ نفع خور تاجروں، سرمایہ داروں، حکمرانوں کی ہوس گیری کا شکار ہیں۔ عوام کو میڈیا کے ذریعہ نیا سے نیا اور زیادہ سےزیادہ کی ہوڑ میں لگادیاگیا ہے ایک ایسی دوڑ جس میں ہر ایک کے لئے شکست مقدر ہوگی اور پوری انسانیت کو ہی نقصان اٹھانا ہوگا۔
انسانوں کی اپنے ہاتھوں تباہی
ایک اور پہلو یہ ہے کہ حضرتِ انسان خصوصاً انسانی حقوق، آزادی، ترقی، تعلیم کی ٹھیکیداری کا دعویٰ کرنے والوں امریکہ اور یوروپ نے دنیابھر میں انسانوں کی آبادی سے زیادہ بربادی پر رقم خرچ کرانے کا شیطانی کام اپنی شیطانی حرکتوں کے ذریعہ کررکھا ہے دنیا بھر میں آج کی تاریخ ۳۳ مسلح تصادم جاری ہیں۔ پوری دنیا ہتھیاروں کی خریداری پر سالانہ ۱۷۶۵؍ارب ڈالر (ایک ڈالر۔ ۶۵روپے) پر خرچ کررہی ہے۔ (جسکا بڑا حصہ دنیا کے پانچ ممالک امریکہ، روس، فرانس، جرمنی، اسرائیل کے کھاتا میں جاتا ہے) دنیا بھر میں اس وقت ۸۷۵ ملین (ایک ملین برابر دس لاکھ) چھوٹااسلحہ موجود ہے۔ اور ۲۰۵۰۰ نیوکلیائی ہتھیار بھی موجود ہیں۔ ہر سال لگ بھگ ۱۰۔۸ ملین چھوٹےاسلحہ کی تیاری کی جارہی ہے۔ اور یہی چھوٹااسلحہ دنیا بھر میں گوریلا جنگوں، آزادی کی لڑائیوں اور خانہ جنگیوں میںاستعمال ہورہا ہے۔ انتہائی قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تباہی کےسوداگر ہی دنیا بھر میں ’’نام نہاد دہشت گردی‘‘ کےخلاف جنگ کی باتیں کرتے ہیں۔ آج جب کہ دنیا میں امریکن ؍مغربی ورلڈ آرڈر کو تسلط ہے اور امن، انسانیت، انسانی ترقی و فلاح کی باتیں کرنے والے اسلحہ پر ۱۷۵۵ ؍ارب ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ ہتھیار بنانے والے اربوں ڈالر کمارہے ہیں۔ دنیا میں ہر صنعت مندی کا شکار ہے مگر ہتھیار کی صنعت میں مندی نہیں ہے۔ سعودی عرب اور دبئی دنیا کے سب سے بڑے ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ اکیلے امریکہ کا دفاعی خرچ ۸۰۰؍ارب ڈالر کا ہے۔ اس کے مقابلہ انسانیت کی ترقی کا کتنا لحاظ ہے وہ بھی ذہن نشین کرلیجئے۔ اقوام متحدہ جو دنیا بھر میں امن، تحفظ، حقوق انسانی، انسانی معلومات (امدادی امور) اور بین الاقوامی قوانین کو لاگو کرنے کاکام کرتا ہے ان اہم ترین امور کے لئے اس عالمی ادارہ کو ملتے ہیں (دل تھام کر پڑھئے) ۲ء۷؍ارب ڈالر یعنی ہتھیاروں پر ۱۷۶۵؍ارب اور تحفظ و امداد پر ۲ء۷؍ارب (نبیلہ جمشید اقوام متحدہ میں معاون ای، او، انڈین ایکسپریس ۲۰۱۴۔۰۹۔۲۵) یہ ہے اس ڈھونگی ، منافق انسانیت دشمن کااصلی چہرہ جسے چھپائے رکھنے کے لئے دنیا بھر میںدنگوں کی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔ ملکوں کو ملکوں سے پڑوسیوں سے پڑوسیوں کو قبائل کو قبائل سےلڑایا جاتا ہے۔ طرفین کو اسلحہ دیا جاتاہے۔ اسلحہ پاکستان کو بھی فروخت کرتے ہیں افغانستان کو بھی بھارت کو بھی اسلحہ اسرائیل کو بھی دیتے ہیں سعودی عرب اسرائیل کو سالانہ فوجی امریکی امداد۶۔ارب ڈالر کے آس پاس ہے۔ تقریباً اتنی ہی رقم کے اسلحہ سعودی عرب کو فروخت کیاجاتاہے۔ مصر کو بھی اسرائیل کے بعد دوسری بڑی فوجی مدد دی جاتی ہے۔ ISISکو بھی اسلحہ دیا جاتاہے اور عراق کو بھی اور ترکی کو بھی اسلحہ فروخت کیاجاتاہے تاکہ خون بہتا رہے اسلحہ فروخت ہوتا رہے کھیتیاں اورنسلیں تباہ ہوتی رہیں مگر لاک ہیڈمارٹن، لوئنگ وغیرہ کے خزانے بھرتے رہیں۔ دنیا کے تمام انسان اگر وہ انسانیت کے حقیقی بہی خواہ ہیں تو انہیں ہتھیاروں کے ان بے رحم سوداگروں کی چالوں کو سمجھناہوگا۔ ان کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرناہوگا۔
مسئلہ کا تیسرا پہلو ہے دنیا میں اناج کی پیداوار میں اضافہ
کسانوں کو ملنے والی قیمت میں کمی اور عام گاہک کو مہنگا اناج ملنا۔ خوراک کی کمی کو بڑا مسئلہ بنایا جاتاہے مگر اعداد وشمار بتارہے ہیں کہ ۲۰۱۳۔۲۰۰۳ کے دس سالوں میںاناج کی پیداوار بڑھی ہے عالمی پیمانہ پر عوام کو خریدار کو دام زیادہ دینے پڑرہے ہیں۔ خصوصاً پچھلے ۶۔۵ سالوں میں رٹیل کے داموں میں قیمت بڑھ رہی ہے جب قیمت بڑھتی ہے تو عوام کو دام زیادہ دینے پڑتے ہیں مگر جب دام عالمی منڈیوں میں کم ہوجاتے ہیں تواس کافائیدہ عوام کو نہیں ملتا اور اس گھپلہ پر روک لگانےکاکوئی نظام بھی حکومتوں کے پاس نہیں ہے۔ اصل فائیدہ جمع خوروں، منافع خوروں اور سٹہ بازوں کو ہوتاہے۔ عالمی اداروں نے پچھلے دس سالوں کی ایک تقابلی فہرست جاری کی ہے جس میں بڑھتی پیداوار گھٹتے تھوک داموں کو دکھایاگیا ہے مگر جیساکہ ہم سب بھگت رہے ہیں پچھلے سالوں میں ہی دال، چاول، آٹا، تیل ہر جنس کے دام بڑھے ہوئے ہیں اور پیداوار بڑھنے کے باوجود عوام کو راحت نہیں ہورہی ہے۔
نام جنس | ۴۔۲۰۰۳ | ۱۴۔۲۰۱۳ | مقدار ملین ٹن |
چاول | ۲۰۱ء۴۸ | ۲۴۸ء۷۶ | ۔۔۔ |
گندم | ۷۱ء۳۵ | ۹۰ء۳۹ | ۔۔۔ |
مکئی | ۱۲ء۵۷ | ۲۱ء۳۶ | ۔۔۔ |
دلہن | ۱۲ء۷۸ | ۱۷ء۵۲ | ۔۔۔ |
تلہن | ۱۹ء۹۷ | ۳۰ء۲۰ | ۔۔۔ |
کپاس | ۱۵ء۳۸ | ۳۵ء۰۴ | ۔۔۔ |
گنا | ۲۸۲ء۷۵ | ۳۳۷ء۳۵ | ۔۔۔ |
داموں کی صورتحال عالمی منڈیوں میں
نام جنس | موجودہ دام | ایک سال پہلے | دو سال پہلے |
گیہوفی ۲۵کلو | ۵ء۳۸ڈالر | ۶ء۶۳ڈالر | ۸ء۶۵ڈالر |
مکئی فی ۲۵ | ۳ء۷۴ڈالر | ۴ء۲۶ڈالر | ۷ء۴۰ڈالر |
چاول فی ٹن | ۴۲۴ڈالر | ۴۳۹ ڈالر | ۵۷۹ ڈالر |
سویابین فی ۲۵ کلو | ۱۰ء۳۰ ڈالر | ۱۲ء۵۷ ڈالر | ۱۵ء۲۷ ڈالر |
پام آئیل فی ٹن | ۷۱۰ ڈالر | ۱۴ء۰۰ ڈالر | ۸۱۸ ڈالر |
کپاس ایک پونڈ | ۷۰ سینٹ | ۸۴ء۶۰ سینٹ | ۸۰ء۳۰ سینٹ |
چینی ایک پونڈ | ۱۵ء۹۳ سینٹ | ۱۸ء۳۲ سینٹ | ۱۹ء۴۵ سینٹ |
پائوڈرایک ٹن | ۲۴۶۴ ڈالر | ۴۵۴۱ ڈالر | ۳۲۲۵ ڈالر |
(انڈین ایکسپریس نئی دہلی ۲۰۱۴۔۱۱۔۰۵)
داموںمیں ہیرپھیر کرنے والے ہی حکومتوں اور میڈیا کو قابو کرتے ہیں وہ مہنگائی کے لئے بڑھتی آبادی ، سوکھا، باڑھ، لڑائیاں اور نہ جانے کس کس کو ذمہ دار بتاتے ہیں مگر اوپر کے اعداد وشمار بتارہے ہیں کہ پیداوار بڑھ رہی ہے تو دام کم کیوں نہیں ہورہے ہیں۔ کم سے کم دام بڑھتے نہیں یا ایک اوسط کے مطابق بڑھتے مگر دام تواشیاء خوردونوش کے کئی گنا بڑھ گئے ہیں یہ کیوں ہوا؟
یہ تو صرف تین اہم معاملات ہیں جن سے یہ پتہ چلتاہے کہ دنیا میں آج جو بھی مسئلے ہیں چاہے امن وامان کا ہے، خوراک ہے، ماحولیاتی آلودگی یا روزگار کا ہے یا بڑھتی مہنگائی کا ہر ایک کی جڑ میں حضرتِ انسان کادولت مند، حکمراں طبقہ ہی موجود ہے مگر یہ گروہ کمالِ مکاری سے اس کاالزام جھوٹے گھڑے ہوئے مسائل پر تھوپ دیتا ہے۔ ان مسائل کی تفصیل میں جایا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سرمایہ دار، صنعت کار، حکمراں طبقہ کس طرح قوم، ملک، رنگ، نسل کے مفادات کے تحفظ کے نام پر قدرتی وسائل کی لوٹ مچاتے ہیں، دام بڑھانے کے لئے قدرتی وسائل کو ضائع کرتے ہیں، فصلوںکو دودھ کو ضائع کرتے ہیں، ملکوں کےد رمیان جنگیں بھڑکاتے ہیں۔ اور کمزور غریب عوام کو مسئلہ کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ مسئلہ آبادی نہیں ہے بلکہ حد سے بڑھا ہوا اسراف اور ضیاع وسائل ہے۔ جس سے فطرت کا نظام متاثر ہورہاہے اس کو اعتدال اور فطرت پر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ فطری اسلامی طریقہ پر ’’کلوشربوولاتسرفو الاعراف۔۳۱‘‘ کھائو، پیو، مگر اسراف نہ کرو اور میزان سے تجاوز نہ کرو (الرحمن) کی بنیاد پر عالمی حکومت یا حکومتوں کے درمیان (ضابطہ اخلاق) پروٹوکول طے ہو۔ ورنہ کرہ ارض ڈوبے گا تو سب غرق ہوں گے۔ بگاڑ اور فساد کے اصل مجرم بھی اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں پائیں گے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2015