امت مسلمہ کوئی نسلی یاجغرافیائی قوم نہیں جو کسی خاص نسل اور خاص ملک کی نمائندگی کرتی ہو۔ بلکہ یہ ایک آفاقی اور نظریاتی ملت ہے جس کا ایک خاص مقصد وجود اور خاص نصب العین ہے اور پوری دنیا میں اس کی دعوت اور اشاعت کے لیے برپا کی گئی ہے ۔ اس کا ایک لائحہ عمل ہے جس کی تکمیل پر وہ مامور ہے ۔ وہ مقصد وجود اور نصب العین کیا ہے ؟ قرآن کریم نے اس کی صراحت کرتے ہوئے کہا ہے ۔
کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہ(آل عمران۱۱۰)
’’تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہواور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایما ن رکھتے ہو‘‘ ۔
یعنی خدائے وحدہ لاشریک لہ پر ایمان لانا ، اس کی اطاعت کے لیے لوگوں کو بلانا اور اس کی نافرمانی سے لوگوں کو روکنا امت مسلمہ کا نصب العین ہے ۔ اس نصب العین کی تشریح قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مختلف لفظوں میں کی گئی ہے ۔ ایک جگہ کہا گیاہے ۔
وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیْداً (البقرہ ۱۴۳)
’’ اور اسی طرح ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’ امت وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔امت وسط کے لیے ایمان کی قوت، فکری صلابت، عمل میں استقامت، شدت پسندی سے اجتناب اور ذہنی و جذباتی اعتدال ضروری ہے۔ تبھی وہ شہادت کا فریضہ انجام دے سکتی ہے‘‘۔
جب تک یہ امت اس نصب العین پر کار بند رہے گی اور اللہ کے حکم پر چلتی رہے گی اللہ اس کی حفاظت کرتا رہے گا اور دشمنوں کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتا رہے گا ۔ جب یہ امت اپنا مقصد وجود بھول جائے گی ، اپنا لائحہ عمل ترک کردے گی اور اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرے گی تو اللہ اس سے اپنی مدد کاہاتھ اٹھالے گا اور وہ زوال پذیر ہوجائے گی ۔
زمین پر امت مسلمہ کی ضرورت اس کے ایمان و عمل کی خصوصیت اور انسانی افادیت کی وجہ سے ہے ، گروہی شناخت کی وجہ سے نہیںہے۔قرآن میںہے ۔
وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُم ( محمد : ۳۸)
’’اگرتم منھ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔
یہ سنت ِالٰہی ہے کہ جو قوم اللہ کے قانون کی تابع داری کرتی ہے اللہ کی طرف سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور جو قوم اللہ کی نافرمانی کرتی ہے وہ نامراد ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو خاص طور پر انسانی تاریخ کا یہ سبق پڑھایا ہے اورگذشتہ قوموں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے ۔
وَکَأَیِّن مِّن قَرْیَۃٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہِ فَحَاسَبْنَاہَا حِسَاباً شَدِیْداً وَعَذَّبْنَاہَا عَذَاباً نُّکْراً ،فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِہَا وَکَانَ عَاقِبَۃُ أَمْرِہَا خُسْراً، أَعَدَّ اللَّہُ لَہُمْ عَذَاباً شَدِیْداً فَاتَّقُوا اللَّہَ یَا أُوْلِیْ الْأَلْبَابِ الَّذِیْنَ آمَنُوا قَدْ أَنزَلَ اللَّہُ إِلَیْکُمْ ذِکْرا (الطلاق : ۸۔۱۰)
’’کتنی ہی بستیاں ہیں جنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سر تابی کی تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بری طرح سے سزادی ۔ انھوں نے اپنے کیے کامزہ چکھ لیا اور ان کا انجام کار گھاٹا ہی گھاٹا ہے ۔ اللہ نے (آخرت میں ) ان کے لیے سخت عذاب مہیا کررکھا ہے ۔ پس اللہ سے ڈرو اے صاحب عقل لوگو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کردی ہے‘‘۔
خطاکار قوموں پر عذاب فورا نہیں آتا بلکہ ان کو تذکیر اور تنبیہ کی جاتی ہے۔ تو بہ اور انا بت کا موقع دیا جاتا ہے۔ ان کو مہلت دی جاتی ہے پھر مواخذہ کیا جاتا ہے ،اللہ کہتا ہے وَاُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ (الاعراف: ۱۸۳) میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں میری تدبیر پر وقار ہے۔
اللہ کی معصیت انفرادی بھی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی ہوتی ہے۔ جو معصیت انفرادی کا مرتکب ہوتا ہے اللہ تعالی اسے کبھی معاف کرتا اور کبھی تنبیہ کردیتا ہے لیکن جو معصیت اجتماعی اور قومی سطح پر ہوتی ہے اس کی پکڑ سخت ہوتی ہے ۔ گنہگار قوم اگر اپنا محاسبہ کرتی ہے اور تو بہ کرتی ہے تو اسے سنبھلنے کا موقع دیا جاتا ہے ۔ اور اگر وہ معصیت کا مسلسل ارتکاب کرتی ہے اور اس پر اصرار کرتی ہے تو اسے عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالی نے مواخذہ اور محاسبہ کے اس نظام کی وضاحت کرتے ہوئے ارشادفرمایا ہے ۔
سُنَّتَ اللَّہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُون ( غافر:۸۵ )
’’یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے ۔ اور اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑگئے‘‘۔
معصیت اور نافرمانی کی بہت سے شکلیں ہیں جن کا ارتکاب قومیں اپنے مزاج خواہش ، ماحول اور مفاد کے لحاظ سے کرتی ہیں ، مگر وہ بڑی نافرمانیاں جو اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہیںاور جن کے باعث پچھلی قومیں ہلاک ہوئی ہیں حسب ذیل ہیں :
شرک باللہ
قوموں کی تباہی میں سب سے اہم گناہ ان کا کفر وشرک میں مبتلا ہونا اور اسے نظام زندگی بنا لینا ہے ۔ کفر وشرک کا نظریہ اللہ سے بغاوت اور خالق ومالک سے سرکشی ہے جو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ وَمَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْدا ً( النساء :۱۱۶)
’’اللہ کے یہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے۔ اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہوسکتا ہے ، جسے وہ معاف کرنا چاہے ۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو وہ گمراہی میں بہت دور نکل گیا‘‘۔
رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ سب سےبڑا گناہ کون ساہے ؟ تو آنجناب ﷺ نے فرمایا ’’ان تجعل لِلّٰہ ندا وقد خلقک‘‘ ( بخاری) سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ جس خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے اس کے ساتھ شرک کرو۔شرک عقیدہ ویقین اور فکر ونظر کا مرض ہے جس کا مریض ہلاک ہوتا ہے ۔ تاآ نکہ وہ شرک سے توبہ کر کے دوائے توحید کو اختیار کرلے ۔
دنیا پرستی
شرک ہی کے بطن سے نکلنے والی بیماری دنیا پر ستی ہے۔ جب خدا کا تصور ذہنوں سے اوجھل ہوتا ہے تو جزا وسزا کا تصور بھی ختم ہوجاتا ہے۔ یہ انسان کی زندگی کو زہر آلود کردیتا ہے اور وہ دنیا پرستی اور عیش وعشرت کو اپنا مقصد زندگی بنا لیتا ہے اور اسی تگ و دو میں اپنی تمام زندگی بسر کردیتا ہے ۔ قرآن پاک میں گزشتہ قوموں کی ہلاکت کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے ۔
وَلَکِن مَّتَّعْتَہُمْ وَآبَاء ہُمْ حَتَّی نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوا قَوْماً بُوراً (الفرقان ۱۸) اے اللہ تو نے ان کو اور ان کے آباواجداد کو فراوانی عطا کی یہاں تک کہ وہ تیری یاد بھلا بیٹھے اور یہ لوگ تھے ہلاک ہونے والے۔ عیش کوشی انسان کو جرائم پیشہ بنادیتی ہے۔ عیش وعشرت کی ہوس جرائم کے ارتکاب کو آسان کرتی ہے اور مجرم قوم عذاب اِلٰہی کا شکار ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مَا أُتْرِفُواْ فِیْہِ وَکَانُواْ مُجْرِمِیْن وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیَھْلِکَ الْقُریٰ بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ (ہود:۱۱۶)
’’ظالم لوگ جس عیش میں تھے اسی میں پڑے رہے اور وہ مجرم اور خطاکار بھی تھے تمہارا رب بستیوں کو ناحق ہلاک نہیں کرتا جبکہ وہاں کے لوگ اصلاح کرنے والے ہوں‘‘ ۔
دنیا پرستی اور عیش کو شی کا یہ مرض جب وسعت اور شدت اختیار کرلیتا ہے تو فسق وفجور میں تبدیل ہوجاتا ہے اور انسان کے سماجی ، روحانی اور اخلاقی وجود کو کھوکھلا کردیتا ہے پھر اسے ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ پہلے تو فسق وفجور میں مالداراور صاحب ثروت لوگ مبتلا ہوتے ہیں ،پھر یہ مرض متعدی ہوکرنا دار لوگوں کے دل اور دروازہ پر دستک دیتا ہے اور ان کو بھی ہلاکت سے دوچار کردیتا ہے۔ قرآن پاک نے اس حقیقت سے نقاب کشا ئی اس طرح کی ہے:
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّہْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُواْ فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیْراً(بنی اسرائیل: ۱۶)
’’ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہوجاتا ہے اور ہم اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں ۔
اخلاقی پستی
قوموں کے ادبار اور زوال میں اخلاقی گراوٹ کا بڑا دخل ہوتا ہے ۔ جب انسانی خوبیاں فنا ہوجاتی ہیں اور شیطانی حرکات کا صدور ہوتا ہے تو انسانی معاشرہ رو بہ زوال ہوتا ہے ۔ گذشتہ قومیں جن پر اللہ کا غضب ٹوٹا اخلاقی پستیوں کی مختلف انواع میں گرفتار تھیں۔ کوئی بدکاری میں ، کوئی معاشی بدعنوانی میں، کوئی تمردوسرکشی میں، کوئی بزدلی اور زرپرستی میں، کوئی بخل اور کنجوسی میں ، کوئی اسراف اور تبذیر میں، کوئی ہم جنس پرستی، میں کوئی استکبار میں ۔ وقت کے نبی نے اپنی قوم کی اخلاقی گراوٹ کو محسوس کیا اور اس کو اصلا ح کی دعوت دی ، جب ان لوگوں نے منھ موڑ ا تو اللہ تعالی نے ان کو برباد کردیا ۔ قرآن میں ان کی اخلاقی گراوٹ پر جامع تبصرہ اس طرح کیا گیا ہے۔
فَکُلّاً أَخَذْنَا بِذَنبِہِ فَمِنْہُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَیْْہِ حَاصِباً وَمِنْہُم مَّنْ أَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَمِنْہُم مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْأَرْضَ وَمِنْہُم مَّنْ أَغْرَقْنَا وَمَا کَانَ اللَّہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلَکِن کَانُوا أَنفُسَہُمْ یَظْلِمُون (العنکبوت،۴۰)
’’آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا ۔ پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھر اؤ کرنے والی ہوا بھیجی اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسادیا ۔ اور کسی کو غرق کردیا ۔ اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا ، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کررہے تھے ‘‘۔
مال ودولت کی فراوانی اور دنیا کی نعمت وحشمت انسانوں کو زوال سے نہیں بچاتی۔ یہ صرف روحانی وابستگی ا ور اخلاقی بلندی ہے جو زوال کا راستہ روک سکتی ہے ۔ماضی میں بہت سی قومیں شاندار تمدن کی حامل تھیں مگر دینی اور اخلاقی بگاڑ کے باعث وہ ہلاک ہوئیں ۔ قرآن پاک میں ان کا ذکر ہے ۔
أَلَمْ یَرَوْاْ کَمْ أَہْلَکْنَا مِن قَبْلِہِم مِّن قَرْنٍ مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الأَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّن لَّکُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاء عَلَیْہِم مِّدْرَاراً وَجَعَلْنَا الأَنْہَارَ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہِمْ فَأَہْلَکْنَاہُم بِذُنُوبِہِمْ وَأَنْشَأْنَا مِن بَعْدِہِمْ قَرْناً آخَرِیْن۔(الانعام: ۶)
’’کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم نے ہلاک کردیا جن کو زمین میں وہ مقام دیا تھا جو تم کو نہیں دیا اور ان پر آسمان سے مسلا دھار پانی برسایا اور نہریں بنائیں جو ان کے نیچے بہتی ہیں، ہم نے ان کے گناہوں کے بدلے ان کو ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری قوموں کو لا کھڑا کیا‘‘۔
برائی اور بے حسی
اخلاق باختگی جب قوموں کے اعمال وعادات میں رچ بس جاتی ہے تو ان مین نیکی اور بدی کی پہچان ختم ہوجاتی ہے ۔ برائیوں کی لذت ان کے دل ودماغ کو مسموم کردیتی ہے اور برائیاں بھلائیوں کی جگہ لے لیتی ہیں ۔ اب ہر براکام ان کو اچھا لگتا ہے اور نیک کاموں سے ان کی رغبت ختم ہوجاتی ہے ۔ یہی وہ مرحلہ ہوتاہے جہاں خیر شر بن جاتا ہے اور تعمیر کی جگہ تخریب در آتی ہے، فطرت سلیمہ رخصت ہوجاتی ہے، عقل پر پردے پڑجاتے ہیں، نگاہ سے بصیرت سلب ہوجاتی ہے، اور ہلاکت ان کامقدر ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں ہلاک شدہ قوموں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
وَعَاداً وَثَمُودَ وَقَد تَّبَیَّنَ لَکُم مِّن مَّسَاکِنِہِمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطَانُ أَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَکَانُوا مُسْتَبْصِرِیْن (العنکبوت ۔۳۸)
’’اور عاد وثمود کو ہم نے ہلاک کیا، تم وہ مقامات دیکھ چکے ہو جہاں وہ رہتے تھے۔ ان کے اعمال کو شیطان نے مزیّن کردیا اور ان کو راہِ حق سے روک دیا حالاں کہ وہ ہوشیار لوگ تھے ‘‘۔
نعمتوں کی ناشکری
اللہ تعالی نے انسانوں کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں ۔ ان نعمتون کی بدولت وہ زمین میں رہتا ہے۔چلتا پھرتا ہے اور خوش حال زندگی گذارتا ہے ۔ ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ انسا ن اپنے مالک کی شگر گذاری کرے ۔ اگر یہ تقاضا وہ پورا کرتا ہے تو مزید نعمتوں کا حقدار ہوتا ہے اور اگر ان کی ناقدری اور ناشکری کرتا ہے تو سزا کا مستحق ہوجاتا ہے۔ قرآن پاک میں ایسی بہت سی قوموں کی مثال دی گئی ہے جن کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے مالامال کیا مگر وہ ناشکری کرکے مستحق عذاب بن گئیں ۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ۔
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ کُفْراً وَأَحَلُّواْ قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَار(ابراہیم: ۲۸) ’’کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو بربادی کے گھر میں اتارا‘‘۔
فساد فی الارض
عقیدہ وعمل اور اخلاق وکردار کے بگاڑ کے ساتھ قوموں کی ہلاکت کا سبب فساد فی الارض بھی ہے ۔ اللہ تعالی نے اس زمین کو انسانوں اور دوسری مخلوق کے لیے جائے سکون اور ذریعہ امن بنایا ہے ۔ یہی اس کی بقا کا ذریعہ ہے اور اس کی ترقی کا راستہ ہے۔ جب کوئی گروہ اس زمیں میں خلل ڈالتا ہے، اس کے نظام کو منتشر کرتا ہے اور اس میں فساد برپا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تنبیہ کرتا ہے اور کہتا ہے :
وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا(اعراف : ۵۶)
’’زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ مچائو‘‘۔
مگر مفسد گروہ اپنی حرکتوں سے بعض نہیں آتا اور بگاڑ کا عمل جاری رہتا ہے تو اللہ اس کی ہلاکت کا فیصلہ یہ کہتے ہوئے کردیتا ہے إِنَّ اللّہَ لاَ یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْن(یونس:۱۸) اللہ تعالیٰ مفسدوں کے عمل کو درست نہیں کرتا ۔
ظلم واستحصال
فساد فی الارض ایک عمومی برائی ہے، اس کی بہت سی شکلیں ہیں مگر اس کی خطرناک اور متعین شکل ظلم ہے ۔ ظلم ایک بدترین جرم ہے جو انسانی معاشرہ کو برباد کردیتا ہے ۔ اللہ نے یہ دنیا اپنی رحمت سے بنائی ہے۔ اس میں عدل وانصاف کو میزان بنایا ہے ۔ اور انسانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ میزان عدل کو قائم رکھیں ۔ أَلَّا تَطْغَوْا فِیْ الْمِیْزَان (الرحمن:۸)
اللہ تعالی نے انسانی معاشرہ کو ظلم سے بچانے کی ہدایت کی ہے ۔ جب انسانوں پر ظلم ہوتاہے تو غضب اِلٰہی میں جوش آتا ہے۔ ظالموں کو ظلم سے باز رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔توبہ کرنے کی مہلت دی جاتی ہے، مگر جب ظلم کا سلسلہ دراز ہوتا ہے تو عذاب الٰہی کا کوڑا برسنے لگتا ہے اور ستم پیشہ لوگ اپنے کیفر کردار کو پہنچتے ہیں ۔ قرآن کہتا ہے :
وَکَذَلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ إِنَّ أَخْذَہُ أَلِیْمٌ شَدِیْدٌ (ہود:۱۰۲)
’’ اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے ۔ فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے‘‘۔
ظلم خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی اللہ کے غضب کا موجب ہے۔ لیکن وہ ظلم جو حکمراں طبقہ رعایا پر کرتا ہے ، طاقت ور کم زور پر کرتا ہے سب سے زیادہ باعث ہلاکت ہے ۔ اللہ تعالی نے اس سلسلہ میں فرعون کومثال عبرت بناکر پیش کیا ہے اور فرمایا ہے ۔
فَأَخَذْنَاہُ وَجُنُودَہُ فَنَبَذْنَاہُمْ فِیْ الْیَمِّ فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظَّالِمِیْن (القصص :۴۰)
’’آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا ۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا‘‘ ۔
عدل ومساوات امت مسلمہ کا بنیادی وصف ہے۔ ظلم کو مٹانا اور عدل کو قائم کرنا اس کی قومی ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء لِلّہِ وَلَوْ عَلَی أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ إِن یَکُنْ غَنِیّاً أَوْ فَقَیْراً فَاللّہُ أَوْلَی بِہِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْہَوَی أَن تَعْدِلُوا(النساء :۱۳۵)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، انصاف کے علم بردار اور خداواسطے کے گواہ بنو۔ اگر چہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر اورتمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میںعد ل سے باز نہ آؤ‘‘۔
باہمی افتراق
ظلم کے علاوہ قوموں کے زوال کا بڑا سبب باہمی افتراق ، انتشار اور نفاق ہے ۔ آپسی دشمنی ، اختلاف اور جنگ وجدال بربادی اورہلاکت کا کھلا ذریعہ ہے، وحدت بقا کا ذریعہ ہے اور اختلاف زوال کاسبب ہے ۔ اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو خاص طور پر انتشار سے بچنے اور اتحاد کو اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے ۔
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً (آل عمران:۱۰۳)
’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اوس نے تم پر کیا ہے ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دل جوڑد یئے اور اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘ ۔
اخوت اور محبت انسان کی طاقت ہے اور عداوت ونفرت اس کی موت کا پیش خیمہ ہے ۔ یہ امت جب تک اس وحدت کی حفاظت کرے گی ہلاکت سے محفوظ رہے گی ۔ اور جب اس میں افتراق وانتشار ہوگا وہ اس کی بربادی کا ذریعہ بنے گا۔اسی لیے اللہ تعالی تبارک تعالی نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا۔
وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ (الانفال:۴۶)
’’ آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کم زوری پیدا ہوجائے گی ۔ اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ‘‘۔
نفع رسانی
قدرت کے کارخانے میں بقائے انفع کا اصول ر ائج ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں صرف نفع بخش چیز باقی رہتی ہے اور ضرر رساں چیز ختم ہوجاتی ہے۔ پھولوں کو دامن میں جگہ دی جاتی ہے، کانٹوں کو راستہ سے ہٹا دیا جاتا ہے ۔ امت مسلمہ کو اللہ تعالی نے خیر امت بنایا ہے جو تمام انسانوں کی خیر خواہی کرتی ہے اور ان کی بھلائی کے لیے کام کرتی ہے۔ اس لیے اس کا نمایا ں وصف انسانوں کی خیر خواہی اورنفع رسانی ہے۔ جب تک یہ امت انسانوں کی خیر خواہ اور نفع رساں رہے گی اس وقت تک اس کی ضرورت باقی رہے گی اور یہی اس کے وجود کی ضمانت ہوگی اور جب یہ امت اپنی افادیت کھودے گی تو اس کے وجود کی ضمانت بھی نہیں ہوگی ۔ اسی لیے نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ خیر الناس من ینفع الناس (ترمذ ی) سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جو دوسرں کے لیے نفع بخش ہیں ۔ بقائے انفع کے اس اصول کو قرآن پاک نے تمثیلی پیرایہ میں اسطرح بیان کیا ہے ۔
أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَسَالَتْ أَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَّابِیْاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِیْ النَّارِ ابْتِغَاء حِلْیَۃٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاء وَأَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الأَمْثَال(الرعد:۱۷)
’’ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا ۔ پھر جب سیلاب اٹھاتو سطح پر جھاگ بھی آگئے اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوںپر بھی اٹھے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں ۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے ۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے ۔ اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہرجاتی ہے ۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے‘‘ ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے بقا اور ارتقاء کے لیے کچھ اصول وقوانین مقرر فرمائے ہیں ۔ ان کی پاسداری کر کے انسان اپنے آپ کو ہلاکت اور بربادی سے بچا سکتا ہے اور نسل انسانی کو ترقی سے ہم کنار کر سکتا ہے۔ لیکن جب وہ ان اصولوں کو توڑے گا ، ان قوانین کی خلاف ورزی کرے گا اور تمر دوسرکشی کا مظاہر ہ کرے گا تو قدرت کے تاز یانوں کا سامنا کرے گا ۔اس کی مدت حیات ختم ہوجائے گی اور وہ بربادی کا شکارہوگا۔ یہی قوموں کی تاریخ بتاتی ہے یہی انبیاء کی دعوت سے معلوم ہوتا ہے۔یہی قرآنی بیانات کا حاصل ہے اور اسی سبق کو ہمیں یاد رکھنا ہے ۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2018