انسانی تاریخ کے عجائب میں سے ہے کہ ایک ایسی قوم، جو تہذیب وتمدن سے یکسر ناآشنا، جنگ وجدال اور لوٹ مارکی خوگر اور حلال و حرام کی تمیز سے بے گانہ تھی،وہ ایک دم تہذیب و شرافت اور امن و امان کی علم بردار کیسے بن گئی؟ جو جہالت کی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاںماررہی تھی، وہ اچانک علم کی شمعیں کیوں کر جلانے لگی؟ جس کے افراد ایک دوسرے کے اس قدر خون کے پیاسے رہتے تھے کہ صدیوں کی معرکہ آرائیوں سے ان کی دشمنی کی شدت میں کمی نہ آتی تھی، وہ چشم زدن میں کیسے باہم شیرو شکر اور بھائی بھائی بن گئے۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے پر اپنی جان، مال، جائیداد، گھر بار اور دوسری قیمتی اور محبوب چیزیں نچھاور کرنے لگے؟ جن کی نجی زندگیاںبے حیائی، آوارگی، عریانیت اور فحاشی میں غرق رہتی تھیں، وہ کیسے عفت و پاکیزگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے لگے؟ تجزیہ کرنے والے جو بھی تجزیہ کریں اور اسباب و علل تلاش کرنے والے جو بھی توجیہات کریں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندر یہ بنیادی تبدیلی قرآن کریم کی بہ دولت واقع ہوئی تھی۔ قرآن ہی تھا جس نے یکسر ان کی کایاپلٹ دی تھی، ان کو ذلّت و نکبت کی کھائی سے عزت و عظمت کے بامِ عروج پر پہنچادیاتھا۔ انھیں جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی میں لے آیاتھا اور وحشت وبربریت کے خوگر ان کے مزاج کو بدل کر انھیں تہذیب و شایستگی کاامام بنادیاتھا۔ لیکن جوں جوں قرآن کریم سے ان کا تعلق کم زور ہوتاگیا، وہ مصارف زندگی سے دور ہٹتے گئے، دوسری قومیں ان پر شیر ہوگئیں اور ذلّت وبے توقیری ان کا مقدر بن گئی۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
صحابۂ کرام کی زندگیا ںقرآن کریم سے اثرپزیری اور اس کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنے کااولین نمونہ ہیں۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کا قرآن سے کیسا تعلق تھا؟ قرآنی آیات نازل ہوتی تھیں اور وہ انھیں سنتے تھے تو ان پر کیااثر ہوتاتھا؟ ان کی تلاوت کرنے اور انھیں یاد کرنے کا، ان کاکیا معمول تھا؟ اس کے احکام و تعلیمات سے انھوں نے کس طرح اپنی زندگیوں کو آراستہ کیاتھا؟ اس کاپیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے انھوںنے کتنی جدوجہد کی تھی ؟ اور اس کا حکم نافذ کرنے اور اس کااقتدار قائم کرنے کے لیے انھوں نے کیا قربانیاں دی تھیں؟
اس مضمون میں صحابۂ کرام کے تلاوت قرآن کے معمولات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔ قرآن کریم سے ان کے تعلق کے دیگر پہلوئوں پر ان شائ اللہ آیندہ اظہار خیال کیاجائے گا۔
قرآن کریم سے تعلق کا اوّلین اظہار اس کی تلاوت سے ہوتاہے۔ صحابہ کرام اس کے غایت درجہ مشتاق رہتے تھے۔ وہ اپنے شب وروزکے زیادہ تر اوقات اس کی تلاوت میں گزارتے تھے۔ اس کے لیے انھوںنے قرآن مجید کو مختلف ٹکڑوں ﴿احزاب﴾ میں تقسیم کررکھاتھا۔
اوس نامی ایک تابعی بیان کرتے ہیں کہ: میں نے متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کیاکہ آپ لوگوں نے قرآن کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کررکھاہے۔ اس اعتبار سے ایک ٹکڑے میں کتنی سورتیں ہوتی ہیں؟ انہوںنے جواب دیا: تین، پانچ، سات، نو ، گیارہ اور اخیر کی تمام چھوٹی سورتیں ایک ٹکڑے میں شامل تھیں۔]سنن ابی دائود، ابواب شہر رمضان، باب تخریب القرآن، ۱۳۹۳[
صحابہ ٔ کرام کے غایت شوق کایہ عالم تھاکہ وہ کم سے کم وقت میں پورا قرآن مجیدپڑھ لینا چاہتے تھے۔ اس معاملے میں غلو سے روکنے اور اعتدال کی روش پر قائم رکھنے کے لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض پابندیاں عائد کردی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے ایک موقعے پر دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! میں قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کروں؟ فرمایا: ایک مہینے میں۔ انھوںنے عرض کیا: مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ فرمایا: بیس دن میں ختم کرلو۔ انھوں نے اسی طرح اور بھی کم دنوں میں ختم کرلینے پر اپنی قدرت ظاہر کی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسم نے ان کی رعایت سے پندرہ دن، پھر دس دن، پھر سات دن میں ختم کرنے کی اجازت دی، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:
اِقْرأ فِی سَبْعٍ وَّلَا تَزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ
’سات دن میں پورا قرآن پڑھ لو، اس سے کم میں ہرگز ختم نہ کرو۔‘
]سنن ابی دائود، کتاب شہر رمضان، باب فی کم یقرأ القرآن،۱۳۸۸، صحیح بخاری:۲۵۰۵،۵۰۵۴، صحیح مسلم:۱۱۵۹[
بعض روایتوں میں ہے کہ ان کے اصرار پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تین دنوں میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ لیکن جب انھوں نے عرض کیاکہ وہ اس سے بھی کم وقت میں پورا قرآن پڑھ سکتے ہیں تو آپﷺ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا:
لَایَفْقَہُ مَنْ قَرَاُہ‘ فِی اَقَلٍّ مِّنْ ثَلَاثٍ
’جو شخص تین دنوں سے کم وقت میں قرآن ختم کرے گا، وہ ٹھیک طریقے سے اسے سمجھ نہیں سکتا۔‘
] بخاری، مسلم، ابودائود، حوالہ بالا- امام نووی ؒ نے متعدد صحابہ، تابعین اور بعد کے دور کے بزرگوں کے نام تحریر کیے ہیں، جو ایک دن میں قرآن ختم کرلیتے تھے، بل کہ ان میں سے بعض ایک دن میں دو قرآن ختم کرلیتے تھے ﴿ملاحظہ کیجیے: نووی، ابوزکریا یحییٰ بن شرف، التبیان فی آداب حملۃ القرآن، تحقیق و ترویج: عبدالقادر الأرنؤوط، دمشق، سنۃ طبع درج نہیں، ص: ۴۶-۴۹﴾ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسا کرنا غیرمسنون معلوم ہوتاہے [
تلاوت قرآن کاایک ادب یہ ہے کہ اس کو بہت جلدی جلدی نہ پڑھاجائے کہ محسوس ہوکہ سرکابوجھ اتارا جارہاہے۔ بل کہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھاجائے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت قرآن میں ایک ایک حرف صاف سنائی دیتاتھا۔
] سنن ابی دائود، کتاب الصلاۃ، باب استحباب الترتیل فی القرأۃ، کتاب قیام اللیل، باب ذکر صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل، ۱۲۲۹، مسند احمد، ۴/۲۹۴،۳۰۰، علامہ البانی نے اسے ضعیف قراردیا ہے [
یہی معاملہ صحابہ کرام کابھی تھا۔ ایک موقعے پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا:
’میں ترتیل کے ساتھ صرف ایک سورہ پڑھوں، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ بہتر ہے کہ ﴿بغیر ترتیل کے﴾ پورا قرآن پڑھ لوں۔‘ ] نوویؒ، التبیان، ص: ۷۰ [
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے سامنے ایک شخص نے کہا: میں مفصل سورتیں ﴿سورہ الحجرات جو ۲۶ویں پارے میں ہے،سے سورۂ ناس تک﴾ ایک رکعت میں پڑھ لیتا ہوں۔ انھوںنے جواب دیا: ہَذّاًکَھَذِّ الشعر ﴿اس کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو اشعار کی طرح جلدی جلدی پڑھ لیتے ہو﴾۔
] صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب الترتیل فی القرأۃ، ۵۰۴۳، صحیح مسلم: ۸۲۲[
اس موقعے پر انھوں نے مزید فرمایا: ’کچھ لوگ قرآن اس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ حالاں کہ قرآن مجیدجب دل میں اترجائے اور اس میں جاگزیں ہوجائے تب نفع دیتاہے۔‘
] صحیح مسلم، کتاب کتاب صلاۃ المسافرین، باب ترتیل القرأۃواجتناب الھذ،:۲۲۸[
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیاہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
زَیّنُوا القُراٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ
’قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو‘
] سنن ابی دائود، کتاب الصلاۃ، باب استحباب ترتیل القرآن فی القرأۃ، ۱۴۶۸، سنن نسائی، ۱۰۱۵، سنن ابن ماجۃ، ۱۳۴۲[
دوسری حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالقُرآنِ فَلَیْسَ مِنّاَ
’جس شخص نے قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھا، وہ ہم میں سے نہیں ہیں‘
] سنن ابی دائود: ۱۴۶۹،۱۴۷۰، سن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۳۷، مسند احمد،۱/۱۷۲،۵۷۱،۱۷۹[
اسی بناپر صحابۂ کرام بہت خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ جس سے سننے والوں پر محویت طاری ہوجاتی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کے حالات میں بیان کیاگیاہے کہ انھوںنے اپنے گھر کے باہر نماز کے لیے ایک جگہ خاص کررکھی تھی، جہاں بیٹھ کر قرآن مجیدکی تلاوت کیا کرتے تھے۔ ان کی آواز سن کر مشرکین مکہ کی عورتیں اور بچّے اکٹھے ہوجاتے تھے اور بڑے غورو انہماک سے قرآن مجیدسنتے تھے۔ یہ دیکھ کر مشرکین اس اندیشے میں مبتلا ہوگئے کہ کہیں قرآن ان پر اپنا اثر نہ دکھانے لگے اور وہ ایمان نہ لے آئیں۔ چنانچہ انھوںنے مکہ کے بااثر سردار ابن الدغنّہ ﴿جس نے حضرت ابوبکرؓ کو ’جوار‘ دے رکھی تھی﴾ سے شکایت کی۔ اس نے انھیں اس سے روکناچاہا تو انھوں نے اس کی جوار واپس کردی ۔
] ابن ہشام، المیسرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ بیروت،۲۰۰۹ء، ۱/۳۴۴-۳۴۵[
خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو شہرت حاصل تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ دیکھاکہ ایک شخص بہت خوش الحانی سے قرآن مجیدکی تلاوت کررہاہے۔ دریافت فرمایاَ یہ کون ہے؟ لوگوں نے ان کا نام عبداللہ بن قیسؓ بتایا۔ آپﷺ نے فرمایا:
اُعْطِیَ مِزْمَاراً مِّنْ مَزَامِیْرِ آلِ داؤد
’انھیں نغمہ دائودی عطا کیاگیاہے‘
]سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۴۱[
مشہور صحابیٔ رسول حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ ہی کااصل نام عبداللہ بن قیسؓ تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ان سے ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَورأیْتَنِی وَاَنَا اَسْتَمِعُ لِقِرأتِکَ البَارِحَۃَ، لَقَدْاُوتِیْتَ مِزْمَاراً مِّنْ مَزَامِیْرِ آل داؤدَ
’میں نے گزشتہ رات تمھاری قرأت سنی۔ بہت متاثر ہوا۔ تمھیں نغمہ داؤودی عطاکیاگیاہے‘
] صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب حسن الصوت بالقرأۃ للقرآن، ۵۰۴۸، صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن، ۷۹۳[
ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیںکہ:’ میں نے چنگ وبربط کی آواز کو بھی ابوموسیٰ اشعریؓ کی خوش الحانی قرأت سے بہتر نہیں پایا۔
] ابن حجرعسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، دارالمعرفۃ بیروت، ۲۰۰۴ء ۲/۱۱۱۲، تذکرہ حضرت عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعریؓ [
یہ صرف حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ہی کی خصوصیت نہ تھی، بل کہ ان کے پورے قبیلے کا امتیازی وصف تھا۔ ایک غزوے کے لیے سفر کے دوران صحابۂ کرام نے ایک جگہ پڑائو ڈالا۔ اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’اگرچہ میں نے دن میں نہیں دیکھاتھا کہ اشعریوں نے کس جگہ اپنے خیمے لگائے ہیں، لیکن رات میں ان کی قرآن خوانی سن کر مجھے ان کی جائے قیام کا پتا چل گیاتھا‘۔ ]صحیح بخاری، ۴۲۳۲، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل الاشعر یین، ۲۴۹۹[
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی خوش الحانی کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ان سے قرآن سننے کی فرمایش کیاکرتے تھے۔ روایات میں آتاہے کہ وہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی خدمت میںحاضر ہوتے تھے تو حضرت عمرؓ ان سے فرماتے تھے: ہمیں اللہ کا شوق دلائو، وہ فوراً قرأت شروع کردیتے۔ [ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حوالہ بالا[
ان کی قرأت کو امہات المومنین بھی نہایت شوق سے سنتی تھیں۔
] ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دارالفکر بیروت، ۱۹۹۴ء، تذکرہ ابی موسیٰ الاشعری، ۲/۱۱[
ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہیں گئی ہوئی تھیں۔ انھیں گھر واپس آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی تو عرض کیا: آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب قرآن مجیدپڑھ رہے تھے۔ میں نے ایسی قرأت کبھی نہیں سنی۔ آپﷺ ان کے ساتھ ہولیے۔ دیکھا تو وہ حضرت سالم مولیٰ ابن ابی حذیفہؓ تھے۔ اس موقعے پر آپﷺ نے فرمایا:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذیْ جَعَلَ فِی اُمَّتی مِثْلَکَ
’اللہ کا شکر ہے کہ میری امت میں تم جیسے لوگ موجود ہیں‘
]ابن حجر عشقلانی، الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،۱/۶۸[
ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے حضرت عبدالرحمن بن سائبؓ کی قرأت قرآن کریم سن کر ان کی تعریف کی اور فرمایا: ’تم قرآن بہت خوش الحانی سے پڑھتے ہو۔‘
] سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۳۷[
قرآن کریم نے سابقہ قوموں کے بعض اصحاب علم کاتذکرہ تحسین و توصیف کے انداز میں کرتے ہوئے ان کاایک وصف یہ بھی بیان کیاہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان پر گریہ و خشیت طاری ہوجاتی ہے:
وَیَخِرُّوْنَ لِلاذَقَانِ یَبکُوْنَ وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعً ﴿الاسراء:۱۰۹﴾
’اور وہ روتے ہوئے منہ کے بل گرجاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتاہے۔‘
احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابھی یہی وصف مذکور ہے۔ حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات آپﷺ نمازکے لیے کھڑے ہوئے۔ جب سورۂ مائدہ کی اس آیت پر پہنچے:
اِن تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴿المائدہ:۱۱۸﴾
’’اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ غالب اور دانا ہیں‘
تو باربار اسی آیت کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔
] سنن نسائی: ۱۰۱۰، سنن ابن ماجہ: ۱۳۵۰[
یہی حال تمام صحابۂ کرام کابھی تھا۔ وہ جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے تو خود ان پر بھی بے خودی طاری ہوجاتی تھی۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہوجاتے تھے۔ قرآن کریم کی کسی آیت سے ان پر خاصا تاثر ہوتاتھا تو اسی کو بار بار دہراتے تھے۔ اس کامضمون عذاب سے متعلق ہوتا تو اس سے اللہ کی پناہ کے طالب ہوتے تھے اور شدّت گریہ سے ان کی حالت غیرہوجاتی تھی۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ سے کچھ لوگ یمن سے ملنے آئے۔ ان کے سامنے انھوںن ے قرآن کریم کی تلاوت کی اور رونے لگے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایاَ ایسا ہی حال ہمارا بھی ہوتاتھا۔
حضرت عمربن الخطابؓ نے ایک مرتبہ فجر کی نماز میں سورۂ یوسف پڑھی تو زارو قطار رونے لگے۔ دوسری روایت میں اسے عشاء کی نمازبتایاگیاہے۔ ممکن ہے، یہ الگ الگ مواقع کابیان ہو۔ روایت میں ہے کہ وہ اتنے زور زور سے رونے لگے تھے کہ پیچھے مقتدی ان کے رونے کی آواز سنتے تھے۔
حضرت عباد بن حمزہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اسمائؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ قرآن کی تلاوت کررہی تھیں۔ جب سورۂ طور کی اس آیت پر پہنچیں:
فَمَنَّ اللَّہُ عَلَیْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ ﴿الطور:۲۷﴾
’آخرکار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسادینے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا۔‘
تو اس پر ٹھہرٹھہر کر بار بار اسی کو دہرانے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے عذاب جہنم سے بچانے کی دعا کرنے لگیں۔ میں نے دیکھاکہ وہ میری طرف متوجہ نہیں ہیں تو میں وہاں سے نکل کر بازار چلاگیا۔ وہاں اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ ان کی خدمت میں پہنچا تو دیکھاکہ وہ اسی آیت پر ٹھہری ہوئی ہیں اور بار بار اسی کو پڑھ رہی ہیں اور اللہ سے دعا کررہی ہیں۔
حضرت تمیم داریؓ ایک رات سورۂ جاثیہ پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے:
أًمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ أّن نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴿الجاثیہ:۲۱﴾
’کیا وہ لوگ جنھوںنے بُرائیوں کا ارتکاب کیاہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انھیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کردیں گے۔‘
تو مسلسل اسی کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔
حضرت ابورجائؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کے چہرے پرمسلسل رونے کی وجہ سے نشانات پڑگئے تھے۔ ]نوویؒ، التبیان، ص:۶۷،۶۹[
صحابۂ کرام اپنے زیادہ سے زیادہ اوقات تلاوتِ قرآن کریم میں گزارتے تھے۔ وہ دن میں بھی اس کی تلاوت کرتے تھے اور رات میں بھی۔ وہ گھر میں بھی تلاوتِ قرآن میں مصروف رہتے تھے اور مسجد میں بھی۔[بخاری:۵۰۱۱، ۵۰۱۸، ۵۰۳۷ ، ۵۰۳۸ ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے برآمد ہوئے تو مختلف صحابہ کو اپنے اپنے انداز سے تلاوتِ قرآن مجیدکرتے ہوئے پایا۔ آپؓ نے فرمایا:
اقْرَأُ فَکُلٌّ حَسَنٌ ویَحَیٰ اَقَوَامٔ یُقِیْمُوْنَہ‘ کَمَا یُقَامُ القِدْحُ، یَتَعجَّلُوْنَہ‘ وَلَایَتَاَجَّلُوْنَہ‘
’پڑھے جائو، سب کاطرزاچھاہے۔ کچھ لوگ آئیں گے جو قرآن کو تیر کی طرح سیدھا کریں گے، لیکن ان کامقصد دنیاہوگی آخرت نہ ہوگی۔‘
] سنن ابی دائود، کتاب الصلاۃ، باب مایجزیٔ الأمی والأعجمی من القرأۃ،۸۳۰]
ایک مرتبہ آپﷺ نے صحابہ کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کِتَابُ اللّٰہِ وَاحِدٌ وَمِنْکُمْ الاحمرُ وَمِنکُمْ الاَبْیَضُ، وَمِنکُمُ الاَسْوَدُ
’اللہ کاشکر ہے۔ اس کی کتاب ایک ہے، لیکن تم میں سرخ، سفید اور سیاہ قسم کے لوگے ہیں۔‘[سنن ابی دائود، حوالہ بالا، ۱۳۸[
ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے مسجد میں لوگوں کی قرآن پڑھنے کی گونج سنی تو فرمایا:
’یہ لوگ قابل مبارک مبادہیں۔ ایسے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھے۔‘
] نوویؒ، التبیان، ص: ۸۶[
سخت مصیبت اور پریشانی کے عالم میں بھی صحابہ کے اس شوق میں کوئی کمی نہ آتی تھی اور قرآن ان کے لیے تسکین اور طمانیت کا باعث بنتاتھا۔ روایت میں ہے کہ جس وقت بلوائیوں نے خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے گھر پر حملہ کیا، وہ قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے اور اسی حالت میں ان کی شہادت ہوئی تھی۔
] ابن عبدالبر، الاستیصاب فی معرفۃ الاصحابہ تذکرہ عثمان بن عفان، ۳/۸۷[
تلاوت قرآن مجید کا ایک ادب یہ ہے کہ مصحف کی ترتیب کو ملحوظ رکھاجائے۔ ترتیب کی رعایت کے بغیر اِدھر اُدھر سے پڑھ لینا یا الٹی ترتیب سے پڑھنا مناسب نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کہا: ’فلاں شخص قرآن مجید کو الٹی ترتیب سے پڑھتاہے۔‘ انھوںنے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: ذٰلِکَ مَنْکُوسُ القَلْبِ ﴿وہ دل کااندھا ہے﴾]النوویؒ، التبیان، ص:۷۷[
قرآن کی تلاوت کرتے وقت پوری سنجیدگی، انہماک، توجہ اور وقار کو ملحوظ رکھناچاہیے۔ دورانِ تلاوت اِدھراُدھر دیکھنا، کوئی دوسرا کام کرنے لگنا، کسی سے بات چیت شروع کردینا موزوں نہیں ہے۔ اس سے غیردل چسپی اور غیرسنجیدگی کااظہارہوتاہے۔ یہ قرآن مجیدکے تعلق سے مناسب رویّہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں آتاہے کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت شروع کرتے تھے تو جب تک اس سے فارغ نہ ہوجاتے، کسی سے بات نہ کرتے تھے۔ ]صحیح بخاری، کتاب التفسیر، ۴۵۲۶[
قرآن کی تلاوت خود کرنے کے ساتھ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے سے اسے سناجائے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات میں سے تھا۔ بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے خواہش کی کہ مجھے قرآن مجید سنائو۔ انھوں نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا: آپ کو قرآن سنائوں، جب کہ وہ تو آپ ہی پر اترا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں میں اسے دوسرے سے سننا چاہتاہوں ۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: میں نے سورۂ نسائ ابتدائ سے پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ جب میں آیت نمبر ۱۴ پر پہنچا تو آپﷺ نے فرمایا: رک جائو۔ وہ آیت یہ ہے:
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَ ؤُلائ شَہِیْداً﴿النساء :۴۱﴾
’پھرسوچوکہ اُس وقت یہ کیاکریںگے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں ﴿یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو﴾ گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔‘
میں آپ کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھاکہ آپ کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو جاری ہیں۔
] بخاری: ۴۵۸۲ و دیگر مقامات، مسلم: ۸۰۰، ابودائود: ۳۶۶۸، ترمذی: ۳۰۲۴، ۳۰۲۵[
اوپرگزراکہ حضرت عمرؓ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے فرمایش کرکے قرآن سناکرتے تھے۔ آج کے دور میں قرأت قرآن کی ریکارڈنگ سے بھی یہ کام لیاجاسکتا ہے۔ دنیا کے مشہور قرأکی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اسے ٹیپ ریکارڈ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل ، سی پی پلیر اور دوسرےآلات کی مدد سے سناجاسکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2011