مدارس کا کردار
ہندوستان میں دینی مدارس و مراکز کی طویل تاریخ ہے۔ مدرسوں نے اسلام کے احیاء و سربلندی، اوراسلامی ثقافت و تہذیب کی حفاظت کے لیےکوشش کی ہے۔ مغربی یلغار کا مقابلہ ، علوم شرعیہ کی ترویج اور امت میں اسلامیت کی بقاء کی جدوجہدسے ان کی تاریخ رہی ہے۔ ہندوستانی علماء نے سر دھڑ کی بازی لگاکر اپنا فرض ادا کیا ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں رونما ہونے والی سیاسی، سماجی، ثقافتی تبدیلیوں اور انقلابات کا نوٹس لیا۔ ملک کے طول و عرض میں مدارس کے جال بچھا دیئے۔ ان مدارس نے غیر معمولی خدمت انجام دی جہاں فتنے سر اٹھا رہے تھے وہاں صبر و استقامت اور اولوالعزمی سے صورتحال کو تبدیل کیا۔ مسلم آبادیوں کی رہنمائی کے لیے افراد فراہم کیے جنہوں نے مساجد و مکاتب میں امامت و تعلیم کی ذمہ داری ادا کی اور معلمانہ کردار نبھایا۔
مدارس اور اہل مدارس پر مختلف مرحلے آئے، زمانہ گزرتا ہے تو فکر پر جمود طاری ہوجاتا ہے ٹھہرا ہوا پانی مفید نہیں رہتا، اسی طرح مختلف اسباب کی بنا پر مدارس وہ کردار ادا کرنے سے غافل ہوگئے جس کی ضرورت تھی اور ہے، بعض مدارس کیفیت سے زیادہ کمیت پر زور دینے لگے، وہاں سے فارغ ہونے والے افراد اپنے فرض منصبی یعنی امامت و قیادت کے اہل نہ رہے ۔
زمانہ کے اثرات سے مختلف احوال طاری ہوا کرتے ہیں، تبدیلیاں آتی ہیں ان کے اسباب خارجی بھی ہوتے ہیں اور داخلی بھی، ایسی مشکلات سے نکلنے کا طریقہ ’’تجدید‘‘ ہے۔ ایمان کے سلسلہ میں کہا گیا کہ اس کی تجدید کرتے رہا کرو، اسلام کے سلسلہ میں یہ نظام بنایا گیا کہ ہر سو سال پر ایک فرد ایسا ہوگا جو امت پر طاری غفلت و جمودکو دور کرے گا۔ سیاہی کو چاک کرکے، صاف ستھرا حقیقی پیغام حق پیش کرے گا۔ تو پھر یقیناً ضرورت ہے کہ عصر حاضر کی غیر معمولی تبدیلیوں اور انقلابات کے پیشِ نظر، نئے مسائل کے حل کے لیے وارثین علوم نبوت کو تیار کرنے کی کوشش کی جائے ۔مطلوب یہ ہے کہ ان میں ساز کے ساتھ سوز بھی پیدا ہو، جب تک انبیائی مزاج ، نہ ہوگا ، وہ اصلاح کا کام نہ کرسکیں گے اور نہ دعوت کا، یا سماج و ملک کی ترقی کا۔اہل فکر نے مدارس کی صورتحال کا ادراک کیا احساسات کا اظہار کیا، تحریریں لکھیں، مخلصین کو متوجہ کیا۔ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے بھی مدارس کو اعلیٰ مقاصد کی جانب متوجہ کیا۔
مسائل
مسائل کئی طرح کے ہیں، تہذیب حاضر، مادہ پرستی اور تاریخ سے ناواقفیت نے کمزور یاں امراض پیدا کیں جنہوں نے بلند مقاصد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔بیسویں صدی میں ہندوستان میں مدارس کے کردار پر بحثیں ہوئیں، مضامین شائع ہوئے ، مدارس کے سروے کیے گئے، ریسرچ و تحقیق کا آغاز کیا گیا ۔ اس کے بعد سمیناربھی منعقد ہوئے۔ ان کوششوں سے دو قسم کے احساسات پیدا ہوئے، پہلا تأثر تو یہ پیدا ہوا (جو منفی ہے) کہ مدارس کے نصاب و نظام میں کسی طرح کی تبدیلی پسندیدہ نہیں، تبدیلی کا خیال ان لوگوں کا ہے جو مدرسہ بیزار یا مدرسہ مخالف ہیں یا دین سے واقف نہیں۔
دوسرا تأثر یہ پیدا ہوا کچھ مسائل اورباتیں ایسی ضرور ہیں جن پر ہمیں غور کرنا چاہئے،جوکمیاں اور نقائص ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، نظام و نصاب کا گہرائی سے تجزیہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ بعض ہندوستانی علماء نے توازن کے ساتھ گفتگو کی اور کوشش بھی کی ۔
اہم سوالات سامنے آئے یعنی ہندوستانی علماء کس طرح قائدانہ کردار ادا کریں اور غیر مسلموں کے درمیان کس طرح داعیانہ رول انجام دیں۔ دنیا میں اٹھنے والے سوالات کا کس طرح جواب دیں۔ یہ بنیادی باتیں ہیں جو قابل غور ہیں نبوت کے وارثین سے اسلام کی حقیقی نمائندگی کی توسیع کی جاتی ہے۔
نمایاں کمزوریاں
مدارس و علماء کی کوششوں اور کاوشوں کی تحسین کے ساتھ کمزور یوں کا ادراک بھی ضروری ہے۔ بعض کمزوریاں یہ ہیں: تحمل کی کمی، اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنا، تعمیری اور علمی تنقید کے بجائے تنقیص ، اتحاد و تعاون کے بجائے مخاصمت، نامطلوب اور مسابقت بسا اوقات نئے مدرسے تیزی سے وجود میں آتے ہیں جو وسائل و ذرائع اکٹھا کرتے اور سماج میں نفوذ و قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر محرکات درست نہیں ہوتے حالیہ دنوں میں ہندوستانی اردو اخبارات میں محتاط الفاظ میں چند مضامین آئے جن سے اس تاثر کی تائید ہوتی ہے ۔
سن 2000ء میں دہلی کے ذاکر باغ میں مولانا بدر الحسن قاسمی صاحب کے کمرے میں ایک غیر رسمی نشست ہوئی۔ نشست میں اس موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی کہ اکیسویں صدی کا عالم کیسا ہونا چاہئے، یعنی اس صدی کے تقاضے کیا ہیں اور اس صدی میں جو تبدیلیاں اور نئے چیلنجز آرہے ہیں وہ کیا ہیں؟ یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحبؒ دوسرے کمرے سے اٹھ کر آگئے اور وہ بھی اس گفتگو میں شریک ہوگئے۔ انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کا عالم میری رائے میں ایسا ہونا چاہئے جو انسانیت نواز، خلق خدا سے محبت رکھنے والا اور انسانوں کی خدمت کرنے والا ہو، ایک جانب خود اسلام کی تہذیبی ، تمدنی اورعلمی تاریخ سے آگاہ و آشنا ہو اور دوسری طرف دیگر اقوام کی تاریخ، نفسیات اور ان کی زبان سے واقفیت رکھتا ہو ان کی زبان میں گفتگو کرسکتاہو ان کی کتابوں کو پڑھ سکتا ہو اور عصر حاضر کے تقاضوں سے واقف ہو۔ اس کے لئے دل و دماغ میں وسعت پیدا کرنی ہوگی اور نئے وسائل و آلات کے استعمال پر مہارت حاصل کرنی ہوگی۔ جب تک یہ بنیادی چیزیںاکیسویں صدی کے عالم کے پاس نہ ہوں گی ،وہ عہد جدید میں اٹھنے والے سوالات و اشکالات کا جواب نہ دے سکے گا، نہ دیگر قوموں کے درمیان رہ کر ان کے سماجی و ثقافتی حقوق ادا کرسکے گا جو بحیثیت انسان اس سے عائد ہوتے ہیں۔
مولانا بدر صاحب نے کہا کہ ہاں! یہ تو ہے، مگر میری رائے میں اس کے اندر اختصاص پیدا کرنے کے لئے ایک نئے نظام مطالعہ کی ضرورت ہے۔ جب تک وہ بین الاقوامی تحقیقی اداروں (تھنک ٹینک) کے نہج و تحقیقات سے باخبر نہ ہوگا، ترقی یافتہ ممالک کے علوم و زبانیں نہ سیکھے گا وہ کیا کرسکے گا، جب تک وہ ہندوستان کے مختلف مذاہب یہاں تحریکات و شخصیات کتابوں اور اداروں سے براہ راست واقف نہ ہو گا اور تقابلی مطالعۂ ادیان نہ کرے گا وہ ملک کے اندر کیا کرسکے گا اور نئے چیلنجز کا ادراک کیسے کرسکے گا؟ قاضی صاحب نے کہا اک شعر سنو!
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
موضوع اچھا تھا اور گفتگو بھی مفید تھی لیکن گفتگو کا سلسلہ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور کسی کی آمد نے مذاکرہ کے اس سلسلہ کو توڑ دیا۔ ہندوستان میں مدارس کے نظام کو بہتر ومفید بنانے کے لئے مختلف انداز کی کوششیں مختلف حلقوں اور افراد کی جانب سے کی جاتی رہی ہیں، فقہ اکیڈمی کی جانب سے بھی (تاسیس کے بعد سے) اس مقصد کے تحت کچھ ابتدائی کوششیں کی گئیں۔ حسب ذیل نکات سے ان اقدامات پر روشنی پڑتی ہے ۔
فقہ اکیڈمی کا کام
فقہ اکیڈمی نے مخلصانہ فکر مندی کے جذبہ سے ہندوستان میںطلباء مدارس کی فکری و علمی تربیت کے لئے متعدد کوششیں کیں، پس منظر یہ تھا کہ مدارس سے تیار ہونے والے نوجوان علماء مطلوبہ صلاحیت کے حامل نہیں ہوتے، اس لئے ان پر مزید محنت کرکے ان میں معیاری اہلیت پیدا کرنے اور نکھار لانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میںان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور ان کی علمی وفکری تربیت کے لئے ایک کوشش یہ کی گئی کہ ان کے لئے دو سالہ تعلیمی کورس کا آغاز کیا گیا جس میں ۲۰ طلبا مدارس شامل کیے گئے ان کے لئے ایک مختصر نصاب بھی مرتب کیا گیا۔ لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے اکیڈمی ان طلباء کو مختلف مدرسوں میں بھیجنے پر مجبور ہوگئی اور اس طرح یہ منصوبہ تشنہ رہ گیا۔ گرچہ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اکیڈمی کی اس فکر کو سامنے رکھ کر ملک میں کئی ادارے اور معہد قائم ہوگئے۔ البتہ اکیڈمی کا اپنا وسیع منصوبہ پورا نہ ہو سکا۔
اکیڈمی نے مدارس کے منتخب طلبا کے تربیتی کیمپوں کا آغاز کیا جو تین چار دنوں پر مشتمل ہواکرتے ان میں یونیورسٹیز کے مختلف شعبوں کے اساتذہ اپنے علمی محاضرات پیش کرتے، پھر سوال و جواب کا موقع دیا جاتا ۔ان کیمپوں کے لئے متنوع موضوعات کو منتخب کیا گیا، مثلاً ماحولیات، ذرائع ابلاغ، سیاسیات، سماجیات، معاشیات، فلسفہ، قانون، بین الاقوامی مسائل، جغرافیہ، نفسیات، حقوق انسانی، تاریخ، بین الاقوامی ایجنسیوں کا تعارف، عالم اسلام کی سیاسی، اقتصادی، تعلیمی و اخلاقی صورتحال وسائل کی کمی کی وجہ سے پانچ تربیتی کیمپوں کے بعد یہ سلسلہ بھی موقوف ہوگیا۔ ان کیمپوں میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحبؒ خود موجود رہے، اور پروگرام کی نگرانی کی۔ ان پروگراموں میں خاص نہج کے موضوعاتی تحریری انعامی مقابلے بھی ہوئے۔ اس سلسلے کے دوسرے کیمپ میں بعض مدارس کے اساتذہ نے شریک ہونے والے طلبا کو شرکت سے روکا، لیکن طلباء نے اس منفی رویہ کو مسترد کردیا۔ تیسرا کیمپ بستی میں ہوا، اس میں بھی مختلف مدارس کے طلبا کی اچھی شرکت رہی۔ چوتھا کیمپ دار العلوم وقف میں ہوا جس میں طلباء نے وقف کے موضوع پر مقالات لکھے ۔ ان کیمپوں کے کئی فائدے ہوئے، طلباء اور علماء دونوں کے سامنے یونیورسٹیز کے اساتذہ کی گفتگو اور سوال و جواب سے نئے پہلو سامنے آئے، لیکچر دینے والوں میں یہ احباب شامل تھے، جناب ڈاکٹر اوصافؒ، ڈاکٹر اقبال انصاریؒ، ڈاکٹر رحمت علی، جناب عبد الرحیم قریشیؒ، جناب اسرار عالم، جناب ابو الفضل عثمانی، ڈاکٹر مجیب اشرف اور جناب مقبول سراج ۔
عملی مشکلات
اکیڈمی نے طلباء مدارس کے لئے خود مدارس کے اندر جدید علوم پر محاضرات کا سلسلہ شروع کیا۔ ان محاضرات کے موضوع یہ تھے: معاشیات، میڈیا، نفسیات، عمرانیات، ماحولیات، ملکی مسائل، ہندوستان کی غیر اسلامی تنظیمیں، حقوق اور سیاسیات ۔ یونیورسٹیز کے اساتذہ اور اہل علم نے لکچرردیے۔چند رکاوٹیں پیش آئیں، مثال کے طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کامرس کے پروفیسر نجم الحسن صاحب مرحوم گجرات کے مدارس میں لکچردینے کے لئے پہنچے تو علماء نے ان کو لیکچر دینے سے روک دیا۔ ان کا قیمتی وقت اساتذہ سے گفتگو میں گزرا۔ انہوں نےعصر حاضر میں معاشیات اور اسلام میں اس کی اہمیت کے سلسلے میں اساتذہ سے گفتگو کی۔ ایک اوربڑے مدرسہ میں بھی ان کو دو دن تک لیکچر دینے سے روکے رکھا گیا اور تیسرے دن بہت احتیاط کے ساتھ ایک کلاس روم میںان کے درس کا انتظام کیا گیا، پھر اکیڈمی کے نام یہ خط آیا کہ آئندہ جن صاحب کو محاضرہ کے لئے بھیجا جائے ان کے میلانات و رجحانات سے بھی مدرسے کو واقف کرایا جائے۔ ایسا ہی رویہ مقاصد شریعۃ کے موضوع پر کام کرنے والے عرب علماء کے ساتھ بھی اختیار کیا گیا۔
ماحولیات کے موضوع پر ملک کے ایک معروف مدرسہ میں ایک استاذ لیکچر دینے پہنچے تو ان کو ضیافت کے بعد رخصت کردیا گیا۔ محاضرات کے سلسلہ میں ملک کےایک مدرسہ کی جانب سے یہ جواب آیاکہ عصری علوم پر محاضرات کا پروگرام فی نفسہ مناسب و محمود ہے، لیکن ہمارے یہاں اس کی ضرورت نہیں۔ تحقیق میں رہنمائی، جدید مناہج تحقیق کے تعارف وسعت نظری اور غور و فکر کی نئی جہتوں کے فروغ اور نئے موضوعات پر ریسرچ کے لئے ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیز میں زیر تعلیم فارغین مدارس کے لئے اسکالر شپ کا نظم کیاگیا،ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی کی سطح پر پچاس طلباء کو تعلیمی وظائف دیئے گئے۔ مگر یہ سلسلہ بھی وسائل کی کمی کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا۔
اکیڈمی کے ذریعہ مدارس کے نوجوان فارغین علماء کے لئے ’’ورکشاپ‘‘ کا سلسلہ شروع کیا گیا ورکشاپ میں مقاصد شریعت، اصول فقہ، جدید فقہی نظریات، فقہ معاصر اور نئے مسائل کے حل میں فقہ اسلامی کے کردار کو عنوان بنایا گیا، شریک میں طلباء کو کتابیں، اور فقہی لٹریچر دیا گیا، لیکن یہ سلسلہ بھی وسائل کی کمی کی وجہ سے رک گیا اور مزید جاری نہ رہ سکا۔ ایسے سات ورکشاپ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں منعقد ہوئے۔ بعض علماء کی جناب سے مخالفت ہوئی اور کہا گیا کہ آخر مقاصد شریعت پر کیوں زور دیا جارہا ہے، مقاصد شریعت کا موضـوع دو دھاری تلوار کی مانند ہے، یہ حساس موضوع ہے، بعض علماء نے اسے تجدد پسندی کا نتیجہ قرار دیا۔
مقاصد شریعت پر کتابوں کے سیٹ مختلف مدارس و معاہد میں اختصاص کے طلباء کے لیے بھیجے گئے لیکن بہت سے مدرسوں میں وہ کتابیں تقسیم نہیں کی گئیں وہ عرب ادارے جنہوں نے مقاصد شریعت پر تحقیقی اور علمی کام انجام دیا اور دے رہے ہیں ان کو معتزلی، تجدد پسند ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ دینی مدارس میں علم مقاصد، فقہ الاقلیات اور فقہ معاصر سے متعلق لٹریچر کو پہنچنے سے روکا گیا۔نوجوان علماء کے لیے سعود یونیورسٹی کے اشتراک اور سعود یونیورسٹی کے خاص مرکز ’’مرکز تمیز بحثی‘‘ کے علماء کے تعاون سے دو ورکشاپ ایسے منعقد کیے گئے جن میں جدید وسائل کے استعمال اور ان وسائل سے استفادہ کی صورتو ں کے بارے میں تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ ان نوجوان علماء کو مختلف علمی، تحقیقی ویب سائٹس اور الیکٹرانک لائبریریز یعنی ڈیجیٹل لائبریریز سے استفادے کے طریقے بھی بتائے گئے۔ ملک بھر سے نوجوان علماء ان میں شریک رہے ۔
عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے لیے ایسسکو کے اشتراک و تعاون سے تین ورکشاپ منعقد کیے گئے جن میں عربی زبان کے اساتذہ شریک ہوئے اور انھوں نے عرب علماء سے استفادہ کیا۔ نوجوان علماء کی تربیت کے لئے اکیڈمی کے ذریعہ مختلف فکری موضوعات پر مختصر پروگرام شروع کئے گئے، مگر یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
سیمینار
فقہ اکیڈمی نے مدارس کے نصاب و نظام کو بہتر بنانے کے پیش نظر چار پروگرام خاص طور پر منعقد کئے جو حسب ذیل موضوعات پر ہوئے: معاصر دینی تعلیم، ہندوستانی مدارس میں فقہ اسلامی کی تدریس، ہندوستان میں افتاء و قضاء کے مناہج، مدارس میںمعاشیات کی تعلیم۔ معاصر دینی تعلیم کےپروگرام میں مدارس کے موجودہ نظام و نصاب، طریقۂ تربیت، مقاصد، در پیش رکاوٹوں اور موانع کا جائزہ لیا گیا ۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ معاصر دینی تعلیم میں انحطاط کے اسباب کیا ہیں، نیز صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات مؤثر ومفید ہوسکتے ہیں۔ بعض مقالہ نگاران نے لکھا کہ ندوہ اور دیوبند کا نصاب ناکام ثابت ہوا، اس لیے عصر حاضر کی ضرورتوں کا تقاضا یہ ہے کہ حقیقت پسندی کے ساتھ تمام پہلوؤں کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور طریقۂ تعلیم، طریقۂ امتحان، طریقۂ تربیت، طریقۂ مطالعات، طریقۂ ذہن سازی کے ساتھ ساتھ بنیادی مقاصد اور زمانے و ملک کی ضرورتوں کو بھی دیکھا جائے۔
دوسرا پروگرام مدارس میں فقہ اسلامی کی تدریس کے موضوع تھا۔ بعض علماء کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ شاید نصاب میں کوئی تبدیلی مقصود ہے، اس لیے محض شک و شبہ کی بنیاد پر ایسی گفتگو کی گئی جو سمینار کے مقصد سے ہم آہنگ نہ تھی، تاہم مرکزی عنوان کے تحت مختلف پہلوؤں پر مقالات پیش ہوئے ۔ اکیڈمی کا خیال تو یہ تھا کہ اسی نہج پر مزید سمینار منعقد کیے جائیں جن میں حدیث و سیرت کی تدریس، فلسفہ و کلام کی تعلیم، اور قرآنی علوم جیسے موضوعات پر گفتگو کی جائے۔ اس کی نوبت نہ آسکی ۔ افتاء و قضاء کے مناہج سے متعلق سمینار میں مقالات بہت کم وصول ہوئے اور مناہج پر تجزیاتی گفتگو نہ ہوسکی ۔ زیادہ تر گفتگو تاریخی پس منظر کے بارے میں ہوئی۔
اہم سوالات یہ تھے:
تربیت افتاء کے نصاب و نظام میں کیا اصلاحات ہونی چاہئیں، ان کے نصاب میں مزید کیا چیزیں داخل کی جائیں ، تربیت افتاء میں دیگر فتاوی سے استفادہ کے رجحان کو کس طرح فروغ دیا جائے ، تربیت افتاء سے وابستہ علماء کو جدید مسائل اور فقہ معاصر اور مقاصد شریعت سے کس طرح واقف کرایا جائے ، ان کے اندر وسعت نظر کے فروغ کے لیے کیا اقدامات ہوں ۔ان سوالات پر تجزیاتی ، تحقیقی گفتگو یا بحث نہ ہوسکی۔ تاہم ان موضوعات کی ضرورت و اہمیت کے منظرنامہ کے سلسلہ گفتگو ہوئی۔ یہ ایک ابتدائی کوشش تھی، مزید کام کی ضرورت باقی ہے۔
چوتھا پروگرام مدارس میں اسلامی مالیاتی نظام کی تعلیم سے متعلق تھا۔پیش نظر سوالات یہ تھے: مدارس میں اسلامی مالیاتی نظام کو کس انداز سے پڑھایا جائے کہ فارغ ہونے کے بعد علماء عصر حاضر کے معاشی نظام اور اس کے مسائل کے بارے میں آسانی سے گفتگو کرسکیں، مسائل کا حل پیش کرسکیں اور نظریات کی عملی تطبیق کرسکیں۔ مدارس میں پڑھائی جانے والی کتابوں اور ان کے طریقۂ درس پر گفتگو ہوئی۔ بعض علماء نے کہا کہ ہدایہ میں تمام معاشی مسائل بیان کردیئے گئے ہیں، اس لیے اگر ہدایہ کو اہتمام کے ساتھ پڑھا دیا گیا تو سارے معاشی مسائل کا حل پیش کیا جاسکے گا۔ بعض علماء نے یہ بھی کہا کہ مدارس کے موجودہ نصاب میں تمام معاشی مسائل کا احاطہ کرلیا گیا ہے اور یہ کہ ہدایہ مقاصد شریعت کی کتاب ہے۔ بعض علماء نے ندوہ کے نصاب پر تنقید کی۔ سیمینار میں جدید علوم اور معاشیات کے ماہرین کی اچھی خاصی تعداد تھی اس لیے بہت سے اہم موضوعات زیر بحث آئے۔ آخر میں یہ طے پایا کہ مدارس کے لئے ایک نئی کتاب معاشیات پر مرتب کی جائےیہ کام ابھی تشنہ تکمیل ہے۔ اس پروگرام کے آغاز میں ایک مدرسہ کے عالم کی طرف سے یہ تأثر سامنے آیا کہ مدارس کے لئے یہ موضوع مناسب نہیں علماء اور مدارس کے توکل اور ان کی شان استغنائی میں اس سے کمی آسکتی ہے۔
شدت پسندی
بہرحال ان چاروں موضوعات سے متعلق جو کچھ بھی تحریریں پیش کی گئیں وہ مطبوعہ شکل میں موجود ہیں۔ اکیڈمی نے نوجوان علماء سے فکری علمی مضامین لکھوائے، تحقیقی مقالات تیار کرائے اورکتابوں کے ترجمے کرانے کا آغاز کیا تاکہ ان ترجموں سے ان کی صلاحیت میں اضافہ ہوسکے اور نئی فکری جہتوںسے وہ واقف ہوسکیں۔ مزید برآں ترجمے سے ہٹ کر نئے موضوعات پر تحقیقی مقالات لکھوانے کا بھی قیمتی علمی سلسلہ شروع کیا گیا۔ یہ بات سامنے آئی کہ مختلف مسالک کے علماء میں شدت پسندی پائی جاتی ہے۔ کسی دوسرے کی رائے یا فکر کی ترویج کو پسند نہیں کرتے خواہ وہ تحریر میں ہو یا مقالے اور کتاب کی شکل میں۔ وہ اس کی اشاعت کو روکنے اور اسے طلباء وعام مسلمانوں تک نہ پہنچنے دینے کی مختلف انداز سے کوششیں ہوتی ہیں۔ جب ایک عالم کو دوسرے کسی عالم کی رائے پسند نہیں آتی، تو وہ اس کی تحریروں سے استفادہ کرنے سے روکتا ہے اور روکنے کے لیے وہ مختلف قسم کے طریقے استعمال کرتا ہے۔ بسا اوقا ت ایسا بھی ہوتا ہے کہ علمی اور فقہی کتابوں کے ترجمے اور ان کی نشر و اشاعت کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے گویا ان کے پڑھنے سے دین میں کوئی خرابی واقع ہوگی ۔ اس شدت پسندی کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2018