جماعت اسلامی کی اولین قیادت نے رفقائے جماعت کے سامنے یہ واضح کردیا تھا کہ ہمیں مسلمانوں کو اصل دین کی طرف دعوت دینی ہے، تو حید و رسالت اور آخرت کا صحیح تصور پیش کرنا ہے، کتاب و سنت سے رہ نمائی لینے کی ضرورت کا انھیں احساس دلا دینا ہےاور جزوی امور میں نہیں الجھنا ہے۔ اس سلسلے میں ابھی بھی کہیں کہیں بعض رفقائے تحریک سے بے اعتدالی کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ کہیں ہم میلاد کے جلسوں کو لے کر اس طرح مقامی آبادی سے الجھتے ہیں کہ پوری بستی میں ہمارا بائیکاٹ ہو جاتا ہے اور کہیں ہم سال گرہ پر اتنا شدید موقف اختیار کرتے ہیں کہ اپنے ہی خاندان میں الگ تھلگ ہو جاتے ہیں۔ انجام کار اقامتِ دین کی جدوجہد متاثر ہوجاتی ہے۔ قرآن و سنت سے جوڑنے کی کوشش خاندان اور سماج میں وسیع میدان فراہم کرتی ہے، جب کہ انھیں قرآن و سنت سے جوڑے بغیر مختلف امور میں ان سے اختلاف کا رویہ خاندان اور سماج سے دور کردیتا ہے۔ ذیل کی دونوں گفتگوئیں اس حوالے سے بہت اہم رہ نما اصول پیش کرتی ہیں۔ مدیر
مولانا امین احسن اصلاحیؒ
پچھلے عرصہ میں ہمارے رفقا نے جہاں کہیں انبیا کے طریقِ دعوت کو چھوڑ کر جلد بازی سے کام لیا ہے وہاں یہ غلط فہمی پھیل گئی ہے کہ ہم خدا نخواستہ مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے، یہ غلط فہمی نظر انداز کر دینے کے قابل نہیں ہے۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ ہماری دعوت کی طرف سے کان بند کر لیں گے۔ ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ صحیح شعورِ دینی سے محروم ہو چکا ہے اور موجودہ نظامِ طاغوت نے ان کی اس جہالت کے بڑھانے میں پورا حصہ لیا ہے۔ یگانوں اور بیگانوں نے مل کر ان کو ایسے انجکشن دیے ہیں کہ ان کی قوتِ شامہ (سونگھنے کی صلاحیت) ماؤف ہو گئی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی قوتِ شامہ کو بیدار کریں۔ جب ان کی قوتِ شامہ بیدار ہو جائے گی تو وہ خود اپنی موجودہ حالت سے بے زاری محسوس کرنے لگیں گے اور کفر و شرک اور نفاق کی ساری غلاظتوں سے انھیں از خود نفرت ہو جائے گی۔ اس مقصد کے لیے ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جو باتیں کفر و شرک ہیں ہم ان کا کفر و شرک ہونا واضح کر دیں، بس اس قدر کافی ہے۔ کسی مسلمان کی روح، شرک کو محسوس کر لینے کے بعد اس سے دوستی نہیں رکھ سکتی۔ جس شخص میں صفائی اور طہارت کا مذاق پیدا ہو جاتا ہے وہ خود اپنے دامن کی نجاستوں کو دھونے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم نے مسلمانوں میں صحیح شعور دینی بیدار کر دیا تو وہ از خود ساری آلودگیوں سے پاک ہونے کی کوشش کریں گے۔ اس دینی شعور کو عام کرنے کی جدو جہد میں یہ لازم ہے کہ ہماری توجہ دین کے عاماصول پر مرکوز رہے۔ جزوی مسائل میں نہ الجھے، دین کی اساس توحید، رسالت اور معاد کے صحیح تصورات اور معتقدات پر قائم ہے۔ یہ معتقدات اگر ذہنوں میں اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ واضح ہو جائیں تو دین کا صحیح شعور پیدا ہو جائے گا۔ اور اس کی وجہ سے جزوی امور میں، خود بخود اصلاح ہوتی چلی جائے گی اور ہمیں ان کے لیے کوئی خاص جد و جہد نہیں کرنی پڑے گی۔ جب کسی شخص میں مذاقِ سلیم پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اس کی جائے قیام، لباس اور بدن کی ایک ایک گندگی پر توجہ لانے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اس کی زندگی کے ہر گوشہ میں خود ہی نفاست اور ستھرائی نمودار ہونے لگتی ہے۔
اب میں آپ کے اس سوال کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو آپ نے کیا ہے کہ کیا جزئیات سے میری مراد آمین بالجهر وغیرہ کی قسم کے مسائل ہیں؟ نہیں، یہاں جزئیات سے میری مراد آمین بالجہر اور رفع یدین وغیرہ کی قسم کے مسائل نہیں ہیں۔ ان مسائل اجتہادیہ میں تو ہمیشہ ہمیں رواداری ہی کا مسلک اختیار کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ ان کے دونوں پہلوؤں کے لیے دین میں گنجائش ہے۔ میں یہاں ان جزئیاتِ امور سے غضِّ بصر کا مشورہ دے رہا ہوں جن کے لیے دین میں کوئی گنجائش نہیں، لیکن خدمتِ دین کی مصلحت مقتضی ہے کہ اپنی دعوت کے اس مرحلہ میں ہم ان سے بھی چشم پوشی کریں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم شاخوں کے تراشنے میں اپنا سارا وقت برباد کر دیں گے اور فتنوں کی جڑوں کی طرف توجہ کرنے کی نوبت ہی نہ آئے گی۔ ہمارا کام صحیح طور پر جب ہی ہو سکتا ہے کہ توحید اور رسالت اور معاد کے پورے پورے متعلقات اچھی طرح عوام کو سمجھا دیے جائیں۔ یہ لمبا راستہ طے کر لینے کے بعد لوگ جزوی امور میں راہ حق کو پاسکتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ خود محسوس کرنے لگیں گے کہ فلاں کام جو ہم کرتے ہیں وہ ہمارے عقیدہ توحید کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا۔ فلاں رسم جو رائج ہے ہمارے تصورِ رسالت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی اور فلاں عادت جو فروغ پائے ہوئے ہے ہمارے تصورِ معاد کے ساتھ مطابق نہیں ہے۔ بہر حال ان جزئی امور میں کسی گروہ کو سخت سست کہنا یا کسی سے مقاطعہ کرنا ہمارے کام کے لیے قطعاً مضر ہے۔ حتی الوسع ان معاملات میں چشم پوشی کیجیے۔ اگر کوئی سلیم الفطرت آدمی اس سلسلے میں کچھ سننا گوارا کرے تو نرمی سے کہیے کہ بھائی یہ کیا چیزیں ہیں جو تم نے اختیار کر رکھی ہیں۔ پھر اگر وہ کچھ اثر لے تو بہتر ورنہ خاموش ہو جائیے۔ پرزور اصلاح ان چیزوں کی ہونی چاہیے جن سے اصل دین پر زَد پڑتی ہے۔
اصلاح کے کام میں ترتیب یہ ہونی چاہیے کہ پہلے کسی اصل کے قریب ترین مقتضیات پیش کیے جائیں، پھر اس سے بعید، پھر اس سے بعید تر، مثلاً توحید کے مقتضیات میں سے سب سے پہلے وہ چیزیں لینی چاہئیں جن پر عموماً سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ پھر آگے چل کر ان خفی امور کی وضاحت کیجیے جو اولیات توحید سے مستنبط ہوتی ہیں۔ پھر اور آگے چلیے اور ان آخری مقتضیات توحید کی طرف رہبری کیجیے جن سے عوام کی توجہ تو بالکل ہی ہٹ چکی ہے اور علما بھی کسی نہ کسی حد تک ان کے عملی مقتضیات سے غافل ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے رفقاء ان مشوروں پر عمل کرنے کا اہتمام کریں گے۔ (روداد جماعت اسلامی،حصہ دوم ص 37 تا 39)
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ
سب سے پہلے تبلیغی پالیسی کے متعلق یہ سمجھ لیجیے کہ ہماری دعوت کا اصول “سب سے پہلے سب سے اہم” ہونا چاہیے۔ جو چیز جتنی زیادہ اہم ہے اس سے اتنا ہی پہلے تعرض ہونا چاہیے اور اس پر اتنا ہی زیادہ زور دینا چاہیے۔ اسی طرح جس چیز کی دینی اہمیت کم ہے اس پر بعد میں توجہ دینی چاہیے۔ اور اس کی قدر و قیمت کو مبالغہ سے بھی نہیں بڑھانا چاہیے۔
دوسری بات یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ جزئیات میں سے ایک ایک پر جدا جدا زور دینے کے بجائے اس اصل الاصول کی فکر کرنی چاہیے جس کی اصلاح سے فروع کی اصلاح خود بخود ایک فطری نتیجہ کے طور پر ہو جاتی ہے۔ فرض کیجیے کہ کسی مکان میں آگ لگی ہوئی ہے اور جگہ جگہ سے کڑیاں اور تختے جل جل کر گر رہے ہیں۔ ایسے موقع پر ایک ایک کڑی کے سقوط کو روکنے کے لیے الگ الگ تدابیر نہیں اختیار کی جائیں گی بلکہ براہِ راست ایک ہی تدبیر سے آگ بجھانے کی فکر کی جائے گی۔ یا مثلا اگر کسی شخص کا خون خراب ہو اور اس کے بدن پر جگہ جگہ پھوڑے پھنسیاں نمودار ہو رہے ہوں، تو ایک ایک پھوڑے پر نشتر چلانے اور ایک ایک ناسور پر پھاہا رکھنے کی جگہ اصلاحِ خون کی تدبیر کی جائے گی۔ اسی اصول پر ہمارے مبلغین کو مقامی حالات پر غور کر کے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ ہماری جزئی گم راہیوں کی اصل علت ہے کیا؟ اور پھر ہر ضرب اسی اصل علت کو دور کرنے کے لیے لگائی جانی چاہیے۔ اس کام کے دوران میں خرابی کی شاخوں کی کثرت سے ذرا بھی نہ گھبرانا چاہیے۔ اسی طرح جن اچھائیوں کو فروغ دینا ہے ان کی جڑ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور پھر اس کی آبیاری میں پوری جانفشانی دکھانی چاہیے۔ یہ جڑ اگر قائم ہوگئی تو پتے اور پھل پھول خود بخود نمودار ہوتے جائیں گے۔ جماعت کا پورا لٹریچر اسی اصول پر لکھا گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس میں بنیادی امور کے استحکام کے لیے پورا زور استدلال صرف کیا گیا ہے مگر جزئیات کو بالعموم نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ شاخوں کی کٹائی چھنٹائی کے بجائے جڑ اور تنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آپ لوگ مسلمانوں کے قصرِ حیات کے مٹتے ہوئے نقوشِ زینت کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہوں بلکہ اس کی بنیادوں کی فکر کریں، ورنہ دیواروں کی خوب صورتی تو ترقی کر جائے گی مگر اس کی تکمیل سے پہلےآپ پوری عمارت کو کھنڈر بنا ہوا دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔
ہماری زبانوں پر جب کبھی اصلاح کا نام آتا ہے تو ذہن معًا چھوٹی برائیوں کی طرف پھر جاتا ہے اور پھر ہر نشترِ اصلاح اسی پرانے مذاق کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ آپ لوگ اب اس مذاق کو یکسر بدل ڈالیے۔ بار بار کے تجربے سے معلوم ہو چکا ہے کہ جزئیات پر حملہ کرنے سے ہم اپنے نصب العین میں کام یاب نہیں ہو سکتے۔ یہ راستہ مباحثہ اور مناظرہ کی وادیوں میں سے ہو کر گزرتا ہے اور اس طرز پر کام کرنے سے خواہ مخواہ جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔ طرح طرح کے چبھنے والے القاب مثلاً وہابی اور بدعتی وغیرہ زبانوں پر آنے لگتے ہیں، حتی کہ سر پھٹول تک کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اس طریق تبلیغ کو دہرانے سے قطعاً اجتناب کیجیے۔
جیسا کہ مولانا امین احسن صاحب نے اپنی تقریر میں واضح کیا ہے۔ اگر آپ حضرات غور کریں تو معلوم ہوگا کہ درحقیقت تمام خرابیاں یا تو توحید کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں یا رسالت کی حقیقت کو نہ جاننے سے، یا عقیدہ معاد کی نا واقفیت ہے۔ علاوہ بریں کچھ خرابیاں ایسی ہیں جو اصول و فروعِ دین کی صحیح ترتیب کو الٹ دینے سے نمودار ہوئی ہیں۔ خود بگاڑ کے یہ اسباب بھی اپنا ایک سبب رکھتے ہیں اور وہ ہے کتاب وسنت سے بے تعلقی۔ یہ سب جہلا ہی میں نہیں پایا جاتا بلکہ بکثرت علما تک کتاب و سنت سے براہِ راست گہری واقفیت نہیں رکھتے۔ اب ہمیں ان حالات کو بدلنا ہے تو اصلاح کا کام بنیاد سے شروع کر کے اوپر کی طرف لے جانا چاہیے۔ جب تک بنیادی معتقدات کی اصلاح نہیں ہو جاتی لوگوں کی فروعی گم راہیوں کو صبر سے گوارا کرنا پڑے گا۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فروعات کے معاملہ میں لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے، بلکہ مدعا یہ ہے کہ پہلے قدم پر جزئی امور پر بہت زیادہ زور ہرگز نہ دیا جائے۔ یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو شرارت اور خبث کی بنا پر خرابیوں کی حمایت کریں گے۔ عوام بے چارے محض جہالت کی وجہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ مدت ہائے دراز کی غلط تعلیم و تربیت سے ان کے ذہن میں یہ بات اتر گئی ہے کہ جن طور طریقوں کو وہ اختیار کیے ہوئے ہیں انھیں کا نام دین ہے۔ ان بے چاروں کی اصلاح صرف اسی طرح ہو سکتی ہے کہ صبر وتحمل سے بتدریج توحید، نبوت اور معاد کے اسلامی تصورات کو ان کے دلوں میں رائج کیا جائے ان کے عقائد کی اصلاح میں اگر ہم کام یاب ہو جائیں تو کوئی مخالف وہابی، وہابی پکار کر بھیڑ جمع نہ کر سکے گا۔ بلکہ خود میدان چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا۔ انقلابِ عرب پر اگر آپ غور کریں تو اس دعوے کی صداقت اچھی طرح واضح ہو جائے گی۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے روگردانی کرنے والوں میں بالکل مختصر سا گروہ ایسا تھا جو ذاتی اغراض کی بنا پر مخالفت کر رہا تھا، باقی سب لوگ فریب خوردہ اور مسحور تھے۔ پھر جب تحریک پھیل نکلی اور حق کھل کر سامنے آگیا تو بے غرض حق پسند لوگوں کے لیے انکار کے راستے مسدود ہو گئے، ملک کی عام آبادی نے صداقت کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور آخر کار نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ اغراض کی بنا پر لڑ رہے تھے انھوں نے دیکھا کہ میدان میں ہم تنہا رہ گئے ہیں اس لیے وہ سر جھکا دینے پر مجبور ہو گئے، آج بھی دعوتِ حق کی کام یابی کا یہی راستہ ہے۔ اگر آپ حقیقت کو لوگوں کے سامنے بالکل عریاں کر دیں تو ان میں سے نیک نیت فریب خوردہ لوگوں کی مسحوریت ختم ہو جائے گی۔ اور وہ اپنے اپنے لیڈروں کو تنہا چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملیں گے۔ پھر جولوگ اغراض کی بنا پر سد راہ بنے ہوئے ہیں وہ بھی اتنے بے بس ہو جائیں گے کہ ہماری چلتی ہوئی گاڑی ان کے روکے نہ رک سکے گی۔
یہ پروگرام اگر اختیار کرنا ہو تو پھر آمین بالجہر اور تیجے اور قل کے جھگڑے کو ختم کیجیے۔ غور تو کیجیے، کیا رسول اللہ ﷺ ایسی ہی خرابیوں کی اصلاح کے لیے آئے تھے؟ کیا اسلام کا نصب العین بس اتنا ہی کچھ ہے؟ کیا قرآن کی تعلیمات انسان سے اتنا ہی کچھ مطالبہ کرتی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر آپ کی پوری توجہ ان مہمات امور کی طرف کیوں منعطف نہیں ہوتی جن کے لیے ہر دور میں انبیا علیہم السلام مخالفین کے مظالم کا تختہ مشق بنتے رہے؟ یہ جزئیات جن کی اہمیت بہت بڑھا دی گئی ہے اقامت دین کے کام میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ فکر تو اس کی کیجیے کہ لوگ خدا کے دین کو بہ رضا و رغبت تسلیم کریں اور سنت نبویہ کا اتباع کرنے پر آمادہ ہوں۔ یہ چیز پیدا ہوگئی تو پھر جس کو جو چیز کتاب و سنت سے ثابت ہوتی نظر آئے گی وہ اسے اختیار کرلے گا۔ اور جس کا ثبوت قرآن و حدیث سے نہ ملے گا اسے ترک کر دے گا۔ زور تو اسی ایک بنیادی اصلاح پر دینا چاہیے۔ اصول سے فروع کی طرف لے چلنے کی جو تدریج اسوۂ نبوی میں پائی جاتی ہے اسے اگر نظر انداز کر کے محض حدیث کی کتابوں کا اتباع شروع کر دیا جائے تو یہ حدیث کی کتابوں کا اتباع تو ہوگا، اسوہ نبوی کا اتباع نہ ہوگا۔
دورِ اسلام سے پہلے کے عرب میں اس سے کم خرابیاں نہیں تھیں جتنی آج ہمارے دور میں پائی جاتی ہیں۔ پھر کیا بیک وقت سب پر چوٹ لگائی گئی تھی؟ کیا اصلاح کی وادی کو ایک ہی جست میں طے کر ڈالا گیا؟ نہیں، بلکہ اصلاح کی بنیادیں استوار کی گئیں، پھر اساسی اخلاقیات کی تعلیم دی گئی، پھر زندگی کے دامن سے ایک ایک داغ کو دھونے کا سلسلہ بتدریج کئی برس تک جاری رہا۔ اگر آپ حضرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرنا چاہتے ہیں تو پہلے نبی کے طریقِ کار کو خوب سمجھ لیجیے، پھر آگے قدم بڑھائیے۔ (روداد جماعت اسلامی،حصہ دوم ص 47 تا 50)
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2024