کمپنی کوئی مشینری تیار کرتی اور اسے لوگوں کے سامنے لاتی ہے تو وہ دو کام انجام دیتی ہے:ایک یہ کہ وہ اس کا ہدایت نامہ(Manual)تیار کرتی ہے ،جس میں بتاتی ہے کہ وہ مشینری کیسے تیار کی گئی ہے؟ اس کے پرزے کیا کیا ہیں اور وہ کس طرح کام کرتے ہیں ؟اس مشینری کو کس طرح استعمال کیا جائے اور کس طرح نہ استعمال کیا جائے؟اس سے کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟اگر اس میں کوئی خرابی آجائے تو اسے کس طرح درست کیا جائے؟وغیرہ۔اس مشینری سے متعلق اس طرح کی تمام ضروری تفصیلات اس تحریر میں درج ہوتی ہیں۔ساتھ ہی کمپنی دوسرا کام بھی کرتی ہے کہ اس مشینری کو سپلائی کرتے وقت اپنا ایک نمائندہ خریدار کے پاس بھیجتی ہے،جو اس کے سامنے اس مشینری کے کام کا مظاہرہ(Demonstration) کرتا ہے،اس کے استعمال کا طریقہ بتاتا ہے،اسے چلا کر دکھاتا ہے،خریدار کو سمجھاتا ہے کہ اس سے کس طرح کام لیا جائے؟ تحریر میں درج کوئی بات خریدار کی سمجھ میں نہیں آتی ہے تواس کی تشریح کرتا اور اس کا مفہوم واضح کرتا ہے۔ قرآن و سنت کے باہمی ربط کو ایک حد تک اس مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جسے اس نے اپنے فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے اپنے آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے۔اس میں وہ تمام باتیں درج ہیں جن سے اللہ نے اپنے بندوں کو آگاہ کرنا چاہا ہے۔یہ کائنات کیوں پیدا کی گئی ہے؟اس میں انسان کا کیا مقام ہے؟ انسانوں کو دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے؟ یہاں کس طرح کی زندگی گزارنا مطلوب ہے؟ کن کاموں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور کون سے کام اس کی ناراضی کو دعوت دیتے ہیں؟ کن کاموں پر انسان مرنے کے بعد اجر و انعام سے بہرہ ورہوگا اور کن کاموں کی سزا پائے گا؟ اس طرح کی تمام باتیں، جن کا جاننا انسانوں کے لیے ضروری تھا، قرآن حکیم میں بیان کر دی گئی ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ نے اسی پر اکتفانہیں کیا،بلکہ اس کے ساتھ انسانوں ہی میں سے اپنے ایک بندے کو منتخب کرکے بھیجا، تاکہ وہ ان کے سامنے عملی نمونہ پیش کرے، قرآن میں جو تعلیمات اور احکام بیان کیے گئے ہیں ان پر عمل کر کے دکھائے،جو باتیں قرآن کریم میں مجمل انداز میں ذکر کی گئی ہیں انھیں کھول کھول کر بیان کرے،اس کے جن مضامین کو سمجھنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے، انھیں سمجھائے۔اللہ کے رسولﷺ نے بعثت کے بعد اپنی تیئس(۲۳)سالہ زندگی میں یہی کام انجام دیا ہے۔آپ نے، وحی کی شکل میں اللہ کا جو کلام نازل ہوتا رہا، اسے نہ صرف یہ کہ بے کم و کاست اس کے بندوں تک پہنچایا، بلکہ اس کی تشریح و توضیح کافریضہ بھی انجام دیا اور اس پر عمل کرکے دکھایا۔
یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ (النحل:۴۴)
’’اور اب یہ ذکر ہم نے تم پر نازل کیا ہے، تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاو ٔ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے‘‘۔
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ (النحل:۶۴)
’’ ہم نے تم پر یہ کتاب اس لیے نازل کی ہے تا کہ تم ان اختلافات کی حقیقت ان پر کھول دو جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں‘‘۔
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّہُ ۔ ( النساء:۱۰۵)
’’اے نبی ،ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے،تاکہ جو راہ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو‘‘ ۔
سنت اور حدیث
رسول اللہ ﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات(یعنی سکوت ِتائیدی)کو اصطلاحی طور پر ’حدیث‘ کہا جاتا ہے۔اسی معنیٰ میں محدثین لفظ’سنت‘کا بھی استعمال کرتے ہیں۔امام شاطبی ؒ نے لکھا ہے:
’’یطلق لفظ السنۃ علی ما جاء منقولاً عن النبی ﷺ علی الخصوص مما لا نصّ علیہ فی الکتاب العزیز‘‘۔[الموافقات فی أصول الشریعۃ،طبع قاھرۃ:۴؍۳]
’’لفظ سنت کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جو نبی سے منقول ہو،خاص طور پر وہ چیز جس پر کتاب اللہ کی نص نہ ہو‘‘۔
امام شوکانیؒ فرماتے ہیں:
’’فاما معناھاشرعاً فی اصطلاح أھل الشرع فھی قول النبی و فعلہ و تقریرہ‘‘[إرشاد الفحول الی تحقیق الحق من الأصول،طبع مکۃالمکرمۃ،ص۲۹]
’’اہل شرع کی اصطلاح میں سنت کا شرعی معنیٰ نبی کا قول،فعل اور تقریر ہے‘‘
علامہ طاہرالجزائری کہتے ہیں:
’’أما السنۃ فتطلق علی الأکثر علی ما أضیف الی النبی ﷺ من قولٍ او فعلٍ او تقریرٍ،فھی مرادفۃ للحدیث عند علماء الأصول‘‘ [توجیہ النظر الی أصول الاثر،ص۳]
’’سنت کا اطلاق زیادہ تر اس چیز پر ہوتا ہے جس کی نسبت نبی ﷺ کی جانب ہو،چاہے وہ آپ کا قول ہویا فعل یا تقریر۔علمائے اصول کے یہاں یہ حدیث کے مترادف ہے‘‘
بعض حضرات سنت اور حدیث میں فرق کرتے ہیں۔ان کے نزدیک سنت سے مراد وہ طریقہ ہے جس پر آپؐ نے عمل کیا ہواور آپ کے بعد بھی برابر اس پر عمل ہوتا آیا ہو اور وہ آپ سے ثابت شدہ ہو،جب کہ حدیث ہر وہ قول، فعل یا تقریر ہے جس کی نسبت آپ کی طرف کی جائے۔یہ حضرات دونوں کی حیثیتوں میں فرق کرتے ہیں۔ان کے نزدیک سنت تو قطعی، یقینی اور قابل حجت ہے،لیکن حدیث ظنی ہونے کی وجہ سے نا قابل احتجاج ہے۔
علمائے محققین نے سنت اور حدیث کے درمیان اس تفریق کو درست نہیں قرار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کا کوئی قول ہو یا عمل،اگر اس کی نسبت آپ کی طرف صحیح اور ثابت ہو تو وہ حجت اور قابل استدلال ہے۔
حجیت حدیث
ایک مسئلہ ابتدا سے یہ زیر بحث رہا ہے کہ دین کے معاملے میں احادیث حجت ہیں یا نہیں؟ بعض گروہ اور افراد ایسے پائے گئے ہیں، جو ان کی حجیت کا انکار کرتے ہیں۔اس معاملے میں ماضی بعید میں ’خوارج ‘ نامی گروہ کو شہرت ملی اور ماضی قریب میں اس قسم کے افکار رکھنے والے ’اہل قرآن‘ کہلائے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ دین کے معاملے میں صرف ’قرآن‘ حجت ہے۔ وہی احکام قابلِ قبول اور لائق نفاذ ہیں جو قرآن سے ثابت ہیں۔ اللہ کے رسول دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔ آپ کا اصل کام صرف قرآن حکیم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے بندوں تک بےکم وکاست پہنچادینا تھا۔ اس کی تعبیر وتشریح کے طور پر آپ نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اپنی بشری حیثیت میں کیا، جسے قبول کرنے کے ہم پابند نہیں ہیں۔ آپ نے احکام قرآن کی اپنے عہدکے اعتبار سے تعبیر وتشریح فرمائی اور ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ ان کی تعبیر وتشریح اپنے زمانے کے اعتبار سے کریں۔
جمہورِاْمت نے اس فکر کو قبول نہیں کیا ہے اور اسے گم راہی قرار دیا ہے، چنانچہ خوارج اور اہل قرآن دونوں کا شمار فرق ضالّہ (گم راہ فرقوں) میں ہوتا ہے۔ جمہور کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور ثابت شدہ اقوال وافعال دین میں اسی طرح حجت ہیں جس طرح قرآن حکیم حجت ہے، اگرچہ ان کا درجہ قرآن کے بعد آتا ہے۔ ان کی حجیت کے دلائل خود قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور آپ کے فیصلوں اور احکام کو واجب التعمیل قرار دیا اور ان کی مخالفت سے ڈرایا ہے۔ارشاد ہے:
یٰٓأ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ۔ (النساء:۵۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو،اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً ۔
(النساء:۶۵)
’’ نہیں (اے محمدؐ) !تمھارے رب کی قسم، یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی معاملات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں،بلکہ سر بہ سر تسلیم کرلیں‘‘۔
وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا (الحشر:۷)
’’جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ‘‘
قرآن سے حدیث کے ربط کی مختلف جہات
قرآن سے حدیث کے تعلق کے تین پہلو ہیں:
۱۔ کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں قرآن میں مذکور احکام ہی کا تذکرہ بہ طور تاکید وتائید آیا ہے، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائی کا حکم اور شرک، جھوٹی گواہی، والدین کی نافرمانی اور ناحق قتل نفس کی ممانعت وغیرہ۔
۲۔بہت سی احادیث قرآن کی تفسیر وتشریح کرتی ہیں۔ چنانچہ قرآن میں کوئی حکم مجمل بیان ہوا ہے، احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ کوئی حکم قرآن میں مطلق مذکور ہے، احادیث میں اس کے سلسلے میں بعض قیود عائد کردی گئی ہیں۔ کسی حکم کا تذکرہ قرآن میں عمومی صیغے میں ہے، احادیث میں اس کی تخصیص کردی گئی ہے۔ مثلاً قرآن میں نمازقائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور حج کرنے کے احکام ہیں۔ احادیث میں نمازوں کے اوقات، رکعتوں کی تعداد، ادائی نماز کا طریقہ، زکوٰۃ کی مقدار اور حج کے مناسک وغیرہ بیان کردیے گئے ہیں۔ قرآن میں خرید وفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ احادیث میں خریدوفروخت کی جائز اور ناجائز صورتیں اور سود کی تفصیلات مذکور ہیں۔
۳۔ کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں ایسے احکام بیان کیے گئے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ یہ بھی واجب الاتباع ہیں۔ مثلاً نکاح میں دوایسی عورتوں کو جمع کرنے کی حرمت، جن کے درمیان پھوپھی بھتیجی یا خالہ بھانجی کا رشتہ ہو، یا شکاری درندوں اور پرندوں اور گھریلو گدھوں کی حرمت، یا مردوں کے لیے ریشم اور سونا پہننے کی حرمت ، یا میراث میں دادی کا حصہ، یا شادی شدہ زانی کو رجم کی سزا ،یا دیت کے احکام وغیرہ۔
(اصول الفقہ، محمد ابوزہرۃ، دارالفکر العربی القاہرۃ، ۱۹۵۸ء، ص۲۱۱، علم اصول الفقہ، عبدالوہاب خلاف، مکتبۃ الدعوۃالاسلامیۃ، القاہرۃ، ص ۳۹۔۴۰، السنۃ و مکانتہا فی التشریع الاسلامی، ڈاکٹر مصطفی السباعی، المکتب الاسلامی بیروت، ص۴۱۴۔۴۱۶)
یہ تقسیم جمہور کے نقطۂ نظرسے ہے۔ بعض علما، جن میں علامہ شاطبی ؒخصوصیت سے قابل ذکر ہیں، حدیث کی صرف اوّل الذکر دوقسمیں قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جملہ احادیث قرآن کی تشریح وتبیین کے قبیل سے ہیں۔ کوئی حدیث ایسی نہیں جس کی اصل قرآن میں موجود نہ ہو۔ مثال کے طور پر حدیث میں درندوں اور شکاری پرندوں کی حرمت کا تذکرہ ہے۔ اس کی اصل آیتِ قرآنی: وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیہِمُ الخَبٰئِثَ (الاعراف :۵۱) میں موجود ہے۔ حدیث میں مذکور احکامِ دیت کی اصل آیت فَدِیۃٌ مُسَلَّمۃٌ اِلیٰ اَھلِہ (النساء: ۹۲) میں پائی جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: الموافقات فی اُصول الشریعۃ، ابواسحاق الشاطبی، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر: ۴/۱۲۔۱۷)
موجودہ دور میں عالم اسلام کے مشہور فقیہ شیخ ابوزہرہؒ نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے۔ انھوں نے حدیث کی مذکورہ بالا تینوں قسمیں بیان کرتے ہوئے ہر قسم کی مثالیں دی ہیں۔ پھر تیسری قسم کی مثالوں کے ضمن میں لکھاہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ ان تمام مثالوں کی اصل کتاب الٰہی میں موجود ہے… ہم سنت میں مذکور ایک حکم بھی ایسا نہ پائیں گے جس کی اصل قریب یادور سے قرآن میں موجود نہ ہو۔ اسی لیے بعض علما نے فرمایا ہے: سنت میں جو حکم بھی مذکور ہے اس کی اصل اللہ کی کتاب میں ضرور پائی جاتی ہے۔ اس راے کو امام شافعیؒ نے الرسالہ میں نقل کیا ہے۔ ان کے بعد شاطبیؒ نے بھی اپنی کتاب الموافقات میں اس کا اثبات کیا ہے… تم سنت میں کوئی ایک حکم بھی ایسا نہ پاؤ گے جس کے مفہوم پر قرآن اجمالی یا تفصیلی انداز سے دلالت نہ کرتا ہو‘‘۔ (اصول الفقہ، ابوزہرۃ، ص۳ ۱۱۔۱۱۴)
حدیثِ رسولؐ کی تشریعی حیثیت
حقیقت یہ ہے کہ احادیث کی تقسیم کے سلسلے میں علما کا یہ اختلاف کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ جمہوراْمت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اور ثابت شدہ تمام احادیث اور احکام ، خواہ انھیں مستقل حیثیت دی جائے یا قرآن کی تشریح وتببین کے قبیل سے مانا جائے، واجب التعمیل ہیں۔ جو علما تمام تراحادیث کو قرآن کی شارح ومبّین قرار دیتے ہیں۔ وہ بھی اس سے اختلاف نہیں کرتے۔ اسی بنا پر موجودہ دَور کے مشہور شامی عالم ڈاکٹر مصطفی سباعی ؒنے اس اختلاف کو لفظی قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’خلاصہ یہ کہ دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ سنت میں کچھ ایسے نئے احکام پائے جاتے ہیں جو قرآن میں منصوص اور صراحت سے مذکور نہیں ہیں۔ پہلا فریق کہتا ہے کہ اس سے اسلامی قانون سازی میں سنت کی مستقل حیثیت ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سنت سے ایسے احکام ثابت ہیں جو اللہ کی کتاب میں مذکور نہیں ہیں۔ دوسرا فریق تسلیم کرتا ہے کہ وہ احکام قرآن میں صراحت سے مذکور نہیں ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ احکام کسی نہ کسی پہلو سے نصوصِ قرآن کے تحت آجاتے ہیں۔ اس بنا پر وہ کہتا ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث، جس سے ایسا حکم ثابت ہوتا ہو جو قرآن میں مذکور نہیں ہے، وہ ضرور قرآن کے کسی نص یا اس کے کسی اصول کے تحت داخل ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ وہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے اس پر عمل درست نہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ یہ اختلاف محض لفظی ہے۔ دونوں فریق اس بات کے قائل ہیں کہ سنت میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ ایک فریق سنت کو مستقل تشریعی حیثیت دیتا ہے۔ دوسرا فریق اسے مستقل حیثیت نہیں دیتا، لیکن دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے۔(السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی، مصطفی السباعی، ص۲۰۴)
تفسیرِ قرآن میں حدیث سے استفادہ
تفسیرِ قرآن کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں دوسری آیات کو پیش نظر رکھا جائے اور یہ بھی تلاش کیا جائے کہ اس کے متعلق احادیث و آثار ہیں یا نہیں؟ اگر ہوں تو انھیں بھی دیکھا جائے۔ تعارض کی صورت میں تطبیق و تاویل کی کوشش کی جائے، ورنہ قرآن کو حدیث پر مقدم رکھا جائے۔ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کہ قرآن کی تفسیر میں صرف قرآن پر اکتفا کیا جائے اور احادیث و آثار کو یکسر نظر انداز کردیا جائے، خواہ وہ آیت کے موافق ہوں یا ظاہراً مخالف۔ ایک مومن کی دلی خواہش ہونی چاہیے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ اس آیت کے سیاق و سباق میں نبی اکرم ﷺ نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔
قرآن کی تفسیر کرتے وقت احادیث و آثار کی طرف نہ دیکھنا در حقیقت رسول اللہ ﷺ کی ’مبیّنِ قرآن‘ کی حیثیت کو نظر انداز کردینا ہے۔ دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ حدیث کے ظاہراً مخالفِ قرآن ہونے کی صورت میں اس کی تاویل و توجیہ نہ کرنے یا اس کے ردّ و قبول کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کرنے سے یہ ذہن بنے گا کہ حدیثِ صحیح قرآن کے مخالف بھی ہوتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ آیات قرآنی کی تفسیر میں اگر احادیث و آثار ہوں تو انھیں دیکھا جائے۔
پورا قرآن تواتر سے ثابت ہے، لیکن تواتر سے ثابت ہونے والی احادیث بہت کم ہیں۔ اس لیے راویوں کی تعداد اور ان کے حالات کے اعتبار سے احادیث کی درجہ بندی ہوگی اور اسی اعتبار سے ان سے استدلال و استنباط کی بنیاد رکھنا ہوگی۔
فہم قرآن کے لیے حدیث کی ضرورت کہاں کہاں ہے؟
گزشتہ تفصیل سے ظاہر ہوگیا کہ قرآن فہمی کے لیے حدیث سے استفادہ ضروری ہے۔ یہ ضرورت کہاں کہاں پیش آتی ہے؟:
۱- غرائبِ قرآن اور مشکلاتِ قرآن کی مراد جاننے کے لیے۔
۲- شان نزول سے واقف ہونے کے لیے : مثلاً وہ آیاتِ کریمہ جن میں کسی واقعہ، کسی سوال کا جواب، یا کسی تنبیہ وغیرہ کا ذکر ہو۔ اس قسم کی چند آیتیں یہ ہیں:
سورۂ انفال ، آیت ۵ تا ۱۱ میں غزوۂ بدر کا واقعہ، سورۂ آل عمران آیات ۱۵۲ تا ۱۵۵ اور ۱۶۵ تا ۱۶۸ میں غزوۂ احد کا واقعہ، سورۂ احزاب آیات ۹ تا ۲۵ میں غزوۂ خندق کا واقعہ، سورۂ فتح آیات ۱ تا ۱۰ و ۱۸ تا ۲۷ میں صلح حدیبیہ کا واقعہ، سورۂ توبہ آیات ۷ تا ۲۴ اور ۳۸ تا ۴۲ میں فتحِ مکہ اور غزوۂ تبوک کاواقعہ، سورۂ احزاب ، آیات ۳۶ و ۳۷ میں حضرت زینبؓ سے نکاح کا واقعہ، سورۂ نور آیات ۱۱ تا ۲۰ میں واقعۂ افک، سورۂ جن آیات ۱ تا ۱۹ میں جنات کے وفد کا رسول اللہ ﷺ کی تلاوت سننے کا ذکر اور سورۂ توبہ آیات ۱۰۷ تا ۱۱۰ میں مسجد ضرار کا قصہ وغیرہ۔
۳- اس تفسیر سے واقف ہونے کے لیے جو رسول اللہ ﷺؓ سے منقول ہو، مثلاً آیتِ کریمہ:
الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یَلْبِسُواْ إِیْمَانَہُم بِظُلْمٍ۔ (الانعام: ۸۲)
’’جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ’ظلم‘ کے ساتھ مخلوط نہیں کیا۔‘‘
اس میں ’ظلم‘ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے ’شرک‘ سے فرمائی اور استدلال میں آیتِ کریمہ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان: ۱۳) کی تلاوت فرمائی۔
اور آیت کریمہ:
فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتٰبَہُ بِیَمِیْنِہِ۔ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَّسِیْراً۔ ( الانشقاق:۷-۸)
’’اور بہ ہر حال جسے اس کا اعمال نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔ ‘‘
اس میں آں حضرت ﷺنے ’حِسَاباً یَّسِیْراً‘ کی تفسیر ’عرض‘ سے کی۔ یعنی صرف حساب پیش ہوجائے گا، کچھ کھود کرید اور پوچھ تاچھ نہ ہوگی۔
السنۃ قاضیۃ علی الکتاب کا صحیح مفہوم:
قرآن و سنت کے باہمی تعلق کی وضاحت کے لیے محدثین نے بعض ایسی تعبیرات اختیار کی ہیں جو ذہنوں میں خلجان پیدا کردیتی ہیں۔ مثلاً امام یحییٰ بن ابی کثیر ؒ(م۱۲۹ھ )نے فرمایا ہے:
السنۃ قاضیۃ علی الکتاب، ولیس الکتاب قاضیاً علی السنۃ۔(سنن الداریٰ : ۱۱۱۷)
’’سنت قرآن کا فیصلہ کرنے والی ہے،قرآن سنت کا فیصلہ کر نے والا نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح امام مکحولؒ(م۱۱۲ھ )کا قول ہے۔
الکتاب أحوج الی السنۃ من السنۃ الی الکتاب (ابن عبد البر، جامع بیان العلم وفضلہ: ۲؍۱۹۱، تفسیر القرطبی: ۱؍۳۹)
’’جتنی ضرورت سنت کو قرآن کی ہے ،اس سے زیادہ ضرورت قرآن کو سنت کی ہے۔‘‘
بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ جملہ قرآن کے مقام و مرتبہ کو کم کرتا اور سنت کے مقابلے میں اس کی حیثیت گھٹاتا ہے، اس لیے یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کے ذیعے قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے ایک پہلو کو واضح کیا گیا ہے۔ان تعبیرات کے سلسلہ میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ غلط فہمی پیدا کرنے والی ہیں اس لیے ان سے اجتناب کرنا اولیٰ ہے ، لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ ان میں حدیث کو قرآ ن پر حاکم بنا دیا گیا ہے اور اس کا درجہ قرآن سے بڑھا دیا گیا ہے۔اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ سنتِ رسول کتاب اللہ کی وضاحت اور تشریح کرنے والی ہے۔ اگر کتاب کے کسی حکم میں ابہام،اجمال یا عموم ہو اور سنت سے اس کی توضیح،تفصیل یا تخصیص ہوتی ہے تو اسے قبول کرنا لازم ہوگا۔
علامہ ابن عبد البرؒ (م۴۶۳ھ)نے مذکورہ بالا قول کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
’’ یرید انھا تقضی علیہ و تبیّن المراد منہ‘‘(جامع بیان العلم)
’’وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ حدیث قرآن کے احتمال کو ختم کرتی اور اس کے معنیٔ مراد کو واضح کرتی ہے۔‘‘
علامہ شاطبی ؒنے لکھا ہے:
’’اس مقولہ کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ کتاب اللہ کی بعض آیات دو یا دو سے زیادہ امورو مطالب کی محتمل ہوتی ہیں،لیکن سنت ایسی تمام آیات کے جملہ محتملات میں سے کسی ایک محتمل کی تعبیر کرکے اس آیت کا مقصدومطلب متعین کرتی ہے۔اس چیز پر استدلال عموماً ان احادیث سے کیا جا تا ہے جن سے ظواہر قرآن کے خلاف مطلق کو مقید اور عام کو خاص کیا جاتا ہے۔ ظواہر قرآن کے مقتضا کو یوں ترک کرکے سنت کی طرف رجوع کرنے سے کتا ب اللہ پر سنت کی تقدیم لازم نہیں آتی ،بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو چیز سنت میں معتبر ہے وہی کتاب اللہ کی بھی منشا و مراد ہے۔پس اس قول کا اصل محرک اصول قرآنیہ کی توضیح میں سنت کا عظیم اثروکردار ٹھہرا ۔‘‘ (الموافقات : ۴؍۴)
اور علامہ سیوطیؒ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’اصل یہ ہے کہ قرآن کے سنت کا محتاج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سنت قرآن کی مبیّن اس کے مجملات کی تفصیل کرنے والی ہے۔ گویا قرآن ایک چھپا ہوا خزانہ ہے ، جسے ضرورت ہے کہ کوئی اسے آشکارا کرے۔ سنت اسے آشکارا کرتی ہے۔ یہی مطلب ہے اس بات کا کہ ’’سنت کتاب کا فیصلہ کرنے والی ہے‘‘۔ قرآن، سنت کا ’مبیّن(وضاحت کرنے والا) نہیں ہے اور اس کا فیصلہ کرنے والا بھی نہیں۔ کیوںکہ سنت بذاتِ خود ’مبیّن‘ ہے، وہ قرآن کی طرح اعجاز و ایجاز کی حد تک نہیں پہنچی ہے، کیوںکہ سنت قرآن کی شرح ہے اور شرح کی شان یہ ہے کہ وہ مشروح سے زیادہ واضح اور صاف صاف ہو‘‘۔] بہ حوالہ مناھل العرفان فی علوم القرآن۔ زرقانی)
اس مفہوم کو قبول کرتے ہوئے بعض محدثین نے اپنی کتابوں میں اس مقولہ کو مستقل عنوان قرار دیا ہے: باب السنۃ قاضیۃ علی الکتاب (سنن الدارمی : ۱؍۱۱۷)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2015