اس تحریر کا مقصد نماز میں امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ کے پڑھنے اور نہیں پڑھنے کے مسئلہ میں کسی موقف کی وکالت اور مخالفت نہیں ہے، بلکہ اس تحریرکا اصل مقصد نماز کے متعلق سورئہ فاتحہ کے پیغام کو واضح کرنا ہے ، اور نمازیوںمیں یہ احساس پیدا کرناہے کہ وہ سورئہ فاتحہ کے معنی و مفہوم کو جانیں،اورنماز کے بعد کی زندگی میں اس پر عمل کریں، اور اس کی خلاف ورزی سے بچیں،اور جہاں تک امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ کے پڑھنے اور نہیں پڑھنے کے متعلق کچھ فقہاء اور ائمہّ میں اختلاف کی بات ہے، تو اس کو حق و باطل کا اختلاف نہ سمجھیں، بلکہ اجہتادی اختلاف سمجھیں، اور جس اجتہاد پر دل مطمئن ہو، اس پر عمل کریں، البتہ اس مسئلہ میں اعتدال اور بہتری کی صورت یہ ہے، اور راقم الحروف ،کاذاتی عمل بھی اسی پر ہے ،کہ جن نمازوں اور جن رکعتوں میں امام جہری قرات کرتا ہے ، ان نمازوں اور رکعتوں میں مقتدی خاموش رہیں، اور امام کی قرات کوسُنیں، اور جن نمازوں اور رکعتوں میں امام سرّی قرات کرتا ہے ،ان نماز وں اور رکعتوں میں مقتدی بھی خاموشی کے ساتھ سورئہ فاتحہ پڑھ لیں، اس صورت میں جن فقہاء اور ائمّہ نے قرآن مجید کی سورئہ اعراف کی آیت نمبر ۲۰۴ وَ اِذٓ قُرِْیْئَ الْقُراَنُ فاْسْتَمعُوا لَہُ وَ اَنْصِتُوا لَعلّکُمْ تُرْحَمْونَ ۔ یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو،تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔کی روشنی میں امام کے پیچھے قرات نہیں کرنے کا جو اجتہاد کیا ہے ، اس پر بھی عمل ہو جاتا ہے، کیونکہ مذکورہ آیت میں قرآن کے سُننے کے ساتھ خاموش رہنے کا حکم ہے ،اور ظاہر ہے ،جب قرآن پڑھنے کی آواز سنائی نہیں آ رہی ہے، تو خاموش رہنے کے بجائے سورئہ فاتحہ کو آہستہ پڑھنے کی اجازت نکل آتی ہے،او ر اس طرح اس حدیث پر بھی عمل ہو جائے گا ، جس میں کہا گیا ہے ،کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ،ویسے دیکھا جائے تو مقتدیوں کی نماز، امام کی نماز کے تابع ہوتی ہے ،اورچونکہ امام کی نماز میں سورئہ فاتحہ پڑھی گئی ،تووہ مقتدیوں کی نماز میں بھی شامل ہو گئی ہے، البتہ جہاں تک تعلیم و تذکیر کے طور پر مقتدیوں کا سورئہ فاتحہ سے تعلق قائم ہونے کی بات ہے ،اور نماز میں سورئہ فاتحہ کے رکھے جانے کا مقصد بھی یہی ہے ،تو جس طرح تعلیم و تذکیر پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے اسی طرح سننے سے بھی حاصل ہوتی ہےاور دورِ ماضی اور دورِ حال کی تاریخ اس پر شاہد ہے، کہ جتنے لوگ قرآن پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں، اتنے لوگ قرآن سن کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں، اور جتنے لوگ قرآن پڑھ کر قرآن سے نصیحت حاصل کرتے ہیں، اتنے ہی لوگ قرآن سن کر قرآن سے نصیحت حاصل کرتے ہیں،مطلب یہ کہ قرآن سے علمی اور عملی تعلق پیدا کرنے کے لئے قرآن کو پڑھنا ہی ضروری نہیں ہے ، بلکہ قرآن کا سننا بھی کافی ہے،اور شاید اللہ، اور اس کے رسولﷺ کے پیش ِنظر کچھ نمازوں اور رکعتوںکے متعلق سّری اور جہری قرات رکھنے میں یہی مصلحت ہو ،کہ کچھ لوگوں پر قرآن کا پڑھنا زیادہ اثر کرتا ہے،اور کچھ لوگوں پر قرآن کا سننا زیادہ اثر کرتا ہے۔
یہاں تک کہ دن و رات کے اوقات کی تبدیلی میں بھی یہ تبدیلی واقع ہوتی ہے ،مثلاً ظہر اور عصر کی نمازوں میں پورے طور پر قرات سّری رکھی گئی ہے، کیونکہ یہ دونوں نمازیں دن کی ہیں، اور دن میں بہت سے کام ہوتے ہیں، اسی طرح مختلف آوازیں بھی ہوتی ہے،اس لئے قرات سّری رکھی گئی ہے،تاکہ نمازی خود سے پڑھ کر بھی قرآن سے جڑ سکے، خصوصیت کے ساتھ سورئہ فاتحہ کی تلاوت سے ،کیونکہ امام کے پیچھے خاموشی میںاِدھر اُدھر کے خیالات کا امکان پڑھنے کی بہ نسبت زیادہ پایا جاتا ہے ،اور رات کی تینوں نمازیں یعنی مغرب،عشاء، اور فجر کی نمازوں میں قرات جہری رکھی گئی ہے، کیونکہ رات میں یکسوئی اور خاموشی رہتی ہے،اس لئے قرآن کا سننا زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، اور ویسے بھی قرآن رات میں نازل ہواہے، اس لئے رات کے وقت کا پڑھنا اور سننا ذہن پر زیادہ اثر ڈالتا ہے، اور مشاہدہ بھی اس کا شاہد ہے،پھر بھی مغرب کی نماز میں دو رکعت جہری اور ایک رکعت سّری رکھی گئی ہے ،اور عشاء کی نماز میں دو رکعت جہری اور دو رکعت سّری رکھی گئی ہے، تاکہ کوئی مقتدی امام کی قرات سننے کے ساتھ خود سے سورئہ فاتحہ پڑھ کر نصیحت حاصل کرنا چاہے تو وہ سّری رکعتوں میں پڑھ لیں، البتہ فجر کی نماز کی دونوں رکعتیں جہری رکھی گئی ہیں،شاید اس وقت میں مقتدیوں کے لئے صرف قرآن کا سننا ہی زیادہ نصیحت کا باعث ہو، البتہ پھر بھی آنحضورﷺ نے فجر سے پہلے کی دو رکعت سنّتو ں کی تاکید کرکے،ایک طرح سے سّری رکعتوں کی بھرپائی کردی، تاکہ مقتدی حضرات خود سے پڑھ کر بھی قرآن سے نصیحت حاصل کریں۔
نماز اور سورئہ فاتحہ میں وہی تعلق ہے جو جسم اور روح میں ہے جس طرح جسم اور روح کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح نماز اور سورئہ فاتحہ کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا ، اور جس طرح جسم سے روح نکل جائے تو جسم بے جان ہو جاتا ہے اسی طرح اگر نماز سے سورئہ فاتحہ کو نکال دیا جائے تو وہ بے جان ہو جاتی ہے۔ نماز اور سورئہ فاتحہ کے تعلق کو دین میں قرآن و حدیث کے تعلق کی مثال کے ذریعہ بھی سمجھا جا سکتا ہے، جس طرح دین کے کسی بھی عمل میں قرآن و حدیث کو الگ نہیں کیا جاسکتا اسی طرح نماز کے عمل میں سورئہ فاتحہ کو الگ نہیں کیا جا سکتا ، مطلب یہ کہ نماز کو سمجھنے کیلئے سورئہ فاتحہ کو سمجھنا ضروری ہے ۔ نماز اور سورئہ فاتحہ کا یہ تعلق کسی کا اجتہادی نہیں ہے بلکہ آنحضورﷺ کے تاکیدی فرمان سے ثابت ہے، اور عمل رسولﷺ عمل صحابہؓ اور عمل امت کے تواتر سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ بخاری اور مسلم شریف کی روایت ہے ۔ ’’حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورئہ فاتحہ نہ پڑھے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
یہاں تک کہ قرآن مجید کے سورئہ حجر کی ایک آیت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سورئہ فاتحہ نماز کا ایک اہم حصہ ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ وَلَقَدْ اٰتینَکَ سَبْعَا مِّنَ الْمَثَانِی وَ الْقُرآنَ الْعَظیِم (سورئہ حجر آیت ۸۷) ترجمہ : اور تحقیق کہ اے محمدﷺ ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی آیتیں عطا کی اور قرآن عظیم ۔دہرانے سے مراد نماز میں اس سورت کا بار بار پڑھا جانا ہی ہے۔
اسی طرح مسلم شریف کی ایک اور روایت ہے : ’’ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ،کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں اُمّ القرآن یعنی سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے یہ بات آپؐ نے تین بار ارشاد فرمائی، ابوہریرہؓ کو کہا گیا ، تحقیق کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں ، انہوں نے کہا اس کو اپنے دل میں پڑھ لو ، اس لئے کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا ہے آپؐ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے نماز میرے اور میرے بندےکے درمیان آدھی آدھی تقسیم کردی، اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا، پس جب بندہ الحَمدُ للہ رَبّ العَالَمِینْ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی اور جب وہ کہتا ہے اَلرّحمٰن الرّحیم ْ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کہی اور جب وہ کہتا ہے مَالِکِ یَومِ الدّین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندےنے میری تعظیم کی، اور جب وہ کہتا ہے اِیّاکَ نعبُدُ وَ اِیّا کَ نَسْتَعِینُ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندےکے درمیان (ایک معاہدہ ہے) اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے سوال کیا، اور جب وہ کہتا ہے اِھْدِنَا الصّراَطَ الْمُسْتَقیمْ صِرَاطَ الّذِینَ اَنْعَمتَ عَلَیْھَمْ غَیرْ المَغضُوبِ عَلَیھمْ وَلاَ الضَّالّینَ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔ (اس کو مسلم نےروایت کیا ) ۔
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ سورہ فاتحہ نماز کا ایک لازمی حصہ ہے ، بلکہ اس سورت کا ایک نام ہی سورۃ الصلوٰۃ ہے یعنی نماز کی سورت ، اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ نماز کا سورئہ فاتحہ سے کتنا گہرا اور مضبوط تعلق ہے ، مطلب یہ کہ نماز کو سمجھنے کیلئے سورئہ فاتحہ کو سمجھنا ضروری ہے اور جس نے سورئہ فاتحہ نہیں سمجھی گو یا اس نے نماز نہیں سمجھی، اور جس نے سورئہ فاتحہ کو سمجھ لیا گویا اس نے نماز کو سمجھ لیا، اخیر کوئی تو وجہ ہوگی کہ آنحضورﷺ نے قرآن کی ایک سو چودہ (۱۱۴) سورتوں میں سے صرف سورئہ فاتحہ کو نماز کے لئے ضروری قرار دیا اور بقیہ سورتوں کے متعلق اختیار دیا کہ جو چاہے سورت پڑھے، یا کسی بڑی سورت کی چند آیات پڑھے، اس کی وجہ واضح ہے اور وہ خود مذکورہ حدیث میں موجود ہے اور وہ ہے سوری فاتحہ کا اَمّ القُرآن ہونا ، یعنی پورے قرآن کی جڑ اور بنیاد، مطلب یہ کہ پورے قرآن میں جو احکام تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیںوہ سورئہ فاتحہ میں اجمالی طور سے بیان کر دیئے گئے ہیں، اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ پورا قرآن مجید ایک طرح سے سورئہ فاتحہ کی تفسیر ہے سورئہ فاتحہ کو پورے دین کی جڑ اور بنیاد بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ دین اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے اس لئے کہ جو قرآن نے پیش کیاوہی دین ہے اور جو دین پیش کرتا ہے وہی قرآن میں ہے ، اور جہاں تک آنحضورﷺ کی سیرت طیبہ کی بات ہے تو وہ پورے قرآن یا پورے دین کی عملی تفسیر ہے اس لحاظ سے اب سورہ فاتحہ صرف قرآن کی سات آیات والی سورت نہیں رہی بلکہ وہ اپنے اندر قرآن کی چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (۶۶۶۶) آیات کا نچوڑ اور خلاصہ لئے ہوئے ہے۔
اسی طرح وہ اپنے اندر آنحضورﷺ کی پوری زندگی کا نچوڑ اور خلاصہ لئے ہوئے ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس نے سورئہ فاتحہ کو پورے طور پر سمجھ لیا،گویا اس نے پورے دین اور پورے قرآن اور پوری سیرت رسولﷺ کو سمجھ لیا، یہی وجہ ہے کہ سورئہ فاتحہ ہر نماز کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے تاکہ ہر نمازی کا پورے قرآن اور آنحضورﷺ کی سیرت سے تعلق جڑا رہے اور روزانہ یہ تعلق پانچ مرتبہ مضبوط ہو اور تازہ ہوتا رہے لیکن سورئہ فاتحہ سے یہ مقصد اسی وقت پورا ہوگا جب کہ نمازی اس کو سمجھے اس لئے نماز کی تعلیم میں سورئہ فاتحہ کے معافی و مطلب کو جاننے کی تعلیم ہر نمازی کو اپنے اوپر لازم کر لینا چاہئے تاکہ وہ اپنی نماز سے ناواقف اور بے علم نہ رہے، لیکن افسوس ہے کہ ابھی زیادہ تر نمازیوں نے سورہ فاتحہ کے متعلق صرف اس کو زبانی یاد کرنے ہی کی ذمہ داری سمجھی ہوئی ہے ، یہاں تک ساٹھ ستر سالہ پنجوقتہ نمازی بھی صرف اس کے الفاظ زبانی یاد کرنے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں ، در اصل اس میں ابھی نماز سکھانے والوں کا زیادہ قصور ہے کیونکہ انہوں نے نماز کے سکھانے کے عمل میں سورہ فاتحہ کے معانی و مطلب کو شامل ہی نہیں کیا ہے، جب کہ نماز کی خصوصیت حدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ نمازی، نماز میں اپنے رب سے گفتگو کرتا ہے تو اسے غور کرنا چاہئے کہ وہ کیا گفتگو کر رہا ہے ، چنانچہ فرمان رسول ﷺ ہے : ’’ حضرت ابن عمرؓ اور بیاضیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا نماز پڑھنے والا اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے پس چاہے کہ وہ غور کرے کہ کیا سرگوشی کر رہا ہے۔
مذکورہ حدیث میں فَلْینْظُر کے الفاظ آئے ہیں جن میں گہرے علم اور گہرے غور و فکر کے معنیٰ ہوتے ہیں، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ نماز میں پڑھی جانے والی آیات اور سورتوں کو سرسری جان لیناکافی نہیں ہے بلکہ ان آیات اور سورتوں کا گہرا اور پختہ علم حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ آیات اور سورتیں نمازی کے ذہن کا حصہ بنیں اور جب بھی نمازی ان آیات اور سورتوں کو نماز میں پڑھے یا سنے تو وہ ذہن پر اثر کریں۔
مذکورہ حدیث قدسی میں خاص بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کردیاہے ، اور پھر نماز کی اسی تقسیم کی وضاحت میں سورہ فاتحہ کی آیات ،نمازی اور اللہ کے درمیان مکالمہ کی صورت میں پیش کی گئی ہیں، اس سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ نماز کی اصل اور بنیاد قرآت سورئہ فاتحہ ہے اور قرآن کی باقی سورتیں اور آیات اس کے تابع ہیں یہی وجہ ہے کہ عمل رسول اللہﷺ عمل صحابہؓ اور عمل امت سے تواتر سے یہ ثابت ہے کہ نماز کی قرآت میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ہر رکعت میں سب سے پہلے رکھی گئی ہے اس کے بعد قرآن کی دوسری سورتیں اور آیات رکھی گئی ہیں۔ اس عنوان کے تحت قرآن و حدیث کی روشنی میں سورئہ فاتحہ کی اہمیت فضیلت اور تفسیر صرف قرآن کی ایک سورت کے طور پر نہیں پیش کی جارہی ہے بلکہ نماز کی ایک لازمی سورت کے طور پر پیش کی جا رہی ہے اور اس غرض کے ساتھ پیش کی جارہی ہے کہ ہر نمازی سورئہ فاتحہ کے مطلب و مدعا کو سمجھے اور اپنی زندگی میں داخل کرے، اور اپنی زندگی کو سورئہ فاتحہ کی خلاف ورزی سے بچائے ، کیونکہ سورئہ فاتحہ کی خلاف ورزی صریح طور پر اپنی نماز کی خلاف ورزی ہے اسی طرح سورئہ فاتحہ کے مطلب و مقصد سے ناواقفیت صریح طور پر اپنی نماز سے نا واقفیت ہے ۔
درج ذیل حدیث سے سورئہ فاتحہ کی عظمت و اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے جو ترمذی شریف، دارمی اور مشکوٰۃ میں ہے:’’ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت اُبی بن کعب کو فرمایا تم نماز کس طرح پڑھتے ہو اس نے سورئہ فاتحہ پڑھی رسول اللہﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ایسی سورت نہ توریت میں نازل ہوئی اور نہ انجیل میں اور نہ زبور میں اور نہ قرآن میں اس جیسی کوئی سورت ہے، اور بیشک یہ بار بار پڑھی جانے والی ساتھ آیات ہیں اور قرآن عظیم ہے جو مجھ کو دیا گیا ہے۔‘‘ (اس کو امام ترمذی نے اور دارمی اور مشکوٰۃ نے روایت کیا ہے۔) مذکورہ حدیث میں سورئہ فاتحہ کی جو عظمت بیان کی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، لیکن اگر اس سورت کے پیغام پر غور کیا جائے تو اس کا یہ تعارف مزید نکھر کر سامنے آتا ہے اور اس کا قاری اور سامع اس کی جامعیت کو دل سے ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اسکی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اتنے کم الفاظ میں اس میں علم و عمل کا اتنا بڑا سمندر کیسے سمودیا گیا ہے جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں ہے۔
بعض روایتوں میں سورئہ فاتحہ کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ہے ،ایک مرتبہ دور مکی میں اور دوسری مرتبہ دورمدنی میں،دو مرتبہ کے نزول سے گویا یہ بتلادیا گیا کہ آنحضورﷺ کی نبوی زندگی کے دونوں ہی دور یعنی دور مکی اور دور مدنی کے کام سور ئہ فاتحہ کے پیغام سے وابستہ رہیں، ساتھ ہی قیامت تک آنے والے اہل ایمان کو یہ پیغام دیدیا گیا کہ چاہے وہ مکی دور کے حالات سے گزرر ہے ہوں یا مدنی دور کے حالات سے گزر رہے ہوں ان کے لئے سورئہ فاتحہ کے پیغام سے وابستہ رہنا ضروری ہے اس سورت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ مکمل طور سے نازل ہونے والی قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے مطلب یہ کہ اس سے پہلے قرآن کی صرف چند متفرق آیات نازل ہوئی تھیں، جیسے سورئہ علق اور سورئہ مدثر کی چند ابتدائی آیات، لیکن مکمل طور سے نازل ہونے والی سب سے پہلی سورت وہ سورئہ فاتحہ ہی ہے سب سے پہلے اس کے نزول سے ایک طرح سے اللہ تعالیٰ نے یہ بتلادیا کہ اب آنحضورﷺ پر تئیس (۲۳) سالوں میں جو قرآن نازل ہوگا جس میں ایک سو چودہ (۱۱۴) سورتیں ہیں ان تمام سورتوں کا خلاصہ اور نجوڑ سورہ فاتحہ میں ہے اس لحاظ سے سورئہ فاتحہ پورے قرآن کا مقدمہ اور دیباچہ ہے جس طرح سے دنیا میں مختلف مصنفین کی کتابیں ہوتی ہیں اور ہر مصنف کتاب کے شروع میں مقدمہ ، دیپاچہ ، تمہید ابتدائیہ، پیش لفظ کے نام سے چند صفحات اور سطروں میں پوری کتاب کا خلاصہ لکھ دیتا ہے ، اور ہر کتاب پڑھنے والا، کتاب کا مقدمہ یا دیباچہ پڑھ کر پوری کتاب کا موضوع اور مقصد سمجھ لیتا ہے۔
لیکن اس موضوع کی تفصیل معلوم کرنے کے لئے اسے پوری کتاب پڑھنی پڑتی ہے، ٹھیک اسی طرح قرآن میں سورہ فاتحہ کی یہی حیثیت ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا نام ہی فاتحہ الکتاب ہے یعنی قرآن کا آغاز اور افتتاح کرنے والی سورت، اور چونکہ نماز بھی اسلامی زندگی کا آغاز اور افتتاح کرنے والی عبادت ہے۔ اس لئے ہر نماز کے آغاز و افتتاح میں اس سورت کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس ترتیب سے ایک نمازی کو جو پیغام دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن کی ترتیب کا آغاز سورہ فاتحہ سے ہوا، نماز کا آغاز سورہ فاتحہ سے ہوا، اسی طرح وہ اپنی پوری زندگی کا آغاز سورہ فاتحہ سے کرے، لیکن افسوس ہے کہ ابھی بیشتر نمازیوں نے سورہ فاتحہ کا علم تک حاصل نہیں کیا جب کہ یہ سورت ہر نماز میں اسی لئے رکھی گئی تھی کہ ہر نماز ی کی زندگی میں سورہ فاتحہ کا عمل ہو، لیکن ظاہر ہے جب نمازیوں کو ابھی سورہ فاتحہ کا علم نہیں ہے تو اس پر عمل کیسے ہوگا؟ اس لئے اس عنوان کے تحت سورہ فاتحہ کے مفہوم و مطلب کے متعلق جو باتیں لکھی جارہی ہیں اس کی غرض یہی ہے کہ نمازیوں کو سورہ فاتحہ کا علم ہو جو اصل نماز ہے اور اس سے لا علمی ایک طرح سے اصل نماز سے لا علمی ہے۔
اس تعلق سے اگر جائزہ لیا جائے تو فی الحال مساجد کے اکثر امام ابھی نماز کے علم سے لا علم ہیں۔ کیونکہ زیادہ ترمساجد میں حفاظ امام ہیں جن کا صاف اعتراف ہے کہ انہیں سورہ فاتحہ کا مفہوم و مطلب بتایا گیا ہے اور نہ انہیں سورئہ فاتحہ کا مفہوم و مطلب معلوم ہےاور جب اکثر اماموں کا یہ حال ہے تو نمازیوں کے متعلق بخوبی انداز ا کیا جا سکتا ہے کہ سورئہ فاتحہ سے لا علمی کا کیا حال ہوگا؟ ایک سرسری جائزہ فی الحال سامنے یہ آتا ہے کہ ابھی ننانوے فیصد پنجوقتہ نمازی سورہ فاتحہ کے مفہوم و مطلب سے ناواقف ہیں، لیکن ان اماموں اور نمازیوں کے لئے یہ بات کتنی افسوس ناک ہے کہ ابھی وہ برسوں سے پڑھی جانے والی نماز کی پہلی رکعت سے ناواقف ہیںاور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ان اماموں اور نمازیوں کو اپنی نماز کی بے علمی کا احساس بھی نہیں ہے اس رویہ پر علامہ اقبالؒ کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
امت مسلمہ کے لئے یہ بات کتنی تعجب خیز ہے کہ جس دین نے تمام مسلمانوں پر پورے دین کا علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے، آج اسی دین کو ماننے والے اکثر امام اور نمازی ، نماز کی پہلی رکعت کے علم سے بے علم ہیں بلکہ آدھی رکعت کے علم سے بے علم کہنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ ایک رکعت صرف سورہ فاتحہ سے مکمل نہیں ہوتی بلکہ سورئہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت یا چند آیات ملانے سے ایک رکعت کی قرآت مکمل ہوتی ہے ، ایک دوسرے پہلو سے بھی اس بے علمی کی خطرناکی بڑھ جاتی ہے وہ یہ کہ ایک بے نمازی شخص اگر نماز میں پڑھی اور سنی جانے والی سورتوں کے مفہوم و مطلب سے ناواقف اور بے خبر ہے تو کوئی افسوس کی بات نہیں ہے لیکن ایک پچاس ساٹھ سالہ پنجوقتہ امام اور نمازی اگر سورئہ فاتحہ کے مفہوم و مطلب تک سےنا واقف ہے تو دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی عجوبہ نہیں ہوسکتا، لیکن افسو س ہیکہ نمازیوں کی اکثریت اسی عجوبہ سے گزرہی ہیں۔نماز کے متعلق آنحضورﷺ کی اتباع کرنے کیلئے بھی ایک نمازی کیلئے سورہ فاتحہ اور نماز میں پڑھی جانے والی دیگر سورتوں کا مفہوم و مطلب سمجھنا ضروری ہوجاتاہے اس لئے کہ آنحضورﷺ نماز پڑھتے ہوئے سورئہ فاتحہ اور دیگر سورتوں کے مفہوم و مطلب کو سمجھتے تھے۔
چنانچہ ہماری نمازیں بھی اسی وقت نبی کریمﷺ کی اتباع کی تعریف میں آئینگی جب کہ ہم بھی سورئہ فاتحہ اور دیگر سورتوں کو نماز میں سمجھتے ہوئے پڑھیں گے ، یقینا سورئہ فاتحہ اور دیگر سورتوں کی اعلیٰ سمجھ جو نبیﷺ کو حاصل تھی وہ ہمیں حاصل نہیں ہو سکتی، لیکن سورئہ فاتحہ اور دیگر سورتوں کو سمجھنے کا وہ درجہ جو ہر نمازی کے بس میں ہے وہ تو حاصل ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ سمجھنے کی کوشش کرے، یہاں پر کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے چونکہ آنحضورﷺ کی زبان عربی تھی اس لئے وہ سورہ فاتحہ اور دیگر سورتوں کے مفہوم و مطلب کو سمجھ لیتے تھے ، اور ہماری زبان چونکہ عربی نہیں ہے اس لئے ہم نماز کو بغیر سمجھے بھی پڑھے تو نبی ﷺ کی اتباع ہو جائیگی تو یہ سوال ہی قرآن اور نماز کے متعلق صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن اور نماز کی دعوت صرف عربی زبان کے بولنے اور سمجھنے والوں ہی کیلئے نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کے لئے ہے چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتے اور سمجھتے ہوں، لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ لوگ دوسرے انسانوں کی بات کو سمجھنے کیلئے ان کی زبانیں تو سیکھتے اور سمجھتے ہیں لیکن اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات سمجھنے کیلئے عربی زبان نہیں سیکھتے اور نہیں سمجھتے، اور اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود ان کی زبان میں قرآن و حدیث کے جو ترجمے اور تفسیریں ہیں ان کو پڑھتے تک نہیں ہیں ۔
چنانچہ اس وقت ہندوستان میں اردو زبان میں قرآن مجید کے بے شمار ترجمے اور تفسیریں ہیں لیکن بہت کم مسلمان ان ترجموں اور تفسیروں کو پڑھتے ہیں۔ نماز کے متعلق آنحضورﷺ کی اتباع کا اعلیٰ درجہ تو یہی ہے کہ نمازی براہ راست قرآن کی زبان سمجھتے ہوئے سورئہ فاتحہ اور دیگر سورتیں پڑھے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ نمازی اپنی زبان میں نماز کے علاوہ وقت میں سورئہ فاتحہ اور دیگر سورتوں کا اتنی زیادہ بار ترجمہ اور تفسیر پڑھے کہ وہ ذہن میں نقش ہو جائے اور جب وہ نماز میں سورئہ فاتحۃ اور دیگر سورتیں پڑھے تو ان کا مفہوم و مطلب ذہن میں تازہ ہو جائے، اور تیسرا درجہ یہ ہیکہ اپنی زبان میںکئے ہوئے قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کو اتنی زیادہ بارکسی سے پڑھواکر سنے کہ سورہ فاتحہ اور دیگر نماز کی سورتوں کو مفہوم و مطلب ذہن میں نقش ہوجائے، اور جب یہ سورتیں نماز میں پڑھی جائے تو فوراً ان کا مفہوم و مطلب ذہن میں تازہ ہوجائے۔ اور یہ درجہ کم سے کم اور آخری ہے اور سب نمازیوں کے بس میں ہے لیکن افسوس ہے کہ ابھی نمازیوں کی اکثریت اس آخری درجہ پر بھی نہیں آئی ہے، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ابھی نمازیوں نے سورئہ فاتحہ اور دیگر نماز کی سورتوں کے مفہوم و مطلب جاننے کو نماز کا حصہ سمجھا ہی نہیں ہے گویا کہ ابھی نمازیوں میں نماز کے علم کی بے نیازی ہے جب کہ حدیث میں ایک مومن کی جو مثال بیان کی گئی ہے وہ یہ ہیکہ وہ خیر کی باتیں سننے سے کبھی سیر نہیں ہوتا وہ زندگی بھر خیر کی بات سنتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا آخری ٹھکانہ جنت ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمان رسولﷺ ہے : لنْ یَّشْبَعَ الْمُومِنْ مِنْ خَیرِِ یَسْمَعُۃ حَتیَ یَکُوْنَ مُنتَھَاہُ الْجَنّۃَ ۔’’ ہرگز مومن خیر کے سننے سے کبھی سیر نہیں ہوتا وہ اسے سنتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کی انتہا جنت ہوتی ہے ۔‘‘( اس کو امام ترمذی اورمشکوٰۃ نے روایت کیا)
مطلب یہ کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک مومن بھی ہو اور وہ خیر کی باتیں سننے سے سیر ہوجائے اور پھر اس کی یہ کیفیت زندگی کے کسی خاص حصہ اور محدود وقت ہی میں نہیں ہوتی بلکہ جنت میں پہنچنے تک رہتی ہے اور ظاہر ہے کوئی کتنا ہی نیک ہوجائے وہ موت سے پہلے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا، گویا کہ مومن زندگی بھر خیر کی طلب و جستجو میں لگا رہتا ہے، اور سب سے بڑا خیر اور اصل خیر اللہ کا کلام قرآن مجید ہے اس لحاظ سے ایک مومن قرآن کی باتیں سننے سے کبھی سیر نہیں ہوتا، اور نہ وہ قرآن کی باتوں سے بے نیاز ہوتاہے ، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے ایمان کے داویدار ایسے ہیں، جو قرآن کی تعلیم سے سیر اور بے نیاز ہو گئے ہیں۔ جب کہ ابھی انہیں سورہ فاتحہ کا مفہوم و مطلب بھی معلوم نہیں ہے اور کچھ تو قرآن کے درس و تفسیر سے اتنے زیادہ بے نیاز ہوگئے ہیں جو صاف طور سے کہہ دیتے ہیں کہ ایمان کو سمجھنے کے لئے قرآن کے درس و تفسیر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو قرآن کے ذریعہ ہی ایمان سمجھایا اور اسی طرح اللہ کے رسول اللہﷺ نے تمام صحابہؓ کو قرآن کے ذریعہ ہی ایمان سمجھایا، اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ شوریٰ میں آنحضورﷺ کو خطاب کرکے ارشاد فرمائی: ’’ اور اسی طرح ہم نے آپﷺ کی طرف ہمارے حکم سے قرآن کی وحی کی آپﷺ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان لیکن اس قرآن کو ہم نے روشنی بنایا ہم اس کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور یقینا آپؐ سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کر رہے ہیں۔‘‘ (شورہٰ ۵۲)
مذکورہ آیت سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ ایمان کے سیکھنے کے سلسلہ میں قرآن کی کتنی اہمیت ہے کہ خود آنحضورﷺ کو کہا گیا کہ اس سے پہلے آپؐ ایمان نہیں جانتے تھے دوسری اہم بات جو مذکورہ آیت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ اللہ نے فرمایا ہم قرآن کے ذریعہ ہی اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں ، گویا کہ بندوں کی ہدایت کا اصل ذریعہ قرآن ہی ہے لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمان قرآن کو چھوڑ کر ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ویسے ہر دور میں اللہ کی ہدایت اللہ کے کلام سے ہی وابستہ رہی ہے ،کبھی یہ ہدایت نبیوں پر نازل ہونے والے صحیفوں کی صورت میں رہی کبھی اللہ کی کتابیں توریت ، زبور، انجیل کے ساتھ وابستہ رہی اور قرآن کے نزول سے لے کر قیامت تک یہ ہدایت قرآن اور آنحضورﷺ کی سیرت سے وابستہ کردی گئی ہے، لیکن قرآن اور سیرت رسولﷺ میں ترتیب کے لحاظ سے پہلے قرآن ہے اور سیرت رسولﷺ اس کے تابع ہے، اور خود آنحضورﷺ نے اسی ترتیب سے کام انجام دیا اور امت کو بھی اسی ترتیب کا حکم دیا۔ لیکن افسوس ہے کہ آج بیشتر پنجوقتہ نمازیوں میں حدرجہ قرآنی فہم سے بے رخی اور بے نیازی پائی جاتی ہے، اتنی بے رخی اور بے نیازی وہ دنیا کے کسی بھی شخص کے کلام کے متعلق نہیں کر سکتے چاہے اس کا کلام کسی ایسی زبان میں ہو جس کو سمجھنے کیلئے کسی دوسرے شخص کی مدد لینی پڑے۔ مثلاً کسی اردو زبان جاننے والے مسلمان کو کوئی انگریز شخص انگریزی زبان کی ایک صفحہ تحریر دے اور کہے کہ اسے روزانہ ایک مرتبہ پڑھو لیکن سمجھنے کی کوشش مت کرو تو یہ اردو زبان جاننے والا مسلمان زیادہ سے زیادہ ایک سال تک انگریز شخص کی نہیں سمجھنے کی ہدایت پر عمل کر سکتا ہے ، ایک سال کے بعد وہ ضرور اس انگریزی تحریر کو سمجھنے کی کوشش کریگا جس کو وہ روزانہ ایک سال سے بغیر سمجھے پڑھتے آرہا ہے ۔
لیکن اس سلسلہ میں پنجوقتہ نمازیوں کی سورہ فاتحہ کے مفہوم و مطلب کو جاننے کی طرف سے بے رخی اور بے نیازی انتہا درجہ کو پہنچی ہوئی ہے کہ جس سورت کو وہ روزانہ کم از کم سترہ مرتبہ پڑھتے ہیں واضح رہے کہ دن و رات کی پانچ نمازوں میں فرض رکعتیں سترہ ہوتی ہیں اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے لیکن یہ پنجوقتہ نمازیوں ہی کا دل گردہ ہے کہ پچاس ساٹھ سال گزرنے کے باوجود ان کے اندر سورئہ فاتحہ کے مفہوم و مطلب کو سمجھنے کی طلب و جستجو پیدا نہیں ہوئی ، در اصل یہ پنجوقتہ نمازیوں کو اللہ کی طرف سے اللہ کی آیات سے مسلسل اعراض کے نتیجہ میں سخت دلی کی سزا ملی ہوئی ہے، اس لئے کہ قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کے احکام و آیات سے مسلسل منہ موڑتی ہے تو اللہ اس قوم کے دل سخت بنا دیتا ہے پھر نیکی اور ہدایت کی کو ئی بات دل پر اثر نہیں کرتی، چنانچہ ہم سے پہلے کی امت مسلمہ بنی اسرائیل کی سخت دلی کی وجہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ کے نوویں رکوع میں فرمایا:’’ اور تمہیں دکھایا اس کی آیات تاکہ تم سمجھو ، پھر تمہارے دل اس کے بعد سخت ہوگئے جیسے پتھر ہوتے ہیں یا اس سے بھی سخت۔‘‘(بقرہ ۷۳؍۴۷) مطلب یہ کہ جب بنی اسرائیل نے مسلسل اللہ کے احکام اور نشانیوں کو نظر انداز کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی پاداش میں ان کے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت بنا دیئے بنی اسرائیل کے متعلق یہی بات سورئہ حدید میں دوسرے انداز سے بیان کی گئی ہے اور اس میں موجودہ اہل ایمان کو سابقہ اہل کتاب کی روش سے منع کیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے:’’کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ انکے دل اللہ کے ذکر کیلئے پگھلے اور جو اللہ نے حق نازل کیا ہے، اور انہیں ان لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہئے جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی پس جب ان پر غفلت کی مدت لمبی ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں اکثر فاسق تھے۔‘‘(حدید ۱۶)
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن مجید پڑھ کر یا سن کر ایمان والوں کے دل پگھلنا چائیے، اور دلوں کی یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب قرآن پڑھنے والا اور سننے والا قرآن کو سمجھ کر پڑھے اور سنے، کیونکہ دل تک وہی بات پہنچتی ہے جس کو انسان سمجھتا ہے ۔ اسلئے مذکورہ آیت میں اہل ایمان پر قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور سننے کی ذمہ داری خود بہ خود عائد ہوگئی، مذکورہ آیت میں دوسری اہم بات یہ بیان کی گئی کہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ نے جب لمبی مدت تک توریت و انجیل سے غفلت برتی تو ان کے دل سخت ہوگئے، چنانچہ اہل ایمان کو اہل کتاب کے اس رویہ سے روکا گیا مگر افسوس ہے کہ اس کے باوجود بیشتر مسلمان اور نمازی یہود و نصاریٰ کی طرح قرآن مجید سے غافل ہوگئے ہیں واضح رہے کہ قرآن مجید کو پڑھنے اور سننے کے باوجود اس کے مفہوم و مطلب کو نہیں جاننا یہ بھی قرآن سے غفلت ہی کی ایک صورت ہے بلکہ اصل غفلت یہی ہے اس لئے کم از کم نماز میں بار بار پڑھی جانے والی سورتوں اور آیات کے مفہوم و مطلب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تاکہ قرآن سے غفلت کے جرم سے نکلے، اور چونکہ نماز میں بار بار پڑھی جانے والی سورتوں میں سورئہ فاتحۃ ایک اہم سورت ہے اس لئے سورئہ فاتحہ کے مفہوم و مطلب کو سمجھنے اور سمجھانے کی خصوصی کوشش کی جائے چنانچہ اسی کوشش کے تحت ذیل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں سورئہ فاتحۃ کا مفہوم و مطلب پیش کیا جارہا ہے۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2016