نماز اور سورئہ فاتحہ کا تعلق

(2)

مفتی کلیم رحمانی

قرآن مجید کی کسی بھی سورت اور آیت کے مفہوم و مطلب کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اس کو خود قرآن سے سمجھا جائے کیونکہ قرآن مجید میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں کسی بات کو اجمالی طور سے بیان کیا گیا ہے اور دوسرے مقام پراسی بات کی تفصیل بیان کی گئی ہے ، اسلئے قرآن مجید کی تفسیر کا سب سے پہلا اصول تمام مفسرین کے نزدیک ، قرآن کی تفسیر قرآن سے ہے جس کو  الْقُرآنُ یُفسّرُ بَعْضَہُ بَعْضًا کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے ، یعنی قرآن کا بعض حصہ اس کے بعض کی تفسیر کرتا ہے، قرآن کی تفسیر کا دوسرا اصول حدیث رسولﷺ ہے، جس میں اللہ کے رسول اللہﷺ کا قول و عمل دونوں شامل ہے، اور تیسرا اصول عمل صحابہؓ ہے، چنا نچہ یہ تینوں اصول قرآن مجید کی تعلیمات کو علم و عمل کے لحاظ سے پورے طور سے واضح کردیتے ہیں، اور جو قرآن مجید کو سمجھنے میںان تینوں اصولوں کو نظر انداز کردے وہ قرآن مجید کو سمجھ نہیں سکتا، چنانچہ سورئہ فاتحہ کا مفہوم و مطلب تفسیر کے مذکورہ اصولوں کی روشنی میں آئندہ پیش کیا جائےگا۔

اَلْحَمدُلِلہِ رَبّ الْعَالَمِینْ ۔یہ سورئہ فاتحہ کی پہلی آیت ہے جس کے معنی تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ مطلب یہ کہ اس پوری کائنات میں صرف اللہ ہی کی ذات حقیقی طور پر تعریف کے لائق ہے، اگر کوئی چیز قابل قدر ہو بھی سکتی ہے تو صرف اسی صورت میںجب کہ اس کا تعلق اللہ کی تعریف سے جڑے گا، انسانوں میں سے انبیاء ؑ اسلئے سب سے زیادہ قابل قدر ہیں کہ انہوںنے سب سے زیادہ اللہ کی حمد بیان کی اور انبیاء ؑ میں بھی تمام نبیوں سے افضل حضرت محمدﷺ اسلئے ہیں کہ انہوں نے تمام انبیاء ؑ سے زیادہ اللہ کی حمد بیان کی ، اللہ کی حمد بیان کرنے کا تعلق صرف زبان سے نہیں ہے بلکہ دل و عمل سے بھی ہے، اور زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق ہے، مطلب یہ کہ کوئی شخص دن بھر زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے لیکن زندگی کے معاملات میں اللہ کے احکام پر عمل نہ کرے تو وہ اللہ کی حمد بیان کرنے میں سچا نہیں ہے، ویسے دیکھا جائے توکائنات کی ہر چیز اللہ کی حمد بیان کرنے میں لگی ہوئی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا،   تُسَبّحُ لَہُ السّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَ اِنْ مِنْ شَیِء ِ اِلّاَ یُسَبّحُ بِحَمدِہِ وَ لٰکِنْ لاَّ تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیحَھُمْ اِنّہ کَانَ حَلِیماً غَفُورًا۔ (بنی اسرائیل آیت ۴۴)ترجمہ  :  اسی کے لئے پاکی بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو ان میں ہیں اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس کی حمد بیان نہ کرتی ہو، لیکن تم ان کی پاکی بیان کرنے کو نہیں سمجھ سکتے بیشک اللہ بُرد بار بخشنے والا ہے۔

مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایک طرح سے پوری کائنات کی آواز الحمد للہ یعنی حمد اللہ ہی کے لئے ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ کو سورئہ فاتحہ کا پہلا کلمہ بنا کر اور اس کو نماز میں رکھ کر اہل ایمان کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی کائنات کی آواز میں آواز ملائے، ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ جملہ ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے کیونکہ پیدائشی طور پر انسان کا دل، دماغ، آنکھ، کان ، زبان ، ہاتھ، پیر اللہ ہی کے احسان مند اور اللہ ہی کی حمد کرنے پر مجبور ہے صرف اللہ یہ چاہتا ہے کہ انسان اختیاری طور پر اپنی مرضی سے اللہ کی حمد بیان کرے اور اختیاری طور پر اللہ کی بڑائی کو تسلیم کرے، اس کے باوجود بھی اگر کوئی انسان اللہ کی حمد بیان نہ کرے تو اس کے لئے کتنا افسوس کا مقام ہے کہ کائنات کی ہر چیز تو اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے میںلگی ہوئی ہے، لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی حمد سے منہ موڑے ہوئے ہے۔

اسی رویہ سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ کو قرآن مجید کا افتتاح کرنے والی سورت کے افتتاح میں رکھ دیا ہے یعنی سورئہ فاتحہ کے شروع میں بلکہ اس سورت کا ایک نام ہی الحمد شریف ہے اور اس  سورت کو نماز کا لازمی حصہ قرار دیکر ہر نمازی کو یہ پیغام دیدیا کہ وہ اپنے اختیار و مرضی سے زندگی کے تمام شعبوں میںاللہ تعالیٰ کی حمد کو نافذ کرے، مطلب یہ کہ زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کو چھوڑ کر کسی اور کی تعریف کی جاتی ہو، اور اگر کوئی قابل تعریف قرار پاتا بھی ہو تو وہ اس بنیاد پرکہ وہ اللہ تعالیٰ کی زیادہ تعریف کرتا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج زیادہ ترانسانوں نے زندگی کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کو یکسر فراموش کردیا ہے اور زیادہ تر ایمان والوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی تعریف کو صرف نماز کی ادائیگی کے حد تک ہی رکھا ہے اور زندگی کے بقیہ شعبوں میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کو فراموش کردیا، بلکہ بہت سے اہل ایمان زندگی کے دیگر شعبوں میںاللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی تعریف کرتے ہیں، یہاں تک کہ بہت سے پنجوقتہ نمازی بھی اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ابھی نمازیوں نے سورئہ فاتحہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جو اصل نماز ہے بلکہ اس سورت کا ایک نام ہی ، الصلٰوۃ ہے، یعنی نماز کی سورت اور اس سلسلہ میں فی الحال  نماز سکھانے والے زیادہ قصور وار ہیں، کہ انہوں نے صرف سورئہ فاتحۃ کو سکھانے پر ہی اکتفا کر لیا ہے، اس کو سمجھایا نہیں جبکہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ سورئہ فاتحہ کو سکھانے کے ساتھ ساتھ اس کوسمجھاتے بھی ، تاکہ نمازیوں کو بھی معلوم ہوتا کہ سورئہ فاتحۃ کا ان سے کیا تقاضہ ہے اور کب ان سے سورئہ فاتحۃ کے خلاف کام ہو رہا ہے، سورئہ فاتحہ سے لا علمی ایک طرح سے اپنی نماز کے خلاف عمل ہے۔ الحمد کا ایک مطلب شکر بھی ہے یعنی جس طرح تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اسی طرح تمام شکر اللہ ہی کے لئے ہے، کسی کے احسان کے اظہار کے لئے شکر کا لفظ بولا جاتا ہے اس لحاظ سے یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے شکر میں لگی ہوئی ہے۔ اور خود انسان کا وجود پیدائشی طور پر اللہ کے احسان کا مظہر ہے تو اللہ یہ چاہتا ہے کہ انسان اختیاری طور پر بھی زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ کاشکر گذار بنے، لیکن افسوس ہے کہ انسان خود اپنے ضمیر کی آواز کو نہیں سنتا ورنہ ہر انسان کا ضمیر اسے کچوکے لگاتا ہے کہ وہ اللہ کا شکر گزار بنے، لہذا جو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار نہیں بنا وہ خود اپنے آپ کا نا شکرا ہوگیا اور جو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوا وہ اپنے آپ کا شکر گزار ہوا، اور یہی بات ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔  وَمَنْ یّشْکُرْ فَاِنّمَا یَشْکُرُ لِنَفسہِ (لقمان ۱۲)

یعنی جو شکر کرتا ہے پس بیشک وہ خود اپنے لئے شکر کرتاہے ،مطلب یہ کہ اس کے شکر کا فائدہ خود اس کی ذات کو پہنچے گا ، اور یہی بات ہے جو اس مقولہ میں کہی گئی ہے ۔  مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبّہ،یعنی جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا، مطلب یہ کہ خود فراموشی خدا فراموشی کا سبب ہے اور خود آگہی ، خدا آگہی کا سبب ہے ، اسی بات کو علامہ اقبالؒ نے بھی اپنے نصیحتی اشعار میں پیش کیا ہے۔

اپنے من میں ڈوب کر، پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن،اپنا تو بن

پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من

بہر حال سورئہ فاتحہ کے پہلے کلمہ الحمد للہ کا تقاضہ ہے کہ مسلمان زندگی کے تمام معاملات میں چاہے وہ عبادت ہو، تجار ت ہو ،سیاست ہو، اللہ ہی کو قابل تعریف سمجھیں اور اللہ ہی کے شکر گزار رہیں۔سورہ فاتحہ کا دوسرا کلمہ اس کونماز کا بھی دوسرا کلمہ کہہ سکتے ہیں وہ رب العالمین ہے یعنی اللہ تمام جہان کا رب ہے ، یہ کلمہ بھی اس پوری کائنات کی حقیقت کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور اگر اللہ کو کوئی اس کائنات کا رب نہیں سمجھتا تو اس نے اس کائنات کی حقیقت  کو نہیںسمجھا، لیکن اللہ کو تمام جہان کا رب تسلیم کرنے کے  لئے رب کے معنی و مطلب جاننا ضروری ہے رب کے معنی تربیت و پرورش کرنے والے کے ہیں مطلب یہ کہ تمام جہان کی تربیت اور پرورش کرنے والے کے ہیں مطلب یہ کہ تمام جہان کی تربیت اور پرورش کا اصل مالک و مختار صرف اللہ ہے، اور تربیت و پرورش میں تمام چیزوں کی تمام شعبوں میں صحیح رہنمائی داخل ہے، اس لحاظ سے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں چاہے عقائد ہوں، عبادات ہوں، معاملات ہوں، سیاسیات ہوں ، اللہ ہی مالک و مختار ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اللہ کی رہنمائی کو نظر انداز کرنا اللہ کی ربوبیت کا انکار ہے اور زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اللہ کی رہنمائی کو چھوڑ کر کسی اور کی رہنمائی کو قبول کرنا اللہ کی ربوبیت میں کھلا ہوا شرک ہے، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان زندگی کے بہت سے شعبوں میں اللہ کی ہدایت کو چھوڑے ہوئے ہیں خاص طور سے سیاست کے شعبہ میں اللہ کی ہدایت کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ میدان سیاست میں غیر مسلموں کی رہنمائی کو قبول کرچکے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ان میں برسوں کے پنجوقتہ نمازی بھی شامل ہیں جب کہ نمازی کو نماز کا دوسراکلمہ ہی میدان سیاست میں کسی غیر مسلم کو رہنما تسلیم کرنے سے روک دیتاہے لیکن نمازیوں کو اس کا احساس اسلئے نہیں ہے کہ انہوں نے ابھی اپنی نماز کے دوسرے کلمہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، ورنہ صرف یہی ایک کلمہ تمام نمازیوں کو سیاست کے شعبہ میں تمام غیر مسلم لیڈران اور تمام بے دین مسلم لیڈران کی قیادت سے نکالنے کے لئے کافی ہو جاتا ہے ، اور اس کلمہ کو نماز کے شروع میں اسی لئے رکھا گیا ہے کہ ہر نمازی کے ذہن و دل میں ہر وقت اللہ ہی کی حکمرانی کا تصور رہے، اور غیر اللہ کی حکمرانی کے تصور سے نمازیوں کے دل و دماغ پاک وصاف رہیں اور چونکہ رب العالمین قرآن کے بھی شروع کا کلمہ ہے اس لئے اللہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان کے دل و دماغ میںبھی اللہ ہی کی حکمرانی کا تصور رہے، اور باطل کی حکمرانی کے تصور سے مسلمانوں کے دل و دماغ پاک و صاف رہیں۔ ویسے اللہ کی صفت رب ، اللہ کی صفات یعنی نناوے صفات کا نچوڑ اور خلاصہ اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنا تعارف زیادہ تر رب ہی کی حیثیت سے کرایا ہے اور انسانوں سے بھی یہی تقاضہ کیا کہ وہ اللہ ہی کو رب تسلیم کریں، جس نے اللہ کو اپنا رب تسلیم کیااسی نے اللہ کو صحیح طور سے مانا اور جس نے اللہ کو صرف اللہ کی حیثیت سے تسلیم کیا اور رب کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تو اس نے اللہ کو صحیح طور پر نہیں مانا یہی وجہ ہے کہ مکہ کے کافر و مشرک اللہ تعالیٰ کو اللہ کی حیثیت سے ماننے کے باوجود کافر و مشرک قرار دیئے گئے اس لئے کہ وہ اللہ کو اپنا رب یعنی حکمراں کی حیثیت سے نہیں مانتے تھے اور مانتے تھے بھی تو انہوں نے اللہ کی حکمرانی میں دوسروں کو بھی شریک ٹھہرالیا تھا، اور اللہ کو رب ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس پوری کائنات کا اصل حکمراں صرف اللہ  ہی ہے باقی جو کچھ بھی ہے وہ سب محکوم ہیں۔چنانچہ اللہ ہی کو رب ماننے کی دعوت انسان کی ابتدائی تخلیق سے جڑی ہوئی ہے جب وہ صرف روح کی صورت میں تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے اپنی ربوبیت کا اقرار و عہد لیا تھا، جو قرآن مجید کے سورئہ اعراف میں ہے۔  وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بِنیْ اٰدَمَ مِنْ ظُھُورِھِمْ ذُرّیتَھُمْ وَ اَشْھَدَھُمْ عَلیٰ اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بَرَبِّکُمْ قَالُوا بَلیٰ شَھِدنا اَنْ تَقُولوا یَومَ الْقیمَۃِ اِنّا کُنّا عَنْ ھٰذا غٰفِلینَ۔ اَوْ تَقُوْلُوا اِنّمَا اَشْرَکَ اٰبَآوُناَ مِنْ قَبْلُ وَکُنّا ذُرّیۃََ مِنْ بَعدِھِمْ اَفَتُھْلِکُناَ بِمَا فَعَلَ الْمُبطِلُونَ۔ ( اعراف ۱۷۲؍۱۷۳) ترجمہ  :  اور جب لیا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد اور انہیں گواہ بنایا ان کے نفسوں پر کہ کیا میں نہیں ہوں تمہارا رب تو انہوں نے کہا کیوں نہیں ، ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہم اس سے غافل تھے، یا یہ نہ کہو کہ ہمارے باپوں نے اس سے پہلے شرک کیا اور ہم ان کے بعد کی اولاد ہیں تو کیا تو ہمیں باطل پرستوں کے لئے سبب ہلاک کرے گا؟)

مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ کو بحیثیت رب ماننے کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیامیں پیدا کرنے سے پہلے ہی ان سے اپنی ربوبیت کا اقرارلے لیا تھا اور تمام انسانوں نے اس کا اقرار کر لیا تھا اگرچہ یہ اقرار انسانوں کے شعور سنبھالنے سے پہلے لیا گیا لیکن ہر انسان کے تحت الشعور میں ضرور یہ اقرار موجود رہتا ہے مگر اللہ کے انعام و عذاب کے لئے صرف تحت الشعور کا اقرار کافی نہیں ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں پیدا کیا اور اس اقرار کی یاد دہانی کے لئے انبیاء کو بھیجا ، چنانچہ تمام نبیوں نے سب سے پہلے اللہ کے رب ہونے کی دعوت پیش کی یہی وجہ ہے کہ تمام نبیوں کی پہلی ہی دعوت میں اُعبُدوا ربَّکُمْ  یعنی بندگی کرو اپنے رب کی ، کے الفاظ ملتے ہیں اور خود قرآن کی پہلی وحی میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف رب کے طور پر پیش کیا، چنانچہ قرآن کی سب سے پہلی وحی جو آنحضورﷺ پر غار حرا میں نازل ہوئی وہ سورئہ علق کی ابتدائی آیات ہیں، اور ان میں بھی سب سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و خالقیت کا اعلان ہے ۔

اِقرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذیْ خَلَقَ، یعنی پڑھئے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، اور شاید اسی ابتدائی تعلق کی بر قراری و یاد دہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورئہ فاتحہ کی پہلی ہی آیت میں اپنا تعارف رب العالمین کی حیثیت سے پیش کر دیا جو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی اور سنی جاتی ہے، تاکہ ہر مسلمان کے ذہن و دماغ میں ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کے رب ہونے کا تصور تازہ رہے، لیکن افسوس ہے کہ اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو رب تسلیم کئے ہوئے ہیں اور خصوصاً میدان سیاست میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت یعنی فرمانروائی کو بالکل نظر انداز کئے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ جو حق پرست مسلمان میدان سیاست میں اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی کی بات کرتے ہیں مسلمانوں کی اکثریت انہیں بے دین اور گمراہ قرار دیتی ہے اس کابنیادی سبب یہی ہے کہ ابھی مسلمانوں کی اکثریت نے رب کے معنی و مطلب کو نہیں سمجھا ، لیکن عوام کی اس لاعلمی کے اصل ذمہ دار علماء ہیں کیونکہ انہوں نے مسلم عوام کو رب کے معنی و مطلب سمجھانے کی کوشش نہیں کی اور کی بھی تو صرف عبادات میں اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی اختیار کرنے کی تعلیم دی، چنانچہ تمام مسلمان، نماز،روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے علاوہ کسی اور کی رہنمائی کو قبول نہیںکرتے، اور قبول کرتے بھی ہیں تو ان علماء کی جو قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی کرتے ہیں، یہاںتک کہ کوئی کم علم عالم رہنمائی کرے تو اس کی رہنمائی قبول نہیں کرتے، لیکن یہی مسلمان میدان سیاست میں یہود، نصاریٰ ، مشرکین، کافرین اور بے دین مسلمانوں کی رہنمائی کو قبول کئے ہوئے ہیں اور اس پر اتنی مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے ہیں کہ میدان سیاست میں قرآن و حدیث کی رہنمائی کو کسی بھی صورت میں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، جب کہ یہی مسلمان دوسری طرف سورئہ فاتحہ کو بھی تسلیم کئے ہوئے ہیں مگر صرف سورئہ فاتحہ کے الفاظ قبول کئے ہوئے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان سورئہ فاتحہ کے معنی و مطلب کو بھی قبول کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ مسلمان سورئہ فاتحہ کے معنی و مطلب کو جانیں۔یوں تو صفت رب میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا خلاصہ پایا جاتا ہے لیکن صفت رب میں جس صفت کا غلبہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفت حکمرانی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں رب کا لفظ زیادہ تر مقامات پر حکمرانوں کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

چنانچہ سورئہ یوسف میں چار مرتبہ رب کا  لفظ مصر کے بادشاہ کیلئے استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔  یٰصَاحِیَ السّجْنِ اَمّا اَحَدُ کُمَا فَیسْقِی رَبَّہ خَمْراً (یوسف ۴۱) ترجمہ  :  (کہا یوسف ؑ نے) ائے جیل کے ساتھیوں تم دونوں میں سے ایک اپنے رب یعنی بادشاہ کو شراب پلائیگا۔

یوسف ؑ کے فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ایک جھوٹے الزام میں مصرکے بادشاہ نے حضرت یوسف ؑ کو جیل میں ڈال دیا تو، اسی اثنا میں دو نوجوان بھی جیل میںڈالے گئے، جو بادشاہ کے خاص ملازم تھے ایک کا کام بادشاہ کو شراب پلانا تھا اور دوسرے کا کام بادشاہ کے لئے کھانا پکانا تھا، کسی الزام میں انہیں بھی جیل میں ڈال دیا گیا، جیل میں یوسف ؑ سے ان کی دوستی ہوگئی ان دونوں نے ایک مرتبہ خواب دیکھا، او ر خواب کی تعبیر یوسف ؑ سے پوچھی ، ان دونوں میں سے ایک نے خواب میں دیکھا کہ وہ شراب نچوڑ رہا ہے اور دوسرے نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے سرپر روٹیاں اٹھا ئے ہوئے ہے اور اس میں سے پرندے کھارہے ہیں، یوسف ؑ نے ان دونوں کے خواب کو سنا اور تعبیر بتلانے سے پہلے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور جن الفاظ سے دعوت پیش کی اس سے بھی رب کا مطلب واضح ہوتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو رب یعنی زندگی کے معاملات میں فرمانرواں تسلیم کرنا جائز نہیں ہے چنانچہ حضرت یوسف ؑ کی دعوت کے الفاظ اس طرح ہیں۔ یَصَا حِبِیِ السِّجْنِ  ءَ ٍٍاَرْبابُ مُتفّرِقُونَ خَیرً اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ(یوسف ۳۹)ترجمہ :  ائے جیل کے ساتھیوں کیا الگ الگ رب یعنی فرمانرواں بہتر ہیں یا ایک اللہ جو اصل طاقت وقوت والا ہے۔ حضرت یوسف ؑ کی مذکورہ دعوت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جیل کے ساتھی چونکہ مصر کے بادشاہ کو فرمانرواں سمجھے ہوئے تھے تو یوسف ؑ نے سوالیہ انداز میں ان سے پوچھا کہ یہ متفرق فرمانرواں جو مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں انہیں فرمانرواں ماننا بہتر ہے یا ایک اللہ ہی کو فرمانرواں ماننا بہتر ہے ، ظاہر ہے جو اس سلسلہ میں ذرا بھی غور کرے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کائنات کاایک ہی فرمانرواں ہے اور وہ صرف اللہ ہے جو طاقت و قوت کا مالک ہے باقی سارے فرمانرواں در اصل حقیقت میں وہ فرمانرواں ہیں ہی نہیں، وہ خود ساختہ فرمانرواں بن گئے ہیں اور اتنے کمزور و بے بس ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک کی زمین کے ایک ذرہ تک کونہیں پیدا کیا جس پر وہ اپنا حکم چلاتے ہیں اور نہ ہی اپنی موت کو اپنے سے ایک سیکنڈ کے لئے ٹال سکتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ دنیا کی تاریخ کے ہر دور میں اکثر انسان ایسے ہی خود ساختہ کمزور ،و بے بس انسانوں ہی کو اپنا فرمانرواں تسلیم کئے ہوئے ہیں اور اللہ جو اصل فرمانرواں ہے اس کو بھولے ہوئے ہیں۔

جس نوجوان قیدی نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ شراب نچوڑ رہا ہے تو یوسف ؑ نے اس کے خواب کی تعبیر یہ بتلائی کہ وہ اپنے رب یعنی بادشاہ کو شراب پلائیگا، مطلب یہ کہ وہ جیل سے رہا ہو جائے گا اور بادشاہ کے دربار میں اسے اپنا پہلا عہدہ بادشاہ کو شراب پلانے کا مل جائے گا چونکہ وہ نوجوان قیدی مصرکے بادشاہ کو اپنا سیاسی فرمانرواں تسلیم کئے ہوئے تھا اور کسی کو اپنا سیاسی فرمانرواں تسلیم کرلینا، اس کو اپنا رب تسلیم کرلینا ہے اسلئے یوسف ؑ نے اسی تعلق کے اظہار کے لئے خواب کی تعبیر میں رب کا لفظ استعمال کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس تعلق کو اپنے کلام میں رب کی حیثیت سے بیان کیاہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو سیاسی فرمانرواں تسلیم کرنا ایک طرح سے اسے اپنا رب تسلیم کرنا ہے اور یہ اللہ کی ربوبیت میں کھلا ہوا شرک ہے اور سورئہ فاتحہ کی پہلی آیت جو نماز کی بھی پہلی آیت ہے اس کی خلاف ورزی ہے لیکن افسوس ہے کہ بے شمار پنجوقتہ نمازی سیاسی شعبہ میں اللہ کو چھوڑکر دوسروں کو سیاسی فرمانرواں تسلیم کئے ہیں۔

صرف اسلئے کہ سیاسی شعبہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کو اقتدار و غلبہ حاصل نہیں ہے تو یہ اس سے بھی زیادہ بے وفائی ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی کا ممبر اپنی پارٹی کو اقتدار و غلبہ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی مخالف و دشمن پارٹی کا ممبر بن جائے صرف اس وجہ سے کہ مخالف پارٹی کو اقتدار حاصل ہے، چنانچہ آج زیادہ تر مسلمان اسلام کے ساتھ یہی بے وفائی کا رویہ رکھے ہوئے ہیں صرف اس وجہ سے کہ اسلام کو اقتدار و غلبہ حاصل نہیں ہے اور اسلام کے مخالفین کو اقتدار و غلبہ حاصل ہے، جب کہ ایک مخلص اور سچے ممبر کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ پارٹی چاہے اقتدار میں ہو یا اقتدار میں نہ ہو وہ اپنی ہی پارٹی کی فکر و پالیسی سے وابستہ رہے اس لحاظ سے ایک مخلص اور سچے مسلمان کی پہچان بھی یہی ہے کہ وہ اسلام کی مغلوبیت و غلبہ میں بھی اسلام ہی کی فکر و پالیسی سے وابستہ رہے اور یہی دعوت سورہ فاتحہ روزانہ نماز کے ذریعہ پیش کرتی ہے ۔ اسی سورہ یوسف ؑ کی آیت بیالس (۴۲) میں دو مرتبہ رب کی نسبت مصر کے بادشاہکی طرف کی گئی ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔  وَ قَالَ لِلَّذیْ ظَنَّ اَنّہ نَاجِِ مِنْھُمَا اذْکُرْنیِ عِنْدَ رَبّکَ فَاَنْسٰہُ الشَّیْطٰنُ ذِکْرَ رَبّہِ فَلَبِثَ فیِ السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ۔(یوسف آیت ۴۲) ترجمہ  :  اور کہا (یوسف ؑ نے ان دو قیدیوں میں سے جو جیل سے رہائی پانے والا تھا کہ تیرے رب یعنی بادشاہ کے پاس میرا تذکرہ کرنا، پس شیطان نے اس کے رب یعنی بادشاہ کے پاس یوسف ؑ کے تذکرہ کو اس سے بھلا دیا، پس یوسف ؑ جیل میں چند سال ٹھہرے رہے ۔ مذکورہ آیت میں جیل سے رہائی پانے والے قیدی سے یوسف ؑ کی ایک درخواست کا ذکر ہے لیکن اس درخواست کے الفاظ میں بھی جیل کے قیدی کا اپنے بادشاہ سے جو تعلق تھا اس کو رب کی حیثیت سے ہی پیش کیا گیاہے، اس سے بھی یہی بات واضح ہوئی کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو بادشاہ تسلیم کرلینا اس کو اپنا رب مان لینا ہے اور یہ کھلا ہوا شرک ہے سورئہ یوسف ہی کی آیت ۵۰ میںرب کی نسبت مصر کے بادشاہ کی طرف کی گئی ہے۔  وَقَالَ الْمَلِکَ اتُوْنیِ بہِ فَلَمَّا جَآئَ ہُ الرَّسُوْلُ قَالَ اِرْجِعْ اِلٰی رَبّکَ فَسْئلہُ مَا بَالُ النِسْوَۃِ اِلَّٰتیِ قَطَّعْنَ اٰیْدِیھُنَّ اِنَّ رَبّیِ بِکَیْدِھِنَّ عَلیِمُ۔(یوسف ۵۰) ترجمہ : اور کہا  بادشاہ نے اس کو میرے پاس لے آئو یعنی یوسف ؑ کو پس جب قاصد اس کے پاس پہنچاتو یوسفؑ نے قاصد سے کہا لوٹ جا تیرے رب یعنی بادشاہ کی طرف اور ان عورتوں سے میری بابت پوچھو جنہوں نے اپنے ہاتھ کانٹ لئے تھے، بیشک میرا رب اللہ ان کے مکرو فریب کو جاننے والا ہے۔ سورئہ یوسفؑ کی مذکورہ آیات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ عربی میں رب کے معنیٰ کسی کو سیاسی فرمانرواں کے طور پر تسلیم کرلینا ہے، اور ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی کو سیاسی فرمانرواں کے طور پر تسلیم کرے۔اسی طرح سورئہ نازعات میں فرعون کا جو دعویٰ نقل کیا گیا ہے اس سے بھی یہی بات  واضح ہوتی ہے لفظ رب عربی میں سیاسی حکمراں اور قانون ساز کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

چنانچہ قرآن میں ہے ،  فَقَالَ اِنَا رَبُّکُمْ الْاَعلٰی(نازعات ۲۴)  پس کہا فرعون نے میں تمہارا رب اعلیٰ ہوں، فرعون کے اس دعوی کا پس منظر یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کو اللہ کے رب ہونے کی دعوت دی تو اس نے اس دعوت کو جھٹلایااور قوم کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ میں تمہارا رب اعلیٰ ہوں یعنی بڑا رب ، چونکہ فرعون اپنے آپ کو قوم کا سب سے بڑا سیاسی حکمراں اور قانون ساز سمجھتا تھا اس لئے اس نے اس دعوے کو رب اعلیٰ کے الفاظ سے پیش کیا۔ سورئہ توبہ کی آیت ۳۱ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو مطلق قانون ساز مان لینا، اسی طرح کسی کو مطلق حلال و حرام کا مالک سمجھ لینا اس کو رب بنالینے کے معنی میں آتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ قَاتَلَ ھُمُ اللہُ اَنّٰی یُوفَکُونَ۔ اِتَّخَذُوآ اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَا نَھُمْ اَرْبَاباً مِنْ دُونِ اللہِ وَالْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ( توبہ ۳۰)  ترجمہ : اللہ ان یہود و نصاریٰ کو ہلاک کرے وہ کہاں پھرے جارہے ہیں انہوں نے اپنے عالموں اور عابدوں کو رب بنالیا اللہ کے علاوہ اور مسیح بن مریم کو۔ مذکورہ آیت کی تفسیر میں ایک حدیث رسول ہے جو یہاں پیش کی جارہی ہے۔

عَنْ عَدِیْ بِنْ حَاتِمِِ قَالَ اَتَیْتُ النَّبیﷺ وَ فیِ عُنُقیِ صَلیِبُ مِنْ ذَھَبِِ فَقَالَ یَا عَدِیُّ اِطْرَحْ عَنْکَ ھٰذَا الْوَثْنَ وَ سَمِعْتُہ یَقْرَا ُ فِی سُورَۃِ بَرَاۃِِ اِتّحَدُوا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَا نَھُمْ اَرْبَا باً مِنْ دُونِ اللہِ فَقَالَ اَمَا اِنَّھُمْ لَمْ یَکُونُواْ یَعبُدُ و نَھُمْ وَ لٰکِنّھُمْ کَانُوا اِذَا اَحلّوا لَھُمْ شَئیاً اِسْتحَلوہُ وَ اِذا حَرّمُوا عَلَیْھِمْ شَئیاً حَرّمُوْہُ۔ (ترمذی شریف جلد دوم) ترجمہ :  حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور میری گردن میں سونے کا ایک صلیب تھا پس آپؐ نے فرمایا اے عدی اس بت کوتیری گردن سے پھینک دے اور میں نے آپؐ کو سنا آپؐ سورئہ برات پڑھ رہے تھے جس میں فرمایا گیا یہود و نصاریٰ پر ہلا کت ہو، انہوں نے اپنے عالموں اور عابدوں کو رب بنا لیا اللہ کے علاوہ ،پس آپؐ نے فرمایا وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ ان کے لئے کوئی چیز حلال کرتے تو وہ حلال مان لیتے اور جب وہ ان پر کوئی چیز حرام کرتے تو اس کو حرام مان لیتے۔

مذکورہ آیت و حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوئی کہ نظام زندگی کے متعلق اللہ کے  علاوہ کسی اور کو حلال و حرام کا مالک و مختار سمجھ لینا اس کو اپنا رب مان لینا ہے ساتھ ہی اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو حلال و حرام ، اور جائز و ناجائز کا مالک و مختار سمجھے ، چاہے وہ بڑے سے بڑا عالم و عابد ہو، یا بڑے سے بڑا بادشاہ و حکمراں ہو، جہاں تک آنحضورﷺ کی حلال کردہ چیزوں کو حلال ماننے اور حرام کردہ چیزوں کو حرام ماننے کی بات ہے تو چونکہ آنحضورﷺ اللہ کے رسول ہیں اسلئے آپؐ کی حلال و حرام کردہ چیزیں اللہ ہی کی حلال و حرام کردہ چیزیں ہیں اس لئے کہ رب اس کو کہتے ہیں جو کسی کے تابع ہوئے بغیر آزادانہ اپنا حکم چلائے ، یہی وجہ ہے کہ حضرت محمدﷺ نے آخری رسولﷺہونے  کی باوجود اپنے لئے رب کے لفظ کو اختیار نہیں کیا اور نہ اللہ نے کسی نبی اور رسول کو رب قرار دیا بلکہ ہر نبی و رسول کو اللہ تعالیٰ نے اپنا عبد یعنی بندہ قرار دیا اور ہر نبی و رسول نے اپنے لئے عبد ہی کو پسند کیا ۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان فرمایا۔  مَا کَانَ لِبَشَرِِ اَنْ یُّوتِیہُ اللہُ الْکِتٰبَ والْحُکمَ وَ النُّبُوۃَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُوْ نُوا عِبَاداً الّیٰ مِنْ دُونِ اللہُ وَ لٰکِنْ کُوْنُوا رَبّٰنینَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلّمُونَ الْکِتٰبَ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُونَ۔ وَلَا یَا مُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُ وا الْمَلٰٓئکَۃَ وَالْنَّبین اَرْبَاباً اَیَا مُرُکُمْ بِالْکُفرِْ بَعدَ اِذْاِنتُمْ مُّسْلِمُونَ( آل عمران آیت ۷۹۔۸۰) ترجمہ :  کسی انسان کے لئے یہ زیبا نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب اور حکم اور نبوت دے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے علاوہ میرے بندے بن جائو، لیکن ہر نبی نے یہی کہا کہ رب کے ماننے والے بن جائو، اس کتاب کے علم اور درس کی روشنی میں جو تمہیںدیا جاتا ہے، اور نہ کسی نبی نے تمہیں حکم دیا کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو رب بنالو، کیا وہ تمہیں کفر کا حکم دے گا ؟بعد اس کے کہ تم مسلم ہوگئے۔

مذکورہ آیت سے بھی یہ بات واضح ہوئی کہ ہر نبی کی دعوت یہی رہی ہے کہ تمام انسان اللہ تعالیٰ کو بحیثیت رب یعنی زندگی کے تمام معاملات میں سب سے بڑے فرمانروا کے طور پر قبول کریں ساتھ یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ کسی نبی اور رسول نے اپنے آپ کو رب یعنی فرمانروا کے طور پر پیش نہیں کیا لیکن افسوس ہے کہ زندگی کے بہت سے معاملات میں خاص طور سے قانون اور سیاست کے شعبہ میں بہت سے مسلمان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے انسانوں کو اپنا فرمانروا تسلیم کئے ہوئے ہیں ، یہاں تک کہ جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے انہیں بھی اپنا  فرمانروا تسلیم کئے ہوئے ہیں تو ان مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ قرآن کی سب سے پہلی آیت کی مخالفت کرر ہے ہیں  ۔ستم ظریفی یہ کہ بہت سے پنجوقتہ نمازی بھی سیاست میں اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا فرمانروا مانے ہوئے ہیں تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ مسجد میں اور وہ بھی حالت نماز میں کئے ہوئے اقرار کو توڑ رہے ہیں اور صرف ایک مرتبہ کے اقرار کو نہیں توڑ رہے ہیں بلکہ بار بار کے اقرار کو توڑرہے ہیں اگر یہ اقرار شمار کیا جائے تو صرف ایک رکعت میں ہی دس مرتبہ ہوجاتا ہے ایک مرتبہ حالت قیام میں سورئہ فاتحہ کی پہلی آیت پڑھ کر اور ایک رکوع میں تین مرتبہ سُبحان رَبّی الْعَظِیمْ کہہ کر، اور دو سجدوں میں چھ مرتبہ سُبحان رَبّی الاَعلٰی   کہہ کر،  نماز میں  اللہ کے رب ہونے کے اقرار کو رکھ کر  پیغام دیا گیا کہ ایک نمازی اللہ کے علاوہ کسی کو اپنا فرمانروا تسلیم نہ کرے ساتھ ہی اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ دنیا میں شیطان اور اس کے پیروکار اللہ تعالیٰ کی فرما نروائی کی مخالفت کریں گے اسلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبرداروں کو اپنی فرمانروائی کی تلقین کرکے اس کا توڑ کیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ ابھی بیشتر نمازی اس اقرار کے مفہوم و مطلب کو سمجھتے تک نہیں ہیں جس کی وجہ سے زندگی میں اس کے خلاف عمل ہونے کے باوجود انہیں احساس نہیں ہوتا، زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ ہی کو رب یعنی فرمانرواماننے کی بات اتنی اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت میں بیان فرمادیا، اور وہ آیت ہے ۔  اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبّکَ یعنی پڑھئے اپنے رب کے نام کے ساتھ۔

(جاری)

مشمولہ: شمارہ جنوری 2017

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau