غیر مسلموں سے تعلقات

قرآن مجید کی روشنی میں

خدا ایک ہے ۔ وہ اکیلا سارے نظام عالم کو چلا رہا ہے ، ذات و وصفت دونوںاعتبار سے وہ واحد ہے۔ اس کی ذات یا صفت میں کسی کو شریک کرنا قرآن کی اصطلاح میں ظلم عظیم ہے۔ اسی کا دوسرا نام شرک ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَشَآئ ﴿النساء : ۱۱۶﴾

’’اﷲ تعالیٰ شرک کومعاف نہیں کرے گا اور اس کے علاوہ تمام خطائیں جو چاہے گا درگزر کردے گا ۔‘‘

جولوگ خدا کو ایک ماننے والے ہیں،وہ مومن ہیں۔ وہ اﷲ کی نظر میں محبوب ہیں ۔ ان کو آخرت کی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے ۔ جولوگ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے ہیں، وہ خدا کی نظر میں مبغوض اور ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہیں۔ آخرت میں ناکام اور نامراد ہوں گے۔ اس طرح بنی نوعِ انسانی کے دو گروہ ہو گئے۔ ایک مومن اور دوسرا کافر۔اسلام قبول کرنے والا مومن گروہ مقدس اور پسندیدہ ہے اور غیرمومن گروہ ناپسندیدہ اور مبغوض۔ قرآن مجید میں دونوں کے الگ الگ احکام بیان کیے گئے ہیں۔مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ کافراﷲ کے دشمن ہیں۔ اس لیے ان سے دوستی ، قلبی محبت ، رازدارانہ تعلقات نہ رکھے جائیں :

اَّ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَآئَ مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَن یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْیٍٔ اِلاَّ أَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً۔   ﴿ آلِ عمران : ۲۸ ﴾

’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یار و مددگار ہرگز نہ بنائیں، جو ایسا کرے گا اس کا اﷲ سے کوئی تعلق نہیں ، ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ ۔‘‘

یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَآئَ تُلْقُونَ اِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَآئ کُم مِّنَ الْحَقِّ۔﴿ الممتحنہ :۱﴾

’’اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ، تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالاںکہ جوحق تمہارے پاس آیا ہے ، اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں ۔‘‘

یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَیٰ أَوْلِیَآئَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائَ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَاِنَّہ‘‘ مِنْہُمْ۔    ﴿ المائدۃ : ۵۱﴾

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر ان ہی میں ہے ۔‘‘

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُواْ اٰ بَآئ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَائ اَنِ اسْتَحَبُّوْا الْکُفْرَ عَلَی الاِیْمَانِ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ مِّنکُمْ فَأُوْلٰٓ ئِکَ ہُمُ الظَّالِمُون۔    ﴿التوبۃ : ۲۳﴾

’’اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ، تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے ، وہی ظالم ہوں گے ۔‘‘

اور بھی متعدد ایسی آیات ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ کفر و شرک اختیار کرنے والوں سے کسی طرح کی دوستی نہیں کی جائے گی اور نہ ان سے کوئی سمجھوتا کیا جائے گا ۔ خواہ ان سے خونی رشتہ ہی کیوں نہ ہو ۔لیکن قرآن کی مجموعی تعلیمات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و سیرت اور صحابۂ کرام ؓ کے تعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ مومن ہو خواہ کافراس کو زندگی کے بعض بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ ان کو زندہ رہنے، معاشی جدو جہد کرنے، اپنا مال اور جائیداد رکھنے اور اس میں تصرف کرنے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق بہ ہرحال حاصل ہے۔

اسلام انسان کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ انسانیت کے اعتبار سے جواس کے حقوق ہیں ، ان کا مکمل احترام کیا جائے ۔ اس لیے کہ مسلم، غیرمسلم سب حضرت آدم ںکی اولاد اورانسان ہیں ۔وہ بھی قابل تکریم ہیں۔ علامہ شامیؒ نے اس پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے : والآدمی مکرم شرعاً وان کان کافراً، ﴿شامی : ۷/۲۴۵﴾ ’’آدمی شرعی اعتبار سے محترم ہے خواہ وہ کافر ہو۔‘‘ غیرمومن عقیدے کے اعتبار سے ناپاک اور ناقابل التفات ہیں ، مگر دوسرا پہلو آدمیت کا ہے ، اس لحاظ سے وہ قابل احترام ہیں ۔ان دونوں پہلووں کو سامنے رکھتے ہوئے اہل علم و تحقیق اور فقہائ کرام نے تعلقات کی درج ذیل تین قسمیں کی ہیں :

۱-موالات : اس سے مراد قلبی اور دلی محبت ہے۔ یہ صرف ہم عقیدہ لوگوں ﴿مومنین﴾کے ساتھ جائز ہے ، کفار و مشرکین سے رازدارانہ تعلق ، قلبی محبت ، ان کا حقیقی احترام کہ جس سے کفر کا احترام لازم آئے جائز نہیں ہے ۔

۲- مواسات : اس کے معنیٰ ہمدردی ، خیر خواہی اور نفع رسانی کے ہیں۔ ایسے غیر مسلم جو برسرپیکار اور مسلمانوں سے جنگ کے درپے نہیں ہیں ، وہ ہماری ہمدردی ، خیر خواہی کے مستحق ہیں ، سورۂ ممتحنہ کی آٹھویں آیت میں اس کی وضاحت ملتی ہے :

لَا یَنْہَاکُمُ اللّٰ ہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوکُم مِّنْ دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْآ اِلَیْْہِمْ ۔ ﴿الممتحنۃ : ۸﴾

’’اﷲ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو ، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے ۔‘‘

ایسے لوگوں سے حسن سلوک اور ہمدردی و غم خواری میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بل کہ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اسلام اورمسلمانوں کے حسن اخلاق سے متأثر ہوں گے اور آپسی فاصلہ کم ہوگا ۔

۳-          مدارات : اس سے مراد ظاہری خوش خلقی اور ادب و احترام ہے ۔ یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے ، خاص طورپر جب اس سے مقصد دینی نفع رسانی ، اسلام کی دعوت ، اسلامی اخلاق و برتاؤ پیش کرنا ہو یا وہ ہمارے مہمان ہوں اور مہمانوں کا احترام بہر حال لازم ہے۔ علامہ سیوطیؒ سورۂ نسائ آیت : ۹۳۱ کے ذیل میں لکھتے ہیں:

أی تخافوا مخافۃ فلکم موالاتہم باللسان دون القلب وہذا قبل عزۃ الاسلام ویجری فی من فی بلد لیس قویا فیہا ۔ ﴿جلالین : ۱/۴۹﴾

’’تمہیں ان سے خوف و اندیشہ ہو تو زبان سے بظاہر دوستانہ رویہ ، رواداری درست ہے، قلبی دوستی جائز نہیں ، یہ حکم اسلام کے غلبہ سے قبل تھا ؛ لیکن آج بھی ایسے علاقے میں جہاں مسلمان کمزور ہیں ، یہ درست ہے ۔‘‘

بیسویں صدی کے مشہور عالم ومحقق مولانا اشرف علی تھانویؒ خلاصۂ بحث اس طرح تحریر فرماتے ہیں:

کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں: ﴿۱﴾ موالات یعنی دوستی ، ﴿۲﴾ مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی ، ﴿۳﴾ مواسات یعنی احسان و نفع رسانی ، ان معاملات میں تفصیل یہ ہے کہ موالات تو کسی حال میں جائز نہیں اور آیت ’’ لاَ تَتَّخِذُوْا الْیَہُودَ وَالنَّصَارٰی أَوْلِیَآئَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَآئَ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَاِنَّہُ مِنْہُمْ ’’ اور‘‘لاَ تَتَّخِذُوآْاٰبَآئ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَائ‘‘میں یہی مراد ہے اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے ۔ ایک دفعِ ضرر کے واسطے ، دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقع ہدایت کے واسطے ، تیسرے اکرام ضیف کے لیے۔ اپنی مصلحت و منفعت مال یا جاہ کے لیے درست نہیں۔ بالخصوص جب کہ ضرر دینی کا بھی خوف ہوتو بدرجۂ اولیٰ یہ اختلاط حرام ہوگا ۔ ﴿ بیان القرآن : ۱/۲۰۴﴾

رسول اکرم ا اور صحابۂ کرام ؓ کی رواداری

مذکوربالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کے ساتھ ظاہری رواداری ، حسن اخلاق ، شیریں زبانی وغیرہ درست ہے اور جب اسلام کی تعلیم اور مسلمانوں کا اخلاق پیش کرنا مقصد ہوتو بہتر اور مستحب ہے۔ سیرت نبوی سے اس بات کی تائید ہوتی ہے ۔ فتح مکہ کا وہ تاریخی دن بھی تاریخ میں محفوظ ہے ، جب مکہ فتح ہوچکی تھی ، دشمنانِ اسلام سہمے ہوئے تھے ، لاکھوں تلواریں اشارۂ نبوی کی منتظر تھیں ،مشرکین صحن کعبہ میں موجود تھے، آپ چاہتے تو ان کے ایک ایک جرم کا بدلہ لے سکتے تھے ۔ مگر آپ نے انھیںمعافی کا پروانہ دے دیا۔ارشاد فرمایا : اذہبوا فأنتم الطلقائ‘‘ جاؤ ! تم سب کے سب آزاد ہو۔‘‘ اسی طرح مکہ سے مایوس ہوکر طائف کی وادی میں اسلام کی دعوت دینے پہنچے، اوباش لڑکوں نے پتھر مار مار کر لہو لہان کردیا ۔بظاہر ناکام اور مایوس ہوکر لوٹ رہے تھے۔ راستے میں اﷲ کی طرف سے دو فرشتے آئے اور کہا کہ آپ ﷺ کا حکم ہوتو اس بستی والوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے ، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ، ایسا نہ کریں کیا پتا ان کی آئندہ نسلیں دعوت ِحق کے اس پیغام کو قبول کرلیں ۔

غزوۂ خندق کے موقع پر ایک مشرک فوجی خندق عبور کرکے مسلمانوں کی طرف آگیا اور حضرت علی ص کے ہاتھوں مارا گیا ۔ کفارِ مکہ نے لاش کی قیمت ادا کرکے لاش حاصل کرنی چاہی ، لیکن آپ ﷺ نے قیمت نہیں لی۔ یوں ہی ان کی لاش ان کے حوالہ کردی۔حضرت عمر فاروق ؓ جو کفار کے حق میں نسبتاً سخت سمجھے جاتے ہیں ۔ ایک روز مسجد سے نکل رہے تھے کہ ایک نصرانی فقیر کو دیکھا، بھیک مانگ رہا ہے ، فاروق اعظم اس کے پاس گئے اور حال دریافت کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا کہ تیری جوانی اور قوت کے زمانے میں ہم نے تجھ سے ٹیکس وصول کیا اور جب تو بوڑھا ہوگیا تو اب ہم تیری امداد نہ کریں ۔حکم دیا کہ بیت المال سے اس کو تاحیات گزارا دے دیا جائے ۔ ﴿جواہر الفقہ : ۵/۷۰﴾ اس طرح کے بے شمار رواداری اور حسن اخلاق کے ایسے واقعات ہیں۔ یہ رواداری اس صورتِ حال میں تھی جب آپ ﷺ ان کفار سے برسرپیکار تھے اور ہر وقت ان سے ضرر رسانی کا خطرہ رہتا تھا۔

غیر مسلم پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک

اسلام اپنے متبعین کو بلند اخلاق اور اعلیٰ ظرفی کی تعلیم دیتا ہے ۔ اسلامی شریعت یہ نہیں چاہتی کہ بد اخلاقی اور نامناسب زبان استعمال کی جائے ، یا کسی بھی معاملے میں تنگ ذہنی برتی جائے ۔ اسلام میں پڑوسیوں کی بڑی اہمیت بتائی گئی ہے۔ ان کے ساتھ حسن سلوک ، حسن اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے اور ان کو اپنے شر سے حفاظت کی ہدایت دی ہے۔ رسول اکرم انے ارشاد فرمایا : من کان یؤمن باﷲ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ ، ﴿ صحیح مسلم ﴾ ’’ جو شخص اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، اسے اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں پہنچانی چاہیے ۔‘‘ ایک موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اس وقت تک بندہ مؤمن نہیں ہوسکتا ، جب تک اپنے بھائی اورپڑوسی کے لیے وہی چیزیں پسند نہ کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ ﴿ مسند احمد ﴾ آپ ﷺ نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ جب سالن پکایا جائے تو اس میں اتنا پانی بڑھادیا جائے کہ پڑوسیوں میں تقسیم کیا جاسکے ۔ ﴿ صحیح مسلم ﴾ پڑوسیوں سے متعلق اس طرح کے جو بھی احکام ہیں ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔جس طرح مسلمان پڑوسی کو تکلیف سے محفوظ رکھا جائے گا اور اسے خوشی و راحت میں شامل کیا جائے گا ، اسی طرح غیر مسلم پڑوسی کا بھی حق ہے کہ اسے امن فراہم کیا جائے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے۔ صحابۂ کرام ؓ نے اس پر سختی سے عمل کیا۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ نے ایک بار ایک بکری ذبح کرائی ، غلام کو ہدایت کی کہ وہ سب سے پہلے پڑوسی کو گوشت پہنچائے ، ایک شخص نے کہا حضور ! وہ تو یہودی ہے ، آپ نے فرمایا یہودی ہے تو کیا ہوا ، یہ کہہ کر رسول اﷲﷺ کا حوالہ دیا کہ جبرئیل نے مجھے اس قدر اور مسلسل وصیت کی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دار بنادیں گے۔﴿ ابوداؤ ، کتاب الادب ﴾

سورۂ نسا آیت : ۳۶ میں مختلف پڑوسیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں :

فالوصاۃ بالجار مامور بہا مندوب الیہا مسلماً کان اوکافراً ۔ ﴿قرطبی : ۵/۱۸۴﴾

’’پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ، یہ مندوب اور پسندیدہ ہے ، پڑوسی مسلم ہو یا کافر ۔‘‘

قال العلمائ الاحادیث فی اکرام الجار ، جائ ت مطلقۃ غیر مقیدۃ حتی الکافر ۔ ﴿ قرطبی : ۵/۱۸۸﴾

’’علماٗ  نے کہا ہے کہ پڑوسی کے اکرام و احترام میں جواحادیث آئی ہیں وہ مطلق ہیں ، اس میں کوئی قید نہیں ہے ، کافر کی بھی قید نہیں ۔‘‘

ایک پڑوسی قریب کے ساتھی کو بھی بتایا گیا ہے ، جس کو ’’ الصاحب بالجنب‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اس سے مراد ہم نشیں دوست بھی ہے اور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہوجائے۔ جیسے بازار جاتے آتے ہوئے کارخانہ یا دکان اور فیکٹری میں کام کرتے ہوئے یاکسی اور طرح ایک دوسرے کی صحبت حاصل ہو وہاں بھی حکم دیا گیا ہے کہ نیک برتاؤ کرے اور تکلیف نہ دے۔ اس میں بھی مسلم اور غیر مسلم کی کوئی قید نہیں ہے ۔

غیر مسلموں سے تحائف کا تبادلہ

سماجی زندگی میں تحائف اور ہدایا کے کی بڑی اہمیت ہے۔ اس سے دوستی بڑھتی ہے ، باہمی فاصلے کم ہوتے ہیں اور دلوں سے تکلیف و رنج کے آثار دور ہوتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :

تہادوا تحابوا‘‘ہدایہ کا لین دین کرو محبت میں اضافہ ہوگا۔‘‘

یہ حکم عام ہے ، اس سے غیر مسلم خارج نہیں۔ بل کہ ان سے بھی ہدایا کا تبادلہ کیا جانا چاہیے ۔ احادیث میں غیر مسلموں کو تحفے دینے اور ان کے تحفے قبول کرنے کا ثبوت موجود ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں :

ان کسریٰ اہدی لہ فقبل وان المکوک اہدوا الیہ فقبل منہم ۔

﴿ ترمذی ، ابواب السیر﴾

’’کسریٰ ﴿ شاہ ایران ﴾ نے آپ کو ہدیہ پیش کیا ، آپ نے قبول کیا ، دیگر بادشاہوں نے بھی آپ کو ہدیے دیئے ، آپ انے قبول فرمائے ۔‘‘

ہدایا میں خچر ، کپڑے ، باندی ، غلہ اور عطر وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے ، جو آپ ﷺ کو بھیجے گئے اور تالیف قلب کے لیے انھیں آپ ﷺ نے قبول کیا اور بسااوقات آپ ﷺ نے خود بھی انھیں تحفے عنایت کیے ۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض غیر مسلموں کے تحفے کو رد فرما دیا۔ اس بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں ہدایا کے قبول کرنے میں تالیف قلب اور اسلام کی طرف میلان کی اُمید تھی آپ ﷺ نے قبول فرمالیا اور جہاں ہدایاکے ذریعے کسی قسم کی چال یا دبائو آپﷺ نے محسوس فرمایا، ہرگز قبول نہیں فرمایا۔

غیر مسلموں کی دعوت قبول کرنا

سماج میں خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے مہمانوں کی آمد و رفت اور دعوت کھانے اور قبول کرنے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دعوت دے تو اسے قبول کرنا پسندیدہ ہے ۔ اسی طرح غیر مسلم کے ساتھ بھی جائز مقاصد کے لیے کھانا پینا مباح ہے۔ وقت ضرورت اسے دعوت دی جاسکتی ہے اور اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے غیر مسلموں کی دعوت قبول فرمائی ہے ، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں :

ان یہودیا دعا النبی صلی اﷲ علیہ وسلم الی خبز شعیر واہالۃ سنخۃ فأجابہ۔  ﴿ مسند احمد : ۳/۲۱۱﴾

’’ایک یہودی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کی روٹی اور بدبو دار چربی کی دعوت دی ، آپﷺ نے قبول فرمائی ۔‘‘

جنگ خیبر کے اختتام کے بعد ایک یہودی عورت نے آپﷺ کے پاس بکری کا گوشت بھجوایا ، آپ کی دعوت کی ، آپ نے قبول فرمایا ۔ اس میں زہر ملا ہوا تھا ، جس کا اثر اخیر تک باقی رہا۔ ﴿ صحیح بخاری ، کتاب المغازی ﴾

رسول اکرم ا نے غیر مسلموں کے کھانے پینے کا بھی اہتمام فرمایا ہے ۔ قبیلۂ ثقیف کے وفد کو آپﷺ نے مسجد نبوی میں ٹھہرایا ، حضرت خالد بن سعید کھانے پینے کا نظم فرماتے تھے ۔

﴿ابن ہشام : ۴/۱۹۴﴾

غیر مسلم کی عیادت

اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت اور مزاج پرسی کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس سے ہمدردی کا اور یگانگت ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کی عیادت کا بھی یہی حکم ہے۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا آپ کی خدمت کیا کرتا تھا ، وہ بیمار ہوا تو آپ ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ ﴿صحیح بخاری ﴾ اسی طرح بنو نجار کے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جو غیر مسلم تھا ، ﴿مسند احمد : ۳/۱۵۲ ﴾ ان روایات کی روشنی میں صاحب ہدایہ نے لکھا ہے :

ولا بأس بعیادۃ الیہودی والنصرانی لانہ نوع برفی حقہم وما نہینا عن ذلک ۔ ﴿ ہدایہ : ۴/۴۷۲﴾

’’یہودی اور نصرانی کی عیادت میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ ان کے حق میں ایک طرح کی بھلائی اور حسن سلوک ہے ، اس سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے ۔‘‘

غیر مسلم پر انفاق

ضرورت مندوں اور محتاجوں پر خرچ کرنا ، ان کی ضرورت پوری کرنا ، بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔ اس میں عقیدہ اور دین و مذہب کا فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ محتاج شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم ، مشرک ہو یا اہل کتاب ، رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار ، ہر ایک پر خرچ کرنے کا جذبہ باعث اجر ہے ۔ ایک موقع پر آپ ا نے فرمایا : ’’ تصدقوا علیٰ اہل الا دیان ، ﴿ ابن ابی شیبہ﴾ ’’ تمام اہل مذاہب پر صدقہ و خیرات کرو ’’ اس میں انسانیت کا احترام ہے ۔ اس لیے کہ بھوک اور پیاس ہر ایک کو لگتی ہے ۔ غیر مسلم بھی اﷲ کے بندے اور مخلوق ہیں ۔ ان کے ساتھ ہمدردی کی جانی چاہیے ۔ بحیثیت انسان وہ بھی ہمارے حسن اخلاق اور رحم دلی کے مستحق ہیں ۔

غیر مسلم قیدی کے ساتھ حسن سلوک

قیدیوں کے ساتھ ظلم و ستم کا عام رجحان ہے۔ وہ چوںکہ کمزور اور ناتواں بن کر ماتحتی میں آتے ہیں ، اس لیے ان کے ساتھ نازیبا سلوک کیا جاتا ہے ۔ اسلام نے اسے سختی سے منع کیا ہے۔ سورۂ دھر آیت : ۸ میں مسکینوں اور یتیموں کے ساتھ قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ عہد نبوی میں قیدی صرف غیر مسلم ہوا کرتے تھے ، اس لیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدی کوئی بھی ہو خواہ مسلم ہو خواہ غیر مسلم ، اس کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے گا ۔

صحابۂ کرام ؓ نے اپنے قیدیوں کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ، تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی ۔ جنگ بدر میں جب ستر قیدی ہاتھ آئے اور آپ انے مختلف صحابۂ کرام کے درمیان ان کو دیکھ بھال کے لیے تقسیم کیا اور بہتر سلوک کی ہدایت دی تو صحابۂ کرام ث نے ان کے ساتھ حیرت انگیز حسن سلوک کا معاملہ کیا ۔ خود بھوکے رہے یا روکھا سوکھا کھایا مگر انھیں اچھا کھلایا پلایا ۔ ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھا۔ خود تکلیف اُٹھاکر اپنے قیدیوں کو راحت پہنچائی جب کہ وہ حالت جنگ تھی اور انھی کفار کے ہاتھوں یہ ستائے گئے تھے یہاں تک ان کے مظالم کے سبب صحابۂ کرا م کو اپنا وطن چھوڑ دینا پڑاتھا۔

غیر مسلم کو دُعا دینا

دوسروں کے لیے دُعا قلبی سخاوت اور وسعت ذہنی کی علامت ہے۔ اس میں اظہار ہمدردی و خیر خواہی بھی ہے کہ دوسروں کے لیے ایک شخص وہی چاہتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ دوسروں کی ترقی ، راحت اور خوشحالی کی تمنا کرنے کی اسلام نے ہدایت دی ہے ۔ یہ مسلمانوں کے لیے بھی ہے اور غیر مسلم کے لیے بھی۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ایک یہودی سے پینے کی کوئی چیز طلب کی۔ اس نے پیش کی تو آپ ﷺ نے اسے دُعا دی کہ اﷲ تعالیٰ تمھیں حسین و جمیل رکھے ۔ چنانچہ مرتے وقت تک اس کے بال سیاہ رہے ، ﴿مصنف عبد الرزاق : ۰۱/۲۹۳﴾  ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی بھی بھلائی کے لیے دعا کریں۔

غیر مسلم کے ساتھ عدل و انصاف

عدل و انصاف کی شریعت میں بہت سخت تاکید ہے ۔ بلکہ یہ اسلام کا امتیازی وصف ہے کہ انسان کسی بھی حال میں ہو وہ عدل و انصاف کو ترک نہ کرے۔ اسلام اپنے متبعین کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی فرد یا گروہ پر دست تعدی دراز کریں۔ چاہے اس سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں اور اس نے کتنی زیادتی کیوں نہ کی ہو۔ ارشاد ربانی ہے :

یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا کُونُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَائ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُوْا ۔                              ﴿ المائدۃ : ۸﴾

’’اے ایمان والو ! اﷲ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو، کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ ۔‘‘

عدل سے کام نہ لینا ظلم ہے اور ظلم کبھی اﷲ تعالیٰ کو برداشت نہیں ہے۔ خواہ وہ کسی جانور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ آپﷺ نے مظلوم کی بددُعائ سے بچنے کی تاکید کی ہے ، جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں ۔ حضرت عبید اﷲ بن فاروق ؓ نے دو کافروں کو اس شبہ میں قتل کردیا کہ وہ قتل عمر میں شریک تھے۔ حضرت عثمان ؓ مسند خلافت پر پہنچے تو انھوں نے مہاجرین و انصار سے رائے لی ، حضرت علی ؓ نے فتویٰ دیا گردن اڑا دی جائے۔ مہاجرین نے بالاتفاق کہا : عمر کے بیٹے کو قتل کردینا چاہیے۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے پاس سے خون بہا ادا کرکے معاملہ رفع دفع کردیا۔ غیر مسلموں کے حق میں صحابۂ کرا م ث نے عدل و انصاف کا جو نمونہ پیش کیا ہے ، دوسری اقوام میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مسلمان اپنی زندگی میں اگر یہ کردار شامل کرلیں تو سماج میں پائے جانے والے اختلافات بڑی حد تک ختم ہوسکتے ہیں ۔

غیر مسلم کا مسجد میں قیام

مسجد ایک مقدس جگہ ہے ۔ اس کو پاک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وہاں مسلمان عبادت کرتے ہیں ، اس لیے ہر طرح کی آلودگی ، بچوں کی آمد و رفت ، شور و شرابہ اور ناپاک لوگوں کے داخلے سے اس کی حفاظت، ایمان کا حصہ ہے ۔ اس کے باوجود غیر مسلم اقوام کے مسجد میں داخلہ اور قیام کا ثبوت ملتا ہے۔ وفد ثقیف جب رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے ان کے لیے مسجد میں خیمہ لگوایا ۔ تاکہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھیں ، آپﷺ سے عرض کیا گیا: اے اﷲ کے رسول ، آپ انھیں مسجد میں ٹھہرا رہے ہیں ، جب کہ یہ مشرک ہیں ، آپ نے فرمایا: زمین نجس نہیں ہوتی۔ نجس تو ابن آدم ہوتا ہے ، ﴿ نصب الرایہ : ۴/۲۷۰﴾ غیر مومن کو عقیدے کے اعتبار سے قرآن نے ناپاک کہا ہے ؛ تاہم جسمانی اعتبار سے اگر وہ پاک صاف رہیں تو ان کے لیے مسجد میں داخلے کی ممانعت نہیں ہوگی۔ بالخصوص اس نیت سے کہ مسلمانوں کے طریقۂ عبادت ، ان کی اجتماعیت اور سیرت و اخلاق کو دیکھ کر ان کے دل نرم پڑیں اور اسلام کی طرف وہ مائل ہوں ؛ جیساکہ آپﷺ نے مختلف وفود اور اشخاص کو مسجد میں قیام کی اجازت اسی مقصد کے تحت دیا تھا ، علامہ خطابی لکھتے ہیں :

وفی ہذا الحدیث من العلم أن الکافر یجوز لہ دخول المسجد لحاجۃ لہ فیہ أو للمسلم ایہ ۔       ﴿ معالم السنن : ۲/۳۵﴾

’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کو اگر مسجد میں کوئی حاجت ہو یا مسلمان کی اس سے کوئی حاجت ہو تو وہ وہاں جاسکتا ہے ۔‘‘

غیر مسلم جنازے کا احترام

جنازہ تصور و خیال کو آخرت کی طرف لے جاتا ہے اور انسان کو چونکا دیتا ہے۔ اس لیے کہیں سے کوئی جنازہ گزرے تو انسان کو کھڑا ہوجانا چاہیے۔ اگر یہ جنازہ غیر مسلم کا بھی ہو تو بھی یہی حکم ہے ۔ ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسول اکرمﷺ کھڑے ہوگئے ۔ صحابہ نے عرض کیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا : آخر وہ بھی تو انسان تھا ’’ ان فیہ لنفساً‘‘﴿ صحیح بخاری ، بحوالہ مشکوٰۃ : ۷۴۱ ﴾ یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے اور انسان ہونے میں تمام نوع بنی آدم یکساں ہیں ۔

غیر مسلم کی تعزیت

موت ایک خوفناک حادثہ ہے ۔ یہ حادثہ مسلمانوں کو ہوتو وہ یقینا لمحۂ فکر ہے ۔لیکن غیر مسلم کے گھر میں بھی یہ حادثہ پیش آئے تو اس کی بھی تعزیت کی جانی چاہیے اور انسانی ہمدردی کا اظہار کیاجانا چاہیے ، یہ ایک سماجی تقاضا ہے اور عین اسلام کی تعلیم پر عمل ہے ، امام ابویوسفؒ کا بیان ہے کہ حضرت حسن بصری کے پاس ایک نصرانی آتا اور آپ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا ۔ جب اس کا انتقال ہوا تو انھوں نے اس کے بھائی سے تعزیت کی اور فرمایا : تم پر جو مصیبت آئی ہے ، اﷲ تعالیٰ تمہیں اس کا وہ ثواب عطا کرے جو تمہارے ہم مذہب لوگوں کو عطا کرتا ہے ۔ موت کو ہم سب کے لیے برکت کا باعث بنائے اور وہ ایک خیر ہو جس کا ہم انتظار کریں ، جو مصیبت آئی ہے ، اس پر صبر کا دامن نہ چھوڑو ۔ ﴿ غیر مسلموں سے تعلقات ،ص:۹۳﴾

غیر مسلم سے کاروباری تعلقات

کاروبار ، خرید و فروخت ، لین دین انسانی زندگی کا لازمی جز ہے۔ یہ چیزیں جس طرح مسلمانوں کے ساتھ درست ہیں اسی طرح غیر مسلم افراد کے ساتھ بھی جائز ہیں۔ غیر مسلم طبقے سے تجارتی تعلقات شرعی حدود میں رہتے ہوئے کیے جاسکتے ہیں ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :

ان النبی ا اشتری طعاما من یہودی الٰی اجل ورہنہ درعہ من حدید ۔ ﴿صحیح بخاری﴾

’’رسول اکرم ﷺ نے ایک یہودی سے ایک مدت کے لیے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنے لوہے کی زرہ رہن رکھی۔‘‘

علامہ دقیق العید فرماتے ہیں :

ہذا الحدیث دلیل علٰی جواز معاملۃ الکفار وعدم اعتبار الفساد فی معاملتہم ۔

’’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کفار سے معاملہ کرنا جائز ہے اور یہ کہ ان کے آپس کے معاملات کے فساد کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔‘‘                ﴿احکام الاحکام : ۳/۱۹۶﴾

ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانیت میں ساری قومیں شامل ہیں۔ جہاں انسانیت کی بات آئے گی وہاں ان کے ساتھ ہمدردی ، خیر خواہی روا داری وغیرہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی۔ اچھے اخلاق کے ذریعہ ہم ایک اچھا انسان ہونے کا ثبوت دیں گے۔ تاکہ اسلام کی اچھی تصویر ان کے ذہن میں بیٹھے اور کم از کم اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میںنرم گوشہ ان کے دل میں پیدا ہو ،البتہ اسلامی امتیاز ہر وقت باقی رہے گا، عقائد یا دینی مسائل میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔ کسی بھی مسلمان کو رواداری کے نام پر ذرہ برابر دین کے معاملے میں مداہنت یا کسی رد و بدل اور ترمیم کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

مشمولہ: شمارہ مئی 2011

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223