افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان دن میں دس مرتبہ حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ کی آواز سننے کے باوجود ان صفات کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، جو فلاح حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں، اس کا ایک بڑا سبب حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ کے مطلب و تقاضہ کو نہیں سمجھنا ہے۔ سورئہ مومنون کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے فلاح پانے والے لوگوں کی آٹھ صفات بیان كیں۔اذان میں حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ کی دعوت ان صفات کو اختیار کرنے کی دعوت ہے۔
ان صفات میںپہلی صفت ، المومنون ہے، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے، قَدْ اَفْلَحَ الْمُومِنُونَ(یعنی تحقیق کہ کامیاب ہوگئے ایمان والے) کامیابی کے لئے پہلی صفت ایمان ہے اَلِّذِیْنَ اٰمُنُواْ میں وہ ایمان کے دعویدار بھی آتے ہیں، جن میں ابھی ایمان کی تمام صفات پیدا نہیں ہوئیں، اس لئے قرآن میں صرف اَلِّذِیْنَ اٰمُنُواْ میں شامل ہونے کے دعوے کی بنیاد پر کامیابی کی بشارت نہیں دی، بلکہ اس سے پہلے یا اس کے بعد ایمان کی کچھ صفات کا تذکرہ ہے ، اور پھر کامیابی اور جنت کی بشارت دی گئی اللہ تعالیٰ نے کچھ اعمال كو اختیار کرنے اور کچھ برائیوںسے بچنے کی تلقین کی، جیسے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یَآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ ادخُلُواْ فِی السِّلْمِ کَآفَّۃُ (سورئہ بقرہ ۲۰۸) (یعنی ائے ایمان والواسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو کہیں فرمایا، یَآیُّھَا اَلِّذِیْنَ اٰمنُواْ اٰمِنُوْابِاللہِ وَ رَسُوْلہِ (سورئہ نساء ۱۳۶)(یعنی اے ایمان والو،ایمان لے آئواللہ اور اس کے رسول پر) مطلب یہ کہ حقیقی ایمان لے آئو۔ایمان کے دعویدار اگر ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کریں تو پھر اللہ کی طرف سےتنبیہ بھی ہے، جیسے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یَآیُّھَا اَلِّذِیْنَ اٰمنُواْ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (صف۲)(یعنی ائے ایمان والو وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں)
فرمان باری تعالیٰ ہے، وَانْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُومِنینَ۔(سورئہ ال عمران ۱۳۹) (یعنی تم ہی سر بلند رہو گے اگر تم مومن ہو) وَ کَانَ حَقاً عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُومِنیْنَ،(سورئہ روم ۴۷) (یعنی مومنین کی مدد کرنا ہم پر حق ہے) قَدْ اَفْلَحَ الْمُومِنُونَ (سورئہ مومنون ۱)(یعنی تحقیق کہ کامیابی پالی مومنون نے)۔
خشوع وخضوع
مذکورہ آیات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مومن بننا ضروری ہے، کسی ادارہ میں تعلیم کا داخلہ اور چیز ہے، اور تعلیم کی ڈگری اور چیز ہے،یہ حقیقت ہے کہ کسی کو تعلیم کے داخلہ کے ساتھ تعلیم کی ڈگری نہیں مل جاتی، بلکہ تعلیم کو مکمل کرنے کے بعدمحض ایمان كے اعلان سے ڈگری ملتی ہے ، اسی طرح ایمان کی سند نہیں ملتی، بلکہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ایمان کی سند ملتی ہے، دنیا کےلوگ ، دنیا کے کسی بھی ادارہ میں داخلہ اور ڈگری کے فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، مگر بہت سے مسلمان اسلام میں داخلہ اوركا میابی كی ڈگری کے فرق کو نہیں سمجھتے ۔
سورئہ مومنون کی ابتدائی آیات میں مومنین کے لئے فلاح کی بشارت دی گئی ہے۔ وہ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار كرتے ہیں، وہ نمازوں کو صرف جسم كی حركات سے ہی ادا نہیں کرتے ، بلکہ دل و دماغ سے بھی ادا کرتے ہیں، خشوع و خضوع کا تعلق ظاہر سے زیادہ باطن سے ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ باطن کا اثر ظاہر سے بھی واضح ہوتا ہے، اس لئے اگر کوئی نمازی حالت نماز میں ظاہری لحاظ سے بے توجہی میں مبتلا ہے تو اندیشه ہے کہ وہ باطنی لحاظ سے بھی بے توجہی میں مبتلا ہوگا۔ خشوع و خضوع میں یه امر، معاون ہے کہ نمازی ، نماز میں جو کچھ قرآن پڑھ رہا ہے یا سن رہا ہے ، یا جو کچھ تسبیحات و اذکار پڑھ رہا ہے ، ان کا معنیٰ و مطلب سمجھے۔ خشوع و خضوع کا تعلق دل و دماغ کی کیفیت سے ہے۔چنانچه نماز کے متعلق ایک نمازی پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ نماز میں پڑھی جانے والی قرآن کی آیات اور اذکار کو سمجھنے کی کوشش کرے ، خشوع و خضوع کایه تقاضہ بھی ہے کہ نمازی نے نماز میں جو کچھ پڑھا اور سنا نماز کے بعد کی زندگی میں اس پر عمل کرے ۔
لغو سے پرهیز
قرآن نے یه صفت بیان کی کہ اهلِ ایمان لغو سے اعراض کرتے ہیں، مطلب یہ کہ لغو سوچ بات اور کام میں حصہ نہیں لیتے اور نہ لغو باتوں سے دلچسپی لیتے ہیںاردو میں لغو کا ترجمہ بے جا اور بے ضرورت کیا جا سکتا ہے، اس لحاظ سے ، وہ قول و عمل لغو کی تعریف میں آئیگا، جس کی قرآن و حدیث میں ممانعت ہے ۔
افسوس ہے کہ بهت سے مسلمانوں کا وقت لغو کاموں میں صرف ہوتا ہے، لغو کام اس لئے ممنوع ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر جو فرض عائد کئے ہیں، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ اگرکسی کو دنیا میں ایک ہزار سال کی بھی زندگی ملے تو اس کی زندگی ختم ہو سکتی ہے، لیکن دین کے کام ختم نہیں ہو سکتے ، جیسے قرآن میں حضرت نوعؑ کی ساڑھے نو سو سالہ دعوتی زندگی کا تذکرہ ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی قوم ایمان نه لائی۔ اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت کے بعد منكرین کو آسمانی عذاب کے ذریعہ ہلاک کردیا،لغو کاموں میں مصروف رہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے مکمل دینی کاموں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، چنانچہ بیشتر مسلمان صرف نماز ، روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کو ہی مکمل دینی کام سمجھتے ہیں، جب کہ دین اسلام دیگر فرائض بھی عائد كرتا هے مثلاً حق كو غالب کرنے کی جدوجہد ،بھلائی کا حکم دینا، اور برائی سے روکنا ۔یه سب مسلمانوں کے فرض منصبی كے تقاضے هیں۔ مسلمان اپنی ذمہ داری سمجھے تو ایک لمحہ بھی اس کے پاس خالی نہیں رہے گا۔ غرض یہ کہ اذان کے حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ کلمہ کا تقاضہ ہے کہ لغو باتوں اور کاموں سے دور رہا جائے۔
فلاح پانے والے مومنین کی تیسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے تزکیہ کے لئےسعی کرتے رہتے ہیں، تزکیہ سے مرادقلب كی پاكیزگی ہے۔ دل دماغ پر شیطان و سوسوں کے ذریعہ برے خیالات ڈالتا ہے، اور اللہ کی بندگی کے متعلق غفلت و سستی پیدا کرتا ہے، مومنین اس غفلت اور سستی کو اللہ کے ذکر کے ذریعہ دور کرتے ہیں۔ اللہ کا اصل ذکر قرآن مجید ہے جیسا کہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اِنَّا نَحْنُ نزلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ لَحٰفِظُونَ (سورئہ حجر ۹)(یعنی بیشک ہم ہی نے ذکر یعنی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں)۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ فلاح پانے والے مومنین مسلسل قرآن سے فیض یاب هوتے ہیں ، اور کبھی قرآن سے غافل رہ کر زندگی نہیں گزارتے۔
عفت
فلاح پانے والے مومنین کی چوتھی صفت بیان کی گئی کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ بے حیائی اور زنا وبدکاری نہیں کرتے۔جنسی خواہش کی تکمیل کا جائزذریعہ مرد کے لئے بیوی ہے، اور بیوی کے لئے شوہر ہے ، ازدواجی زندگی سے جُڑے بغیر شرم گاہوں کی حفاظت بہت مشکل ہے یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء و صالحین کی زندگیاں ازدواجی رشتہ سے جُڑی ہوئی تھیں، اور آج جو دنیا میں بے حیائی و بدکاری پائی جاتی ہے ، اس کا ایک بڑا سبب ازدواجی زندگی سے نہیں جڑنا ہے ، یا اس میں بے جا تاخیر کرناہے، ازدواجی زندگی سے جڑنے کے لئے اسلام نے نکاح کا عمل رکھا ہے ، چنانچہ یہ عمل جتنا آسان ہوگا شرم گاہوں کی حفاظت بھی اتنی آسان ہوگی، اور نکاح کا عمل جتنا زیادہ مشکل ہوگا، شرم گاہوں کی حفاظت بھی اتنی ہی مشکل ہوگی۔ لیکن افسوس ہے کہ آج خود مسلمانوں نے نکاح کو مشکل بنا دیا ، شرم گاہوں کی حفاظت کا تقاضہ مسنون نکاح ہے۔
مجلسِ نکاح ایک دینی اجتماع ہے ، اس میں خطبئہ نکاح کے عنوان سے اللہ کا کلام اور اس کے رسول ؐ کا کلام سنایا جاتا ہے۔ دین کی بنیاد پر یہ رشتہ طئے ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد شوہر كو ترغیب دی گئی هے كه اپنی استطاعت کے مطابق ولیمہ کا کھانا کھلائے۔ فلاح پانے والے مومنین کی پانچویں صفت یہ بیان کی گئی کہ وہ اپنی امانتوں کا پاس رکھتے ہیں، مطلب یہ کہ وہ امانتوں میں خیانت نہیں کرتے، اور امانتوں کو ضائع نہیں کرتے، بلکہ امین کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔
امانت
مذکورہ آیت میں امانت کے متعلق جمع کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ فلاح پانے کے لئے تمام امانتوں کو ادا کرنا ضروری ہے انسان کو جو بھی چیز حاصل ہے وہ اللہ کی امانت ہے، چاہے وہ دماغی و جسمانی صلاحیت ہو، یا مال و اقتدارہو۔اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان تمام چیزوں کے استعمال کے متعلق اللہ کی مرضی کا خیال رکھے، اگر اس نے اللہ کی مرضی کا خیال نہیں رکھا تو اس نے امانت میں خیانت کی ، ایمان اور امانت میں گہرا تعلق ہے ، عربی میں امانت کا خیال رکھنے والے کو امین کہتے ہیں اور ایمان لانے والے کو مومن کہتے ہیں، اس لئے مومن و امین ایک ہی مادہ سے نکلے ہوئے دو لفظ ہیں امانت کے لحاظ کے بغیر کوئی مومن نہیں ہوسکتا، اور جومومن ہے وہ ضرور امین ہوگا، اس لحاظ سے ایمان اور امانت میں لازم و ملزوم کا تعلق ہے۔
آنحضورﷺ کے متعلق بتایاگیا ہے کہ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ آپؐ نے کوئی خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ نہ فرمایا ہو۔ لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَتَ لَہ وَلاَ دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہ۔(بیھقی و مشکوٰۃ)(یعنی اس میں ایمان نہیں جس کے پاس امانت کا خیال نہیں، اور اس میں دین نہیں ، جس کے پاس عہد کا خیال نہیں)۔مطلب یہ کہ آنحضورﷺ کے اکثر خطبوں میں مذکورہ فرمان ضرور ہوتا تھا، اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ دین میں امانت و عہد کی کتنی اہمیت ہے۔
امانت کی حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات اور دنیا میں جتنی چیزیں ہیں ، ان تمام چیزوں کا اصل مالک اللہ ہے ، ان میں سے کچھ چیزیں بطور امانت انسان کے تصرف میں دی گئی ہیں، جیسے زمین ، ہوا، پانی ، کھانا جان ومال وغیرہ ،لیکن ان تمام چیزوں کے استعمال میں انسان کو آزاد اور خود مختار نہیں ٹھهریاگیا ہے، بلکہ اسے اللہ کی مرضی کا پابند رهنے كے لیے كهاگیاہے، جو ان چیزوں کے استعمال میں اپنے آپ کو مالک اور آزاد سمجھتے هیں وہ اللہ کی نظر میں نافرمان هوں گے۔
فلاح پانے والے مومنین کی چھٹی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے عہدوپیمان کا خیال رکھتے ہیں ، مطلب یہ کہ عہد توڑتے نہیں اورنہ عہد کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، بلکہ جو عہد کرتے ہیں اس پر قائم رہتے ہیں اور اسے پورا کرتے ہیں۔ عہد میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا عہد اللہ کی بندگی کا عہد ہے، جو ہر مومن نے کلمہ کے اقرار کے ساتھ کیا ہے۔ ہر مومن پر ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی بھر اس عہد پر قائم رہے اور اسے پورا کرے، اور زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اللہ کی بندگی کے عہد کو نہ توڑے اور نہ اس کی خلاف ورزی کرے، لیکن افسوس ہے کہ آج بهت سے مسلمان اللہ سے کئے ہوئے بندگی کے عہد کو توڑ کر زندگی گزاررہے ہیں، خصوصاً معاملات کے شعبہ میں۔
آزمائش
اللہ کے عذاب کی ایک شکل ظالم حکمرانوں کا مسلمانوں پرمسلط ہو جانا ہے ، بنی اسرائیل پر ظالم و جابر حکمراں مسلط ہوتے تھے، جیسے فرعون۔آج مسلمانوں پر ظالم حکمراں مسلط ہیں ، اس لئے حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ کی آواز کے ذریعہ مسلمانوں کو مکمل اللہ کی بندگی لانے کی ضرورت ہے۔ جنہوں نے بندگی کا عہد قبول کر لیا ، انہیں اس عہد کو یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ بے شعور لوگوں نے شعبہ سیاست میں اللہ کی بندگی کو چھوڑدیا۔اس كوتاهی میں دینی جماعتوں اور اداروں کی کوتاہی کا بھی دخل ہے، دینی اداروں نے وضو و غسل ، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ و حج کی ادائیگی کےسلسلے میں مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کیا لیكن دینی شعور سیاست میں بیدار نہیں کیا۔ کوئی مسلمان نماز ، روزہ، زکوٰۃ و حج کی ادائیگی میں قرآن و حدیث کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ پسند نہیں کرتا، لیکن یہی مسلمان سیاست میں غیر اسلامی طریقہ کواپناتاہے۔
فلاح پانے والے مومنین کی ساتویں صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفا ظت کرتے ہیں ، مطلب یہ کہ نمازوں کو ضائع نہیں کرتے اور نہ ہی نماز کو بھولتے ہیں، جو کچھ نماز میں پڑھا اسے یاد رکھتے ہیں۔ نماز کی حفاظت کا تعلق نماز کی ادائیگی کے بعد کے عمل سےبھی ہے، فلاح پانے والے مومنین کی پہلی صفت نماز خشوع كے ساتھ ادائیگی تھی۔آخری صفت نماز كی حفاظت هے۔
فلاح كاوسیع مفهوم:
فلاح پانے کے لئے انفرادی و اجتماعی دونوں صفات کو اختیار کرنا ضروری ہے ، ہاں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پہلے انفرادی صفات سے متصف ہونا ضروری ہے ، ویسے بھی پہلے اپنی ذات ہی کا حق ہوتا ہے۔ سورئہ حج کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ نے فلاح کے متعلق چند اجتماعی صفات کو بیان فرمایا ہے چنانچه ایمان والوں کو خطاب کرکے کہا گیا، رکوع کرو،اور سجدہ کرو، اور اپنے رب کی بندگی اختیار کرو،اور بھلائی کے کام کرو، تاکہ تم فلاح یعنی کامیابی پائو، اور اللہ کے لئے جہاد کرو، جیسا کہ جہاد کا حق ہے۔پھر ان صفات کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا گیا ، اس نے یعنی اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ، لہذا تم لوگوں پر گواہ بن جائو، پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو، اور اللہ کو مضبوط تھام لو، وہی تمہاری مولیٰ ہے ،پس کیا ہی بہترین مولیٰ اور بہترین مددگار ہے، مذکورہ تمام صفات فلاح حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ جہاں تک احادیث میں فلاح کے متعلق تذکرہ کی بات ہے تو آنحضورﷺ کا یہ فرمان کافی ہے۔قُوْلُوْ لَآ اِلٰہَ اِلّاَ اللَّہُ تُفْلِحُوْا،(یعنی کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کامیاب ہو جائوگے)۔
اسی طرح ایک اور فرمان رسولﷺ ہے ۔ ’’کامیاب ہو گیا وہ جو مسلمان ہو اور اسے بقدر کفایت رزق دیا گیا، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو قناعت پسند بنا دیا‘‘۔ مذکورہ حدیث میں فلاح کے لئے شرطیں بیان کی گئی ہیں ، اول یہ کہ وہ مسلمان ہو جائے، دوسرے اسے بقدر کفایت رزق ملے، اور تیسرے جو اللہ نے اسے نعمتیں دی ہیں ان پر قناعت کرے۔ حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ کے ذریعہ مذکورہ صفات کو اختیار کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔
الغرض یہ کہ اذان کے پانچویں کلمہ میں جو حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ کی دعوت ہے ، وہ اہل ایمان کو دین کے لئے عیش و آرام قربان كرنےكا تقاضہ کرتی ہے ، ساتھ ہی اس میںعام انسانوں کے لئے اسلام کی طرف دعوت بھی ہے، اس میں دنیا و آخرت کی کامیابی کی بشارت بھی ہے، اگر کوئی حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ کی دعوت قبول نہ کرے تو اس کے لئے خساره ہے، عقلمند ی کا یہی تقاضہ ہے کہ حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ کی دعوت کو قبول کیا جائے۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ مئی 2019