اذان اور دعوت میں تعلق

(4)

جو آدمی اپنے دین میں  زیادہ پختہ ہوگا اس پربڑی آزمائشیں آئیں گی، جو دینی جماعت انبیاء کے طریقہ کے مطابق ہوگی، اس پر آزمائشیں بھی  زیادہ آئیں گی، قرآنی تاریخ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیاء پر بڑی آزمائش اپنے دور کے سرداروںاور حکمرانوں کی، مخالفت کی صورت میں آئی ہے، اور پھر یہی مخالفت ظلم و ستم میں تبدیل ہوگئی،جو جماعت انبیاء کے راستہ پر چلے گی ، اس پر بھی بڑی آزمائش اپنے دور کے سرداروں اور حکمرانوں کی ، مخالفت کی صورت میں آئے گی۔

تمام نبیوں کے متبعین کی تاریخ تو محفوظ نہیں، لیکن خاتم الانبیاء والمرسلین اور امام الانبیاء حضرت محمدﷺ کےبہت سےمتّبعین اور وارثین کی تاریخ محفوظ ہے، یہاں صرف نبی ﷺ کے چند متّبعین اور وارثین کے ناموں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ آپؐ کے رفیق زندگی اور رفیقِ غار حضرت ابوبکر صد یق ؓ نے آپؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو، مشرکین مکہ نے آپ کو اتنا مارا کہ آپ بیہوش ہوگئے، لیکن جب ہوش آیا تو سب سے پہلا جملہ جو زبان سے نکلا وہ یہ تھا کہ محمدﷺ کس حال میں ہیں کچھ لوگوں نے طعنہ بھی دیا کہ محمد ﷺ کا ساتھ اختیار کرنے کی وجہ سے ہی یہ مصیبت آئی ہے، آپ نے کہا مجھے اس  کی  پروا نہیں۔

حضرت خباب بن ارتؓاور حضرت بلالؓ نے حضرت محمدؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو سردارا ن مکہ نے ان کو  مارا اور آگ کی ایذائیں دیں کہ ان کی پیٹھ کی چمڑی جل گئی، حضرت سمیہؓ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو ابو جہل نے  نیزہ مارکر شہید کر دیا، حضرت حمزہؓ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو جنگ اُحد میں شہید کر دیئے گئے اور ان کی نعش کے ناک،کان کاٹ لئے گئے اور سینہ چاک کرکے ان کا کلیجہ نکال کر ہندہ نے چپانے کی کوشش کی، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو خود ان کے خاندان کے باطل سرداروں نے انہیں دھوکہ سے زہر دیکر شہید کر دیا، امام اعظم ابو حنیفہؒ نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا اور بنو عباسیہ کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی تو عباسی خلیفہ منصور نے انہیں جیل میں ڈال دیا، اور چند سال کے بعد جیل ہی میں انہیں زہر دیکر شہید کردیا، اس لحاظ سے ان کی موت جیل ہی میں ہوئی اور جیل سے ہی ان کا جنازہ اٹھا، امام مالکؒ نےجب نبی ؐ کی اتباع کاراستہ اختیار کیا اور عباسی خلیفہ منصور کے خلاف فتویٰ دیا تو انہیں ستر کوڑے مارے گئے جس سے پیٹھ لہو لہان ہو گئی، اور دونوں ہاتھ مونڈھوں سے شل ہوگئے۔

امام احمد بن حنبلؒ نے جب خلق قرآن کے فتنہ کے مقابلہ میں فتویٰ دیا تو عباسی خلیفہ مامون نے آپ کو اتنے کوڑے مارے کہ آپ کا جسم لہولہان ہوگیا، اس کے بعد آپ کو قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح جب مجدد الف ثانیؒ شیخ احمد سرہندی نے جب نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا اور مغل بادشاہ جہانگیر کے بادشاہ کے لیے سجدہ تعظیمی کے فرمان کی مخالفت کی اور اسے شرک قرار دیا تو جہانگیر نے آپ کو جیل میں ڈال دیا، لیکن جیل میں بھی آپ برابر بادشاہ کے فرمان کی مخالفت کرتے رہے ، اسی طرح جب سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ نے نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا اور ان کی دینی کوششوں سے کچھ مدت تک افغانستا ن اور سرحد کے بعض علاقوں میں اسلامی حکومت قائم بھی ہوئی ، لیکن ۱۸۳۱؁ء میں وہ بالاکوٹ کے میدان میں اسلام دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

۱۹۱۴؁ء کے اثنا میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی  کوشش کی، تو انگریز حکومت نے انہیں گرفتار کرکے چار سال تک مالٹا کی جیل میں ڈال دیا اور انہیں طرح طرح کی ایذائیں دیں۔  مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے نبیؐ کی اتباع کا راستہ اختیار کیا اور ۱۹۲۵؁ء سے اپنے قلم کے ذریعہ دین اسلام کو ایک مکمل نظام کی حیثیت سے پیش کرتے رہے، نادانوں کی طرف سے ان پر گمراہی کے فتوے لگے،  ۱۹۵۳؁ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے متعلق ایک کتابچہ لکھنے کی پاداش میں پاکستانی حکومت نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی شدید احتجاج کے بعد حکومت پاکستان کو پھانسی کی سزامنسوخ کرنی پڑی۔اس کے بعد بھی دو مرتبہ پاکستانی حکومت نے مولانا مودودیؒ کو جیل میں ڈالا ۔ حسن البنّا شہیدؒ نے مصر میں ایک اسلامی تنظیم اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی اور اسلام کی اشاعت و غلبہ کی کوشش کی تو سید قطب سمیت  درجنوں کارکنان کو شہید کر دیا گیا۔

تاریخ میں ایسی بہت سی سید قطب سمیت درجنوں کارکنان کو اسلامی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے انبیاء و رسُل کی اتباع کا راستہ اختیار کیا تو ان پر قریب قریب ویسے ہی حالات آئے جیسے انبیاء و رُسُل پر آئے ہیں ۔یوں اللہ کے رسولؐ سے  مذکورہ فرمان کی تصدیق ہوئی کہ انسانوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے پھر جو انبیاء کے قریب ہوتے ہیں تاریخ کے ہر دور میں اس کا عملی ثبوت ملتا رہا ہے  ، چنانچہ آج بھی دنیا میں اسلامی تحریکات  باطل کی  زد میں ہیں ۔

ابتلاء و آزمائش کے متعلق اللہ کا یہ اصول بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ جو مصیبت و پریشانی اللہ کے دین پر عمل کرنے کے سبب آرہی ہے وہی ابتلاء و آزمائش ہے ۔ جو مصیبت و پریشانی اللہ کے دین پر عمل نہیں کرنے کے سبب آرہی ہے وہ ایک طرح سے اللہ کا عذاب اور تنبیہ ہے، قرآن میں فرمایا گیا  ،  وَمَا اَصَاَبَکُمْ مِنْ م مُّصِیبَۃِ فبِمَا کَسَبَتْ اَیدِیْکُمْ وَ یَعْفُواعَنْ کَثِیرِ  (شوریٰ آیت ۳۰) ترجمہ (تمہیں جو مصیبت پہنچی ہے پس وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے، اور وہ بہت سی باتوں سے در گزر کرتا ہے۔)ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرّ و الَبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُزْیقَھُمْ بَعْضَ الّذِیْ عَمِلوالَعَلَّھُمْ یَرْ جِعُوْنْ(سورئہ روم آیت ۴۱) ترجمہ( برپا ہو گیا فساد خشکی اور سمندر میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کے سبب تاکہ انہیں بعض اعمال کا مزہ چکھائے ، تاکہ وہ اللہ کی طرف پلٹیں)۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں  فرمایا  ۔ ( اَفَتُوء مِنُونَ بِبَعضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرونَ بِبَعضِ فَمَا جَزَآء مَنْ یَفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلّاَ خِزْیُ فیِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَومَ الْقِیاَمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذاَبِ وَمَا اللہُ بِغَافِلِ عَمَّا نَعْمَلُونَ) ترجمہ(کیاتم کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو، اور بعض کا انکار کرتے ہو، پس جو کوئی ایسا کرے اس کی سزا دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اور قیامت کے دن سخت عذاب کی طرف اسے پھیر دیا جائے گا اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔ )

مذکورہ آیت میں اگرچہ اولین طور پر بنی اسرائیل مخاطب ہیں لیکن موجودہ امتِ مسلمہ بھی اگر یہ گنا ہ کرے تو اس کے لیے بھی یہی سزا ہے ۔ ذلت و رسوائی سے نکلنے کی ایک ہی تدبیر ہے وہ یہ کہ قرآن مجید کی رہنمائی کو مکمل طور پر قبول کریں۔

البتہ جن اہل ایمان پر اللہ کے دین کی سبب مصیبت و پریشانی آ رہی ہے وہ آزمائش ہے ، جو قرآن مجید کی اس آیت کے زمرے میں آتی ہے ۔   وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشیْئِ مِنْ الْخَوْفِ وَ الْجُوْئِ وَ نفْصِ مِنَ الْاَمْوالِ وَ الْاَ نْفُسِ وَ الثّمَرٰتِ وَ بَشّرِ الصّٰبرِینْ (سورئہ بقرہ۱۵۵) ترجمہ:’’  اور ضرور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر ، اور بھوک ، اور مالوں اور جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے، اور خوشخبری سنا دیجئے، صبر کرنے والوں کو چنانچہ آج دنیا میں بہت سی اسلامی تحریکات اور افراد ایسی ہی آزمائش سے گزر رہے ہیں‘‘۔

دینی ابتلاء و آزمائش کے متعلق ایک اہم اصول یہ ہے کہ ہر ابتلاء و آزمائش کے ساتھ آسانی اور انعام بھی جڑا ہوا ہے اور کبھی یہ آسانی اور انعام دنیا میں بھی ملتا ہے، اور اگر دنیا میں نہ ملے توآخرت میں تو لازماً مل کر ہی رہے گا، اور یہ اصول قرآن کی یہ آیت سے ثابت ہے۔اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراَ o فَاِنَّ مَعَ  الْعُسرِا یُسْراً(سورئہ نشرح آیت ۵۔۶)  ترجمہ (پس بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ ) آزمائش کے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ آزمائش جتنی زیادہ بڑی ہوگی۔ اس کا انعام بھی اتنا ہی بڑا ہوگا،  حضرت ابراہیمؑ اور حضرت محمدﷺ  ان دونوں نبیوں کی زندگی کو خصوصیت کے ساتھ اُسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ یعنی بہترین نمونہ۔

جس طرح اہل ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابتلاء و آزمائش سے گزارنے کا اصول و طریقہ ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہل کفر کے لئے حق کی حجت مکمل ہونے تک دنیا میں مہلت و ڈھیل کا اصول ہے،  جب تک کسی فرد اور قوم  پر حجت تمام نہیں ہوتی، دنیا میں اللہ کا عذاب نہیں آتا، اور جب کسی فرد اور قوم تک اسلام کی دعوت پہنچ جاتی ہے ۔ اس فرد اور قوم کی طرف سے اس کا    انکار ہوتا ہے، اور مسلسل انکار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس فرد اورقوم کو دنیا میں بھی عذاب دیتا ہے،کبھی یہ عذاب آسمانی ہوتا ہے، اور کبھی یہ عذاب انسانوں   سے لڑا کر ہوتا ہے،  حضرت محمدﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں ۔ اب انسانوں کو دعوت دینا  محمدﷺ کی امت کے ذمہ ہے ، قرآن اور حضرت محمدﷺ کی سیرت کے ذریعہ امت مسلمہ تک مکمل دین پہنچ چکا ہے، لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ کے بہت سے لوگوں نے دین اسلام کو مکمل دین کی حیثیت سے اختیارنہیں کیا ہے، بلکہ صرف عبادات پر اکتفا کیا ہے، تو پوری دنیا میں امت مسلمہ زوال کا شکار ہے۔ یہ صورت حال ،عین سنت اللہ کے مطابق ہے،  اس  سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ امت مسلمہ میدان سیاست سمیت پوری زندگی میں اسلامی رہنمائی کو قبول کرے، دنیا میں قوموں کو عذاب و ڈھیل دینے کے متعلق قرآن میں بہت سی آیات ہیں یہاں سورئہ بنی اسرائیل کی دو آیات پیش کی جارہی ہیں۔  (  وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُولاً o وَاِذَا اَرَدْنآَ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَ فِیْھَا فَفَسْقُوا فِیْھَا فَحَقَّ عَلْیْھَا الْقَوْلُ فَدَ مَّرْنٰھَا تَدْمِیْراً (بنی اسرائیل آیت ۱۵۔۱۶) ترجمہ (اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کسی رسول کو نہ بھیج دیں، اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس بستی کے خوشحال لوگوں کو حکم  دیتے ہیں ، پس جب ان کا فسق و فجور زیادہ بڑھ جاتا ہے تو اُن پر قول صادق آتا ہے اور ہم اس بستی کو برباد کر دیتے ہیں۔)

مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کسی قوم اور بستی کو عذاب دینے کے متعلق اپنی سنت کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ سابقہ قوموں اور بستیوں کی ہلاکت کے متعلق اللہ کا یہی اصول تھا محمدﷺ اللہ کے آخر ی رسول ہیں اس لئے قوموں اور بستیوں کو  دعوت دینے کی ذمہ داری اب امت مسلمہ کی ہے ، دور حاضر کے فاسق و فاجر کو اگر لمبی مہلت ملی ہوئی ہے، تو اس میں امت مسلمہ کی دعوتی غفلت و کو تاہی کا دخل ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اہل حق پر آزمائشوں سے متعلق  اتنی صراحت کے باوجود بعض کوتاہ بینوں نے باطل کی طرف سے اہل حق پر آنے والی آزمائشوں کو ان کی ناکامی کی  دلیل سمجھ لیا۔ بعض جزوی دینی کاموں، کو باطل کی طرف سے جو رعایت اور رخصت حاصل ہے ، اسے اپنی کامیابی کی دلیل سمجھ لیا ، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ شیطان کا بڑا حربہ اور ہتھیار ہے کہ وہ کامیابی کو ناکامی دکھاتا ہے اور ناکامی کو کامیابی دکھاتا ہے۔

شاید بعض لوگوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ  اہل حق پر باطل کی طرف سے اسلئے آزمائشیں آئیں ،کہ انہوں نے دین کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کیا ،اس میں سیاست بھی شامل تھی اور اس سیاست میں سب سے بڑا حکم، اور قانون اللہ کا تھا ۔اس دعوت سے باطل سردار اور حکمراں ناراض ہو گئے کیونکہ وہ سیاست میں اپنا حکم چلانا چاہتے تھے۔ چنانچہ آزمائش سے ڈر کر بعض نے اپنی تعلیمی و دعوتی کوششوں سے دین کی سیاسی فکر کو خارج کر دیا، تاکہ ان پر باطل کی طرف سے کوئی آزمائش نہ آئے اور سرے  سے اسلامی سیاست ہی کا انکار کردیا۔

اسلام اور اسلامی سیاست کا تعلق اسلام کی ابتدائی دعوت ہی سے گہرا رہا ہے چودہویں صدی ہجری کے ایک جلیل القدر عالم دین و مصنف علامہ سید سلیمان ندویؒ کی ایک تحریر سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جو آپؒ نے اپنی معرکۃ الآرا ء کتاب سیرت النبیﷺ کی ساتویں جلد میں تحریر فرمایا ہے۔ چنانچہ اس جلد کی ایک صفحہ کی عبارت قارئین کی خدمت میں من و عن پیش کی جا رہی ہے۔ ( یہ حقیقت ہے کہ اسلام جس دن سے مذہب بنا اسی دن سے وہ سلطنت بھی ہے، اس کی مسجد اس کا دیوان، اس کا منبر اس کا تخت تھا، اسلام کے جن بد گمان دشمنوں نے یہ سمجھا کہ محمدﷺ نے پہلے مذہب کی دعوت پیش کی جب و ہ کامیاب ہونے لگے اور جنگجو عربوں کا ایک گروہ ساتھ ہو گیا تو آپ کو سلطنت کے قیام کی فکر ہوئی ، ان کا یہ خیا ل سراسر اسلام کی حقیقت سے  ناآشنائی پر مبنی ہےایسی بادشاہی اور سرداری تو خود قریش کے رئیس آنحضر تؐ  کی خدمت میں اس شرط کے ساتھ پیش کر رہے تھے کہ وہ ان کے بتوں کو برانہ کہیں ۔

(جاری)

مشمولہ: شمارہ مارچ 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223