’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘ (الصف: ۹)
یہ آیت قرآن مجیدمیں دو اور مقامات پر آئی ہے۔ سورہ التوبہ میں ٹھیک یہی الفاظ ہیں جبکہ سورۃ الفتح میں آخری الفاظ وَکَفَیٰ بِااللّٰہِ شَہِیْدَا کے آئے ہیں ۔ علماء نے لکھا ہے کہ جو باتیں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں قرآن اس کا ایک سے زائد بار ذکر کرتا ہے۔ اس آیت میں قرآن کی تعلیمات کا عروج ہے۔ اس میں قرآن کے نزول اور نبی ﷺ کے مقصد بعثت کے تکمیلی مرحلہ کا ذکر ہے۔
دعوت کا آغاز رَبَّکَ فَکَبِّرْـ’’ رب کی بڑائی‘‘کے اعلان کے ساتھ ہوا۔ مقصد صرف زبان سے اللہ اکبر کہہ دینا ہی نہیں بلکہ عملاََ اللہ کی بڑائی کا قیام مطلوب ہے۔ تو رب کی بڑائی کے عملاََ قیام کا اعلان اس آیت میں کیا گیا ہے۔ بعثت نبوی ﷺ کی یہ امتیازی شان اور کٹھن ذمہ داری جو محمد رسول اللہ ﷺ پر عائد ہوئی کہ آپ دین حق کو پورے نظام زندگی پر غالب ، قائم ، نافذ و رائج فرمادیں۔
حدیث مبارکہ میں بھی اس حقیقت کا اظہار فرمایا گیا لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُاللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا۔ تاکہ اللہ کی بات ہی سب سے بلند ہو۔ اسی کی مرضی سب سے بالاتر ہو اور اسی کا جھنڈا سب سے اونچا ہو۔ رسول اس لیے نہیں آتے کہ وہ جو دین لے کر آتے ہیں وہ مغلوب رہے اور باطل غالب رہے اور تھوڑی سی گنجائش بعض مخصوص اعمال کی ادائیگی کے لیے مل جائے، بلکہ و ہ دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے آتے ہیں تاکہ باطل ادیان کا خاتمہ ہوجائے یا انکا زور ٹوٹ جائے۔
تکمیل دین اورغلبہ دین کا ایک مرحلہ نبی ﷺ کے ہاتھوںمکمل ہوا۔ عرب کے ایک بڑے علاقہ میں یہ عملاََ قائم ہوگیا۔ تکمیل دین کا ایک مرحلہ اور باقی ہے ۔آپ ﷺ کی بعثت ساری دنیا ئے انسانیت کے لیے ہے اور وہ اس طرح پورا ہوسکتا ہے کہ ساری دنیا میں یہ دین غالب ہو جائے اور یہ آپ ﷺکی امت کے ہاتھوں عمل میں آئے۔ دنیا کے بالخصوص مسلم ممالک کے حالات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا فطری انداز میں اسی مرحلہ کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت حق و باطل کی کشمکش اپنے عروج پر ہے۔
جب بھی دین حق کے نفاذ کی جد و جہد ہوگی باطل اسے گوارہ نہیں کرے گا، مقابلہ میں آئیگا، پورا زور لگائے گا، چالیں چلے گا، قوت استعمال کرے گا۔ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔ وَلَوْکَرِہَ الْکٰافِرُوْنَ۔ کافروں اور مشرکوں کو یہ ناگوار ہوگا۔ اور یہی سب کچھ آج ہورہا ہے۔ اسلام کو بدنام اور رسوا کرنے کی ہرممکن کوششیں ہورہی ہے۔ رسول اللہﷺ کی ذات کو نشانہ بنایا گیا، قرآن کی تعلیمات کو نشانہ تضحیک بنایا گیا۔ مسلمانوں کو بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دیا گیااورجہاں بھی ساری کوششوں کے باوجود اسلام کے غلبہ کی راہیں ہموار ہوئیں وہاں مختلف چالوں سے اسکا راستہ روکا گیا ۔ اس وقت مصر کے حالات اس کی شہادت دے رہے ہیں۔
مصر کے حالات کے جائزہ کے مختلف پہلو ہوسکتے ہیں۔ سورہ الاحزاب میں غزوہ احزاب کی جو صورت حال بیان کی گئی ہے ٹھیک وہی صورت حال اس وقت مصر میں ہے۔ اس غزوہ کو غزوہ احزاب اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسمیں مختلف جماعتیں یہود کے قبائل، مکہ کے مشرکین و دیگر مشرک قبائل نے مل جل کر مدینہ پر چڑھائی کی تھی اور مدینے کے منافقین کا تعاون بھی انہیں حاصل تھا۔ یہ طے تھا کہ وہ براہ راست حصہ نہیں لینگے بلکہ جب حملہ ہوگا وہ اندر سے بغاوت کریں گے۔ مصر میں فوجی حکمرانوں نے امریکہ اور اسرائیل کی پشت پناہی اور اندر و باہر کے منافقین کی سازشوں سے ماحول پیدا کیا، حکومت کے خلاف عوام کے احتجاج کا بہانہ بنا کر منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔سچی بات یہ ہے کہ احتجاجات کی وجہ سے حکومت کو برطرف نہیں کیا گیا بلکہ حکومت کو برطرف کرنے کے لیے احتجاجات کرائے گئے۔ منتخب صدر و دیگر قائدین کو نظر بند و گرفتار کر لیا گیا۔ منتخب حکومت کی بحالی کا جائز مطالبہ، لیکر جو حقیقی احتجاجات ہو رہے ہیں اسے قوت کے ساتھ دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مصر کے مسلمان بالخصوص اخوان اس وقت ایک سخت آزمائشی مرحلہ سے گذر رہے ہیں جس طرح غزوہ احزاب کے موقع پر نبی ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو گذرنا پڑا تھا۔سورہ احزاب میں اس وقت کے حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا گیا:
’’ جب دشمن اوپر سے نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھراگئیں ، کلیجے منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے، اس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گے اور بری طرح ہلا مارے گئے۔‘‘( الاحزاب ۱۰،۱۱)
سربلندی دین کی جد وجہد میں نبی کریم ﷺ کے لیے ذاتی حیثیت میں سخت ترین مرحلہ وہ تھا جب آپ طائف تشریف لے گئے ۔ اس طرح فرداًفرداً صحابہ کرام ؓ کو مختلف آزمائشی مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ ٹھیک اسی طرح اخوان کے قائدین اور الاخوان المسلمون کے ارکان و کارکنان کو فرداً فرداً سخت ترین آزمائیشوں سے گزرنا پڑا ۔ انہیں گرفتار کیا گیا اور طرح طرح سے ستایا گیا اور ظلم ڈھایا گیا۔غزوہ احزاب کا مرحلہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی پوری جمعیت کے لیے سخت ترین مرحلہ تھا جس کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت میں دی ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت سے اخوان کی پوری جمیعت اس وقت دو چار ہے۔
قرآن مجید میں جہاں اس وقت کے حالات کا نقشہ کھینچا گیا وہیں ان حالات میں صحابہ کرام ؓ کے ایمانی کیفیت و استقامت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
’’ اور سچے مومنوں (کاحال اس وقت یہ تھاکہ)جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات سچی تھی۔ اس واقعہ نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھادیا‘‘۔ (احزاب: ۲۲)
جس طرح صحابہ کرام ؓ اس بڑے لشکر کو دیکھ کر گھبرائے نہیں خوف نہیں کھائے پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگے بلکہ ان کے ایمان میں استقامت اور تسلیم و رضاء کی کیفیت میں اضافہ ہوا۔ ٹھیک یہی حال اس وقت اخوان کا ہے۔ کئی لاکھ افراد ایک ماہ گیارہ دن جس میں رمضان المبارک بھی شامل ہے ، جس طرح پر امن دھرنا و احتجاج کے ذریعہ قربانی اور استقامت کی حیرت انگیز و ناقابل یقین مثال قائم کی ہے اور ان حالات میں جس طرح ماہ رمضان کا اہتمام ہوا، سحری بھی وہیں اور افطار بھی وہیں، سخت گرمی میں سڑکوں پر بیٹھے رہے ، پانچ وقت کی نمازوں کے ساتھ تراویح کا اہتمام کیا گیا۔ تلاوت قرآن، ذکر و اذکار اور دعائوں کا اہتمام کرتے اور مرسی کی بحالی ود ین حق کے قیام کا مطالبہ کرتے رہے۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔
قرآن مجید نے صحابہ ؓ کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا:’’ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو سچ کردکھایا ۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘ (احزاب :۲۳)
ٹھیک یہی کیفیت فوجی آمروں کے حکم پر کئے جانے والی ظالمانہ کاروائیوں بالخصوص ۱۴؍ ا گسٹ کو رابعہ العدویہ میں موجود اخوانیوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے کی گئی کاروائی کے موقع سے سامنے آتا ہے۔ احتجاجی کیمپوں پر ٹینک چڑھائے گئے ، ہیلی کاپٹر کے ذریعہ اوپر سے گولیاں برسائی گئیں، غنڈوں کے ذریعہ حملہ کیا گیا کیمپوں کو آتشگیر مادہ سے جلانے کے نتیجہ میں سیکڑوں خواتین اور بچے جھلس کر شہید ہوئے۔ اس تشدد کے نتیجہ میں کم و بیش آٹھ ہزار اخوان کے کارکن جن میں مرد ، بچے، عورتیں سب شامل ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ بھاگنے کی یا جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کسی کی پیٹھ پر گولی نہیں لگی سب کے سینے اور سر پر براہ راست گولیاں لگیں۔ وہ استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہے ۔ بہر حال الاخوان المسلمون کی قربانیوں کی داستانیں اسلامی تاریخ میں سابقون کی یادوں کو ازسر نو تازہ کررہی ہیں ۔
جان کا نذرانہ پیش کرنے والے کرچکے، باقی منتظر ہیں کہ کب انہیں راہ خدا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ حالات کی سختی کی وجہ سے ان کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، کسی نے فرار کی راہ اختیار نہیں کی، عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ ان حالات نے ان کے ایمان میں تسلیم و رضا کی کیفیت کو بڑھادیا۔اپنے نصب العین کی کامیابی کاا نہیں اس قدر یقین ہے کہ انہوں نے اپنی کامیابی و فتح کا نشان ہتھیلی کے دواور دو انگلیوں کو جوڑ کر بنایا ہے۔ ایک دنیوی فتح و کامیابی کے لیے دوسرا آخرت کی کامیابی کے لئے۔ قرآن ایسے حالات کے سلسلے میں رہنمائی دیتے ہوئے فرماتا ہے
” یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں ۔‘‘(آل عمران : ۱۱۱)
’’ اور ہرگز نہ دبو کفّار و منافقین سے، کوئی پروا نہ کرو اُن کی اذیّت رسانی کی اور بھروسہ کرو اللہ پر، اللہ ہی اِس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اُس کے سُپرد کردے۔‘‘ (الاحزاب: ۴۸)
کفار و منافقین کی اذیت رسانی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اخوان نے اپنے معاملات کو اللہ کے حوالے کردیا۔اخوان اللہ کی اس سنت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اس سے پہلے کی امتوں کو ایسے ہی حالات سے گذارا گیا اور وہ جانتے ہیں کہ نہ صرف جنت کا راستہ ان حالات سے گذر کر آتا ہے بلکہ دنیا میں بھی اللہ کی مدد آتی ہے۔
’’پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا۔ حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گذرا جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گذر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں ، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے حتّٰی کے وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے اللہ کی مدد کب آئے گی( اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہےـ‘‘(البقرہ: ۲۱۴)
ان آزمائشی حالات سے اہل ایمان کو گذارنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا ) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزادے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے۔ بے شک اللہ غفور و رحیم ہے‘‘۔ (الاحزاب:۲۴)
ایمان کے دعوے دار بہت ہیں۔اپنے دعویٰ ایمان میں سچے کون اور جھوٹے کون یہ جاننے کے لیے ان حالات سے گذارا جاتا ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے اپنے دعویٰ ایمان کا ثبوت اپنے عملی جد وجہد و قربانی سے دیا اور منافقین نے اپنے طرز عمل سے بتا دیا کہ ان کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ ٹھیک یہی صورت حال اس وقت بھی سامنے آرہی ہے۔ اخوان اپنے ایمان کا ثبوت اپنے عمل و جد وجہد و قربانی سے دے رہے ہیں اور اندر و باہر کے منافقین اپنے دعویٰ ایمان کو اپنے عمل سے جھوٹا ثابت کر رہے ہیں۔
اس پورے منظر نامہ میں سب سے افسوس ناک، شرمناک، دردناک کردار ہمارے بے کردار بے عمل مسلم حکمرانوں کا ہے۔ ظالموں ، جابروں کی مدد کرکے جائز اور منتخب حکومت کی تبدیلی اور غیر اخلاقی، غیر انسانی اور وحشیانہ درندگی و خوں ریزی کی کھلی تائید کررہے ہیں ۔ اپنے خزانوںکے منہ کھول دئے ہیں ۔ اگر ہمارے مسلم حکمراں یہ سمجھ رہے ہیں کہ حرم و مسجد نبوی ؑکی توسیع کرکے حج کا انتظام کرکے، قرآن مجید کی مفت تقسیم کرکے تعمیر مساجد کے لیے پیسہ دیکر اپنی نجات کا سامان کر رہے ہیں تو وہ سخت ناداں ہیں ۔ قرآن نے کہا
’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹہرالیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں۔ اللہ کے نزدیک دونوں برابر نہیں ہیںاور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتاـ۔‘‘ (التوبہ:۱۹)
ہمارے یہ مسلم حکمراں اللہ کی مسجدوں کے خادموں کی صفات بالخصوص وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں (التوبہ: ۱۸) سے عاری ہوکر خدمت کا استحقاق بھی کھو دیا ہے۔ اگر ہمارے مسلم حکمراں اللہ پر بھروسہ رکھ کرعزم وحوصلہ سے کام لیں اور باطل سے رشتہ توڑلیں اور دین کے علمبرداروں کا ساتھ دیں تو ان شاء اللہ دنیا میں انکا وقار بلند ہوگا سُلْطٰنًا نَّصِیْراً کا مقام حاصل ہوگا اور آخرت میں اللہ کی رضا وخوشنودی کے مستحق بنیں گے۔
نزول قرآن اور نبی ﷺ کی بعثت کا مقصد ان شاء اللہ ضرور پورا ہوکر رہے گا۔ دین کی تکمیل ہوگی اللہ کی بڑائی و کبریائی کا قیام ہوکر رہے گا۔ وہ سخت آندھی اور اللہ کی نظر نہ آنے والی فوج نے جس طرح لشکرکفّار کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اب وہ نہیں آئینگے۔ اب اقدام ہماری طرف سے ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح ان شاء اللہ موجودہ حالات میں وہ آندھی ضرور آئے گی ، کب آئے گی ، کس طرح آئے گی، کہنا مشکل ہے۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ حق آئے گا باطل جائیگا اور باطل کو جانا ہی ہے۔
وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۸۱ (بنی اسرئیل :۸۱)
اے اللہ اس شخص کی مدد کر جس نے حضرت محمد ﷺ کے لائے ہوئے دین کی مدد کی ہے۔ اور ہم کو انہیں میں سے بنادے۔ اور اس شخص کو رسو ا کر جس نے حضرت محمد ﷺ کے لائے ہوئے دین کو رسوا اور پسپا کرنے کی کوشش کی اور ہمیں ان میں ہرگز شامل نہ کر۔
اَللّٰھُمَّ انْصُرْمَن نَّصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍﷺ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَلاَ تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ ۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2013