قرآن مجید میں یتیموں ناداروں اور غریبوں کی خدمت کرنے کو بڑے اجر ومرتبہ کاکام قرار دیا گیا ہے۔ طلوع اسلام کا منشورتوحید باری تعالیٰ کے ساتھ کمزور، نادار اور بے سہارا لوگوں کی خدمت گزاری وراحت رسانی ہے۔ یہ کمزور، نادار صرف مسلمانوں کے نہیں دیگر مذاہب کے بھی ہوسکتے ہیں۔ظاہر ہے مکہ میں اکثریت مشرکوں کی تھی۔
ایک واقعہ بیان کرنا مناسب ہوگا۔ جنوبی افریقہ کے شہر پری ٹوریا میں پروفیسر بروس لارنس نے قرآن پاک پر ایک لکچر دیا۔ خطبہ کے اختتام پر جنوبی افریقہ کے ہائی کورٹ کے جج جان مرفی (جواصلاً انگریز ہیں) نے پروفیسر لارنس کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا اور خواہش کی کہ وہ قرآن کی سورہ الضحیٰ پر تبادلہ خیال کریں گے۔ دوران ضیافت جج صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ وہ کچھ عرصہ قبل قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ از عبداللہ یوسف علی کے مطالعہ بالخصوص سورہ الضحیٰ کے پیغام سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ انہوں نے بتایا کہ اس سورہ کے مطالعہ سے ان پر یہ کیفیت طاری ہوئی کہ گویا وہ اس سورہ کے براہ راست مخاطب ہیں اور یہ کہ اس کا پیغام وقتی نہیں بلکہ اس کا مخاطب ہردور کا انسان ہے۔ ۵؎
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مکہ میں قحط پڑا، لوگ فاقہ میں مبتلا ہوگئے۔ رسول پاکﷺ نے مدینہ سے راحت رسانی کا مال کفار مکہ کو بھجوا یا تاکہ نادار مشرکوں کی خدمت کی جاسکے۔ امام محمد بن حسن الشیبانی نے لکھاہے:
بعث رسول اﷲ ﷺ خمس مائۃ دیناراً الی مکۃ حین قحطوا وامر بدفع ذالک الی ابی سفیان وصفوان ابن امیۃ لیفرقا علی فقراء اھل مکۃ۔ ۶؎
’’مکہ میں جب قحط پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۵۰۰ دینار بھیجا اور حکم دیا کہ اسے ابوسفیان اور صفوان بن امیہ کے حوالہ کردیا جائے تا کہ وہ مکہ کے ناداروں میں تقسیم کردیں۔ظلم کرنے والے سماج کی مصیبت میں مدد کرنے کی یہ نادر مثال ہے‘‘۔
اسلام کا حکم یہ بھی ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں سب کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ البتہ گناہ اور ظلم وزیادتی کے کاموں میں ساتھ نہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
تَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ: ۲)
’’نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اورگناہ اور سرکشی کے کام میں تعاون نہ کرو‘‘۔
علامہ وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں۔
’’ان الاسلام لا یتوانی لحظۃ واحدۃ عن سعیہ لا قامۃ علاقۃ طیبۃ مع غیر المسلمین لتحقیق التعاون البنّاء فی سبیل الخیر والعدل والبر والامن وحمایۃ الحرمات ونحو ذلک۔‘‘ ۷؎
’’اسلام غیر مسلموں سے خوش گوار تعلقات قائم کرنے میں ایک لمحہ کے لیے نہیں تامل کرتا تاکہ نیکی، انصاف، امن اور حرمات کی حفاظت میں تعاون کو یقینی بنایا جاسکے‘‘۔
اس کی مثال حلف الفضول کا واقعہ ہے جو مظلوموں کی حمایت سے تعلق رکھتا ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس موجود تھے اور فرماتے تھے۔
لقد شہدت فی دار عبد اللہ بن جدعان حلفا ما احب ان لی بہ حمر النعم ولو ادعی بہ فی الاسلام لاجبت ۸ ؎
’’میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر حلف الفضول میں شریک ہوا، وہ میرے لیے سرخ اونٹ سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اگر اسلام میں ایسے معاہدہ کے لیے مجھے دعوت دی جائے تو میں ضرور قبول کروں گا‘ ‘۔
رسول اللہﷺ نے مکہ میں غیر مسلموں کے ساتھ عام سماجی تعلقات استوار رکھا۔پروفیسر محمد یٰسین مظہری صدیقی لکھتے ہیں:
’’مکی اسوۂ نبوی سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اورآپ کے صحابہ کرامؓ نے غیر مسلم سماج سے سوائے دینی رشتوں کے تمام روابط و تعلقات بحال رکھے اور ان کی ہر طرح سے رعایت و محافظت کی۔ ان کے ساتھ تجارت کے علاوہ دوسرے اقتصادی تعلقات رکھے۔ دوستی اور رشتہ داری کے تقاضے نبھائے۔ زیارت و میل جول کو برقرار رکھا۔ ان کے گھروں، مجلسوں اور بیٹھکوں میں آتے جاتے رہے۔ ان کے دکھ درد میں شریک رہے۔ مریضوں، بیماروں کی عیادت کرتے رہے۔ وفات پانے والوں کی تجہیزو تکفین اور تدفین میں حصہ لیا۔ ان کی شادی بیاہ میں شریک ہوئے اور رشتہ داری کے تقاضے پورے کئے‘‘۔ ۹؎
اسلام کی خصوصی ہدایت یہ ہے کہ کسی کواسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ مذاہب کی تاریخ میں عموما یہی ہوتا رہا ہے کہ جس مذہب کے حاملین سیاسی غلبہ اور فتح پاتے ہیں وہ مغلوب مذاہب کے حاملین کو اپنا مذہب چھوڑنے کے لیے مجبور کردیتے ہیں۔ جب اندلس سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو عیسائی فرماروافرڈینڈنے مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ عیسائیت قبول کریں یا ہجرت کر جائیں ورنہ تہہ تیغ کیے جائیں۔ اس کے برخلاف اسلام کی ہدایت ہےکہ دین میں جبرنہیںہے۔
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیَ لاَ انفِصَامَ لَہَا وَاللّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (البقرہ: ۲۵۶)
’’دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ہدایت گمراہی سے الگ کردی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لاتا ہے تو اس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے۔
وَلَوْ شَاءرَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْنَ(یونس: ۹۹)
ڈاکٹر حمید اللہ نے قرآن کریم میں دیگر فرقوں کو دی گئی مذہبی آزادی کے سلسلہ میں لکھا ہے:
’’قرآن میں یہ عجیب وغریب اصول ملتا ہے کہ ہر مذہبی کمیونٹی کو کامل داخلی خود مختاری دی جائے۔ حتی کہ نہ صرف عقائد کی آزادی ہو اور اپنی عبادت وہ اپنے طرز پر کرسکیں بلکہ اپنے ہی قانون، اپنے ہی ججوں کے ذریعہ سے اپنے مقدمات کا فیصلہ بھی کرائیں۔‘‘ ۱۰؎
دیگر مذاہب کے بعض حاملین سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے، جان ومال کا نقصان ہوسکتاہے۔ بعض کی شرانگیزی اور فتنہ پروری کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہر دور میں ہوا ہے اورغالباًآئندہ بھی ۔ عام انسانی رد عمل تو یہ ہے کہ ان سے ویساہی سلوک کیا جائے جیسا وہ مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ مگر ایسا رویہ اختیار کرنے میں انتقامی جذبات کو تسکین تو مل سکتی ہے، دین اسلام کی عظمت ومتانت کی عملی تبلیغ نہیں ہوسکتی۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کا رد عمل جذباتی نہ ہو بلکہ حکمت پر مبنی ہو اور اس کا طریقہ صبر وتقویٰ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ (آل عمران:۱۸۶)
’’تم ضرورآزمائے جائوگے اپنے مال اور اپنی جانوں کے بارے میں اور تم ضرور سنو گے اپنے قبل کے اہل کتاب سے اور مشرکوں سے بہت زیادہ اذیت کی باتیں اور اگر تم صبر کرواور پرہیز گاری اختیار کروتو یہ بڑی حوصلہ مندی کی بات ہے‘‘۔
کسی سے اذیتیں پہنچتی ہیں تو انتقام لیا جاسکتا ہے یہ قانونی حق ہے۔ مگر معاف کردیا جائے اور احسان کا معاملہ کیا جائے تو یہ اخلاقی بلندی ہے۔ قرآن یہ تلقین کرتا ہے کہ مومن کا اخلاقی معیار بلند ہونا چاہئے۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا اس کا شعار ہونا چاہئے۔قرآن پا ک میں فرمایا گیا ہے۔
وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْم(حم السجدہ: ۳۴)
’’بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوتی۔ برائی کو احسن طریقہ سے دفع کرو۔ اس طرح تم دیکھو گے کہ جس سے تمہاری دشمنی تھی وہ تمہارا گہرا دوست بن گیا ہے‘‘۔
امیرالمومنین حضرت علیؓ نے جب مالک اشترنخعی کو مصر کا گورنر بنایا تو ان کو حکومت چلانے کے لئے ایک طویل ہدایت نامہ لکھا۔ اس میں خاص طور پر یہ لکھا۔ ’’عوام کے لئے اپنے دل میں رحم مدافعت اورلطف ومحبت کو جگہ دینا۔ ان کے حق میں پھاڑ کھانے والا درندہ نہ بن جانا کہ ان کو کھاجانے کو غنیمت سمجھو۔ کیونکہ عوام میں دوقسم کے انسان ہیں ایک تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوق ہیں۔ ان کی لغزشیں بھی ہوں گی خطائیں بھی ہوں گی اور ان کے ہاتھوں سے دانستہ یانادانی میں غلطیاں بھی ہوں گی تم ان کے ساتھ اسی طرح عفوودرگزر کرنا جس طرح اللہ سے اپنے لئے عفو ودرگزر کو پسند کرتے ہو ‘‘ ۔۱۱؎
اعتراضات
اسلام کی مذہبی رواداری اور دیگر مذاہب کے ساتھ اس کے عادلانہ رویہ کےباوجود تین بڑے اعتراضات کئے جاتے ہیں۔
اول یہ کہ اسلام اپنے علاوہ کسی دوسرے مذہب کا وجود گوارا نہیں کرتا اور تمام مذاہب کو صفحہ ہستی مٹادینے کا حکم دیتا ہے۔
وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ ﷲ فان انتہوا فان اللہ بما یعملون بصیر۔ (انفال ۹۳)
’’ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کا ہوجائے پس اگر وہ رک جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو دیکھنے والا ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالٰہ الا اﷲ فاذا قالوھا عصموا منی دمائھم واموالھم الا بحقہا و حسابہم علی اﷲ عز وجل۔ ۱۲؎
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں۔ جب وہ یہ کلمہ کہیں تو ان کی جان اور مال ہماری طرف سے محفوظ ہے اور ان کا حساب اللہ پر ہے‘‘۔
یہ ہدایت سماجی زندگی کے عام حالات کی نہیں ہے بلکہ ان مخصوص حالات سے تعلق رکھتی ہے جب اسلام کے خلاف مکہ کے کافروں نے جتھا بندی کی تھی اور فتنہ برپا کیا تھا،اسے توڑنے کے لئے اور اشاعت اسلام کا راستہ کھولنے کے لئے ضروری تھا کہ طاقت کا استعمال کیا جائے اور حالات کو معمول پر لانے کی سعی کی جائے۔ ان حالات میں مذکورہ احکام نازل ہوئے۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور اعلان ہے جس کو اکثرغلط معنی میں پیش کیا گیا ہے۔ آپ نے ارشادفرمایا: امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اﷲ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑائی کروں جب تک وہ توحید کا اقرار نہ کریں اور جب وہ اقرار کرلیں تو انھوں نے اپنے جان و مال کو مجھ سے بچا لیا اور ان کی نیت کی پرشش خدا کا کام ہے۔ اس حدیث کا مقصد صرف اسی قدر ہے کہ مسلمان سے لڑنا تو جائز نہیں لیکن کسی غیر مسلم قوم سے بھی لڑنا اسی وقت تک جائز ہے جب تک وہ توحید کا اقرار نہ کرے اور جب اس نے یہ کرلیا تو پھر اس سے بھی لڑنا روا نہیں۔ خواہ وہ حملہ کے ڈر سے لا الہ الا اللہ پڑھے یا سچے دل سے اس نے یہ اقرار کیا ہو۔ اس کی تحقیق کہ کس نیت سے اس نے کلمہ پڑھا انسان کا فرض نہیں، خدا کا ہے، یہ بالکل ایک مصالحانہ اعلان ہے لیکن لوگ اس کو اس معنی میں پیش کرتے ہیں کہ گویا یہ اسلام کا حکم تھا کہ مسلمان دیوانہ وار تلوار لئے پھرتے اور جس کو پاتے اس کو ڈرا دھمکا کر کہتے کہ کلمہ پڑھو ورنہ سر قلم کردیں گے۔ غور کرو اگر یہ حکم ہوتا توکیا قیدی اقرار توحید کئے بغیر اس آسانی سے چھوڑے جاتے اور ہاری ہوئی قوموں سے اسلام نہیں صرف چند درہم کا جزیہ لے کر ان کو آزاد کر دیا جاتا اور کیا مسلمانوں کو یہ اجازت ملتی کہ: وان جنحوا للسلم فاجنح لہا۔ (انفال ۱۶) ’’اگر کفار کا محارب فریق صلح کے لئے جھکے توتو بھی جھک جا۔‘‘۱۳؎
دوسرا اعتراض
دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام غیر مسلموں کو جینے کا حق نہیں دیتا اور ان کو مار ڈالنے کا حکم دیتا ہے۔ ثبوت میں قرآن کریم کی حسب ذیل آیت کو پیش کیا جاتا ہے۔
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَۃَ وَآتَوُاْ الزَّکَاۃَ فَخَلُّواْ سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ:۵)
’’پھر جب حرام کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پائو مارو، ان کو پکڑو اور ان کو گھیرو اور ان کی تاک میں ہر جگہ بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ رحم کرنے والا مہربان ہے‘‘۔
یہ آیت ان کفار مکہ سے تعلق رکھتی ہے جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھایا تھا اور اسلام کی وجہ سے ان کا جینا دشوار کردیا تھا۔ انھوں نے جنگ بندی کا معاہدہ کر کے اسے توڑ دیا تھا اور مسلمانوں کو گھروں سے نکالنے ان کو قتل کرنے اور دین کا راستہ روکنے جیسےجرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ ان مجرمین کو چار ماہ کی مہلت دی گئی تھی کہ وہ اس مدت میں شہر خالی کردیں ورنہ اپنے انسانیت سوز جرائم کی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔ اس اعلان کے باوجود مسلمانوں کو یہ ہدایت تھی کہ اگر وہ دین کوسمجھنا چاہیں تواس کاموقع دو۔ چنانچہ مذکورہ آیت کے فوراً بعد یہ حکم صادر کیا گیا۔
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُونَ (التوبہ -۶)
’’اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دیدو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے، پھر اسے امن کی جگہ پہنچا دو، یہ حکم اس لئے ہے کہ وہ لوگ نادان ہیں‘‘۔
مذکورہ دونوں آیتوں کو پڑھئے اور غور کیجئے کہ قرآن کریم کا حکم معقول اور انصاف پر مبنی ہے۔ جنگی جرائم کا ارتکاب کر نے والوں اور ظلم کرنے والوں کے لئے اس سے بڑی راحت اور رحمت کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ وہ ظلم و زیادتی کا راستہ چھوڑ دیں تو ان کے خلاف کارروائی نہ کی جائے بلکہ ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا جائے۔ مجرموں کے لئے اس سے زیادہ انصاف اور احسان کی کوئی مثال مذاہب کی تاریخ میں پیش نہیں کی جاسکتی۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ یہ اگر صلح کی درخواست کریں تو ان کی بات رد نہ کی جائے بلکہ صلح کرلی جائے۔ جنگ مجبوری کا راستہ ہے اور صلح پسندیدہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
فَإِنِ اعْتَزَلُوکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوکُمْ وَأَلْقَوْاْ إِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّہُ لَکُمْ عَلَیْہِمْ سَبِیْلاً (النساء:۹۰)
’’وہ اگر تم سے کنارہ کش رہیں تم سے جنگ نہ کریں اور تمہاری طرف صلح کی درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر تمہیں دست درازی کا حق نہیں دیا ہے‘‘۔
اسلام پر تشدد اور تنگ نظری کا الزام عائد کرنے کے لئے اکثر سورہ توبہ کی آیت نمبر ۵ کو پیش کیا جاتا ہے اور ا س کے بعد کی آیت نمبر ۶ کو چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ ناواقف لوگوں کو گمراہ کیا جا سکے ۔ جنگی احکام کو جب پس منظر سے کاٹ کر سماجی زندگی کا عام اصول بنا کر پیش کیا جائے گا تو اس سے غلط فہمی پیداہوگی۔ یہی کام بھارت کے سابق مرکزی وزیر اور شہرت یافتہ صحافی ارون شوری نے اپنی کتاب دی ورلڈ آف فتاویٰ میں کیا ہے۔ انھوں نے سورہ توبہ کی آیت نمبر ۵ کو اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ اسلام غیر مسلموں کا وجود گوارا نہیں کرتا مگر جان بوجھ کرآیت نمبر ۶ کو چھپا لیا اور آیت نمبر ۷ سے کلام کو جوڑ دیا۔ ۱۴؎ اس علمی بدیانتی اور تعصب کی مثالیں تنگ ذہن مغربی مصنّفین کے یہاں بھی ملتی ہیں۔
تیسرا اعتراض
تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قرآن دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے دوستی کرنے کی ممانعت کرتا ہے اور ان سے دشمنی کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ثبوت میں قرآن کریم کی حسب ذیل آیت کو پیش کیا جاتا ہے۔
لاَّ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّہِ فِیْ شَیْء ٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْہُمْ تُقَاۃً (آل عمران:۲۸)
’’مومن کافروں کو دوست نہ بنائیں مومنوں کو چھوڑ کر، اور جوایسا کرے گا تو وہ اللہ سے اس کا کوئی واسطہ نہیں الا یہ کہ تم ان سے بچنے کے لئے ایسا کرو‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہٗ مِنْہُمْ (المائدہ:۵۱)
’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناو۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جوکوئی ان کو دوست بنائے گا وہ انہی میں شمار کیا جائے گا‘‘۔
ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین نے غیر مسلموں سے دلی محبت رکھنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ مولانا مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں۔
’’دوشخصوں یا دوجماعتوں میں تعلقات کے مختلف درجات ہوتے ہیں ایک درجہ تعلق کا قلبی موالات یا دلی مودت ومحبت ہے، یہ صرف مومنین کے ساتھ مخصوص ہے، غیر مومنین کے ساتھ مومن کا یہ تعلق کسی حال میں قطعا جائز نہیں‘‘۔
دوسرادرجہ مواسات کا ہے جس کے معنی ہیں ہمدردی وخیر خواہی اور نفع رسانی کے۔ یہ بجز کفار اہل حرب کے جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں باقی سب غیرمسلموںکے ساتھ جائز ہے۔
تیسرا درجہ مدارات کا ہے جس کے معنی ہیں ظاہری خوش خلقی اور دوستانہ برتاو کے۔ یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے جب کہ اس سے مقصود ان کو دینی نفع پہنچانا ہو، یاوہ اپنے مہمان ہوں، یا ان کے شر اور ضرر رسانی سے اپنے آپ کو بچانا مقصود ہو۔
چوتھا درجہ معاملات کا ہے کہ ان سے تجارت یا اجرت، ملازمت اور صنعت وحرفت کے معاملات کئے جائیں یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔
اس تفصیل سے آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ قلبی اور دلی دوستی ومحبت تو کسی کافر کے ساتھ کسی حال میں جائز نہیں۔ اور احسان وہمدردی ونفع رسانی بجز اہل حرب کے اور سب کے ساتھ جائز ہے۔ اسی طرح ظاہری خوشی خلقی اور دوستانہ برتائو بھی سب کے ساتھ جائز ہے جب کہ اس کا مقصد مہمان کی خاطرداری یا غیر مسلموں کو اسلامی معلومات پہنچانا یا اپنے آپ کو ان کے کسی نقصان وضرر سے بچانا ہو‘‘۱۵؎
اسلام غیر مسلموں کے محارب(جنگ جو) اور غیرمحارب طبقوں میں فرق کرتا ہے۔ وہ ان لوگوں سے قلبی تعلق سے منع کرتا ہے جو مسلمانوں کے دشمن ہیں اور ان کے درپے آزار ہیں۔ چنانچہ سورہ الممتحنہ میں اس بات کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔
إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (الممتحنہ:۹)
’’اللہ تمہیں ان لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی اور تم کو تمہارے گھر وں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی۔ جو ان سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں‘‘۔
غیر مسلموں سے دلی دوستی نہ رکھنے کا حکم ان کافروں کے لئے دیا گیاہے جواسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہیں۔ ان کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور ان سے جنگ کرتے ہیں۔ ایسے دشمنوں سے وہی معاملہ کیا جانا چاہئے جس کے وہ مستحق ہیں۔ اور یہ سلوک انصاف پر مبنی ہے۔ رہے وہ غیر مسلم جنہوں نے مسلمانوں سے عداوت نہیں کی، ان کونقصان نہیں پہنچایا، ان سے جنگ نہیں کی توایسےلوگوںسےحُسن سلوک سے اسلام کیونکرمنع کرتا ہے۔ قرآن کا ارشادہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء تُلْقُونَ إِلَیْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاء کُم مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ رَبِّکُمْ إِن کُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَاداً فِیْ سَبِیْلیِْ وَابْتِغَاء مَرْضَاتِیْ (الممتحنہ:۱)
’’اے مومنو! میرے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بنائو۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو جب کہ وہ اس حق کا انکار کرتے ہیں جوتمہارے پاس آیا ہے۔ وہ رسول کو اور تم کو گھروں سے نکالتے ہیں کیونکہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے ہو۔ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا حاصل کرنے نکلے ہو۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے تفسیرمیں لکھا ہے:
’’پیروان اسلام سے خطاب کہ راہ عمل میں سرگرم ہوجائیں اور کم زوری نہ دکھائیں۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسے شخصی علاقوں کو جماعتی علاقوں پر ترجیح نہ دیں اور دشمنوں کو اپنا مددگار اور رفیق نہ بنائیں۔ میدان جنگ گرم ہوچکا ہے دوست اور دشمن کی دوصفیں الگ الگ کھڑی ہوگئی ہیں۔ پس ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ اپنے لئے کوئی ایک صف اختیار کرلے او ر جسے اختیار کرے اسی کا ہور ہے یہ نہ ہو کہ ایک میں ہوکر دوسرے سے بھی ساز باز رکھے۔‘‘۱۶؎
مولانا امین احسن اصلاحی نے ترک موالات کے حکم کو اس مخصوص حالات کے تناظر میںدیکھا ہے۔
’’فرمایا کہ مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافروں کواپنا ولی بنائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ’’من دون المومنین‘‘کی قید ہے یعنی کافروں کے ساتھ صرف اس قسم کی موالات ناجائز ہے جو مسلمانوں کے بالمقابل یا ان کے مفاد ومصالح کے خلاف ہو۔ اسلام اور مسلمانوں کا حق اور مفاد دوسرے تمام حقوق، مفادات پر مقدم ہے۔ اس لئے مسلمانوں کی کسی جماعت کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد ومصالح کے برخلاف کفار کی کسی جماعت کے ساتھ موالات کا تعلق قائم کرے۔ مسلمان غیر مسلم قوموں اور حکومتوں کے ساتھ دوستانہ سیاسی واقتصادی معاہدے بھی کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ ’’من دون المومنین‘‘ نہ ہوں۔‘‘۱۷؎
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور قرآن دستور الٰہی ہے۔ وہ تمام انسانوں کی بھلائی چاہتا ہے۔ تمام انسانوں کو خیر کی طرف بلاتا ہے۔ تمام انسانوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ تمام انسانوں کے عقیدہ وعمل کی آزادی کی حمایت کرتا ہے۔تمام مذہبی پیشواؤوں کی عرفی حیثیت کا لحاظ کرتا ہے اوراصولی اعتبار سے تمام انسانوں کو عزت واحترام کا مستحق قرار دیتا ہے۔ وہ توحید اور وحدت بنی آدم کا پیغام معقولیت اور حکمت کے ساتھ پیش کرتا ہے اور حساب مالک حقیقی پر چھوڑ دیتا ہے۔
حواشی ومراجع
۱- ابن ہشام، سیرۃ النبی، جلد۱،ص۳۵۹، دارالفکر،۱۹۸۱ء
۲- ترجمہ شیخ الہند محمود حسن ، حاشیہ شبیر احمد عثمانی سورۃ الانعام آیت ۱۰۸
۳- مشکوۃ المصابیح، باب الشفقۃ، الفصل الثالث
۴- ترجمہ شیخ الہند، سورہ الممتحنہ آیت ۸
۵- ماہنامہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ، جولائی ۲۰۱۴ء، ص۱۲
۶- محمد بن الحسن الشیبانی، شرح کتا ب السیر الکبیر جزو-۱،ص ۴۹،مطبع مصر۱۹۷۰ء
۷- وھبۃ الزحیلی۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ ۸؍۶۴۲۱،دارالفکر المعاصر، بیروت، ۲۰۰۲ء
۸- سیرت ابن ہشام ۱؍۱۴۵
۹- محمد یٰسین مظہر صدیقی، مکی اسوۂ نبوی، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، ص ۳۰۵، نئی دہلی، ۲۰۰۵ء
۱۰- محمد حمیداللہ، خطبات بھاول پورص۴۱۸، نئی دہلی ۱۹۹۷ء
۱۱- نہج البلاغہ، ص ۷۴۵،نظامی پریس لکھنو۱۹۹۸ء
۱۲- الصحیح ا لمسلم، کتاب الایمان
۱۳- سید سلیمان ندوی، سیرۃ النبیﷺ، ۴/۲۶۱، دارالمصنّفین، اعظم گڑھ۲۰۱۱ء
۱۴- ارون شوری، دی ورلڈ آف فتاوی، ص ۵۷۲، نئی دہلی،۱۹۹۵ء
۱۵- مفتی محمد شفیع ، معارف القرآن ،۲؍۵۰،۵۱، مکتبہ مصطفائیہ، دیوبند
۱۶- ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن،۲؍۲۹۲، ساہتیہ اکیڈمی ، نئی دہلی۔۱۹۸۰ء
۱۷- امین احسن اصلاحی ، تدبر قرآن ۲؍۸۶-۸۷، تاج کمپنی دہلی ،۱۹۹۸ء
مشمولہ: شمارہ جنوری 2018