ہر مسلمان کواسلام کی نعمت سے اپنی سرفرازی پر اللہ رب العالمین کا ہروقت شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔اس عظیم نعمت کے حصول کا تقاضا ہے کہ جینا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔اُسی کی رضا و خوش نودی کا حصول مقصد حیات بن جائے۔ اس مقصد کی طلب میں اگر تحریک اسلامی سے تعلق و وابستگی ہو جائے تو اس کو رب کریم کی مزید عنایت سمجھ کر اس کا بھی شکر ادا کرنے کی اس طرح کوشش ہو کہ اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول اور جاھدوا فی اللّٰہ حق جہادہ شعار زندگی ہو جائے۔ دین اور تحریک سے وابستگی کے تقاضے کی ادائیگی کی فکر زندگی پر اس طرح چھا جائے کہ جان و مال اور تمام تر صلاحیتیں سب اللہ ہی کے لیے خاص ہو جائیںاور انہیں اس کی راہ میںپیش کر کے اطمینان و سکون تو محسوس ہو، لیکن دل کی کیفیت یہ ہو کہ
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
تحریک سے وابستگی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ جس تنظیم سے قلب کی مکمل یکسوئی و آمادگی کے ساتھ خود ہی وابستہ ہوا جائے، اس کے عشق کا اسیر اور اس کے نظم کا پابند ہونے پر دل کو فرحت و سرور محسوس ہو۔
کوئی بھی تحریکی منصب سپرد کیا جائے تو اس کو اعزاز سمجھنے کے بجائے ذمہ داری کا بارگراں سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے ہر وقت تائید و نصرت کی دعا کرنا چاہیے۔ منصب کو اعزاز یا اپنی صلاحیتوں کی بنا پر حق سمجھنے کی غلطی تحریک کے کسی بھی شخص کا ساتھیوں کی نگاہ اور خدائے سمیع و بصیر کی نظر میں مقام گرا سکتی ہے اور اس سے دنیا و آخرت دونوں جگہ خسارہ ہو سکتا ہے۔
تحریک کی جو ذمہ داری یا جو بھی کام کسی بھی فرد تحریک کے سپرد کیا جائے اس کو دل کی آمادگی کے ساتھ قبول کر کے اس میں حسن کا رکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک کا نام روشن کرنا چاہیے۔
اگر کسی وقت تحریک کا دیا ہوا کوئی فریضہ یا کام خدانخواستہ نفس پربار گزرے تو اس کو شیطان کی وسوسہ اندازی سمجھ کر، اللہ کی رضا کے پیش نظر اُس فریضہ کو پوری ذمہ داری سے انجام دینا چاہیے۔ اِسی جذبے سے تمام وابستگان تحریک کو سرشار رہنا چاہیے۔
تحریک کے ذمہ دار ان کو کچھ ضروری دستوری حقوق و اختیارات تو حاصل ہوتے ہیں جو تحریک کی قیادت کے لیے ضروری ہیں، لیکن کسی ذمہ دار کو زیب نہیں دے گا کہ وہ تحریک کے کسی منصب پر رہنے کے سبب اظہار برتری اور خود نمائی و خودستائی کی کم زوری میں گرفتار ہو اور اس کے قول و عمل اور کردار سے اس کا اظہار بھی ہو۔سیاسی پارٹیوں میں توعام طور پر یہ مرض پایا جاتا ہے، لیکن دینی تحریک کے ذمہ داروں سے تو تقویٰ پرہیز گاری، خشیت الٰہی، تعلق باللہ، عشق رسولؐ، دین و تحریک سے گہری وابستگی، صبر واستقامت، عزم واستقلال اور مرحمت و مواسات جیسے اوصاف مطلوب ہوتے ہیں نہ کہ اپنوں یا دوسروں کے درمیان کسی بھی طرح نمایاں ہونے کی کوشش۔ خوش بو تواظہار و نمائش سے بے نیاز ہوتی ہے، وہ تو اپنے آپ ہی پھیلتی، بکھرتی اور فضا کو معطرکرتی ہے۔
تحریک میں شامل ہو کر نظم شکنی کے خیال کو بھی ذہن میں نہیں آنے دینا چاہیے۔ بہ ظاہر کسی اوسط صلاحیت کے شخص کو بھی کسی سطح کا ذمہ دار بنادیا جائے تو بھی اس سے احترام اور محبت کا سلوک کرنا چاہیے۔ اپنی صلاحیتوں سے اس کا تعاون کر کے تحریک کی مدد کرنا چاہیے۔ ہر وقت اور ہر کام میں مقصود رضائے الٰہی ہو۔ نفس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے دوڑ دھوپ کرے اِس کاتحریک کے کسی کارکن کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
مناصب کے لیے انتخاب اور تقرر کاحق و اختیار اور فریضہ جن ذمہ داران اور اداروں کا ہو ان کو دستوری حدود میں آزادانہ کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ان کے دائرہ کار میں دوسروں کے ذریعہ کسی بھی طرح کی منفی سرگرمی دکھانا تحریک کے کام میں مداخلتِ بیجا ہی کہی جائے گی۔ اس طرز عمل کو تحریک کی بہی خواہی سمجھنا حقیقتاً تحریکی شعور کی کمی کا اظہار ہی کہلائے گا۔ اس طرح کی کوششوں میں روا اور ناروا کے فرق کو سمجھنا چاہیے۔ جس کام کے لیے تحریک نے کسی کو ذمہ داری سونپی ہی نہ ہو اور نہ تحریک سے تعلق کا تقاضا ہو اس کے لیے سرگرداں ہونا تحریک کی خیر خواہی کس طرح کہلا سکتی ہے؟ کسی تحریکی منصب پر خود اپنی یا اپنی پسندیدہ شخصیت کو فائز کرنے کے لیے وابستگانِ تحریک کی مختلف طریقوںسے ذہن سازی یا کینویسنگ بھی تحریکی مزاج اور اس کے فیصلوں و روایات سے میل نہیں کھاتی۔ اگر کوئی ایسا کرے تو یہ کرنا تحریک کی ہی بہی خواہی کہلائے گی نہ اس شخص کی جس کے لیے ماحول سازی یا فضا بندی کی جائے۔ تحریک میں اگر انتخاب یا تقرر صلاحیت اور خدمت کے بجائے تعلقات و جذبات کی بنا پر ہونے لگیں تو پھر اللہ کی مدد شامل حال نہ ہوگی، اور جو کام تحریک کے پیش نظر ہے وہ اللہ کی مدد کے بغیر سر انجام نہیں پا سکتا۔
اگر کسی تحریکی شخصیت کے حق میں کسی منصب کے لیے کسی بھی انداز میں خفیہ یا علانیہ کوئی مہم چلائی جائے اور یہ اس شخص کے علم میں بھی آجائے تو اس کو مہم چلانے والوں کو نظم کی پابندی کی تلقین کرنا چاہیے۔ اگر کوئی فرد نظم شکنی کر کے آج کسی کی حمایت میں مہم چلا سکتا ہے تو کل اُس کے خلاف بھی یہی کارروائی کر سکتا ہے، دونوں صورتوں میں نقصان تحریک کا ہوگا۔
مصالحِ تحریک کی بنا پر تحریک کی کوئی خاص ذمہ داری کسی کے سپرد نہ کی جائے تو نظم کو پس پشت ڈال کر وہ ذمہ داری خود ہی اختیار کر لینے یا اس کی کوشش کی ذہنیت غیر تحریکی، نا مطلوب و ناپسندیدہ ہے۔ اس سے فرد اور تحریک دونوں کی سُبکی ہو سکتی ہے۔ افراد تحریک کو اس سے لازماً گریز کرنا چاہیے۔
دیگر پارٹیوں، تنظیموں، جماعتوں اور شخصیات سے خوش گوار روابط کی کوشش تو تحریک کے کاموں کا حصہ ہوتی ہے لیکن اس کام میں تحریک کی پالیسی، فیصلوں اور روایات کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور اپنی کسی خاص ذاتی مزاجی کیفیت اور احساس کی بنا پر تحریک کے فیصلوں اور وایات کی خلاف ورزی نہیں کرناچاہیے۔
اگر کسی رفیق تحریک کو بہ ظاہر کوئی اونچا یا بڑا منصب حاصل ہو تو اس کو ؎
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
ذہن میں رکھ کردوسرے رفقاو وابستگانِ تحریک کے ساتھ حد درجہ رفاقت و محبت اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اپنے ساتھیوں کے درمیان جناب حفیظ ؔ میرٹھی کے اس خوب صورت شعر میں پنہاں پیغام کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے ؎
فاصلوں میں نہ مساوات کہیں گُم ہو جائے
اس لیے بیٹھتے تھے سب کے برابر آقاؐ
اور اپنے احباب کے ساتھ انتہائی اپنائیت، انس و یگانگت اور خیر خواہی کا تعلق رکھنا چاہیے۔ قول و عمل سے ان کی دل آزاری، دل شکنی اور تمسخر سے بچنا چاہیے۔ البتہ جب اور جہاں ضروری ہو ان کی بہی خواہی میںان کی کم زوریوں اور قابل توجہ پہلوئوں پر انھیں درد مندی و دل سوزی کے ساتھ توجہ دلا کر ان کی اصلاح وتربیت کی کوشش کرنا چاہیے۔
یہی تعلق رفقا و کارکنانِ تحریک کا اپنے ذمہ داران کے ساتھ بھی رہنا چاہیے ۔ اُن سے انتہائی خلوص کا رشتہ رکھا جائے، ٹوٹ کر محبت کی جائے اور ان کے احترام میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔وابستگا ن تحریک کو اس سے تعلق کے تقاضے اس طرح پورے کرنے کی ہمہ وقت فکر رکھنا چاہیے کہ اپنا دل بھی مطمئن رہے کہ تحریک سے نسبت کا کچھ حق ادا ہو رہا ہے، اور دوسروں کو بھی محسوس ہو کہ تحریک سے تعلق کے تقاضے اس طرح پورے کیے جاتے ہیں۔
تحریک میں اپنی مرضی، منشا اور آمادگی کے ساتھ شامل ہونا اور تجدیدِ شہادت کا فریضہ اداکرنا تحریک کے ساتھ رہنے کا عہد تو ہے ہی، اس سے زیادہ یہ اللہ تعالیٰ سے عہد باندھنا اور یہ طے کرنا ہے کہ تحریک سے یہ وابستگی عمر بھر کے لیے ہے۔ کوئی خوف، لالچ، فتنہ، وسوسہ یا آزمائش اس رشتہ و تعلق کو کم زور یا ختم نہیں کر سکتی ہے ؎
سنگِ رہ دیکھنا، زخمِ پا دیکھنا
چل پڑے ہیں تو کیا مرحلہ دیکھنا
کے احساس کو ہمیشہ زندہ رکھنا چاہیے ۔
اجتماعیت عین تقاضاےدین ہے اور اس کو ترک کرنا یا اس سے کٹنا فتنۂ شیطانی ہے اور تحریک سے رشتہ توڑنے کے اس درد ناک انجام کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے ؎
میں بھی پھروں ہوں مارا مارا چھوڑ کے تیرے دامن کو
پیڑ سے جو پتّا ٹوٹے ہے آوارہ ہو جائے ہے
چنانچہ تحریک اسلامی سے تعلق کی سعادت حاصل ہو تو اس کو زندگی کی بڑی یافت سمجھ کر اس کی بے پناہ قدر کرنی چاہیے اور اس سے وابستگی کے جو تقاضے ہیں ان کی تکمیل میں خود کو لگا دینا چاہیے تاکہ دین و تحریک سے تعلق کا حق ادا ہو سکے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2019