احیاء اسلام کے تعلق سے اسلام کی دوخصوصیات کو سمجھ لینا مناسب ہے۔ ایک یہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے اندر ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ہر عہد اور ہر مقام میں انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتاہے اور دیتا رہاہے۔ تغیرات زمانہ سے متاثر ہوکر جمود وتعطل کا شکار نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ اسلام کسی خاص عہد یا مقام کا مذہب نہیں ہے بلکہ ایک زندہ و تابندہ مذہب ہے جو ایک ایسی علیم وحکیم ذات کی عطا کردہ ہے جو انسانوں کے تمام تغیرات سے پہلے سے واقف ہے چنانچہ اسلامی تعلیمات قیامت تک کے لئے تمام ادوار اور خطہ ارضی میں آباد تمام اقوام کے مصالح کے عین مطابق ہے۔ اس میں کالے و گورے شہری ودیہاتی اور امیر وغریب سب کے لئے تعلیمات ہیں جو ان کے حسب حال ہیں۔اسلام کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو ہر زمانے اور مقام پر زندہ و تابندہ بنانے کے لئے ایسے اشخاص پیدا کیے جنہوںنے اسلام کی مٹتی ہوئی تعلیمات کو اپنے عمل اور علم سے دوبارہ زندہ کردیا۔ امت محمدیہ کی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے کہ ہر مشکل گھڑی میں جب اسلام کی تعلیمات پر باطل کا گرد چڑھ جانے کا موقع آیا تو اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی شخصیت کو پیدا کردیا جس نے دین کی تجدید کردی اور اس کی تعلیمات روزروشن کی طرح نمایاں ہوگئیں۔ اس پہلو سے اسلام کا دوسرے مذاہب سے موازنہ کیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ یہ صرف اسلام کی خصوصیت ہے۔ دنیا کے دوسرے مشہور مذاہب اس سے خالی ہیں۔ دنیا کے افق پر بعض مذاہب جیسےعیسائیت، یہودیت، ہندومت اور بدھ مت بہت آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوئے۔ لیکن جب ان مذاہب میں تحریف و ترمیم کا گرد چڑھا تو اس کی صفائی آج تک نہیں ہوسکی اور یہ مذاہب انسانیت کی حقیقی رہنمائی سے قاصر ہوگئے۔ مثال کے طورپر عیسائیت اصلاً توحیدی مذہب ہے مگر اس میں شرکیہ عقائد سینٹ پال کے عہد سے درآئے اور ان کا ازالہ اب تک نہ ہوسکا چنانچہ صدیوں میں مسیحی تاریخ میں ایسا کوئی شخص پیدا نہ ہوسکا جو مسیحیت کے غیرحقیقی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرسکے اور اس اصل کی طرف مراجعت کرے جس پر حضرت مسیح اور ان کے مخلص ساتھی (حوارین) قائم تھے ۔ پندرہویں صدی عیسوی میں مارٹن لوتھر نے بعض جزوی اصلاحات کیں مگر ان کی اصلاح جوہری اور عمومی ثابت نہیں ہوسکی اور مسیحیت اسی منحرف عقائد پر قائم رہی حتیٰ کہ یورپ میں مادیت کا غلبہ ہوگیا اور مسیحیت کا اقتدار بالکل ختم ہوگیا۔ اب خود عیسائی عیسائیت کو ایک ازکار رفتہ مذہب قرار دیتے ہیں اگرچہ بظاہر اس سے وابستگی کا دم بھی بھرتے ہیں۔
ہندو مذہب بھی اپنی اصل پر قائم نہ رہ سکا۔ اس میں شرک اور ورن آشرم کے تصورات در آئے اور پھر کبھی اس میں اصلاح نہیں ہوسکی۔ اپنشد کے مصنفین نے بہت کوشش کی کہ اس کے فساد کو دور کریں مگر ہندو قوم اپنے رسوم و رواج کو جو پورے سماج میں چھاگئے تھے ان اصلاحات کو قبول نہیں کیا۔ غرض کہ اس مذہب کی بھی تجدید نہیں ہوسکی۔
مہاتماگوتم بودھ نے ایک مذہب پیش کیا جس میں ترک دنیا، تہذیب نفس، خواہشات پر کنٹرول، رحم دلی و ہمدردی، خدمت خلق، طبقاتی کش مکش کی مخالفت اور رسوم و رواج کی تردید کی جو ہندو سماج میں آخرزمانہ میں بہت نمایاں ہوگئے تھے آغاز میں اس مذہب کی اشاعت بہت سرعت کے ساتھ ہوئی اور ایشیا اور جنوبی و مشرقی حصہ پر جو بحرالکاہل کے درمیان واقع ہے اس کا تسلط قائم ہوگیاتھا مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد یہ زبردست مذہبی تحریک بھی اپنے راستہ سے ہٹ گئی اور تحریف کا شکار ہوگئی اور مورتی پوجا اور شرک کامذہب بن گئی اور پھر آج تک اس کی اصلاح نہیں ہوسکی۔ بعض اشخاص جیسے شنکر آچاریہ، دیانند سرسوتی اور مہاتما گاندھی جی نے ان مذاہب کی اصلاح کی کوشش کی مگر ان دونوں مذاہب نے مادیت اور شرکیہ عقائد کے سامنے سپرڈال دیا ۔ ان مذاہب کے برعکس اسلام مذہب نے اپنےاوپر ہونے والے متعدد حملوں کو ناکام کیا ھے اور اپنے تمام حریفوں کو شکست دی ھے اور اپنی اصل شکل میں آج تک قائم ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں سب سے پہلے خوراج نے اسلام کی تعلیمات کو بدلنے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔ پھر باطنیت نے روح اسلام پر تیشۂ چلایا مگر وہ بھی ناکام ہوا۔ تحریفات ، تاویلات، بدعات، عجمی اثرات، مشرکانہ رسوم و رواج ، مغربی مادیت پرستی، عقلیت پرستی، جدیدیت پسندی، الحاد و لادینیت کااسلام پر بارہا حملہ ہوا اور بسااوقات ایسا لگنے لگاکہ اب اسلام اس کی تاب نہیں لاسکے گا مگر امت محمدیہ کے باکردار علماء، فضلاء نے باطل کے سامنے سپر ڈالنے سے انکار کردیا اور بالآخر باطل نے منہ کی کھائی۔ اسلام نے نہ صرف فکری یلغاروں کا مقابلہ کیا بلکہ عسکری اور صلیبی اور تاتاریوں کے حملوں کو بھی سہا۔ دوسرا مذہب ہوتا تو کب کی مٹ چکاہوتا اور اتنی سخت یورشوں کی تاب نہ لاپاتا۔ لیکن اسلام نے ان سب داخلی و خارجی حملوں کو برداشت کیا اور اپنی ہستی قائم رکھی اور دنیا کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہاہے اور قیامت تک انشاء اللہ العزیز دیتا رہے گا۔
اسلام کی اس فتحیابی کی وجہ کیاہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو قیامت تک باقی رکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے باطل کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر دور میں شخصیات پیدا کیں جنھوں نے اسلام کے آئینے سے باطل کے گرد کو صاف کیا اور اسلامی تاریخ کے کسی مرحلے میں ایسا نہیں ہواکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر پردہ پڑگیا ہو اور اس کی حقیقی دعوت رک گئی ہو، یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب کبھی اسلام کے لئے کوئی فتنہ نمودار ہوا اور اس کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے ذریعہ اس فتنے کا قلع قمع کردیا۔ چنانچہ خلفاء راشدین اور صحابہ کرامؓ کے دور کے بعد جب اسلام کی بعض تعلیمات مٹنے لگی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے کئی شخصیات پیدا کردیں، ان میں عمر بن عبدالعزیز، حضرت حسن بصری، فقہا ومحدثین کی جماعت خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ پھر معتزلہ نے دین میں تحریف کے لئے عقلی دلائل کا طوفان کھڑا کیا تو اس کے مقابلے کے لئے اللہ تعالیٰ نے امام احمد بن حنبل، ابوالحسن اشعری اور امام غزالی کو پیداکیا۔ دین کے بعض دوسری تعلیمات پر جمود و تعطل کا رنگ چڑھنے لگا تو اس کے ازالے کے لئے شیخ عبدالقادر جیلانی اور علامہ ابن الجوزی کی شخصیات نمودار ہوئیں۔ اسلامی دنیا پر صلیبی تسلط و غلبہ کو روکنے کے لئے نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ اسی طرح شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام اور مولانا جلال الدین رومی نے اپنے زمانے کے باطل افکار کا مقابلہ کیا۔ شیخ الاسلام تقی الدین تیمیہ اپنے زمانے کے مجدد کامل گزرے ہیں جنھوںنے بیک وقت جہاد بالقلم والسیف کیا اور اسلام کی تجدید فرمائی۔ محمد بن الوہاب نجدی، خواجہ معین الدین چشتی، شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید وغیرہم اشخاص تجدید دین کے وہ روشن ستارے ہیں جن کی چمک نے لوگوں کو اصل دین کی راہ دکھائی ہے۔ عصر حاضر میں خاص طور سے ہندوستان میں تحریک شہیدین کے بعد خانوداۂ صادق پور پٹنہ، نواب صدیق حسن خاں بھوپال، علامہ حمیدالدین فراہی، علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد الیاس ، مولانا زکریا، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا علی میاں ندوی وغیرہم کی کاوشیں اسی تجدید کا تسلسل ہیں جس کی بنا اسلاف نے ڈالی ہے۔
وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت بعض علماء نے محسوس کیاکہ موجودہ دور میں دین کی تجدید انفرادی اور شخصی کوششوں سے ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ انھوںنے بعض جماعتوں کی بیاد رکھی اور مستقل تحریک کی بنیاد ڈالی جیسے مولانا محمدالیاس نے تبلیغی جماعت کی تشکیل کی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد ڈالی۔ پہلے سے بھی بعض جماعتیں اور ادارے سرگرم عمل تھے جیسے جمعیت اہل حدیث، دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعہ سلفیہ بنارس، دارالمصنفین اعظم گڑھ، فقہ اکیڈمی دہلی وغیرہ۔ ان سب اداروں اور جماعتوں کے پیش نظر مختلف پہلوئوں سے اسلام کا احیاء اور اس کی تجدید ہی ہے۔ ان کے مقاصد نصب العین اور خدمات کا جائزہ لیا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر جماعت و ادارے نے احیاء اسلام کی کوششوں کو تقویت پہنچائی ہے گوکہ بعض جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کو دین کے جزوی مسائل تک محدود کردیا ہے۔ بعض اداروں نے مسلکوں کی ترویج و اشاعت کو اپنا نصب العین بنالیا ہے مگر ان جماعتوں میں بعض جماعتیں ایسی بھی ہیں جنہوں نے پورے دین پر عمل اور اس کا نفاذ اپنا نصب العین قرار دیا ہے اور اس کے لئے وہ جدوجہد کررہی ہیں۔ اس سے امت محمدیہ ہندیہ حقیقی دین اور اس کی دعوت سے محروم نہیں ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز اور حادثہ ۱۱؍۹ کے بعد دشمنانِ اسلام، مذہب اسلام کو صفحۂ ہستی سے ہٹادینے کے لئے یکجٹ ہوگئے ہیں اور اسلام پر فکری یلغار کے ساتھ مسلمانوں پر عسکری حملہ بھی بول دیاہے۔ چنانچہ اس وقت پوری دنیا میں اسلام پسند مسلمان جو اپنے دین کا احیاء اور اس کی تجدید کی خواہش رکھتے ہیں دشمنوں کے نرغے میں آچکے ہیں۔ ایسی صورت حال میں امت مسلمہ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور اس کی ضرورت شدید تر ہوجاتی ہے کہ مسلمان صحیح دین پر قائم رہیں اور ایسے اعمال و رسوم و رواج کو ترک کردیں جو دین کے منافی ہیں اور جن کی قرآن و حدیث میں کوئی بنیاد نہیں ہے اور مسلمان دین کے تقاضوں کی تکمیل کریں۔ مزید یہ کہ جس طرح دشمنان اسلام ’’الکفرملۃ واحدۃ‘‘ بن کر اسلام اور مسلمانوں پر حملہ آور ہیں اسی طرح مسلمان ’’بنیان مرصوص‘‘ بن کر ان کا مقابلہ کریںاور دین کو دنیا وآخرت کی کامیابی کا ذریعہ قرار دیں۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2014