انسانی سماج میں صالح تبدیلی

(اسلام کی رہنمائی میں)

ڈاکٹر محمد رفعت

آج کی دنیاجن انقلابات سے واقف ہے وہ حیاتِ انسانی کے اجتماعی اور سیاسی پہلو سے بحث کرتے ہیں۔ اصلاً اُن کو فردِ انسانی کے اندرون سے اور اس کی شخصیت سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ ایسے انقلابات کے داعیوں کے درمیان فرد کی زندگی اگر زیرِ بحث آتی  بھی ہے تو عموماً محض اس بنا پر کہ فرد ہی انقلابی تحریک کا کارکن ہوتا ہے۔ فرد کے متعلق غور کرنے کا محرک، آج کی اجتماعی فضا میں یہ داعیہ ہوتا ہے کہ فرد کوکسی تحریک کا اچھا کارکن کس طرح بنایا جائے۔ اس رجحان کی بنا پر انسانوں کی حیثیت تقریباً وہی قرار پاتی ہے جو مادی وسائل کی ہوتی ہے۔ جس طرح تحریک چلانے اور تبدیلی لانے کے لیے سرمایہ اور مال درکار ہوتا ہے اسی طرح انسان بھی درکار ہوتے ہیں۔ چنانچہ ’’انسانی وسائل‘‘کی اصطلاح اکثر استعمال کی جاتی ہے۔ منصوبہ بندی میں آج کی اجتماعی تحریکیں، جس طرح روپیہ پیسہ حاصل کرنے پر توجہ کرتی ہیں تاکہ اپنے اخراجات کو پورا کرسکیں اسی طرح انسانوں کو بھی اپنی پارٹی کا اچھا کارکن (ورکر) بنانے کی کوشش کرتی ہیں جو پارٹی کے پروگرام کو عملی جامہ پہناسکیں۔ کارکن کے حسنِ کردار کے بجائے اس کی اچھی کارکردگی مطلوب ہوتی ہے۔ کارکنوں کی تربیت کے لیے کوششیں بھی اسی رخ پر کی جاتی ہیں۔ پارٹی ایک مشین کی طرح کام کرنا چاہتی ہے اور اُسے انسانی کارکنوں کی شکل میں اچھے کَل پرزے درکار ہوتے ہیں۔

اسلام کا منفرد مزاج

آج کی اجتماعی تحریکوں کے برعکس، اسلام کی دعوت، فرد اور سماج دونوں کے لیے ہے۔ اسلام کے نزدیک انسان، وسیلہ نہیں ہے۔ اسلام فرد کو محض معاشرے کی اکائی نہیں سمجھتا بلکہ ایک ایک شخص کی منفرد شخصیت کو تسلیم کرتا ہے۔ دینی نظام میں اس شخصیت کی تکمیل، ارتقاء اور تزکیہ، بذاتِ خود مطلوب ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ کے بنیادی کاموں میں تزکیہ کا تذکرہ کیا گیا ہے:

ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوْا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ

الجمعہ: ۲(

’’وہی اللہ ہے جس نے اُمیوں میں ایک رسول، اُنہی میں سے مبعوث کیا، جو اُن کو اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کا تزکیہ کرتا ہے اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اس سے پہلے وہ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘

نبی ﷺ کے کلیدی فرائض میں تزکیہ کے تذکرے کے علاوہ، قرآن مجید ہر صاحبِ ایمان کو  یاد دلاتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کی تکمیل کی طرف متوجہ رہے تاکہ اُسے کامیابی حاصل ہوسکے۔ مثلاً ارشاد ہوا:

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلَّیo(اعلیٰ، ۱۴-۱۵)

’’بے شک کامیاب ہوا وہ جس نے اپنا تزکیہ کیا اور اپنے رب کا نام لیا پھر نماز ادا کی۔‘‘

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَاo فَأَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوَاہَاo قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَاo وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَاo             (شمس:۷-۱۰)

’’قسم ہے نفسِ انسانی کی اور جیسا کہ اُس کو درست کیا پھر اُسے برائی اور بھلائی کی سمجھ دی۔ بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور بے شک وہ نامراد ہوا جس نے نفس کو دبادیا۔‘‘

معاشرے کی اہمیت

فرد کے تزکیہ پر توجہ کے ساتھ اسلام کی دعوت، انسانی سماج کی مستقل اہمیت کو بھی تسلیم کرتی ہے۔ چنانچہ مطلوب یہ ہے کہ سارا سماج، کتاب ہدایت سے وابستگی اختیار کرے۔ ارشاد ہوا:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَاء  فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُم مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَo

(آلِ عمران:۱۰۳)

’’اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑ لو اور متفرق نہ ہوجاؤ۔ اور یاد کرو اللہ کے احسان کو کہ تم آپس میں دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں باہم محبت ڈال دی اور تم اُس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے۔ اللہ نے تمہیں اس سے نجات دی۔ اسی طرح اللہ تم پر اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘

معاشرے کی اہمیت کی بنا پر اللہ چاہتا ہے کہ انسانی معاشرے میں عدل قائم ہو:

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَأْسٌ شَدِیْدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَنصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌo     (الحدید: ۲۵)

’’ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ، انصاف (قسط) پر قائم ہوں۔ اور ہم نے لوہا اُتارا۔ اُس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ (یہ سب اس لیے ہوا) کہ اللہ دیکھے کہ کون بغیر دیکھے، اُس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ بے شک اللہ قوی اور زبردست ہے۔‘‘

سماج کی اہمیت یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے سماج کے اندر بگاڑ کے پھیلنے کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ اس نے بے حیائی پھیلانے والوں کو عذابِ آخرت کے ساتھ عذابِ دنیا سے بھی ڈرایا ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنo   (نور: ۱۹)

’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے درمیان، بے حیائی پھیلائیں، اُن کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا میں اور آخرت میں۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘

فرد اور سماج کا تعلق

اسلام، انسانی شخصیت کی اس طرز پر تربیت کرتا ہے کہ ہر ایمان لانے والا، معاشرے کی اصلاح کو اپنی ذمہ داری سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کو ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح فرد کے شعور کی بیداری اور اُس کی فرض شناسی، سماج کو درست رکھنے میں معاون بنتی ہے۔ دوسری جانب، اسلام — پورے سماج کو اور خصوصاً اس کے اہم اداروں کو توجہ دلاتا ہے کہ اجتماعی ماحول کی درستگی کے ذریعے، افراد کی تکمیلِ ذات کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کریں تاکہ ہر فرد، اپنے خالق کی بندگی، آسانی سے کرسکے۔ فرد اور معاشرے کے مابین یہ تعاون، اسلام کی امتیازی خصوصیت ہے۔ اسلام کے برعکس، آج کے باطل نظریات، فرد اور سماج میں تصادم کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اسلام کے مذکورہ بالا مزاج کی ترجمانی ان آیات میں کی گئی ہے:

الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوْا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوْا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ o                       (حج: ۴۱)

’’یہ اہلِ ایمان، وہ لوگ ہیں جن کو ہم زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے۔ اور ہر معاملے کا انجامِ کار، اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئاً وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَo(نور: ۵۵)

’’اللہ نے وعدہ کیا ہے تم میں، اُن لوگوں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے کہ اللہ انھیں، زمین میں اقتدار بخشے گا جس طرح اُن سے پہلے کے اہلِ ایمان کو اقتدار دے چکا ہے۔ اور وہ اُن کے لیے، اُن کے دین کو جمادے گا، جس کو اُس نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور وہ خوف کے بعد اُن کو امن عطا کرے گا۔ وہ میری بندگی کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ اور جو کوئی اس کے بعد کفر کا رویہ اختیار کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘

اجتماعی اداروں میں حکومت کا ادارہ، نمایاں حیثیت رکھتا ہے اس لیے کہ انسانی زندگی پر اُس کے اثرات ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ اس اہمیت کی بنا پر مندرجہ بالا آیات میں اقتدار ملنے کے بعد، اہلِ ایمان کے مطلوبہ طرزِ عمل کو بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر دور کے مسلم معاشرہ کو صحیح رہنمائی مل سکے۔

صالح تبدیلی کا مفہوم

اسلامی انقلاب کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشے میں اللہ کی بندگی ہونے لگے، حق کی روشنی سے حیاتِ انسانی کا ہر دائرہ منور ہوجائے، ہدایتِ الٰہی پر عمل کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور ہوجائیں اور باطل ادیان پر حق غالب ہوجائے۔

اس انقلاب کی جہتیں (Dimensions)متعدد ہیں مثلاً  فرد کی تکمیلِ ذات اور اُس کی شخصیت کا ارتقاء، مسلم معاشرے کی اصلاح، مسلمان سماج کے نظامِ اجتماعی کی تعمیر، عام انسانی معاشرے کی درستگی، باطل افکار کے اثرات کا خاتمہ، سیاسی نظاموں، اداروں اور حکومتوں کی اصلاح، مسلمان معاشر ے کی آزادی اور منصفانہ بین الاقوامی قوانین کا نفاذ۔ یہ ساری جہتیں، اُن اہم اسلامی اصطلاحات کا تقاضا ہیں جن کے ذریعے قرآن مجید امتِ مسلمہ کی ذمہ داریوں کو بیان کرتا ہے یعنی دعوت الی اللہ، جہاد فی سبیل اللہ، اعلائِ کلمۃ اللہ، نصرتِ دین، شہادت علی الناس، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اقامتِ دین، اقامتِ قسط، دعوت الی الخیر اور اظہارِ دین۔

اپنی تمام جہتوں میں اسلامی انقلاب کے ظہور کے لیے تین شرطوں کا پورا ہونا ضروری ہے۔ بنیادی شرط یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے اندر ایسے افراد کی بڑی تعداد موجود ہو جن کا ایمان زندہ، شعوری اور پختہ ہو، جنہیں اللہ سے کیا ہوا عہدِ بندگی یاد ہو اور جو حسنِ عمل کا اہتمام کرتے ہوں۔ ایسے اصحابِ ایمان کی موجودگی کے بغیر، اسلامی انقلاب کا خواب دیکھنا، خام خیالی ہے۔ مزید برآں اسلامی انقلاب کے ظاہر ہونے کے لیے ایک مزید  شرط کی تکمیل بھی ضروری ہے کہ ایمان و عمل سے آراستہ، صالح افراد کو امت کے مشن کا واضح شعور حاصل ہو۔ وہ امت کے فرضِ منصبی کو جانتے ہوں، اس کے تقاضوں سے واقف ہوں اور اس فرض کی ادائیگی کے لیے متحرک ہوں۔ امت کا مشن یا فرضِ منصبی، قرآنی الفاظ میں درجِ ذیل ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلَوْ آمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْراً لَّہُم مِّنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفَاسِقُونَo                                  (آلِ عمران:۱۱۰)

’’تم خیرِ اُمت ہو، تمہیں انسانوں (کی ہدایت و اصلاح) کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘

اُمت میں دین کا احیاء

ایمان و عمل اور منصبی شعور کے استحضار کے ساتھ اسلامی انقلاب کے عملاً برپا ہونے کے لیے ایک تیسری شرط بھی درکار ہے۔ وہ یہ ہے کہ افرادِ امت کی تعلیم و تربیت کا وسیع اور اطمینان بخش انتظام کیا جائے۔ یہ اہتمام ایسا ہو کہ کوئی مسلمان، بنیادی علمِ دین سے محروم نہ رہے۔ ساتھ ہی اہلِ دانش کی ایک معقول تعداد، اُمت میں ایسی پائی جائے جو علم و تقویٰ کی صفات کے ساتھ دین میں گہری بصیرت بھی حاصل کرے تاکہ مسلمانوںکی رہنمائی بھی کرسکے اور عام انسانوں کی بھی۔

اس تیسری شرط کے سلسلے میں قرآنی آیات درج ذیل ہیں:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوْا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْنٍo

(آلِ عمران:۱۶۴)

’’بلاشبہ اہلِ ایمان پر اللہ نے یہ بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان، خود انہی میں سے ایک ایسا رسول اٹھایا جو اُس کی آیات، انہیں سناتا ہے، اُن کا تزکیہ کرتا ہے اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘

وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْلَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَo

(توبہ:۱۲۲)

’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان، سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے کہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔‘‘

اسلامی انقلاب کے لیے درکار شرائط کے اس تذکرے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انقلاب اسلامی کے طالبین کو موجودہ مسلمان معاشرہ کا جائزہ لے کر ایک وسیع مہم چلانی ہوگی تاکہ مسلمان سماج کو بیدار کیا جاسکے۔ اس مہم کے اہداف یہ ہوں گے:

(الف)ایمان کو زندہ اور شعوری ایمان بنانے کی ترغیب اور بیداری ایمان کی تدبیروں کی نشاندہی۔

(ب)اُمت کے فرضِ منصبی کی تفہیم اور یاددہانی۔

(ج) مسلمانوں کی تعلیم اور تزکیہ کے لیے سعی۔ اس مقصد کے لیے پہلے سے مصروفِ عمل اجتماعی اداروں اور کاوشوں کو قرآن و سنت کا پابند بنانا۔

امت میں دین کے احیاء کی اس وسیع مہم کے بغیر اسلامی انقلاب کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ دین کے ہمہ گیر تقاضوں کا حق ادا کرنا کسی ایک ادارے یا تنظیم کے بس کی بات نہیں۔ دین کی اقامت کے لیے پوری امت کے اندر دینی روح پھونکنا ضروری ہے۔ چنانچہ جو مخلص احباب، اسلامی انقلاب کی آرزو لے کر سرگرمِ عمل ہیں، انہیں اُمت پر توجہ دینی ہوگی۔

نہیں اقبالؔ نا امید اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اسلامی انقلاب کی متعدد جہتوں کے بیان کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اُن میں لازماً کوئی ناگزیر زمانی ترتیب پائی جاتی ہے۔ فطری کیفیت یہ ہے کہ متنوع جہتوں میں پیش رفت ایک ساتھ ہوتی ہے۔ جس رفتار سے ایمان زندہ ہوتا ہے، شعور میں تابندگی آتی ہے اور دین کے تقاضے واضح ہوتے ہیں، اسی رفتار سے افراد، سماج اور اجتماعی اداروں میں اصلاح ہونے لگتی ہے۔ ایک گوشے میں پیش رفت، دوسرے دائروں میں صالح تغیر میں معاون بنتی ہے اور انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے کہ ایک دانے کو بونے سے کس طرح سینکڑوں دانوں پر مشتمل فصل حاصل ہوجاتی ہے۔ البتہ اس خوش گوار نتیجے کے ظہور کے لیے اخلاص، صبر، قربانی اور پیہم کوشش درکار ہے۔

درکار تبدیلی کی جہتیں

اسلامی انقلاب کی ہمہ گیر نوعیت کے سمجھ لینے سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ صالح انقلاب، ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ ایمان سے محروم کوئی انسان، ایمان لے آئے تو اُس کی زندگی کی حد تک یہ ایک انقلابی تبدیلی ہے۔ کسی دل میں خوابیدہ ایمان جاگ جائے اور عمل کی توفیق مل جائے تو اس بیداری کو انقلاب کہنامناسب ہے۔ مسلمانوں کا کوئی اجتماعی کام، درست خطوط پر استوار ہوجائے تو یہ انقلابی قدم ہوگا۔ کوئی مسجد، بستی کے باشندوں کی اصلاح و تربیت کا مرکز بن جائے اور امامِ مسجد لوگوں کی رہنمائی کے فرائض انجام دینے لگے تو یہ انقلابی تغیر ہے۔ ملک میں رائج ظالمانہ قوانین منسوخ ہوجائیں اور اُن کی جگہ منصفانہ قانون نافذ کیا جائے تو یہ انقلابی اقدام ہے۔ سماج سے کوئی منکر مٹ جائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہوجائے تو یہ انقلابی پیش رفت ہے۔ اس وسیع تصور کے ساتھ جب داعیانِ انقلاب کوشش کرتے ہیں تو سعی و جہد کے یہ چھوٹے چھوٹے دھارے مل کر ایک سیلابِ رواں بن جاتے ہیں، جس میں باطل کے خس و خاشاک کو بہا لے جانے کی بے نظیر صلاحیت ہوتی ہے۔ صالح انقلاب کی تکمیل بہرحال اُس وقت ہوتی ہے جب اللہ کی تائید و نصرت کے نتیجے میں اہلِ حق کو زمین میں اقتدار حاصل ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس تکمیلی مرحلے کا ذکر کیا ہے:

إِذَا جَائَ  نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُo وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجاًo فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّاباً o                          (سورہ نصر)

’’جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہوجائے اور تم دیکھ لو کہ لوگ، فوج درفوج، اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو۔ اور اُس سے مغفرت کی دعا مانگو۔ بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا أَنصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّیْنَ مَنْ أَنصَارِیْ إِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ أَنصَارُ اللّٰہِ فَآَمَنَت طَّائِفَۃٌ مِّنْ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ وَکَفَرَت طَّائِفَۃٌ فَأَیَّدْنَا الَّذِیْنَ آمَنُوا عَلَی عَدُوِّہِمْ فَأَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ o

(صف:۱۴)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا: ’’کون ہے  اللہ کی طرف (بلانے میں) میرا مدد گار؟‘‘ اور حواریوں نے جواب دیا تھا: ’’ہم ہیں اللہ کے مددگار۔‘‘ اُس وقت بنی اسرائیل کاایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کی دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی (ایمان لانے والے) غالب ہوکر رہے۔‘‘

صالح انقلاب اورتاریخ انسانی

انسانی زندگی میں حق کا غلبہ کوئی نادر واقعہ نہیں ہے بلکہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں متعدد بار، حق غالب ہوا ہے۔ جہاں تک تاریخ کے آغاز کا تعلق ہے، انسانوں کے معاشرے کی ابتدا، حق کی روشنی میں ہوئی۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ:

کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ وَأَنزَلَ مَعَہُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ إِلاَّ الَّذِیْنَ أُوتُوہُ مِن بَعْدِ مَا جَائَ تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ بَغْیْاً بَیْنَہُمْ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِہِ وَاللّٰہُ یَہْدِیْ مَن یَشَائُ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o     (بقرہ: ۲۱۳)

’’ابتدا میں سارے انسان  ایک ہی طریقے پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے، جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے اور اُن کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے ان کا فیصلہ کرے۔ (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا۔ نہیں بلکہ) اختلاف اُن لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا علم دیا جاچکا تھا۔ انھوںنے روشن ہدایات پالینے کے بعد، محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ پس جو لوگ انبیاء پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اِذن سے اُس حق کا راستہ دکھا دیا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے، راہِ راست دکھادیتا ہے۔‘‘

دوسری مثال نوح علیہ السلام سے متعلق ہے جو جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں۔ اُن کی قوم کی بڑی تعداد ایمان نہیں لائی چنانچہ عذابِ الٰہی سے ہلاک کردی گئی۔ تھوڑے سے لوگ ایمان لائے۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ اللہ نے اُن ایمان والوں کو زمین کا وارث بنایا۔

فَکَذَّبُوْہُ فَنَجَّیْنَاہُ وَمَن مَّعَہُ فِیْ الْفُلْکِ وَجَعَلْنَاہُمْ خَلاَئِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنذَرِیْنo(یونس: ۷۳)

’’انھوں نے (یعنی نوح کی قوم کے لوگوں نے) نوح کو جھٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اُسے اور اُن لوگوں کو جو (ایمان لے آئے تھے اور) اُس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچالیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا۔ اور ان سب کوغرق کردیا جنھوںنے ہماری آیات کوجھٹلایا تھا۔ پس دیکھ لو جِن کو خبردار کیا گیا تھا، ان کا کیا انجام ہوا۔‘‘

مندرجہ بالا آیت بتاتی ہے کہ نوح علیہ السلام کے پیرو، زمین کے جانشین بنائے گئے۔ کتنے عرصے تک اُن کو اللہ نے کام کرنے کا  موقع دیا، قرآن اس کی صراحت نہیں کرتا۔ البتہ اتنی بات واضح ہے کہ کچھ عرصہ ضرور انھوںنے نوح علیہ السلام کی براہِ راست رہنمائی میں گزارا، جبکہ زمین کے اس خطے سے خدا کے باغی مکمل طور پر مٹائے جاچکے تھے۔ ظاہر ہے، نوح علیہ السلام کی زندگی کا یہ آخری دور (خواہ طویل رہا ہو یا مختصر) اُس خطہ زمین پر حق کے غلبے کا دور تھا۔

ہود علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ اُن کی قوم عاد کے زیادہ تر افراد نے دعوتِ حق قبول کرنے سے انکار کیا چنانچہ اللہ کے عذاب نے اُن کو ہلاک کردیا۔ رہے تھوڑے سے لوگ جو ہود علیہ السلام پر ایمان لائے تھے تو اللہ نے اُن کو زمین میں آباد کیا۔ اُن کے بارے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:

’’یہ بات عرب کے تاریخی مسلّمات میں سے ہے کہ عاد کا صرف وہ حصہ باقی رہا جو حضرت ہود کا پیرو تھا۔ حصن غراب کا کتبہ … انہی کی یادگاروں میں سے ہے۔ اس کتبہ میں … ماہرینِ آثار نے جو عبارت پڑھی ہے اُس کے چند جملے یہ ہیں:

’’ہم نے ایک طویل زمانہ اس قلعے میں اس شان سے گزارا ہے کہ ہماری زندگی، تنگی و بدحالی سے دور تھی۔ ہماری نہریں، دریا کے پانی سے لبریز رہتی تھیں… اور ہمارے حکمراں، ایسے بادشاہ تھے جو برے خیالات سے پاک اور اہلِ شر و فساد پر سخت تھے۔ وہ ہم پر ہود کی شریعت کے مطابق حکومت کرتے تھے اور عمدہ فیصلے ایک کتاب میں درج کرلیے جاتے تھے۔ اور ہم معجزات اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین رکھتے تھے۔‘‘

یہ عبارت آج بھی قرآن کے اس بیان کی تصدیق کررہی ہے کہ عاد کی قدیم عظمت و شوکت اور خوش حالی کے وارث آخر کار وہی لوگ ہوئے، جو حضرت ہود پر ایمان لائے تھے۔‘‘

(تفہیم القرآن، سورہ اعراف، حاشیہ ۵۶)

ایک اور مثال بنی اسرائیل کی ہے۔قرآن مجید نے بنی اسرائیل کے اس گروہ کا تذکرہ کیا ہے جنھوںنے مردِ صالح، طالوت کی قیادت میں جہاد کیا تھا۔ اس لشکر میں داؤد علیہ السلام شامل تھے جو ابھی نبی مقرر نہ ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے اُن کے کارنامے کا تذکرہ کیا ہے:

فَہَزَمُوْا ہُمْ بِإِذْنِ اللّٰہِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہُ مِمَّا یَشَائُ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَـکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَo                                  (بقرہ: ۲۵۱)

’’آخر کار اللہ کے اذن سے انھوںنے (یعنی طالوت کے ساتھیوں نے) کافروں کو مار بھگایا اور داؤد نے (کافروں کے سردار) جالوت کو قتل کردیا۔ اور اللہ نے اُسے (یعنی داؤد کو) سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا اُسے علم دیا۔ اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے نہ ہٹاتا رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا۔ لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اس طرح، دفعِ فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے۔)‘‘

داؤد علیہ السلام کو حکومت ملی تو اللہ نے انہیں حق کے ساتھ حکومت کرنے کی ہدایت کی:

یَا دَاوُوْدُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیْلِ اللّٰہِ إِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابo                                  (ص:۲۶)

’’(ہم نے داؤد سے کہا) اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان، حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہش نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں، یقینا اُن کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے۔‘‘

داؤد اور سلیمان علیہما السلام، اللہ کے پیغمبروں میں سے تھے۔ ظاہر ہے اُن کی حکومت کا دور، حق کے غلبے کا دور تھا۔غلبہ حق کی ایک اور مثال یہ ہے کہ قرآن مجید نے مردِ صالح، ذوالقرنین کا ذکر کیا ہے۔ اس کا اقتدار وسیع تھا:

إِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِیْ الْأَرْضِ وَآتَیْنَاہُ مِنْ کُلِّ شَئٍ سَبَباo  (کہف:۸۴)

’’ہم نے اُسے (یعنی ذوالقرنین کو) زمین میں اقتدار عطا کررکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔‘‘

اُس کی صالحیت کا یہ عالم تھا کہ بہت مضبوط دیوار بنانے کا بعد بھی، وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتا تھا کہ جب اللہ چاہے گا، یہ دیوار گر جائے گی:

قَالَ ہٰذَا رَحْمَۃٌ مِّن رَّبِّیْ فَإِذَا جَآئَ  وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَہٗ دَکَّآئَ  وَکَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقّاo   (کہف:۹۸)

’’ذوالقرنین نے کہا کہ یہ (دیوار) میرے رب کی رحمت ہے، مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوندِ خاک کردے گا۔ اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔‘‘

ظاہر ہے کہ ذوالقرنین کی حکومت کا دور، حق کے غلبے کا دور تھا۔

سورہ صف کی آخری آیت کا تذکرہ کیا جاچکا ہے جس کے مطابق، عیسیٰ علیہ السلام کے مخلص پیرووں نے اپنے مخالفین پر فتح پائی۔ اس کے بعد ان اہلِ ایمان کو حکومت کا کچھ موقع ملا ہوگا۔ یہ واقعہ بھی غلبہ حق کی مثال ہے۔

دورِ حاضراور صالح انقلاب

عالمِ نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں

میری نواؤں میں ہے اُس کی سحر بے حجاب

پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے

لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب

صالح تبدیلی کے امکانات کی دنیا جس طرح کل وسیع تھی، آج بھی وسیع ہے۔ کل حق، زمین پر غالب ہوسکتا تھا تو آج بھی غالب ہوسکتا ہے، البتہ یہ صحیح ہے کہ پہلے بھی زمین پر حق و صداقت کی فتح کے لیے کوشش اور قربانی درکار تھی، اور اسی طرح آج بھی درکار ہے۔ اسلامی انقلاب کے امکانات کے دائر ے میں وسعت لانے کے لیے اہلِ ایمان کو جو طریق کار اختیار کرنا ہوتا ہے، اُس کے بنیادی عناصر دو ہیں، دعوت اور جہاد۔ دعوت سے دل متاثر ہوتے ہیں، ذہن مفتوح ہوتے ہیں اور فطرتِ انسانی، خوابِ غفلت سے بیدار ہوتی ہے۔ پھر جن کے اندر حق کی سچی طلب ہوتی ہے اور انسانوں کے خوف سے جن کے دل آزاد ہوتے ہیں، وہ حق کو قبول کرلیتے ہیں۔ حق کے دامن میں آنے والے ہر شخص کی آمد کے ساتھ، دعوتِ حق کے فروغ کے اور حق کی فتح کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔ ایک کی جرأت دوسروں کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہے اور ہر خدا پرست، ناواقف انسانوں تک پیغامِ حق کی ترسیل کے نئے امکانات اپنے ساتھ لاتا ہے۔

یہی معاملہ جہاد کا ہے۔ اصلاحی جہاد اس لیے کیا جاتا ہے کہ حق کے راستے کی رکاوٹیں دور ہوں۔ حق کو عام کرنے، اُسے قبول کرنے اور دینِ حق پر عمل کرنے کی راہ میں جو رکاوٹ بھی حائل ہو، اس کو دور کرنے کی کوشش ضروری ہے۔ یہ کوشش اسلامی حدود و آداب کے دائرے میں رہ کر ہی کی جاسکتی ہے۔ اس سرگرمی کو اسلام نے جہاد کا نام دیا ہے۔ جہاد کے لیے اسلام کی عائد کردہ بنیادی شرطیں دو ہیں۔ ایک یہ کہ معاہدوں کی پابندی کی جائے (یعنی اُن معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی جو مسلمان افراد، گروہوں یا حکومتوں نے غیر مسلموں یا اُن کی حکومتوں سے کیے ہوں۔) جہاد کے درست ہونے کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ فساد فی الارض سے بچا جائے۔ اس ہدایت کی تفصیلات حدیث و فقہ کی کتابوںمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔

دعوت کی طرح، اللہ کی راہ میں جہاد کے ذریعے بھی غلبہ حق کے امکانات وسیع ہوتے ہیں۔ دعوت و جہاد کے طریقِ کار کو اپناتے ہوئے، اہلِ ایمان کو، دین کے قیام کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ غلبہ حق کی منزل آجائے تو یہ اللہ کا فضل ہے۔ اگر کسی حق پرست کی زندگی میں یہ منزل نہ بھی آئے تب بھی، پیش قدمی اور جدوجہد، مومن کی تکمیل ذات کا ذریعہ ہے۔

ہر انقلاب کی تاریخ یہ بتاتی ہے

وہ منزلوں پہ نہ پایا جو رہ گزر سے ملا

مشمولہ: شمارہ جنوری 2018

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau