حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل مجھے ہمیشہ اس انداز میں پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہتے ہیں کہ جیسے اب اسے شریک وراثت ہی ٹہرا دیں گے۔
ایک پائیدار، سربفلک اور عالیشان عمارت اس وقت بن سکتی ہے جب ہنرمند کاریگروں نے اس میں استعمال کئے جانے والے تمام ساز و سامان پر پوری توجہ دی ہو۔ اینٹیں عمدہ بنی ہوئی ہوں، پتھر اچھے قسم کے ہوں، لوہا پختہ ہو، مسالے ہنر مندی سے بنائے گئے ہوں۔
اسی طرح معاشرے کو بھی ایک عمارت سمجھیے، چند افراد مل کر ایک گھرانہ بناتے ہیں اور چند گھرانوں کا مجموعہ ایک گاؤں، ایک قصبہ اور شہر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اور بہت سے شہر ملک کا نام پاتے ہیں۔ پورے معاشرے کے سدھار یا بگاڑ کا مدار ان اکائیوں اور یونٹوں کے اوصاف و احوال پر ہے جن کے مجموعے سے یہ معاشرہ بنا ہے۔ اگر ایک ہی خاندان کے افراد باہم دگر اخوت و مودت کے تعلقات نہیں رکھ سکتے، اگر ایک ہی گھرانے کے افراد بجائے حسن سلوک کےآپس میں بدسلوکی اور کدورت و نفرت کی روش اختیار کرتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ ان بدگوہر اور بداطوار کے مجموعے سے جو معاشرہ بنے گا وہ بھی فاسد اور کاسد ہوگا۔ لیکن یہی افراد اگر باہم دگر ہمدردی و غمگساری کے تعلقات رکھتے ہیں تو ان کے مجموعے سے ظہور پانے والے خاندان اور کنبے ایسا ہی معاشرہ تخلیق کریں گے جس میں امن و محبت اور اخوت و دوستداری کے اثرات غالب ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام اصلاحِ معاشرہ کے بلند بانگ دعووں اور نعروں کی بجائے انتہائی متانت اور اصرار و تاکید کے ساتھ ان بنیادی موثرات اور ان اساسی اقدار و اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے جنہیں اپنا لینے کے بعد خود بخود ایک صالح اور بلند معاشرے کا وجود میں آنا امر لازم ہے۔
آپ نے دیکھا اس نے صلہ رحمی پر کتنا زور دیا۔یہ آیات و روایات یہ واضح کرنے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ ضرورت مند اعزہ و اقربا کی حتی الوسع مدد کرنا ہر شخص کی ایسی ذمہ داری ہے جسے اللہ نے اس پر عائد کیا ہے اور جس طرح ایک صاحب نصاب زکوة ادا نہ کرنے کی حالت میں اللہ کے ہاں پکڑا جائے گا اسی طرح وہ شخص بھی ضرور پکڑا جائے گا جس کا کوئی عزیز و قریب محتاج ہو اور وہ باوجود قدرت و استطاعت رکھنے کے اس کی احتیاج پوری نہ کرے۔ بس فرق نوعیت اور درجات کا ہے۔ مجرم یقینًا دونوں ہی میں ہیں۔
یہ گویا خاندانوں کے نظم و ضبط کو حسنِ سلوک اور رفق و موانست میں رکھنے کی ایک پاکیزہ تعلیم تھی۔ اب اسی رفق و موانست کو نسل و نسب کے دائرے سے آگے بڑھا کر پورے عالم انسانی میں عام کرنے کی خاطر اسلام نے پڑوسی سے حسن سلوک کا وہ معیار اعلی پیش کیا ہے جس سے بڑھ کر ہمہ گیر اور مؤثر معیار پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔ ذرا سوچیے بظاہر ایک پڑوسی کا معاملہ ہے لیکن فی الحقیقت یہی چھوٹا سا معاملہ بہت بڑا دائرہ بن کر پورے معاشرے کو گھیر لیتا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی کا پڑوسی ضرور ہے آپ کا محلہ سو آدمیوں پر مشتمل ہے تو ان میں سے ہر فرد باقی ننانوے افراد کا پڑوسی ہوگا۔ یہ تو فرق کیا جا سکتا ہے کہ چند افراد بالکل متصل رہتے ہوں اور دوسرے تھوڑے فاصلہ پر، لیکن فاصلوں کا یہ معمولی سا اختلاف حق ہمسائیگی کو ساقط نہیں کرتا۔ اسلام نے صرف اسی کو پڑوسی نہیں مانا ہے جس کا گھر آپ کے گھر سے بالکل ملا ہوا ہو بلکہ اس نے بہت سے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی عرفِ عام کا لحاظ کیا ہے اور عرفِ عام میں پڑوسی کا اطلاق پورے محلہ پر ہوتا ہے۔ اس طرح اس کی وہ ہدایات جو پڑوسی کے سلسلے میں دی گئی ہیں، محلے کے تمام افراد کو حاوی ہیں۔ گویا جن متعدد محلوں کے مجموعے سے ایک آبادی، ایک شہر بنتا ہے ان میں سے ہر ایک کے باشندوں پر اس نے ایک دوسرے کی غمگساری، مدد، ہمدردی مواسات اور دوستداری لازم کر دی۔ صاف کہہ دیا کہ وہ شخص فی الحقیقت مومن ہی نہیں ہے جس کے شر سے اس کے ہم سائے رنج و مصیبت کا ہدف ہوں۔ جس کی بداطواری اس کے پڑوسیوں کے لیے خطرہ اور جنجال بنی ہوئی ہو۔ اور اس شخص کو جانور، شقی اور بدنصیب قرار دیا گیا جو خود تو پیٹ بھر کر مرغن مال اڑا جائے مگر اس کا ہم سایہ بھوکا سویا ہو۔
ہر خاندان پورے معاشرے کی ترکیب و تعمیر میں ایک یونٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر محلہ پورے شہر کی عمارت کا ایک ستون ہے۔ ظاہر ہے کہ ستون اگر مضبوط ہوں تو ان پر بچھائی جانے والی چھت بھی دیرپا ہو سکے گی۔ جن لوگوں کے کردار میں اسلام کی مطلوبہ یہ خوبی پیدا ہو جائے کہ وہ پڑوسیوں کے لیے سرپا رحمت و راحت بن جائیں ان سے یہ توقع کرنی یقینًا درست ہوگی کہ اپنے محلے سے باہر بھی وہ خود کرداری ہی کا ثبوت پیش کریں گے۔
پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید میں بہت سی روایتیں عمدہ سندوں کے ساتھ مروی ہیں۔ ان سے بلا ریب و ابہام معلوم ہوتا ہے کہ پڑوسی کا حق کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ وہ اتنا موکد اور قطعی ہے کہ قانونًا نہ سہی لیکن معنوی حیثیت سے اس کا لحاظ اتنا ضروری ہے جتنا ورثہ کی تقسیم میں ترکے کے صحیح مستحقین کا لحاظ۔
امام الائمہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا یہ واقعہ کس نے نہیں سنا آپ اس یہودی ہم سایہ کو قید و بند سے چھڑا کر لائے تھے جس کا دائمی معمول یہ تھا کہ رات کو شور و شر مچا کر آپ کی عبادت میں خلل ڈالے اور ہر ممکن ایذا پہنچائے۔ امام اعظم نے محسوس کیا کہ اس کی شورہ پشتی اپنی جگہ بجا،لیکن ہم سایہ تو وہ بہر حال ہے اور ہم سایہ کے حقوق اللہ اور اس کے رسول نے استثنا کے بغیر واضح فرمائے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم سائے کی کوئی عادت و خصلت انہیں ساقط کر دے۔
ہم کہتے ہیں کہ ہم سایہ کتنا ہی بدنہاد اور ناشکرا ہو لیکن آپ اس سے مستقلًا حسن سلوک سے پیش آئیں گے تو ایک دن وہ ضرور اس کو محسوس کرے گا اور اس کی کمینہ طبیعت کچھ نہ کچھ اصلاح پذیر ہوگی۔ خدانخواستہ اگر کوئی ہم سایہ ایسا ہی پتھر دل بن جائے کہ آپ کا حسن سلوک پیہم نظر انداز کرتا جائے تب بھی اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اس کا حق ہمسائیگی ادا کرنے میں آپ کو زیادہ ثواب ملے گا۔ بشرطیکہ یہ کٹھن مرحلہ آپ اللہ کی خوشنودی کے لیے طے کر رہے ہوں۔ کوئی شے اللہ نے بے مصلحت پیدا نہیں کی۔ کمینے، دنی اور پرلے سرے کے ناشکرے لوگ بھی اللہ نے ہماری آزمائش کے لیے پیدا فرمائے ہیں۔ گڑ کے بدلے گڑ دینا مشکل نہیں ہے، لیکن ایلوے کے بدلے نیشکر پیش کرنا یقینًا ارباب عزم کا کام ہے۔ عزیمت اگر اللہ کے راستہ میں ہو تو کوئی اذیت بلا اجر نہیں رہتی۔
افسوس موجودہ تہذیب و تمدن اس سے بالکل متضاد درس دیتے ہیں۔ ان کی بنیاد مفاد پرستی اور خود غرضی پر ہے۔ جب اپنا ہی مفاد و خود غرضی سب کچھ ہو تو اللہ کی خاطر کسی پر مال اور وقت صرف کرنا کوئی کیوں گوارا کرے گا۔ ہم بمبئی جیسی جگہوں میں خود ایسے لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ ایک ہی فلیٹ کے دو متصل کمروں میں رہتے ہیں ایک دوسرے سے آشنا تک نہیں ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایک ہی کمرے میں رہنے والے دو مختلف کرایہ دار ذہنی طور پر ایک دوسرے سے اتنی دور ہیں کہ شاید دو جانور بھی ایک کھونٹے سے بندھ کر باہم دگر اتنے دور نہ ہوتے ہوں، کیسا پڑوسی اور کس کے حقوق۔ ہر شخص غرض کا بندہ اور مفاد کا شیدائی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کو جو معاشرہ مطلوب ہے اس میں یہ حق ہم سائیگی ایک عظیم حق ہے اور جو مومن اس حق کو ادا کرے گا اس کے لیے آخرت میں بڑا اجر ہے۔ (سہ روزہ دعوت، ۱ فروری ۱۹۷۹)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2025






