امت مسلمہ پر اصلاً دین حق کی اقامت واشاعت اور اس کے احکام کی تعمیل فرض ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مکلف ہے لیکن چونکہ انسانوں کے مزاج، میلانات اور فہیم و فراست میں اختلاف پایا جاتاہے اس لئے دین کی تعبیر و تشریح میں اختلاف پایاجانا فطری ہے مگر یہ اختلاف آراء صرف ان امور میں جائز ہے جہاں نصوص شریعت میں ایک سے زائد توجیہات کی گنجائش ہو، مسلّمات و کلیات دین میں اختلاف کی اجازت نہیں ہے، اس کے ساتھ دین رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ فروعی امور میں رایوں ، نقطہائے نظر اور مسالک وغیرہ کا اختلاف ، دلوں کے اختلاف اور باہم تنازعہ ومنافرت کی شکل اختیار نہ کرنے پائے کہ دلوں کا اختلاف بالاتفاق حرام اور افراد امت کے لیے ایک عظیم خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۵۹ۧ (نساء:۵۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحبِ امر ہیں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کے حوالہ کردو اگر واقعی تم اللہ اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ صحیح طرزعمل ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ مؤمن ہوجاؤ اور مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔‘‘(مسلم) گویا ایمان، دخول جنت کے لیے اورالفت ومحبت باہم تکمیل ایمان کے لئے شرط ہے۔
اسلام کے اس بنیادی اصول سے غفلت کے نتیجہ میں امت فرقوں میں بٹ گئی اور فکرو نظر اور رنگ و نسل کا اختلاف عملی اختلاف میں تبدیل ہوگیا۔
واقعہ یہ ہے کہ انسان اتباع ہویٰ میں صحیح وغلط کا فرق ملحوظ نہیں رکھ پاتا اور اصول و فروع کی عدم تعیین کی وجہ سے فروعی اختلاف، اصول و کلیات کے اتفاق پر غالب آجاتا ہے، نتیجتاً نوافل و مستحبات کا اختلاف ، فرائض و واجبات سے دورکردیتا ہے حالانکہ صحیح اور راست طرز عمل یہ ہے کہ متفق علیہ امورمیںایک دوسرے کا تعاون کیاجائے اور مختلف و متنازع فیہ مسائل میں اظہار نکیر اور طعن و تشنیع کے بجائے وسعت قلب و نظر اور رواداری کاثبوت دیاجائے۔
اس بات سے کسے انکار ہوگاکہ اتباع حق، جستجوئے صواب اور التزام علی الحق، صراط مستقیم اور سواء السبیل کی طرف رہ نمائی کرتاہے، ہوائے نفس، تعصب و تنگ نظری سے محفوظ رکھتا ہے اس لیے مختلف فیہ امور میں ہوائے نفس اور ذاتی مصالح کو درآنے کاکبھی موقع نہیں ملنا چاہیے۔ کوشش تو یہ ہوکہ اختلاف پیدا ہی نہ ہو اور بحث و تکرار کے بجائے شریعت کی صریح اور متفق ہدایات کی روشنی میںمسائل کا حل تلاش کرلیاجائے، اس کے بعد بھی اگر کسی مسئلہ میں اختلاف واقع ہوجائے تو کتاب اللہ کی تعمیل کرتے ہوئے اللہ و رسول کے حکم کے آگے سراطاعت جھکاکر اس اختلاف کو دور کرلیاجائے کہ علمی فروگذاشتوں اور فقہی شذوذ کو تلاش کرنا اور جمع کرکے عوام میں پھیلانا، اہل علم کا شیوہ نہیں ہے، اس سے کسی خاص مسلک ہی نہیں بلکہ پورے دین پر سے اعتماد اٹھ جاتاہے نیز یہ بدترین اور دشمنانہ روش ہے جس کے پیچھے خاص و عام کوئی مصلحت نہیں ہے۔ لغزشوں کو ڈھونڈنا اور غلطیوں کو تلاش کرنا بیمار دل اور بدنیت شخص کاکام ہے اس لئے کہ انبیاء علیہم السلام کے سوا کوئی انسان معصوم ہونے کا دعویٰ نہیںکرسکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو مخطی مجتہد اجرو ثواب کا مستحق نہ ہوتا۔
امت کی پسماندگی اور زبوں حالی کا شدید تقاضا ہے کہ سچی اسلامی اخوت کے احیاء کے لئے سعی پیہم اور جہد مسلسل کی جائے تاکہ امت کے سبھی طبقے اور جماعتیں ہر چیز سے بلندہوکر اللہ کے دین کی اعانت و محبت اور اللہ و رسول کے لئے دوستی پر ایک ہوسکیں، ہر شخص کی رائے کا احترام ہوکہ کسی کی رائے پر بے وجہ اعتراض کرنا اور اس کی تنقیص کرنا علم کے باب میں ناپسندیدہ ہے، کسی مجتہد کی اجتہادی چوک اس کی توہین کرنے کاجواز فراہم نہیں کرتی اور نہ کسی کوبدنام کرنے کی نفسانیت پسندیدہ ہے اہل علم کافرض ہے کہ وہ اسلامی اخوت کی قدرو قیمت کا احساس کریں کیونکہ حق کسی خاص مسلک میں محدود نہیں ہے اور اختلاف رائے، لڑائی کا موجب نہیں ہوتا۔ اجتہاد کی شان یہ ہے کہ اس کےنتیجہ میں اختلاف ہوتا ہے مگر یہ اختلاف، نفاق و شقاق کی بنیاد نہیں بنتا اور نہ اس کی وجہ سے بغض و عناد کی تخم ریزی ہوتی ہے۔ تنقید کا مطلب ہی یہ ہے کہ ناقد، حق کو اپنے اندر محدود نہ سمجھے، بحث ومباحثہ کا ادب یہ ہے کہ کسی کی عزت و آبرو اور دین و ایمان پر حملہ نہ ہو، خصوصیت سے ان علماء اور خادمانِ دین کی، جو یگانہ ہیں، جنھوںنے اس دین کی بے لوث خدمت کی ہے، جو علم کے نہایت اونچے مرتبہ پر فائز ہیں، جنھوں نے راہ خدا میں جہاد کیا اور اس دین کے راستہ میں چوٹیں کھائیں اور خدمتِ دین میں جن کااخلاص نمایاں ہے۔
اس گزارش کا مقصود انہیں لغزشوں سے بری قرار دینا نہیں ہے کہ ہر عالم کی رائے اخذو مواخذہ کے قابل ہے لیکن کسی جنایت کار ملحد، خود غرض کافر ، حاسد مستشرق اور عالم دین ہر تنقید و ترید میں بہت فرق ہوتا ہے، اسی فرق کی رعایت کی وجہ سے صحابہ کرام ، تابعین عظام اور ائمہ سلف کااختلاف تفریق و انتشار کا سبب نہیں بنا، علم کی پہچان یہ ہے کہ وہ بحث وتکرارسے دور رہتاہے کہ تکرار دلوں کو بدل دیتی ہے اور الفت ویگانگت کے بعد جدائی کاوارث بنادیتی ہے لہٰذا کسی عالم کو زیب نہیں دیتاکہ وہ لوگوں کو کسی ایک مذہب پر عمل کے لئے مجبور کرے۔
مخالفت و اختلاف کی شدت کو کم کرنے کے لئے اسلامی اصول و آدابِ اختلاف کی رعایت ضروری ہے۔ ذیل میں اس تعلق سے بعض آداب کا ذکر کیاجارہاہے۔
۱۔طلب حق:
بحث و نظرکے لئے ضروری ہے کہ مقصد حق اور حق تک رسائی ہو اور انسان اس کے معاملے میں بالکل خالی الذھن ہوکہ مومن ہمیشہ حق کا طالب، حقیقت کا متلاشی اور حق و صواب کا سائل ہوتا ہے، وہ اس نبوی ہدایت کو اپنے سامنے رکھتا ہے: ’’الحکمۃ ضالۃ المؤمن أینما وجدھا فہو أحق بہا‘‘ (ترمذی وابن ماجہ) یعنی حکمت مؤمن کی گم شدہ پونجی ہے، جہاں بھی ملے وہ اس کازیادہ حقدار ہے۔
دیدہ و دانستہ حق کی مخالفت کرنا، اسے باطل سے گڈمڈکرنا اور مشتبہ بناکر لوگوں کے سامنے پیش کرنا اہل ایمان کا شیوہ نہیں ہے، یہ بنی اسرائیل کا وتیرہ تھا، جس پر قرآن نے انھیں ملامت کی اور اہل ایمان کو اس سے بچتے رہنے کی تاکید فرمائی:
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۴۲ (البقرۃ:۴۲)
’’باطل کارنگ چڑھاکر حق کو مشتبہ نہ بنائو اور جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش نہ کرو۔‘‘
اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَہٗ كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ۰ۭ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْہُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۱۴۶ؔ (البقرۃ:۱۴۶)
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے ایسے ہی پہچانتےہیں جیسے اپنی اولاد کو، مگر ان کا ایک گروہ جان بوجھ کر کتمانِ حق کا ارتکاب کررہاہے۔‘‘
اس لئے بندہ مومن یہ سمجھتاہے اور اسے سمجھنا ہی چاہیے کہ کبر ایک خطرناک بیماری ہےجو انسان کو انکار و کتمان حق پر آمادہ کرتی ہے اور دوسروں کو اس کی نگاہ میں حقیر وکم تر بنادیتی ہے، حضرت عبداللہ بن سعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے دل میں ذرہ برابر کبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور پوچھاکہ آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کالباس اچھا ہو، اس کاجوتا اچھا ہو، آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، کبر حق سے انحراف اور دوسروں کو ذلیل و حقیر سمجھنے کو کہتے ہیں۔‘‘ (مسلم)
حجت الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں: طلب حق میں تعاون، دین کاخاصّہ ہے، لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں، ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ طالب حق کو اس متلاشی کی طرح ہونا چاہیے جو اپنی گم شدہ چیز کی تلاش میں نکلتاہے اسے اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتاکہ وہ گم شدہ چیز اس کے ہاتھ آتی ہے یا کسی اور کو ملتی ہے، اس کے برعکس وہ اپنے ساتھی کو اپنا ممدو معاون تصور کرتاہے لہٰذا جب وہ اس کی کسی غلطی کی نشان دہی کرتاہےاور حق کا اظہار کرتاہے تو وہ اس کا شکرگزار ہوتاہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا یہی معاملہ تھا، ایک عورت عین خطبہ کے دوران خلیفۂ وقت کو ٹوک دیتی تھی اور حق سے آگاہ کرتی تھی تو یہ کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ : اصابت امرأۃ واخطأعمرٌ (عورت صحیح سمجھی اور عمر سے چوک ہوگئی) (احیاء علوم الدین ۴۲/۱)
اگر یہ ذرّیں اصول، حق کی طلب اور وصول الی الصواب سامنے رہے تو اختلاف کے وہ نتائج سامنے نہ آئیں جو آرہے ہیں اور جن کے کڑوے کسیلے پھل امت کو چکھنا پڑرہے ہیں۔
۲۔اخلاص نیت:
آداب و اصول اختلاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی اس راہ میں قدم رکھنے سے پہلے اپنا جائزہ لے اور نیت کو خالص کرے ، کیونکہ اختلاف کا مقصد اپنی مہارت اور علمی برتری کا ثبوت دینا نہیں ہے۔ یہ وہ چیزیںہیں جو عمل کو ضائع کردیتی ہیں۔ انسان کو اپنے ازلی دشمن ابلیس سے ہمہ آن ہوشیار رہناچاہیے کہ اس کا کام ہی ابن آدم کو گمراہ کرنا ہے، اس کے دامِ فریب میں آکر انسان یہ سمجھتاہے کہ وہ حق کا احقاق اور دین کی اقامت کا فرض ادا کررہاہے حالانکہ وہ احقاقِ نفس اور اقامتِ ہویٰ کے راستہ پر چل رہاہوتا ہے، اسی لئےاللہ تعالیٰ کی تاکید ہے کہ:
مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْہِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ۱۸ (ق/۱۸)
’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا مگر اسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضر باش نگراں (فرشتہ) موجود ہوتا ہے۔‘‘
حضرت معاذ بن جبلؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ کیا ہماری باتوں پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
تکلنک امک، وہل یکب الناس فی النار علی وجوہہم الا حصائد السنتہم (ترمذی)
’’لوگ جہنم میں منھ کے بل صرف اپنی زبانوں ہی کی وجہ سے گریں گے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
لایستقیم ایمان عبدحتّٰی یستقیم قلبہ ولایستقیم قلبہ حتی یستقیم لسانۃ (مسند احمد بن حنبل ۳/۱۹۸)
’’کسی بندہ کاایمان سلامت نہیں یہاں تک کہ اس کا دل سلامت ہو اور دل کی سلامتی زبان کی سلامتی پر موقوف ہے۔‘‘
صحابیِ رسولؐ حضرت عبداللہ بن مسعود کہاکرتے تھے:
والذی لاالہ غیرہ‘ ماعلی ظہرالارض شیئ احوج الی طول سبحن من لسانۃ (الترغیب والترہیب ۳/۳۱۔۵۳۰)
’’اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، زمین کی کوئی شئے ، زبان سے بڑھ کر اس بات کی محتاج نہیں کہ اس پر قدغن لگائی جائے۔‘‘
مذکورہ بالا ہدایات یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ آدمی زبان پر کنٹرول رکھے اور نیت میں خلوص پیدا کرے کہ اس کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک عمل کا محاسبہ ہوگا، محبت صرف حق سے ہو اور مقصود فکر صحیح اور عمل سلیم کی اشاعت ہو کہ یہ چیز حق پسندی اور انصاف پروری کی علامت اور نفسانیت سے محفوظ ہونے کی دلیل ہے۔
محاسبۂ نفس اور اپناجائزہ یقینا ایک مشکل عمل ہے جس کے لئے طویل تربیت کی ضرورت ہے محاسبہ کا بہترین اور موثر طریقہ یہ ہے کہ انسان تنہائی میں، جبکہ نفس یکسو اور ہرطرح کے مناظرہ سے دور ہوتا ہے، محاسبہ نفس کرے، وہ اپنے نفس سے پوچھے کہ اپنے مسلک، اپنی فکر اور اپنی جماعت کے سلسلہ میں اس نے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ کہاں تک صحیح ہے؟ محاسبۂ نفس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان فہم و تدبر کاحریص اور عجلت پسندی سے دور ہو، اس کی نگاہ اس بات پر ہوکہ جلدبازی کہیں اسے طلب استعداد سے محروم نہ کردے، شیطان کی وسوسہ اندازیوں سے محفوظ رہنےکااولین تقاضا یہ ہے کہ اپنے موقف کا بار بار جائزہ لیاجائے اور عمل و ردعمل کے بجائے توقف کی راہ اپنائی جائے۔
۳۔نفسانیت سے اجتناب:
امت کے اختلافات کی ایک بڑی وجہ نفسانیت وخود پسندی بھی ہے اور ظاہر ہے کہ جہاں نفسانیت و خودپسندی ہوگی وہاں حق نہیں ہوسکتا لہٰذا نفسانیت سے دور رہ کر تقویٰ و خداترسی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ حق تک رسائی ممکن ہوسکے، کیوںکہ فریقین کا مقصود اصلی یہی حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بہت سے لوگ بلاعلم محض اپنی خواہشات کی وجہ سے دوسروں کو گمراہ کردیتے ہیں‘‘ (الانعام :۱۱۹) دوسری جگہ فرمایا: ’’خواہش نفس کی پیروی مت کرو کہ راہ حق سے بھٹک جائوگے۔‘‘(صٓ:۲۶)
نفسانیت کی متعدد قسمیں اور مختلف منازل ہیں، مگر سب کی اصل وہ خودپسندی ہے جس سے بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور جس کے فریب میں آکر انسان جادۂ حق سے منحرف ہوجاتا ہے اور راہ ضلالت کی خوشنمائیاں اسے اتنی دل فریب لگنے لگتی ہیں کہ وہ خود کو جنوں اور جنوں کو خرد تصور کرنے لگتاہے، خلیفۂ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا قول ہے کہ: کلام تین طرح کا ہوتاہے: ایک وہ جس سے رشدو ہدایت کی وضاحت ہوتی ہے، لہٰذا اسے اختیار کرنا چاہیے، دوسرے وہ جس سے خطاؤں کا صدور ہوتاہے، اس سے اجتناب ضروری ہے اور تیسرا وہ جس میں خطا و صواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ اس لئے مصلحتاً خاموش رہنا ہی افضل ہے۔ (طبقات ابن سعد)
۴۔آداب گفتگو کی رعایت:
اسلامی آدابِ اختلاف کا ایک اہم تقاضا قوتِ تعبیر اور حسنِ بیان ہے۔ بارہا ایسا ہوتاہے کہ سوئے تعبیر سے حق ضائع اور باطل غالب آجاتاہے، اس لئےاس بات کا التزام ہونا چاہیے کہ نرمی کے ساتھ گفتگو کی جائے، جارحانہ الفاظ اور طرزتخاطب سے مکمل اجتناب برتا جائے، نیک نیتی سے ہر ایک کی بات اور رائے سنی جائے اور اس بات پر یقین و اذہان ہو کہ سب ایک ہی امت ہیں اور سب کی حیثیت جسد واحد کی ہے۔ یہ یقین و اذہان اختلافات کے باوجود قلوب کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنے شدید ترین دشمنوں سے بھی انتہائی نرمی سے اور بطریقِ احسن گفتگو کی ہے، حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعون جیسے سرکش و باغی کے پاس پیغام حق لے کر اس ہدایت کے ساتھ بھیجاکہ:
فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّہٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى۴۴ (طہٰ :۴۴)
’’تم دونوں اس سے نرمی سے گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا خدا سے ڈرے۔‘‘
ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو منکرین و مخالفین کے ساتھ یہ طرزعمل اختیار کرنے کی تلقین کی گئی:
فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ وَقُلْ لَّھُمْ فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلًۢا بَلِيْغًا۶۳ (نساء:۶۳)
’’آپ ان سے اعراض اور درگذر کامعاملہ کریں، انہیں موعظت و نصیحت کئے جائیں اور ان سے اس انداز میں بات کریں کہ ان کے دل میں اترجائے۔‘‘
یعنی مخالفین کی بدسلیقگی، بدتہذیبی اور درشتی سے درگذر و اعراض اور نصیحت و موعظت اور وہ بھی اس موثر طریق سے کہ دل موہ لے اور مخاطب تمام رعایت بہرصورت ہونی چاہیے۔
تعصب سے اجتناب:
اختلاف کے باوجود اتحاد کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ تعصب اور جاہلی عصبیت سے دور رہاجائے، عصبیت، اتحاد کے لئے سمّ قاتل ہے، یہ اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے اور انسانی عقل کو مائوف کردیتی ہے، اس عقل کو جو اس کے مجدوشرف کی علامت اور اس کی کرامت کا راز ہے، یہ جذبات کو منفی رخ دیتی ہے، انسانوں اور انسانوں کے درمیان تفریق پیدا کرتی ہے۔ اسی عصبیت نے اپنے مسلک و گروہ کے تفوق اور اپنی جماعت کی حمایت کے لئے حدیث سازی پر آمادہ کیا اور ایسی ایسی عبارتیں وضع کیں کہ العیاذ باللہ۔ اس کے اندھے پن کی اس سے بڑی اور بدترین مثال کیاہوسکتی ہے کہ اس نے یہ حدیث گڑھنے پر مجبور کیاکہ:
’’میری امت میں محمد بن ادریس (امام شافعی کا نام) نامی شخص پیدا ہوگا جو امت کے لئے ابلیس سے زیادہ مضرت رساں ہوگا اور میری امت میں ابوحنیفہ نامی شخص ظاہر ہوگا جو امت کے لئے سراج (چراغ) ہوگا۔‘‘ الٔامان والحفیظ۔ (موضوعات کی تقریباً تمام کتابوں میں موجود ہے)۔
ظاہر ہے اس تعصب کے ساتھ اتحاد کیونکر ممکن ہوسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عصبیت کے بت کو توڑے بغیر اتحاد و یگانگت کی ہر کوشش و خواہش فضول ہے۔ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بچنےکی سختی کےساتھ تاکید فرمائی اور کہا:
’’جوعصبیت پر مرا، اس کی موت جاہلیت کی موت ہے اور جو عصبیت کا علم بردار ہو وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (ابن ماجہ و الترمذی)
عصبیت کسی طرح کی بھی ہو، خواہ اس کی بنیاد جغرافیہ و وطن ہو خواہ رنگ و نسل، مسلک و جماعت ہو یا قوم و برادری ،بہرحال تباہ کن ہے اور اس کے بطن سے ہمیشہ تحزّب و تفرقہ بندی جنم لیتی ہے، جب کہ ایمان کی شان یہ ہے کہ وہ سدا حق کاساتھ دیتا ہے، وہ کسی فرد، گروہ، مسلک، جماعت اور قوم و وطن سے تعصب کی بنیاد پر دشمنی نہیں رکھتا کہ یہ چیز عدل و تقویٰ کے خلاف ہے:
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى (المائدہ:۸)
’’کسی قوم کی دشمن تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم جادۂ حق و عدل سے پھرجائو، عدل پر قائم رہو کہ یہ تقویٰ سے قریب تر ہے)
تعصب کی بنا پر اپنی غلطیوں پر اصرار انسانیت نہیں، شیطانی عمل ہے، غلطیوں کا اعتراف بلاشبہ ایک مشکل امر ہے۔ اس کے لیے بے پناہ شجاعت، روحانی قوت اور مجاہدۂ نفس درکار ہے، مگر ہے بڑی لذیذ شئے۔ اگرانسان اس کی عادت بنالے تو اعتراف میں بھی اسے فوز و فلاح کی لذت کا احساس ہوگا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’غلطی تو ہر انسان سے ہوسکتی ہے، لیکن بہترین خطاکار وہ ہے جو غلطی کااحساس ہوتے ہی توبہ کرلے۔‘‘(ابن ماجہ)
۶۔تکریم انسانیت کاپاس و لحاظ:
انسان ایک معز و مکرم مخلوق ہے اور طبعی طورپر وہ شریفانہ جذبات وسلوک کا ممنون کرم ہوتا ہے، یہ ممنونیت اسے بغض و عناد کے جذبات سے دور کرکے قبول حق کی صلاحیت پیدا کردیتی ہے، اس کے برخلاف تحقیرو الزام تراشی سے معاملات و تعلقات خراب ہوتے ہیں، دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور صورت حال اتنی سنگین ہوجاتی ہے کہ عقیدہ ودین کی وحدت کے باوجود انسانی معاشرہ، نفرت کدہ میں تبدیل ہوجاتاہے، اس لئے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہمیشہ انسانی شرافت کالحاظ کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۰ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ۰ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۱۱ (الحجرات:۱۱)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، مر د مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ وہ ان مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں اور عورتیںعورتوں کا مذاق نہ اڑائیں بہت ممکن ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور بُرےالقاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد فسق کا نام ہی بُرا ہے اور جو لوگ اس روش سےباز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔‘‘
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کے نزدیک مبغوض ترین شخص وہ ہے جو جھگڑے پر اترآتا ہے۔‘‘ (بخاری)
آپﷺ نے مومن کی پہچان یہ بتائی ہے:
’’مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے ساتھ خیانت نہیں کرتا۔ اسے جھوٹا نہیں قرار دیا اور اس کی تحقیر نہیں کرتا۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی آب و مال اور جان حرام ہے۔ تقویٰ یہاں ہے (یعنی دل میں ہے) آدمی کے برا ہونے کے لیے کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔‘‘ (ترمذی)
اکثر دیکھنے میں آتاہے کہ اختلاف کی صورت میں طعن و تشنیع کا سہارا لیاجاتاہے اور گفتگو افکارو رسائل کے بجائے شخصیت اور ذات پر ہوتی ہے حالانکہ اسلام کی صریح ہدایت یہ ہے کہ ’’مسلمان لعن طعن کرنے والا اور بدکردار و بدکلام نہیں ہوتا۔‘‘ (مسند احمد و ترمذی)
اسلامی فکر و عقیدہ کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ اس کے حاملین اسی پر قناعت کرتے ہیں اس کی ترویج و اشاعت کے حریص ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں ایک ناصح امین کاکردار ادا کرتے ہیں۔ اور ہر طرح کے ترفّع و استعلاء سے بے نیاز ہوتے ہیں، وہ اپنی بات اخلاص کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں، کسی کی تحقیر و تکفیر سے ان کا دامن پاک ہوتا ہے، انہیں اپنی رائے، فکراور مسلک و جماعت سے بڑھ کر اسلامی اخوت عزیز ہوتی ہے لہٰذا وہ کسی قیمت پر اس کا سودا نہیں کرتے۔
جبرو اکراہ کے بجائے تودد و احسان:
دین اسلام کاایک اہم ترین اصول و تعلیم یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تبلیغ میں جبرو اکراہ کاقائل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لااکراہ فی الدین (البقرہ:۲۵۶) گرچہ بنیادی طورسے یہ اصول اصل مذاہب کے ساتھ، اہل اسلام کے طرزعمل سے بحث کرتا ہے تاہم غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جو دین اپنے پیروئوں کو غیروں کے سلسلہ میں یہ ہدایت دیتا ہو، کیا اس کایہ اصول اپنے ہی ماننے والے دو نظریات ومسالک کے باب میں رہنمائی نہیں کرے گا؟ اگر آیت پاک میں یہ بات ہے اور یقینا ہے کہ کسی پر قبول اسلام کے لئے جبر نہیں کیاجائے گا تو اپنے مسلک، جماعت، فکر اور قوم و برادری کے تعلق سے بدرجۂ اولیٰ یہی حکم ہے، لہٰذا اختلافی امور میں یہ کوشش و آرزو کہ سب کو ایک حکمت فکر کاپابند بنادیاجائے اور تمام اہل علم کو ایک ہی نہج پر سوچنے پر مجبور کردیاجائے، کسی طرح صحیح و مناسب نہیں ہے۔ اسلام کی شان دار تاریخ بتاتی ہے کہ خیرالقرون میں آیت مذکورکو اسی سیاق میں سمجھاگیا چنانچہ حدیث وفقہ کی اولین کتاب مؤطا امام مالک کو جو امام موصوف کی پوری زندگی کا حاصل تھی، جب خلیفہ منصور نے پورے عالم اسلام کا مذہب و مسلک قرار دینے کاارادہ ظاہر کیا تو سب سے پہلے خود امام مالکؒ نے اس کی مخالفت کی اور کہا: ’’امیرالمؤمنین ، ایسا نہ کیجئے۔ لوگوں کے پاس اس کے علاوہ اقوال و احادیث پہنچ چکے ہیں اور جس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس پر عمل پیرا ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنے مسلک پر عمل کرنے دیجئے، انہیں کسی ایک مسلک کا پابند نہ بنائیے، ورنہ امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گا، خلیفہ کو امام موصوف کی یہ رائے پسند آئی چنانچہ اس نے اپنے ارادہ سے رجوع کرلیا۔ (حجۃ اللہ البالغۃ)
عہد فاروقی تاریخ اسلام کاسب سے روشن و تاب ناک عہد سمجھاجاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، حضرت عمرؓ کے گورنر (عامل) تھے، دونوں حضرات کے درمیان بہت سے امور و مسائل میں اختلاف رائے تھا۔ امام ابن قیم کے مطابق جن امور میں ان حضرات کا اختلاف تھا ان کی تعداد سو (۱۰۰) سے متجاوز ہے، مگر کسی ایک موقع پر بھی حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اپنی رائے اور نقطۂ نظر کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ (اعلام الموقعین)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے مسلک و فکر کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا اسلامی آداب و اختلاف کے منافی ہے، اس سے وحدت و اتحاد کے راہ تو ہموار نہیں ہوتی البتہ دوریاں ضرور بڑھتی ہیں اور فی الواقع بڑھی ہیں۔
۸۔ رفق و ملاطفت:
اختلاف کے اصول و آداب کے حوالہ سے یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ انسان چونکہ مختلف عوامل کا مرکب ہے اس لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ فوراً ہر بات مان لے اور اس کا دل مطمئن ہوجائے۔ گرچہ وہ بات کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو، انسان پر جب انانیت کا غلبہ ہوتاہے تو کوئی دلیل و منطق اور کوئی تدبیر کام نہیں آتی۔ یہ ایک سچائی ہے جس سے قرآن مجید اور کتب احادیث کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ مثال کے طورپر ہر انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوتوں کو قولاً اور عملاً ہر طرح سمجھایاکہ جن بہت سے خدائوں کی تم پرستش کررہے ہو، وہ لائق پرستش نہیں ہیں، وہ تمہارے اپنے تراشیدہ ہیں اور انھیں فہم و بصیرت بھی حاصل نہیں ہے مگر قوموں نے ان کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔ بسااوقات انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور تھوڑی دیر کے لئے ندامت کی کیفیت بھی ان پر طار ی ہوئی مگر اس کے باوجود وہ رسولوں کی دعوت پر ایمان نہیں لائے، اپنے مسلک اور اپنے دین سے دستبردار نہیں ہوئے بلکہ ان کی عداوت اور شدید ہوگئی اور وہ انانیت سے ایسے مغلوب ہوئے کہ نبیوں کے پیش کردہ سارے دلائل بے اثر ہوگئے، اسی انانیت سےمغلوب ہوکر نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا، فرعون نے حضرت موسٰی کو جلاوطنی کی سزادی، عزیز مصر نے حضرت یوسف کو پابند سلاسل کیا اور اہل مکہ نے نبی آخرصلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرتِ مدینہ پر مجبورکیا۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ محض دلائل سے مخالف فکر کےحامل کو رام نہیں کیاجاسکتا، بلکہ حقیقت شناسی اور معرفت حق اللہ کافضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے۔ اس سے بہرہ ور کرتاہے۔ لہٰذا دلائل و براہین کے ساتھ تودد و احسان اختلاف کو رفع کرنے، نفرتوں کو مٹانے اور کدورتوں کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نرمی اور ملاطفت کو حسین و مزین بناتی ہے اور اس کے فقدان سے معاملات بگڑجاتے ہیں۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ : ’’اللہ تعالیٰ رفیق ہے، وہ نرمی کو پسند کرتاہے اور اس سے وہ نتائج برآمد کرتا ہے جو شدّت پسندی اور سختی سے نہیں ہوسکتے۔‘‘ (جامع الاصول، ترمذی، ابوداؤد)
حضرت جریر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جونرمی سے محروم ہے وہ گویا ہر خیر سےمحروم ہے۔‘‘ (مسلم و ابوداؤد)
خلاصہ یہ کہ فکر و عمل کے میدان میں ہمیں حتی المقدور اختلافی راستہ کے بجائے اتفاقی راستہ اختیار کرنا چاہیے، اہل علم کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ فروعی مسائل میں حد سے تجاوز نہ کریں، ان کی شعوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اختلافی رویّہ سے احتراز کیاجائے کہ ہمارا تقدس اسلام سے وابستہ ہے، مسلک و جماعت سے وابستہ نہیں ہے، ہمیں اصلاً اسلام کی پیروی کرنی ہے، کسی مسلک و امام کی نہیں اور اسلام ہی ہمارا مقصد و منزل ہے۔ دوسری چیزیں ضمنی اور ثانوی ہیں، اسی اصول کو اپناکر ہم اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام انجام دے سکتے ہیں اور اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں غلو، نفسانیت، تعصب اور خودپسندی جیسی بُری خصلتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2014