ہندوستانی عدلیہ میں اونچے عہدوں پر براجما ن افراد کی مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔دفعہ ۳۷۷ کو کالعدم قرار دینا اس کی مثال ہے۔ شکسپیر سے لے کر گوئٹے تک حوالہ اسی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ بدکاری سے متعلق دفعہ ۴۹۷ کے خاتمہ پر فیصلے میں جسٹس چند رچڈ نے لکھا کہ ’’شادی کے بعد خواتین اپنی جنسی آزادی شوہر کے ہاتھ رہن نہیں رکھتیں ۔ ان کو اپنی مرضی سے نکاح کے باہر کسی بھی مرد کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ‘‘ یہ جملہ مغرب کی غالی تقلید کامظہر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دفعہ ۴۹۷ ناقص تھی اس کو مسترد کیا جانا درست تھا لیکن اس کو رد کرنے کے لیے مندرجہ بالا استدلال ایک پراگندہ ذہنیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ زن و شو اگر جنسی آزادی کے نام پر شتر بے مہار کی مانند جہاں چاہیں منہ مارتے پھریں تو نکاح کا مقدس عہدو پیمان بے معنیٰ ہوکر رہ جاتا ہے۔ معاشی معاملات میں بدعہدی اگر جرم ہے تو معاشرت کے اندر اس کے تئیں یہ لچکدار رویہ خاندان اور سماج کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں۔
شریعت میں مداخلت کے لیے اور مذہبی آزادی کو سلب کرنے کے لیے اکثرخواتین کے حقوق اور آزادیٔ نسواں کے نعروں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلہ کی اجازت اسی طرز کا ایک اقدام ہے البتہ اس کا شکار اس بار ہندو سماج ہواہے۔ سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے سبری مالا مندر میں سبھی عمر کی خواتین کو داخل ہونے کی اجاز ت دے دی ۔ کورٹ نے سبری مالا میں عورتوں کے داخلہ کو ممنوع کرنے والے ضابطہ ۱۹۹۵کے ۳(بی ) کو غیر آئینی قرار دے کر مستردکر دیا۔عدالت کے مطابق عورتوں کو مندر میں جانے سے روکنا آئین کی دفعہ ۲۵ (مذہب کی آزادی)کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت کا استدلال ہے کہ جنس کی بنیاد پر عبادت و ریاضت میں امتیازی سلوک نامناسب ہے۔ اس لیے کہ عورتیں مردوں سے کمتر نہیں ہوتیں ۔
عدالت کے اس فیصلے پر تنقید ’نیو انڈین ایکسپریس‘‘ جیسے روشن خیال اخبار نے اس وقت کی جبکہ آر ایس ایس نے اس کا خیر مقدم کیا اور امت مسلمہ اسے دوسروں کا مسئلہ سمجھ کر خاموش تھی ۔ اخبار کی جانب سے منوج کمار سنتھالیہ نے صفحۂ اول پر ایک غیر معمولی اداریہ لکھا جس کا عنوان تھا ’سبری مالاکی حقیقت‘ ۔ انہوں نے خبردا ر کیا کہ عدالت کا یہ حکم ایک ایسے دور کا آغاز بن سکتا ہے جس میں ’عقائد کے انکار اور عقائد کے اصرار ‘ پرمقدمات قائم ہوں( یا قانونی چارہ جوئی ہو)۔ منوج کمار نے اس کے خطرناک دور ر س نتائج کا اندازہ لگا کر سوال کیا کہ ’’ کیا عدالتیں اس برفانی طوفان کے لیے تیار ہیں ؟ اور کیا قوم (اس کے لیے تیار ہے؟)‘‘۔ مذہبی آزادی کے علمبردار وں کو اس کا نوٹس لے کر صحتمند مباحثے کا آغاز کرنا چاہیے تھا اس کے بر عکس اس اداریہ کی تائید سب سے پہلے کانگریسی رہنما رمیش چھینی تھالا نے کی اور کہا میں ایپاّ کا معتقد ہوں اس لیےشدت کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتا ہوں ۔
منوج سنتھالیا کی تنقید کی فکری پختگی کا اندازہ ان کی تحریر سے لگایا جاسکتا ہے وہ لکھتے ہیں ۔ مناسب ہے کہ صوبائی حکومت اور (مندر کی نگرانی کرنے والا) بورڈ اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کرے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ حکومت اور بورڈ کی جانب سے پیش کردہ کمزور دلائل کے سبب ہوا ہے۔ میں اس خیال کا حامی ہوں کہ عقلیت پسندی عقیدے کو الٹ پلٹ نہیں سکتی‘‘۔ شریعت کی بابت بھی درست موقف کو ثابت کرنے کے لیے کمزور دلائل کاسہارا اکثر ملت کے موقف کو کمزور کردیتاہے ۔ منوج سنتھالیہ کے معروضی دلائل پر اس لیےتوجہ نہیں دی گئی کہ آج کل ہمارا سماج ہر عدالتی فیصلے کوحق وانصاف کے بجائے اپنے اور پرائے کی کسوٹی پر جانچتا ہے۔ یعنی اگر کسی فیصلے سے بظاہر اپنا فائدہ یا دشمن کا خسارہ ہورہا ہو تو اسے مفید سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر وقتی طور پردشمن کا فائدہ یا اپنا نقصان نظر آرہا ہو تو اس کو مضر گردانا جاتا ہے۔ اسی لیے سبری مالا کے سبب ہندو سماج کے انتشار نے بہت سوں کو خوش کیا البتہ اس کی وجہ سے بی جے پی کے سیاسی فائدے نے کئی لوگوں کو سوگوار کردیا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے حق و انصاف کی کسوٹی پر جانچا اور پرکھا جاتا اور اس کے دیرپا اثرات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جاتا ۔
چیف جسٹس دیپک مشرا نے سبری مالا سے متعلق اپنافیصلہ سناتے ہوئے جو دور رس بات کہی وہ یہ ہے کہ ،’ مذہب بنیادی طور پر زندگی جینے کا راستہ ہے حالانکہ کچھ روایات سماج کو فرسودہ بناتی ہیں۔مذہب کی پدری سوچ کو عقیدے کے اوپر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ جسمانی وجوہات کو عقیدے کی آزادی میں قبول نہیں کیا جا سکتا ‘‘۔ یہ الفاظ توجہ طلب ہیں مثلاً کسی روایت کو ’فرسودہ‘ قرار دینا ، یا عقیدے پر ’حاوی ہونے کی اجازت نہ دینا‘ ۔ یہ دراصل عدل کے نام پر جبرکا شاخسانہ ہے ۔ کسی عدا لت کویہ حق حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ یہ حدود سےتجاوز ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عقائد کی اقسام میں ایک حق اور دوسری باطل ہوتی ہے ۔ ہر انسان کو اپنے عقیدے کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے دلیل بیان کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ مخاطب کے عقائد کے خلاف دلائل بھی ، شائستگی کے ساتھ پیش کرسکتا ہے ۔دیگر عقیدے کے حاملین کو ان کے دنیوی اور اخروی انجام سے واقف کرانا دعوت و تبلیغ کی آزادی کا حصہ ہے، لیکن کسی کو( بشمول عدالت) بزور قوت اپنا عقیدہ کسی اور پر تھو پنے کی اور اسے قبول کرنے کے لیے جبر کی اجازت نہیں ہے ۔ ’لااکراہ فی الدین‘ (دین کےمعاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں) اگر کوئی فرد یا ادارہ( مثلاً عدلیہ یا مقننہ) کسی مخصوص عقید ے کے حامل افراد کی حق تلفی کرنے کے لیے ان پر اپنا عقیدہ یا نظریہ مسلط کرنے کی کوشش کرے تو اس اقدام کو روکنا لازم ہے۔
عصر حاضر کا المیہ یہ ہے اس میں لوگ تعجب خیز قضیات لےکر عدالت سے رجوع کرتے ہیں اور عجیب و غریب فیصلوں سے دوچار ہوتے ہیں مثلاً الہ باد ہائی کورٹ نے کہہ دیا کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا لازمی جزو نہیں ۔ اس کے خلاف عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دی گئی تو اس نے بھی تائید کردی۔ یہ حیرت انگیز فیصلہ اس دین کی بابت کیا گیا جس میں پنجوقتہ نماز باجماعت فرض ہے اور کروڈوں لوگ ہر نماز کے لیے مساجد میں صف بستہ ہوتے ہیں۔ اس شدت اور تواتر کے ساتھ عبادتگاہ میں حاضر ہونے کا اہتمام دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ہےاس کے باوجود عدالت کو اسلام میں عبادت کے لیے مسجد کا لزوم سمجھ میں نہیں آیا ۔
کیرالہ کی براہمن سبھا اور تنتری مہا منڈلم نے عدالت عظمیٰ سے اپنی نئی درخواست میں کہا ہے کہ سبری مالامیں خواتین کے داخلہ پر پابندی کا سبب ماہواری کی وجہ سے ناپاکی یا جنس کی بنیاد پر عدم مساوات نہیں ہے۔ان کا عدالت سےمطالبہ ہے’ ہمیں یہ نہ بتاجائےکہ یہ روایت ہندو مذہب کا جزو ہے یا نہیں ۔ کورٹ کو محض یہ دیکھنا ہے کہ یہ سبری مالا مندر کے رسوم و رواج کا ضروری حصہ ہے یا نہیں ؟ عدالت نے اپنے فیصلے میں ہندو نظام کے اندر پائی جانے والی مختلف روایات اور مکاتب فکر کے فرق کو نظر انداز کردیا ہے‘‘۔ عدالت اسلامی فقہ کے سلسلے میں یہی غلطی کرتی ہے۔ سبری مالا کا تنازعہ مندر میں خواتین کے داخلے سے متعلق تھا اس لیے غالباً بینچ کے اندر ایک خاتون جج کو شامل کیا گیا ۔ روشن خیال دانشوروں کو یہ توقع رہی ہوگی کہ بینچ میں موجود جسٹس اندو ملہوترا بڑھ چڑھ کر خواتین کے نام نہاد حقوق کی حمایت کریں گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
یہ اس فیصلے کا دلچسپ پہلو ہے ایک طرف جسٹس دیپک مشرا ، جسٹس آر ایف نریمن ، جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے یک زبان ہوکر خواتین کے داخلے کو جائز ٹھہرایا وہیں جسٹس اندو ملہوترا نے عورتوں کے حق میں اس بظاہر انقلابی فیصلے کی پرزور مخالفت کی اوراپنا اختلافی فیصلہ تحریر کیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا ’’مذہبی اعمال کے لازمی اجزائے ترکیبی کا فیصلہ متعلقہ مذہبی معاشر ے پر چھوڑ دینا چاہیے‘‘۔ جن سماجوں میں مذہبی صحیفہ انسانی خلط ملط سے محفوظ نہیں رہ سکا یا اس کے متن وتعبیر کے سلسلے میں باہم اختلاف پایا جاتا ہے ،وہاں یہ مجبوری ہوتی ہے کہ لازم و غیر لازم کا فیصلہ معاشرے پر چھوڑ دیا جائےلیکن اسلام کے نظام رحمت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں عدالت یا معاشرے کو زحمت نہیں کرنی پڑتی بلکہ کتاب و سنت کی روشنی میں بہ آسانی فیصلے ہو سکتے کہ دین کا منشا کیا ہے اور کیا نہیں۔
مغرب زدہ دانشور (ان میں سے بہت سارے جج کی کرسی پر بھی براجمان ہوجاتے ہیں) عام طور پرمذہبی امور میں مداخلت کرکے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کے لیے عقلیت پسندی کا سہارا لیتے ہیں ۔ جسٹس اندو ملہوترا نے اس چور دروازے کو بند کرنے کے لیے اپنے فیصلے میں یہ لکھا کہ ’’ عدالت مذہبی امور میں عقلیت اور منطق کو داخل نہیں کرسکتی‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذہبی عقائد لازماً عقل سے متصادم ہوتے ہیں لیکن اس تاریخی حقیقت سے انکار ممکن نہیں انسانوں کی عقلیت پسندی کو جوکسوئیاں فراہم کرتی ہے اُن کو دوام حاصل نہیں ہے ۔ الہامی و ابدی ہدایت سے محروم دانشور ماضی میں جن باتوں کو معروضی قرار دیتے تھے آج غیر عقلی قرار دے کر انہیں مسترد کررہے ہیں ۔ بہت ممکن ہے اپنے پسندیدہ اقدامات کے تباہ کن نتائج سے دوچار ہوکر اپنی مستقبل میں رائے بدل دیں لیکن انسانی سماج کےساتھ تجربات کر نے کی اجازت کسی کونہیں دی جانی چاہیے۔ مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی بنیادی حقوق میں سےہے اس کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ ایک سماج کےلیے کیا منطقی ہے اورغیرعقلی کیا ہے اس کا فیصلہ اپنے فکر و فہم کی بنیاد پروہی کرےگا۔ کوئی دوسرا انسان یا ادارہ اس کو یہ کہہ کرمجبور نہیں کرسکتاچونکہ یہ بات ہماری عقل سے پرے ہے اس لیے اسے مسترد کرنا تم پر لازم ہے۔
جسٹس اندو ملہوترا کو اندازہ تھا کہ انہیں کس قسم کے اعتراضات سے سابقہ پیش آئے گا اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ لکھ دیا کہ ’’ستی جیسی ظالمانہ اور استحصالی سماجی برائی کے خاتمہ کے لیے عدالت مداخلت کرسکتی ہے‘‘۔ اللہ کا فضل ہے کہ دین اسلام ان عیوب سے پاک ہے۔ کاش کہ محترمہ اندو ملہوترا جیسی کوئی سمجھدارجج طلاق ثلاثہ کا فیصلہ کرنے والی بنچ میں بھی شامل ہوتی اور وہ طلاق شدہ خواتین کا درد محسوس کرکے اس فیصلے کی مخالفت کرتی ۔ جسٹس اندو ملہوترا نے اپنے فیصلے میں لکھا’’ مذہبی عقائد، رسوم و رواج کو مداخلت سے پرے سمجھنا چاہیے۔ سیکولر نظام میں عدالت کو ایسے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے جن کا گہرا تعلق عقیدے اور جذبات سے ہوتا ہے‘‘۔
اندو ملہوترا کے فیصلے میں یہ بلا واسطہ اعتراف موجود ہے کہ انتہا پسند سیکولر زم مذہبی امور میں مداخلت کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔ ان کے مطابق سبری مالا میں داخلے پر اصرار کرنے والا ینگ لایر ایسوسی ایشین خود اس عقیدے کا پیروکار نہیں ہے اس لیے اس کی شکایات مبنی برانصاف اور قابل سماعت نہیں ہیں۔ دستور دفعہ۱۴ میں بیان کردہ مساوات کی مشق کی دفعہ ۲۵ میں دی جانے والی مذہبی آزادی پر فوقیت نہیں رکھتی ۔ درجنوں ایپاّ کے مندروں میں سے صرف ایک میں خواتین پر پابندی ہے اس لیے اسے عدم مساوا ت پر محمول نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ سچ تو یہ ہے اندو ملہوترا کے منطقی دلائل کو مساواتِ مردو زن کاشور مچانے والے مردوں نےاپنی قاہرانہ اکثریت و عصبیت کے قدموں تلے روند دیا۔
مذکورہ فیصلے کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو وہ طلاق ثلاثہ کے فیصلے سے بھی زیادہ سنگین نظر آتا ہے۔ طلاق ثلاثہ کی بینچ میں کل پانچ جج تھے ۔ ان میں سے تین بشمول چیف جسٹس نے پرسنل لاء میں مدا خلت کی مخالفت کی تھی ۔ منصفِ اعظم کیہر نےسرکار سے قانون سازی کی جو درخواست کی تھی وہ ان کے فیصلے کی روشنی میں شریعت کے حدود کے اندر ہونی چاہیے تھی ۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ شریعت کے ماہرین سے صلاح و مشورہ کرتی لیکن اس نے من مانی کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی مذموم کوشش کی ۔ اس معاملے میں جسٹس جوزف کا فیصلہ گوکہ طلاق ثلاثہ کے خلاف تھا لیکن اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے اسے شریعت اسلامی سے متصادم پایا اور اس کے رائے حق میں دلائل پیش کئے ۔
یہ صرف جسٹس نریمن کی تنہا رائے تھی کہ اگر کوئی شرعی قانون انسانی حقوق سے ٹکراتا ہو تووہ قابلِ رد ہے۔جسٹس للت نےاس کی خاموش تائید کردی تھی۔ اس طرح شریعت میں مداخلت کے خلاف دو اور حمایت میں تین رائے تھیں ۔ اس کے برخلاف سبری مالا معاملے میں چار جج مذہبی معاملات میں مداخلت کے حق میں تھے اور صرف ایک نے اس کے خلاف فیصلہ لکھا۔
یہ عجیب تماشہ ہے کہ جس ملت کے پاس کامل و بہترین شریعت ہے اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کمتر قانون کی پیروی کرو لیکن سبری مالا میں عدالت کے ذریعہ فروتر قرار دیئے جانے والے قدیم رسوم و رواج سےآزادی دلانے میں مقننہ و انتظامیہ بے بس و مجبور دکھائی دیتے ہیں ۔
عدالت کے بہت سے فیصلے شریعت کے خلاف ہوتے رہےہیں ۔ ان میں دفعہ ۱۴ یعنی مساوات مرد و زن کا حوالہ دیا جاتا تھا اس لیے مسلمان اس کے خلاف جو کچھ کہتے تھے وہی بات اس بار بی جے پی صدر امیت شاہ کو کہنی پڑی۔ انہوں نے کہا مساوات کی بات کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ آئین میں دفعہ ۲۵ اور ۲۶ بھی ہے جو ہر شہری کے لیے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق تسلیم کرتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس بنیادی حق کو کیسے سلب کیا جاسکتا ہے؟ کاش کہ یہ بات پرسنل لاء کو ختم کرنےکا مطالبہ کرنے والے سنگھ پریوار کی سمجھ میں پہلے آجاتی تو وہ یکساں سول کوڈ کامطالبہ نہ کرتا ۔ امیت شاہ نے کئی عدالتی فیصلوں کی یاددہانی کرائی جن کو نافذکرنے کی جرأت کوئی حکومت نہیں کر سکی مثلاً جلی کٹوّ، مساجد پر لاوڈاسپیکر،وارانسی میں شیعہ سنی قبرستان کا تنازعہ،گوکل اشٹمی کے موقع پر دہی ہنڈی کی اونچائی وغیرہ۔ وہ چاہتے ہیں کہ سبری مالا کے فیصلے کو بھی انہیں ناقابل عمل فیصلوں میں شامل کردیا جائے۔ انہوں نے عدلیہ کو جب ایسے فیصلوں سے گریز کرنے کی تلقین کی تو اسے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت گردانا گیا۔ اس کے سبب امیت شاہ پر سیتا مڑھی میں بغاوت کا مقدمہ بھی درج ہوگیا ۔ حقیقت یہی ہےکہ اسلامی شریعت سے متصادم قوانین کبھی نافذالعمل نہیں ہوتے، اس لیے کہ وہ انسانی فطرت سے ٹکراتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2019