اس سلسلۂ مضامین میں جدید الحاد کے نمایاں ترین ناموں کے ان علمی رویوں کا تجزیہ اور ان پر تنقید پیش کی جا رہی ہے جو ان کی کتابوں کے علاوہ ان کے مضامین، یوٹیوب لیکچروں، ٹویٹ اور مذاکروں کے دوران سامنے آتے ہیں۔ اس سلسلے کی دو کڑیاں اس سے قبل پیش کی جا چکی ہیں جن میں رچرڈ ڈاکنز اور کرسٹوفر ہچنز کے رویوں کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا۔ زیرِ نظر مضمون میں جدید الحاد کے تیسرے گھڑ سوار سیم ہیرس کے بیانات کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ تجزیہ اس غیر علمی رویے کی نشان دہی کرتا ہے جو سیم ہیرس بالعموم مذہب کے بارے میں اور بالخصوص اسلام کے بارے میں روا رکھتے ہیں۔
جدید الحاد کے چار بڑے ناموں میں غالباً سب سے زیادہ گہرے اور فکری سوالات، بطورِ خاص اسلام کے تعلق سے، سیم ہیرس نے ہی اٹھائے ہیں۔
انھوں نے نیوروسائنس میں پی ایچ ڈی کی ہے اور نیورو سائنس میں بھی ان کا تخصص مذہبی اعتقادات، روایات، مذہبی شعار اور ان سب کی نیورو سائنٹفک تشریح و توجیہ پر ہے۔ غالباً اسی لیے ان کی تحریروں میں مذاہب اور ان سے متعلق معاملات کے متعلق قدرے گہرائی ضرور محسوس ہوتی ہے، تاہم سائنسی فریم ورک کے اعتبار سے جب وہ مذہب جیسے پیچیدہ موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ اسی مشہوداتی تجربیت (empiricism)کا شکار ہو جاتے ہیں جسے اب سائنسی حلقوں میں بہت سی وجوہ سے قابلِ اعتنا علمی رویہ نہیں سمجھا جاتا۔
سیم ہیرس نے مذہبی اعتقادات اور انسانی اخلاقیات کا تجزیہ سائنسی فریم ورک میں کرنے کی کوشش کی، اور اپنی کتابوں کے ذریعے عوامی دانش کے میدان میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ ان کی کتاب (The End of Faith 2004) نے نہ صرف انھیں عالمی شہرت دلائی، بلکہ مغرب میں مذہب، دہشت گردی، عقل اور اخلاقیات کے ربط پر ایک بڑے مباحثے کی بنیاد بھی رکھ دی۔ [1]
ان کے بھرپور علمی سفر کے احترام کے باوجود، ان کی علمی تگ و دو کا سب سے متنازع اور قابلِ تنقید پہلو اسلام کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر ہے۔
سیم ہیرس نے اسلام کو ’’وال آف میڈیول اگنورنس‘‘ [عہدِ وسطیٰ کی دیوارِ جہالت] کے نام سے کہا۔ اسی طرح سے وہ قرآن کو محمد ﷺ کے ذریعے تصنیف کی گئی کتاب مانتے ہیں۔ اسلام کو ازمنہ وسطیٰ کی انسانی تاریخ کا ایک وحشیانہ مذہب تصور کرتے ہیں۔ ان سب کا تذکرہ ان کی مختلف ویڈیو میں موجود ہے۔ اسی طرح روایتی جدید ملحدین کی طرح وہ اسلام کو بارہا ’’متشدد‘‘، ’’خطرناک‘‘ اور ’’مہلک‘‘ مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔[2]
بنیادی سوال یہ ہے کہ ہیرس کے یہ دعوے کس حد تک علمی، تاریخی، متن شناس اور سماجیاتی تحقیق کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں؟ اور کس حد تک یہ انشا پردازی (rhetoric) اسلامو فوبیا اور ثقافتی تعصبات (cultural biases)سے متاثر ہیں؟
ذیل کی سطور میں ہم ان کے دلائل کا تفصیلی تنقیدی جائزہ لیں گے، تاکہ واضح ہو سکے کہ ان کے مؤقف میں کون سے علمی خلا موجود ہیں اور کس طرح ان کا نقطۂ نظر مغربی سیکولر قدروں کی مرکزیت اور مذہب کو ایک یک سنگی کارِ عظیم (monolithic enterprise) باور کرانے جیسی مغالطہ انگیزیوں سے پُر ہے۔
اسلام کی یک رخی تصویر
سیم ہیرس کے مختلف ویڈیو کو دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ سیم ہیرس بنیادی طور پر دیگر الحادی گھڑ سواروں کے برعکس ایک مختلف زاویے سے اسلام کو دیکھتے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف تشدد پسند تنظیمیں، مختلف گروہ اور اسلام کی متشدد تعبیریں رکھنے والے افراد اور تنظیمیں امریکہ یا دیگر استعماری قوتوں کے مختلف اقدامات کی وجہ سے وجود میں آ سکتی ہیں اور آئی ہیں اور ان تمام مظاہر کی ایک وجہ وہ جنگیں بھی ہیں جو امریکہ اور یورپ نے مشرق وسطیٰ اور دیگر اسلامی ممالک پر تھوپی ہیں۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر وہ کہتے ہیں کہ دراصل اسلامی تعلیمات میں بجائے خود وہ عناصر موجود ہیں جن کی بنا پر وہ تشدد کو جنم دے سکتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات صحیح ہے کہ اسلام میں امن کی تعلیم بھی دی گئی ہے، لیکن اسلام کے فکری اور اعتقادی ڈھانچے میں اس طرح کے بنیادی عناصر موجود ہیں جو تشدد پسندی کے لیے میدان فراہم کرتے ہیں۔ بطورِ خاص قران مجید اور دیگر احادیث میں ’شہادت‘ کے تصورات اور اس کے بدلے میں جنت کے وعدوں سے متعلق اس طرح کی تعبیریں موجود ہیں جن کی بنا پر ایک مسلمان بآسانی تشدد پسندی کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔[3]
ہیرس کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ اسلام بذاتِ خود تشدد کو جنم دیتا ہے۔ اپنے ویڈیو کے علاوہ اپنی کتاب ’اینڈ آف فیتھ‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’اسلام دیگر مذاہب کے مقابلے زیادہ پرتشدد ہے، اور اپنے پیروکاروں کو شدت پسندی کی طرف مائل کرتا ہے۔‘‘ یہ دعویٰ بظاہر سادہ ہے، مگر علمی طور پر نہایت کم زور ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں:
(الف) مسلم دنیا کے تنوع کو نظرانداز کرنا
دنیا بھر کے قریب دو ارب مسلمان ایک ہی طرح نہیں سوچتے، نہ ہی ایک ہی طرح کا ردِ عمل دیتے ہیں۔ ان کے معاشرے، تاریخی پس منظر، سیاسی تجربے اور فقہی روایات مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر:
مراکش، الجزائر اور تیونس کے مالکی معاشرے،
ترکی کا نسبتاً سیکولر، عثمانی ورثہ رکھنے والا سماج،
انڈونیشیا اور ملیشیا کا صوفیانہ و تکثیری مزاج معاشرہ،
ایران کا شیعی مذہبی ڈھانچہ، اور
جنوبی ایشیا کی فقہی، روحانی اور فلسفیانہ قدیم روایات
ان تمام معاشروں میں اسلام کی تعبیر بالکل یکساں نہیں ہے۔
ہیرس اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں اور ایک ’’واحد اسلام‘‘ کی ایسی ساخت بناتے ہیں جس کی حقیقی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
(ب) متن کی طرح تاریخ بھی تنوع رکھتی ہے۔
ہیرس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مذہبی متون کو سیاق و سباق کے بغیر پڑھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن میں قتال کے احکام جنگی حالات، ریاستی تنازعات یا دفاعی معرکوں کے سیاق میں نازل ہوئے تھے۔ دوسری طرف قرآن بارہا عفو، صلح، رواداری، برداشت اور عدل کی تعلیم دیتا ہے۔
لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّین دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔
قَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ الَّذِینَ یقَاتِلُونَكُم اللہ کے راستے میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں۔
وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوتے ہیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہو جائیں۔
ہیرس ان آیات کا ذکر نہیں کرتے، بلکہ قتال کی آیات کو ان کے خاص سیاق و سباق سے الگ کرکے عمومی انسانی رویوں پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ علمی دیانت کے اعتبار سے انتہائی کم زور رویہ ہے۔
منطقی توسیع (logical extension)کا دعویٰ ایک کم زور مفروضہ
’A Letter to a Christian Nation‘ نامی اپنی کتاب میں وہ کہتے ہیں کہ مسلمان اپنے مذہب کے ذریعے پیدا کردہ سوچ کی منطقی توسیع کا کام انجام دیتے ہیں جب وہ معصوم بے گناہوں کو اسلام کے نام پر قتل کرتے ہیں۔
یہاں دو بنیادی کم زوریاں ہیں:
(الف) ‘دہشت گرد اسلام’ کا مفروضہ
ہیرس فرض کر لیتے ہیں کہ اسلام کی ایک ایسی ’حقیقی‘ یا ’اصل‘ تعبیر موجود ہے، اور صرف وہی تعبیر مختلف قسم کے تشدد پرآمادہ گروہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اس طرح سیم ہیرس اس عظیم تر علمی ورثے سے آنکھیں چرا لیتے ہیں جو اسلام کے متعلق پورے تاریخی تسلسل کے ساتھ موجود ہے اور جسے مسلمانوں کی عظیم اکثریت مانتی ہے، اور یہ وہ اسلام ہے جو کتاب و سنت کے حوالے سے عام مسلمانوں کے سماجی فہم میں بہت واضح انداز میں راسخ ہے۔
سیم ہیرس کا یہ مفروضہ کہ اسلامی تعلیمات بنیادی طور پر اپنے اندر ایسے عناصر رکھتی ہیں جن کی بنا پر وہ عام مسلمانوں کو تشدد کی طرف آمادہ کرتی ہیں، بجائے خود غلط مفروضہ ہے، کیوں کہ
اسلام میں ہمیشہ فکری تنوع رہا ہے۔
اسلام میں مختلف فقہی مکاتب ہیں جیسے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، جعفری
اسی طرح اسلام میں مختلف کلامی مکاتب (جیسے اشعری، ماتریدی، معتزلی، سلفی) موجود ہیں، جنھوں نے مختلف نصوص کی تشریح ان کے سیاق و سیاق اور اسی طرح کے دیگر علمی مناہج کے لحاظ سے کی ہے۔
اسی طرح اسلام کی 1400 سالہ تاریخ میں عظیم الشان صوفیانہ روایات اور فلسفیانہ تعبیرات موجود رہی ہیں۔
ان تمام سے صرف نظر کر کے بس کسی متشدد گروہ (جو کہ مسلمانوں میں غالباً اقلیت کی بھی حیثیت نہیں رکھتا) کی تعبیر پر تکیہ کرتے ہوئے پورے عظیم الشان علمی ورثےکو یکسر نظر انداز کر دینا علمی طور پر انتہائی بودے پن کی نشانی ہے۔ لیکن سیم ہیرس ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آیتوں کی سیاق و سباق سے قطعِ نظر بھی تشریح کی جا سکتی ہے اور وہ تشریح یہ ہے کہ کافر جہاں پائے جائیں ان کو کاٹا جائے، مارا جائے، اور شہید ہونے کے نتیجے میں جنت ملے گی چاہے یہ شہادت معصوم لوگوں کو قتل کر کے ہی حاصل کیوں نہ ہو۔
حالاں کہ یہ سب بہت ہی سطحی قسم کی باتیں ہیں۔ اسلام میں شہادت، جہاد، جنت و دوزخ، وغیرہ سینکڑوں تعبیرات اپنا خاص مفہوم اور مخصوص سیاق رکھتی ہیں۔ یہ بڑی افسوس ناک بات ہے کہ سیم ہیرس سائنسی ورثے کے علم بردار ہونے کے باوجود اس طرح کی سطحی قسم کی گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، حالاں کہ وہ یہ بات غالباً خوب سمجھتے ہوں گے کہ سماجی علوم میں کسی بھی متن کو پڑھنے کا ایک خاص طریقہ ہے جس پر تمام تر سماجی محققین کا اتفاق ہے۔ وہ یہ ہے کہ عبارت کو اس کے سیاق و سباق میں پڑھا جائے گا، اور عبارت کی مختلف تعبیرات کی ارتقائی شکلیں دیکھی جائیں گی- اسی طرح عبارت اگر کسی شخص سے جڑی ہے تو اس شخص کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جائے گا اور اس سے جڑے انفرادی رویے دیکھے جائیں گے۔ اسی طرح عبارت کی تفہیم کے لیے فنِ تشریح (hermeneutics) کا استعمال کیا جائے گا۔ الفاظ اور معانی کے مفہوم متعین کرنے میں تاریخی، سماجی اور سیاسی ماحول کو ملحوظ رکھا جائے گا، نہ کہ ان تمام چیزوں سے صرفِ نظر کر کے عبارت سے بس اپنے مطلب کے معنی نکالے جائیں گے۔ ان تمام مسلمہ سماجی سائنسی علوم کے اصول و ضوابط کے برعکس سیم ہیرس قرآن مجید سے چن چن کر کے (cherry picking) آیتیں لاتے ہیں اور اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہی میں تشدد کی آمیزش ہے۔
(ب) سماجی و سیاسی عوامل کو نظر انداز کرنا
سماجی سائنس کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ غربت، نا انصافی، غیر ملکی مداخلت، آمریت، سیاسی محرومیاں، جنگیں، کسی سیاسی نظام یا سیاسی نظریے کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش، معدنیات اور دیگر وسائل کے لیے کم زور اقوام کو دبا لینا، ان کی معدنیات اور ان کے وسائل پر ناجائز قبضہ اور تصرف رکھنا، رکازی ایندھنوں اور دیگر زمینی خزانوں کو غصب کرنے کے لیے دوسرے ممالک پر استعماریت قائم کرنا، یہ سب وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سے بے چینی، بد امنی اور تشدد جنم لیتے ہیں۔ سماجی تحقیق میں یہ تمام محرکات تشدد کی مسلمہ وجوہ رہی ہیں۔ ان سب سے صرفِ نظر کر کے سیم ہیرس مسلمانوں میں شدت پسندانہ سوچ کے لیے قرآن کی مختلف آیات کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹا کر ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
پرانے اعتراضات کا اعادہ
سیم ہیرس آج یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ قرآن کے مصنف محمدﷺ ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی دعوت پیش کی تھی تو بالکل سیم ہیرس کے انداز میں اس وقت کے لوگوں نے کہا کہ یہ قرآن تو محمدﷺ نے خود گھڑ لیا ہے۔ بعد کے مستشرقین نے اللہ کے رسولﷺ پر یہ الزام بھی لگایا کہ محمدﷺ نے یہ کتاب انجیل اور تورات کو ملا جلا کر بنا لی ہے۔ اب یہی الزام سیم ہیرس جیسے دوسرے افراد دوہراتے ہیں۔[4] اسی طریقے سے اس وقت کے منکرین نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگر اللہ اتنا ہی سچا ہے، تو وہ بالکل واضح نشانی ان کے سامنے کیوں نہیں لا دیتا۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ سیم ہیرس نے اپنے ایک ویڈیو میں بعینہٖ اسی بات کا تذکرہ کیا ہے کہ اگر اسلام اور اللہ سچا ہے تو وہ کوئی نشانی اس پورے مجمع کو دکھا دے تاکہ وہ سب جہنم میں جانے سے بچ جائیں۔[5]
سوقیانہ بیانیے اور علمی استدلال کی جگہ زورِ خطابت
سیم ہیرس نے 2014 میں بل ماہر کو ایک انٹرویو دیا تھا۔[6] جس میں انھوں نے ایک ایسا جملہ کہا جس سے ان کی علمی سطح کی قلعی کھل گئی، اور انھوں نے ثابت کردیا کہ خوب صورت الفاظ، بہترین پیش کش، اور جدید ترین اسلوب کے نقاب کے پیچھے ایک تعصب زدہ ذہن کار فرما ہے۔ انھوں نے کہا کہ “Islam, at the moment, is the motherlode of bad ideas.”[ فی زمانہ اسلام ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے]۔ یہ محض جملہ بازی ہے، بلکہ یہ جملہ ثقافتی استعماریت کا عکاس ہے اور علمی مکالمے کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ ایک ارب انسانوں کے ذریعے پریکٹس کیے جانے والے دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک کو یہ کہہ کر رد کرنا چاہتے ہیں کہ یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے تو یہ صرف اور صرف آپ کے تعصب کا اظہار ہے۔ اس کے اندر علمیت ذرہ برابر بھی نہیں ہے۔ اگر ایک ارب انسانوں کے مذہب کو آپ صرف برائیوں کو جنم دینے والی ماں کہیں گے تو مذہب اور انسانیت پر اس کے مثبت اثرات کے لحاظ سے ہونے والی علمی کاوشوں کو آپ کس خانے میں رکھیں گے؟ یا تعصب کی بنا پر سب سے آنکھیں موند لیں گے؟
سیم ہیرس نے ایٹمی جنگ کے موضوع پر یو ہیوڈ کو دیئے گئے انٹرویو میں ایک عجیب و غریب اور انتہائی مضحکہ خیز بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ اگر دنیا میں ایٹمی جنگ ہوگی تو اس کی ذمہ داری صرف اور صرف اسلام پر ہوگی۔ یہ سراسر جہالت پر مبنی ایک بھیانک مغالطہ ہے۔ یہ دعویٰ تاریخی طور پر غلط، منطقی طور پر کم زور اور سماجیاتی لحاظ سے بے بنیاد ہے۔ اسے ایک اسلامو فوبک بیانیے کی شکل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ دنیا میں اب تک کے تمام تر ایٹمی تجربات مسلم دنیا کے باہر ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کی لابی اور پوری دنیا میں موجود استعماری نظام ایٹمی قوت کی بنیاد پر چھوٹے ممالک کو دبا کر رکھتا ہے اور ان کی معدنیات اور وسائل پر قبضے جماتا ہے اور سیم ہیرس مسلمانوں پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اگر ایٹمی جنگ ہوگی تو یہ اصل میں مسلمانوں کی وجہ سے ہوگی۔ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے۔اصل میں سیم ہیرس ایک بنیادی اور بالکل واضح حقیقت سے تجاہلِ عارفانہ برت رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں طاقت کا توازن دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اپنی بنیادی حیثیت میں ٹیکنالوجی اور ایٹمی قوت سے جڑا ہے اور اس طاقت کے توازن میں مسلمانوں کی حصہ داری انتہائی معمولی ہے۔
سیم ہیرس کے مختلف ٹویٹ اور ویڈیو کا تجزیہ کرنے سے ایک اہم انکشاف ہوتا ہے اور وہ یہ کہ دراصل وہ مغربی متعصبانہ طرزِ فکر کے شکار ہیں۔ سماجیات کی زبان میں اسے ثقافتی ماہیت پسندی (cultural essentialism)کہا جاتا ہے۔ مثلًا ان کے اکثر دلائل کا تجزیہ اگر آپ کریں گے تو یہ محسوس ہوگا کہ مغربی اقدار ’معقول‘ہیں، مذہب ’غیر معقول‘ ہے اور اسلام ’خطرناک‘ ہے۔ اعتدال پسند مسلمان بھی ’مسئلے کا حصہ‘ ہیں کیوں کہ وہ اسلام کی ان تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں جو مسلمانوں میں’تشدد‘ پیدا کرتی ہیں اور مسلمانوں کی’سوچ کا دھارا‘ تشدد کے لیے نرم کرتی ہیں۔
ثقافتی عمرانیات میں یہی اصل میں ثقافتی ماہیت پسندی کہلاتا ہے، جس میں یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ کسی ثقافت یا مذہب کو ایسے یک سنگی وجود (monolithic entity)میں دیکھنا جو تاریخی جغرافیائی اور فکری تنوع سے خالی ہو۔ یہ رویہ اصل میں آبادیاتی علمیات (colonial epistemology)کے بہت قریب ہے جس میں مغرب کے علاوہ ہر قسم کے مذہب و ثقافت کو، مغربی علم کے علاوہ ہر دوسرے علم کو اور مغربی اخلاقیات کے علاوہ ہر دوسری اخلاقیات کو کم تر اور بے کار تصور کیا جاتا ہے، بلکہ در حقیقت اسے لائقِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔
مذہب کی اخلاقی جہات کا انکار
ہیرس کا ایک اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ مذہب کے مثبت، اخلاقی، ترقی یافتہ اور انسان دوستی پر مبنی پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں۔ وہ مذہب کو بنیادی طور پرصرف ’’جنگ، دہشت، جہاد‘‘ کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب اسلام کی اخلاقی روایت، مقاصدِ شریعت، عدل، احسان اور مساوات کے اصول، انسانی جان کی حرمت، صلحِ حدیبیہ جیسے تاریخی واقعات، علمی و سائنسی ترقی کا اسلامی ورثہ، اسلام کے وہ پہلو ہیں جنھیں ہیرس کبھی موضوعِ گفتگو نہیں بناتے۔
مغربی سیکولر اخلاقیات کی مطلقیت: ایک فلسفیانہ مسئلہ
‘ The Moral Landscape’میں ہیرس دعویٰ کرتے ہیں کہ اخلاقیات کی تعیین سائنس کر سکتی ہے۔[7]
اس دعوے پہ ہم نے اپنی کتاب سائنس، سائنس پرستی اور اسلام میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔
یہ دعویٰ فلسفے کی دنیا میں نہایت کم زور سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ:
سائنس’ہونا‘ بتاتی ہے، ’ہونا چاہیے‘ نہیں۔
تجربہ اخلاقی قدر پیدا نہیں کر سکتا۔
اخلاقیات ہمیشہ ثقافت، تاریخ اور روحانی تصورات سے معنی اخذ کرتی ہے۔
اسلام کی اخلاقی روایت میں بھی نیت کی پاکیزگی، تقوی و پرہیزگاری، عدل و قسط، احساسِ ذمہ داری، معاشرتی بھلائی، جیسے عناصر شامل ہیں جنھیں سائنسی طریقہ کار سے ناپا نہیں جاسکتا۔
ہیرس کا ماننا ہے کہ مذہب اخلاقیات کو’خراب‘ کرتا ہے، مگر وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ آج بھی دنیا کی بڑی بھلائی کے کام مذہبی اخلاقیات سے ہی جڑے ہیں، جیسے چیریٹی، اوقاف، مساجد اور گرجا گھروں کا سماجی کردار، بحرانوں میں فلاحی کام وغیرہ۔
خلاصہ کلام
ہیرس کی اسلام پر تنقید محض لفاظی اور انشا پردازی ہے۔ اگر ہیرس کے مجموعی استدلال کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی بنیادی خامیاں سامنے آتی ہیں:
اسلام کو یک سنگی تعبیر کے آئینے سے دیکھنا۔
دہشت گردی کے لیے سیاسی و سماجی اسباب کو اکثر نظر انداز کرنا۔
قران کی آیات کو بغیر سیاق و سباق کے دہشت گردی کے لیے زرخیز زمین فراہم کرنے والی بتانا۔
مسلمانوں کی عظیم ترین اکثریت کو جو اس طرح کی آیات کو اس کے درست سیاق و سباق میں پڑھتے ہیں اور عام طور پر امن پسند اور معتدل مزاج ہوتے ہیں، سرے سے کوئی اہمیت نہ دینا، بلکہ معتدل مسلمانوں کی اس عظیم اکثریت کو بھی مسئلے کا حصہ بتانا کیوں کہ وہ ان آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
ثقافتی تعصب سے بھرپور جملے استعمال کرنا اور بنیادی اور مسلمہ سماجی تحقیقی اصولوں سے صرف نظر کر کے محض کلچرل اسینشلزم کا شکار ہو کر مختلف نتائج پیش کرنا۔
مغربی اقدار کو واحد اخلاقی معیار بنانا۔
دو ارب مسلمانوں کی شان دار تاریخی روایت کو ’’bad ideas‘‘ کہنا۔
یہ تمام نکات ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی تنقید زیادہ تر تعصب اور ثقافتی جانب داری پر قائم ہے، نہ کہ علمی تحقیق کی اساس پر۔
اگر ہیرس علمی راستہ اختیار کرتے، وہ اسلام کے اندرونی تنوع کا اعتراف کرتے، عبارتوں کو ان کے سیاق کے ساتھ پڑھتے، فرقہ وارانہ، تاریخی اور تہذیبی تنوع کا مطالعہ کرتے، سیاسی و سماجی عوامل کو پیش نظر رکھتے، انتہاپسندی کی بنیادوں پر جدید علمی تحقیقات کا مطالعہ کرتے، اور جذباتی و طنزیہ زبان سے گریز کرتے، تو ممکن تھا کہ ان کی تنقید اس لائق ہوتی کہ اسے علمی گفتگو کا موضوع بنایا جاتا، مگر ان کا موجودہ بیانیہ فکری عدم توازن کا شکار ہے، جو علمی مکالمے کے بجائے عوامی بیانیے کے لیے موزوں ہے۔
اگر مغربی دنیا میں مذہب اور عقل کے درمیان بامعنی مکالمہ درکار ہے تو ضروری ہے کہ اسلام کو ’برائیوں کی جڑ‘ کہنے کے بجائے اس کی فلسفیانہ، تاریخی اور نصوصی حقیقتوں کو سمجھا جائے۔ اسی میں جدید دنیا کی فکری سلامتی اور باہمی احترام کا راستہ پوشیدہ ہے۔
حوالہ جات
- Harris, S. (2004). The end of faith: Religion, terror, and the future of reason. W. W. Norton & Company.
- https://www.youtube.com/watch?v=vln9D81eO60
- https://www.youtube.com/shorts/Gk_rLU-cK0E
- Harris, S. (2006). Letter to a Christian nation. Knopf.
- https://www.youtube.com/shorts/x97Vt2kc2YU
- https://www.youtube.com/watch?v=vln9D81eO60
- Harris, S. (2010). The moral landscape: How science can determine human values. Free Press.
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2025






