سائنس – معنویت، تصورات اور طریقِ کار

سائنس کی اصطلاح محدود معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے اور وسیع معنوں میں بھی۔ وسیع معنیٰ لیے جائیں تو سائنس کے موضوع میں اشیائِ کائنات، ذی حیات مخلوقات اور انسانی سماج، سب شامل ہیں۔ البتہ محدود معنیٰ کے لحاظ سے سائنس کے دائرۂ بحث و جستجو میں اشیائِ کائنات شامل ہیں اور جانداروں کی زندگی کے وہ پہلو جو طبیعی (Physical) نوعیت رکھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر سائنس کے محدود مفہوم میں انسانی شخصیت اور انسانی سماج سے متعلق مباحث کو شامل نہیں کیا جاتا۔ سائنس کے محدود معنیٰ کے لحاظ سے علوم کے یہ شعبے ، سائنس سے متعلق سمجھے جاتے ہیں:  طبیعیات (Physics)، کیمیا (Chemistry)، طبقات الارض (Geology)، فلکیات (Astronomy)، اور حیاتیات (Biology)۔ اصولاً ’سائنس‘ نامی اصطلاح میں معلومات کا انطباق (Applications)یا استعمال شامل نہیں ہے بلکہ اس انطباق یا استعمال کو ٹکنالوجی (Technology) کہا جاتا ہے۔ تا ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کا رشتہ بڑا گہرا ہے۔ بہت سی تحقیقات ایسی ہیں جن کو سائنسی مباحث کا حصہ بھی سمجھا جا سکتا ہے اور ٹیکنالوجی کی پیش رفت کا بھی۔ البتہ سائنس سے زندگی اور تصور کائنات کا تعلق سمجھنے کے لیے اچھا یہی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے درمیان فرق کو واضح طور پر سامنے رکھا جائے اور ان دونوں کو ایک نہ سمجھا جائے۔

بنیادی تصورات

انسان کی علمی کاوشیں ہوں یا عملی سرگرمیاں، بہر حال ان کا رخ اس تصور کائنات سے متعین ہو تا ہے جسے انسان نے شعوری یا غیر شعوری طور پر اختیار کیا ہوا ہے۔ پچھلی تین صدیوں میں مغربی دنیا میں سائنس کا جو ارتقاء ہوا، وہ زیادہ تر ملحدانہ تصور کائنات کے تحت ہوا۔ یعنی سائنس کے فلسفے میں یا تو خدا کا انکار کیا گیا یا خالق کائنات کے وجود کا اقرار کرنے کے باوجود اسے کائنات کا حاکم، مدبر اور منتظم تسلیم نہیں کیا گیا۔ تاہم مغربی سائنس ، اشیائِ کائنات سے متعلق علم حاصل کرنے کے لیے، کچھ بنیادی تصورات کو اساسی (Basic) قرار دیتی ہے۔ بالفاظ دیگر ان تصوارت کے بدیہی (Obvious) ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ گویا وہ ثبوت کے  محتاج نہیں بلکہ انسانی ذہن ان کی معقولیت کا وجدانی (Intuitive)  سطح پر ادراک کر لیتا ہے۔ مغربی فلسفۂ سائنس کے نزدیک یہ ادراک ان تصورات کو مان لینے کے لیے کافی ہے۔ مغربی سائنس کے یہ اساسی تصورات درج ذیل ہیں:

(الف)اشیائِ کائنات اپنے متعین خواص (Characteristics) رکھتی ہیں، جن کو مشاہدے (Observation)  کے ذریعہ جانا جا سکتا ہے۔

(ب) کائنات کی اشیاء کے درمیان تعامل (Interaction)، بعض قوانین کے تحت ہوتا ہے۔ ان قوانین (Laws of nature) کو بھی مشاہدات پر مبنی غورو فکر کے ذریعے دریافت کیا جا سکتا ہے۔

(ج) کائنات میں پیش آنے والی تبدیلیوں میں سبب (Cause) اور نتیجے (Effect)  کا تعلق ہوتا ہے۔ اس تعلق کی نشان دہی، مذکورہ بالا قوانین فطرت کا ایک اہم پہلو ہے۔ تاہم سارے فطری قوانین ایسے نہیں ہیں جو محض سبب اور نتیجے کے بیان پر مشتمل ہوں۔ ایسے قوانین فطرت بھی موجود ہیں جو مجموعی صورت حال کو بیان کرتے ہیں (جو اسباب کے تنوع کے باوجود نہیں بدلتی) اس کی ایک مثال کائنات میں موجود توانائی (Energy) کی کُل مقدار کے یکساں رہنے کا قانون ہے۔ اس کو توانائی کی بقا کا اصول کہا جاتا ہے۔ یعنی Law of Conservation of Energy۔  اس کے مطابق توانائی شکلیں تو بدلتی ہے  (کبھی روشنی کی شکل اختیار کرتی ہے تو کبھی حرکت کی) لیکن اس کی کُل مقدار نہیں بدلتی۔ یہ اصول، سبب اور نتیجے کی اصطلاحوں سے بالا تر ہے۔ (ان اصطلاحوں کی زبان میں اس اصول کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔)

اسلامی تصور کائنات سے استنباط

پچھلی دو صدیوں کے دورِ غلامی سے پہلے، مسلمان بھی سائنس کے میدان میں تحقیقی سرگرمیاں انجام دے رہے تھے۔ یہ سائنسی کاوشیں ، اسلامی تصور کائنات کے تحت انجام پا تی تھیں۔ اسلام کا تصور کائنات مندرجہ بالا تین باتوں کا قائل ہے۔ (جن کو مغربی سائنس کے بنیادی تصورات کے تحت ہم نے بیان کیا ہے۔)  البتہ ملحدانہ تصور کائنات، ان تصور ات کی کوئی توجیہ نہیں کر سکتا۔ اسلامی تصور کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان تصورات کی توجیہ پیش کرتا ہے۔

ان تصورات کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ اشیائِ کائنات، متعین خواص کی حامل ہیں۔ ان خواص کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مشاہدے پر غورو فکر کے ذریعے ، علم کا حصول ممکن ہے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اسباب کے ذریعے  نتائج کو ظہور میں لاتا ہے۔ مندرجہ ذیل آیاتِ قرا?نی سے ان امور پر روشنی پڑتی ہے۔

(الف) بعض مثالوں کے ذریعے قرآنِ مجید نے بتایا ہے کہ اشیاء میں متعین خواص موجود ہیں:

وَأَوْحٰی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتاً وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَo ثُمَّ کُلِی مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً یَخْرُجُ مِن بُطُونِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیْہِ شِفَاء ٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ   o(النحل:۶۸-۶۹)

’’ اور دیکھو ! تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی ہے کہ پہاڑوں میں اور درختوں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے بنا،  اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے، جس میں شفاء ہے لوگوں کے لیے۔ یقینااس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔ ‘‘

یہاں شہد کا خاصہ بتایا گیا ہے کہ اس میں انسانوں کے لیے شفاء ہے۔

وَأَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَأْسٌ شَدِیْدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ  (الحدید:۲۵)

’’ اور ہم نے لوہا اتارا، جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔‘‘

یہاں لوہے کی خاصیت یعنی مضبوطی کا ذکر ہے، جس کی بنا پر وہ لوگوں کے کام آتا ہے۔

(ب) قرآن مجید بتاتا ہے کہ کائنات کے ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کر دیا گیا ہے۔

فَقَضَا ہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ وَأَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَائِ  أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَائَ  الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظاً ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِo  )حم سجدہ: ۱۲)

’’تب اس (اللہ) نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا۔ یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے‘‘۔

وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَائً  ثَجَّاجاًo لِنُخْرِجَ بِہٖ حَبّاً وَنَبَاتاًo وَجَنَّاتٍ أَلْفَافاًo     )النباء: ۱۴-۱۶)

’’ اور ہم نے آسمان سے لگاتار پانی برسایا تاکہ اس کے ذریعے سے غلہ اور سبزی اور گھنے باغ اگائیں۔‘‘

یہ ایک مثال ہے جو کائنات میں اسباب اور نتائج کے درمیان تعلق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

(د)  قرآن مجید بتاتا ہے کہ انسان کو آنکھ اور کان کی نعمتوں سے اللہ نے نوازا ہے۔ ان حواس سے مشاہدہ کرکے  اور مشاہدے کی بنیاد پر غور و فکر کرکے انسان علم حاصل کر سکتا ہے۔

وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولٰـئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُولاًo   )بنی اسرائیل: ۳۶)

’’ کسی ایسی  بات کی پیروی نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں۔ یقینا آنکھ، کان اور دل، سب کی بازپرس ہونی ہے۔‘‘

اس آیت کا منشا یہ ہے کہ جب انسان کو سمع، بصر اور فواد کی شکل میں علم حاصل کرنے کے ذرائع حاصل ہیں تو  پھر اسے چاہیے کہ ان باتوں کی پیروی نہ کرے جن کا اسے کوئی علم نہیں ہے۔ اس آیت میں اصل تلقین تو  یہ کی گئی ہے کہ انسان کے رویے کی بنیاد ، علم پر ہونی چاہیے لیکن اس سلسلے میں سمع، بصر اور فواد کے حوالے سے ، ان کے ذرائع علم ہونے کی توثیق ہو جاتی ہے۔

انسان کا رول

کائنات میں قوانین فطرت کی موجودگی کے ادراک کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان قوانین کی موجودگی اور انسان کی آزادیِ عمل میں کیا تعلق ہے؟ بالفاظ دیگر کیا کائنات کے پابند ضوابط ہونے کے معنی یہ ہیں کہ یہاں ہر واقعہ ، قوانین فطرت کی کارفرمائی کی بنا پر خود بخود ہوتا جا رہا ہے۔ اور انسان مجبور محض ہے اور وہ واقعات پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا۔ مغربی سائنس کے فلسفے میں اس سوال پر واضح بحث نہیں ملتی۔ البتہ مغرب کے اہل سائنس کے رویے سے اس سوال کا عملی جواب مل جاتا ہے۔  وہ رویہ یہ ہے کہ سائنسی تحقیق کے لیے قوی اور درست محرک ، ٹیکنالوجی کی ترقی کو قرار دیا گیا ہے۔  ٹیکنالوجی، سائنس کے انطباق  و استعمال ہی کا نام ہے۔ چنانچہ ٹیکنالوجی کے استعمال پر انسان کا قادر ہونا ، اس امر کی علامت ہے کہ انسان کو آزادیِ عمل حاصل ہے۔

انسان کے عمل کرنے کی آزادی کو مان لینے بعد قوانین فطرت اور دنیا میں پیش آنے والے واقعات کے مابین تعلق کی ایسی تعبیر دریافت کی جانی چاہیے جس میں آزادی عمل کی گنجائش نکلتی ہو۔ مغربی سائنس نے اس سلسلے میں دو طرح کی تعبیرات پیش کی ہیں:

(الف) بیسویں صدی سے قبل کی سائنس (اسے روایتی یا Classical کہا جاتا ہے) میں قوانین فطرت  کے علاوہ کسی شیٔ یا اشیاء کے مجموعے کی ابتدائی حالت کو بھی مشاہدہ کا اہم حصہ قرار دیا گیا ہے۔ ابتدا سے مراد مشاہدے کی ابتدا ہے۔ اس کی ایک آسان مثال یہ ہے کہ ایک شخص گیند کو ڈھلان پر رکھ دیتا ہے، ڈھلان میں اونچی سطح پر گیند کی  موجودگی، ا س گیند کی ابتدائی حالت ہے۔ قانون ثقل کے مطابق پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ گیند نیچے کی طرف جانے لگے گی۔  مشاہدے سے اس پیشین گوئی کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اس مثال میں  ابتدا میں ڈھلان کی بلندی پر گیند کو رکھنا انسانی فعل ہے۔ اس کام کو کرنے والا شخص ، آزاد ہے کہ گیند وہاں رکھے یا نہ رکھے۔ بظاہر کوئی قانون فطرت اس شخص کو مجبور نہیں کرتا کہ کیا کرے۔ البتہ جب وہ گیند رکھ دیتا ہے تو قانون فطرت  (یعنی کشش ثقل کا قانون) اپنا کام کرنے لگتا ہے اور گیند کو نیچے لے جاتا ہے۔ اس تعبیر کے مطابق (جس میں شئے کی ابتدائی حالت کو زیر بحث لایا گیا ہے)  انسان کو آزادی عمل ان معنوں میں حاصل ہے کہ وہ اپنے کسی اقدام میں کسی شئے یا اشیاء کی ابتدائی حالت متعین کر سکتا ہے یا ترتیب دے سکتا ہے۔ اس مرحلے کے بعد، انسان کا رول ختم ہو جاتا ہے اور قوانین فطرت کے مطابق نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔

(ب)  بیسویں صدی میں سائنس کے تصورات میں غیر معمولی تبدیلیاں ہوئیں۔ اب انسان کے رول کے بارے میں فہم ، روایتی سائنس پر مبنی فہم سے مختلف ہے۔ بیسویں صدی میں کوانٹم نظریہ (Quantum Concept) سامنے آیا۔ جس کو مغربی سائنس نے مان لیا۔ اس کے مطابق، انسانی مشاہدے کے نتیجے میں، زیر مشاہدہ شئی یا مجموعہ اشیاء کی کیفیت میں تغیر واقع ہو جاتا ہے۔ اس فہم کے مطابق، انسان مجبور محض قرار نہیں پاتا، بلکہ پیش آنے والے واقعات میں انسانی مداخلت، واقعات اور نتائج کو بدل دیتی ہے۔ کوانٹم نظریہ میں یہ بھی سمجھا گیا ہے کہ متوقع نتائج کی قطعی پیشین گوئی ممکن نہیں۔ بلکہ امکانات کا ایک وسیع دائرہ ہے جن میں ہر امکان کا ظہور ممکن ہے۔ اس نظریہ کے مطابق سائنس صرف یہ اندازہ لگا سکتی ہے کہ کس امکان کے ظاہر ہونے کی توقع زیادہ ہے اور کتنی زیادہ ہے۔ انسان کی آزادی عمل تسلیم کر لینے کے بعد، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مابین رشتے کی توجیح ممکن ہو جاتی ہے۔

اسلامی تصور کائنات میں انسان کی حیثیت

اسلامی تصور کے مطابق انسان آزاد ہستی ہے، وہ عمل پر قادر ہے اور اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔

تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُورُo         (الملک: ۱-۲)

’’ نہایت بزرگ و برتر ہے وہ  (اللہ) جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور اور درگزر کرنے والا بھی۔‘‘

اسلامی تصور کائنات انسان کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ کائنات کی بہت سی اشیاء سے خدمت لے سکتا ہے۔ مثلاً انسان کو قدرت دی گئی ہے کہ وہ سمندر میں کشتی چلاسکتا ہے۔

اَللّٰہُ الَّذِیْ سخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِأَمْرِہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِن فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo             )الجاثیہ:۱۲)

’’ وہ اللہ ہے  جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار ہو۔ ‘‘

ظاہر ہے کہ پانی کی سطح پر کشتی کا چلنا، قوانین فطرت کے تحت ہی ہوگا۔ آیت بالا کی روشنی میں قوانین فطرت کی نوعیت ایسی ہے کہ انسان کے لیے کشتی چلانا ممکن ہو جاتا ہے۔ انسان کی آزادی عمل کے سیاق میں اسلامی تصور کائنات کی پیش کردہ اصطلاح ’تسخیر‘ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

وَسَخَّرَ لَکُم مَّا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ جَمِیْعاً مِّنْہُ إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لَّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ o   )الجاثیہ: ۱۳)

’’اس (اللہ) نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزوں کو اپنی طرف سے، تمہارے لیے مسخر کر دیا۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور فکر کرنے والے ہیں۔‘‘

زمین اور آسمانوں کی چیزوں کے انسان کے لیے مسخر ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ اشیائِ کائنات، انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں۔ اشیاء میں بہت سی ایسی ہیں (مثلا کشتیاں) جن سے انسان خدمت لیتاہے اور مختلف طریقوں سے اپنے استعمال میں لاتا ہے۔ قوانین فطرت کا علم، اشیاء کے استعمال کرنے میں، انسان کی مدد کرتا ہے۔

ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُوْلاً فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِن رِّزْقِہِ وَإِلَیْہِ النُّشُورُo               )الملک: ۱۵)

’’وہی (اللہ) تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر کھا ہے۔ چلو اس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق۔ اس کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔‘‘

مسلمان محققین کوچاہیے کہ فلسفہ سائنس کواس طرح ترتیب دیں کہ اس میں قوانین فطرت اور انسان کی آزادی عمل — دونوں کی بیک وقت گنجائش ہو۔ اِنشاء اللہ اس موضوع پر آئندہ کسی وقت ، تفصیل سے اظہارخیال کیا جائے گا۔

سائنسی تحقیق کے طریقے

سائنسی تحقیق کے لیے، تحقیق کرنے والا ابتدائی مشاہدے سے آغاز کرتا ہے۔ ابتدائی مشاہدے سے تحقیق کی طرف توجہ ہوتی ہے ، جس کے عوامل بہت سے ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے محقق، کسی سوال کا جوا ب تلاش کر رہا ہو اور اس کو تحقیق کا موزوں راستہ مل جائے۔ روز مرہ کے مشاہدات بھی، انسان کے ذہن کو تحقیق کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جیمس واٹ نے پتیلی میں ابلتے ہوئے پانی کو دیکھا۔ ابلتے پانی سے نکلنے والی بھاپ، پتیلی کے ڈھکن کو اوپر اٹھا دیتی ہے۔ اس مشاہدے نے جیمس واٹ کو آمادہ کیا کہ بھاپ کی توانائی پر باقاعدہ تحقیق کرکے منصوبہ بندی کرے اور اس توانائی کے مفید استعمال کی صورتیں نکالے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں اس نے بھاپ کاا نجن ایجاد کیا جو پتیلی کی ڈھکن سے کہیں زیادہ وزنی ریل گاڑی کو کھینچ کرلے جا سکتا  تھا۔

ابتدائی مشاہدے کے بعد محقق، منصوبہ بند مشاہدے کا آغاز کرتا ہے۔ اس میں وہ ان سوالات کو متعین کرتا ہے، جن کے جوابات اسے تلاش کرنے ہیں۔ سوالات جتنے واضح ہوں گے اتنے ہی تحقیق کے مراحل آسان ہو جائیں گے۔ سوالات کی ترتیب ، غورو فکر اور محنت کا تقاضہ کرتی ہے۔ اب تک اس شعبۂ علم سے متعلق جو معلومات حاصل ہو چکی ہوتی ہیں ان کو سامنے رکھنا بھی محقق کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

سوالات کی ترتیب کے بعد مشاہدات کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہین وہ تین ہیں:

(الف )بیان (Description)

(ب )پیمائش (Measurement)  اور

(ج )منضبط تجربہ ( Controlled Experiment)

حیاتیات، علم طبقات الارض اور فلکیات میں زیر مشاہدہ جانداروں اور اشیاء کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ انسان نے بہت کچھ جان لیا اور دیکھ لیا ہے مگر ہر قدم پر محقق کو احساس ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ دیکھنا اور جاننا باقی ہے۔ روزانہ نئے پودوں اور زندہ انواع کا مشاہدہ ہوتا ہے اور ہر آن اس وسیع دنیا میں نئے اجرام دریافت ہوتے ہیں۔ سائنس کے ان شعبوں میں زیر مشاہدہ جانداروں یا اشیاء کی براہ راست (یا آلات کی مدد سے) نظر آنے والی خصوصیات اور بناوٹ(Structure)کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ باریک بینی سے مشاہدہ کرنے والا اپنے مشاہدے کو بیان (Describe)کرتا ہے۔ اس بیان میں الفاظ اور جملوں کے علاوہ چارٹ، جدول، گراف اور تصاویر سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ اس شئے کے جو خواص یا اجزاء، دوسری ملتی جلتی اشیاء سے ممتاز نظر آئیں، ان پر خاص توجہ کی جاتی ہے۔ درست بیان کے لیے مشق درکار ہوتی ہے اور اساتذہ و ماہرین کی رہ نمائی بھی ناگزیر ہے۔

اشیاء کے بہت سے خواص ایسے ہیں جن کی گنتی (Counting)  کی جا سکتی ہے یا ان کو ناپا تولا جا سکتا ہے۔ مشاہدے کے اس طرز کو پیمائش (Measurement)کہا جاتا ہے۔ طبیعیات اور کیمیا جیسے شعبوں میں پیمائش کی بڑی اہمیت ہے۔ وہی مشاہدات اِ ن شعبوں میں قابل ذکر پیش رفت کی طرف لے جا سکتے ہیں جن کا تعلق پیمائش سے ہوتا ہے۔ پیمائش کے لیے سائنسی آلات کا استعمال ناگزیر ہے۔ ہر آلہ کی بنیاد کسی سائنسی نظریے پر ہوتی ہے۔ ایک اچھے محقق کو آلے سے کام لینا تو یقینا آنا چاہیے لیکن اسے اس نظریے سے بھی واقف ہونا چاہیے جو آلے کی ایجاد کی بنیاد ہوتا ہے۔ اس طرح محقق کو یہ معلوم ہوجائے گاکہ زیر بحث پیمائش کے لیے مجوزہ آلہ موزوں ہے یا نہیں۔ وہ آلے کی محدودیت (Limitations) سے بھی واقف ہوگا۔ یعنی کن حالات میں وہ آلہ، درست معلومات دیتا ہے اور کب نہیں دیتا ہے۔

طبیعیات، کیمیا اور ایک حد تک حیاتیات اور طبقات الارض کے شعبوں میں منضبط تجربات کے انجام دینے کا امکان موجود ہے۔ چنانچہ ان علوم میں منضبط تجربات، تحقیق کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ محقق محض فطری حالت میں  اشیاء کا مشاہدہ نہیں کرتا بلکہ اپنی تجربہ گاہ  (Laboratory) میں اشیاء کی بناوٹ، خواص اور افعال کا اور ان کے باہمی تعامل کا مطالعہ کرتا ہے۔ اپنے حسب منشا محقق بیرونی عمل کے اثر کو کم یا زیادہ کر سکتا ہے۔ مثلاً تجربہ گاہ کے اندر وہ ایک مخصوص درجۂ حرارت پر مشاہدہ کر سکتا ہے، مصنوعی طریقوں سے برقی و مقناطیسی اثرات ڈال سکتا ہے، ہوا کے دباؤ کو گھٹا بڑھا سکتا ہے اور اتفاقی عوامل کے اثرات سے زیرِ مشاہدہ اشیاء کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ مجرد پیمائش یا منضبط تجربات سے جو مشاہدات حاصل ہوتے ہیں، محقق ان کو ترتیب دیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ جن سوالات سے اس نے آغاز کیا تھا ان کا جواب ملا یا نہیں۔

تصورات و نظریات کی تخلیق و تفہیم

مشاہدہ سائنسی تحقیق کا ایک اہم رخ ہے۔ تحقیق کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایسے تصورات (Concepts) تلاش یا تخلیق کیے جائیں جن کے ذریعے مشاہدات کا مربوط فہم حاصل کیا جا سکتا ہو۔ مثلاً سیاروں کی حرکت کا با قاعدہ مشاہدہ کیا گیا، جس کی تفصیلات رصد گاہوں سے دست یاب ہوتی ہیں۔ ان مشاہدات کو دیکھیں تو ان کو گرفت میں لانا مشکل کام نظر آتا ہے۔ جب بعض محققین نے  اپنے ذہن کی تخلیقی قوت کام میں لا کر کشش ثقل ( Graviational Force)  کا تصور پیش کیا تو ان سارے (بظاہر بے ترتیب) مشاہدات کو (جو اجرام فلکی سے متعلق تھے) ایک دوسرے سے مربوط کرنا ممکن ہو گیا اور ایک ایسا جامع بیان وجود میں آگیا جو اپنے دامن میں بہت سارے مشاہدات کو، بڑے آسان ڈھنگ سے سمیٹ لیتا ہے۔

اس مثال سے یہ سبق ملتا ہے کہ سائنسی تخلیق کی تکمیل محض مشاہدے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ تصورات کی تخلیق بھی ضروری ہوتی ہے۔ باہم متعلق تصوارت کو ایک جامع نظریے (Theory) کے تحت بیان کرنا اگلا مرحلہ ہے۔ سائنسی تخلیق کا نقطۂ عروج،  سائنس کے مختلف شعبوں میں موزوں نظریات (Theories) کی تشکیل ہے۔ ایک اچھا نظریہ، بہت سارے تصورات کو باہم جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور گوناں گوں مشاہدات کے مربوط بیان کو ممکن بنا دیتا ہے۔ اسی طرح کے موزوں نظریات، پیشین گوئی کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اگر منضبط تجربات، ایسی پیشین گوئی کی تصدیق کریں تو یہ نظریہ کے موزوں ہونے کی علامت ہے۔

سائنس کی  دنیا میں مشہور نظریات نے پیش رفت میں اہم رول ادا کیا  ہے۔ نیوٹن کے تین مشہور قوانین حرکت و سکون سے متعلق نظریے کی تشکیل کرتے ہیں اور موجودہ صنعتی  و مشینی دور کی ٹیکنالوجی، اس نظریے کی بنا  پر ممکن ہو سکی ہے۔  اشیاء کے ایٹموں پر مشتمل ہونے کے نظریے نے کیمیا اور طبیعیات کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ برقی مقناطیسی قوتوں کے سلسلے میں میکسویل(Maxwell) کے نظریے نے برقی مقناطیسی لہروں کی دریافت کو ممکن بنایا ہے، جن کا استعمال لا سلکی (Wireless)کے لیے کیا گیا۔ اسی طرح کائنات کے مسلسل انفجار(Expansion)  کے نظریے نے فلکیات کے مشاہدات کی تفہیم آسان کی۔

درکار وسائل

آلات اورتجربہ گاہیں،  سائنسی تحقیق کے لیے ضروری ہیں۔ اس لیے کہ وہ پیمائش اور منضبط تجربات کو ممکن بناتی ہیں۔ آلات فراہم کرنے اور تجربہ گاہ  یا رصد گاہ کو منظم کرنے کے لیے کثیر رقم درکار ہوتی ہے۔ اس رقم کی فراہمی حکومتیں کر سکتی ہیں یا نجی زمرے (Private Sector) سے متعلق وہ صنعت کار (Industrialist)کر سکتے ہیں، جو وسائل رکھتے ہوں۔ کوئی ملک، سائنس میں ترقی کرنا چاہے تو بہرحال اسے ضروری وسائل کی فراہمی پر توجہ دینی ہوگی۔

عالم اسلام کی حد تک یہ کام باہمی تعاون کا تقاضا کرتا ہے۔ کسی ایک ملک کے وسائل تک محدود رہنے کے بجائے پوری مسلم دنیا کے وسائل سےسائنسی پیش رفت کے لیے  فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ اس کے لیے موجود مشترکہ فورموں (ہیئتوں ) کے بہتر استعمال اور نئے مشترکہ اقدامات کے آغاز کی ضرورت ہے ۔ یہ طے کر نا چاہیے کہ سائنسی تحقیق میں کن شعبوں اور گوشوں کو ترجیح دی جائے (تاکہ وسائل ان پر ترجیحاً خرچ کیے جاسکیں)۔ سائنس، فلسفہ سائنس، مغربی سائنس کی تاریخ اور اس کے موجودہ رخ پر تنقیدی نگاہ ڈال کر عالم اسلام کے پالیسی سازوں کو طے کرنا چاہیے کہ وہ اپنے حالات کے لحاظ سے سائنس کے کن شعبوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ وسائل کا موزوں استعمال، ان شعبوں میں تحقیق کے لیے کیا جانا چاہیے۔

البتہ وسائل کی کمی، سائنسی تحقیق  سے بے اعتنائی برتنے کا جواز نہیں بن سکتی۔ مشاہدے کے وہ پہلو جو بیان (Description)سے متعلق ہیں زیادہ وسائل کا تقاضا نہیں کرتے، ان پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح تصورات کی صورت گری (Conceptualization) کے لیے تخلیقیت اور محنت کی ضرورت ہے۔ وسائل کی کمی کے باوجود ، نظریہ سازی میں پیش رفت کی جا سکتی ہے۔

چیتے کا جگر چاہیے، شاہیں کا تجسس

جی سکتے ہیں بے روشنی دانش افرنگ

مشمولہ: شمارہ اگست 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223