پچھلے مضمون (زندگی نو، اکتوبر ۲۰۲۱) میں مذاہب کے ارتقائی تصور پر تفصیل آچکی ہے۔ ذیل کی سطور میں جدید سائنس اور مذہب اور ان کے تعامل اور سماج کے تحت کچھ باتیں عرض کی جاتی ہیں۔ عام طور پر جدید سائنس اور مذہب کے تعامل کا مطالعہ کئی سطحوں، پہلوؤں اور زاویوں سے کیا جاسکتا ہے۔ ذیل کے خاکے میں اسے دکھایا گیا ہے:
اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ سائنس اور مذہب کے تعامل کا مطالعہ بہت زیادہ معروضیت چاہتا ہے۔ اور اس میں ایک کلاسیکی جانبداریت (classical bias) کا درآنا بہت ممکن ہے۔ مثلاً سائنس کو سب کچھ مان لینے والےمحققین کا پلڑا اس تعامل کے مثبت اثرات کی جانب زیادہ جھک جاتا ہے؛ اور منہج اور دلیل دونوں پہلوؤں سے اس کے نزدیک مذہبی سائنسی تعامل میں مذہب ایک قدیم اور فرسودہ سرگرمی (enterprise) ہوتی ہے۔ اسی طرح مذہبی رجحان رکھنے والے محققین سائنس کو ایک کمتر درجے کی سرگرمی کے طور پر دیکھتے ہیں، اور اس تعامل کے نتیجے میں سماج پر ہونے والے اثرات کے منفی پہلوؤں پر زور دینے لگتے ہیں۔ یہاں کوشش کی جائے گی کہ اس تعامل اور اس کے اثرات کو ممکنہ حد تک معتدل رکھا جائے۔
علم اور اس کا منبع
سائنس اور مذہب کے تعامل کا سب سے غیرمعمولی اثر علم اور اس کے منبع کے اعتبار سے ہے۔ جدید سائنس سے قبل وہ ابدی سوالات جو تخیل، تصور، مشاہدہ، ادراک اور فطرت کے مناظر کو دیکھ کر انسانی ذہن میں ابھر تے تھے ان کے جوابات کا منبع ساختی مذاہب میں ’’کتاب‘‘ ہوتی تھی۔ مثلاً انسان کو کس نے پیدا کیا؟ زمین کیسی ہے؟ آسمان چھت کی طرح کیوں نظر آتا ہے؟ سارے جان دار کیسے پیدا ہوئے ہوں گے؟ پہلا انسان کون تھا؟ کیا ماضی میں کچھ نہیں تھا؟ وقت کیا ہے؟
جدید سائنس نے تجربہ، مشاہدہ، اعداد و شمار، تجزیہ اور تحقیق سے ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی۔ جدید سائنس کا ارتقا اور قدیم مسیحیت کا زوال (علمی و عملی) دونوں سطحوں پر متصل ہے۔ اس لیے ان سوالات کے جوابات منابع میں تبدیل ہونے لگے۔ قدیم مسیحیت کے غیرمعقول اور غیر عقلی فریم ورک نے ان سوالات کے منطقی جوابات کی نفی کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدید سائنس اور مذہب کے تعامل نے سماج میں بطور خاص ابتداءً عیسائی سماج میں دو رویوں کو جنم دیا۔
سخت گیر اور غیر لچک دار موقف جس کی رو سے بائبل کے الفاظ کو لغوی (literal)مطلب میں ہی لیا جاسکتا ہے اور یہ کہ بائبل صحیح ہے اور سائنسی تحقیقات غلط ہیں۔ یہ رویہ عام طور پر متشدد عیسائی علما اور محققین کا ہے۔ یہاں پر مذہب اور سائنس میں کسی قسم کے تال میل کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک دوسرے کے مخالف اور حریف ہیں۔ اور دونوں میں سے کسی ایک ہی کے ساتھ رہا جاسکتا ہے۔ اب یہ موقف اصولی طور پر اپنی معنویت کھوتا جارہا ہے۔
نرم اور لچک دار موقف، جس کی رو سے بائبل کے الفاظ کا لغوی مفہوم نہ لے کر اسے استعارے کی شکل میں لیا جائے اور بائبل کو سائنس کی کتاب نہ سمجھ کر اسے مذہبی کتاب کے درجے ہی میں رکھا جائے اور اس میں موجود وہ بیانات جو سائنسی محسوس ہوتے ہوں ان کی تشریح و توجیہ اور تعبیر سائنسی حقائق کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی جائے۔
پہلے رویے/موقف کے ردعمل میں عوام میں سائنس کو علم کے منبع کے طور پر ماننے کی تحریک نے جڑ پکڑنا شروع کردیا کیوں کہ سائنسی توجیہات ایک عام پڑھے لکھے نیم مذہبی آدمی کے لیے زیادہ قابل قبول تھیں اس طرح مذہبی کتاب (بائبل) میں سائنسی باتوں /اصولوں کی انتہائی قلیل مقدار اور اس کے ناقابلِ فہم ہونے یا غلط ہونے یا اس کی غلط تاویل و توجیہ نے اس کے نسبتاً اچھے خاصے اس حصے کو جو اخلاقیات، سماجیات اور عمرانیات سے متعلق تھا اور جس کی طرف ابھی سائنس میں ابتدائی پیش قدمی بھی نہیں ہوئی تھی، اسے عوام الناس میں مشکوک یا غیریقینی کردیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ان پہلوؤں سے بھی علم کے منبع کے طور پر اس مذہبی کتاب نے اپنی افادیت کھو دی۔
علم کے ذرائع
علم کے منبع کے طور پر مذہبی کتب (بطور خاص بائبل کے تناظر میں) کے ہٹ جانے کا لازمی اثر علم کے ذرائع پر بھی ہوا۔ اس سے قبل علم کا ایک اہم ذریعہ وہ اقوال بھی مانے جاتے رہے تھے جو عظیم ہستیوں کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔ مثلاً پیغمبروں کے اقوال یا وہ مشاہدات و تجربات جو کسی بھی ذریعے سے منتقل ہوتے تھے۔ (زبانی کہانیوں کی صورت میں یا دیگر ذرائع سے)۔ وہ یک قلم رد کردیے گئے اس لیے علم صرف وہ مانا جانے لگا جو مشاہدے، تجربے، اعداد و شمار اور اس کے تجزیے سے حاصل ہوسکے۔ محسوسات اور ادراک کے دائرے کے باہر سب کچھ ’’غیرعلم‘‘ مانا جانے لگا۔ اس کی ترقی یافتہ شکل (سائنٹزم ہے!)
اس افسون سے نکلنے کے لیے سائنس کو ۱۵۰ سال لگ گئے۔ اور اس دوران علم کے منبع اور علم کے ذرائع کی سطح سے تعامل نے بہت سارے مثبت اور منفی اثرات کو جنم دیا۔
مذہبی کتب میں ان مذہبی کتب کی تفریق ہوگئی جو ثابت شدہ ’’علم‘‘ سے ٹکراتی ہیں۔ یا ان کتب میں موجود بالکل واضح غیرعلمی نکات کی نشان دہی ہوگئی۔
مثلاً بائبل کے لٹرل مترجمین اور قدیم عیسائیت پرست مذہبی افراد کے اس دعوے کی تردید کہ:
- زمین مسطح ہے اور چار ستونوں پر کھڑی ہے
- زمین کائنات کا مرکز و محور ہے
- زمین کی تخلیق سورج سے پہلے ہوئی ہے
- خون کے ذریعے جذام کے مریضوں کے گھر کو صاف کرنا یا ڈس انفیکٹ کرنا
- وضع حمل کے بعد ناپاکی یا دیگر صحت سے متعلق بیانات جس میں ناپاکی کا دورانیہ جو لڑکے کے لیے الگ اور لڑکی کے لیے الگ ہے
- زنا کے لیے بتایا گیا ٹیسٹ جس میں مقدس پانی کو دھول کے ساتھ ملا کر ملزمہ کو پلایا جاتا ہے جس ملزمہ نے زنا کیا ہو گا اس کا پیٹ پھول جائے گا۔ المختصر زنا کی پہچان کے لیے ایک ایسا فزیکل ٹیسٹ جو موجود سائنس کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔
واضح رہے کہ یہ تمام وہ بیانات ہیں جن کی توجیہ allegory یا ری انٹرپریٹیشن یا دیگر ذرائع سے نہیں کی جاسکتی۔یا ہنود کتابیات (scriptures) میں لکھے گئے وہ مشمولات جو انسانوں کی پیدائش سے متعلق ہیں۔ مثلاً:
- کسی دیوتا نے انسان کو انسان ہی کے جیسے نظر آنے والے جسم کے مختلف حصوں سے بنایا۔ جیسے کچھ انسان سر کے بالوں سے پیدا ہوئے، کچھ پیر کی ایڑیوں سے بنائے گئے۔ اس لیے ان میں فرق کیا جاسکتا ہے۔
- ستاروں سیاروں کی گردش سے انسان کی قسمت طے ہوتی ہے۔
- اندر نے ہلتی ہوئی زمین کو قرار بخشا ہے
- زمین اپنی جگہ تھمی ہوئی یعنی ساکت ہے
- سورج سات گھوڑوں پر سوار آسمان پر گھومتا ہے
- زمین سورج اور چاند کی دوریاں جن میں موجود سائنسی حسابات کے اعتبار سے بہت زیادہ فرق ہے
ہندو ازم کی تمام کتب اس طرح کے بیانات سے بھری پڑی ہیں۔ مندرجہ بالا بیانات وہ ہیں جن کی توجیہ کسی صورت نہیں ہو پاتی ہے یا اگر وہ توجیہ ہے بھی تو وہ بنیا دی منطق کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔
سائنس اور مذہب کے اس سطح کے تعامل نے مذہب کے لیے ایک غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا جسےacknowledgeکیا جانا چاہیے، وہ یہ کہ اس نے ایک نسبتاًحقیقت پسند عقل کو اپیل کرنے والے، نسبتاً منطقی اور علمی و عملی سطح پر ترقی پذیر مذہب کے ماننے کے لیے ایک روزن پیدا کردیا۔
سماج کے مذہبی تصورات پر اثرات
علم کے منبع اور ذرائع کے تعامل نے جس پہلو سے سب سے زیادہ سماج کو متاثر کیا وہ سماج کے مذہبی تصورات پر اثرات کے حوالے سے ہے۔ سماج کے مذہبی تصورات کی توجیہات بدلنے لگیں۔
مثلاً ابتداءً جب حرحرکیاتی قوانین (thermodynamics) کے تحت یہ کہا گیا کہ کائنات ابدی ہے۔ ہمیشہ سے تھی ہمیشہ رہے گی۔ تو ہندوازم میں موجود پنر جنم اور آواگون کے عقیدے کے تحت یہ گونج سنائی دینے لگی کہ کائنات کا ہر ذرہ لافانی ہے۔ روح اور مادے کا یہ دور (cycle) چلتا رہے گااور یہ کائنات کبھی فنا نہیں ہوگی۔ پھر اب جدید دور میں یہ کہا جارہا ہے کہ کائنات کا ایک ابتدائیہ ہے اور اس کا ایک اختتامیہ بھی ہے۔ یہ لافانی نہیں ہے اور بالآخر یہ ایکsingularityپر جاکر رک جائے گی۔ تو یہ کہا جانے لگا کہsingularityدراصل ’’برہما‘‘ ہے جس میں جاکر ہرجان دار و بے جان مادہ کو ضم ہوجانا چاہیے۔
اسی طرز پر جب مادہ اور غیر مادہ کی ثنویت (duality) اور محسوس و غیرمحسوس کے حجابات ہٹنے لگے تو مذہبی تصورات کی تعبیرات میں اختلاف نمایاں ہونے لگے اور سائنسی نظریات کی روشنی میں مذہبی تصورات کی توجیہ کی جانے لگی۔ اور مذہب میں ’’علمِ کلام‘‘ کا غیرمعمولی ارتقا ہونے لگا۔
یہیں سے apologetics کی بنیاد پڑی۔ سائنس اور مذہب کے تعامل میں اس پہلو سے کوئی مذہب چاہے وہ ساختی ہو یا غیر ساختی مستثنیٰ نہیں رہا۔ عیسائیت، اسلام، یہودیت، ہندو ازم، ہندو میتھولوجی، چین کے نکتہ ہائے حیات وغیرہ۔
اس پہلو سے تعامل کا منطقی نتیجہ مذہبی تصورات کی زیادہ سے زیادہ سائنسی توجیہ پر منتج ہوا۔
جدید سائنس اور مذہب کے تعامل کے مطالعہ کا تیسرا سب سے اہم ستون وہ زاویہ ہے جس کی رو سے ہم اس کے اثرات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس تعامل کا سب سے اہم ترین اثر ‘علم‘ کا مذہبی گروہ یا مذہبی پاپائیت(religious elite)کے آہنی چنگل سے نکل کر عوام کی دسترس میں پہنچ جانا ہے۔ یہ بڑی چونکا دینے والی تبدیلی تھی۔ سائنس نے ایک عام آدمی کو یہ قوت دی کہ وہ ان سوالات کے جوابات کے لیے مذہبی پاپائیت کے علاوہ بھی کہیں اور دیکھ سکتا تھا۔ یہ بجائے خود ایک بڑا انقلاب ہے کہ وہ بنیادی سوالات جو ہر ذی شعور کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اس کے جواب کے لیے اسے اپنے ہی جیسے کسی کے پاس جانا ہوتا تھا۔ اور اس کی عقل کی رہ نمائی کے لیے اسے اپنے ہی جیسے کسی انسان کے تجزیے اور اپنے ہی جیسے کسی انسان کی لکھی ہوئی کتاب پر منحصر رہنا پڑتا تھا۔ مذہبی کتب جیسے بائبل اور توراة اور ہندو دھرم کی بعض کتابوں کے بارے میں تو یہ بات عام طور پر صد فیصد درست ہے۔ (قرآن کا معاملہ الگ مانا جاتا ہے!) سائنس نے پہلی بار کسی عام انسان کی عقل پر انحصار کو صحیح بتایا۔ حالاں کہ اس عقل کی ابتدائی نوعیت کے سوالات کے لیے کسی مذہبی آقا سے سند اور جواز و جواب لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مثلاً یہ کہ کیا سب انسان برابر ہیں؟ سارے انسانوں میں مساوات ہونی چاہیے؟ یا یہ کہ کیا انسان دوسرے انسان کو غذا کے لیے قتل کر سکتا ہے؟ وغیرہ۔
چناں چہ سائنس نے کم از کم اس پہلو سے ’علم‘ کو ’آزاد‘ کیا ہے اور انسانی سماج میں ’عقل اور منطق‘ کو اس کا جائز مقام دلانے کی کوشش کی۔ یہ الگ بات ہے کہ عقل اور منطق اور محسوس و مدلول میں عدم توازن نے انسانی تہذیب کو مذہبیت کے بحران سے نکال کر سائنسیت یا سائنٹزم کے بحران میں ڈھکیل دیا۔ لیکن سائنس کے اس اہم کارنامے سے انکار کرنا علمی ناانصافی ہے کہ اس نے جابر مذہبیت کے بالمقابل منطقی مذہبیت کے لیے راہیں نہ صرف ہم وار کر دیں بلکہ اس کی ضرورت کو بھی واضح کردیا۔
اس زاویے سے اس تعامل کا اثر اور بھی گہرا ہوتا جائے گا۔ جیسے جیسے سائنس، اس کا منہج، اس کےمقاصد اور اس کے فریم ورک کی اضافیت اور واضح ہوتی چلی جائے گی اور سائنسی علم اور اس کے منبع اور اس کے ذرائع پر سوالیہ نشان لگتے چلے جائیں گے۔ یہ تعامل بھی مختصر عرصےمیں فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوچلا ہے اور تہذیبوں کے ارتقا کے بنیادی اصولوں میں اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں حقیقی سائنس، حقیقی مذہب کے ساتھ مل کر نوعِ انسانی کے لیے ایک نئی تہذیب کو جنم دینے پر قادر ہوجائے۔
اس تعامل کے زاویہ کا دوسرا پہلو کائنات کے محسوس مناظر کی توجیہ ہے۔ ابتداءً کائنات کے محسوس مناظر کی توجیہ کا مذہبی بیانیہ سماج میں رائج تھا۔ دنیا کے بڑے گوشوں میں اور عوام میں وہ اب بھی رائج ہے۔ لیکن سائنس نے کائنات کے محسوس مناظر کی توجیہ معقولات کے ذریعے سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً ابتداءً یونانی دیومالائی کہانیوں میں سمندر میں اٹھنے والے مد و جزر کو کسی دیوتا کے ڈکار لینے سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اب اس مد و جزر کی غالب وجہ چاند کی کشش ثقل ہے۔ اسی طرح بادلوں کی گرج کو دیوتاؤں کے پیٹ کی گڑبڑ یا ہاضمہ کی خرابی پر محمول کیا جاتا تھا۔ اب اس کی سائنسی توجیہات موجود ہیں جو کافی و شافی ہیں۔ اس طرح کم بارش، یا سوکھا پڑنا کے لیے ہندو میتھالوجی میں پانی کے دیوتا کی ناراضی کا تذکرہ ہے۔
سماجی سطح پر بھی اس تعامل کے اثرات کا واضح اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ روشن خیالی، یا مساوات اور اخوت انسان کے وہ مناظر، مباحث، حقوق جو جابر مذہبیت نے اپنے مصالح کے لیے چھپا دیے یا مذہب کی آڑ میں ان کا استحصال اپنے فائدے کےلیے کیا، ان تمام کو سائنس نے یک لخت اجاگر کردیا۔ چناں چہ ہر انسان کی شکل ایک دوسرے سے ملتی ہے، ہر انسان کی طبعی مسافت اور ان میں موجود کیمیائی عناصر بالکل ایک جیسے ہیں۔ اس دریافت نے فلسفیوں کو، حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والوں کو اور خود غلام اور سماجی نابرابری کے شکار افراد کو وہ ضروری فکری غذا فراہم کی جو بالآخر موجود عالمی تہذیب پر منتج ہوئی۔ جس کے بیش تر اجزا پوری دنیا میں ایک جیسے ہیں، جیسے اخوت انسانی، مساوات، برابری کاحق، جان کا احترام وغیرہ۔
اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ کم از کم ماضی قریب کی مذہبی جبریت جس میں مذہب کو بحیثیت آلہ(tool) استعمال کرتے ہوئے عالمی انسانی سماج میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کھیلا گیا، سائنس نے اس کے تار و پود بکھیر دیے۔
اس حوالے سے آج بھی سائنس کے بیش تر انکشافات سماجی اتھل پتھل پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً قومیت کے پیچیدہ فلسفوں میں سے بہت سارے فلسفوں کی جڑ سالماتی حیاتیات کی ایک شاخ نائلوجینٹکس کے ذریعے کاٹ دی گئی ہے۔ ارتقائی سالماتی حیاتیات(evolutionary molecular biology) کو اگر تسلیم کریں تو سارے انسان ایک ہی ماں کی طرف منسوب کیے جاسکتےہیں! انسانی تہذیبوں میں کوئی تہذیب اپنی اصل کے اعتبار سے نئی یا پرانی نہیں۔ بلکہ متعدد تہذیبیں متعدد مقامات پر موجود رہی ہیں۔ اسی طرح نسلی قوم پرستی کی کوئی اصل نہیں ہے۔
جو اقوام کسی مخصوص خطہ زمین کو اپنا حق سمجھتی ہیں، سائنس نے بالاتفاق یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے باشندے وہاں کبھی موجود ہی نہیں رہے ہیں۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی ثابت کیا ہے کہ انھوں نے وہاں پر بسنے والے اصل باشندوں کو ہٹا کر خود کو اور اپنی تہذیب کو وہاں مسلط کیا۔
اور یہ بات آسٹریلیا کےaborigines سے لے کر ہندوستان کے قدیم ترین باشندوں کے متعلق درست ثابت کی گئی ہے۔
جدید سائنس اور مذہب کے تعامل نے سماج میں عمومی افراد اور مذہبی افراد کے لیے مختلف انداز میں بیانیوں کو تشکیل دیا :
- مذہب از کار رفتہ ہے اور جدید سائنس سب کچھ ہے۔
- تمام مذاہب کو سائنس کے تابع ہونا چاہیے۔
- سائنس جن ایجادات اور اختراعات اور انکشافات کی بات کرتی ہے وہ مذہبی کتب میں پہلے سے موجود ہیں۔
- جدید سائنس مذہب سے بہتر ہے۔ کیوں کہ وہ دلیل اور عقل پر انحصار کرتی ہے اور تنقید اور اصلاح کے لیے کھلی ہوئی ہے۔
- جدید سائنس اور مذہب دو الگ جہات ہیں۔ دونوں کو الگ ہی رکھنا چاہیے۔
- جدید سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ کوئی ایک ہی درست ہوسکتا ہے۔
- جدید سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ ایک ترقی پسند (progressive)ہے دوسرارجعت پسند (regressive)۔
- جدید سائنس اور مذہب میں مکالمہ یا تطبیق کی گنجائش نہیں۔
- ایسا مذہب اور خط قابلِ قبول ہے جو انسان کو انفرادی طور پر امید اور حوصلہ دیتا ہے۔
- انسانی عقل انسانی مسائل کے حل کے لیے کافی و شافی ہے۔ اس کے لیے وحی یا دیگر مذہبی فریم ورک کی طرف دیکھنا غیر عقلی اور قدامت پسندی ہے۔
- جدید سانس نے مادہ پرستی کو جنم دیا جو انسانیت کے سارے مسائل کی جڑ ہے۔ بالفاظ دیگر جدید سائنس انسان کے سارے مسائل کی جڑ ہے۔
- مذہب یا مذہبیت انسانی ترقی کی دشمن ہے۔ جو سماج یا سوسائٹی جتنی مذہبی ہوتی ہے اتنی ہی غیر ترقی یافتہ ہوتی ہے یا ان قوموں اور سوسائٹی میں تخلیقی رجحان کم ہوتا ہے اور ان کی سائنسی پیداوار(productivity)کم ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا تمام بیان یا تو اضافیت لیے ہوئے ہیں یا غلط ہیں یا نامکمل اور ادھورے ہیں یا نئے فریم ورک کے محتاج ہیں۔مثلاً جب یہ کہا جاتا ہے کہ مذہب از کارِ رفتہ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا مذہب؟ مذہبی اصول؟ ان اصولوں کی تطبیق یا ان اصولوں کی تطبیق سے وجود میں آنے والے مظاہر؟ یا ان اصولوں پر قائم تہذیب یا ثقافت؟ کیا کامل اصول ہی از کارِ رفتہ ہیں یا ان کا استنباط و استخراج از کارِ رفتہ ہے؟ اسی طرح جدید سائنس کیا ہے۔ پوری جدید سائنس یا اس کا منہج، منبع، کامل سائنس یا اس کا استنباط اور استخراج، اصول و مبادی یا اس کی بنیاد پر حاصل شدہ شخصی نتائج، جدید سائنس کے لیے سب کچھ ہے؟
مذاہب میں، ساختی مذاہب میں اسلام بالکل الگ نوعیت کے اصولوں کا علم بردار ہے۔ وہ تطبیق و استخراج میں بہت حد تک آزاد ہے۔ وہ جزئیات پر غیرضروری زور نہیں دیتا۔ حتی کہ بعض علوم کے منبع کو خالص انسانی کسب پر محمول کرتا ہے۔ بعض صورتوں میں وہ غیرمعمولی لچک پذیر ہے تو کیا یہ بیانیہ اس کے لیے بھی درست ہوگا، ظاہر ہے اس کا جواب نہیں میں ہے۔
اسی طرح تمام مذاہب کو عقل کی وہ کسوٹی جو سائنس سے ٹھپّہ شدہ ہو اسی سے گزرنا کیوں ضروری ہے؟ کیا سائنس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ حتمی حقیقت تک پہنچنے کا دعویٰ کرتی ہے؟ جواب ہے نہیں! کیا سائنس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اب صرف وہی علم کے حصول کا واحد ذریعہ ہے؟ جواب ہے نہیں! یقیناً سائنس کی بعض کسوٹیاں بالکل صحیح ہیں لیکن ہر مذہب اور ہر مذہب کے ہر اصول کی نفی نہیں کرپاتیں، اس لیے مذہب کو سائنس کا تابع بنانے کی کوشش غیر علمی رویہ ہے۔
اوپر دی ہوئی دونوں مثالیں ان بیانیوں کا رد کرتی ہیں۔ جو نیم سائنسی حلقوں اور سائنس کی ابتدائی شد بد رکھنے والے سماج میں پائے جاتے ہیں۔
’’سائنس جن ایجادات، اختراعات، انکشافات کی بات کرتی ہے ان کے اشارے یا کنایے مذہبی کتب میں پہلے سے موجود ہیں۔‘‘
لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت بار مذہبی کتب کی سطور میں مذہبی فرد کتاب کی عبارت نہیں اپنا خود کا ذہن پڑھ رہا ہوتا ہے۔ دور دراز کی تاویلیں، ایسے الفاظ جن کے بہت سے معنی ممکن ہوتے ہیں، ایسے استعارے جو کتاب کے وجود میں آنے کے وقت موجود ہی نہیں تھے۔ وہ معنی جو اس زمانے میں رائج نہیں تھے، الفاظ کی وہ ترتیب، اس کتاب کی زبان سے میل ہی نہیں کھاتی، غرض اس طرح کی غیر علمی شعبدہ بازیوں (tactics)کا استعمال کرکے جدید سائنسی انکشافات کے سلسلے میں یہ دعویٰ کرنا کہ یہ کتاب میں پہلے سے موجود تھے سائنسی اور نیم سائنسی سماج کے افراد کے ان بیانیوں کے برابر ہے جن کی مثال اوپر دی گئی ہے۔
جدید سائنس اور مذہب کے تعامل اور اس کے سماج پر اثرات کی تفصیل کو درج ذیل نکات کے تحت سمیٹا جاسکتا ہے:
- یہ تعامل حقیقی ہے، علی الرغم اس کے کہ بعض محققین اسے بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور اسے محض انسانی تہذیب کے فطری ارتقا کے طور پر دیکھتے ہیں۔
- اس تعامل کے نتیجے میں مذہب مرکوز سماج، شماری مذاہب مرکوز سماج اور لادینی سماج میں مختلف متشدد رویے جنم لیتے ہیں، جیسے سائنس کو مذہب بنالینا، مذہب کو یکسر رد کردینا یا سائنس کو یکسر رد کردینا، مذہب یا سائنس کی اہمیت کا یکسر منکر ہوجانا وغیرہ۔
- اس تعامل سے انسانی تہذیب، انسانی عمرانیات اور انسانیات جیسے علوم میں نئی جہات کا اضافہ ہوتا ہے۔
- اس تعامل کے نتیجے میں سماج میں مثبت اور منفی اثرات مختلف سطحوں پر سماج میں مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے دیکھے جاسکتے ہیں۔
- اس تعامل کے نتیجے میں ایک نسبتاً معقول، لچک دار، عقل کو اپیل کرنے والا اور حقیقی مذہب کی ضرورت کا احساس شدید تر ہوا ہے۔
- اس تعامل نے مادیت اور روحانیت کی ثنویت کے گنجلک فلسفوں کے علاوہ مادی روحانیت (material spirituality)کو جنم دیا ہے۔
- اس تعامل نے سماج پر مذہبی طبقے کی غیر ضروری اجارہ داری کو دنیا کے بعض گوشوں میں ختم کیا ہے۔ بعض میں کم کیا ہے اور بعض جگہوں پر بے اثر کردیا ہے۔
- اس تعامل نے انسان کو ابدی نوعیت کے سوالات کے جوابات کے لیے ایک متبادل فریم ورک دیا۔ (اس کے علی الرغم کہ یہ فریم ورک کتنا اضافی اور کتنا غلط یا صحیح ہے)
- اس تعامل کے نتیجے میں اخلاقیات اور روحانیات کے سلسلے میں جدید سائنس کی بے مایگی ثابت ہوگئی ہے۔
سائنس، مذہب اور سماج کے مثلث میں اسلام کہاں کھڑا ہے؟ کیا اسلام بھی عمومی مذاہب کی طرح معروف معنوں میں سائنس سے ویسا ہی تعامل کرتا ہے جیسا کہ دیگر دوسرے مذاہب کرتے ہیں؟ کیا اسلام میں بھی مذہب اور سائنس کی ثنویت کی فصیل موجود ہے؟ جدید سائنس کے ذرائعِ علم اور منابعِ علم پر اسلام کا موقف کیا ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات کا احاطہ آئندہ مضامین میں کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2022