ہم سب نے بچپن میں ’’سائنس کے فائدے اور نقصانات‘‘ اور اس جیسے بہتیرے عنوانات پر اسکول کے سالانہ امتحانات میں مضمون لکھے ہوں گے۔ یہ اور اس قبیل کے دوسرے عنوان جیسے ’’ٹکنالوجی کا مفید استعمال‘‘ یا ’’ٹکنالوجی رحمت ہے یا زحمت‘‘ یا ’’سائنس خیرہے یا شر‘‘ عوامی اور سماجی شعور میں سائنس اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی ٹکنالوجی کی غیرمعمولی موجودگی کا مظہر ہیں۔ بالکل اسی طرز پر ایک خاص جملہ یہ بھی ہے جو ہر خاص و عام کی زبان زد ہے کہ ’’انسان ایک سماجی جانور ہے‘‘۔ یہ جملہ قدرے گم راہ کن اور کنفیوژن کا شکار کرنے والا ہے! اگر انسان، انسان ہے تو جانور کیسے ہوا؟ اور اگر وہ جانور ہے، تو انسان کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ کنفیوژن دراصل سائنس کے اس ادھوری تھیوری کا نتیجہ ہے جس میں یہ مانا گیا ہے کہ انسان بالطبع جانور ہے۔ بے شک انسان میں حیوانی جبلتیں ہیں، لیکن ان کی بنیاد پر یہ سمجھ لینا کہ وہ جانور ہے، یہ اس نظریہ جہان کا نتیجہ ہے جو محض عقل، ناقص مشاہدہ اور اضافی استنباط کے نتیجہ میں یہ سمجھتا ہے کہ انسان جیسی پیچیدہ ترین مخلوق کی، جو شعور و ادراک کی ایک خاص سطح رکھتی ہے، مکمل تشریح محض طبعی قوانین کی بنیاد پر کی جاسکتی ہے۔ ’’انسان ایک سماجی جانور ہے‘‘ جیسے بیانیے سائنس، سماج اور مذہب کے اثرات کے دائرے میں ایک اہم سنگ میل کہے جا سکتے ہیں۔
سائنس انسان کی تمدنی ضرورت ہے۔ اور سائنسی معلومات کے انطباق اور استعمال سے پیدا ہونے والی ٹکنالوجی انسانی تمدن کے ارتقا میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے سائنس کو تمدنی ضروت تک ہی رکھنا ٹھیک ہے یا ٹھیک تھا۔ لیکن ماضی قریب میں سائنس اور فلسفہ کی تقسیم نے سائنس کو تمدنی ضرورت کے مقام سے اٹھا کر تہذیبی مسائل کے غیرمرئی تخت پر بٹھا دیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سوالات جو خالص فلسفہ یا مذہب سے متعلق تھے، اور جن کے جواب عموماً مذہب اور اس کی کتابوں سے اخذ کیے جاتے تھے، وہ سائنس کے سوالات بن گئے۔ مثلاً درج ذیل سوالات ملاحظہ ہوں:
- کائنات کیسے وجود میں آئی؟ کیا یہ خود بخود وجود میں آ سکتی ہے؟ کیا اس کا بنانے والا کوئی ہے؟
- انسان کیسے وجود میں آیا؟ کیا انسان دیگر جانوروں کی طرح بتدریج وجود میں آسکتا ہے؟
- کائنات کا بالآخر انجام کیا ہے؟ کیا کائنات فنا ہو جائے گی؟ کیا یہ فنا ہوکر دوبارہ وجود میں آسکتی ہے؟
- انسان اور دیگر جان داروں میں کیا فرق ہے؟ کیا انسان بھی دوسرے جان داروں کی طرح ایک جان دار ہے؟
- شعور کیا ہے؟ کیا یہ شعور صرف انسان کے ساتھ خاص ہے یا یہ شعور تمام جان داروں میں ہے؟
- عقل اور وجدان کی کیا حیثیت ہے؟ کیا عقل محض کیمیائی مادوں میں ترسیل سے وقوع پذیر ہوتی ہے؟
- جذبات اور احساسات کا منبع کیا ہے؟ کیا تمام جذبات اور احساسات کا منبع محض کیمیائی مادے ہیں؟
- مادہ اور غیر مادہ کی تقسیم کی اصل کیا ہے؟ کیا مادہ اور غیر مادہ کی کوئی معنویت ہے؟
- روح کیا ہے؟ کیا روح محض ارتباط (co-ordination) ہے؟
مندرجہ بالا سوالات ابدی نوعیت کے سوالات ہیں یعنی یہ سوال ماضی میں بھی انسانی ذہن میں اٹھتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اٹھتے رہیں گے۔
سائنس، مذہب اور سماج کی اس پیچیدہ مثلث پر آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ اس مثلث کے تینوں نکات دراصل کیا ہیں۔
سائنس کیا ہے؟ اس کے تکنیکی جواب سے قطع نظر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سائنس کیا نہیں ہے۔ ’’سائنس کیا نہیں ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب وہ تمام حدود طے کر سکتا ہے، جن کی پامالی کی وجہ سے مذہب اور سائنس کا اختلاف جیسے بیانیے وجود میں آئے۔
۱۔ سائنس ایک طریقہ ہے، یہ ’’حتمیت‘‘ نہیں ہے: سائنس مشاہدے، تجربے اور نتیجے کا مثلث ہے۔
مشاہدہ – تجربہ – نتیجہ
اور یہ مثلث مستقل بالذات ہے۔ یعنی مشاہدہ سائنس داں کو ایک مفروضہ قائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس مفروضہ کو ثابت کرنے کے لیے وہ تجربہ ڈیزائن کرتا ہے۔ تجربہ صحیح ہو، اس کے لیے وہ مناسب کنٹرول بروئے کار لاتا ہے۔ یعنی تجربے پر اثر انداز ہونے والے (compounding) تمام عوامل کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے تجربے کو ممکن حد تک غیر جانب دار بناتا ہے۔ پھر تجربے سے وہ نتائج حاصل کرتا ہے۔ ان نتیجوں کو ریاضی اورشماریات کے اصولوں کی کسوٹی پر بار بار جانچتا ہے اور ان کو اپنے مشاہدے کے صحیح یا غلط ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
مشاہدہ - مفروضہ - تجربہ - نتائج - تجزیہ - نئے سوالات - ثبوت - مشاہدہ
یعنی ہر مشاہدے سے بالآخر سائنس داں نئے قسم کے مشاہدے حاصل کرتا ہے۔ اور یہ دائروی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مندرجہ بالا دائرہ سائنس کے بہت سارے سوالات کے بارے میں صحیح ہے۔ خاص طور پر وہ سارے سوالات جو کائنات اور انسان کے وجود میں آنے سے متعلق ہیں۔ یعنی سوالات سے جواب حاصل ہوتے ہیں لیکن وہ حتمی نہیں ہوتے۔ یا تو اضافی ہوتے ہیں یا نامکمل ۔
اس دل چسپ مثلث یا دائروی ترتیب کو درج ذیل مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ چارلس ڈارون نے یہ مشاہدہ کیا کہ بعض چڑیوں کی چونچ ان سے ملتی جلتی دوسری چڑیوں کی چونچ سے الگ ہے۔ اسی طرح انسانوں اور جانوروں میں بہت سے افعال میں یکسانیت ہے۔ اس مشاہدے کو بعض تجربات اور بعض مزید مشاہدات کے سہارے انھوں نے نظریہ ارتقا کی صورت میں پیش کیا، جس کے مطابق زندگی ابتدائی سادہ خلیے سے ہوتی ہوئی انسان تک پہنچی ہے۔ اس مشاہدہ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ان کے بعد والے سائنس داں حضرات نے (جن کی تعداد اب لاکھوں تک جا پہنچی ہے) تجربات کیے اور اپنے نتائج پیش کیے۔ لیکن ہر تجربے نے نئے مشاہدے اور بالآخر نئے سوالوں کو جنم دیا۔ مثلاً:
- ابتدائی خلیے کی ترکیب کیسے ہوئی؟ اگر وہ اتفاق اور امکان کے قانون پر ہوئی ہے تو اس کی حسابی توجیہ کیوں ممکن نہیں؟
- ابتدائی مادے ایک خاص ترتیب میں کیسے جمع ہوئے؟ اگر وہ ترتیب بہتر تھی اس لیے باقی رہ گئی تو دوسری بہتر ترتیبیں کیوں فنا ہوگئیں؟
- اربوں قسم کے ترکیب کے ممکنات میں سے جو مناسب ترین ترکیب تھی وہ کیسے باقی رہ گئی؟ جب کہ اس کا باقی رہنا بجائے خود ایک معمہ ہے۔ بطور خاص زمین کے اس وقت کے مفروضہ حالات میں تو یہ اور بھی ممکنات میں سے نہیں تھا۔
- ابتدائی خلیہ تقسیم کیوں ہوا؟ کیوں کہ کام یاب تقسیم یا کام یاب دوئی کے لیے جو محرکات ہو سکتے ہیں وہ ثابت نہیں کیے جا سکتے!
- کیا محض اتفاق سے ابتدائی خلیے کی تقسیم ممکن ہے؟ اگر ہاں تو اتفاق کے تمام ماڈل اضافی کیوں ہیں؟
- پیچیدگی بذریعہ فطری انتخاب کیسے وجود میں آتی ہے؟
مندرجہ بالا چھ سوالات بس نمونے کے سوال ہیں۔ ان میں سے ہر سوال کے جواب نے نئے سوال اور نئے مشاہدے کھڑے کر دیے ہیں۔ اور بالآخر اس کے حتمی جوابات پر بس یقین کیا جاسکتا ہے! (بعض محققین کے نزدیک اس درجے پر آکر مذہبی عقائد اور سائنس ایک خط (footing) پر آجاتے ہیں۔
چناں چہ اوپر دیے گئے بیانیے جیسے سیکڑوں بیانیے ہیں جو سائنس اور اس کے طریقہ کار میں حتمیت کے نہ ہونے کا ثبوت ہیں۔ چناں چہ ایسے سوال جن کے حتمی جوابوں کے بغیر انسانی تہذیب کی گاڑی صحیح راستے پر نہیں چل سکتی، ان کے جواب سائنس سے مانگنا سائنس پر زیادتی ہے۔
سائنس کا حتمی یا حتمیت کے لیے نہ ہونا اس کی سب سے بڑی قوت بھی ہے اور کم زوری بھی۔
اسٹیفن ہاکنگس کا مشہور زمانہ قول اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔ (ترجمہ:) ’’مذہب اور سائنس میں بنیادی فرق ہے۔ مذہب حتمیت (authenticity) پر مبنی ہے۔ جب کہ سائنس مشاہدے اور منطق پر۔ سائنس بالآخر فتح یاب ہوگی۔‘‘ اسٹیفن ہاکنگس کے اس بیانیے سے حیاتیاتی ماہرین اختلاف کرتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد اس مفروضے کی قائل نہیں ہے۔
۲۔ سائنس کیسے کا جواب ہے، کیوں کا نہیں۔
سائنس اشیا اور جان دار سب میں کیسے سے جڑے سوالات کا جواب ہے۔ یہ کیوں کا بھی جواب ہے لیکن مکمل نہیں۔ کیوں کا جواب حاصل کرتے کرتے سائنس ایک خاص سطح تک جاکر رک جاتی ہے۔ مثلاً سورج، چاند، ستارے اور دیگر اجرام فلکی کائنات میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ اس لیے گردش رہے ہیں کیوں کہ یہ تمام ایک مخصوص نظام کے تحت کشش ثقل میں بندھے ہیں۔ کیوں گردش رہے ہیں کیوں کہ کشش ثقل ہے۔ کشش ثقل کیوں ہے؟ یہاں آکر سائنس خاموش ہو جاتی ہے۔ (حالاں کہ اس کے جوابات بھی تلاش کیے جا رہے ہیں)۔ اسے ایک دوسری مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ پوری کائنات میں پندرہ ’’مستقلات‘‘ (constants) ہیں، جن میں کشش ثقل کا مستقل ایک ہے۔ یہ پندرہ ’’مستقلات‘‘ جیسے ہیں ویسے ہی ہیں، یعنی ان میں ذرا بھی تبدیلی اگر کی جائے تو کائنات کی ریاضیاتی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ اگر کسی بھی ایک مستقل میں تبدیلی کی جائے تو پورا کا پورا ریاضیاتی ماڈل درہم برہم ہوجائے۔ چناں چہ یہ تمام پندرہ مستقلات ریاضیاتی نظام میں’’کیسے‘‘فٹ ہیں، اس کی تو توجیہ موجود ہے، لیکن وہ ویسے ہی ’’کیوں‘‘ہیں اس کی توجیہ نہیں کی جاسکتی ۔
مثلاً اگر کشش ثقل ایک ارب واں حصہ بھی کم ہوتی ہو تو ستارے اور سیارچوں کی تشکیل ہی ممکن نہ ہوتی۔ اگر یہ اتنی ہی قوت میں زیادہ ہوتی ہے تو بِگ بینگ کے بعد بِگ کرنچ ہوجاتا (یعنی کائنات تشکیل ہوتے ہی فنا بھی ہوجاتی)۔
بعینہ یہی بات باقی چودہ مستقلات کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے، جو مادے اور کائنات سے جڑے بہت سارے تعاملات کی مساواتوں (equations of interaction) میں ضروری ہوتے ہیں۔ مثلاً نظام ہاضمہ میں غذائی ذرات سے گلوکوز کے حصول سے لے کر مریخ اور زمین کے مابین کشش کی مساویت تک۔
یہ مستقلات کیسے تعامل کرتے ہیں، اس کی تمام تر مساویتیں ہمارے پاس ہیں، لیکن ان کی عددی قوت وہی ’’کیوں‘‘ ہے ؟ اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔
۳۔ سائنس صحیح اور غلط، اچھائی اور برائی سے بحث نہیں کرتی
اس لیے سائنس کو اصلاً اقدار کے معاملے میں غیرجانب دار (value neutral) ہونا چاہیے۔ یعنی اصولی طور پر اسے تہذیبی اچھائی اور برائی کے معیارات سے لا تعلق ہونا چاہیے۔ اس لیے سائنس کو اچھائی اور برائی، صحیح و غلط کے معیار کے لیے ذمے دار ٹھیرانا، ایک غیرسائنسی اور غیرمناسب رویہ ہے۔ اسی لیے سائنس کو سائنس داں کے مذہبی، سماجی، انفرادی اور نفسیاتی جانب داری کے پرے مانا جاتا ہے۔ حالاں کہ زمینی اعتبار سے یہ ممکن نہیں ہے۔ اس آئیڈیل صورت حال کی تخلیق کے لیے سائنس سائنسی تجربات اور ان تجربات سے حاصل ہونے والے نتائج کے استنباط اور استخراج میں مناسب تنقیہ و تعدیل (checks and balances) لگانے کی کوشش کرتی ہے۔ زمینی صورت حال میں سائنس داں اپنے سماجی، سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور تہذیبی منظرنامے سے متاثر رہتا ہے۔ اس لیے اس کی تحقیقات کا ان منظرناموں سے متاثر ہونا بالکل طبعی امر ہے۔ اس لیے سائنس میں یہ بات پورے شد و مد سے کہی جاتی ہے کہ سائنس کو اقدار سے آزاد ہونا چاہیے۔
لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ سائنس کی تاریخ کا مطالعہ، جو کہ اب باقاعدہ ایک علم کی شاخ بن چکی ہے، بتاتا ہے کہ ایسا ماضی میں بھی ممکن نہیں ہوپایا اور آج بھی ممکن نہیں ہے۔
سائنس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سائنس داں حضرات نے جوہری قوت کو اتفاقی طور پر دریافت نہیں کیا ہے، بلکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد خصوصی جنگی مہارت اور جنگوں کے جیتنے کے لیے عسکری قوت اور ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی میں اضافے کے لیے سائنس داں حضرات کو خصوصی سرمایہ فراہم کیا گیا جس کے نتیجے میں نیوکلیائی طاقت کے رازوں سے پردہ اٹھا اور انسانی تاریخ شرم سار ہوئی۔
بالکل اسی طرز پر ڈاروینیت اور اس سے جڑے دیگر نظریات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ چرچ کے بے جا ظلم نے تمام یوروپ اور مغربی دنیا کے بڑے حصے کو بری طرح متاثر کیا۔ علم اور تحقیق پر صرف چرچ کی اجارہ داری اور پہرہ تھا۔ جس کے لازمی اثرات اس دور میں ارتقا پذیر ہورہی سائنس میں نظر آتے ہیں۔ چناں چہ سائنس کے متعلق “مذہب بے زار” یا “مذہب دشمن” جیسے بیانیے اسی دور کی پیداوار ہیں۔
مندرجہ بالا تین باتیں، تین بڑے بیانیے تخلیق دیتی ہیں، وہ یہ ہیں:
- سائنس حتمیت تک پہنچنے کا راستہ ہے، وہ حتمیت نہیں ہے۔ سائنس حقائق کی تشریح ایک خاص حد تک ہی کر سکتی ہے، وہ بجائے خود حقیقت ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی۔
- سائنس مستقل بالذات ہے۔ وہ ارتقا پذیر ہے اپنے اصولوں اور اپنی جزئیات کے ساتھ۔
- سائنس ابدی سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن یہ جواب اضافی ہوتے ہیں اور ایک مخصوص فریم ورک کے مرہونِ منت ہیں۔ اس لیے سائنس مذاہب کی طرز پر دیے گئے جوابات کا متبادل نہیں ہے۔ (علی الرغم اس کے کہ ان ابدی سوالات کے جو جواب مذہب دیتا ہے وہ بنیادی انسانی عقل کے خلاف ہیں کہ نہیں!)
- چناں چہ یہ بات واضح ہوئی کہ سائنس، مذہب اور سماج کی بحث میں سائنس کو مذہب بنالینا ایک بڑی غلطی ہے، جو قدیم سائنس دانوں سے کم اور جدید سائنس دانوں سے زیادہ تر سرزد ہوئی ہے۔ اسی طرح سائنس سے الحاد کے لیے دلائل لانا اور سائنس سے مذہبی صداقتوں (جن پر اعتقاد بالیقین ہوتا ہے) کے لیے دلائل لانا دونوں ہی کارِ عبث ہیں۔ یہ دونوں مشقیں بالطبع اضافیت والے جوابوں پر منتج ہوتی ہیں۔
چناں چہ ساختی مذاہب ہوں جیسے ابراہیمی مذاہب، یا غیر ساختی مذاہب ہوں جیسے بدھ ازم، ہندوازم، یا کنفیوشنزم یا شنتاؤزم وغیرہ ان تمام مذاہب کے پیروکار اپنی اپنی کتابوں کی سچائی کے لیے سائنس سے دلیل لاتے ہیں۔ یہ سائنس کی عمومی مذہبی شعور پر فتح و بالادستی کی نشانی ہے۔ وہ بالادستی جس کا دعویٰ سائنس نے کبھی نہیں کیا۔ وہ بالادستی جسے سائنس پر لاد دیا گیا ہے۔ اور یہ جدید ملاحدہ (new atheist) حضرات کا کارنامہ ہے۔ جدید ملاحدہ نے بڑی چالاکی سے سائنس کو الحاد کے فروغ کے لے استعمال کیا ہے! چناں چہ رچرڈ ڈاکنس ہوں یا کرسٹوفر ہچنز، ڈینیل ڈینیٹ ہوں یا سام ہیرس ان تمام نے بنیادی طور پر سائنس کے ایسے بیانیے جن میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور جن کی اضافیت پر بہت سارے محققین متفق ہیں ان کو مذہب کے بالمقابل پیش کیا ہے۔ چناں چہ اس طرح کے بیانیوں نے جدید (millennial) نسل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اور سائنس کے انھی بیانیوں کا استعمال بہت ساری حکومتی پالیسیوں کو صحیح ٹھیرانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ مثلاً مسابقت میں اگر کسی کو روند کر آگے بڑھنا بھی پڑ جائے تو یہ ٹھیک ہے کیوں کہ یہ بقا کے لیے ضروری ہے! اسی طرح ذرائع و وسائل کے حصول کے لیے اگر دیگر انسانوں کے ساتھ کمی بیشی ہوجاتی ہے تو تنازع للبقا کی دوڑ میں یہ جائز ہے۔ مزے دار بات یہ ہے کہ یہی سائنس حیاتیاتی ایثار (biological altruism) کے متعلق بھی بات کرتی ہے۔ لیکن اس کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے۔ حیاتیاتی ایثار کا مطلب یہ ہے کہ بعض جان داروں کی یہ حیاتیاتی خصوصیت کہ وہ دوسرے جان داروں کی بقا کے لیے خود کا مفاد قربان کرتے ہیں۔مثلا بعض درندے اپنا شکار دیگر درندوں کے ساتھ مل کر کھاتے ہیں وغیرہ۔
یہ محض سرسری بات نہیں ہے، سائنس مذہب اور سماج کے مثلث میں ہر زاویہ انسانی تہذیب و تمدن کی بقا اور ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کا احساس سارے سنجیدہ سائنسی ماہرین کو رہا ہے۔ آئنسٹائن کا زبان زد قول کسے یاد نہیں ہے کہ
Science without religion is lame and religion without science is blind.
’’سائنس مذہب کے بغیر لولی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے۔‘‘
آئنسٹائن کے اس مقولے پر ہر طرح کے مباحث ہیں۔ ملاحدہ اس کی اپنے انداز سے تشریح کرتے ہیں اور عیسائی مذہبی افراد اپنے انداز سے۔ اس کے سیاق و سباق پر بھی بات ہوتی ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ آئنسٹائن جس مذہب کی بات کر رہے ہیں وہ عیسائیت تو ہرگز نہیں تھی۔ کیوں کہ عیسائیت کی تعبیر میں آزادانہ سائنسی تحقیقات کے لیے بہت سی اصولی قسم کی مشکلات ہیں۔
اس لیے سائنس، سماج اور مذہب کے مثلث میں ان دائروں کا ہونا بہت ضروری ہے جن میں ان تین ابعاد سائنس، مذہب اور سماج کو قید کیا جاسکے۔ ان دائروں کی حقیقی تعبیر کے بغیر ان تینوں کے اشتراک و استنباط کے اثرات کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ سائنس، مذہب اور سماج کے اس مثلث میں موجود ہر بُعد (dimension) کے ارتقا پذیر ہونے کے عمل کو باریکی سے سمجھا بھی جائے اور اس بات کو مانا بھی جائے کہ ان میں کا ہر بُعد ارتقا پذیر ہے۔ اس لیے جب مذاہب کی بات ہو تو یہ دیکھنا بھی ضروری ہوجائے گا کہ مذاہب ارتقا پذیر ہو رہے ہیں یا نہیں؟ یا مذہب ارتقا پذیر ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر مذہب ارتقا پذیر ہیں تو کیا وہ اصول کے اعتبار سے بھی ارتقا پذیر ہیں؟ کیا ان کے اصول و مبادی میں بھی ارتقا ہورہا ہے؟ کیا اصول و مبادی سے جڑے تصور اور ان اصولوں کی تشریح و تعبیر میں ارتقا ہورہا ہے؟ مثلاً درج ذیل نکات ملاحظہ کریں، اس پر بھی غور کریں کہ سائنس نے اپنے حدود سے تجاوز کرکے کس طرح ان سوالوں کے جواب دیے:
- کیا عیسائی تصور خدا اور اسلامی تصور خدا میں ارتقا ہوا ہے؟ (سائنس کے اعتبار سے تصور خدا شرک سے توحید تک پہنچتا ہے۔)
- کیا مذہب کے نزدیک اچھائی اور برائی کے تصور (conception) میں کوئی ارتقا ہوا ہے؟ (سائنس کے اعتبار سے اچھائی اور برائی اضافی ہے جو ماحول میںفٹنس (fitness) پانے کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ چناں چہ ابدی برائی یا ابدی اچھائی یا مطلق نیکی اور برائی جیسی کوئی شے نہیں ہوتی ہے۔)
- عیسائی تثلیث کی ترجمانی میں ارتقا ہوا ہے یا ہو رہا ہے۔
- اسلام میں بدی اور نیکی کے تصورات اور دیگر مذاہب و ملت ہائے حیات کے بدی اور نیکی کے تصورات میں کوئی ارتقا ہوا ہے؟
یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ مذہب، سائنس اور سماج کی بحث میں اسلامی نکات نظر کی بنیاد واضح ہو جائے۔
ہمارا ماننا ہے کہ مذہب، سائنس اور سماج کے مثلث میں اسلام بالکل ایک الگ اور پروقار شان سے کھڑا ہے۔ اسلام میں موجود غیرساختیت اسے دوسرے ابراہیمی مذاہب سے ممتاز کردیتی ہے۔ اور اس کے اصول و مبادی میں موجود ساختیت اسے دوسرے فلسفہ ہائے حیات کے مقابلے میں ایک انوکھا اور بے مثال ثبات عطا کرتی ہے۔ چناں چہ معروف مذاہب کی فہرست میں ہوتے ہوئے بھی وہ ’’الدین‘‘ کا ایک الگ ’’بُعد‘‘ اپنے اندر رکھتا ہے، جس سے اس تثلیث (مذہب، سائنس اور سماج) میں اسے ایک فوقیت حاصل ہوجاتی ہے۔
مثال کے طور پر کیا کائنات خود بہ خود وجود میں آسکتی ہے؟ اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے کہ نہیں، اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ اسی طرح کیا کائنات میں تناسب پایا جاتا ہے؟ قرآن اس کا جواب اثبات میں دیتا ہے، جس نے تخلیق کی اور تناسب قائم کیا۔ (الذی خلق فسوی) لیکن کائنات کی تخلیق کیسے کی گئی، اس کی تحقیق کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے، تاکہ انسان اپنی محدود عقل اور تجربات واستنباط کے جتنے ذرائع ہوسکتے ہیں، ان کا استعمال کر کے اس کیسے کا جواب ڈھونڈے۔
اسی طرح کیا انسان جانور ہے یا محض حیوان ہے؟ اس کا جواب دیا گیا کہ نہیں بلکہ وہ تکریم یافتہ ذٓت ہے، (ولقد کرمنا بنی آدم) لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ وہ اپنی روش کی بنا پر اسفل سافلین بھی ہوسکتا ہے۔
تخلیق کا مکمل استحقاق صرف خالق کو ہے، اس بات کو پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا، لیکن تخلیق کیسے ہوئی؟ اس کے میکانسٹک پہلو کی تفصیل اور جزئیات پر کوئی قطعی بیان نہیں دیا۔
کائنات کے بالآخر انجام کو واضح کیا کہ بالآخر یہ فنا ہوجائے گی، کیسے ہوگی، اس کے نظارے کی جھلکیاں بھی دکھائیں۔ جب “چاند اور سورج لپیٹ دیے جائیں گے” لیکن کیسے لپیٹ دیے جائیں گے اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔
شعور، عقل، وجدان، ادراک، احساس کو بطور خاص انسان کے تناظر میں بیان کیا اور اس کے استعمال پر اکسایا، لیکن اس کی کیفیت پر نئے زاویوں اور نئے ابعاد کی تلاش کے لیے راستہ کھلا رکھا۔
روح کو محض ارتباط (co-ordination)کے درجے میں نہ رکھ کر اسے ایک خاص بلندی عطا کی، لیکن روح کے کیمیائی تجزیے سے کسی کو نہیں روکا!
مندرجہ بالا مختصر تجزیہ اس بات کا مظہر ہے کہ سائنس، مذہب اور سماج کے مثلث میں اسلام کو اصولی اعتبار سے ایک ممتاز کیوں ہے۔
اسلام سائنس کو بحیثیت طریقہ اکتساب علم اور بحیثیت فلسفہ حیات کے کیسے دیکھتا ہے۔ ’’سائنس اور اسلام‘‘ اور ’’اسلامائزیشن آف سائنس اینڈ نالج‘‘ جیسے بیانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ کیا سائنس اور اسلام متصادم ہیں؟ یہ اور ان جیسے تمام روایتی بیانیوں کےعلی الرغم جدید سائنس، روایتی مذہب اور اسلام کے کیا نئے ابعاد ہیں اور ہو سکتے، اس پر ان شاءاللہ آئندہ بحث آئے گی۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2021