پچھلے مضمون میں سائنٹزم کے بارے میں یہ وضاحت آئی تھی کہ کس طرح سائنس اور اس سے آگے بڑھ کر سائنٹزم انسانی تصور حیات کو متاثر کرتا ہے، جس سے بالآخر اجتماعی سماجی شعور تشکیل پاتا ہے۔ اب سائنٹزم کے ذریعہ تخلیق کردہ اس تصور حیات کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک درج ذیل چار شعبوں میں سائنٹزم کے واضح اور ناقابل اختلاف اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
1 علم اور اس کے حصول میں کلیت پسندی (totalitarianism)
سائنٹزم، اپنی اصل کے اعتبار سے (خواہ ہم کسی بھی زاویے سے اس کا جائزہ لیں )، دراصل یہ تصور ہے کہ علم کا واحد ذریعہ صرف سائنسی طریقہ کار ہے۔ اس کے علاوہ جتنے ذرائع علم ہوسکتے ہیں وہ یا تو فرسودہ (obsolete) ہیں یا غیر حقیقی اور ناقابلِ اعتبار۔ یعنی سائنٹزم علم اور اس کے حصول میں ایک قسم کی کلیت پسندی کا علم بردار ہے۔ چناں چہ علم کا ہر وہ طریقہ جو مروجہ طبعی سائنس کے طریقہ کار (methodology) پر پورا نہیں اترتا وہ علم کا ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ مثلاً، وحی، وجدان، بعض مشاہدات، سماجی رویوں کی توجیہ، اخلاقیات کی قدریں اور ان کے استخراج کا طریقہ وغیرہ۔
قارئین اس مغالطے کا شکار نہ ہوں کہ یہاں اس نکتے پر بحث کی جا رہی ہے کہ سائنس اور سائنٹزم کس طرح ایک کلیت پسند حکومت میں سماج سے تعامل کرتا ہے۔[1] نہیں ۔ بلکہ یہاں اس نکتے سے گفتگو ہے کہ اپنی بعض شکلوں میں بظاہر بےضرر نظر آنے والے سائنٹزم نے علم کے ہر ذریعے اور طریقہ کار کو کس طرح غلط ٹھہرایا اور اس طرح علم اور ذرائع علم، علم اور طریقہ حصولِ علم، سب ایک طرح کے سائنسی فریم میں قید ہوکر رہ گئے۔ یہ سائنسی فریم کئی اعتبار سے ناقص تھا اور ہے۔ مثلاً قیاس (hypothesis) جو طبعی سائنس میں علم کے حصول کی پہلی سیڑھی ہے وہ—
- سائنس داں کے تخیل کی پرواز سے براہِ راست منسلک ہے۔
- سائنس داں کی قوتِ مشاہدہ اور قوتِ ادراک پر منحصر ہے۔
- سائنس داں کے سماجی و سیاسی، اخلاقی و دیگر سیاق (context) میں وجود پاتا ہے۔ یعنی مفروضہ اور اس کے قائم کرنے ہی میں غیرمعمولی تغیر واقع ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ سائنس داں کے حوالے سے درج بالا نکاتِ مفروضہ میں ہر قسم کے نقائص در آنے کا باعث بنتے ہیں ۔
بعض سائنسوں میں دوسری سیڑھی تجربے کی ہے۔
اسی طرح، تجربے کے سلسلے میں بھی—
- تجربہ معیاری اور اوزان پر مبنی نظام کی تشکیل اور اس میں مداخلت (intervention) کا نام ہے۔
- محقق تجربے سے الگ نہیں ہوتا، بلکہ اس تجربے ہی کا حصہ ہوتا ہے۔
- تجربے کے نتائج پر وقت اور مخصوص ماحول کے اجزا اثر انداز ہوتے ہیں ۔ (حالاں کہ اس پر قابو پانے کے لیے سائنسی تجربات میں چیک اور بیلنس لگائے جاتے ہیں ۔)
- تجربے ان حالات و سیاق میں انجام پاتے ہیں جو قائم شدہ مفروضے کے حالات و سیاق سے بعید از زمانہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اضافیت کے امکان بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں ۔
تیسری سیڑھی نتائج کے حصول اور ان نتائج کے استنباط اور استخراج کی ہوتی ہے۔ یہاں پر بھی—
- نتائج میں مفروضے کی مناسبت سے اس کے تئیں مثبت یا منفی رجحان۔
- نتائج کو قدر غیر جانب دار (value neutral) رکھنے کے لیے وضع کردہ چیک اینڈ بیلنس میں دراندازی۔
یعنی ابتدائی دو سیٖڑھیوں ہی پر سائنس کے طریقہ کار پر زبردست سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ طریقہ کار عبث ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ سائنٹزم علم کے حصول کے جس طریقہ کار کو آخری کسوٹی سمجھتا ہے وہ بجائے خود اضافی ہے۔
اوپر دیے گئے نکات کا مطلب یہ نہیں کہ سائنس بالکلیہ غلط ہوجاتی ہے یا سائنسی طریقہ کار بالکل ہی بے کار ہے۔ بلکہ سائنس اور اس کی بنیاد پر وجود میں آنے والی ٹکنالوجی، اس کی عقل کو حیران کر دینے والی ایجادات اور کائنات کے متعلق اسی طریقہ کار کا استعمال کرکے کائنات میں چھپے ہزاروں رازوں سے پردہ اٹھانے کی اس کی صلاحیت اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ایک غیرمعمولی کاوش (enterprise) ہے۔ لیکن ان سے یہ بات کہاں ثابت ہوتی ہے کہ سائنسی طریقہ کار سے حاصل ہونے والی باتیں ہی واحد سچائی ہے۔ اور اس سے حاصل ہونے والا علم ہی قطعی علم ہے، اور یہ کہ اس طریقہ علم سے حاصل ہونے والی معلومات انسان کی رہ نمائی کے لیے کافی و شافی ہیں ۔
معتدل انداز میں اگر سائنٹزم کے اس دعوے کو دیکھا جائے تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ دیگر ذرائع علم اور طریقہ کار علم میں جو نقائص یا کمیاں نظر آتی ہیں، کم و بیش وہی سائنسی طریقہ کار میں بھی ہیں، ایک دو استثنا کے ساتھ۔
سائنٹزم کے ذریعے پیدا کردہ اس کلیت پسندی نے خواص کے بڑے حصے کو علم کے دیگر ذرائع سے محروم کردیا۔ چناں چہ سائنٹفک فریم نے بہت سارے سوالات کے جوابات دیے، جن سے عوام خاموش تو ہوگئے لیکن مطمئن نہیں ہوسکے۔ اس طرح سائنٹزم نے یک رنگی علم کا ایک کینوس تشکیل دیا ہے جس میں انسان اور کائنات سے جڑے ہر سوال کے جوابات طبیعیاتی سائنس کے ذریعے دینے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ وہ تمام سوال جن کے جواب دینے کی کوشش میں پھر نئے سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔
2 اخلاقیات اور قدروں کی سائنس کاری
سائنٹزم کا دوسرا سب سے نمایاں اثر اخلاقیات اور قدروں کی سائنس کاری ہے۔ اب تو پھر بھی اس اثر کو خواص، بطور خاص سائنس دانوں اور محققین میں کم زور (dilute) ہوتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے، لیکن انیسویں صدی کے تمام تر طبعی سائنس دانوں یا سماجی حیاتیات (social biology) کی پوری جڑوں میں ہم اس رجحان کے اثرات کو نمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں ۔ مثلاً انسانی جذبۂ رحم ایک الوہی صفت ہے، ایک ایسی صفت جس کو خالق سے جوڑا جاتا ہے۔ حیاتیات میں اسے حیاتیاتی ایثار پسندی (biological altruism) سے تعبیر کیا جانے لگا۔ یعنی رحم اس لیے ہے کہ انسان اپنی نوع کو بچانا چاہتا ہے، لہٰذا کسی دوسرے انسان کی جان بچانے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اپنے حصے کے وسائل میں سے ان لوگوں کو غذا یا پناہ گاہ یا جذباتی سہارا دیتا ہے جو اس سے محروم ہوں ۔ سائنٹزم کہتا ہے کہ یہ کام جذبہ الوہی یا کسی خالق کا ودیعت کردہ نہیں بلکہ محض ایثار پسندی (altruism) کے حیاتیاتی مظاہر ہیں۔ جب اس پر مزید تحقیق آگے بڑھی اور اس کے علی الرغم نتائج آنے لگے تو اس کی تین مزید قسمیں دریافت کرلی گئیں ۔ اور کہا جانے لگا کہ اصلاً حیاتیاتی ایثار جذبہ رحم کی توجیہ ہے لیکن اس کی فلاں فلاں قسمیں ہیں، یا جذبہ رحم کی سائنسی توجیہ حیاتیاتی ایثار ہی سے ممکن ہے۔ غرض اس الوہی صفت کی تشریح کے لیے سائنٹزم کے اس فریم کو گھٹایا بڑھایا گیا اور ذریعہ علم یا کسی اور توجیہ و تشریح کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔
رحم جیسے جذبے کے لیے اس طرح کا فریم محض سرسری بات نہیں ہے۔ سماجی حیاتیات میں سائنٹزم کے اثرات کے حوالے سے بعض محققین دنیا میں ہونے والے بہت سارے انسان مخالف فیصلوں اور پالیسیوں کو اخلاقیات اور قدروں کی سائنس کاری کے حوالے سے دیکھتے ہیں ۔ مثلاً حیاتیاتی اخلاقیات (bioethics) میں بہت سارے حیاتیاتی اخلاقی مسائل کے سلسلے میں جدید حیاتیاتی اخلاقی ماہرین کے فیصلے دیکھے جاسکتے ہیں جو نیم انسان (humanoid) یا سائبورگ یا انسانی کلوننگ وغیرہ کے سلسلے میں ہیں ۔
بالکل اسی طرز پر مامتا کے جذبے کی بات ہے۔ مامتا کا جذبہ بھی اپنے اندر ایک الوہی تعبیر کا حامل ہے۔ سائنٹزم کی رو سے مامتا کا جذبہ محض ایک ہارمون (ایک کیمیائی مادہ) آکسی ٹوسن کا رہین منت ہے، جب کہ سائنس نے ابھی حتمی طور پر یہ ثابت نہیں کیا ہے کہ مامتا کا جذبہ صرف اور صرف آکسی ٹوسن سے پیدا ہوتا ہے۔ البتہ آکسی ٹوسن کے علی الرغم مامتا کے جذبے کے ثبوت موجود ہیں، لیکن سائنٹزم اسے مستثنیات (exceptions) قرار دیتا ہے۔ مامتا کے جذبے محض کیمیائی مادے کا نتیجہ قرار دینے کے بہت سے اثرات براہِ راست معاشرے نے محسوس کیے ہیں ۔ مثلاً رحم مادر کو اجرت پر دینے کے عمل (surrogacy) اور اس سے وابستہ بہت سے معاملات میں رحم مادر کو محض ایک مشین (incubator) کی شکل میں دیکھنا۔ اور پھر متبادل ماں (surrogate mother) کو محض بچے کی دیکھ بھال کرنے والی عورت (baby carrier) تک محدود کرنا، اور آکسی ٹوسن کے انجکشن لے کر جذبۂ مامتا کو پروان چڑھانے کی ناکام کوشش کرنا، ان اثرات کے مظاہر ہیں ۔
سروگیسی، قانونی ماں اور اس سے وابستہ جو ہزار ہا مقدمات اس وقت امریکی اور یوروپی عدالتوں میں چل رہے ہیں، وہ دراصل اسی مامتا کے جذبے کو محض کیمیائی عمل مان لینے کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں ۔ ہوتا یہ ہے کہ نسبتاً خوش حال خواتین جب مزید پیسہ کمانے کے لیے اپنی بچہ دانی کرایے پر دیتی ہیں تو وضعِ حمل کے بعد فطری طور پر انھیں بچے سے انسیت ہوجاتی ہے، اور مامتا کا جذبہ پروان چڑھتا ہے، جس کے بعد بچے کو ان لوگوں کو سونپنے میں اسے مشکل ہوجاتی ہے جنھوں نے اس کا رحم کرایے پر لیا تھا۔ چناں چہ اب یوروپ اور امریکہ میں تین قسم کی مائیں پائی جاتی ہیں : اول، حیاتیاتی ماں (biological mother)، جس کا بیضہ ہو؛ دوم، وضع حمل کرانے والی ماں (gestational mother) جس خاتون کا رحم کرایے پر لیا جائے، اور اس میں جنین پروان چڑھے یا سادہ زبان میں بچہ جس ماں کے رحم میں پروان چڑھے؛ اور سوم، قانونی ماں (legal mother) یعنی جو قانون کی نظر میں ماں قرار پائے، اور بچے کے سرٹیفیکٹ میں ماں کے نام کے طور پر اس کا نام درج کیا جائے۔ اور ان تینوں قسم کی ماؤں اور بچے کے قانونی حق کو لے کر سیکڑوں مقدمات ہر سال عدالتوں کے سامنے آتے ہیں ۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کہ مندرجہ بالا اثر تو محدود نوعیت کا ہے۔ دیگر عوامل کے ساتھ مل کر اس طرح کے تصور حیات نے جس میں اخلاقی قدروں کی سائنس کاری کردی گئی ہو، مغرب کی سماجی اور عوامی زندگی میں زبردست انقلاب برپا کیا ہے، جس کا براہِ راست مشاہدہ ان اعداد و شمار سے کیا جاسکتا ہے جو ہر سال حکومتیں اور ادارے شائع کرتے ہیں ۔
اسی طرح کی (ہمارے نزدیک) ایک منفی قدر جنسی انحراف اور جنسی رویوں سے متعلق ہے۔ یہ ہم جنسیت (homosexuality اور lesbianism) کی سائنس کاری یا انھیں سائنسی جواز دینے سے متعلق ہے۔ اس طرح کے معمول سے الگ جنسی رویے کی توجیہ سائنٹزم نے کئی درجوں پر کی ہے، اور اسے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ ہم جنسیت کو خواص میں قبول عام دلوانے کا سہرا سائنٹزم ہی کے سر ہے۔
- ہم جنسیت کو سماجی حیاتیات کے حوالے سے قدیم ترین رویہ باور کرانے کی کوشش۔
- ہم جنسیت کو ارتقائی مرحلہ وار جنسی رویہ ثابت کرنے کی کوشش۔
- سالماتی حیاتیات کے حوالے سے ہم جنسیت کے لیے جین دریافت کرنے کی کوشش اور بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حتمی جنین دریافت کرنے کا دعویٰ۔
ان تینوں درجوں پر کلام تفصیل چاہتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک پر باقاعدہ تحقیقی مقالے موجود ہیں، کتابیں بھی ہیں ۔ تاہم ان کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ابھی تک ان تینوں درجوں کی کوششوں میں کوئی بھی حتمیت یا واقعیت تک پہنچانے والا ثبوت یا نکتہ موجود نہیں ہے۔ یعنی اب تک یہ حتمی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکا کہ ہم جنسیت قدیم ترین رویہ ہے۔ اسی طرح ارتقا میں ہم جنسیت کے موضوع پر ہر طرح کا لٹریچر موجود ہے، اور یہ بات اہم ہوجاتی ہے کہ آپ کس زاویۂ نظر سے اس پر نظر ڈالتے ہیں ۔ دونوں طرف دلائل کے انبار ہیں، اثبات میں بھی، اور انکار میں بھی۔
سالماتی حیاتیات میں ہم جنسیت کے جین (gay gene) پر بہت شور مچایا گیا، لیکن یہ محض سائنٹزم ہے۔ سالماتی حیاتیات میں رویوں کے لیے کسی مخصوص جین کو ذمہ دار ٹھہرانا انتہائی غیرسائنسی عمل ہے۔ اس لیے چوٹی کے ماہرینِ سالماتی حیاتیات اس دعوے کو یکسر خارج کرتے ہیں کہ ہم جنسیت کے لیے کوئی واحد جین ذمہ دار ہے جس کی بنا پر ہم جنسیت ایسا رویہ بن جائے کہ فرد قابو میں نہ رہے اور وہ ہم جنس بننے کے لیے مجبور ہوجائے یعنی جینیاتی جبریت (genetic determinism) کے زیر اثر ہو۔ ہمارے نزدیک سالماتی حیاتیات واضح طور پر بتاتی ہے کہ رویے کی سطح پر جین کے ساتھ یکساں اہمیت کا حامل ماحول ہوتا ہے، جو جین کے انضباط کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے۔ چناں چہ وہ تمام سالماتی حیاتیاتی تعین کنندہ (determinants) جو ہم جنسیت کے لیے پیش کیے جارہے ہیں ان میں مروجہ غیر سائنسی مفروضات (speculation) ہیں ۔ (گے جینز، جنسی انحراف اور جنسی رویوں پر تفصیلی بات ان شاء اللہ آئندہ کسی مضمون میں آئے گی۔)
لیکن سائنس سے آگے بڑھ کر سائنٹزم نے ہم جنس پرستی کو جائز ٹھہرا دیا، اور سالماتی حیاتیات کا سہارا لے کر یہ باور کرایا گویا ہم جنس پرست افراد ہم جنسیت کے لیے مجبور ہیں ۔ عالمی سطح پر ہم اس کے اثرات کو محسوس کرسکتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ خود ہمارے ملک میں خواص میں ہم جنس پرستی کو لے کر ایک خاص بیانیہ تشکیل پاچکا ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ہوموفوبیا (ہم جنس پرستوں سے نفرت) قانونی و اخلاقی جرم قرار پایا ہے۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ سائنٹزم کی بنیاد پر ہر ایسے وصف اور منفی قدر کو جو ایک عرصہ سے اجتماعی اخلاق (collective morality) میں غیرپسندیدہ رہی ہے (باوجود اس کے کہ ہم اجتماعی اخلاق کے بعض اضافی اور ارتقا پذیر پہلوؤں کے قائل ہیں ) ہم جنس پرستی کو محض نامکمل اور غیرثابت شدہ سائنسی مفروضے کی بنیاد پر صحیح ٹھہرانا ایک اخلاقی اور سائنسی بددیانتی ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم جنس پرستوں کے انسانی حقوق اور ہم جنس پرستوں کے جنسی حقوق پر دو الگ الگ جہات سے کلام کی گنجائش ہے۔ عقل سلیم رکھنے والا ہر شخص ہم جنس پرستوں کے انسانی حقوق کی حمایت کرے گا، تاہم ہم جنسوں کے جنسی حقوق کو محض سائنٹزم کی بنیاد پر یا جینیاتی مقدر (genetic luck) یا جینیاتی جبر کی بنیاد پر صحیح قرار دینا غیرسائنسی رویہ ہے۔ انفرادیت پرستی (individualism) اور لامحدود شخصی آزادی کے مغربی پیراڈائم علیحدہ بحث کے متقاضی ہیں ۔ یہاں اس کا موقع نہیں ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ہم جنسیت کی اس قدر کی سائنس کاری نے بڑے پیمانے پر مشرق و مغرب میں خاندان اور خاندانی اکائی کے پورے نظام، اس کے پورے تصور کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کے اثرات کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں ۔
یوروپ و امریکہ اور ہندوستان و چین کے بڑے پیمانے پر بکھرتے ہوئے خاندانوں سے لے کر، ہم جنسیت کی اس سائنس کاری کے نتیجے میں انحرافی رویے اور نوع انسانی کی پیدائش کی نمو و شرح تک ہر شے متاثر ہورہی ہے اور مزید ہوگی۔ واضح ہو کہ یہاں اس بات سے انکار نہیں کیا جارہا ہے کہ مندرجہ بالا انحطاط کے دیگر اسباب نہیں ہیں، بالکل ہیں ۔ لیکن بہت گہرائی میں جاکر اگر دیکھا جائے تو اصلاً انسانی معاشرے کو تصور حیات ہی بحیثیت مجموعی ڈھالتا ہے۔ یہ تصور حیات خواص سے عوام تک منتقل ہوتا ہے۔ ریاست سے سماج تک آتا ہے اور حکومتوں کی پالیسی اور عوام پر اثر انداز ہوتا ہے۔
چناں چہ واضح ہوا کہ سائنٹزم نے اجتماعی اخلاقی قدروں کی نہ صرف سائنس کاری کی بلکہ ان کے قد کو انتہائی درجہ تک گھٹا دیا، اور مجبوری کے تحت ان قدروں کو سیکولر انسانیت پرستی (secular humanism) کے تحت ضروری قرار دیا۔
اس لیے بطور خاص مغربی سماج میں سائنس، مذہب اور سماج کی اس تعاملاتی مثلث (interactive triangle) میں اخلاقیات اور قدروں کے لیے سائنس کا استعمال بتدریج ارتقا پذیر نظر آتا ہے، اور اس کا انتہائی مظہر ہمارے نزدیک سیم ہیرس اور ان کی قبیل کے صحافی اور محققین ہیں، جن کے نزدیک آزاد ارادے (free will) جیسی کوئی شے نہیں بلکہ انسان جینیاتی جبریت اور اس کے ماحول سے عبارت ہے۔ اس کا ارادہ، اعمال سب اسی جینیاتی جبریت کا نتیجہ ہیں ۔
3 ’’امید ‘‘اور’’مقصد ‘‘کی بنیادوں کا انہدام
امید اور مقصد ہر ذی شعور انسان کی بنیادی ضرورت ہیں ۔ ہمارے نزدیک امید اور مقصد بالکل اسی طرح بنیادی ضرورتیں ہیں، جس طرح روٹی، کپڑا اور مکان۔ ایک مادی وجود کے لیے اور دوسری روحانی وجود کے لیے (واضح ہو کہ مادہ اور روح کی تقسیم یہاں معروف معنوں میں ہے۔)
امید اور مقصد کے بغیر انسانی شعور اور سماج دونوں بےسمت ہو جاتے ہیں اور اس بےسمتی کا نتیجہ موجودہ دور میں ہرطرف دیکھنے کو مل رہا ہے۔
سائنٹزم نے انسانی امید اور مقصد دونوں کی بنیادیں منہدم کردی ہیں ۔ یہ بات بظاہر بڑی عجیب لگے گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ مذہب خواہ جس شکل میں ہو، قطع نظر چند مستثنیات کے، انسان کو امید اور مقصد دیتا ہے۔ سائنٹزم اس سے یہ امید اور مقصد چھین لیتا ہے۔ یہ سائنٹزم کا علانیہ مقصد نہیں ہے تاہم یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا اس فلسفے کی اندرونی گہرائیوں سے راست تعلق ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے وہ سیکولر انسانیت پرستی کا سہارا لیتا ہے۔ سائنٹزم کیسے امید اور مقصد چھینتا ہے، ملاحظہ کیجیے:
سائنس کہتی ہے کہ غالب ترین علمی مقدمہ یہ ہے کہ انسان جانور جیسے جانداروں سے بتدریج ارتقا کرتا ہوا انسان کی شکل میں وجود پذیر ہوا۔ جب کہ سائنٹزم کہتا ہے یقیناً انسان بتدریج ہی وجود میں آیا ہے اور وہ ایک سماجی جانور ہی ہے۔ اب اگر انسان سماجی جانور ہی ٹھہرے تو کسی بھی اعلیٰ انسانی قدر کے تحفظ یا اسے اپنے اندر پروان چڑھانا ایک اضافی ضرورت تو ہوسکتا ہے، مقصد نہیں ۔ کسی فوق الفطرت ہستی کا جب کائنات کے بنانے میں کوئی دخل نہیں تو پھر آخرت، حساب، رویوں کی مسئولیت اسی وقت تک ٹھیک ہے جب تک کہ وہ اپنے فائدے کے لیے ہو۔ چناں چہ جب اسٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں کہ کائنات کے وجود میں آنے کے لیے کسی فوق الفطرت ہستی کی ضرورت نہیں تو وہ صرف ایک بیان نہیں دے رہے ہیں ۔ وہ ان لاکھوں کروڑوں انسانوں سے امید اور مقصد چھین رہے ہیں جو انھیں اپنا مربی و رہنما مانتے ہیں ۔ یہ امید کہ آخرت ہوگی، آج جو مظلوم ہیں ان کی داد رسی ہوگی، آج اگر کوئی انفرادی سطح پر ناکام ہے، کل آخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہوگا، آج اگر کوئی قوم ظلم کی چکّی میں اس لیے پس رہی ہے کہ وہ ذرائع و وسائل، مہارت و اجتماعی جدوجہد اور ‘‘تنازع للبقا’’ کے میدان میں پچھڑ گئی ہے تو امید ہے کہ اسے اس ظلم کا کچھ نہ کچھ انصاف ضرور ملے گا، اور ظالم کے حتمی انجام کو دیکھنے کا حق بھی حاصل ہوگا۔
امیدیں انفرادی بھی ہوتی ہیں اور بحیثیت نوع انسانی بھی۔ مقصد انفرادی بھی ہوتے ہیں اور اجتماعی بھی۔ انفرادی مقاصد میں کامیابی، ترقی، آخرت میں جنت و دوزخ کا حصول۔ اجتماعی مقاصد میں قوم اور ریاست کی فلاح و بہبود نوعِ انسانی کی بحیثیت مجموعی ترقی وغیرہ سب کچھ۔ جب کوئی خالق نہیں ہے تو پھر یہ سب ہم کو اضافی بہتری اور اضافی اچھائی اور اضافی آزاد ارادے کی طرف لے جاتے ہیں، یعنی یہ سب اس لیے ضروری ہے کہ بحیثیت نوع انسانی ہم ترقی کریں ۔ لیکن یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بحیثیت نوع انسانی ترقی کے یہ خوش کن نعرے محض سیکولر انسانیت پرستی کی بنیاد پر حقیقت میں تبدیل نہیں کیے جاسکتے، ان کے لیے کچھ اور ٹھوس بنیادیں چاہئیں ۔ تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر—اس مذہب کی بنیاد پر جسے آپ امید اور مقصد دینے والا قرار دیتے ہیں، اس نے اور بھی تباہی مچائی ہے۔ وہ بھی امید اور مقصد دینے میں مکمل طور سے کامیاب نہیں ہیں، بلکہ مذہبی برتری ایک جنون کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ محض مذاہب نے نہیں بلکہ مذہب کو بنیاد بنا کر انسانی تعبیرات (interpretation) نے تباہی مچائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی بات سائنس اور سائنٹزم پر بھی چسپاں کی جاسکتی ہے کہ اس کی تعبیر غلط کی گئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ نہیں، سائنٹزم نے واضح اور دوٹوک کہا ہے کہ خدا نہیں ہے، تنازع للبقا سماج کی بنیادی قدر ہے، تمام الوہی اقدار اور اخلاقیات اضافی ہیں، مذاہب نے—بطور خاص آسمانی مذاہب نے کبھی نہیں کہا کہ قتل و غارت گری کرو، فساد پھیلاؤ، انسانوں کو انسانوں کا غلام بناؤ۔ سائنس نے واضح طور پر کہا ہے کہ انسان محض مادّی وجود ہے، اور روح اور اخلاق اضافی امکانات ہیں ۔ جو روحانی وجود کی بات کی جاتی ہے وہ محض کیمیائی ترسیلوں اور پیچیدہ کیمیائی شبکوں (networks) اور عصبی خلیات میں ہونے والی تبدیلیوں سے عبارت ہے، چناں چہ جزا و سزا اور آخرت کوئی چیز نہیں ہے۔ اس طرح سائنٹزم نے امید اور بلند مقصد دونوں سے معاشرے کو محروم کردیا۔
مذہب کس طرح امید اور مقصد دیتا ہے، اور بالآخر یہی امید اور مقصد انسان کو بہتری کی طرف لاسکتے ہیں، اس کی صرف ایک مثال ذیل میں دی جاتی ہے۔
علم خودکشیات (suicidology) اب سائنس کی ایک شاخ کے طور پر ترقی پا رہا ہے، (اس کا وجود اس حقیقت سے عبارت ہے کہ جب تک آپ اس مضمون کو مکمل کریں گے تب تک ہمارے وطن عزیز ہی میں کوئی شخص اپنے ہاتھوں اپنی قیمتی جان لے چکا ہوگا، اور پوری دنیا میں کئی افراد خودکشی کر چکے ہوں گے۔)
خودکشی اور امید کا باہمی طور پر راست تعلق ہے۔ تقریباً تمام نفسیاتی ماہرین اس بات سے متفق ہیں خودکشی کا جذبہ اور داعیہ ناامیدی کی انتہا پر پہنچ کر ہی نمودار ہوتا ہے۔
مذہب اور مذہبی عقائد کو خودکشی سے بچاؤ کے اہم محرک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن اس ضمن میں مختلف تحقیقی مقالے مختلف نتائج پیش کرتے آرہے تھے۔ ریان ای۔ لارنس نے پانچ سال قبل آرکائیوز آف سوسائڈ ریسرچ میں ایک زبردست مقالہ لکھا تھا۔ اس مقالے میں انھوں نے 89 تحقیقاتی مقالوں کا تجزیہ کیا جو مذہب، خودکشی اور اس سے متعلق پہلوؤں سے بحث کرتے ہیں ۔ [2]انھوں نے اپنے نتائج میں لکھا کہ مذہب اور مذہبی عقائد اگرچہ بہت پیچیدہ ہیں لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ مذہب خودکشی کی کوششوں کو روکنے میں ممد و معاون ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں مذہبی افراد، جو کسی بھی درجے میں اپنے آپ کو مذہب سے جوڑتے ہیں، ان افراد کے مقابلے میں جو غیرمذہبی، لادینی، یا اس جیسے کسی پہلو سے اپنے آپ کو جوڑتے ہیں، خودکشی کی بہت کم کوشش کرتے ہیں ۔
چناں چہ ثابت ہوا کہ مذہب امید دیتا ہے اور امید بالآخر فرد کے تصور حیات پر اثرانداز ہوتا ہے۔
مقصد کے حوالے سے بھی یہ بات اتنی ہی درست ہے۔ اگر انسان دیگر جانوروں ہی کی طرح ہے یا ان کی ترقی یافتہ شکل ہے تو یہ فریم بالآخر انسان کو کسی بلند مقصد کے لیے کیوں کر مہمیز کرسکتا ہے۔ یا اگر کر بھی سکتا ہے تو اس کی بنیاد کیا ہوسکتی ہے۔ محض بنی نوع انسان کی بہتری اور کامیابی۔ لیکن پھر سوال محرکات کا کھڑا ہوجاتا ہے۔ جنت، دوزخ، جزا و سزا، یہ سب انسانی نفسیات کے ثابت شدہ محرکات ہیں، (کچھ کمی و بیشی کے ساتھ)۔ چناں چہ انسان کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کرنا (سائنٹزم کے قائلین کے نزدیک نوع پسندی – speciesism – یعنی انسان دیگر جانداروں سے بہتر ہے، وہ اسے منفی قدر مانتے ہیں اور ماحولیات کے بہت سے مسائل کے لیے ذمہ دار مانتے ہیں ۔) ضروری ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ مثبت نوع پسندی ہونی چاہیے، یعنی صرف اس بنیاد پر دیگر جانداروں کا استحصال نہیں کیا جاسکتا۔
جدید سائنٹزم نے نوع پسندی کا منفی تصور دیا ہے، اس کے نزدیک انسان بھی دیگر جانداروں یا جانوروں کی طرح ہے، اس کی کوئی آفاقی یا خصوصی حیثیت نہیں ہے۔ جب کہ آسمانی کتابیں انسان کو کائنات میں یا زمین میں خصوصی اختیار و امتیاز کا حامل قرار دیتی ہیں (انجیل، تورات، زبور اور قرآن میں اس کے ثبوت ہیں ۔)
چناں چہ مذاہب امتیاز و اختیار کے ساتھ امید اور مقصد دیتے ہیں اور سائنٹزم انھیں انسان سے بالطبع چھین لیتا ہے۔ حالاں کہ وہ اس چھیننے کو اپنا مقصد نہیں بتاتا۔
چناں چہ بہت سی نفسیاتی تحقیقات کی مطابق پوری نوع انسانی میں، بطور خاص نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں، غیرمقصدیت (purposelessness) اور ناامیدی (hopelessness) بڑھی ہے۔[3]
یہاں یہ وضاحت ضروری ہوجاتی ہے کہ بعض مذاہب بھی گناہ و ثواب کا ایسا تصور دیتے ہیں جو بعض افراد کو مایوسی اور ناامیدی کی طرف لے جاتے ہیں، لیکن بالعموم حقیقی مذاہب انسان کو امید اور مقصد دیتے ہیں ۔ آسمانی مذاہب اپنی خالص شکل میں امید اور مقصد کی طرف لے جاتے ہیں ۔
4 جدید الحاد کو نظریاتی غذا فراہم کرنا
ہمارے نزدیک سائنٹزم کا ایک اہم ترین اثر جدید الحاد اور اس کے ماننے والے اور اسے فروغ دینے والوں کے ضمن میں یہ ہوا کہ ان ملاحدہ کے لیے سائنٹزم ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ ڈارونیت کے حوالے سے رچرڈ ڈاکنز کا مشہور زمانہ قول کسے یاد نہیں ہوگا جس میں وہ کہتے ہیں کہ
Darwin made it possible to be intellectually fulfilled atheist.
بہت سارے محققین اور متشککین و لا ادری (skeptics اور agnostics) اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جدید الحاد جارح (aggressive) ہے۔ اور سائنس سے آگے بڑھ کر سائنٹزم کے سہارے ارتقا پذیر ہوا ہے۔
مثلاً چارلس ڈارون کے بارے میں اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ وہ ملحد ہرگز نہیں تھے۔ زیادہ تر لوگ انھیں متشکک یا لا ادری کے درجے میں رکھتے ہیں ۔ لیکن آپ جدید الحاد کو پورا پڑھ جائیے، آپ جان لیں گے کہ جدید الحاد ڈارون کو ایک ملحد کے طور پر پیش کرتا ہے اور ان کے مذہبی موقف کو ان کے عہد کے سیاسی و مذہبی حالات کی بنا پر مصلحت کوشی سے تعبیر کرتا ہے۔جب کہ ڈارون نے باضابطہ کبھی اس طرف اشارہ نہیں خیا کہ وہ ملحد یا منکر خالق ہیں ۔ واضح رہے کہ نظریہ ارتقا (جیسا کہ پہلے تفصیل آچکی) خورد ارتقا (micro-evolution) کے تو کماحقہ ثبوت پیش کرتا ہے تاہم بہت سارے خورد ارتقا مل کر کلاں ارتقا پر منطبق ہوتے ہیں، اس کا براہِ راست ثبوت آنا باقی ہے۔
ہمارے نزدیک اس کے بالواسطہ ثبوت ابھی اس سطح کے نہیں ہیں کہ انھیں اتنے غیرمعمولی علمی موقف کے استدلال کے لیے استعمال کیا جاسکے، کیوں کہ انسانی وجود براہِ سلسلہ نسل بہر حال کسی خالق کے وجود یا عدم وجود کے سلسلے میں کیسے فیصلہ کرسکتا ہے؟ یعنی انسان کا وجود بتدریج ہوا اس کے تمام تر ثبوت آنے کے باوجود بھی یہ سوال باقی رہے گا کہ اس تدریج کے پیچھے بالاصل کیا محرک کار فرما تھا؟ کیوں کہ جو محرکات نظریۂ ارتقا دیتا ہے وہ شواہد و دلائل کی دنیا میں ناکافی ہیں ۔ لیکن سائنٹزم کے قائلین، جو جدید الحاد کے ہراول دستے میں بھی شامل ہیں، اس دلیل کو کافی جانتے ہیں کہ انسان کا بتدریج ارتقا پذیر ہونا اسے کسی خالق کی حاجت سے بے نیاز کردیتا ہے۔ حالاں کہ ڈارون نے انواع کے وجود میں آنے کے سلسلے میں غالباً اب تک کا سب سے صحیح اندازہ لگایا تھا۔
اسی طرح البرٹ آئنسٹائن کا معاملہ ہے۔ البرٹ آئنس ٹائن کو جدید ملاحدہ ملحد قرار دیتے ہیں ۔ جب کہ آئنسٹائن کا مذہبی نقطۂ نظر بہت واضح نہیں رہا۔ ان کا مشہور زمانہ قول ہے ’’God does not play dice‘‘ یعنی خدا بے مقصد پانسے نہیں کھیلتا۔یہ قول اور اسی قبیل کے دوسرے بیانات جو آئنسٹائن نے کثرت سے اپنے خطبات میں دیے ہیں، وہ آئنسٹائن کو خدا پر یقین کرنے والوں کی صف میں لاکھڑا کردیتے ہیں، جب کہ ان کا ایک خط، جسے خریدنے کے لیے رچرڈ ڈاکنز بہت بےقرار تھے، جو 1950 میں ایرک گٹکائنڈ (Eric Gutkind) کے نام لکھا گیا تھا، اس میں آئنسٹائن نے صاف کہا ہے کہ ان کے نزدیک لفظ خدا انسانی کم زوری کا اظہار اور ماحصل ہے۔ تاہم آئنسٹائن کے خطوط کے ماہرین اس سے اختلاف کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آئنسٹائن کے خدا کے تئیں موقف کو ان کے پورے لیکچروں، خطوط اور ان کے بڑے کینوس پر دیکھا جانا چاہیے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں [4]۔
مختصراً جدید ملاحدہ ماضی کے چوٹی کے سائنس داں حضرات کے خدا کے تئیں غیر مبہم موقف کو الحادی موقف کے طور پر لیتے ہیں، اور اس طرح اپنے لیے عقلی تسکین کی غذا فراہم کرتے ہیں ۔
مندرجہ بالا چار غیرمعمولی اثرات کے علاوہ اور بھی کئی اثرات کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے لیکن ان پر اتفاق نہیں ہے۔ ان میں بعض سائنٹزم کے تئیں روایتی عصبیت رکھتے ہیں ۔ مثلاً جنگ عظیم اول کے لیے سائنسی تصور حیات کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ بات راست طور پر غلو ہوسکتی ہے۔لیکن عصر حاضر کے بہت سے مسائل کے لیے چند نظریات ذمے دار ہیں اور ان سب نظریات کی جڑ سائنٹزم ہے۔ مثلاً سرمایہ دارانہ استعمار سوشل ڈارونزم کا نتیجہ ہے۔ خاندانی زوال فیمنزم کی پیداوار ہے۔ مادہ پرستی سائنٹزم کا راست نتیجہ ہے اور بہت سے مسائل کی ماں ہے۔ ماحولیاتی بحران کی جڑ میں فطرت اور اس پر قابو کرنے، اور انسان کے مختار کل ہونے کا سائنٹفک نقطہ نظر کارفرما ہے جس کی جڑیں انیسویں اور بیسویں صدی کے سائنسی لٹریچر میں بآسانی مل جاتی ہیں، وغیرہ۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سائنس، مذہب اور سماج کی مثلث میں سائنٹزم نے بالآخر مغربی سماج کی جس طرح آبیاری کی ہے اس سے سماج کے روایتی تصور اور اس کے اجزائے ترکیبی دونوں پر غیرمعمولی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ سائنس سائنٹزم میں کب بدل رہی ہے اس کے لیے بڑی دیدہ ریزی کی ضرورت ہے۔ اور سائنس کو سائنس تک محدود رکھنے کی ہر کوشش کی ہمت افزائی ہونی چاہیے، کیوں کہ سائنس مقصود ہے، سائنٹزم غیر مطلوب اور نقصان دہ ہے۔
سائنس بحیثیت ایک ذریعۂ علم اور اس کے بطن سے پید اہونے والی ٹکنالوجی بڑے کینوس پر انسان کے لیے حقیقی فائدہ مند ہو یہ اصل مقصود ہے۔
حواشی
[1] Paul R Josephsons in Totalitarian Science and Technology (2005), Second edition; Humanity Books, New York
[2] Ryan E. Lawrence, Maria A. Oquendo ‘ Barbara Stanley (2016 ). Religion and Suicide Risk: A Systematic Review; Archives of Suicide Research Volume 20, 1 pp 1-21, 2016.
[3] https://www.census.gov/data/tables/2020/demo/hhp/hhp4.html, and https://www.washingtonpost.com/opinions/americans-face-a-rising-tide-of-despair-we-have-a-duty-to-act/2019/09/05/8d98c0c2-d01d-11e9-8c1c-7c8ee785b855_story.html
[4] https://www.nytimes.com/2018/12/02/nyregion/einstein-god-letter-auction.html
مشمولہ: شمارہ مارچ 2021