عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ٹکنالوجی محض سائنسی معلومات کے انطباق سے آلات اور مشینیں بنانے کا نام ہے, یا ٹکنالوجی سائنسی معلومات کا انطباق ہے جو سائنسی اصولوں کو برت کر آسائشی سامان بنانے یا وقت اور قوت کو بچانے کے طریقوں (processes) کی تشکیل کا نام ہے۔ دوسری سطح پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹکنالوجی در اصل اچھی اور بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اچھا یا برا ہوتا ہے۔ نیوکلیائی ٹکنالوجی کی مثال دی جاتی ہے کہ اس کا استعمال کرکے آپ بجلی بنالیں، یا ایٹم بم بنالیں۔ اسی طرح صوتی لہروں پر مبنی ٹکنالوجی ہے کہ اس کا استعمال کرکے ایک جسم کے اندرون میں ہونے والی بیماریوں کا پتا کرلیں، یا مادر رحم میں پلنے والے جنین کی جنس معلوم کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیں یعنی دختر کشی۔
لیکن یہ بیانیے محض چند ٹکنالوجیوں پر ہی صادق آتے ہیں۔ اب ٹکنالوجی کی تشکیل اور تدوین و ارتقا میں تصور حیات کا دخل بہت بڑھ چکا ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ بہت ساری ٹکنالوجیاں وجود ہی میں نہ آتیں اگر ایک مخصوص تصور حیات سائنس کے افق پر غالب نہ ہوتا۔
موجودہ دور میں ٹکنالوجی قدر ناطرفی(value neutrality) اور اچھے برے استعمال کی ثنویت (duality) سے بہت آگے جاچکی ہے۔ اب ٹکنالوجی سماج، مذہب اور عقائد اور ان تینوں ابعاد کے تعامل پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ ماضی قریب تک جب بھی مذہب اور ٹکنالوجی اور سماج کے تعلق سے بات ہوئی ہے، وہ محض مذہب کی ترویج و اشاعت میں مواصلاتی ٹکنالوجی کے استعمال اور مذہب کے بعض عقائد کی تائید و تفہیم میں ٹکنالوجی کے رول تک محدود رہی ہے۔ لیکن دور جدید میں بعض ایسی ٹکنالوجیاں وجود میں آئی ہیں جنھوں نے کئی زاویوں سے بنیادی مذہبی عقائد اور سماج پر بالکل الگ جہتوں سے اپنا اثر چھوڑا ہے اور اب بھی وہ مستقل اسے متاثر کر رہی ہیں اور مستقبل قریب میں اور زیادہ کریں گی۔ یہ ٹکنالوجیاں اور ان کے اثرات درج ذیل ہیں:
- مصنوعی یا صناعی حیاتیات (synthetic biology) – عقیدہ تخلیق
- جینوم ایڈیٹنگ ٹکنالوجی۔ عقیدۂ صورت گری
- نیورو ٹکنالوجی۔ عقیدہ ارادہ و اختیار اور الوہیاتی صفات
صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی
صناعی حیاتیات اور اس سے جڑی ٹکنالوجیاں عام الفاظ میں مصنوعی زندگی کے مظاہر (life forms) کی تخلیق کا نام ہے، جس کے استعمال سے دنیا میں موجود بیماریوں اور ماحولیاتی مسائل کا حل کیا جاسکے۔ لیکن یہ تعریف بہت معصومانہ تعریف ہے۔ دراصل صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی ‘‘تخلیق حیات’’ کے ضمن میں کی جانے والی ان تھک کوششوں سے عبارت ہے۔ یقیناً اس میں سائنٹزم کا پہلو غالب ہے اور بہت سارے صناعی حیاتیات کے ماہرین اس میدان میں محض بیماریوں اور ماحولیاتی مسائل کے حل ہی کے لیے سرگرم ہیں، لیکن صناعی حیاتیات کے سب سے بڑے ناموں میں ایک نام جے کریگ وینٹر کا ہے۔ 20 سال قبل انھوں نے اور ان کی ٹیم نے ‘سائنس’ نامی موقر جریدے میں ایک معرکہ آرا مقالہ لکھا۔ صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جو صناعی حیاتیات کا اب تک کا اہم ترین سنگ میل مانا جاتا ہے۔ [1]انھوں نے مشین کی مدد سے ڈی این اے کی تشکیل کی اور اسے ایک بیکٹیریا کے خول میں داخل کیا جس کا ڈی این اے نکال دیا گیا تھا اور اعلان کیا
Creation of a bacterial cell controlled by chemically synthesized genome.
یعنی ایک بیکٹیریائی خلیہ کی ‘‘تخلیق’’ جو کیمیائی طریقے پر (مشین کے ذریعے) بنائے گئے ڈی این اے یا جینوم سے کنٹرول ہوتا ہے۔ یہاں لفظ creation معنی خیز ہے۔ وہ اس کی جگہ پر formation یا کوئی دوسرا لفظ استعمال کرسکتے تھے۔ لیکن انھوں نے creation کا لفظ استعمال کیا اور گویا اس بات پر زور دیا کہ تجربہ گاہ میں بیکٹریائی خلیے کی تخلیق کی جاسکتی ہے۔ اس تحقیقی مقالہ پر ہر طرح کے ردعمل سامنے آئے۔ [2]
عیسائی دنیا میں صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی پر بالکل نئی بحثیں چھڑ گئیں۔ خدائی کے ساتھ کھلواڑ (playing god) جیسے بیانیے اور زیادہ شد و مد سے سامنے آنے لگے۔ [3]
صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی نے تخلیق، تشکیل اور ترتیب و تدوین اور صناعی و صورت گری کے مختلف پہلوؤں پر نئے قسم کے سوالیہ نشان لگادیے۔ مثلاً حیات کی تعبیر پر تو بہت کچھ لکھا، بولا اور سمجھا جاچکا ہے لیکن سالماتی سطح پر حیات کی تعبیر کیا ہوگی؟ محققین کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اگر سالماتی سطح پر حیات کی جو تعریف ڈی این اے کے تناظر میں کی جاتی ہے اس کی رو سے جے کریگ وینٹر اور اس کی ٹیم اس نئے بیکٹیریا کی خالق ہیں۔ وہ تعبیر یوں ہے:
ڈی این اے ï آر این اے ï پروٹین
اس تجربہ میں محققین نے دعویٰ کیا کہ بیکٹیریا کی تخلیق ہوئی ہے کیوں کہ سالماتی حیاتیات کی رو سے حیات ڈی این اے سے پروٹین تک ہے۔ اب چوں کہ یہاں بیکٹیریا کا صرف خول استعمال ہوا ہے اور اس بیکٹیریا کا ڈی این اے مشین میں تشکیل دیا گیا جس سے بیکٹیریا کے تمام خصائص جیسے اس کا حجم، لمبائی، طبعی و کیمیائی خصوصیات سب کچھ طے ہوتا ہے ۔ اس لیے اب اس کا اصل ڈی این اے تو نکال دیا گیا اور مصنوعی ڈی این اے اس کے اندر ڈال دیا گیا ہے چناں چہ ایک مختصر عرصے میں خلوی تقسیم کے عمل کے بعد یہ بیکٹیریا مخلوق بن گیا ہے جسے جے کریگ وینٹر کے ساتھیوں نے بنایا، یا تخلیق کیا، نہ کہ وہ جس کی تخلیق فطری اعتبار سے ہوئی تھی!
یہاں یہ بات بالکل فطری ہے کہ عدم سے وجود ہی خلق کہلاتا ہے۔ اور یہ محض ایک تشکیلی طریقہ ہے۔ لیکن اگر اس کی گہرائی میں جائیں اور صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی کو بنظر غائر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ دلیل یہ ہے کہ ڈی این اے کے ذریعے کنٹرول ہونے والی حیات چاہے اس کا سب سے سادہ مظہر بیکٹیریا ہو اس بات کی ضمانت ہے کہ آپ مصنوعی زندگی تخلیق کر سکتے ہیں! آج یہ سادہ ہے کل کو آپ پیچیدہ ترین حیات کی بھی تشکیل (یا ان کے لفظوں میں تخلیق) کرسکتے ہیں۔
خود ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک ‘‘اصولی ثبوت’’ (proof of principle) ہے۔ چناں چہ اس تحقیق کو ملحدین نے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ اس کے بالمقابل بائبل کے تخلیقی بیانیے کے ماننے والوں نے بھی اس کے رد میں خوب لکھا ہے۔ دو دہائیوں قبل ہوئی اس تحقیق نے جو صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی کی اہم ترین کام یابیوں میں سے ایک تھی، اوسط پڑھے لکھے یوروپی اور امریکی عوام پر غیرمعمولی اثر ڈالا ہے۔ تمام آسمانی مذاہب میں تخلیق کا تصور بالاصل کسی فوق فطرت ہستی کے ساتھ خاص ہے۔ اس طرح کی تحقیقات جب پاپولر سائنس میں آتی ہیں تو عوام و خواص کے عقائدی نظام (belief system) پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ کئی تحقیقات ہیں جو مصنوعی حیاتیات اور مصنوعی حیاتیاتی ٹکنالوجی کے اثرات کا عقیدے کا جائزہ لیتی ہیں۔ مثلاً نکول ڈریگو جلورک وغیرہ نے یوروپی عوام کا جائزہ لے کر بتایا کہ خدا پر یقین صناعی حیاتیات کے رد سے عبارت ہے۔
لیکن مضبوط عقائد والے افراد اس کی مخالفت مخصوص مذہبی عقیدے میں اس کی مداخلت کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ [4]بہر حال معلوم ہوا کہ صناعی حیاتیات عقیدے پر اثرانداز ہوتی ہے۔
اسی طرح ایل کارٹر وغیرہ نے آسٹریلیائی باشندوں کے عقائد اور صناعی حیاتیاتی و صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی پر جنوری 2021 میں ٹرانس جینک ریسرچ نامی جرنل میں بہت اہم تحقیقی نتائج پیش کیے ہیں۔ [5] ان کے مطابق اس ٹکنالوجی کے استعمال پر خدائی کے ساتھ کھلواڑ (playing god) جیسے بیانیے داخلی اعتراضات (intrinsic objections) پر مبنی ہیں جو عوام میں پائے جاتے ہیں، اور محققین کو اس ضمن میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔
صناعی حیاتیات اور اس سے جڑی ٹکنالوجی نہ صرف یہ کہ تخلیق کے ضمن میں عقیدے پر عوام میں بےچینی پیدا کرتی ہے بلکہ وہ کم زور عقائد کے افراد کو جدید سائنس کے بالمقابل بھی کھڑا کردیتی ہے، جو بحیثیت مجموعی سائنس، مذہب، ٹکنالوجی اور عقائد جیسے بیانیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
غالباً صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی کا سب سے واضح مظہر ٹرانس ہیومنزم ہے جو ٹکنالوجی اور عقائد کے ضمن میں انتہائی اہم ہے۔
ہمارے نزدیک ٹرانس ہیومنزم صرف ایک تھیوری یا دیوانے کی بڑ کی حیثیت میں سائنس فکشن کے سرد خانے میں پڑا ہوتا اگر صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی اسے عملی غذا نہ فراہم کرتی۔ میکس مور کے مطابق ٹرانس ہیومنزم اس فلسفے کا نام ہے جو سائنس اور ٹکنالوجی کا استعمال کرکے موجود انسانی شکل، اس کی خامیوں اور اس کی محدودیت کو دور کرکے اسے ارتقا کے بام عروج پر پہنچائے۔ [6] بظاہر معصوم نظر آنے والی اس تعریف کا توسیعی مفہوم بھی ملاحظہ ہو:
Transhumanist seeks to remix the legacy of humanist thought from a philosophy of life that rejects deities, faith and worship.
یعنی بالطبع ٹرانس ہیومنزم عقیدے، عبادت اور خدا کے فلسفے کو رد کرتا ہے۔ (ٹرانس ہیومنزم پر تفصیل ان شاء اللہ کسی آئندہ مضمون میں آئے گی۔)
بالاصل ٹرانس ہیومنزم صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی کا استعمال کرکے انسان نما مشین یا مشین نما انسان بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انسان اور اس کی تخلیق کی بالکل الگ جہت پر انسانیت کو لے جانا چاہتا ہے۔ یہ ان تمام عقائد اور افکار پر اثرانداز ہوتا ہے جو بالعموم سماج میں رائج ہیں اور انسانی سماج مختلف سطح کے ضابطۂ اطوار (code of conduct) ان سے اخذ کرتا ہے۔
مذہب اور ٹرانس ہیومنزم پر تفصیلات کے لیے دیکھیے [7] اور [8]۔
مندرجہ بالا تفصیلات سے درج ذیل نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں:
۱۔ صناعی حیاتیات اور اس سے جڑی ٹکنالوجیوں نے تخلیق کے عقیدے پر براہ راست اثرات مرتب کیے ہیں۔ بطور خاص عیسائی دنیا میں اس پر باقاعدہ تحقیقات موجود ہیں۔
۲۔ یہ ٹکنالوجی دراصل تخلیق کے ضمن میں سائنٹزم کی ترویج کی شکل کے طور پر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ اس ٹکنالوجی سے عام طور پر یہ بھرم پیدا کیا جاتا ہے کہ گویا انسان، ابتدائی سطح پر ہی صحیح تخلیق کرنے پر قادر ہے، چناں چہ خدائی صفات میں سے سب سے اہم ترین صفت جو تخلیق سے عبارت ہے وہ خدائی صفت نہ ہوکر انسانی صفت بن جاتی ہے!
۳۔ یہ ٹکنالوجی اپنی اصل کے اعتبار سے تخلیق کے عقیدے پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے اور عمومی طور پر ٹکنالوجی کے قدر ناطرف (value neutral) ہونے کا جو بیانیہ پیش کیا جاتا ہے وہ اس ٹکنالوجی پر صادق نہیں آتا۔
جینوم ایڈیٹنگ ٹکنالوجی
جینوم ایڈیٹنگ ٹکنالوجیاں تقریباً 60 سال سے سائنسی افق پر موجود ہیں اور ان کی اخلاقیات پر، ان کی سودمندی اور نقصانات پر ہرقسم کی بحثیں موجود ہیں لیکن پچھلے 10 برسوں میں جینوم ایڈیٹنگ ٹکنالوجیوں میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے اور اس ترقی کے ساتھ ہی ان ٹکنالوجیوں نے عوام کے شعور میں عقائد کے ضمن میں غیرمعمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔
ان ٹکنالوجیوں میں دراصل دو سطحوں پر انسانی جینیاتی مادہ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ ایک سادہ خلیات میں دوسرے پیدائشی جرثومہ یعنی مادہ منویہ اور بیضہ میں۔ سادہ خلیہ میں تبدیلی کے ذریعے بہت ساری بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ بیضہ اور جرثومہ یا ان دونوں کے ملاپ سے بننے والےجگتہ یا جنین میں تبدیلی کے ذریعہ بیماریوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری خصوصیات جیسے جلد کا رنگ، آنکھوں کا رنگ اور دیگر خصائص کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہ تبدیل حسب منشا اور انتہائی صحت کے ساتھ انجام دی جاسکتی ہے۔
آج کل ان ٹکنالوجیوں میں سب سے موثر اور سب سے زیادہ ثقہ ٹکنالوجی کرسپر کیس نائن (CRISPR-Cas9) مانی جاتی ہے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے زندگی نو، شمارہ دسمبر 2020)
کرسپر ٹکنالوجی کا براہ راست اثر عیسائی عوام کے عقائد کے وسیع کینوس پر دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اور قدامت پسند اور متجدد دونوں قسم کے لوگ اس پر عقیدے کے اعتبار سے رائے رکھتے ہیں۔ عیسائی عقیدے کا ایک لاینفک جز یہ ہے کہ وہ مانتے ہیں کہ خدا نے انسان کو اپنی شکل پر پیدا کیا ہے، اسے ‘image dei ’سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چناں چہ اس میں تبدیلی خدا کی شکل میں تبدیلی کی کوشش ہے۔
اس لیے اگر انسان اس میں تبدیلی کی کوشش میں کام یاب ہے تو وہ‘خدا’ ہے، کیوں کہ صرف خدا ہی انسان کی شکل بنا سکتا ہے! اسی لیے اس قسم کی ٹکنالوجی کی شدید مخالفت عیسائی دنیا میں ہرسطح پر ہوتی ہے۔ متجدد عیسائی ’ image dei ‘ [تشبیہ الوہیہ]کی تفسیر و تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دراصل اشاراتی نوعیت کی چیز ہے جو انجیل میں کتابِ پیدائش (Genesis) میں بیان کی گئی ہے اور شکل سے مطلب جسمانی شکل یا ہیئت نہیں بلکہ خصوصیت کے اعتبار سے ہے جیسے رحم، جذبہ خیرخواہی، ایثار، قربانی وغیرہ۔
قدامت پسند عیسائیوں میں ’ image dei ‘کے بعینہ مطالب اتنے راسخ اور پیچیدہ ہیں کہ ہزاروں عیسائی ان کی وجہ سے عیسائیت ترک کرچکے ہیں کیوں کہ یہ ٹکنالوجیاں جن کے استعمال سے انسان تبدیل کیے جاسکتے ہیں، اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ خدائی صرف خدا کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ خدا کے ذریعے بنائی گئی صورت میں نہ صرف تبدیلی کی جاسکتی ہے بلکہ بالکل نئی قسم کی صورت بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اور یہ صورت مستقل صورت ہوگی۔ بالکل طبعی اور فطری۔
پیوسروے کے مطابق (جسے کرسچینٹی ٹوڈے نے بھی استعمال کیا ہے) مذہبی کرسچین بیماری کے لیے ذمہ دار جین کو بھی درست کرنے کے لیے جینوم ایڈیٹنگ ٹکنالوجی کے استعمال کو مناسب نہیں سمجھتے۔[9]وجہ صاف ہے کہ یہ کرسچین عقیدے کے خلاف ہے۔
چناں چہ اس ٹکنالوجی میں صورت گری اور دیگر صفات کی تبدیلی عیسائی عقائدی نظام میں زبردست مداخلت کا سبب بن رہی ہے۔ بطور خاص نوجوان نسل بہت تیزی سے ان ٹکنالوجیوں پر مبنی تصور حیات پر ایمان لا رہی ہے جو الحاد یا لا ادری اصولوں سے عبارت ہے اور یہ محض عیسائی یا یہودی دنیا تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی اور جینوم ایڈیٹنگ ٹکنالوجی مذہب کے تصور تخلیق اور تصور صورت گری کے روایتی بیانیوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔
نیورو ٹکنالوجی
نیورو ٹکنالوجی کی تعریف یوں کی جاتی ہے: ان طریقوں اور آلات کا مجموعہ جو انسانی عصبی نظام سے براہ راست تعامل کرتے ہیں۔ نیورو ٹکنالوجی محض عصبیاتی سائنس کا توسیعی یا انطباقی معاملہ نہیں ہے۔ نیورو ٹکنالوجی کا ایک علانیہ مقصد ‘‘انسانی دماغ اور مشینوں کو جوڑنا’’(wire up) ہے۔ اور اس میں اس ٹکنالوجی نے ابتدائی نوعیت کی کام یابی حاصل کرلی ہے۔ انسانی دماغ کو مشینوں سے جوڑنے کا مطلب محض یہ نہیں ہے کہ اس سے کچھ عصبیاتی بیماریوں کا علاج کیا جاسکے بلکہ بات اس سے کہیں آگے جاچکی ہے۔ مثلاً (transcranial deep brain stimulation -tDBS) نامی تکنیک کا استعمال کرکے امریکی سپاہیوں میں رد عمل کے وقت کو کم کیا جاچکا ہے۔ [10] اس تکنیک کا استعمال جب ڈپریشن کے شکار لوگوں پر کیا گیا تو ان میں رویے کی سطح پر تبدیلیاں محسوس کی گئیں۔ tDBS پر بہت دل چسپ مقالات موجود ہیں لیکن یہ مضمون اس کا متحمل نہیں ہے۔
نیورو ٹکنالوجی کا استعمال کرکے ایک دہائی قبل ‘خدائی نقطے’ (God spot) پر زبردست ہلچل ہوئی تھی۔ اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ مذہبی افراد میں دماغ کا ایک حصہ زیادہ روشن ہوجاتا ہے جب وہ مذہبی باتیں سنتے یا مذہبی مناظر دیکھتے ہیں۔ نیورو ٹکنالوجی میں استعمال ہونے والی ایک تکنیک فنکشنل میگنیٹک ریزوننس (fMRI)کے ذریعے یہ بات معلوم ہوئی۔ اس تحقیق کے بعد ملاحدہ نے یہ کہنا شروع کیا کہ بات بہت صاف اور سیدھی ہے کہ کچھ افراد جن میں دماغ کا یہ حصہ ہوتا ہے وہ مذہبی ہوتے ہیں جن میں یہ حصہ موجود نہیں ہوتا وہ غیر مذہبی ہوتے ہیں۔ اس لیے مذہبی ہونا یا نہ ہونا بصورت دیگر خدا کے ہونے پر یقین ہونے نہ ہونے کا انحصار غور و فکر اور مطالعہ و مشاہدہ پر نہیں ہے بلکہ اگر دماغ کا یہ حصہ ہو تو آپ مذہبی ہیں، اگر نہ ہو تو آپ غیر مذہبی ہیں۔ حالاں کہ یہاں سائنس سے زیادہ سائنٹزم کی کارفرمائی ہے کیوں کہ اس تحقیق میں منہج (methodology) اور قیاس (hypothesis) اور کنٹرولس ہر اعتبار سے خامیاں تھیں۔ لیکن ملاحدہ اسے لے اڑے۔ بعد ازاں یہ تو ثابت ہوا کہ کوئی ایک خدائی نقطہ نہیں ہے۔ لیکن اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ سارے مذہبی تصورات دراصل دماغ میں موجود ہیں۔
ساتھ ہی یہ بھی مانا گیا کہ دماغ کے کئی حصے مذہبیت (religiosity) اور روحانیت (spirituality) کے لیے ذمہ دار ہیں۔ ابتدا میں یہ ثابت ہونے کے بعد تخلیقی ماہرین نے اس پر چین کی سانس لی۔ لیکن نیورو ٹکنالوجی نے عقائد پر اثرانداز ہونے والے ایسے کئی تجربات اور انکشافات کیے ہیں جنھوں نے عصبیاتی سائنس سے آگے بڑھ کر دماغ اور خیالات اور ارادہ و اختیار کی بالکل نئی جہتوں سے عالم تحقیقات کو روشناس کرایا ہے۔ مثلاً:
نیورو ٹکنالوجی نے مائنڈ اور برین کی تفریق کو ختم کردیا ہے۔ یہ بات اب تقریباً پایۂ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ دماغ اور خیالات و احساسات ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، یعنی دماغ سے علی الرغم اور کوئی فوق الطبیعی شے نہیں ہے۔ عصبیاتی ترسیلی شبکے (neural networks) میں سب کچھ مخصوص شکل میں محفوظ ہے اور ان پیچیدہ شبکوں سے سب کچھ طے ہوتا ہے۔ انسانی احساسات، ادراکات و دیگر۔ خاص طور پر درد اور خوشی و انبساط کے تقریباً تمام شبکے معلوم و معروف ہیں۔
نیورو ٹکنالوجی کی بنیاد پر نئی قسم کی سائنس کا ارتقا ہو رہا ہے جسے عصبیاتی دینیات (neurotheology) کہتے ہیں۔ اسے روحانی عصبیاتی سائنس (spiritual neuroscience) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سائنس میں مذہب سے جڑے تمام تجربات اور رایوں کی توجیہ عصبیاتی نظام اور عصبیاتی شبکوں سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ایک غیر معمولی کاوش ہے۔
نیورو ٹکنالوجی کی مدد سے، خصوصاً (fMRI) کےذریعے، مخصوص مذہبی افعال کے دوران دماغ میں ہونے والی فزیو کیمیکل تبدیلیوں سے اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ عبادت اور دیگر مذہبی معاملات کو محض کیمیائی مادوں کی ترسیل و ترتیب کی شکل میں بیان کیا جاسکے تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ یہ کوئی خاص یا علاحدہ یا کوئی غیرمعمولی طور پر منفرد عمل نہیں ہے۔ بلکہ اس کی فزیو کیمیکل تشریح ممکن ہے۔ اور مذہبیت و روحانیت ایک انتہائی پیچیدہ عصبیاتی نظام سے عبارت ہے۔ اس طرح اس بنیادی عقیدے پر ضرب پڑتی ہے جس کی رو سے یہ سارے افعال خاص ہیں اور ان کے کرنے یا نہ کرنے سے انسانی رویوں میں کوئی فرق واضح ہوتا ہے۔
اوپر دیے گئے تین نکات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ نیورو ٹکنالوجی اصل میں کئی جہتوں سے عقیدے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ مثلاً اگر روحانیت محض عصبی خلیات اور دماغ کے مختلف حصوں یں پائے جانے والے ترسیلی شبکوں سے عبارت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ترسیلی شبکوں میں خردبرد کرنا یا انھیں منضبط کرنا یا انھیں manipulate کرنا ممکن ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایسا کرنا ممکن ہے تو بالاصل مجرد معنوں میں روحانیت یا مذہبیت کوئی شے نہیں ہے،بلکہ یہ اضافی ہے۔
دوسرے کہ خدا پر یقین اور مذہبی ہونا اور خدا کا انکار اور غیرمذہبی ہونا اگر عصبیاتی لچک (neural plasticity) اور عصبی شبکوں میں مخصوص فزیو کیمیکل تبدیلیوں سے عبارت ہے تو پھر ارادہ و اختیار کوئی شے نہیں۔
نیورو ٹکنالوجی کی ابتدائی کام یابی کی بنیاد پر ہی سام ہیرس جیسے سائنس داں ارادہ و اختیار کی آزادی کو جھٹلاتے ہیں۔ اگر ارادہ و اختیار کی آزادی ختم تو اس دنیا میں انسان اچھائی، برائی، دنیا بحیثیت امتحان گاہ والے سارے تصورات ختم۔ جب ارادہ و اختیار ہی کی آزادی نہیں تو امتحان کس بات کا۔
واضح ہو کہ یہ تصورات نئے نہیں ہیں۔ جبریہ فرقہ کی فلاسفی ایک طویل عرصے سے ہمارے یہاں موجود ہے بلکہ اس سے بھی قبل ہندو دیو مالائی کہانیوں میں اور اپنشدوں کے بعض ابواب میں جبریت (determinism) کسی نہ کسی شکل میں مل جاتی ہے۔ بس ہوا یہ ہے کہ نیورو ٹکنالوجی اور سائنٹزم نے مل کر اس کی تشکیل جدید کردی ہے۔
ٹکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی نے عقائد پر گہرے اثرات مرتب کرنے شروع کردیے ہیں لیکن کیا واقعی ایسا ہے۔
صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی میں بیکٹیریا کا خول استعمال ہوا ہے وہ خول اب بھی کسی تجربہ گاہ میں بنایا نہیں جاسکا ہے۔ 20 سال پہلے جس کری ایشن کا اعلان JCV نے کیا تھا اس کے بعد سے اب تک کسی صناعی حیاتیاتی ٹکنالوجی کے ماہر نے یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کی کہ بیکٹیریا کا وہ خول جو محض دوہرے لپڈ کی جھلی ہے وہ تجربہ گاہ میں بنایا جاسکتا ہے۔ اس ٹکنالوجی کے ماہرین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں، اور اس میں دشوار گزار اور ناقابل عبور چیلنجوں پر لٹریچر بھرا پڑا ہے۔
مزید یہ کہ یہ صناعی حیاتیات بالاصل تشکیل کا نام ہے تخلیق کا نہیں۔ معروف معنوں میں تخلیق ex nihilo [جو عدم سے وجود میں آئے] ہی مانی جاتی ہے۔ پھر بھی سائنٹزم کے دعویدار اس ٹکنالوجی کو لے کر بہت پرامید ہیں۔ بالکل اسی طرز پر جینوم ایڈیٹنگ اور اس سے جڑی ٹکنالوجیوں کا معاملہ ہے۔ یہ ٹکنالوجیاں اپنی ابتدائی کام یابی کے بعد عظیم چیلنجوں (grand challenges) کے دور سے گزر رہی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ سالماتی حیاتیات میں ہماری معلومات کا دائرہ مکمل ہونے کو ہے یعنی ہم نے یہ تو معلوم کرلیا کہ بالآخر جین ہی سب کچھ ہے، لیکن یہ جین ‘‘سب کچھ’’ کیسے بن جاتا ہے یعنی کس طرح سے منضبط ہوتا ہے کتنے خصائص کتنے جین کنٹرول کرتے ہیں ان سب پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بطور خاص پیچیدہ خصائص (complex traits) کی اپنی پوری کائنات ہے۔ یہ پیچیدہ خصائص جذبات، رویے، ذہنی مسافت وغیرہ سے عبارت ہیں۔
نیورو ٹکنالوجی میں بھی غیرمعمولی ارتقا کے باوجود ہزاروں سوالات کے جواب آنا باقی ہیں۔ لیکن بایں ہمہ ٹکنالوجی نے سائنٹزم کے زیر اثر سائنس مذہب اور سماج کی مثلث میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔
ٹکنالوجی اور عقائد کے وسیع کینوس پر جاری تعامل میں عیسائی عقائد پر ابتدائی گفتگو تو آچکی۔ کیا ٹکنالوجی اسلامی عقائدی نظام پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتی ہے؟ اسلامی عقائدی نظام اور تیزی سے ارتقا پذیر ٹکنالوجی میں تعامل کی شکلیں، حدود اور اصول کیا ہوں گے؟ ٹکنالوجی کے قدر غیر جانب دار ہونے کے بیانیے پر اسلامی موقف کی اصولی صورت حال کیا ہے؟ ان تمام پر گفتگو آئندہ مضامین میں کی جائے گی۔
حواشی
[1] Creation of a Bacterial Cell Controlled by a Chemically Synthesized Genome: (2010) ; Daniel G. Gibson, John I. Glass et al Science 02 Jul 2010: Vol. 329, Issue 5987, pp. 52-56 DOI: 10.1126/science.1190719
[2] Are You Playing God?‘: Synthetic Biology and the Chemical Ambition to Create Artificial Life Joachim Schummer HYLE – International Journal for Philosophy of Chemistry, Vol. 22 (2016), 149-172.
[3] Playing God? Synthetic Biology from a Protestant Perspective : (2013); Christina Aus der Au Worldviews, Vol. 17, No. 1 (2013), pp. 48-59.
[4] Playing God or just unnatural? Religious beliefs and approval of synthetic biology. (2012); Nicolas Dragojlovic, Edna Einsiedel . Public Underst Sci. 2013 Oct;22(7):869-85. doi: 10.1177/0963662512445011. Epub 2012 May 24.
[5] Playing God and tampering with nature: popular labels for real concerns in synthetic biology. (2021) , Carter L, Mankad A, Hobman EV, Porter NB. Transgenic Res. 2021 Jan 27. doi: 10.1007/s11248-021-00233-2. Epub ahead of print. PMID: 33502671.
[6] TRANSHUMANISM Evolutionary Futurism and the Human Technologies of Utopia by Andrew Pilsch. Pg.1-2 Minneapolis : University of Minnesota Press, 2017
[7] ibid
[8] Religion and transhumanism : the unknown future of human enhancement by Calvin Mercer and Tracy J. Trothen, editors, published by : Praeger An Imprint of ABC-CLIO, 130 Cremona Drive, P.O. Box 1911 Santa Barbara, California 93116-1911
[9]https://www.christianitytoday.com/news/2020/december/pew-survey-global-bioethics-gene-editing-crispr-christians.html
[10] https://www.nature.com/news/2011/110413/full/472156a.html
مشمولہ: شمارہ اپریل 2021