سائنس، مذہب اور سماج

عصبی نفسیات اور مذہبی عقائد

عصبی نفسیات (neuropsychology) عصبیات (neuroscience) کی نسبتاً جدید شاخ ہے۔ حالاں کہ دماغ اور اس سے جڑی بیماریوں کا تذکرہ قدیم مصر اور ارسطو کے مکالمات میں بھی ملتا ہے۔ لیکن اسّی کے دہے سے عصبی نفسیات ایک علیحدہ سائنسی شاخ کی حیثیت سے ارتقا پذیر ہونے لگی۔ یہ سائنس دماغ (brain) اور ذہن (mind) کے مابین تعامل کے مطالعے سے بحث کرتی ہے۔ ابتداءً دماغی مریضوں یا دماغ پر چوٹ لگنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض پر تحقیق اس کا اصل مقصد تھا۔

دھیرے دھیرے کچھ سائنٹزم کے زیر اثر اور کچھ غیر ضروری تجسس کی بنا پر اس میدان کے محققین نے اس کے مطالعے کے دائرے میں شعور، مذہب، مذہبی تجربے اور مابعد الطبیعیاتی (metaphysical) مظاہر کو بھی شامل کرلیا اور ایک نئی شاخ کا وجود ہوا جسے مذہبی عصبی نفسیات (neuropsychology of religion) کہا جاتا ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ پچھلے تیس برسوں میں مذہبی عقائد، تجربات اور مذہبی شعور کی عصبیاتی توجیہ پیش کرنے کے لیے ہزاروں مقالات لکھے گئے ہیں۔ سیکڑوں کتابیں ہیں، سیکڑوں محققین ہیں جو سماجی ڈاروینیت (social Darwinism)کے فریم کا استعمال کرتے ہوئے مذہب کے وجود، ارتقا اور رسومیات (rituals) کا تجزیہ کرتے ہیں، اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مذہب کے تمام افکار و عقائد کی سادہ ترین توجیہات ممکن ہیں اور مذہب کوئی آسمانی حیثیت نہیں رکھتا۔

عصبیاتی نفسیات میں دماغ، ذہن و شعور اور قوت مدرکہ (cognitive potential)، ادراک کی سطح، اور اس قبیل کے بہت سارے تصورات اور بحثیں ہیں۔ یہ مضمون ان کا متحمل نہیں ہے۔ یہاں صرف یہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مذہبی عصبیاتی نفسیات نے کس طرح مذہب، مذہبی افکار، عقائد و تجربات و روایات کو محض چند کیمیائی تعاملات اور چند عصبیاتی شبکوں (neuronal networks)تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔ مذہبی عصبیاتی نفسیات کے تحت یہ دکھانےکی کوشش کی جاتی ہے کہ

  1. تمام مذاہب انسان کے بنائے ہوئے ہیں، اور جیسے جیسے شعور کا ارتقا مذاہب تشکیل پاتے گئے، اور بتدریج کثرت پرستی (polytheism) اور وحدانیت (monotheism) کی طرف ارتقا پذیر ہوئے۔
  2. تمام مذہبی تجربات جیسے وجدان، تمام کائنات کے ساتھ حلول کا داخلی تجربہ یا عظیم تجربات (great experiences) اور شعور کی بدلی ہوئی حالت (altered conscious state) ان تمام کی مادی و عصبیاتی توجیہ ممکن ہے۔
  3. وحی یا یکایک القائی ادراک (sudden enlightenment) دماغ کی مخصوص حالت ہے۔ اس میں کسی فوق الفطرت ہستی کا دخل نہیں ہے۔
  4. مذہب کی عصبیاتی و نفسیاتی توجیہ اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ ارتقائی فریم ورک میں مذہب کے تمام بیانیوں کی توجیہ کی جاسکے۔

عصبی نفسیات ہویا اس کی ذیلی شاخ، اس کے تمام بیانیوں میں سالماتی حیاتیاتی اور جینیاتی جبریت (genetic determinism) نے اسے مزید ہوا دی ہے۔ جینی جبریت میں یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مذہب عقیدے اور مذہبیت کے لیے کوئی ایک جین یا جین کے کئی ارتباط (combination) ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہیں سے مذہبی عصبی نفسیات میں مقام گیری کا نقطہ نظر (localisationist view) غالب رہا، یعنی یہ نقطہ نظر کہ دماغ کے صرف مخصوص مقامات ہی مختلف اعتقادی و سماجی رویوں کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

1- عصبی مقام گیری کا نقطہ نظر (localisationist view)

اس نقطہ نظر کی رو سے مذہبی تجربات اور مذہبی عقائد دماغ کے ایک مخصوص حصے میں محدود ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا گیا کہ خدا پر یقین رکھنے والے اور خدا پر یقین نہ رکھنے والوں کے دماغ کے بعض مخصوص حصوں کے تفاعل میں فرق ہوتا ہے۔ جن افراد میں دماغ کے ان حصوں میں بعض کیمیائی عمل انجام پاتے ہیں وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں، اور جن افراد کے مخصوص عصبی حصوں میں یہ کیمیائی ردعمل نہیں ہوتے وہ ملحدانہ تصورات کی طرف میلان رکھتے ہیں۔ اسی طرح دماغ کا ایک مخصوص وہ حصہ ہے جو مذہب پسندی (religiosity) کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس حصے میں عصبی سرگرمی واقع ہونے یا نہ ہونے کی بنا پر کوئی فرد مذہب پسند یا مذہب بیزار ہوسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ اپنے اعتقادات کے اعتبار سے ہر فرد مجبورِ محض ہوتا ہے اور کوئی آزادانہ اختیار و ارادہ (freewill) نہیں رکھتا۔

چناں چہ VMAT1 نامی جین کی ایک شکل (پولی مارفزم) کو مذہبی اعتقاد کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یعنی جن افراد میں یہ جین فعال ہوگا وہ خدا پرست ہوں گے، بصورت دیگر وہ ملحد ہوں گے۔[1] حالاں کہ بعد کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا کہ ضروری نہیں کہ یہ جین محض مذہبی اعتقادات کے حامل افراد ہی میں فعال ہو، بلکہ اسے عمومی طور پر کسی بھی طرح کی رجائیت پسندی (optimism) میں فعال پایا گیا۔[2]

اسی طرح ایک سربرآوردہ ملحد سیم ہیرس نے 2009 میں مذہبی اور غیر مذہبی عقائد کی عصبی ہم رشتگی (neural correlates) پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا جس کے نتائج اپنی صحت کے اعتبار سے بہت ہی کم زور ہیں۔ انھوں نے ایسے 15 افراد لیے جو عیسائیت کے پیروکار تھے۔ ان کے دماغوں پر ایف ایم آر آئی (functional magnetic resonance imaging)کے ذریعے تحقیق کی اور بتایا کہ دماغ کے کئی حصے عقائد کے لیے ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔ [3]

حالاں کہ پہلے مذہبی عصبیاتی نفسیات میں مقام گیری میں غالب رہا لیکن جدید عصبیاتی سائنس میں اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ جدید تحقیقات میں جینی جبریت کو اضافی قرار دیا گیا ہے، نیز دماغ کے مخصوص حصوں میں اک سے زائد افعال کے لیے عصبیے یا عصبیاتی شبکے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

مثلاً دماغ کے ایک حصے amygdallaکے سلسلے میں یہ ثابت ہے کہ یہ خوف کے احساس کے لیے ذمہ دار ہے، لیکن یہی حصہ حسی ادراک کے لیے بھی ذمہ دار ہے۔

ڈاکٹر جیمس جونس مقام گیریت کے زبردست ناقد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ

Cognition cannot be reduced to either a single region of brain, nor a single network.

قوت مدرکہ کو دماغ کے کسی ایک حصے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ [4]

2۔ ارتباط گیر ماڈل (connectionist model)

اس ماڈل میں عصبی سرگرمی کے ذریعے یادداشت، قوت مدرکہ اور مذہبی عقائد و افکار اور مذہب کی نفسیاتی عصبیاتی توجیہ کی جاتی ہے، یعنی مذہبی تصورات و اعتقادات دراصل دماغ کے کسی ایک حصے میں محدود یا مخصوص نہیں ہوتے بلکہ عصبیاتی ترسیل مختلف حصوں میں بیک وقت انجام پاتی ہے۔ چناں چہ یہی عصبی ترسیل یا نیٹ ورک دراصل مذہبی تجربے یا اعتقادات کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

یہ ماڈل اگرچہ مقام گیری کے نقطہ نظر سے ایک قدم آگے اور بہتر ہے، تاہم بہرحال یہ بھی تخفیفی (reductionist) ہے۔اس ماڈل میں وہ تمام مذہبی افکار یا تجربات، مذہبی عقائد، عصبیاتی شبکوں کی ترسیل کے ذریعے بیان کیے جاتے ہیں، تاہم اس ماڈل میں گوناگوں خامیاں ہیں:

  1. عصبیاتی شبکے ممکنہ طورپر محدود نہیں کیے جاسکتے۔
  2. عصبیاتی شبکوں کی میپنگ عموماً ایف آیم آر آئی یا دیگر ٹیکنالوجیوں کی مدد سے کی جاتی ہے، جن کی اپنی محدودیت ہے۔
  3. عصبیاتی شبکے کے تمام ماڈل بالعموم کمپیوٹر الگورتھموں سے تشکیل دیے جاتے ہیں، ان الگورتھموں اور مصنوعی ذہانت (artificial intelligence)کی بھی اپنی محدودیت ہے۔

3۔ انسانی کنیکٹوم کا منصوبہ (Human Connectome Project – HCP)

مذہبی عقائد و افکار اور مذہبی تجربات مابعد الطبیعیاتی حقائق کی عصبیاتی توجیہ کا تیسرا اور سب سے جدید ماڈل “ایچ سی پی” ہے۔ اس منصوبے کو 2011 میں شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد اس کی ویب سائٹ پر یوں درج ہے:

The Human Connectome Project aims to provide an unparalleled compilation of neural data, an interface to graphically navigate this data and the opportunity to achieve never before realized conclusions about the living human brain. [5]

اس میں بنیادی طور پر عصبی کلیت پسندی (neural holism) کا تصور شامل ہے، حالاں کہ یہ اصطلاح اختلافی ہے پھر بھی عموماً عصبیاتی نفسیات کے ماہرین اسے مثبت طور پر استعمال کرتےہیں۔ ان کے مطابق دماغ اور ذہن کو مادے اور غیر مادے کی تعبیرات سے پرے ہوکر دیکھنا چاہیے۔ ایچ سی پی دراصل اس بنیادی نظریے پر کام کر رہا ہے کہ تمام عقائد، افکار اور رسومیات کی توجیہ مقامل گیریت اور ارتباط گیری کےماڈل سے آگے بڑھ کر ہولسٹک سطح پر کی جائے، اور یہ ثابت کیا جائے کہ ان تمام کی حیثیت محض عصبیاتی شبکوں کے الٹ پھر پر مبنی ہےاور یہ شبکے ارتقائی زنجیر میں بتدریج وقوع پذیر ہوئے ہیں اور ان تمام کا کوئی عظیم یا برتر خالق نہیں ہے۔

حالاں کہ مندرجہ بالا تمام ماڈل بتدریج ارتقا پذیرہوئے ہیں۔ اب بھی LV بہت ساری تحقیقات میں غالب نظر آتا ہے۔

ان نیم پختہ تحقیقات سے سائنٹزم کے زیر اثر وہ بیانیے تخلیق جن میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی، مثلاً

نیوروسائیکلوجی نامی جریدے میں ایرک ایسپ (Eric Asp)نے ایک مقالہ لکھا جس میں انھوں نے مطلق العنانیت (authoritarianism) اور مذہبی شدت پسندی کے رجحانات کو prefrontal cortex سے جوڑا ہے۔ انھوں نے اسے نادرست الحاق (false tagging) کے نظریےکا نام دیا ہے۔ اس کی رو سے وہ مریض جن کا کسی حادثے کی وجہ سے ventromedial prefrontal cortex متاثر ہوا تھا ان میں تحکم پسندی (authoritarianism) اور مذہبی شدت پسندی پائی گئی ہے۔ [6]

اس تحقیق میں کئی خلا ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ شائع ہوئی۔ یہ خلا تکنیکی اعتبار سے ہیں مثلاً

  1. جو سیمپل سائزوہ محض 10 مریضوں کا تھا۔
  2. اس بات کو کیسے یقینی بنایا گیا کہ جو مریض VMPFCمیں متاثر ہوئے اس حادثے سے قبل ان کا رجحان تحکم پسندی  اور مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے کیسا تھا۔
  3. مذہبی شدت پسندی اور مطلق العنانی کو جانچنے کے لیے جس پیمانے کا استعمال کیا اس کی اپنی خامیاں ہیں۔
  4. ایک خاص مذہب کے ماننے والوں پر تجربہ کیا گیا۔ کیا یہ ہائپوتھیسس تمام مذاہب کے ماننے والوں پر صادق آسکتا ہے، جب کہ ان پر تجربہ ہی نہیں ہوا۔

مذہبی عصبی نفسیات کا ایک دوسرا روشن پہلو بھی ہے۔ پچھلے 30 برسوں میں مذہبی عصبیاتی نفسیات کے دماغی و جسمانی صحت پراثرات سے متعلق سیکڑوں مثبت تحقیقی مقالے تحریر یے گئے ہیں۔ مثلاً میری گڈ اور دیگر (Marie Good, et al.) نے لکھا ہے غلطی ہوجانے پر مذہبی لوگوں میں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ میرا خدا محبت کرنے والا (رحمان و رحیم) ہے، ان میں اپنی غلطیوں کے بارے میں منفی جذبات [error-related negativity (ERN)] بہت کم پائےگئے۔ [7]

ای آر این وہ سگنل ہے جو دماغ کے اندرونی سنگولیٹ کارٹیکس سے ابھرتا ہے اور غلطی ہوجانے کے بعد کے تمام رد عمل کو منضبط کرتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خدا کے خوف نے ای آر این پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ یعنی میرا خدا محبت کرنے والا ہے، یہ احساس ای آر این کو ختم/کم کرتا ہے لیکن خدا کا خوف نہیں۔

لیکن مذہب تو اس خدا کی بات کرتا ہے جو محبت کرنے والا بھی ہے اور سزا دینے والا بھی ہے۔ تو اس مقالے کے نتائج کو اس تصور سے کیسے correlate کیا جائے۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ دنیا کے مختلف مذاہب انسان کی نیوروپلاسٹی سٹی کو مختلف انداز میں منضبط کرتے ہیں، نیورو پلاسٹی سٹی اس خصوصیت کا نام ہے جس کی بنا پر نئی معلومات یا کوئی مستقل عدد کی وجہ سے عصبیے اور عصبیاتی شبکے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ سائنس بہت تیزی سے ارتقا کر رہی ہے۔ اس کے ایک اہم ماہر ڈاکٹر جیفری شوارٹز (Jeffery Shwartz) ہیں۔ اس موضوع پر ان کی کتابیں بہت مقبول و معروف ہیں (حالاں کہ بعض محققین ان پر عیسائیت پسند ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں)۔ نیوروپلاسٹی سٹی پر متعدد تحقیقات موجود ہیں، لیکن ان تحقیقات کے ضمن میں درج ذیل باتیں غور طلب ہیں:

یہ تحقیقات کسی بھی سبجیکٹ (زیر تحقیق فرد) کے قبل از تجربہ والی نیوروپلاسٹی سٹی یا اس کے عصبیاتی شبکوں کی بناوٹ نہیں معلوم کرسکتی۔

تمام تر تحقیقات کچھ خاص مذہبی عقائد رکھنے والے افراد ہی پر کی گئی ہیں۔کسی بھی مطالعہ میں خالص توحید کے ماننے والے افراد تحقیق میں شامل نہیں ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ توحید پسند یا خالص توحید کا عقیدہ رکھنے والے افراد مذہبی عقیدے کے ایک خاص پہلو وحدانیت پر زیادہ فوکسڈ ہوتے ہیں۔ اس لیے اس ضمن میں ان کی نیوروپلاسٹی سٹی پر تحقیق دل چسپ ہوگی۔ یاد رہے کہ نیوروپلاسٹی سٹی میں سب سے اہم اصول فوکس ہے اور یہ اسے پیدا کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بھی مانا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر مذاہب کے مقابلے عبادت کے معاملے میں وحدانیت پسند افراد جیسے مسلمان پانچ اوقات میں خاص انداز میں خاص ذہنی حالت کے ساتھ عبادت (نماز پنجگانہ) انجام دیتے ہیں۔ پانچ وقت کا یہ فوکسڈ عمل کیسے ان کی نیوروپلاسٹی سٹی کو بدلتا ہے، یہ دیکھنا بھی دل چسپ ہوگا۔

اس مقالے کے علاوہ اور بھی ایسے مقالے ہیں جنھوں نے مذہب کے مثبت کردار کو اجاگر کیا ہے، ان کی تعداد سیکڑوں میں جاپہنچتی ہے۔ لیکن سب سے معرکہ آرا مقالہ ہیرالڈ جی کونیگ کا ہے۔ انھوں نے مذہب/روحانیت پر 1872 سے 2010 تک ہونے والی ان تمام تحقیقات کا میٹا انالسس کیا ہے جو مذہب/روحانیت کے دماغی و جسمانی صحت پر ہونے والے اثرات سے بحث کرتی ہیں۔[8] ان کی یہ تحقیق بہت دقیق ہے۔ اس تحقیق میں انھوں نے صرف انھی مقالات کو شامل کیا ہے جو سائنسی طریقہ کار کی کسوٹی پر پورے اترتے تھے۔ پھر ان تمام تحقیقات میں انھوں نے ثقاہت کے اعتبار سے مزید درجہ بندی کی۔ ان کی اس تحقیق کے نتائج کا خلاصہ درج ذیل جدول میں پیش کیا گیا ہے۔

نمبر شماردماغی صحت کے پہلوتحقیقی مقالات کی تعدادثقہ مقالات کی تعدادمذہب/روحانیت کا اثر
1مصائب کا سامنا کرنا (coping with adversity)454تمامبیمار افراد جو مختلف بیماریوں سے نبرد آزما تھے انھوں نے مذہب/روحانیت کو بیماری سے لڑنے میں بہت مددگار پایا۔
2مثبت جذبات و مسرت (positive emotions and happiness)32612082 فیصد تحقیقات میں بتایا گیا کہ مذہب/روحانیت کا مثبت جذبات اور مسرت سے براہ راست تعلق ہے۔ صرف ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ تعلق الٹا ہے۔
3امید

(hope)

40تمام، 6 اعلی ترینتمام تحقیقات نے مذہب و روحانیت کا امید سے براہ راست تعلق ثابت کیا، صرف ۳ مقالات میں بتایا گیا کہ مذہب و روحانیت امید کم/ختم کرتے ہیں۔
4ایجابیت (optimism)32تمامتمام تحقیقات نے مذہب و روحانیت کا ایجابیت سے براہ راست تعلق ثابت کیا۔ کسی تحقیق سے منفی نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
5زندگی کا مقصد و مفہوم (purpose and meaning of life)45تمام، 7 اعلی ترینتمام تحقیقات نے بتایا کہ مذہب و روحانیت زندگی کا مفہوم و مقصد متعین کرنے میں زبردست کردار ادا کرتے ہیں۔
6خو دداری (self esteem)69تمام، 25 اعلی ترینناقدین کہتے ہیں کہ مذہب/روحانیت خودداری کو کم کرتے ہیں، لیکن 68 فیصد تحقیقات نے ثابت کیا کہ مذہبی و روحانی افراد میں خودداری بہت زیادہ ہوتی ہے، جب کہ 8 فیصد مقالات میں منفی رجحان پایا گیا۔
7مثبت کردار (positivity)47تمام، 20 اعلی ترین70 فیصد مقالات نے مثبت کردار کو ثابت کیا۔
8تناؤ (depression)444178عموماً مانا جاتا ہے کہ گناہ کے تصور اور گناہ کرنے کے بعد اس کا مستقل احساس مذہبی/روحانی افارد کو ڈپریشن کا شکار بناسکتا ہے، لیکن 61 فیصد تحقیقات نے بتایا کہ کہ مذہبیت/روحانیت ڈپریشن سے لڑنے میں معاون ہیں اور مذہبی و روحانی افارد ڈپریشن کے کم شکار ہیں۔
9خود کشی (suicide)141تمام، 49 اعلی ترین75 فیصد تحقیقات نے بتایا کہ مذہب اور روحانیت خودکشی سے روکتے ہیں، جب کہ 3 فیصد نے بتایا کہ یہ خودکشی پر ابھارتے ہیں۔ اعلی ترین معیار کی تحقیقات سے یہ بات ثبات ہوتی ہے کہ خودکشی اور روحانیت/مذہبیت میں منفی تعلق ہے۔ یعنی مذہبی و روحانی افراد کم خودکشی کرتے ہیں۔
10منشیات کا استعمال (substance abuse)278تمام، 185 اعلی ترین90 فیصد تحقیقات نے ثابت کیا کہ مذہبی و روحانی افراد نشے کی لت میں عادی اور عام افراد کی بنسبت زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔
11جرائم (crimes)104تمام، 60 اعلی ترین79 فیصد تحقیقات نے ثابت کیا کہ مذہبی و روحانی افراد جرائم کی طرف کم میلان رکھتے ہیں، یعنی جرائم و مذہبیت میں رشتہ معکوس ہے۔
12ازدواجی زندگی میں عدم استحکام (marital instability)79تمام، 38 اعلی ترینمذہب کو ماننے والے اور روحانی افراد کا کی ازدواجی زندگی غیر مذہبی افراد کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ 92 فیصد تحقیقات نے بتایا کہ طلاق کے واقعات مذہبی افراد میں کم ہوتے ہیں۔

 

اس جدول سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دماغی صحت اور مذہبیت/روحانیت کے بیچ براہ راست تعلق ہے، اور یہ تعلق مثبت ہے۔

ابھی تک کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ مذہبی عصبیاتی نفسیات اپنے اصل کے اعتبار سے معتدل رکھی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی نظر میں رہنی چاہیے کہ یہ سائنس صرف ‘‘کیسے’’کی تشریح ہے، ‘‘کیوں’’کی نہیں۔ ‘‘کیوں’’ کا جواب جس ارتقائی تصور سے دیا جاتا ہے وہ ارتقائی تصور بہرحال کئی درجوں میں ناقص ہے۔ مثلاً پیچیدگی کے حوالے سے چیونٹی ارتقائی جالے (evolutionary web) سے انسان کے مقابلے بہت بہت دور ہے۔ ]یہاں جان بوجھ کر ارتقائی جالے کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے کیوں کہ ارتقائی ماہرین کے نزدیک ارتقا خطی (linear) اور سلسلہ مراتب کی حامل (hierarchical) نہیں ہے[2]۔

ایک چیونٹی میں تو یہ عصبیاتی نظام (ارتقائی ماہرین کے مطابق) سادہ ترین شکل میں ہے، لیکن چیونٹی کے افعال اس سادہ ترین نظام سے پیچیدہ ترین رویہ پیدا کرتے ہیں تو ارتقائی تصور پیچیدہ کی طرف اسکیل میں چیونٹی کافی پیچھے ہے۔ پھر بھی اس کے سادہ ترین عصبیاتی نظام سے پیچیدہ ترین افعال سرزد ہوتے ہیں۔

مذہبی عصبیاتی نفسیات دراصل سماجی ڈاروینیت کے زیر اثر اس مفروضے کو تقویت پہنچاتی نظر آتی ہے جس کی رو سے تمام مذاہب، خواہ وہ وحدانیت پر مبنی ہوں یا معروف معنوں میں شرکیہ تصورات رکھتے ہوں، یا مختلف cult یا غیر ساختی مذہبی تصورات ہوں، سب کے سب سادہ شکلوں سے پیچیدہ شکلوں کی جانب ارتقا پذیر ہوئے ہیں، اور نیوروپلاسٹی سٹی کی وجہ سے پیچیدہ عصبیاتی شبکوں نے مزید ارتقا پاکر ان مذہبی عقائد و تصورات کو مضبوط کیا ہے۔ اسی طرح مذہب کو انسانی کاوشوں کی ارتقا شدہ شکل سمجھنا درج ذیل وجوہ سے غلط ہے:

  • یہ بات غلط ہے کہ روایات کے بطن سے مذاہب جنم لیتے ہیں، یعنی روایات سے ارتقا پاکر مذہب بنتے ہیں۔
  • مذہب ارتقا پذیر ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسانوں نے ان مذاہب کو تشکیل دیا ہے۔ بعض رواجوں اور cultsکے متعلق یہ نظریہ صحیح ہوسکتا ہے۔ لیکن ساختی مذاہب جیسے اسلام کے متعلق یہ بات درست نہیں ہے۔
  • مذہب کے ارتقا کے تمام نظریات میں اضافیت کا عنصر غالب ہے۔
  • مذہب کے ارتقا کے تمام نظریات میں توسیعی دلائل (extensional arguments) کا سہارا لیا گیا ہے۔
  • کم و بیش تمام نظریات میں تجربی ڈیٹا  (empirical data) حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
  • طبعی سائنسوں کے طریقہ کار کو اگر اپنایا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس بات کو پایہ ثبوت تک نہیں پہنچایا جاسکتا کہ مذاہب انسان نے تشکیل دیے یا خدا کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔

مذہب و روحانیت دماغی صحت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ (ارتقائی تصور کی زبان میں )  survival fitness دیتے ہیں۔ اس لیے جدید ملحدین کا یہ کہنا کہ اب مذاہب فٹنس کے اعتبار سے اپنی افادیت کھوچکے ہیں صریح غلط بیانی ہے، اس لیے کہ ارتقائی تصور کہ اعتبار سے اصول یہ ہے کہ جب بھی کوئی خاصہ (trait) اپنی افادیت کھودیتا ہے تو وہ زائل (eliminate) ہوجاتا ہے۔لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ساری دنیا میں مذہب، مذہبیت اور روحانیت کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔

مذہبی عصبی نفسیات اور عصبی دینیات (neurotheology) بہرحال عصبیات (neuroscience) کی جدید شاخیں ہیں۔ ان میں ہونے والی تحقیقات میں جہاں مذاہب اور روحانیت کے سودمند ہونے کے حق میں بہت سارے شواہد فراہم کیے ہیں وہیں ان میں ہورہی بعض تحقیقات میں سائنٹزم کے زیر اثر مذہبی عقائد، جیسے حیات بعدالموت، روح، دین یا مذہب کا منجانب ایک فوق الفطرت ہستی ہونا، اور جزا و سزا کے تصورات کو محض طبعی کیمیائی اور عصبیاتی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس سائنس میں دو بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب ہنوز آنا باقی ہے۔ پہلا، مذہبی تجربے کے ادراکی منبع (cognitive source) کی تلاش۔ اس پر بڑی حد تک ڈیٹا آرہا ہے اور اس منبع کو دماغ کے مختلف حصوں سے منسوب کیا جانے لگے، اور عصبیاتی شبکوں میں مخصوص طبیعی کیمیائی تبدیلیوں کو اس سے جوڑا جاتا ہے۔ لیکن اعلیٰ مذہبی تجربات کے ادراکی منبع پر فیصلہ کن تحقیقات آنا باقی ہیں۔ دوسرا، عصبیاتی تجربہ کرنے سے پہلے زیر تحقیق فرد کی کیفیت، تصورات اور کنڈیشننگ کو معلوم کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس لیے ان تحقیقات میں کلاسیکی تعصب در آتا ہے۔

ایک اور اہم پہلو ادراک اور شعور کی اعلی سطحوں میں عصبیاتی شبکوں کے غیر یقینی کردار کے متعلق ہے جو مذہبی عصبیاتی نفسیات میں ہونے والی تحقیقات سے ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ یہ روایتی مغربی اپسٹمولوجی (epistemology) کے لیے غیر معمولی چیلنج کھڑا کر رہا ہے۔

غیر جانب داری سے اگر اس پوری سائنس میں ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ محققین کا ایک بڑا ٹولہ سائنٹزم کے زیر اثر اپنے مخصوص بیانیے کو آگے بڑھانے اور عوام میں اسے اثر و نفوذ دلوانے میں اس طرح کی سائنسوں کا استعمال کر رہا ہے۔ اس کے بخلاف مذہبی افراد محض ردعمل کی نفسیات کا شکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی سائنسوں کے میدان میں معتدل نوعیت کی تحقیقات کو پروان چڑھایا جائے۔

حوالے:

  1. https://www.nature.com/articles/ng1204-1241
  2. Burak Yulug, Lutfu Hanoglu, Ertugrul Kilic : The neuroprotective role of vesicular monoamine transporter 2 in neurodegenerative diseases. Med Chem. 2015;11(2):104-8. doi: 10.2174/1573406410666140925151845.
  3. Harris S, Kaplan JT, Curiel A, Bookheimer SY, Iacoboni M, et al. (2009) The Neural Correlates of Religious and Nonreligious Belief. PLoS ONE 4(10): e0007272. doi:10.1371/journal.pone.0007272
  4. https://researchoutreach.org/articles/neuropsychology-how-ritual-creates-religion/ Retrieved 13/06/2021
  5. http://www.humanconnectomeproject.org/ Retrieved 13/06/2021
  6. Erik Asp, Kanchna Ramchandran, and Daniel Tranel : Authoritarianism, religious fundamentalism, and the human prefrontal cortex . Neuropsychology. 2012 July ; 26(4): 414–421. doi:10.1037/a0028526
  7. Marie Good, Michael Inzlicht, and Michael J. Larson: God will forgive: reflecting on Gods love decreases neurophysiological responses to errors . SCAN (2015) 10, 357-363
  8. Harold G. Koenig : Religion, Spirituality, and Health: The Research and Clinical Implications International Scholarly Research Network ISRN Psychiatry Volume 2012, Article ID 278730, 33 pages doi:10.5402/2012/278730

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2021

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau