قرآن کریم اللہ رب العالمین اور علّام الغیوب والشہادہ کا کلامِ عالی مقام ہے جس کے عجائب و غرائب کی کوئی شمار و انتہا نہیں اور جس کو اشرف الانبیاء و نبی خاتم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر معجزۂ جاوداں ہی بنا کر نازل کیا گیا۔ اس کے اعجاز کی بھی سیکڑو ں جہات ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے ان کا شمار و ادراک انسان کے بَس کی بات نہیں کیونکہ جس نبی امّی پر کلمۂ اقرأ ہی سے نزولِ قرآن کی ابتدا ہوئی ہو اور جس کا نام ہی القرآن ہو بلکہ جس کو ربّ کائنات نے فرقان، بُرہان، بیان، نور، بلاغ، حق اور علم و حکمت جیسے کم و بیش پچاس القاب سے نوازا ہو اس کلام کے ادبی ،علمی و سائنسی اعجاز کا احاطہ بالیقین ناممکن ہے۔
کلمۂ اقرأ کی معنویت
قرآن مجید کے علمی و سائنسی اعجاز کے مُسکت ثبوت کے لیے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی سورہ العلق کی ابتدائی پانچ آیات پر مشتمل پہلی وحی پر مدبرانہ توضیح ہی کفایت کرتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کلمۂ اقرأ سے شروع ہونے والی پہلی وحی الٰہی میں دو بار کلمۂ اقرأ کا حکمیہ بیان اور تین بار علم کے مشتقات کا ذکر نیز انسان کی تخلیق میں عَلَق اور خالقِ عَلَق کا خصوصی حوالہ حصولِ علم میں اسمِ ربی کی اہمیت و اَوّلیت کے ساتھ خالقِ کائنات کے کرم کا برملا اشارہ بلکہ اس امر کا درپردہ اشارہ بھی کہ جس کتابِ الٰہی کے نزول کا آغاز ہوا، اس کا نام کلمۂ اقرأ کے مناسب حال ’القرآن‘ ہوگا نیز اس حقیقت کی یاددہانی کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جن دو بڑے ذرائع حفاظت وترسیلِ علم سے بنی نوع آدم کو نوازا ہے ان میں ایک ذریعہ ’’قلم‘‘ ہے تو دوسرا قلب و لسانِ انبیاء ہے، ایک ذریعہ کسبی ہے تو دوسرا وہبی۔ مزید برآں انسانی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں خورد بینی مرحلہ مسمّٰی بہ ’’اَلْعَلَق‘‘ قرآن کریم کے سائنسی اعجاز کا اشارہ تھا جس کو بیسویں صدی عیسوی میں کناڈا کے علم جنینیات(Enbryology) کے ماہر سائنسداں کِیتھ مُور (Keith Moore)نے اسی دور کے اعلیٰ تحقیقی پیمانوں پر جانچ کر اعجازِ قرآنی کا منھ بولتا ثبوت فراہم کیا اور کئی سائنسدانوں کے کلمۂ شہادت پڑھنے کا ذریعہ بنا۔[1]
علم (Knowledge)و معلومات (Informtion)کے تعلق سے ابتدا ہی میں یہ عرض کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علم و معلومات کی کئی جہات ہیں، مثلاً ایک جہت زمانی ہے تو دوسری مکانی، اسی طرح ایک علم کسبی ہوتا ہے تو دوسرا وہبی، نیز ایک علمِ غیب ہوتاہے تو دوسرا علم شہادہ وغیرہ۔ ان ہر دو متضاد جہات پر مبنی قرآن کے اعجازِ علمی پر بھی بحث کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح علم غیب کے زمانی پردوں مثلاً ’’الٓمٓ غُلِبَتِ الرُّوْمُ‘‘ جیسی پیشین گوئیاں زیر بحث عنوان کا حصہ بن سکتی ہیں تو وقت کے پردوں میں مستور سائنسی ایجادات و انکشافات کے لیے آلاتِ تجربات مثلاً خورد بین کی ایجاد کی ضرورت قرآنی اشارہ ٔ عَلَق کو مؤید و مؤکد کرتی ہے۔ یہ علم مشاہدہ کےزمانی پردہ و حجاب سے عبارت ہے جو کہ مستقبل میں رونما ہونے والا تھا تو دوسری طرف علم وہبی پر مبنی وجود ملائکہ اور وجود جنات کے انکشافِ حقیقت کے لیے بعثت انبیاء کی ضرورت تھی یہ گویا ایک معنوی حجاب ہے جس کو انبیائے کرام توڑتے ہیں۔کہنا یہ ہے کہ متعددزمانی و مکانی ، معنوی و حقیقی، غیبی و شہادتی پردوں کو ہٹا کر کلام اللہ کے علمی و سائنسی اعجاز کی بحث اپنا راستہ بناتی اور استوار کرتی ہے۔کلام اللہ کے علمی اعجاز کے یہ پہلو اور جہات اُن مباحث کا دائرہ اتنا وسیع کردیتے ہیں جن کا ادراک انسانی ذہن سے وراء الوراء ہے یعنی ان کے دائرہ ہائے کار کے تعدُّد و تنوع ہی کا احاطہ ممکن نہیں، تفصیلِ اعجاز تو دور کی بات ہے۔
سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا کی معنویت
اللہ تعالیٰ نے ا عجازِ قرآن کے ان زمانی و مکانی پہلوؤں کو سورۂ حٰمٓ السجدہ کی آیت 53 میں کتنے حسین پیرائے میں ذکر فرمایا ہے بالخصوص اس مقام پر پیشین گوئی تک کو اعجاز قرآنی کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ لاریب یہ آیت قرآن کریم کے علمی و سائنسی اعجاز کی کنجی و کسوٹی ہے لہٰذادعویٰ، چیلنج اور پیشین گوئی سے معمور اس معرکة الآراء آیت پر ذرا تدبر کی نظر ڈالیں۔ ارشاد ربانی ہے: سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِهِمْ حَتَّى یتَبَینَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَیءٍ شَهِیدٌ (فصلت :53) ترجمہ : ہم ان کو عنقریب آفاق و انفس میں نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ یہ بات ان پر بالکل واضح ہوجائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟
مذکورہ بالا اِس آیت میں ’’سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا‘‘ کا کلمہ قرآن کے علمی اعجاز کے زمانی پہلو کا حسین استعارہ اور قرآنی پیشین گوئی کا واضح حوالہ ہے ، جبکہ ’’ فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِهِمْ ‘‘اس کے مکانی اعجاز کی دو بڑی جہات کا اشارہ ہے، اور اس پیشین گوئی کو کلامِ معجز میں بیان کرنے کی غرض ’’ حَتَّى یتَبَینَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ‘‘میں منکشف کی گئی ہے اور اس کے بعد نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم پر خصوصی التفات و تسلی کے لیے اور آپؐ کے بعد امت مسلمہ کے ہر فرد کی تقویت ایمان کے لیے، ربّ کریم نے اپنی محکم شہادت کو زوردار اسلوبِ کلام میں دلیلِ کافی ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ ایمان و عرفان بالقرآن کے بارے میں مشیت الٰہی یہ ہے کہ کائنات اور بنی نوع آدم کے تعامل نیز تدبر انسانی کے نتیجہ میں زمانی و مکانی حجابات رفتہ معدوم ہو کر قرآن کے علمی و سائنسی اعجاز کی راہیں مزید استوار ہوں گی لہٰذا فی زمانہ مذکورہ بالا آیت اپنی حقانیت کو ببانگ دہل اس طرح مبرہن کررہی ہے کہ بے ساختہ جی چاہتا ہے کہ اللہ کے بندے بھی پکار اٹھیں کہ لاریب قرآن مجید برحق ہے، معجزۂ جاوداں ہے اور رب کریم کی شہادت ہی بالیقین سب گواہیوں پر بھاری ہے۔
مذکورہ بالا آیت قرآن پر مزید تدبر کی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کلمۂ’’ سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا‘‘ میں اللہ تعالیٰ انسانی چشم بصارت و بصیرت اور ان کے مؤید آلات کے ذریعہ انکشافِ حقائق کی پیشین گوئی فرمارہا ہے مثلاً خورد بین اور دور بین اور دیگر آلات تجربہ کی ایجادات نے انسان کی قوت بصارت کو بے پناہ وسعت بخشی جس سے انکشافِ حقائق کے نئے نئے راستے ظہور میں آئے اور نتیجتاً استنباطی قوت کو مزید جلا ملتی گئی جبکہ خورد بین کی ایجاد لاشعوری طور پر ’’خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَق‘‘کی مرہونِ منت تھی اور ’’سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا ‘‘نزول قرآن کے مشیتِ الٰہی کے خصوصی اذن کا استعارہ بھی تھا جس کو عملاً متعدد شکلوں میں ظہور پذیر ہونا ناگزیر تھا لہٰذا کلامِ الٰہی نے ایک مہتم بالشان سمت بھی فراہم کردی جو آیت مذکورہ میں کھول دی گئی ہے۔ بالفاظ دیگر ’’سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِهِمْ حَتَّى یتَبَینَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ‘‘ کے کلمات نظامِ کائنات کے قرآنی آیات کے زیر نگیں ہونے پر دال ہیں جس کا ثبوت بذات خود اِس آیت کے مذکورہ بالا کلمات ہی ہیں جن میں ہر کلمۂ الٰہی ا مر ربی کا مظہر ہے لہٰذا سائنسی ایجادات کا آفاق و انفس کے ان لطیف گوشوں میں ظاہر ہونا تقدیر الٰہی میں طے تھا جو قرآن کریم کی حقانیت کو مبرہن و اجاگر کررہے تھے اور یہ سب کچھ اس لیے ہونا تھا تاکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے علمی و سائنسی اعجاز کے گوناگوں پہلوؤں سے عالمِ انسانیت کو روشناس کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم کرے۔
قرآن مجید کے علمی و سائنسی اعجاز کے اصول و مبادی
قرآن مجید کا اصل مقصد خلافت فی الارض کے منصب عالی پر متمکن یعنی بنی نوع آدم کی ہر شعبۂ زندگی میں کامل و مکمل رہنمائی کرناہے جوصاحب عقل و شعور بھی ہے اور حامل اخلاق و اقدار بھی۔ چنانچہ یہ انسانی عقل و ادراک کی اصلاح کرتا ہے، اس کے نفس و روح کی بالیدگی کے سامان کرتا ہے، اس کی حقیقی ترقی اور فوز و فلاح کے حصول کے اصول و مبادی بھی فراہم کرتا ہے، اس کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہمہ گیر وہمہ جہتی انقلاب کا بہترین محرک و داعی بھی ہے۔ لہذا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ خلافت ارضی کی گوناگوں ذمہ د اریوں کو بحسن و خوبی ادا کرنے کے لیے ہی انسان بالقوہ طور پر(Potentially)علم و تمیز کے زیور سے آراستہ کیا گیا۔ البتہ حصولِ علم کی بالقوہ صلاحیت کو عمل میں ڈھالنے کے لیے ہدایت الٰہی ناگزیر تھی جبکہ خلافتِ ارضی کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تکمیل دین کی اورحیات انسانی کی معراج کے حصول کے لیے اس کتاب ہدایت کا علمی معجزہ ہونا بھی منطقی تقاضا تھا۔ بالفاظ دیگر خلافت ارضی کے متنوع چیلنجوں کو برضا و رغبت قبول کرنے کے لئے بنی آدم کو جس علم کی ضرورت تھی وہ کسی کتابِ اعجازِ علمی ہی میں مل سکتا تھا جو ہر شعبۂ علم میں ان کی رہنمائی کرے، ان کی اصلاح کرے، ان کو حقیقی ترقیوں کی بامِ عروج پر لے جائے مگر یہ تبھی ممکن ہوسکتا تھا جبکہ قرآن کریم جیسی کامل و مکمل اور انقلاب آفریں کتاب دنیائے انسانیت کی رہنمائی کرے اورجس میں اعجازِ علمی کی ساری شرائط بدرجہ اتم موجود ہوں۔ چنانچہ قرآن مجید حیاتِ انسانی کا ایک جامع و مکمل نظام پیش کرتا ہے۔ اس کے لیے اس نے معاشیات(الحشر:7؛ النحل:71؛ البقرہ:168، 188، 275؛ التوبہ:3۴-35 )،سیاسیات (آل عمران:26، 10۴، 189؛ الحج:۴1؛ الاحزاب:36؛ التوبہ: 112؛ الانعام:85؛ بنی اسرائیل:2۴،3۴؛ الممتحنہ:8 )، تعزیری قوانین(البقرہ:178-179؛ المائدہ:38؛ النور:2،۴،5 )، قانونِ وراثت( النساء:7-11،12، 176 )، عدلیہ (النحل:9۴؛ الممتحنہ:8؛ الحدید:25 )، انتظامیہ(الاحزاب: 36؛المائدہ:32، 33؛ النور:55؛ القصص:۴؛ المائدہ:8)، سائنس و فلسفہ( الانبیاء:22؛ الانعام:38؛ یٰسین :۴0؛ الرعد:2-۴؛ الطلاق:12؛النحل :79 وغیرہ )،اصول جنگ(النساء:75-76؛9۴؛الحجرات:91؛ التوبہ:13،73؛ آل عمران:169؛ النور:27-28، 55؛ الذاریات:19 وغیرہ )،اصولِ امن(المائدہ:2،23،33وغیرہ )،علوم روحانی(العنکبوت :17؛ الزمر:2، 3، 11،1۴؛ البقرہ:136،177، 183 )،علومِ مادی(حم السجدہ:11؛ الرعد:2-3؛ الطلاق:12؛ الغاشیہ: 17-20 )،اخلاقیات(الحجرات :11-13؛ بنی اسرائیل:53؛ النساء: 5، 29-35؛ الاحزاب: 70؛ البقرہ:109؛ 237؛ النور:22 )،معاملات(بنی اسرائیل:3۴، 36؛ البقرہ:88،177،215؛ الشوریٰ :38؛ الحجرات:10)،تاریخ و سیر(الاعراف:175؛ المائدہ:27-32؛ ہود: 100؛ یوسف:3،111؛ آل عمران:13 )،علومِ آثار(الاعراف:175؛ المائدہ:27-30؛ ہود: 100؛ یوسف:3،111؛ آل عمران:13 )،علومِ نفسیات(بنی اسرائیل: 11،67؛ ابراہیم :3۴؛ الاحزاب:72؛ الکہف :5۴ ؛ المعارج :21؛ العٰدیات:8؛ سورہ یوسف مکمل )،علومِ عمرانیات(آل عمران: 10۴؛ النساء:1، 3، 25؛ النور:27-32؛ الشوریٰ:38؛ الذاریات:19؛ التوبہ:71 وغیرہ )، وغیرہ سبھی علوم پر معجزاتی سطح کی ماہرانہ بحث کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم تا قیامت تمام انسانوں کے جملہ مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین رہنمائی کرنے والی جامع وکامل کتاب ہے(یوسف :111؛ الفرقان:1؛ ص:87؛ القلم :52؛ التکویر:27؛ النحل :89؛ یونس:57 وغیرہ) ، اور اس خوبصورتی سے اپنے دلائلِ ہدایت پیش کرتی ہے کہ ہر غیر متعصب ماہر علم بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ لاریب یہ کتاب معجزوں کا معجزہ نیز ہمہ گیر، آفاقی اور ہمہ جہتی معجزہ ہے۔
قرآن مجید نہ صرف آفاق و انفس کے ہر منفرد موضوع پر کوئی نہ کوئی اعجازی شان کی بات کہتا ہے بلکہ اس کے علمی اعجاز کا ایک اور امتیاز اور عالم انسانیت پر خصوصی احسان یہ بھی ہے کہ اس نے متعدد و متنوع علوم کے سینکڑوں بحر العلوم (Polymaths)اور عباقرہ پیدا کیے[2]کیونکہ وہ اپنے ہر مخاطب کو آیات آفاق و انفس پر غور و تدبر کی بار دعوت دیتا ہے اور مخاطب کے ذہن و قلب کو متنوع علوم کے مسلسل مطالعہ و تجزیہ کا عادی بناتا ہے اور متنوع الجہات موضوعات پر غور و فکر کی تحریک فراہم کرتا ہے مثلاً وہ کہتا ہے کہ ’’اَفَلاَ یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ وَالَِی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ ‘‘ (الغاشیہ:17-20)اور ’’اِنَّ فِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیَاتٍ لِاُولِی الْاَلْبَابِ‘‘ (آل عمران:190) نیز’’ اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ‘‘(محمد:2۴) جیسی کم و بیش ساڑھے سات سو آیات کے ذریعہ انسانی ذہن و حافظہ کی آبیاری کرتا رہتا ہے اورنہ صرف غور و فکر کے لیے ایسی تحریک (Inspiration)فراہم کرتا ہے بلکہ ایک جامع علمی و فکری تحریک (Movement)و انقلاب برپا کردیتا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، قرآن مجید کا یہ لاثانی علمی اعجاز کسی بھی مذہبی یا غیر مذہبی کتاب کو میسر نہیں۔
سائنس اور قرآن کریم : قر ب و بعدکے بنیادی پہلو
فطرت اور عالم طبیعی کا وہ منظم علم جو مشاہدہ، تجربہ اور پیمائش سے ماخوذ ہو، سائنس کہلاتا ہے۔ دور جدید کے سائنسداں اسی سائنسی تعریف کو دیگر معانی پر فوقیت دیتے ہیں۔[3]
قرآن حکیم میں سائنسی دل چسپی کی حامل آیات سے بالعموم یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ آیاتِ قرآنی جو عجائب قدرت (Natural phenomena)سے متعلق ہیں یا ان آیات میں موجود علم کی تقسیم بندی سائنس کی کسی شاخ مثلاً علم ہیئت، طبیعیات یا حیاتیات کی شکل میں کی جاسکتی ہے۔ البتہ ان آیات میں سائنسیت (Scientificity)جانچنے کے لیے توثیق شدہ عملیاتی معیارات میں ان کا قابلِ تصدیق ہونا، قابل معائنہ ہونا، قابل تکذیب ہونا اور تصدیق شدہ ہونا ناگزیر ہے۔ ان شرائط میں ’’قابل تکذیب ہونے کی شرط کا اطلاق قرآنی آیات پر کرنا جہالتِ محض ہے۔
اس مقام پر چند وضاحتیں بھی ضروری محسوس ہوتی ہیں جو قرآن اور سائنسی رہنمائی کے فرق کو مزید مبرہن کرتی ہیں۔
قرآن کا مخاطب عقل و ضمیر اور ارادہ و تمیز رکھنے والا ایک مکمل انسان ہے جس میں روح حیوانی بھی ہے اور روح یزدانی بھی جبکہ سائنس اس کے محض مادی و حیوانی وجود ہی سے تعرض کرتی ہے۔ قرآن کریم انسان کو اس علم سے بہرہ ور کرنا چاہتا ہے جو اس کائنات کی حقیقت خالق کائنات کی معرفت اور خود اس کی فلاح و خسران کی آگہی کا علم ہے جبکہ سائنس کائناتی اشیا کی سطحی ماہیت کا علم ہے نیز سائنس انسان کے مادی وجود کے افعال و ساخت کا علم ہے جبکہ قرآن انسان کے کلی وجود سے بحث کرتا ہے۔
قرآن حکیم کا مقصد آفاق و انفس کی آیات پر غور و فکر کے ذریعہ انسانی قلب میں معرفت خداوندی اور روز حساب کی جوابدہی کا یقین پیدا کرنا اور ان کو مستحکم کرنا ہے البتہ قرآنی آیات میں بعض اوقات سائنسی حقائق بھی اجاگر ہوتے محسوس ہوتے ہیں جبکہ سائنس اپنے مزاج و روح سے ماورائے مشاہدہ وتجربہ اور منزہ بہ الشکل والمادة کسی ذات اور اس کے اذن و ا رادہ پر یقین نہیں رکھتی ہے۔
قرآن کریم کا مقصد بجائے کسبی علوم کے غیر کسبی علوم کی آگہی ہے اور ان علوم کی آگہی جن کے سلسلہ میں انسانی عقل ٹھوکریں کھاتی رہی ہے لہٰذا قرآن حکیم کسبی علوم مثلاً سائنس سے براہ راست بحث نہیں کرتا بلکہ ان کسبی علوم کو غیبی حقائق کے مدلل کرنے میں استعمال کرتا ہے۔
قرآن مجید میں سائنسی امور کی طرف صرف اشارے کیے گئے ہیں جن کا مقصد اللہ تعالیٰ کی بے پایاں ربوبیت، حکمت، رحمت اور قدرت کی یاددہانی اور احساس دلانا ہے۔
سائنس ایک نامکمل علم ہے جس کے نظریات میں ترمیم و تنسیخ ہوتی رہتی ہے۔ اس کی کوئی تھیوری حرف آخر نہیں جبکہ قرآن حکیم جملہ حقائق و معارف کی ناقابل تردید اور مکمل کتاب ہے۔مزید برآں سائنس کسی بھی چیز کی حقیقت (Reality)کو نہیں بتاتی بلکہ اس کی سطحی تفصیل کو بعض آلات کی روشنی میں بتاتی ہے۔ آلات و تجربات کے بدلنے سے وہ سائنسی حقیقت (Scientific Fact)بدل سکتی ہے۔ قرآن کا دائرۂ کار نہ صرف اشیا کی حقیقت بلکہ اُس سے آگے بڑھ کر اشیا کی معرفت اور حقائق کے منابع کے عرفان تک پہنچانا ہے اور یہ الحق (Ultimate Truth) کا عرفان ہے۔[4]
قرآن مجید اور جدید سائنس کاباہمی ارتباط
قرآن مجید نبی خاتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی نبوت کی محفوظ و مستند دستاویز ہے۔ یہ زندہ و جاوید معجزہ، کتابِ الٰہی اور پیغامِ ہدایت ہے جو تمام دنیائے انسانیت کے جملہ مسائلِ حیات کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور دنیا و آخرت کی حقیقی فوز و فلاح کا ضامن بھی ہے۔ اس کتاب میں موجود ہر کلمہ و بیان کلیتاً حق و صداقت پر مبنی ہے۔یہ کتابِ فرقان و برہان بھی ہے اور اس دنیا میں حق کی میزان بھی۔ لہٰذاانسانی حواس و ظنیات اور عقل و استنباط کی اصلاح کے لیے بھی بھیجی گئی ہے۔
سائنسِ جدید یعنی وہ مضمون (Subject)جو بحیثیت ایک شعبۂ علم آج کل اس دنیا میں معروف و مشہورہے، اس کی مخصوص تاریخ، فلسفہ، دائرۂ کار، منہجیت(Methodology) اور علمی بنیادیں ہیں جن کے مطابق اِ س کائنات کے مظاہر میں فوق الفطرت خدائے کائنات کے رول کی کہیں گنجائش نہیں یعنی اس علمِ سائنس کی بنیاد ملحدانہ اور مادہ پرستانہ ہے۔ مزید برآں سائنس و دیگر علوم انسانی فلسفۂ تشکیک سے آبیاری حاصل کرتے ہیں یعنی عصری علمی نظریات کو شک کی نظرسے دیکھتے ہیں تاکہ تنقیداور تحقیقِ مزید سے نئے اور بہتر نتائج تک رسائی ہوسکے۔ بایں وجوہ سائنسِ جدید ہر دم تغیر پذیر ہے۔ اس کے برخلاف قرآنِ کریم وجودِ باری تعالیٰ اور توحیدِ الٰہ کے اثبات کے بغیر ایک آیت بھی آگے نہیں بڑھتا اور نہ اس کی کسی آیت میں شک کا کوئی شائبہ قابل قبول ہوسکتا ہے۔ مزید برآں قرآنی واقعات و فرمودات حق و صداقت پر مبنی آیاتِ الٰہی(Signs of Allah)ہیں اور قرآنِ عظیم میں موجود کائناتی مظاہر اور ان کے معانی جوہری طور پر ناقابلِ تغیر اور اٹل ہیں۔ علاوہ بریں سائنسِ جدید اخلاقی اقدار سے عاری ) (Value neutral اورعالم محسوسات کا علم ہے۔ لہٰذا علمیاتی بنیادوں پر قرآنِ حکیم اور مغربی سائنس میں بُعد المشرقین ہے۔ البتہ قرآن مجید چونکہ انسانی علوم کی اصلاح کے لیے بھی نازل ہوا ہے لہٰذا مغربی سائنس کی اصلاح کی بھی داعیانِ قرآن کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اس دعوتی غرض سے قرآن و سائنس کے آپسی بْعد کے علی الرغم قرآن مجید اور سائنس کے درمیان یکسانیت کے پہلو بھی تلاش کرنے ہوں گے البتہ ان کا مقصد یہ نہیں ہوگا کہ سائنس یا قرآن مجید کی باہمی تائید کے وہ راستے استوار کیے جائیں جو ان دونوں کی شناخت مٹادیں مثلاً قرآن مجید جو وہبی علوم سے عبارت ہے اس کو نعوذباللہ کسبی علوم سے خلط ملط کرکے انسانی علوم بشمول سائنس کے مساوی تسلیم کرایا جائے یا سائنس کو ماورائے حواس تجربات کرنے کی یا تجربات کی ضرورت ہی سے انکار کی وکالت کی جائے۔
قرآن مجید کو کتابِ الٰہی تسلیم کرانے اور اس کی حقانیت کو کسی زمان و مکان میں ثابت کرانے کے لیے اگر سائنس کوئی تعاون دے سکتی ہے تو اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں البتہ سائنس کی محدودیت اور دیگر نقائص کی ہمہ دم یاددہانی نہایت ضروری ہے کیونکہ یہاں کامل پر ناقص کی بالا تری کا اندیشہ ہر وقت قائم رہتا ہے اور سائنس کا ملحدانہ استنباط لاشعوری طور پر ذہنوں کو مسموم کرتا رہتا ہے۔
قرآن مجید اور سائنسِ جدید کاتقابلی تجزیہ(Comparative analysis)در اصل ایک فرانسیسی نو مسلم ماریس بوکائے (Maurice Boucaille)کی کتاب بعنوان ’’بائبل، قرآن اور سائنس‘‘ پر مبنی ہے[5] جس کو جامعہ الازہر، مصر کے بعض علماء و دانشور مثلاً شیخ عبدہٗ کے تلامذہ اور جوہری طنطاوی وغیرہم کی تفسیری آرا سے مزید تقویت حاصل ہوتی ہے اور آج کل ڈاکٹر ذاکر نائک اس کو قرآن مجید کی حقانیت کے ثبوت میں سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں حتیٰ کہ سائنس کی بعض تھیوریوں کو عین کائناتی حقائق تسلیم کرتے ہوئے قرآن کی حقانیت ثابت کرانے میں انھیں کوئی باک نہیں ہے۔ اس سے مناظرانہ اور وقتی طور پر تو واہ ہوجاتی ہے لیکن دانشورانِ سائنس و قرآن کے نزدیک دنیا میں اس سے غلط پیغام جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک ماریس بوکائے کی بنائے بحث (Premise of discussion)بائبل کی بہ نسبت قرآن مجید کو سائنسی امور میں زیادہ مبنی بر حق تسلیم کرانا تھا یا یوں کہیں کہ ان کو یہ ثابت کرنا تھاکہ موجودہ بائبل قرآن مجید کے مقابلہ میں کم سائنٹفک ہے یا سائنسی کسوٹی پر کھری نہیں اترتی لیکن اس موازنہ میں لا محالہ طور پر اس مفروضہ کو دخل ہے کہ سائنسِ جدید ان دونوں الہامی کتابوں کی حقانیت کی کسوٹی بن سکتی ہے۔ ہماری حقیر رائے میں یہ دونوں مفروضے کہ الہامی کتابیں کتنی سائنٹفک ہیں اور کیا سائنس ان کی حقانیت کی کسوٹی بن سکتی ہے،بے محل(Irrelevant) ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کی حقانیت کو ثابت کرنے میں کوئی مدد نہیں کرتے بلکہ تجزیہ نگار کی کم علمی، نقصِ علم اور تجزیاتی عدم بصیرت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ سائنس اور زیر بحث الہامی کتب اپنی علمی بنیادوں، اپنے طریقہ ہائے استدلال اور اپنے میدان ہائے کار میں بالکل جدا اور مختلف ہیں۔ لہٰذا یہ تجزیہ بالکل ایسا ہے جیسے علومِ فنونِ لطیفہ کو سائنس کے پیمانوں سے یا سائنس کو الٰہیات کے امور پر پرکھا جائے۔ اس کے علاوہ سائنسِ جدید کو قرآن اور بائبل کی حقانیت اور ان کے الہامی کتب ہونے پر حَکَم و کسوٹی بنانا ان دونوں کتابوں کی تخفیف بلکہ توہین و تنقیص ہے۔ بالخصوص قرآن مجید کا محاکمہ و تجزیہ جو کہ تمام علومِ الٰہیہ و کونیہ کا منبع و خزینہ ہے اس کا سائنس جیسے ناقص و ہر دم تغیر پذیر اور ملحدانہ علم کو حکم بنا کر محاکمہ کر نا ظلم و جہالت کی قبیل سے ہے۔ بائبل کو سائنس کی کسوٹی پر جانچنا تو شاید کسی قدر درست ہوسکتا ہے کیونکہ انسانی دست برد نے منزل من اللہ انجیل کو اتنا تبدیل کر دیا ہے کہ خدائی فرمودات اور انسانی ظنیات میں تمیز ناممکن ہوگئی ہے مزید برآں بائبل قرآن کریم کے علی الرغم آفاقی کتاب بھی نہیں ہے جبکہ قرآن مجید کو تمام انسانوں کی اصلاح کے لیے تا قیامت علم و عقل کی کسوٹی بنا کر بھیجا گیا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید پر غور و تدبر کی غرض سے اور سائنس زدہ لوگوں کی تشفی کے لیے دروسِ قرآن میں سائنسی معلومات کا سہارا لینے میں تو ہمیں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا البتہ جب قرآنی آیات کی تفسیر میں سائنسی نظریات کو داخل کیا جائے تو اس میں وہ تمام قباحتیں در آتی ہیں جن کا ذکر اوپر مختلف پہلوؤں سے کیا گیا ہے۔ مثلاً کامل پر ناقص کو ترجیح ملنا، قرآنی آفاقیت کا مجروح ہونا، قرآن مجید کے فطری اور مشاہداتی اسلوبِ بیان کو عصری نظریاتی پیرایہ میں یا فلسفیانہ اور سائنسی اسلوب میں پیش کرنا جس میں تصنع اور ادقیت در آتی ہے،اور سب سے بڑی بات یہ کہ نظریات اور حقائقِ سائنس میں تمیز نہ کرنے سے وہی اندیشہ قائم رہتاہے جس کا شکار موجودہ بائبل ہوچکی ہے جبکہ سائنس کے تو علمی حقائق تک مطلق نہیں بلکہ اضافی ہیں۔
سائنسی اعجاز کے بارے میں ناقدین کی آرا، ایک جائزہ
اس سلسلہ میں ناقدین کا پہلا اعتراض یہ سامنے آتا ہے کہ قرآنی آیات کے معروف معانی سے ہٹ کر مقصد برآری کے لیے کھینچ تان کر کے وہ معانی نکالے جاتے ہیں جو عصری سائنس کے تصورات سے ہم آہنگ ہوں۔ اس کے جواب کے دو زاویے ہیں اولاً معروف وغیر معروف کی بحث لایعنی (Irrelevant)ہے، سوال یہ ہے کہ جو معنی کسی لفظ کے بتائے جارہے ہیں وہ عربی لغت کی مستند کتابوں میں موجود ہیں یا نہیں، اگر موجود ہیں تو اعتراض کی کوئی اہمیت نہیں،البتہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر دینا ہمارے نزدیک کسی طرح درست نہیں۔ ثانیاً جو سائنسی تصور بحیثیت اعجاز القرآن پیش کیا جارہا ہے وہ اگرخود مسلّم الثبوت سائنسی حقیقت(Scientific fact) نہیں تو بے شک وہاں ناقدین کی تنقید درست ہے اور امت مسلمہ کو سائنس کے بدلتے نظریات کی بنیاد پر قرآنی حقانیت کو ثابت نہیں کرنا چاہیے، ان کے برخلاف مشاہداتی اور تجرباتی بنیادوں پر مستحکم قرآنی بیانات کو سائنسی اعجاز کے زمرہ میں شامل کرنے میں کیا قباحت ہے؟ یہاں یہ عرض کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی اعجاز میں شامل کی جانے والی اکثر آیات میں مشاہداتی اور تجرباتی سطح پر ناقابل تردید حقائق ہی پیش کیے گئے ہیں ان میں قرآنی اعجاز کو مزید مستحکم کرنے کے لیے نئی سائنسی یافتیں جو نئے آلات سے مزید مؤید ہوتی ہوں، شامل کردینا عین علمی طریق کار ہے جو سائنسی تحقیقات میں افزونی علم و معلومات کا ذریعہ بنتی ہیں۔ مثلاً جب قرآن آسمان کو ’’سَقْفاً مَحْفُوْظًا‘‘ (الانبیاء:32)محفوظ چھت کہتا ہے یا ’’جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ” (الانبیاء: 30)یعنی ہر ذی حیات کو پانی سے بنا ہوا بتاتا ہے یا سمندروں کے دو پانیوں کے درمیان ایک پردہ کا ذکر کرتا ہے تو اس میں سائنسی اعجاز کہنے میں کیا شک اور اعتراض ہوسکتا ہے۔ یا پہاڑوں کو میخیں بتا کر یا لوہے کے لیے ’’اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت، رحمت ، حکمت اور ربوبیت کی نشانیاں قرار دیتا ہے تو اگر کوئی اس کے گوناگوں پہلوؤں میں سائنسی پہلوؤں کو اُجاگر کرکے قرآن کے اعجاز کی طرف متوجہ کرتاہے تو یہی تو روز اوّل سے مفسرین کا مقصود و مطلوب رہا ہے لہٰذا محض سائنس کے نام سے وحشت و نفرت ہونا بھی کسی طرح ایک درست رویہ نہیں مانا جاسکتا ، ہاں البتہ علم ہیئت و فلکیات کے نظریات یا انسانی ارتقائی مراحل کے بارے میں قرآن کو سائنس جدیدخصوصاً اس کے نظریات کے تابع کردینا بے شک قرآن کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے اور سائنسِ جدید سے مرعوبیت کی علامت یا علم سائنس کی اصل تاریخ اور فلسفہ سے نا واقفیت کی دلیل ہے۔ در اصل ان امور کو کھینچ تان کر سائنس جدید کے نظریات سے ہم آہنگ کرناکسی طرح قرآن کریم کی خدمت کے زمرہ میں نہیں آتا لہٰذا اِس سے بچنے ہی میں خیر و بہتری ہے۔ (جاری) ◼
حوالہ جات
[1] Moore, Keith, L۔ ’’The Developing Human‘‘ Saunders; USA۔ 11th edition 2017. plus: ’’A Scientific interpretation of references to embryology in the Quran‘‘, Journal of the Islamic Medical Association of North America 18 (1) : 1986
[2] احمد،سید مسعود ،کتاب بعنوان’’ اہم عصری مسائل، تجزیہ اور حل‘‘، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی2020ء، ص ۱۹۴-۱۹۷
[3] کرمانی،محمد ریاض ، ’’قرآن اور سائنس: ایک علمیائی جائزہ‘‘ مجلہ آیات، علی گڑھ ، جلدہفتم، شمارہ اول، دوم1996، ص۱۳ تا ۴۲۔
[4] احمد،سید مسعود ،’’ قرآن کا تصور علم‘‘،مجلہ’ آیات‘ علی گڑھ، جنوری تا اپریل 1992ء، ص ۱۱ تا ۳۲؛ مزید دیکھیے راقم کا مقالہ بعنوان ’’قرآن اور سائنس: ’’قرب و بعد کے پہلو اور تعاون باہم کی راہیں‘‘ مقالات سیمنار’’عصر حاصر میں اسلام کو درپیش چیلنجز‘‘ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ،2023ء، ص 158 تا 182۔
[5] بکائے،ماریس ،’’بائبل،قرآن اور سائنس‘‘تاج کمپنی، دہلی، 1983ء
مشمولہ: شمارہ جولائی 2025