عنوان دیکھ کر تعجب نہ کریں۔ جس طرح دریا میں کشتی چلانے اور خشکی پر گھوڑا دوڑانے کے لیے مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح غصے پر قابو پانے کے لیے بھی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
غصہ انسانی جذبات میں سب سے زیادہ نمایاں اور شدید جذبہ ہے۔ ہر انسان میں غصہ کی منفرد سطح اور شدت ہوتی ہے۔ غصے کا بے حد کم ہونا اور حد سے زیادہ ہونا دونوں ہی نقصان دہ ہے۔ بہت سے افراد اپنے غصہ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ غصے میں تھوڑ پھوڑ اور شور شرابہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ خاموشی سے غصہ پی جاتے ہیں۔ کچھ بے قابو ہوجاتے ہیں تو کچھ خود کو قابو میں رکھتے ہیں۔ غصہ صرف نوجوانوں یا عمر دراز افراد ہی کو نہیں آتا، بچوں کو بھی غصہ آتا ہے۔ غصے کی زیادتی کے باعث وہ چڑچڑے اور ضدی بن جاتے ہیں اور والدین کو انھیں کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بچوں کو غصہ کیوں آتا ہے؟ کیسے آتا ہے؟ غصہ کا علاج کیوں کرنا ضروری ہے اور علاج کی تدابیر کیا ہیں؟ ان سوالوں کے درست جوابات والدین کی مشکلات کو دور کرسکتے ہیں۔
(الف) بچوں کو غصہ کیوں آتا ہے؟
جس طرح بڑوں کو غصہ آنے کی لاتعداد وجوہات ہیں اسی طرح بچوں کو بھی غصہ آنے کی ایک فہرست ہے۔
بچوں میں غصہ، تناؤ اور چڑچڑے پن کی وجوہات مندرجہ ذیل ہوسکتی ہیں:
- پسندیدہ شے یا کھلونا نہ ملنے پر
- کسی چیز سے منع کردینے پر
- والدین، دوست یا قرابت دار سے دور ہونے پر
- بیمار ہونے، بھوک نہ مٹنے یا نیند نہ پوری ہونے پر
- طویل سفر، موسم کی شدت یا موسم تبدیل ہونے پر
- کپڑوں یا جوتوں سے کسی قسم کی تکلیف ہونے پر
- کسی مقابلے میں ہارجانے یا امتحانات میں ناکام ہونے یا امید سے کم نمبرات ملنے پر
- توجہ نہ ملنے پر
- والدین جب ایک بچے کو دوسرے بچے پر ترجیح دیتے ہیں
- دوسرے بچوں کی مثالیں دینے یا ان سے موازنہ کرنے پر
- سن بلوغت کی جسمانی تبدیلیوں اور ہارمونز کی وجہ سے
- مقابلے یا امتحانات کے دباؤ میں
- احساس کمتری کی وجہ سے
- جب کوئی بات بری لگے
- جب بچوں کی غلطیوں پر ان کی تذلیل کی جائے یا انھیں تذلیل کا احساس ہو
- والدین کے آپسی تناؤ اور رشتے داروں اور قرابت داروں میں تناؤ کی وجہ سے
- اسکول میں اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے طلبہ و طالبات کے تکلیف دہ رویوں کی وجہ سے
- دوستوں سے جھگڑا ہوجانے پر
- پیدائشی طور پر بچوں میں کوئی خامی ہو
- چھوٹے بچوں میں دماغ کی نشوونما کے دوران کئی طرح کے جذبات ابھرتے رہتے ہیں اس لیے بھی وہ چڑچڑے ہوسکتے ہیں۔
- جب بچے اپنی بات کا اظہار نہیں کرتے پاتے تو بے بسی غصے میں بدل جاتی ہے۔
- اس کے علاوہ بھی بعض عوارض کی وجہ سے غصہ آسکتا ہے۔
کچھ وجوہات ایسی ہیں جن سے غصہ آتا ہے لیکن اس کی شدت کم اور مدت مختصر ہوتی ہے لیکن کچھ وجوہات ایسی ہیں جن سے طویل مدت تک غصہ سوار رہتا ہے اور اگر یہ غصہ اندر ہی کہیں دب جائے تو ایک مدت کے بعد یہ زیادہ خطرناک صورت میں باہر نکلتا ہے۔
(ب) انسان کو غصہ کیسے آتا ہے؟
غصہ آنے کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ بلاوجہ غصہ نہیں آتا۔ غصہ آنا بالکل فطری عمل ہے۔ جس طرح آپ گرم چائے کی پیالی کو چھوتے ہی فوراً ہاتھ ہٹا دیتے ہیں کیوں کہ جلد سے دماغ تک اطلاع پہنچ جاتی ہے اور دماغ سے وہ ہارمون خارج ہوتے ہیں جن کی وجہ سے احتیاطی ردعمل ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح غصہ کی بھی کوئی بھی وجہ وجود میں آتی ہے تو ایسے ہارمون خارج ہوتے ہیں جن سے غصہ آتا ہے۔ یہ ایک کیمیائی اور طبعی عمل ہے۔ وجہ ہوگی تو غصہ آنا طے ہے۔ قدرت نے یہ جذبہ انسان کو اس لیے دیا ہے کہ اگر کوئی چیز فطرت کے خلاف ہو یا غلط ہو تو انسان کو اس کی اطلاع ہو۔ غصہ ایک سگنل کی طرح ہے جو کسی غلط واقعہ کی نشان دہی کرتا ہے۔
غصہ آنا کیسا ہے؟ اچھا ہے یا برا ہے؟
اگر کہیں معصوموں کا قتل عام ہورہا ہو تو اسے دیکھ کر قاتلوں کے خلاف غصہ آنا اچھی بات ہے۔
غصہ میں بھڑک کر توڑ پھوڑ کرنا، اپنی زبان اور جسم کے دیگر اعضا سے بے قصور افراد کو تکلیف پہچانا بری بات ہے۔
غصہ ایک ایسا جذبہ ہے کہ جسے یکسر برا کہنا درست نہیں ہیں کیوں کہ غصے سے خیر کی راہیں بھی کھل سکتی ہیں اور شر کی راہیں بھی کھل سکتی ہیں۔
والدین کو کیا کرنا ہے؟
والدین جب اپنے بچے کی ضد اور چڑچڑے پن سے تنگ آجاتے ہیں تو ان کے سامنے بس یہی مقصد رہ جاتا ہے کہ کسی طرح وہ اپنے بچے کے غصہ کو ہی ختم کردیں۔ والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جس طرح وہ اپنے بچے کا خوش ہونا، ہنسنا، کھلکھلانا نہیں روک سکتے اسی طرح وہ اپنے بچے کا غصہ ختم نہیں کرسکتے۔
شیڈو تھیراپی، جسے شیڈو ورک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک قسم کی سائیکو تھراپی ہے جو نفسیات کے ان حصوں کو سمجھنے پر مرکوز ہے جسے عموماً لوگ اکثر دبا دیتے ہیں یا انکار کرتے ہیں۔ جیسے صدمہ، گھبراہٹ، کسی عمل سے ناپسندیدگی یا کسی انسان سے شدید ناراضی۔ کارل یونگ ایک بہت بڑے ماہر نفسیات گزرے ہیں جنھوں نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح شعور اور تحت الشعور میں انسانی طبیعت کے بہت سے راز پنہاں ہوتے ہیں جن میں سے بعض سے انسان واقف ہوتا ہے اور بعض انسان کو بالکل ہی معلوم نہیں ہوتے۔ اپنے وجود سے باخبر ہونا اور اپنے متعلق بے دار ہونا انسان کی شخصیت کو قوی کرتا ہے۔ انسان کی فطرت کے وہ پہلو جن سے انسان بے خبر رہتا ہے کارل یونگ نے انھیں شیڈو (سایہ) کا نام دیا ہے۔ ان میں زیادہ تر منفی خصلتوں کا تذکرہ ہے کیوں کہ انسان بچپن سے یہی سیکھتا ہے کہ اسے اپنی کسی مخصوص خصلت کا خاتمہ کرنا ہے، اب انسان پیدا تو اسی خصلت کے ساتھ ہوا ہے اس لیے اس خصلت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھڑنا ممکن نہیں، تب یہ خصلتیں تحت الشعور کا حصہ بن جاتی ہیں۔ انسان اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ اپنی فطرت پر قابو رکھتا ہے لیکن یہ سب قیاس آرائیاں ہیں حقیقت میں وہ خصلت انسان کے اندر میں پنہاں ہوتی ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ اس شیڈو (سایہ ) میں صرف بری خصلتیں ہی ہوتی ہیں بعض مرتبہ کسی انسان کی اچھائیوں کو بھی اتنا دبا دیا جاتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ کوئی ایسی خوبی بھی اس کے وجود میں پوشیدہ تھی۔
مثالیں:
اگر کوئی لڑکی نڈر و بے باک پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کا خاندان اس سے سرنگوئی چاہتا ہے، تاکہ وہ خاندان کے لیے بہتر فرد بنے۔ غرض وہ اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے لیے اپنی اس طبیعت کو دبانا شروع کرتی ہے۔ اسے تکلیف تو ہوتی ہے کیوں کہ وہ فطرت کے خلاف ایسا کرتی ہے لیکن پھر دھیرے دھیرے اپنی بے باکی اور دلیری سے وہ خود بھی نا آشنا ہوجاتی ہے۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ وہ لڑکی نڈر و بے باک ہوتے ہوئے بھی خاندان کا ایک اچھا فرد ہوسکتی تھی، اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا اس کی اچھائی سلب نہیں کرتا۔ لیکن اسے یہی معلوم ہے کہ اس کی یہ خصلت اسے برا بناتی ہے اور وہ اپنی ایک اچھی خصلت کھوبیٹھتی ہے۔
اگر کسی بچے کو بہت غصہ آتا ہو اور اس کا خاندان غصہ کے اظہار کے خلاف ہو تو وہ بچہ اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے لیے اپنے غصہ کو دبانا شروع کردیتا ہے۔ اسے تکلیف تو ہوتی ہے لیکن وہ شرمندگی سے بچنے کے لیے کسی طریقے سے کام یاب ہوجاتا ہے۔ ایسے افراد کبھی ‘‘نہ”نہیں کہہ پاتے۔ وہ ظلم و زبردستی پر احتجاج نہیں کرپاتے اور ہوسکتا ہے کہ وہ ظالموں کو تعاون کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ غصہ ان کو ناقابل قبول بناتا ہے۔ اس لیے وہ ہر کسی سے شیریں گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ دبا غصہ ایسے رشتوں اور ایسے موڑ پر امنڈتا ہے جہاں غصے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور اس وقت وہ اپنا اور دوسروں کا بڑا نقصان کربیٹھتے ہیں۔
والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر بچہ فطرت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ وہ سچا اور معصوم ہوتا ہے۔ اس لیے بچے کی خصلتوں کو دبانے کے بجائے انھیں صحیح سمت دینی چاہیے۔ بچہ جن خصلتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے وہ اس کی اپنی شناخت ہیں۔ اس کے وجود کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ وہ دبانے سے کہیں نہیں جاتیں بلکہ اس کے تحت الشعور میں رہ جاتی ہیں۔ اسی لیے انسان لاشعوری طور پر بہت سی حماقتیں کر بیٹھتا ہے، ایسے بہت سے جذبات ہیں جو ڈھکے چھپے وجود میں ہوتے ہیں اور اچانک کبھی بھی ابھر جاتے ہیں اور انسان کو بے حد کم زور کردیتے ہیں کیوں کہ انسان ان سے لاعلم رہنے کی وجہ سے یہ جانتا نہیں کہ ان کے ساتھ کیسے تعامل کرنا ہے۔ ایسا سب سے زیادہ غصہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ بچہ غصے کو دبا دبا کر بڑا ہوتا ہے۔ غصہ کہیں نہیں جاتا اور دماغ کے کیمیائی عمل سے جب یہ ابھرتا ہے تب انسان کو غصہ کی حالت میں خود کو سنبھالنا نہیں آتا۔
غصہ کا علاج
اپنے بچے کو اس کی تمام خصلتوں کے ساتھ قبول کرنا ہوگا۔ اگر بچے کی طبیعت میں غصہ ہو تو اسے صحیح سمت دیجیے۔ اسے جڑ سے ختم کرنے کے لیے اپنا اور اپنے بچے کا وقت اور توانائی ضائع مت کیجیے۔
والدین میں سے اگر کسی ایک کو یا دونوں کو غصہ بہت آتا ہو تو اپنے غصے پر قابو پانے کی تدابیر کریں۔ بچے کو والدین سے غصہ وراثت میں تو ملے گا لیکن وہ غصہ کو قابو میں رکھنا بھی والدین کو دیکھ کر سیکھ لے گا۔ اس لیے اپنے بچوں کے سامنے عملی طور پر غصہ کنٹرول کرکے غصہ کنٹرول کرنا سکھائیں۔
ورزش کرنا ۔ تناؤ کو کم کرنے کے لیے ورزش کرنا صحت مند ہے۔ چلنا، سیڑھیاں چڑھنا اترنا اور ساتھ ہی گنتی گننا چڑچڑے پن کو کم کرتا ہے۔ جن بچوں کو غصہ آتا ہے انھیں فطرت کی چہل قدمی(nature walk) پر لے جائیں۔ کسی باغیچے کی سیر کرائیں یا ایسی جگہ ٹہلنے جائیں جہاں ہریالی ہو۔
تناؤ کے وقت میں گہری سانس لینا اور چھوڑنا سکھائیں۔ غصہ کو کم کرنے کے لیے مختلف ورزشیں ہیں۔ بچوں کو ان کی عمر کی مناسبت سے مفید ورزشیں سکھائیں۔
پانی آگ کو بجھاتا ہے
غصہ آگ ہے اور اسے بجھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے۔ اپنے بچوں کو کم عمری سے ہی مناسب مقدار میں پانی پینے کی عادت ڈالیں۔ پانی کی وجہ سے جذبات میں شدت سے ابال نہیں آتا ہے۔ باشعور بچوں کو باوضو رہنے کی عادت ڈالیں۔ وضو انسان کو جسمانی اور روحانی ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور شیطانی وسوسوں سے کسی حد تک بچاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق جن افراد کو غصہ بہت آتا ہے انھیں روزانہ نہانا چاہیے۔ نہانے سے انسان تازگی محسوس کرتا ہے جو اسے غصہ کی حالت میں بھڑکنے سے کافی حد تک روکتی ہے۔
صفائی کی عادت
روزانہ نہانے اور صاف رہنے کی عادت سے منفی توانائی اور منفی جذبات پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ حفظانِ صحت براہ راست تو نہیں لیکن بالواسطہ غصہ اور تناؤ کو کم کرنے میں معاون ہے۔ خود پر توجہ دینے اور صاف ستھرا رہنے کی وجہ سے مثبت توانائی کا بہاؤ ہوتا ہے اور منفی جذبات جیسے چڑچڑاپن، تنک مزاجی اور غصہ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
بچوں کو اپنا کمرا، الماری اور بیگ بھی صاف کرنے کی عادت ڈالیں۔ جس طرح کچھ چیزوں کے استعمال سے مثبت رویوں کو فروغ ملتا ہے ویسے ہی کچھ ٹوٹی پھوٹی اور پرانی چیزوں سے منفی توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ گھر میں ایسی اشیا کا انتظام رکھیں جو گھر میں مثبت توانائی کا بہاؤ قائم کریں۔
بچوں کو آپ کے لمس کی ضرورت ہے۔
جب بچہ غصہ کرنا یا ضد کرنا شروع کرتا ہے تو اکثر والدین خود غضب ناک ہوکر اس کے غصے کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود غصہ کرکے بچوں کو غصہ کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے۔ بچوں کو گلے لگانے سے انھیں تحفظ کا احساس ملتا ہے۔ غصے کو غصے سے ٹھنڈا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ غصہ کو شگفتگی اور پیار سے ضرور ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے۔ روزانہ اپنے بچوں کو گلے لگانے اور انھیں بوسہ دینے کا معمول بنائیں۔ اس سے بچوں میں اعتماد اور خوش مزاجی بڑھتی ہے اور ان کے منفی جذبات ماند پڑتے ہیں۔
غصہ کی وجوہات
بچہ اگر چھ سات برس کا ہو یا اس سے چھوٹا تو اس کی طبیعت کا مشاہدہ کرکے اس کے غصے کی وجوہات کی فہرست بنائیں۔ اس فہرست میں جتنی وجوہات درج ہیں ان کا حل تلاش کریں اور نوٹ کریں۔ جب بچے کو غصہ آئے تو والدین مل کر اس کے غصے سے نمٹنے کی مناسب تدبیر کریں۔
اگر بچہ آٹھ برس سے دس برس کا ہو تو ان بچوں کو اپنی تیار کی ہوئی فہرست بتائیے اور نمٹنے کی تدبیریں بھی بتائیے۔ بچوں کے جذبات کی رعایت کرتے ہوئے دوستانہ انداز میں ان کے سامنے بہترین حل پیش کریں۔
اگر بچے کی عمر دس برس سے زیادہ ہو تو آپ بچے کے ساتھ بیٹھ کر فہرست تیار کریں اور نمٹنے کی تدبیریں بھی بچے کے ساتھ مل کر نوٹ کریں۔ بچے کو اس بات کا احساس دلائیں کہ وہ اور آپ ایک ٹیم ہیں اور دونوں مل کر غصہ پر قابو پانے کی کوششیں کریں گے۔
بچوں کو آپ کی شمولیت (involvement)کی ضرورت ہے، ان کے مسائل ان پر مت چھوڑیں بلکہ ان کے کوچ اور دوست بن کر ان کا ساتھ دیں۔
غصہ کو تخلیقی سمت دینا
غصہ کی توانائی کو تخلیقی صلاحیت میں ڈھالنے کے لیے آرٹ تھیراپی کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آرٹ تھیراپی کے ذریعے بچے اپنے غصہ کو ڈرائینگ میں اور مختلف رنگوں میں ظاہر کرسکتے ہیں۔ تناؤ کو کم کرنے کے لیے بازار میں ڈرائنگ کرنے اور رنگ بھرنے کے لیے ایسی کتابیں موجود ہیں جن سے غصہ، تناؤ اور اضطرابی کیفیت میں کچھ سدھار آتا ہے اور فوکس بھی بڑھتا ہے۔
کرافٹ ورک بھی غصہ اور چڑچڑے پن کو کم کرنے میں مددگار ہے۔ دیواروں پر لٹکانے کے لیے ایسا دل کش کرافٹ تیار کرنا جو غصہ پر قابو پانے کی ترغیب دیتا ہو، میز پر ایسی خوب صورت چیزیں بنا کر رکھنا جو تناؤ کے وقت میں یادہانی کا کام دیں، ہاتھ میں پہننے یا کھیلنے کے لیے ایسی چیزیں تیار کرنا جو مثبت توانائی دیتی ہوں۔ اینگر کولاج آرٹ (anger collage art)تیار کرنا، مختلف جذبات پر منحصر ایموشن ماسک (emotion Mask)تیار کرنا، تناؤ کو کم کرنے کے لیے ربر کرافٹ، سلائم، کلے جیسی چیزیں غصے کو تخلیقی روپ دیتی ہے۔
آج کل غصہ کو نکالنے کے لیےریج روم (rage room)کا تصور معروف ہورہا ہے۔ ریج روم ایک ایسا کمرا ہوتا ہے جہاں انسان تحفظ کے دائروں میں اپنا غصہ توڑ پھوڑ کرکے نکالتا ہے۔ یہ تصور ماہرین نفسیات کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے کیوں کہ توڑ پھوڑ کرنے سے غصہ کم ہوگا یا ختم ہوگا اس کی کوئی ضمانت نہیں بلکہ ان سرگرمیوں سے غصہ بڑھ بھی سکتا ہے۔ البتہ Destroy Art غصہ کو کم کرنے کا آسان اور مفید طریقہ ہے۔ بچے کو ایک صفحہ پر اپنے جذبات کی عکاسی کرتی ایک تصویر بنانی ہوگی، تصویر میں غصہ کا اظہار ضروری ہے پھر اس تصویر کو پھاڑنا ہوگا۔ یہ ایک تناؤ کو کم کرنے کے لیے سادہ سی مشق ہے جس میں کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
مارچ کے مہینے میں مغربی سوئزرلینڈ کے شہر نوشیٹل کی انتظامیہ اور ڈاکٹروں کی ٹیم نے ایک پائلٹ پروگرام متعارف کرایا۔ یہ پروگرام ذہنی مسائل سے دوچار افراد اور جسمانی درد و تکلیف میں مبتلا مریضوں کے لیے ہیں۔ انھیں میوزیم اور آرٹ گیلریوں کی سیر کے نسخے ڈاکٹر کی جانب سے دیے جاتے ہیں۔ مریضوں نے نسخہ حاصل کرنے اور آرٹ میوزیم کی سیر کرنے کے بعد اپنا خوشگوار تجربات بھی درج کیے ہیں۔
بچوں میں شدید جذبات کو پہچاننے اور ان کے اظہار کی قوت کو بہتر اور پختہ کرنے کے لیے تحریری صلاحیتوں کو آزمایا جاسکتا ہے۔ ان کو ایک ڈائری دی جاسکتی ہے جس میں وہ اپنے احساسات اور اپنے ساتھ ہوئے واقعات لکھ سکتے ہیں۔ بلکہ والدین بچوں کو ان واقعات کو کہانی میں ڈھالنا سکھا سکتے ہیں۔
ڈرامہ اور ایکٹنگ
غصہ کا اظہار ڈرامے میں کسی کردار کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ڈرامے کے ذریعے یہ ترغیب دی جاسکتی ہے کہ سماج میں ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف کیسے غصہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جن بچوں کو غصہ آتا ہے انھیں اس طرح کے ڈراموں میں حصہ لینے پر ابھاریں جہاں کسی اعلی مقصد کے لیے کام کرنے والے کردار کے ذریعے ان کے غصہ کو بہتر سمت ملے۔
AAT Animal Assisted Therapy
ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ بچوں کا جانوروں کو دیکھنا، ان کے ساتھ کھیلنا، انھیں کھانا کھلانا بچوں میں غصہ، چڑچڑاپن اور تناؤ کو کم کرتا ہے۔ اس تھیراپی میں مخصوص جانوروں کا استعمال ہوتا ہے اور ان جانوروں کی مکمل تربیت کی جاتی ہے۔ صرف وہی بچے جانوروں کے پاس جاسکتے ہیں جو جانورں سے ڈرتے نہیں ہیں اور جو ان کو چوٹ نہیں پہنچا سکتے۔ اس تھیراپی کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں اور سارے سیشن بالترتیب انھی مقاصد کے تحت چلتے ہیں۔ اسی تھیراپی کو مدنظر رکھتے ہوئے والدین بچوں کے لیے گھر میں پالتو جانوروں کا انتظام کرسکتے ہیں۔ جانور کا لمس اور قربت بچوں میں گھبراہٹ اور غصہ کو کم کرتا ہے اور مثبت توانائی اور ذہانت کو بڑھاتا ہے۔
تھیراپسٹ اور کونسلنگ
کچھ بچے بہت غصہ ور ہوتے ہیں۔ وہ چیزیں توڑتے ہیں، سر پٹختے ہیں، زور سے چیختے ہیں، اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں، نہ بات مانتے ہیں نہ سزاؤں سے ڈرتے ہیں، ساری تدبیریں اور ترکیبیں ان کے غصہ کے سامنے ناکام ہوجاتی ہیں، ایسے بچوں کو پروفیشنل چائیلڈ سائیکولوجسٹ، کونسلر، تھیراپسٹ کے پاس لے جائیں۔ یہ ماہرین بچوں کو غصے پر قابو پانے کی خاطر ٹرینگ دیتے ہیں اور حسب ضرورت ان کے والدین کو بھی تدابیر سکھاتے ہیں۔
صبر کریں
بچے کی فطرت میں شدید غصہ ہوتو والدین کے لیے صبر وتحمل اشد ضروری ہوجاتا ہے۔ بچے کو سیکھنے کا وقت دیں۔ ضروری نہیں ہے کہ جب بچہ غصہ کرنے لگے اسی وقت اسے سمجھایا جائے بلکہ والدین کو چاہیے کہ بچے کو اس وقت سمجھایا جائے جب وہ سننے کے لیے آمادہ ہو۔ بچے میں آہستہ آہستہ تبدیلی آئے گی ان تبدیلیوں پر اللہ کا شکر کریں اور بچے سے ان تبدیلیوں کا تذکرہ کریں اور اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں۔
دعا کریں
اپنے بچوں کے لیے توکل اور یقین کے ساتھ خوب دعائیں کریں۔ مخصوص قرآنی آیات کی تلاوت بچوں کے سامنے کیا کریں اور انھیں بھی یاد کرائیں۔ اس سے بچے اللہ سے قریب ہوں گے اور شیطانی وسوسوں سے بچوں کی حفاظت ہوگی۔
مشمولہ: شمارہ جون 2025