جنسیت اور جدید جنسی بیانیہ +LGBTQ

سائنسی بیانیے کا تنقیدی جائزہ

عوام اور خواص میں +LGBTQ اور جنسیت کے جدید تصور کو قبول عام دلوانے اور اس طرح کے تصورات کے سلسلے میں اخلاقی بے حسی کو پیدا کرنے میں سائنسی تحقیقات اور ان تحقیقات پر مبنی سائنٹزم والے بیانیے نے غیر معمولی رول ادا کیا ہے۔ جنسیت اور اس پر تحقیق نے جب تجربہ گاہوں سے نکل کر عوامی شعور میں جگہ بنانی شروع کی تو فطری طور پر بہت سے نتائج، جو اضافی تھے، مستند سمجھ لیے گئے۔ جو نامکمل تھے، انھیں مکمل مان لیا گیا۔ جو مزید تصدیق (validation)کے متقاضی تھے، انھیں حرف آخر سمجھ لیا گیا۔ اور یوں وہ تمام نقائص جو تجربہ گاہ کے نتائج سے عوامی شعور تک ابلاغ عامہ یا میڈیا کے ذریعے پہنچے ہیں وہ +LGBTQ ڈسکورس کے سلسلے میں بھی در آئے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ عوام میں اس ضمن میں ہونے والی تحقیقات پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرنے کا رجحان پیدا ہوگیا، جس کے بڑے دور رس نتائج پیدا ہوئے جنھوں نے اس حوالے سے ہونے والی تحقیقی کاوشوں پر بھی اثر ڈالا۔ عوام میں سائنسی شعور کی سطح پیدا کرنا یا بلند کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ در اصل یہ ذمہ داری ان اداروں اور افراد پر عائد ہوتی ہے جو سائنسی تحقیق کے نتائج کو عوام تک پہنچاتے ہیں۔ یعنی پاپولر سائنس کے لکھنے والے اور سائنسی صحافت سے وابستہ افراد۔ لیکن واقعتًا ہوتا یہ ہے کہ ان افراد اور اداروں کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے یا یہ کسی نہ کسی ایجنڈے کے تابع ہوتے ہیں۔ چناں چہ وہ اس طرح کی پیچیدہ تحقیقات کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس کی خاطر بہت سے ہتھکنڈے اپناتے ہیں۔

+LGBTQکے ضمن میں بھی بالکل یہی ہوا۔ چارلس سی کنسے نے جب 1948 اور اس کے بعد 1953 میں اپنی تحقیق کے نتائج پیش کیے تو امریکہ اور یورپ کے بیش تر محققین نے اسے لپک لیا۔

چوں کہ ان تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات تھے اس لیے اس وقت کے میڈیا نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس میدان میں کام کرنے والے محققین کے لیے تحقیقی فنڈ کا حصول بہت آسان ہوگیا۔ تحقیقی جرائد میں مقالوں کی قبولیت دیگر میدانوں کے مقابلے میں آسان ہوگئی۔ اور ایک طرح کا تحقیقی ایکو سسٹم تشکیل پاگیا جس میں جنسیت پر آسان فنڈنگ، آسان اشاعت اور آسان قبولیت اور اس سے مزید فنڈنگ کے حصول کا سلسلہ چل نکلا۔ سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ چارلس سی کنسے کی تحقیق کا 60 فی صد حصہ کبھی دہرایا ( (replicateنہیں جاسکا اس کے باوجود اس کے ذریعے دی گئی جنسیت کے اسکیل اور جنسیت کے بنیادی مفروضوں پر دیگر محققین نے بہت تیزی سے کام کو آگے بڑھایا۔ ہمارے نزدیک اس کی بڑی وجوہ وہی ہیں جو اس سے پہلے بیان کی جاچکی ہیں۔ تاہم اس کے علاوہ، خالص عملی سطح پر، جس رجحان نے سب سے اہم رول ادا کیا وہ ایک آزاد جنسی معاشرے کی اجتماعی خواہش تھی، جو یورپ زدہ جدیدیت (Eurocentric modernity)کی سب سے اہم خاصیتوں میں سے ایک تھی اور اس خواہش کی آب یاری اور اس کا پورا ہونا اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک کہ مذہب کے ذریعے دی گئی جنسی دوئی (sexual binary)کے تصور کو مکمل طور پر مسخ نہ کر دیا جائے۔ چناں چہ تحقیقات کے مالی ادارے اور ان پر قابض اشرافیہ نے اس طرح کی تحقیقات کے لیے دل کھول کر فنڈ فراہم کیے۔ محققین نے بھی اس بات کو یقینی بنایا کہ تحقیقات کے انھی نتائج کو پیش کیا جائے جو پہلے سے تسلیم شدہ نتائج کے ارد گرد گھومتے ہوں۔ چناں چہ ایک لمبے عرصے تک جنسیت پر تحقیق کنسے کے مشاہدات پر ہی آگے بڑھتی رہی۔ کچھ کمی بیشی کے ساتھ بعض نام اور بھی اس افق پر ابھرے، لیکن ان کا اثر بہت زیادہ نہیں رہا۔ البتہ اب یہ صورتِ حال تبدیل ہو رہی ہے۔

تقریباً ستر برسوں میں جنسیت اور اس پر ہونے والی تحقیق نے اس میدان میں جو بیانیہ تخلیق کیا ہے، اس کا خلاصہ درج ذیل نکات کے تحت کیا جا سکتا ہے:

  1. جنسیت، جنسی رخ، جنسی انحرافات، ان تمام پر نیچری طرز تحقیق (naturalistic methodology) کا استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ کارگر اور کافی ہے۔
  2. کنسے اسکیل ایک بھروسےمند اسکیل ہے۔
  3. جنسیت اور جنسی رویے اپنے اندر جنسی سیالیت (sexual fluidity) رکھتے ہیں۔
  4. جنسیت اور جنسی انحرافات ہارمون اور رحم مادر کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔
  5. جنسیت اور جنسی انحرافات میں جینی جبریت (genetic determinism) کا ایک حصہ موجود ہوتا ہے۔
  6. حیوانوں اور انسانوں میں جنسیت کے اعتبار سے صرف پیچیدگی کا فرق ہے۔ یعنی جنسی نظام بہرحال ایک ہی ہے۔
  7. جنسی رخ کو کسی تھیراپی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں ہونے والی تحقیقات اس مفروضے کو مزید تقویت پہنچا رہی ہیں۔

اوپر دیے گئے بیانیے کے ہر نکتے کا مابعد تحلیلی (meta-analysis)مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ طریقہ تحقیق ہے جس میں کسی خاص نکتے پر موجود تمام تر سائنسی تحقیقات کو جمع کیا جاتا ہے اور پھر ان کی درجہ بندی مختلف پہلوؤں سے کی جاتی ہے، مثلاً نمونہ (sample)کی تعداد، شماریات کا استعمال، شمولیت (inclusion) اور عدم شمولیت (exclusion)کی بنیادیں، استنباط اور استخراج کا طریقہ، قیاس کی صحت وغیرہ۔ اور ان تمام تحقیقاتی مقالوں کو شماریات کے بعض ماڈل کے تحت اوپر دیے گئے پہلوؤں پر پرکھا جاتا ہے یا ان کی صحت اور ثقاہت کا اندازہ کیا جاتا ہے۔

اور اسی طرح کسی موضوع پر موجود جو سائنسی بیانیہ شہرت پا چکا ہے اس پر بحث و تنقید کی جا سکتی ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس بیانیے کی صحت پر بھی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔

+LGBTQکے بیانیے کے تحت جن سائنسی توجیہات کا سہارا لیا جاتا ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جنسیت کے بیانیے کے لیے جو کچھ بطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے، ضروری ہے کہ اسے میٹا انالیسس اور دیگر صحت و ثقاہت کے معروف ضابطوں سے گزارا جائے، تاکہ سائنس اور غیر سائنس کو علیحدہ کیا جا سکے۔ عام طور پر یہ کام بڑی پتہ ماری کا ہے اور اس کا بہت خاص فائدہ بھی نہیں ہے، اس لیے محققین اس سے دور رہنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اور لگے بندھے راستے پر چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

جنسیت کے سائنسی بیانیے کے متعلق دیے گئے تمام نکات پر تفصیل سے کلام کی گنجائش اس مضمون کے حوالے سے ممکن نہیں، پھر بھی ان نکات پر کچھ اصولی باتیں عرض کی جاتی ہیں۔

۱۔ جنسیت، جنسی رخ، جنسی انحرافات پر نیچری طرز تحقیق (naturalistic methodology)کے ذریعے تحقیقی کام کیا جا سکتا ہے۔

نیچری طرز تحقیق کی تفصیل میں جانے کے بجائے اتنا سمجھنا کافی ہے کہ یہ طریقہ کار پوری سائنسی دنیا میں مقبول و معروف ہے۔ اور کسی اور طریقۂ کار کی غیر موجودگی میں یہی مناسب ہے۔ اس میں کسی بھی مظہر پر تحقیق کے لیے اس مظہر کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا جا سکتا ہے۔ اسے معروف زبان میں تخفیفیت(reductionism) کہا جاتا ہے۔ مثلًا انسان میں جنسیت، جنسی رخ اور جنسی انحرافات کے لیے فرد اور ماحول کو علیحدہ کرکے تحقیق کی جائے۔ پھر فرد اور ماحول دونوں کو ملا کر دیکھا جائے کہ کیا تصویر بن رہی ہے۔ لیکن اس میں بڑی مشکل یہ ہے کہ خود فرد اپنے اندر کئی اکائیاں رکھتا ہے۔فرد کے جین، فرد کا ماحول، فرد کے والدین کے جین—اب کتنی اکائیوں کو علیحدہ کیا جائے اور کب تک کیا جائے۔ اسی طرح ماحول اپنے اندر کئی اکائیاں رکھتا ہے، مثلاً فرد کے داخل کا ماحول، اس کی نفسیات، فرد کے خاندان کا ماحول، فرد جس سماج میں رہتا ہے اس کا ماحول—غرض ماحول بجائے خود اپنے اندر سیکڑوں اکائیاں سموئے ہوئے ہے۔

پھر ان تمام اکائیوں کا مطالعہ کر بھی لیا جائے تو ان تمام اکائیوں کے مطالعے سے حاصل شدہ نتائج کو کیسے مربوط اور منضبط کیا جائے؟ کن احتیاطوں کو ملحوظ رکھنا ہوگا؟ مزید یہ کہ ان سب کے بعد (یعنی اکائیوں کے مطالعہ کو ایک لڑی میں پرونے کے بعد بھی) ان نتائج کی صحت کو کیسے پرکھا جائے؟

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیچری طرز تحقیق تمام تر فضول ہے۔ نہیں، طبعی سائنسوں میں اس طریقۂ کار کی افادیت، اہمیت اور ہمہ گیریت مسلم ہے۔ لیکن سماجی سائنسیں اس اعتبار سے زیادہ پیچیدہ ہیں کہ وہ ہر آن بدل رہی ہیں۔ انسان، خاندان، سماج، ریاست اور نظام ہر وقت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور تبدیلی خطی (linear)نہیں ہوتی بلکہ جالدار(web) اور دوسرے طریقۂ ارتقا کو اپناتی ہے۔

اس کے بر عکس حیات اپنی تمام تر پیچیدگی کے باوجود تبدیلی کے کچھ خاص منہج ہی اپنے اندر رکھتی ہے۔ چناں چہ خلوی پیچیدگی ہو یا خلوی ارتقا، دونوں کی اپنی حدیں ہیں۔

اس لیے سماجی سائنسوں میں بطور خاص جنسیت پر تحقیق میں استعمال کیے جانے والے سارے آلات جیسے جائزہ (سروے)، انٹرویو اور دیگر ذرائع اپنے اندر ایک خاص سطح کی اضافیت لیے ہوئے ہیں۔ مثلاً درج ذیل نکات ملاحظہ ہوں:

  1. کسی ایک جغرافیائی خطہ میں رہنے اور بسنے والے افراد کا مجموعہ (سماج) بالکل جداگانہ تہذیبی اور تمدنی شعار اور مظاہر رکھتا ہے۔ جو مفروضہ اس سماج کے لیے درست ہے وہ مفروضہ کسی اور جغرافیائی خطے میں رہنے اور بسنے والے افراد کے مجموعے کے لیے کبھی یکسر غلط ہوجاتا ہے۔
  2. کسی سماج میں جنسیت کے تصورات کسی دوسرے سماج میں جنسیت کے تصورات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً بہت سارے افریقی قبائلی تصورات و رواج دیکھیے۔ افریقی ملک نمیبیا (Namibia) میں اووا ہمبا (Ova Himba) قبائل میں دوستوں اور عم زادوں (cousins) سے جنسی تعلقات سے متعلق رواج اور تصورات۔[1]

یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عام دنیا (mainland) اور قبائلی خطوں کی بود و باش میں کوئی تقابل نہیں اور تہذیبوں کے ارتقا کے دوران یہ قبائل ارتقا نہیں کر سکے۔ لیکن اس دلیل کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ بجائے خود اس بات پر دال ہے کہ جنسیت یا اس قبیل کے دیگر پیچیدہ سماجی مظاہر پر تحقیق کی عموم کاری (extrapolate) نہیں کی جاسکتی. اس میں مقام گیریت (localization) بہر حال ہوتی ہے۔

مثلاً اگر امریکہ کے فلوریڈا اسٹیٹ میں رہنے والے افراد کے سروے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان سب میں 10 فی صد افراد مرد ہم جنسیت میں مبتلا ہیں تو اس کا مطلب بھارت کے صوبہ اترپردیش میں بھی 10 فی صد افراد ہم جنسیت میں مبتلا ہوں، نہیں ہو سکتا۔ یعنی نتائج کو عموم نہیں دیا جاسکتا۔ تا وقتیکہ یہ سروے اتر پردیش میں اپنی تمام تر سائنسی صحت کے ساتھ انجام نہ دیا جائے۔ لیکن طبعی سائنس کی بات الگ ہے۔

مثلاً طبعی سائنس میں ایک امریکی کا خلیہ اور بھارتی کا خلیہ دونوں سالماتی سطح پر ایک ہیں، بہ استثنا بہت تھوڑے سے جینوں کے اظہار (expression)میں تبدیلی کے۔ لیکن امریکی جنسیت اور بھارتی جنسیت میں کئی پہلوؤں سے، کئی زاویوں سے اور کئی سطحوں سے فرق ہوسکتا ہے اور ہے۔ ان اس فرق کو ملحوظ رکھے بغیر کسی خاص امریکی ریاست میں جنسیت پر ہونے والی تحقیق کے نتائج کو بھارت کے کسی صوبے یا پورے بھارت پر چسپاں کر دیا جائے تو یہ سائنسی زیادتی اور اخلاقی بد دیانتی ہی کہی جائے گی۔ البتہ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس طرح کی بد دیانتی کے مرتکب سماجی سائنس داں کم اور سماجی سائنسی تحقیقات کی رپورٹ کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔

مزید، جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ تحقیق جب تحقیقی مقالوں سے نکل کر پاپولر سائنس کے ذریعے عوام تک پہنچتی ہے تو بات کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے۔

کنسے اسکیل برائے تحقیقات جنسیت کا سائنسی نقص

کنسے اسکیل جنسیت اور +LGBTQکے سائنسی بیانیے کا مرکزی محور کہا جا سکتا ہے۔ اس اسکیل کا سادہ مطلب درج ذیل نکات کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے:

  1. یہ اسکیل کسی فرد کے صنفی رخ کو بیان کرتا ہے۔
  2. انسانی جنسیت مجرد نہیں ہے، بلکہ یہ ایک خطی سلسلے (continuum)میں ہوتی ہے۔
  3. انسانی جنسیت کے اس خطی سلسلے کے ایک سرے پر وہ افراد رکھے جا سکتے ہیں جو مجرد مرد ہم جنس پرست ہوتے ہیں اور دوسرے سرے پر وہ جو غیر مرد ہم جنس پرست ہوتے ہیں اور درمیان میں ہر قسم کی جنسیت کو پسند کرنے والے افراد ہیں۔ جن میں دونوں صنف مرد و عورت کی طرف جنسی کشش رکھنے والے شامل ہیں۔
  4. یہ اسکیل مردوں اور عورتوں دونوں کی جنسیت کے لیے یکساں ہے۔
  5. کنسے اسکیل جنسیت کے لیے استعمال کی جانے والی سب سے مقبول و معروف ترین اسکیل رہا ہے۔ اس کو بنیاد بنا کو +LGBTQنے اپنے سائنسی بیانیے کو تقویت پہنچائی اور دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ کنسے اسکیل کے ذریعے سے ثابت ہوتا ہے کہ افراد کی جنسیت محض دو ہی سِروں سے عبارت نہیں بلکہ انسانوں میں ہر قسم کا صنفی رخ رکھنے والے افراد پائے جاتے ہیں۔ لیکن بڑی چالاکی سے یہ بیانیہ اس بات کو چھپادیتا ہے کہ ’کتنے فی صد؟‘۔ کیوں کہ ایسے افراد کا فی صد بہت اہم ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ 1973 میں جب امریکی انجمن برائے نفسیات (American Psychological Association)نے اسے بیماری کے درجے سے نکال کر ایک عام جنسی رجحان کہا تو انھوں نے بات کنسے کی تحقیقات اور اس کے اسکیل سے شروع کی۔ گو کہ اس میں اور بھی حوالے دیے گئے، لیکن سب سے بنیادی حوالہ کنسے کا ہی تھا۔ انھوں نے کہا کہ چوں کہ 10 فی صد امریکی اسی طرح کا خطی جنسی میلان رکھتے ہیں، اس لیے یہ ایک عام بات ہے۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ تب تک (یعنی ۱۹۷۳ء تک) بھی کنسے کی تحقیقات کو بطور خاص پھیلاؤ (prevalence)کی تصدیق (validation)دوسرے مطالعہ جات نہیں کر پائے تھے۔

اب بھی خالص سائنسی بنیادوں پر اس بات کا جواب دینا مشکل ہے کہ اے پی اے نے یہ فیصلہ کن سائنسی بنیادوں پر کیا تھا۔ واضح ہو کہ یہاں اس بات پر بحث نہیں ہے کہ فیصلہ صحیح تھا یا غلط یا ہونا چاہیے تھا یا نہیں، بلکہ خالص سائنسی بنیادوں کی بات ہے۔ جو حوالے اے پی اے نے دیے ہیں، ان کا کافی جواب دیا جا چکا ہے۔ واضح ہو کہ یہاں سماجی حالات یا مختلف جنسی رجحان رکھنے کی وجہ سے افراد کو ہونے والے سماجی صدمے (trauma)پر بحث نہیں ہے۔ یہ بالکل قابلِ قبول ہے کہ ایسا ہو رہا تھا، لیکن ہم جنسیت اور جنسی انحرافی رجحان کو بیماری کی صنف سے نکال کر عام رجحان بتانے کے لیے اے پی اے نے جن سائنسی بنیادوں کا سہارا لیا وہ ڈھے چکی ہیں۔ بے شک اس کے بعد بہت ساری جدید تحقیقات ہوئیں، لیکن یہاں تو سوال ۱۹۷۳تک کی تحقیقات اور ان کے نتائج کا ہے! کیوں کہ ان سائنسی تحقیقات کو ایک اہم مسئلے کے جواز (justification)کے طور پر استعمال کیا گیا جو یا تو اضافی تھیں یا ادھوری یا پھر غیر فیصلہ کن (inconclusive)۔

واضح رہے کہ ان تمام تحقیقات میں کنسے کے اسکیل کا استعمال کیا جاتا تھا۔ کنسے تحقیقات کی کئی خامیاں ہیں لیکن وہ خامیاں بھی جنسیت کے ایک خاص تصور کو ذہن میں رکھ کر بیان کی جاتی ہیں۔ ان خامیوں کا تذکرہ ہم یہاں نہیں کریں گے۔ بلکہ یہاں ہم خالص جنسیت کے میدان میں کام کرنے والے دو بڑے ناموں کے ذریعے ایک سائنسی خط کتابت کا تذکرہ کرنا چاہیں گے۔ جنھوں نے اپنی مراسلت کو پناس (PNAS) جیسے معتبر جریدے میں شائع کیا اور اس کا عنوان ہی یہی رکھا :

The Kinsey Scale is ill-suited to most sexuality research of because it does not measure a single construct.[2]

’’کنسے اسکیل بہت ساری جنسی تحقیقات کے لیے مناسب ہی نہیں ہے کہ کیوں کہ وہ کسی ایک مجرد رجحان کو ناپنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‘‘

اب جب کنسے اسکیل ہی ناقص ٹھہرا تو اس کی بنیادوں پر لکھے گئے ہزاروں مقالوں کے سلسلے میں از سر نو غور کرنا پڑے گا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان مقالوں کے +LGBTQاور جنسیت کے حوالوں سے نمونوں کا حجم (sample size)کیا رہا۔ نتیجوں کے اخذ کرنے میں اسکیل کا رول کیا رہا۔ اسکیل اور شماریات (statistics)میں کیا رشتہ رہا، وغیرہ۔ یہاں کسی کو یہ مغالطہ نہ ہو کہ کنسے اسکیل کی بنیاد پر کی گئی ہر تحقیق کو کالعدم قرار دیا جائے گا، بلکہ اوپر دیے گئے تمام پہلوؤں کے حوالے سے اس پر غور کیا جائے گا۔

لیکن اب یہ سب ممکن نہیں رہا، کیوں کہ جنسیت کی تحقیق میں جنسی طیف (sexual spectrum)کو اہم مان لیا گیا ہے۔ اور یہ بھی مان لیا گیا ہے کہ یہ اتنا عام ہے کہ اسے ’مستثنیٰ‘ یا ’علیحدہ‘ سمجھنا غلط ہے۔ اور جیسا کہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ جن بنیادوں پر اسے ایسا مانا گیا ہے وہ کس قدر بودی اور بعض اوقات غیر سائنسی ہیں۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جنسی طیف موجود ہی نہیں؟ کیا ایسے افراد ہی نہیں ہیں جو اس طیف میں فٹ بیٹھتے ہیں؟ کیا اس بات کا مکمل انکار کیا جاسکتا ہے کہ جنسیت میں سیالیت (fluidity) کے مظاہر موجود ہیں؟ ہمارا ماننا ہے کہ یہ تمام باتیں بڑی حد تک درست ہیں! لیکن ان میں غیرمعمولی اضافیت ہے۔ ان کے پھیلاؤ (prevalence)میں زمین آسمان کا فرق ہو سکتا ہے۔ جنسیت اور اس سے جڑے تصورات ‘آفاقی‘ (universal) نہیں ہیں۔ سماج میں جنسیت، جنسی رویہ اور جنسی مظاہر میں غیر معمولی تنوع ہے۔ اور اس لیے جنسیت کے معاملے میں +LGBTQکو ان تمام کے ہوتے ہوئے غالب سائنسی بیانیے کے طور پر پیش کرنا غلط ہے۔

جنسیت ، سیالیت (fluidity) لیے ہوئےہوتی ہے۔

ابتدا میں جنسیت کی تحقیق میں یہ مانا جاتا تھا کہ جنسیت دو خانوں میں تقسیم ہے۔ یعنی انسان اور حیوانات نر اور مادہ کی حیثیت سے جنسیت کا عمل انجام دیتے ہیں۔

چارلس کنسے کی تحقیقات کے بعد یہ نظریہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ اور یہ بات مختلف تحقیقات میں سامنے آنے لگی کہ یکساں صنف کے مابین جنسی کشش ایک اہم جنسی دائرہ ہے۔ اور یہ کہ جنسیت ایک اسکیل (کنسے اسکیل) پر ناپی جانی چاہیے۔ اور فطری طور پر انسان مختلف رجحان رکھتا ہے۔ صرف جنسی دوئی والے رجحان نہیں رکھتا۔

انھی تحقیقات اور ان کی بنیادوں پر جنسیت کے سلسلے میں ایک نئی جہت پر تحقیق آگے بڑھنے لگی، وہ یہ کہ نہ صرف انسان جنسی دوئی نہیں رکھتا اور اس کی جنسیت ایک اسکیل کے مطابق نہیں ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جو بھی جنسی میلان وہ رکھتا ہے وہ بجائے خود اپنے آپ میں مستقل (stable) نہیں ہوتا! یعنی عمر کے ایک حصے میں وہ مرد ہم جنس ہو سکتا ہے۔ اور عمر کے دوسرے حصے میں غیر مرد ہم جنس اور کسی دیگر حصے میں دونوں صنفوں کے لیے جنسی کشش رکھنے والا (bisexual)۔ اسے جنسی سیالیت کہا جاتا ہے۔

لیکن کیا تمام انسانوں میں جنسیت سیالیت ہوتی ہے! یا پھر اس کا کوئی خاص تناسب ہے! یہ ایک سوال ہے جس پر سائنسی حلقوں میں کم بات ہوتی ہے۔

لیزا ڈائمنڈ (Lisa. M. Diamond) نے مردوں اور عورتوں میں جنسی سیالیت کے عنوان سے جڑے تصورات پر ہونے والی تمام تحقیقات کا تجزیہ کیا ہے۔ اس میں انھوں نے بتایا کہ

  1. جنسی سیالیت ایک امر واقعہ ہے۔
  2. جنسی سیالیت مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے۔
  3. ہم جنسوں میں جنسی سیالیت زیادہ ہوتی ہے۔ (یہ ایک قابلِ غور نکتہ ہے اور اس کی کوئی توجیہ نہیں ہے)
  4. صنفی شناخت، جنسی کشش اور جنسی رویے کے ڈاٹا میں غیر معمولی فرق، تضاد(discrepancy)  پایا جاتا ہے۔ (یہ نکتہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔)

ہمارے نزدیک شماریات اور ریسرچ ڈیزائن کے اچھے معیار پر ہونے کے باوجود یہ تحقیق درج ذیل نقائص اپنے اندر رکھتی ہے:

اس تحقیق کے نتائج صرف امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے بعض ملکوں کے عوامی رویوں سے متعلق درست مانے جا سکتے ہیں۔ اس صراحت کے ساتھ کہ سماجی تحقیقات میں نمونوں کا حجم چاہے جتنا بڑا ہوجائے، اس میں اضافیت کی گنجائش بہرحال باقی رہتی ہے۔ مثلاً محقق نے لکھا ہے کہ ‘‘متعدد ممالک میں ہونے والے مطالعہ جات یہ بتاتے ہیں‘‘، حالاں کہ یہ صرف چھ ممالک کے سروے ہیں۔ پوری دنیا میں 195 ممالک ہیں جو چھ بر اعظموں پر پھیلے ہوئے ہیں اور ہر بر اعظم میں کئی ملک بستے ہیں اور کئی ملکوں میں سیکڑوں ہزاروں قسم کی سماجی اکائیاں بستی ہیں۔ مذکورہ چند ممالک میں تو اس کی تعمیم کا عمل (generalisation)شاید قابل قبول ہو، لیکن دوسرے سارے ممالک اور اس میں بسنے والے انسانوں اور ان کی جنسیت پر اسے تعمیم نہیں دی جا سکتی۔

جنسیت کی سیالیت، جنسی دوئی کے باہر کے رجحانات رکھنے والوں میں زیادہ پائی گئی۔ کیا یہ اس بات کا مظہر ہے کہ وہ تمام افراد جنسیت کے کسی ایک جانب کیے جا سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو تحویلی علاج (conversion therapy) یعنی مرد ہم جنس یا عورت ہم جنس افراد کو بعض طبی اور نفسیاتی طریقوں سے دگر جنسی (heterosexual)بنانا زیادہ تر ناکام کیوں ہوتا ہے۔ کم از کم حال کے تجربات کے تناظر میں۔

یہ تحقیق یہ تو بتاتی ہے کہ جنسی سیالیت بڑھی ہے، لیکن ایسا کیوں ہوا؟ اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیتی۔

جنسی سیالیت پر غیر معمولی تحقیقات ہوئی ہیں۔ لیکن ابھی بھی یہ مقدمہ فیصل نہیں ہو پایا کہ

کیا واقعی جنسی سیالیت، صنفی شناخت، جنسی رویہ، وغیرہ کے تناظر میں ایک آفاقی مظہر ہے؟

جنسیت اور جنسی سیالیت عام افراد میں کیسے اور کتنے فی صد تک پائی جاتی ہے؟ (جاری)n

حواشی

[1] “Ovahimba: a Namibian tribe where sex is offered for free to Cousins and Friends”?.Rhingo G.K Mutambo; (2020) (researchgate.net)

[2] Zietsch BP, Sidari MJ. The Kinsey scale is ill-suited to most sexuality research because it does not measure a single construct. (2020).Proc Natl Acad Sci U S A. 2020 Nov 3;117(44):27080. doi: 10.1073/pnas.2015820117. PMID: 33144520; PMCID: PMC7959566.

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2022

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223