پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس طرح ہوا کے بغیر انسان کا جینا مشکل ہے، اسی طرح پانی کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ بلکہ تمام جانور، پیڑ پودے اور وہ تمام چیزیں جن میں حیات کا عنصر پایا جاتا ہے ان کی بقا اور افزائش کا انحصار پانی پر ہے۔ پانی کے بغیر ان کی زندگی اوربقا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گویا تمام جاندار اشیاء میں جان اور روح کو باقی رکھنے کے لیے پانی اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ارشاد باری ہے :
وَہُوَالَّذِیْ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَأَخْرَجْنَا بِہٰ نَبَاتَ کُلِّ شَیْْئٍ
’’ اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اُگائی ‘‘ ﴿الأنعام : ۱۰۰﴾
دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَیْْئٍ حَیٍّ ﴿الأنبیاء : ۳۰﴾
’’ اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی ‘‘
ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اور جانور ہی نہیں ؛ بلکہ ہر ے بھرے کھیت، خو بصورت باغات، مختلف چیزوں کے درخت کا وجود پانی ہی سے ہے۔ اگر پانی ختم ہوجائے تو زندگی ختم ہوجائے گی ۔ انسان کے روز مرہ استعمال میں بھی پانی کی کثرت سے ضرورت پیش آتی ہے۔ کھانے، پینے، نہانے دھونے، بجلی کی توانائی پیدا کرنے اور صنعتوں کو متحرک رکھنے کے لیے پانی کی اہمیت مسلم ہے۔ اگر پانی نہ رہے تو بڑی بڑی فیکٹریاں اور کارخانے بھی ٹھپ ہوجائیں گے اورانسانی نظام حیات معطل ہوجائے گا، اسی پانی کی کرم فرمائی ہے کہ خشک اور بنجر زمین تھوڑی محنت سے سبزہ زار ہوجاتی ہے اور سبزیوں، غلوں، بیجوں او رپھلوں وغیرہ سے انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہے:
وَمَآ أَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَأَحْیَا بِہٰ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا ﴿البقرہ : ۱۶۴﴾
’’ اور نشانی ہے قدرت کی اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے ‘‘
پانی کے فوائد بیان کرتے ہوئے ایک جگہ قرآن کہتا ہے :
ہُوَ الَّذِیٓ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَائً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْن۔ ﴿النحل : ۱۰﴾
’’ وہی ہے جس نے آسمان سے تمھارے لیے پانی برسایا، جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمھارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے ‘‘
غرض انسان اور جانور کے رزق اور زندگی کا انتظام اسی پانی کے ذریعے ہوتا ہے۔ پانی میں کمی آئے گی تو اسباب حیات بھی متأ ثر ہوں گے اور دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود لوگوں پر تنگ ہوجائے گی۔
پانی کے ذریعے جن ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے، ان میں سے ایک اہم کام ناپاک چیزوں کا پاک کرنا ہے۔ حدث اکبر ہو یا اصغر، اس کو دور کرنے کے لیے پانی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ کپڑا یا کوئی جگہ یاکوئی برتن ناپاک ہوجائے تو اسے بھی پانی کے ذریعے پاک کیا جاتا ہے اور پاک صاف ہوکر قرب خدا وندی کے حصول کی سعی کرتا ہے۔ اسلام کی تقریبا تمام عبادات کا مدار طہارت پر ہے، جس کے لیے پانی بنیادی جز ہے، ارشاد خداوندی ہے:
وَیُنَزِّلُ عَلَیْْکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَائً لِّیُطَہِّرَکُمْ بِہٰ وَیُذْہِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْْطَانِِ ﴿الأنفال : ۱۱﴾
’’ اور وہ آسمان سے تمھارے اوپر پانی برسارہا تھا تاکہ تمھیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے ‘‘
موجودہ دور میں جب کہ سائنسی تحقیقات اور ماہر ین کی رپورٹ کے مطابق پانی کی سطح ہر سال نیچے ہی ہوتی جارہی ہے، پانی کے احکام پر عمل آوری اوراس کے تحفظ کے اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ روز بروز پانی کی مقدار کم ہوتی جارہی ہے اور آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے پانی کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ جس کے سبب شہروں میں ایک گھڑے پانی کے لیے پڑوسیوں سے جنگ، عداوت، گالی گلوج اورمارپیٹ ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ بعض دانشوروں کی یہ پیش قیاسی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح پہلے زمانے میں اونٹ کو پہلے پانی پلانے میں جھگڑا ہوتا اور اس کا سلسلہ تادیر باقی رہتا تھا، اسی طرح تیسری عالمی جنگ تیل وغیرہ کی دولت ہتھیانے کے لیے نہیں بلکہ پانی کے حصول کے لیے لڑی جائے گی اور مشرق ومغرب پر اس کے مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔
لیکن یہ بات باوثوق انداز میں کہی جاسکتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو قیامت تک باقی رکھنے کا وعدہ کیا ہے تو قیامت تک باقی رہنے والے تمام انسانوں کے رزق، کھانے پینے اور ضروریات کی تمام چیزوں کی تکمیل بھی اسی کے ذمے ہے۔ البتہ ان نعمتوں کے استعمال کے لیے خصوصی احکام دیئے گیے ہیں، ان احکام کی رعایت کی جائے تو انسان کی زندگی میں کوئی دشواری نہیں آئے گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کی جائے اور ان کے استعمال کے لیے جو شرعی ہدایات ہیں ان کی پابندی کی جائے ۔
پانی کے استعمال میں فضول خرچی سے اجتناب :
تمام نعمتیں اللہ کی دی ہوئی اور اسی کی ملکیت ہیں۔ یہ انسانوں کو محض اپنی ضرویات کی تکمیل کے لیے دی گئی ہیں۔ اسراف ان نعمتوں کے بیجا استعمال کا نام ہے، جس کا بندوں کو حق نہیں، شیطانوں پر خدا نے بڑا احسان کیا مگر حضرت آدم ں کو سجدہ نہ کرکے انھوں نے اپنے رب کے سارے احسان اور نعمتوں کو فراموش کردیا، اسی لیے قرآن نے کسی بھی چیز میں فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے:
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِرَبِّہٰ کَفُوْرًا۔ ﴿بنیٓ اسرآئیل : ۲۷﴾
’’ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ‘‘
لفظ کفورسے شیطان کی بد مزاجی اور سبب لعنت کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے مزاج میں ناشکری پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ملعون قراردیے گیے۔ لہٰذا بندوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی نعمتوں میں ناشکری نہ کریں ۔اسراف اور فضول خرچی سے مکمل احتیاط کریں اوراستعمال کے جو جائز طریقے ہیں ان کو ہی اختیار کریں ورنہ کفران نعمت کا گناہ اور وبال آئے گا۔
اسراف ضرورت سے زیادہ استعمال کو کہا جاتا ہے، خواہ یہ ضرورت شرعی ہو یا ضرورت طبعی، ضرورت شرعی سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے کسی فعل کے لیے جتنی مقدار متعین کی ہے، بلا کسی وجہ اس سے زیادہ استعمال کرنا، جیسے وضوء میں ہر عضو کو تین بار دھونا سنت کامل ہے، پوری حیات رسول اکرم ﷺ کا اس پر عمل رہا ہے، اس عدد پر اعضاء کے غسل کی حاجت شرعیہ پوری ہوگئی ؛ لہٰذا اس عدد سے زیادہ بار اعضاء کا دھونا مکروہ تحریمی ہوگا۔ تالاب، نہر، سمندر یا کسی بڑے حوض پر وضوء کر رہا ہو اس کا یہی حکم ہے :
’’ عن عبد اللہ بن عمرو العاصص أ ن رسول اللہ ا مر بسعد وھو یتوضأ فقال ما ھذا السرف ؟ فقال أفي الوضوئ اسراف ؟ فقال : نعم، وان کنت علیٰ نھر جار‘‘ ﴿ابن ماجہ﴾
’’ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ص کا بیان ہے کہ رسول اکرم ا حضرت سعدص کے پاس سے گزرے اور وہ وضوئ کر رہے تھے آپ ا نے فرمایا، یہ کیا فضول خرچی ہے عرض کیا، کیا وضوءمیں بھی اسراف ہے؟ آپ ا نے ارشاد فرمایا ہاں خواہ جاری نہر پر ہی تم کیوں نہ رہو‘‘
ایک موقع پر آپﷺ نے پانی میں فضول خرچی کرنے والے کو امت کا بدترشخص قرار دیا:
’’شرار أمتي الذین یسرفون فی صب الماء‘‘﴿ حاشیہ الطحطاوی : ۸۰﴾
موجود ہ دور میں جن چیزوں میں بھی قحط اور قلت کا اندیشہ ہے، ان میں اعتدال تدارک کا بڑا اور اہم ذریعہ ہے اگر احتیاط اور اعتدال کا سہارا لیا جائے تو بڑی حد تک پانی کی کمی کے اندیشے دور ہوسکتے ہیں۔
آلودہ کرنے والی چیزوں سے پا نی کی حفاظت
پانی سے متعلق شریعت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اسے ہر ممکن پاک و صاف رکھا جائے، پانی جن چیزوں سے آلودہ او رگندا ہوتا ہے ان سے مکمل اجتناب کیا جائے، جیسے پانی میں تھوکنا، ناک کی ریز ش ڈالنا، پیشاب اور پاخانہ سے پرہیز کرنا، تھوڑے پانی میں جنابت کا غسل نہ کرنا، اسی طرح کنویں یا تالاب سے اتنا قریب بیت الخلاء یا گندگی جمع ہونے کا گڑھانہ بنایاجائے کہ گندگی کے اثرات پانی تک پہنچ جائیں۔ اس فاصلے کی مقدار زمین کی سختی اور نرمی کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے:
’’ والحاصل انہ یختلف بحسب رخاوۃ الارض و صلابتھا ومن قدرہ اعتبر حال أرضہ ‘‘ ﴿شامی :۱/۳۸۱، زکریا بکڈپو﴾
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ۸۸ /فیصد بیماریوں کی جڑ غیر محفوظ پانی کے استعمال میں چھپی ہے، اس لیے شریعت نے پانی کو آلودگی سے حفاظت کی تعلیم دی ہے اورایسے تمام کاموں سے روکا ہے جن سے پانی آلودہ ہوتا ہو یا اس کی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہو ۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے :’’لا یبولن احد کم فی المائ الراکد ‘‘﴿ صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۳۷ ﴾ ’’ تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے ‘‘۔ طبرانی کی ایک روایت میں بہتے ہوئے پانی میں بھی پیشاب کی ممانعت کی گئی ہے، ۔ اسی طرح پانی میں قضائے حاجت کرنے سے منع کیا گیا ہے، حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے :
’’ اتقوا الملاعن عن الثلاث البراز فی المائ و فی الظل وفی طریق الناس۔ ﴿ابن ماجہ: ۱ /۱۳۸﴾
’’ قابل نفرت و لعنت تین چیزوں سے بچو پانی میں، سایہ میں اور لوگوں کے چلنے کے راستے میں قضائے حاجت سے بچو ‘‘
ٹھہرے ہوئے پانی میں جنابت کے غسل سے بھی منع کیا گیا ہے:
قال رسول اللہ اِ لا یغتسل أحدکم فی المائ الدائم وھو جنب ﴿سنن نسائی کتاب الغسل﴾
’’ تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں جنابت کا غسل نہ کرے ‘‘
پانی میں فیاضی سے کام لینا :
اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو ہمدردی، وسعت ظرفی اور سخاوت کا مزاج پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ بالخصوص ایسی چیز جو بآسانی حاصل ہوجاتی ہے اور اس میں قیمت زیادہ نہ لگتی ہو، اس میں دوسروں کو شریک کرنا اور طلب پر دے دینا نہایت اجر وثواب کا باعث ہے اور نہ دینے کی صورت میں وعید آئی ہے:
وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ ﴿الماعون : ۷﴾
’’ تباہی ہے ایسے لوگوں کے لیے جو معمولی ضرورت کی چیزیں لوگوں کو دینے سے گریز کرتے ہیں ‘‘۔
پانی آسانی سے حاصل ہونے والی ایسی چیز ہے جس میں زیادہ محنت یا زیادہ قیمت نہیں لگتی، اس لیے اس میں بخل کے بجائے سخاوت اور وسعت ظرفی سے کام لینا چاہیے۔ خاص طور پر جب کہ پانی کی دوسروں کو ضرورت ہو اور پانی کی ملکیت رکھنے والے کو فی الوقت اس کی شدید ضرورت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کو عام رکھا ہے۔ ہر ایک کو اس سے استفادے کا حق دیا ہے۔
رسول اکرم ا کا ارشاد ہے:
’’ الناس شرکاء فی ثلٰث المائ، و الکلأ والنار ‘‘ ﴿ابودؤد﴾
’’ لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں پانی، خودرو گھاس، آگ ‘‘
ایک حدیث میں ہے: ’’لایمنع فضل الماء ‘‘ ضرورت سے زیادہ پانی دوسروں کو لینے سے نہیں روکا جائے گا‘‘ ان احادیث کی بنیاد پر اصحاب نظر و ارباب تحقیق نے پانی کو مباح قرار دیتے ہوئے یہ صراحت کی ہے کہ اگر کسی کی خاص ملکیت میں پانی ہو تو بھی ضرورت مندوں کو اس سے منع نہیں کیا جاسکتا ہے:
’’ بل ھو مباح فی نفسہ أو لصاحبہ حق خاص فیہ سوائ کان فی أرض مباحۃ أو مملوکۃ لأن المائ فی الاصل مباح لجمیع الناس‘‘﴿الفقہ الاسلامی وادلتہ: جلد ۵/۵۹۴﴾
’’ پانی اپنی ذات سے مباح ہے، البتہ اس میں اس کے مالک کا خاص حق ہوگا خواہ یہ پانی ارض مباح یا مملوک میں ہو، اس لیے کہ پانی درحقیقت سارے لوگوں کے لیے مباح ہے ‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو وضو کرنے، نہانے دھونے، اپنے یا چوپائے کی پیاس بجھانے یا کھیت اور باغات سیراب کرنے کے لیے پانی طلب کیا جائے تو اس میں فیاضی اورہمدردی کا ثبوت دینا چاہئے، پانی پر قبضہ جما کر بیٹھ جانا اور ضرورت مندوں کو پانی نہ دینا اخلاق و انسانیت کے خلاف ہے :
’’ اتفق العلماء علی انہ یستحب بذل المائ بغیر ثمن ‘‘﴿الفقہ الاسلامی وادلتہ:۴/۴۵۱﴾
گندے اور آلودہ پانی کو اگر کیمیاوی اور سائنسی طریقے پر اس طرح صاف کردیا جائے کہ اس کی بو، رنگ، مزہ تینوں ختم ہوجائے تو ایسا پانی راقم الحروف کے خیال میں پاک شمار کیا جائے گا، اس سے وضو، غسل وغیرہ جائز ہے، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رنگ، مزہ، بو پانی کے تین اوصاف میں سے کسی ایک کے ختم ہونے اور اس کی جگہ ناپاکی کاکوئی وصف ظاہر ہونے سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے، چنانچہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’المائ طھور لا ینجسہ شیئ الا ماغیر لونہ او طعمہ او ریحہ ‘‘﴿ابن ماجہ﴾
پانی کے ناپاک ہونے کی علت ناپاک چیزکے اوصاف ثلٰثہ میں سے کسی ایک کا ظاہر ہونا ہے۔ اگر یہ علت ختم ہوجائے گی تو پانی کی نجاست بھی جاتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی گڑھے کا پانی ناپاک ہو اور اس میں اتنا پانی ملادیاجائے کہ ناپاکی کا اثر اور وصف ختم ہوجائے تو اس کا پانی پاک ہوجائے گا :
’’ ثم المختار طھارۃ المتنجس بمجردجر ی انہ و کذا البئر وحوض الحمام ‘‘ ﴿درمختار مع الشامی: ۱/۳۴۵﴾
آج کل آلودہ پانی کے ذخیرے کو کیمیاوی طریقے پر اس طرح صاف کیا جاتا ہے کہ پانی بالکل صاف ہوجاتا ہے۔ نجاست کا کوئی وصف اس میں باقی نہیں رہتا۔ اس لیے پانی کو پاک قرار دیا جائے گا۔
رابطہ عالم اسلامی کے تحت قائم اسلامی فقہ اکیڈمی کے گیارہویں اجلاس منعقدہ مکہ مکرمہ ۱۳ تا ۲۰ رجب ۱۴۰۹ ھ مطابق ۱۹ تا ۲۶ فروری ۱۹۸۹ ء میں اکیڈ می کے ذمہ داروں نے اہم علماء کرام کو اس مسئلہ پر غور کرنے کی دعوت دی، جس میں عرب کے ممتاز اصحاب افتاء نے شرکت کی اور بالآ خر یہ فیصلہ کیا گیا کہ نالیوں میں بہنے والے پانی کو فلٹر کرکے اس سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے، فیصلہ کی عبارت یہ ہے :
’’ لہٰذا اکیڈمی فیصلہ کرتی ہے کہ جاری پانی کو اگر مذکورہ بالا یا اسی جیسے عمل کے ذریعے صاف کردیا جائے اور اس کے مزہ، رنگ، بو میں نجاست کاکوئی اثر باقی نہ رہے تو پانی پاک ہوجائے گا اور اس پانی سے پاکی کا حصول اور نجاست کا ازالہ اس فقہی قاعدے کی بنیاد پر ہوجائے گا کہ اگر زیادہ پانی میں گری ہوئی نجاست کا ازالہ اس طرح ہوجائے کہ اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے تو پانی پاک ہوجاتا ہے ‘‘﴿مکہ مکرمہ کے فقہی فیصلے ۳۱۷ ﴾
مشہور محقق ڈاکٹر یوسف قرضاوی لکھتے ہیں:
’’تتسع دائرتھا لکل التصرفات و الاجرائ ات التی من شانھا أن ترفع الظلم و تقیم العدل بین الناس و تزیل عنھم الضرر و الضرار و اسباب النزاع و الصراع لیحل محلہ التعاون والأخائ‘‘﴿فتاویٰ معاصرہ: ۱/۵۸۱﴾
اس کے دلائل او وجوہ لکھنے کے بعد وہ لکھتے ہیں:
’’ ومن ھھنا نقول ان من واجبات الحکومۃ المسلمۃ أن تنظم علاقات الناس علیٰ اسس سلیمۃ فتضع من الأ نظمۃ و القوانین ما یحقق العدل و یرفع الظلم و یشیع الطمانینۃ و الا ستقرار بین الناس و یزیل اسباب النزاع و الخصام من بینھم ‘‘﴿فتاویٰ معاصرہ:۱ /۵۹۳ ﴾
ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’ فکل مایری ولی الأمر فعلہ اقرب الی الصلاح للرعیۃ و أ بعد عن الفساد فلہ ان یفعلہ بل قد یجب علیہ وان لم یجیٔ بذلک نص خاص ‘‘ ﴿فتاویٰ معاصرہ :۱/۵۸۳﴾
بعض عبارتوں میں اگرچہ حکومت کے ساتھ ’’ مسلم ‘‘ کا لفظ ہے لیکن یہ قید احترازی نہیں ؛ بلکہ اتفاقی ہے۔ اس لیے کہ حکومت عوام کے ساتھ خیر خواہی اور بہتر نظام چلانے کا نام ہے، حکومت اور عوام کا ذمہ دار ادارہ ہونے کی حیثیت سے اس کا فریضہ ہے کہ وہ ایسا نظم و نسق چلائے جو عام رعایا کے مفاد کے حق میں ہو، رسول اکرم ا نے ارشاد فرمایا :
’’ کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ‘‘ ﴿بخاری﴾
’’ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور نگراں ہونے کی حیثیت سے تم میں سے ہر ایک سے اپنے رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا ‘‘
حضرت عمرؓ نے ایک موقع پر اپنے دور خلافت میں فرمایا تھا:
’’ لو ھلک جدی بشط الفرات لرأ یتنی مسئولا عنہ امام اللہ یوم القیامۃ ‘‘
’’میری غفلت کے سبب اگر فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی مرجائے تو میں قیامت کے دن اپنے آپ کو جواب دہ محسوس کرتا ہوں ‘‘
خلفائ راشدین اور بعد کے زمانے میں بہت سے ایسے کام کیے گیے ہیں جن کے بارے میں کوئی نص نہیں تھا ؛ لیکن مفاد عامہ اور مصالح کے پیش نظر و ہ انجام دئیے گیے اور کسی محدث یا فقیہ نے اس کی مخالفت نہیں کی، جیسے عہد صدیقی میں جمع قرآن، عہد فاروقی میں شراب نوشی کی سزا اسی کوڑے کا تعین، ایک مقتول کے بدلہ تمام قاتلوں کے قتل کا حکم، مختلف شعبے جات کی تقسیم، قید خانہ کا نظم، مسجد نبوی کی توسیع، جمعہ میں اذان ثانی کی ایجاد، ایک مصحف کے علاوہ تمام مصاحف کو جلاڈالنا، حضرت علی ؓ کا بعض زنادقہ کو آگ میں جلانا۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جو عہد نبوی کے بعد مصلحت و سیاست عامہ کے پیش نظر مدون کیے گیے اور عہد صحابہ میں کسی صحابی نے مخالفت کی اور نہ بعد میں کوئی آواز اٹھائی گئی؛اسی لیے علماء کرام نے مصالح عامہ کو درست قرار دیا ہے اس پر تقریبا تمام ائمہ کا اتفاق ہے :
’’ صفوۃ القول المصالح المرسلۃ مقبولۃ بالاتفاق وانما أعني بالاتفاق، اتفاق الصحابہ و التابعین والأئمۃ الأربعۃ ‘‘﴿ضوابط المصلحۃ: ۴۰۷﴾
دفع ضرر کی مصلحت سے حکومتوں کی جانب سے حکم دئیے جانے کی واضح مثال وہ واقعہ ہے جب حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور خلافت میں دیکھا کہ زیادہ مقدار میں جانوروں کے ذبح کرنے کی وجہ سے جانور کم ہورہے ہیں، اندیشہ تھا کہ بعد میں استعمال کرنے والوں کو جانور دستیاب نہ ہو، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے یہ حکم جاری کیا کہ روز انہ اونٹ یا اور کوئی جانور ذبح نہ کیا جائے ؛بلکہ ایک دن کی وقفے سے ذبح کیا جائے تاکہ بعد میں گوشت کی قلت پیش نہ آئے :
’’ رأء عمرأن الذبائح اقل من حاجۃ المستھلکین فحرم علیٰ الجزارین أن یذبحوا فی یومین متتالییین لتتوا فر الذبائح فی بقیۃ الأیام ‘‘ ﴿فتاویٰ معاصرہ : ۱/۵۹۴﴾
اسی طرح مزدوروں کی اجرت کے تعین کا مسئلہ ہے، اس مصلحت سے کہ مزدور اجرت مثل سے زیادہ نہ لے اور کام کرانے والے کا نقصان نہ ہو اور نہ کام کرانے والا مزدوروں کی حق تلفی کرے اور اس صورت میں مزدور کا نقصان ہوگا، دونوں کو ممکنہ نقصانات سے بچانے کے لیے مزدوری کی تحدید درست ہے اور بعض ملکوں میں اس کا نفاذ عمل میں آیاہے، شیخ الاسلام بن تیمیہ ؒ نے ’’ الحسبۃ ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں اس پر مکمل بحث کی ہے اور رعایا کی مصلحت کے پیش نظر اس کو درست قرار دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے چیزوں کی قیمت کی تحدید کو اسی مصلحت کے پیش نظر علماء نے جائز قرار دیا ہے اور تابعین کے زمانہ سے ہی یہ عمل چلا آرہا ہے۔
’’ ان فقھا ئ الاسلام منذ عھد التابعین اجازوا تدخل اولی الأمر لتسعیر السلع و الاشیاء عند الحاجۃ ‘‘۔ ﴿فتاویٰ معاصرہ: ۱ / ۵۸۶﴾
آج کے زمانے میں عوام کو نقصان سے بچانے کے لیے ساری دنیا میں ٹریفک کے اصول و قوانین نافذ ہیں، جن کا تعلق اسی مصلحت سے ہے۔ اس طرح کے جو بھی قوانین ہوں گے، شریعت نے مسلمانوں کو ان کی پابندی کرنے کی تاکید کی ہے۔ خواہ حکومت مسلم۔ ہو یا غیر مسلم اس لیے کہ ان قوانین کا مقصد عدل و انصاف کا قیام ہے اور عدل اسلام کا مقصد عظیم ہے ۔اسی عدل کے سبب زمین و آسمان قائم ہے۔ ان کا مقصد لوگوں کو ضرر اور ضرار سے بچانا ہے ۔اسلامی شریعت کا بھی ہدف یہی ہے کہ حرج، تنگی اور ضرر سے تحفظ فراہم کیا جائے ۔چنانچہ حدیث ہے لا ضرر و لا ضرار ﴿ابن ماجہ، حدیث نمبر : ۲۳۳۱، ۲۳۳۲﴾
اس جنس سے جو بھی چیز ہوگی وہ شرعا معتبر ہوگی اور مسلمانوں پر اس کی پابندی لازم ہوگی۔
ڈاکٹر یوسف قرضاوی اس موضوع پر تفصیلی تحریر کے بعد لکھتے ہیں:
’’ أن القوانین التی تسن لتحقیق مصالح الناس و لتحفظ بینھم الأ من و الاستقرار یجب طاعتھا والعمل بمقتضاھا‘‘﴿فتاویٰ معاصرہ: ۱/ ۵۹۴﴾
اس طرح کے قوانین چوں کہ شریعت کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں، اس لیے ان کی مخالفت گویا دین و شریعت کی مخالفت ہے۔
’’ ان الذین یخالفوں القانون الذی یحفظ الحقوق و یقر العدل و یقیم میز انھ ھٰؤلائ یعتبرون شرعا مخالفین للدین نفسہ لان الدین یأمر بطاعۃ مثل ھٰذہ القوانین التنظیمیۃ مادامت بالمعروف و فی غیر معصیۃ ‘‘ ﴿فتاویٰ معاصرہ : ۱/۵۹۷﴾
اس ضروری تفصیل کے بعد زیر بحث پانی کا مسئلہ بھی خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔پانی چوں کہ انسان اور تمام جاندار کے لیے بنیادی ضرورت ہے اور مختلف النوع استعمال سے اس کی قلت کا اندیشہ ہے ؛بلکہ بعد میں پانی کے بارے میں تنگی اور مشکلات کا اندیشہ ہو تو بعد میں پیش آنے والے ضرر عام سے بچنے کے لیے پانی کے بعض غیر ضروری استعمال پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پانی کی قلت کے اندیشے کو دور کرنے کے لیے کوئی بیچ کا راستہ نکالے۔ نہ تو ایسی پابندی لگائے جس سے لوگ اپنی روز مرہ کی زندگی گذارنے میں تنگی میں پڑجائیں مثلاً کھانے پینے، نہانے دھونے، کھیت و باغات کی سیرابی اور دیگر ضروریات زندگی میں ان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ہے۔ ورنہ مستقبل میں ضرر کے اندیشے سے فی الحال ضرر لاحق ہوگا۔ اورضرر کے ذریعے ضرر دور نہیں کیا جاسکتا۔ مشہور فقہی قاعدہ ہے:’’ أن الضرر لایزال بالضرر‘‘… علامہ بن نجیم مصری لکھتے ہیں :
’’ولیس للامام أن یخرج شیئا من یدأ حدالابحق ثابت معروف ‘‘﴿الاشباہ و النظائر، ص :۱۸۹﴾
ڈاکٹر وھبہ زحیلی تحریر فرماتے ہیں :
’’ ولیس للحاکم منع أحدمن الانتفاع بکل الوجوہ اذلم یضر الفعل بالنھر أو بالغیر أو بالجماعۃ کما ھوالحکم المقرر بالانتفاع فی الطریق أو المرافق العامۃ ‘‘﴿الفقہ الاسلامی وأدلتہ : ۵/۵۹۷﴾
حضرت عمر فاروق ص نے گوشت کی قلت کے اندیشے سے جس طرح مسلسل جانوروں کو ذبح کرنے سے منع کیا اور ایک دن کی غیبوبت سے ذبح کرنے کا حکم دیا اس میں ضرورت مندوں کی بھی رعایت ہوگئی اور اندیشے کا بھی تدارک ہوگیا ۔اسی طرح یہاں بھی بیچ کا راستہ نکالنا چاہیے ۔ تاکہ دونوں طرح کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔
بہر حال پانی کی قلت کے پیش نظر اس طرح کی پابندی لگانا حکومت کا حق ہے اور ایسی پابندیاں جو ضروریات زندگی میں سے نہ ہو ان پر عمل کرنا مسلمانوں پر واجب ہوگا۔
﴿جاری﴾
مشمولہ: شمارہ مارچ 2012