شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ اور تجدید و احیائے دین

امت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب کبھی اس کے اندر  بگاڑ پیدا ہوا یا دشمنوں کی طرف سے اسلام کو داغ دار کرنے کی ناپاک کوششیں ہوئیں اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش رچی گئی تو اللہ تعالیٰ نے مجدد اور مصلح پیدا فرمائے۔ جیسا کہ ابودائود شریف کی حدیث ہے:  ’’اللہ تعالیٰ ہرصدی کے سر پر اس امت کے لئے ایسے لوگ اٹھاتا رہے گا جو اس کے لئے دین کو تازہ کریں گے‘‘۔  (ابودائود، رقم: ۴۲۹۱، والطبرانی فی الاوسط،رقم:۶۵۲۷، وابن عدی فی الکامل: ۱؍۱۴المقدمہ، والحاکم فی المستدرک: ۴؍۵۲۲، والبیہقی فی معرفۃ السنن والآثار: ۱؍۱۳۷، وسندہ صحیح)۔

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نام مجددین اسلام کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتا ہے ۔ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا کہ ایک مجدد کی شخصیت میں جتنی صفات مطلوب ہیں وہ ساری کی ساری شیخ الاسلام میں پورے طور پر پائی جاتی تھیں۔ ذیل کے سطور میں شیخ الاسلام کی زندگی اور ان کے کارہائے تجدید واحیاء دین پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جارہی ہے:

پیدائش اور نشوونما

شیخ الاسلام کی پیدائش اپنے زمانے کے نامور اورمخلص علمی دینی خاندان (خاندان ابن تیمیہ) میں بروز دو شنبہ ۱۰؍ربیع الاول ۶۶۱ھ؁ مطابق ۱۲۶۲ء؁ میں مشہور تاریخی شہر حران میں ہوئی۔

یہ زمانہ تاتاریوں کی دہشت گردی کا زمانہ تھا سارا عالم اسلام ان کی سفاکیت سے لرزہ بر اندام تھا۔ ابن تیمیہ سات برس کے تھے کہ ان کا وطن ’’حران‘‘ تاتاری حملہ کی زد میں آگیا۔ آخر کار مجبور ہوکر ان کا خاندان دمشق ہجرت کرنے پر مجبور ہوگیا، ہجرت کا سفر بڑا دشوار تھا، دوران سفر تاتاریوں کا کھٹکا لگا رہتاتھا۔ اس سفر کی اہم بات یہ ہے کہ گھر کا سارا مال ومتاع چھوڑ کر کتابوں پرمشتمل اپنا علمی سرمایہ ساتھ لے کر روانہ ہوئے، جانور دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کتابوں کی گاڑی خود کھینچنی پڑتی تھی۔ دمشق پہنچتے ہی اس خاندان نے وہاں کے علمی حلقوں پر اپنا سکہ جمالیا۔

حصول علم

ابن تیمیہ رحمہ اللہ خداداد ذہانت کے مالک تھے مزید برآں انہوںنے پوری توجہ وانہماک کے ساتھ حصول علم کا آغاز کیا، اور اپنے زمانے کے تمام مروجہ علوم کی تکمیل کی۔ عربی زبان،لغت اور نحو کی طرف خصوصی توجہ دی، اور اس فن میں اعلیٰ بصیرت حاصل کی، عرب جاہلیت، عرب اولین، عہد اسلامی اور اسلامی حکومتوں کی تواریخ کا وسیع مطالعہ کیا۔عقیدہ، فقہ، اصول فقہ، فرائض اور حدیث و تفسیرمیں کمال کی دستگاہ حاصل کی۔ اتنا ہی نہیں، انہوںنے ،کتابت، خوش نویسی،حساب ،لاطینی زبان بھی سیکھی۔ ان کا زمانہ علوم عقلیہ،علم کلام، منطق اور فلسفہ کا زمانہ تھا۔ شیخ الاسلام نے عام علماء کی روش سے ہٹ کر ان علوم میں وہ عبور حاصل کیا کہ جن لوگوں کا سرمایہ یہی علوم تھے لیکن وہ شیخ الاسلام کے سامنے بچوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بقول علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ ’’ابن تیمیہ نے اپنے زمانے میں کتاب وسنت کی ترجمانی، دین حق کی صداقت وبرتری ثابت کرنے اورعلمی وعملی گمراہیوں کو دور کرنے کے لئے ایسی وسیع ومکمل تیاری کی جس کی اس ترقی یافتہ دور اور فکری ودینی انتشار کے زمانہ میں ضرورت تھی۔ انہوں نے ان تمام اسلحہ کا استعمال سیکھا جن سے ان کے حریف اور مخالفین اسلام (یہود ونصاریٰ، فلاسفہ اور باطنیہ) مسلح تھے انہوں نے وہ علمی تبحر پیدا کیا کہ ان کے معاصرین دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ان کے مشہور حریف علامہ کمال الدین الزملکانی ان کی علمی جامعیت اور ہمہ دانی کا اعتراف اپنے الفاظ میں کرتے ہیں:’’ قد ألان اللہ لہ العلم کما ألان لداؤد الحدید کان إذ سئل عن فن من العلم ظن الرائی والسامع إنہ لا یعرف غیر ذالک الفن وحکم إن احدا لایعرفہ مثلہ وکان الفقہاء من سائر الطوائف إذا جلسوا معہ استفادوا فی مذاہبہم منہ ما لم یکونوا عرفوہ قبل ذلک ولایعرف إنہ ناظر أحداً فانقطع منہ ولاتکلم فی علم من العلوم سواء کان من علوم الشرع أو غیرہا الافاق فیہ اہلہ والمنسوبین إلیہ وکانت لہ الید الطولی فی حسن التصنیف‘‘ (تاریخ دعوت وعزیمت: ۴۰-۴۱)۔

’’ابن تیمیہ کے لئے اللہ تعالیٰ علوم کو اس طرح نرم کردئے تھے جیسے دائود علیہ السلام کے لئے لوہا،جس علم کے بارے میں ان سے سوال کیاجاتا  وہ اس طرح جواب دیتے کہ دیکھنے والا یا سننے والا سمجھتا کہ وہ اس فن کے سوا کچھ نہیں جانتے اور یہ فیصلہ کرتا کہ ان کی طرح کوئی اس فن کا عالم نہیں، ہر مذہب وفقہ کے علماء جب ان کی مجلس میں شریک ہوتے تو ان کو کوئی نہ کوئی ایسی چیز معلوم ہوجاتی جو ان کو پہلے سے معلوم نہیں تھی۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی سے مناظرہ کیا ہو اور بند ہوگئے ہو۔ جب کبھی انہوں نے کسی شرعی یا عقلی علم میں کلام کیا تو ماہرین فن سے اور اس کے مخصوص عالموں سے بڑھ گئے، تصنیف میں ان کو ید طولی حاصل تھا‘‘۔

حج

۶۹۲ھ؁ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے شامی قافلہ جس کے امیرالباسطی تھے، میں شامل ہوکر حج کیا۔

ابن تیمیہ اور فریضۂ تدریس

جب ۶۸۲ھ؁ میں ان کے والد عبدالحلیم بن تیمیہ کی وفات کی وجہ سے دارالحدیث السکریہ کی مسند درس خالی ہوگئی تو شیخ الاسلام نے ایک قابل فخر فرزند کے طور پر اس مسند درس کو زینت دی۔ ان کے پہلے ہی درس میں دمشق کے مشہور علماء وفضلاء شریک تھے، آپ کے درس سے حاضرین بے حد متاثر اور نوجوان عالم کے علمی تبحر، حاضر دماغی اور جرأت وفصاحت کے معترف ہوئے۔

دینی حمیت

۶۹۳ھ؁ میں ناموس رسالت پر ایک عیسائی نے گستاخی کی توشیخ الاسلام کی دینی حمیت اور ایمانی جذبہ کا اظہار اور آپ کے رشحات قلم سے ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ جیسی گراں قدر کتاب وجود پذیر ہوئی۔

جذبہ جہاد

رجب ۷۰۲ھ؁ میں معلوم ہوا کہ تاتاری اس بار شام کا عزم مصمم کررہے ہیں توابن تیمیہ نے لوگوں کے اندر نہ صرف جہادی روح پھونکا بلکہ عملا ً اس کے اندر شریک ہوئے اور تاتاریوں کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کی ا ور اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔

پس دیوارزنداں

شیخ الاسلام کے کارہائے تجدید واحیائے دین کا درخشاں پہلو عقیدہ کے باب میں ان کی اصلاحی کوششیں ہیں۔انہوںنے توحید خالص کی وضاحت ، استغاثہ او راستعانت لغیراللہ کی تردیدکی، بدعات ومنکراتِ زمانہ کی مخالفت، وحدۃ الوجود اور حلول واتحاد اور باطل تصرف کے قلمی ولسانی جہاد، مدعیان تصرف اور مبتدین کی تلبیسات کی جس بے باکی اور جرأت مومنانہ سے پردرہ دری کی اس نے ایک عالم کو ان کے خلاف کھڑا کردیا، اور علمائے سوء کی شہہ پر ۷۰۵ھ؁ عید کی رات پہلی بار وہ پس دیوار زندہ چلے گئے اور سنت یوسفی کو زندہ کیا چار ماہ بعد شیخ الاسلام کو رہائی نصیب ہوئی ۔ لیکن دوسال بعد ۱۸؍شوال ۷۰۷ ھ؁ میں دوبارہ قید خانے میں ڈال دئے گئے، اور اس بار ایک سال کے بعد رہائی ہوئی تیسری بار ۲۲؍رجب ۷۲۰ھ؁ میں سلاخوں کے پیچھے ڈالے گئے اور پانچ مہینے اٹھارہ دن بعد ۱۰؍محرم ۷۲۱ھ؁ کو آزاد کردئے گئے۔

آخری اسیری اور وفات

۷۲۱ھ؁ سے  ۷۲۶ھ؁ تک تقریبا ساڑھے پانچ سال شیخ الاسلام پوری آزادی وانہماک کے ساتھ اپنے کارہائے تجدید واحیائے دین میں مشغول رہے۔ لیکن بقول علامہ ابوالحسن علی ندوی ’’ان کا علمی تفوق اور بعض مسائل پر تفرد ان کے معاصرین اورخود ان کے لئے ایک بڑا ابتلاء تھا جس کی باربار ان کو قیمت ادا کرنی پڑتی تھی اور زیادہ دن اطمینان سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا تھا‘‘ (تاریخ دعوت عزیمت: ۲؍۱۱۵)۔

۷؍شعبان ۷۳۶ھ؁ میں ان کے محبوس کئے جانے کاشاہی فرمان صادر ہوا شیخ الاسلام قلعہ دمشق میں قید کردئے گئے آپ کی اسارت ونظربندی مخالفین کی ایک جماعت کی تسکین قلب کاسامان ہو اتو ہزاروں اہل علم اور لاکھوں مسلمان کو اس پر سخت تأسف ہوا۔ شیخ الاسلام نے قید خانے میں ہی اپنا جہاد جاری رکھا اور مطالعہ تصنیف وتالیف اور عبادات میں اپنے آپ کو مشغول رکھا۔ ۷۲۸ھ؁ میں آپ کے لکھنے پڑھنے پر پابندی لگ گئی اور تصنیف وتالیف کا سارا سامان ضبط کرلیا گیا۔

انتقال سے بیس یا بائیس دن پہلے طبیعت خراب ہوئی اور پھر درست نہیں ہوئی ۲۲؍ذی القعدہ ۷۲۸ھ؁ مطابق ۱۳۲۷ء؁ میں اس مجمع کمالات ہستی سرسٹھ (۶۷)سال کی عمر میں دنیا سے کوچ کرگئے۔ شہر میں یہ خبر بجلی کی طرح پھیل گئی بازار اورکھانے تک کی دکانیں بند ہوگئیں جنازہ میں لوگوں کا وہ ہجوم تھا کہ عینی شاہدین کے مطابق دمشق کی تاریخ میں ویسا ہجوم کبھی کسی کے جنازے میں نہیں دیکھا گیا ۔ اس بیچ کسی نے بلند آواز سے پکارا ’’ہکذا تکون جنازۃ ائمۃ السنۃ ‘‘ ’’سنت کے پیشوائوں کا جنازہ اسی شان کا ہوتا ہے ‘‘یہ سن کر اور بھی کہرام مچ گیا ،چھوٹے بھائی زین الدین عبدالرحمن نے نماز جنازہ پڑھائی اور مقبرہ ’’الصوفیۃ‘‘ میں اپنے بھائی شرف الدین عبداللہ کے پہلو میں دفن کئے گئے (یہ قبرستان اب ناپید ہے اس پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی ہیں صرف شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی قبر جامعہ سوریہ کے ہال اوراسپتال کی ایک عمارت کے سامنے ایک جگہ موجود ہے)۔

تصنیفات

شبلی نعمانی فرماتے ہیں: علامہ موصوف کی ذہانت،قوت حافظہ،تبحر علمی، وسعت نظرحقیقت میں فوق الفطرت تھی۔ تصنیف کا روزانہ اوسط بیس چالیس صفحے سے کم نہ تھا جو تصنیف ہوتی تھی وہ بالکل مجتہدانہ مذاق پر ہوتی تھی،تصنیفات کی تعداد کم وبیش پانچ سو ہے جس میں اکثر ضخیم اور کئی کئی جلدوں میں ہیں۔ (علم الکلام :۸۴)

تجدیدی کارنامے

شیخ الاسلام کے تجدیدی کارنامے کااحاطہ ممکن نہیں کیوںکہ وہ بے شمار علمی وعملی شعبوں اور پہلووں پرمحیط ہے۔ البتہ مورخین نے ان کے تجدیدی کارناموں کے بعض اہم نکات درج ذیل بتائے ہیں:

(۱) عقیدۂ توحید کی تجدید مشرکانہ عقائد ورسوم کاابطال اور شرعی احکام اس کے اصل سرچشمہ کتاب وسنت سے جوڑنا۔ سید ابوالاعلی مودودی لکھتے ہیں: انہوں نے (شیخ الاسلام ابن تیمیہ) بدعات اور مشرکانہ رسوم اور اعتقادی اور اخلاقی گمراہیوں کے خلاف سخت جہاد کیا اور اس سلسلہ میں بڑی مصیبتیں اٹھائیں۔ اسلام کے چشمۂ صافی میں اس وقت تک جتنی آمیزش ہوئی تھیں اس اللہ کے بندے نے ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑا ایک ایک کی خبرلی اور ان سب سے چھانٹ کر ٹھیٹھ اسلام کے طریقہ کو الگ روشن کرکے ساری دنیا کے سامنے رکھ دیا ۔ اس تنقید وتنقیح میں اس شخص نے کسی کی رو رعایت نہ کی، بڑے بڑے آدمی جن کے فضل وکمال کاسکہ مسلمانوں کی ساری دنیا پر بیٹھا ہوا تھا جن کے نام سن کر لوگوں کی گردنیں جھک جاتی تھیں ابن تیمیہ کی تنقید سے نہ بچ سکے، وہ طریقے اور اعمال جو صدیوں سے مذہبی حیثیت اختیار کئے ہوئے تھے جن کے جواز بلکہ استحباب کی دلیلیں نکال لی گئی تھیں اور علماء حق بھی جن سے مداہنت کررہے تھے، ابن تیمیہ نے ان کو ٹھیٹھ اسلام کے منافی پایا اور ان کی پرزور مخالفت کی، اس آزاد خیالی ، صاف گوئی کی وجہ سے ایک دنیا ان کی دشمن ہوگئی اور آج تک دشمنی چلی آرہی ہے۔ جو لوگ ان کے عہد میں تھے انہوںنے مقدمات کراکے کئی بار جیل بھیجوایا، اور جو بعد میں آئے ان کی تکفیر وتضلیل کرکے اپنا دل ٹھنڈا کیا مگر اسلام خالص ومحض کے اتباع کا یہ صور پھونکا تھا اس کی بدولت ایک مستقل حرکت دنیا میں پیدا ہوگئی۔ (تجدید واحیائے دین: ۷۸-۷۹)

اس زبردست کارنامے کی تعریف امام حدیث علامہ ذہبی نے ان الفاظ میں کی ہے :’’(ابن تیمیہ نے خالص سنت اور طریقۂ سلف کی حمایت کی اور اس کی تائید میں ایسے دلائل اورایسے طریقوں سے کام لیا جن کی طرف ان سے پہلے کسی کی نظر نہ گئی تھی‘‘۔ (الرد الوافر: ۱۷)

(۲)فکر اسلامی کی احیاء

شیخ الاسلام کے کارہائے تجدید واحیاء دین کا ایک تابناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے علمی وفکری جمود کو توڑا اور علوم شریعت کی تجدید کی، تقلید جامد کے خلاف نہ صرف ہلا بولا بلکہ قرون اولیٰ کے مجتہدین کے انداز میں اجتہاد کرکے دکھادیا۔ کتاب وسنت اور آثار صحابہ سے براہ راست استنباط اور مختلف مذاہب کے درمیان آزادانہ محاکمہ کیا اور اگر کسی مسئلہ میں جمہور اہل علم کے دلائل کمزورپایا تو جمہور کی روش سے بھی الگ ہوگئے۔ ان کے زمانے کے علماء جو اپنے گروہ کے فقہی دائرے سے سرمو قدم مخالفت بھی جرم سمجھتے تھے اور قرآن وحدیث کو ان فقہی مسلکوں اور اپنے گروہ کے عمل کے عینک سے دیکھتے تھے فقہی اختلافات میں قرآن وحدیث کے تابع ہونے کے بجائے قرآن وحدیث کو ہی اپنے امام کے قول کے مطابق ڈھالنے میں لگ جاتے تھے ابن تیمیہ نے اپنی اجتہادی بصیرت اورفقہی صلاحیت، تقابلی فقہ ، ترجیحات اور اختیارات کی ایک نئی راہ ان کے سامنے پیش کی۔

(۳)غیراسلامی ادیان وفرق کی تردید اوران کے عقائد ورسوم کامقابلہ

شیخ الاسلام کا تجدیدی کارنامہ صرف مسلمانوں کی علمی وفکری اور اخلاقی واصلاح پر ختم نہیں، بلکہ انہوںنے غیر اسلامی ادیان وفرق کے فکری یلغاروں کا بھی دندان شکن جواب دیا، چونکہ ان کی پیدائش سے کچھ سال قبل ہی اسلامی دارالخلافہ بغداد ہلاکو خان کی غارت گری سے تباہ ہوچکاتھا، مسلمان سیاسی زوال کے شکار تھے ایسے میں دوسرے مذاہب وادیان نے کروٹ لی اور اسلام پر فکری یلغار بھی شروع کردیا ، چونکہ شیخ الاسلام اپنے زمانہ میں اسلام کے وکیل تھے انہوںنے دشمنوں کے ایک ایک حملہ کا منہ توڑ جواب دیا۔ ان کے زمانے میں سائپرس کے ایک عیسائی نے مسیحیت کے اثبات اور اسلام کے خلاف ہنگامہ خیز کتاب لکھی۔ شیخ الاسلام کی رگ حمیت بھڑکی اوار اس کتاب کا جواب دیا کہ ان کے معاصرین ہی نہیں بلکہ آج کے علماء بھی انگشت بدندا ں ہیں۔ ابوزہرہ کو لکھنا پڑا:   ’’امام ابن تیمیہ کی مناظرانہ تصنیفات میں یہ کتاب سب سے زیادہ ٹھنڈی وپرسکون ہے یہ کتاب تنہا ان کو باعمل علماء ، مجاہد ، ائمہ اور غیر فانی مفکرین کا مرتبہ دلانے کے لئے کافی ہے‘‘۔ (ابن تیمیہ ، حیاتہ وعصرہ، آراؤہ وفقہہ: ۵۱۹)

(۴) فلسفہ ومنطق پر تنقید اور کتاب وسنت کے طرز گفتگو کی پرزور تائید

شیخ الاسلام کے زمانہ میں منطق وفلسفہ کا طوطی بولتا تھا اس کے مسائل ومباحث کی سمجھ ذہانت وذکاوت کا معیار سمجھی جاتی ، کسی کو اس کے مقابلہ میں بولنے کی جرأت نہ تھی عام علماء اسلام تو اس میدان کے آدمی ہی نہیں تھے، مسلم دنیا پرفلسفہ کا رعب چھایا ہوا تھا۔  غزالی جیسا شخص فلسفہ کی عشوہ طرازیوں سے نہیں بچ سکا۔

شیخ الاسلام نے فلسفہ ومنطق کا ناقدانہ مطالعہ کیا، ان فلاسفہ کی ایک ایک بات کی خبر لی ان کے علمی قلعہ میں گھس کر انہیں شکست دی،اس کی علمی کمزوریوںکا پردہ اس طرح فاش کیا کہ عقلیات کے میدان میں فلسفہ ومنطق کا زور اور تسلط ہمیشہ کے لئے ڈھیلا ہوگیا۔ بقول شبلی نعمانی علامہ موصوف اگر نہایت متعصب متقشف اورفلسفہ کے سخت دشمن تھے تاہم چونکہ تقلید کے پابند نہ تھے اور حق وباطل کی تمیز رکھتے تھے اس لئے متکلمین اور حکماء کے مقابلہ میں ہرجگہ نہایت انصاف سے رائے دی ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’باقی حکماء یونان نے علوم طبعی اور ریاضی کے متعلق جو کچھ کہا تو ان علوم میں ان کے اقوال بہ نسبت متکلمین کے زیادہ صحیح ہوتے ہیں کیونکہ ان علوم میں متکلمین کا اکثر کلام نہ علم پر مبنی ہے نہ عقل پر نہ شریعت پر ‘‘ (علم الکلام :۸۵-۸۶)

شیخ الاسلام کا دوٹوک قول ہے : ’’إن کنت دائما اعلم ان المنطق إلیہ فان لایحتاج إلیہ الذکی ولاینتفع بہ البلید‘‘۔ (الرد علی المنطقیین:۲۰۱) یونانی فلسفہ ومنطق کی تنقید کے باب میں شیخ الاسلام کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: امام ابن تیمیہ کا یہ مجتہدانہ کارنامہ اور فلسفہ ومنطق یونان کے علمی تنقید ومحاسبہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور نئے اجتہاد وتفکر کا دروازہ کھولتا ہے۔ (تاریخ دعوت وعزیمت: ۲؍۲۵۸)

حرف آخر

حقیقت یہ ہے کہ شیخ الاسلام کی زندگی کا ایک ایک لمحہ تجدیدی واصلاحی کام سے عبارت ہے۔ بقول سراج الدین الوحفص البزار:   ’’ایسا معلوم ہوتا تھا کہ علم ان کے رگ وریشہ میں سرایت کرگیا ہے اور گوشت پوست بن گیا ہے۔ علم ان کے لئے کوئی عارضی ووقتی مانگنے کی چیز نہیں تھی بلکہ یہ ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔‘‘( الکواکب الدریۃ: ۱۵۶) ابن حجر عسقلانی صاحب فتح الباری کا قول ہے:  ’’بلاشبہ وہ اپنے زمانے کے شیخ المشائخ ہیں‘‘۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شیخ الاسلام کی شخصیت ایک تراشے ہوئے ہیرے کی سی ہے جس کے متعدد پہلو ہیں اور ہر پہلو کے کئی عکس اور عکس میں ہزار رنگ ہے۔

شیخ الاسلام کا اثر آنے والی نسلوں پر

میں اپنے مضمون کا اختتام علامہ علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی ایک عبارت پرختم کرتا ہوں جس میں انہوںنے شیخ الاسلام کی دعوت اوراس کے اثر پر روشنی ڈالی ہے: ’’امام ابن تیمیہ کا تجدیدی کارنامہ ہے کہ انہوں نے جس طرح کتاب وسنت کو عقائد کا ماخذ بنانے کی پرزور دعوت دی اور خود کا میابی کے ساتھ اس پر عمل کیا، اسی طرح کتاب وسنت کو فقہیات اور احکام کا ماخذ بنانے اور ان کو حق کا معیار قرار دینے کی طاقت ور دعوت دی اور اپنے زمانہ میں اس پر عمل کرکے دکھایا۔ ’’فإن تنازعتم فی شیء فردوہ إلی اللہ والرسول‘‘ (النساء:۵۱) پر عمل کا نمونہ پیش کیا ، فقہی دائروں اور امت کے علمی حلقوں میں عرصہ سے نئے غور وفکر اوراحکام ومسائل کے کتاب وسنت سے اخذ کرنے کا کام بند ہوگیا تھا اور اجتہاد واستنباط کا سلسلہ عرصہ سے مسدود تھا، اب نئی علمی وفکری حرکت اور براہ راست کتاب وسنت کی طرف رجوع کی تحریک پیدا ہوئی اس طرح  انہوںنے صحیح اسلامی فکر کا احیاء کیا جو قرون اولیٰ میں پائی جاتی تھی اور مسلمانوں کی زندگی کی بنیاد تھی ۔وہ اپنے ان تمام علمی وعملی کارناموں کی بناپر تاریخ اسلام کی چیدہ شخصیتوں میں سے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اس دین کی تجدید واحیاء کا کام لیا۔ وذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم (الجمعۃ: ۴)

مشمولہ: شمارہ فروری 2017

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223