اسلام کے مطابق شارع اور قانون ساز صرف اللہ ہے۔ شریعت اور قانون دینے کا حق صرف اسی کو ہے۔ بندے کا کام اس کی اتباع ہے، اس میں ترمیم و تنسیخ کی اسے اجازت نہیں ہے۔ وہ ان تمام احکام کا پابند ہے، جو اللہ تعالیٰ نے دیے ہیں۔ اسے اسی حد تک آزادی حاصل ہے، جس حد تک اللہ نے اسے آزادی دی ہے۔ اللہ کا یہ قانون فرد کی نجی اور شخصی زندگی سے لے کر معاشرتی، معاشی اور سیاسی شعبوں تک حاوی ہے۔ اسلامی قانون نے زندگی کے بعض مسائل میں پوری تفصیلات فراہم کی ہیں۔ جیسے عبادات، ان کے اوقات، ان کے طریقے اور ان کے آداب سب اس نے بتادیے ہیں۔زمان و مکان اور حالات کے لحاظ سے ان میں جو فرق واقع ہوسکتا ہے اس کی بھی وضاحت کردی ہے۔اسی میں اسلام کا خاندانی اور عائلی نظام بھی آتا ہے۔ اس کی تفصیلات بھی بڑی حد تک قرآن و حدیث میںموجود ہیں۔بعض مسائل میں اہلِ علم نے مزید تفصیلات مرتب کی ہیں، جیسے معیشت، تجارت اور لین دین کے احکام، بعض مسائل میں اسلام نے صرف اصولی ہدایات دی ہیں، تفصیلات کو حالات اور زمانے پر چھوڑ دیا ہے، جیسے سیاسی اور انتظامی امور، جنگ و صلح کے اصول اور اسی نوعیت کے دوسرے مسائل۔ ان ہی میں شوریٰ کا تفصیلی طریقِ کار بھی ہے۔
پس منظر
شوریٰ کا تصور اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں بھی تھا۔ اسلام نے اسے برقرار رکھا او رمطلق العنانی کے مقابلہ میں یہ اصول پیش کیا کہ معاملات رائے اور مشورے سے طے ہونے چاہئیں۔ اہلِ ایمان کی ایک اہم خوبی کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے: وامرہم شوریٰ بینہم (الشوریٰ:۳۸) یعنی ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا:
وشاورہم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللّٰہ۔ (آل عمران:۱۵۹)
’’ان سے معاملات میں مشورہ کرو پھر جب پکا ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو (اور اقدام کرو)۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی متعدد احادیث میں شوریٰ کی فضیلت اور امت کے اجتماعی نظام کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت بیان ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم میں سے بہتر لوگ تمہارے امیر ہوں، تمہارے دولت مند بڑے دل والے ہوں اور تمہارے معاملات تمہارے درمیان مشورے سے طے ہوں تو زمین کے اوپر کا حصہ تمہارے حق میں اس کے نیچے کے حصے سے بہتر ہوگا۔ لیکن جب تمہارے بدترین افراد تمہارے امیر ہوں، تمہارے اندر دولت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے حوالے ہوجائیں تو بطنِ زمین تمہارے لیے اس کی پشت سے بہتر ہوگا۔‘‘
ان تعلیمات پر عمل کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:
’’میں نے کسی کو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘
اس معاملے میں ائمہ اور خلفاء کے طرزِ عمل کو امام بخاری نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’نبی ﷺ کے بعد ائمۂ امت اہلِ علم میں سے امانت دار افراد سے عام معاملات میں مشورہ کرتے تھے، تاکہ زیادہ آسان صورت پر عمل کرسکیں۔ جب کتاب و سنت کی واضح تعلیمات سامنے آجاتیں تو نبیﷺ کے اسوہ پر عمل کرتے تھے اور کسی دوسری طرف قدم نہیں اٹھاتے تھے۔‘‘
شورائیت کا وسیع تصور
اسلام نے معاشرہ کے اندر یہ ذوق اور رجحان پیدا کیا ہے کہ ہر فرد اپنے ذاتی اور شخصی معاملات سے لے کر امورِ سیاست تک ہر معاملہ میں مشورے کا عادی ہو اور یہ چیز اس کے مزاج میں رچ بس جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعض نجی معاملات میں بھی صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ اس کی ایک نمایاں مثال واقعۂ افک ہے۔ جب حضرت عائشہؓ پر بہتان طرازی کی گئی تو آپ نے حضرت علیؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ سے، جو آپ کے خانگی حالات سے زیادہ باخبر تھے، مشورہ کیا۔ اسی طرح جب قرآن شریف میں یہ آیت نازل ہوئی:
یاایہا النبی قل لأزواجک ان کنتن تردن الحیوٰۃ الدنیا و زینتہا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا۔ (الاحزاب:۲۸)
’’اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں متاعِ دنیا دے دوں اور اچھی طرح چھوڑدوں۔‘‘
تو آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو یہ آیت سنائی اور فرمایا کہ اس معاملہ میں تم جلدی نہ کرو اور اپنے والدین سے مشورہ کرلو، پھر مجھے بتاؤ۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ اس معاملہ میں مجھے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے، میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو چاہتی ہوں۔
ایک صحابیہ فاطمہ بنت قیسؓ کو طلاق ہوگئی تھی۔ عدت گزارنے کے بعد انھوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے معاویہ بن ابوسفیانؓ اور ابوجہمؓ نے نکاح کا پیغام دیا ہے، اس میں آپ سے مشورہ چاہتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ابوجہم تو عورتوں کو بہت مارتے ہیں اور معاویہ بن ابوسفیان خستہ حال ہیں۔ ان کے پا س پیسہ نہیں ہے۔ (کہ بیوی بچوں کا خرچ برداشت کرسکیں) آپؐ نے فرمایا: تم اسامہؓ سے شادی کرلو۔ چناںچہ میں نے ان سے شادی کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ میں بڑی خیروبرکت رکھی کہ لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے۔خاندانی زندگی میں عورتوں سے بھی رائے مشورہ حاصل کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس ذیل میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’عورتوں سے ان کی بچیوں (کی شادی وغیرہ) کے بارے میں مشورہ کرو۔‘‘
اجتماعی معاملات میں مشورہ کی اہمیت
ذاتی معاملات کے علاوہ اجتماعی معاملات میں بھی اسلامی مزاج یہی ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ میرے سامنے آئے جس میں اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم نازل نہ کیا ہو اور سنت میں بھی کوئی حکم نہ ہو تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ آپؐ نے فرمایا:
’’اس معاملہ کو تم ان لوگوں کے مشورے سے طے کرو جو اہل ایمان میں عبادت گزار اور فہم و بصیرت والے ہیں اور کسی ایک شخص کی رائے پر فیصلہ نہ کرو۔‘‘
حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی مسئلہ آتا تو کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرماتے۔کتاب اللہ میں اس سے متعلق کوئی حکم نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کرتے۔ سنت میں بھی کوئی واضح ہدایت نہ ہوتی تو جو طریقہ کار وہ اختیار کرتے اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’مسلمانوں کے سرداروں اور بہترین لوگوں کو جمع فرماتے اور ان سے مشورہ فرماتے۔ جب ان کی رائے کسی بات پر متفق ہوجاتی تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔‘‘
یہی طریقہ حضرت عمرؓ کا تھا۔ وہ کتاب و سنت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے فیصلوں کو دیکھتے (جو صحابہ کرامؓ کے مشوروں سے ہوتے تھے)۔ اگر زیر بحث معاملہ میں حضرت ابوبکرؓ کا بھی کوئی فیصلہ نہ ملتا تو ان کے اسوہ پر عمل فرماتے۔ یعنی
’’مسلمانوں کے سرداروں اور ان کے اہلِ علم کو جمع کرتے، ان سے مشورہ کرتے، جب وہ کسی بات پر اتفاق کرلیتے تو اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ فرماتے۔‘‘
قاضی شریح کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا : کتاب اللہ کا جو حکم تم پر واضح ہو، اس کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر تمہیں کتاب کا علم نہ ہو تو رسول اللہ ﷺ کا جو فیصلہ وضاحت کے ساتھ تمہارے پاس موجود ہو اس کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر تمہیں رسول اللہ ﷺ کے تمام فیصلوں کا علم نہ ہو تو ہدایت یافتہ ائمہ کا جو فیصلہ تمہیں واضح طور پر مل جائے اس کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر ائمہ نے جو فیصلے کیے ہیں اس کا بھی پورا علم نہ ہو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرو اور اہلِ علم و تقویٰ سے مشورہ کرو۔
محارب بن دثار کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے دمشق کے ایک قاضی سے پوچھا: فیصلہ کیسے کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے مطابق۔ آپ نے پوچھا اگر کوئی ایسا مسئلہ ہو جو اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی سنت بھی موجود نہ ہو تو کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہوں اور اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: بہت خوب۔
سیاسی معاملات میں شورائی طریقِ کار
اہلِ ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پیش آمدہ تمام اہم معاملات باہم مشورہ سے طے کریں۔ اس کا تعلق عام امور ہی سے نہیں، سیاست سے بھی ہے۔ اس کی نمایاں مثال خلیفہ کا انتخاب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خلافت کے لیے کسی شخص کو نام زد نہیں فرمایا اور اس معاملے کو امت کے حوالہ کردیا۔ یعنی امت باہم مشورے سے کسی شخص کو خلیفہ منتخب کرسکتی ہے۔ چناںچہ امت کے اربابِ حل و عقد نے باہم مشورے سے حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ لیکن روایاتِ تاریخ بتاتی ہیں کہ انھوں نے یہ کام اکابر صحابہؓ کے مشورہ سے کیا تھا۔ بعض صحابہ کو اس میں تردد تھا، لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انھیں مطمئن کیا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے مرض الموت میں صحابۂ کرامؓ کو جمع کرکے فرمایا: ’’میرا وقت قریب آگیا ہے، تم جسے چاہو اپنا امیر منتخب کرلو۔ یہ کام میری زندگی میں ہوجائے تو اچھا ہے۔ اس سے اختلاف سے بچ سکو گے۔‘‘ صحابہؓ نے غوروفکر کیا، لیکن جب کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے تو حضرت ابوبکرؓ سے کہا: اس معاملہ میں جو آپ کی رائے ہو وہی ہماری رائے ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے وقت مانگا اور پھر غوروفکر (غالباً اکابر صحابہ کے مشورہ) کے بعد حضرت عمرؓ کا نام فیصلہ کیا اور عہد نامہ لکھوادیا۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ فرد واحد کا انتخاب نہیں تھا، بلکہ صحابہ کی تائید اور مشورے سے حضرت ابوبکرؓ کی جانشینی کا معاملہ طے ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ کا انتخاب اس مجلس نے کیا جسے حضرت عمرؓ نے متعین کیا تھا اور جس پر مسلمانوں کو اعتماد تھا۔ امت کے اندر اس مجلس کے افراد کی حیثیت مسلم تھی۔ حضرت عمرؓ نے تعیین نہ بھی فرمائی ہوتی تو انھیں میں سے خلیفہ کا انتخاب ہوتا۔ حضرت علیؓ کا انتخاب اہلِ مدینہ نے کیا جو اس وقت اربابِ حل و عقد تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ کا انتخاب شورائی طریقے سے ہونا چاہیے۔ اسلام نے شوریٰ کا حکم دیا ہے، اس کی شکل متعین نہیں کی ہے۔ کوئی مناسب شکل اختیار کی جاسکتی ہے، جس میں عوام کے نمائندوں یا اربابِ حل و عقد کی شرکت ہو۔ مشورے کے بغیر جو انتخاب ہوگا وہ غلط ہوگا۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کا یہ قول پیشِ نظر رہنا چاہیے جس میں آپ نے فرمایا:
’’جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی کی بیعَت کی ، تو اس کی بیعَت کا اعتبار نہ ہوگا۔‘‘
اس کی تشریح میں علامہ ابنِ اثیر نے لکھا ہے کہ قوم کے سربرآوردہ افراد کے مشورے اور اتفاق کے بعد ہی بیعت ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی شخص ان کے اتفاق کے بغیر کسی کے ہاتھ پر بیعت کرے تو بڑے جرم کا ارتکاب کرے گا۔خلیفہ کا انتخاب، اسلامی ریاست کا بنیادی مسئلہ ہے۔ اسی پر دوسرے اہم مسائل کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کی سیرت سے ثابت ہے کہ ریاست کے تمام اہم معاملات میں وہ اربابِ حل و عقد سے مشورہ فرماتے تھے۔
مشورہ اور خیرخواہی
اسلام نے امت کے اندر شوریٰ کا مزاج پیدا کیا۔ اس کی ترغیب دی اور تاکید کی، خودرائی اور استبداد سے منع کیا۔ دوسری طرف جس فرد یا جن افراد سے مشورہ کیا جائے انھیں اخلاص و خیرخواہی کے ساتھ مشورہ دینے کا حکم دیا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ مشورہ طلب کرنے والا جس سے مشورہ طلب کرتا ہے اسے اپنا رازداں اور اپنی امانت کا محافظ بناتا ہے۔ اسے اس کا بہترین خیرخواہ ہونا چاہیے۔ اسے کوئی ایسا مشورہ نہیں دینا چاہیے، جس میں دنیا اور آخرت کا نقصان ہو ورنہ وہ اس کے ساتھ خیانت کرے گا۔
یہی بات ایک دوسری حديث میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے:
’’جس نے اپنے کسی بھائی کو ایک بات کا مشورہ دیا جب کہ وہ جانتا تھا کہ اس کے لیے رشد و فلاح دوسری چیز میں ہے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔‘‘
اسلام نے سیاسی امور کو مشورہ سے طے کرنے کی ہدایت کی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ خلیفہ اور حاکم کے مشیروں میں کیا اوصاف ہونے چاہئیں اور اسے کن لوگوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ جب کسی امیر کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے سچا اور مخلص وزیر دیتا ہے۔ اگر امیر بھول جائے تو اسے وہ یاددلاتا ہے اور اگر کسی اچھی بات کا ارادہ کرے تو اس پر عمل کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی امیر کے ساتھ کوئی دوسری بات چاہتا ہے تو اس کے ساتھ برا وزیر لگادیتا ہے۔ اگر امیر کسی بات کو بھول جائے تو اسے یاد نہیں دلاتا اور اگر اس کا ذکر کرے تو اس میں اس کی مدد نہیں کرتا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو حاکمِ وقت کو خیروصلاح کا مشورہ دیں، بدی اور شر سے اسے روکیں،معروف کی ترغیب دیں اور منکر سے باز رکھیں۔ کسی ذمہ داری کے ادا کرنے میں غفلت ہو تو یاددہانی کرائیں اور بندگانِ خدا کے حقوق ادا کرنے میں قدم قدم پر اس کی معاونت کریں۔ یہ مشیر ہر عمر اور ہر طبقہ کے لوگ ہوسکتے ہیں بشرطے کہ ان کے اندر دینی بصیرت پائی جائے۔ حضرت عمرؓ کے بارے میں آتا ہے:
’’قرآن کا علم رکھنے والے حضرت عمرؓ کی مجلس کے افراد اور ان کے مشیر تھے، چاہے وہ عمر رسیدہ ہوں یا جوان۔‘‘
کیا مشورہ لازم ہے؟
ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سربراہِ مملکت کے لیے امورِ مملکت میں مشورہ ضروری ہے یا محض پسندیدہ عمل ہے؟ اس سلسلے میں قرآنِ مجید نے رسول اللہ ﷺ سے کہا ہے:
وشاورہم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللّٰہ۔ (آل عمران:۱۵۹)
’’اور ان سے معاملات میں مشورہ کیجیے، پھر جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کیجیے (اور اقدام کیجیے)۔‘‘
فقہاء کے درمیان اس امر میں اختلاف رہا ہے کہ مشورہ آپ کے لیے واجب تھا، یا محض صحابہ کرامؓ کی تطییبِ قلب اور دل جوئی کے لیے یہ حکم دیا گیا؟ اس بحث کا تعلق رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی اور منصبِ رسالت سے بھی ہے۔ اس سے قطع نظر، اس حکم کو اگر آپ کے ساتھ مخصوص نہ سمجھا جائے اور امت کو اس کا مخاطب مانا جائے تو بظاہر سربراہِ مملکت کے لیے مشورہ ضروری قرار پائے گا۔ اس لیے کہ معروف قاعدہ ہے کہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔
اب اس کے بعد دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کیا اسلامی ریاست کا سربراہ مشیروں کے مشوروں کا پابند ہے یا اس کے خلاف بھی عمل کرسکتا ہے؟ اس کا جواب ایک حدیث میں ہمیں ملتا ہے جو حضرت علیؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ سے اس عزم کے بارے میں پوچھا گیا (جس کا قرآن میں ذکر ہے) آپؐ نے فرمایا: اہل الرائے سے مشورہ کرنا اور اس کے مطابق عمل کرنا۔‘‘
یہ حدیث بتاتی ہے کہ کسی بھی معاملہ میں اقدام کا عزم اور پختہ ارادہ اس مشورے کے مطابق ہوگا، جو اہل الرائے اور مشیرانِ کار کی طرف سے دیا جائے گا۔
اس ذیل میں ایک مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سربراہِ مملکت ہر معاملہ میں اہل الرائے کا پابند ہوگا؟ ہمارے خیال میں جن امور کا تعلق بنیادی پالیسی سے ہو ان میں سربراہ کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ اس کے خلاف کوئی اقدام اس کے لیے صحیح نہ ہوگا۔ البتہ جزوی اور فروعی مسائل میں وہ مشورہ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن اس کی پابندی اس کے لیے ضروری نہ ہونی چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2016