آج کی محفل میں ہم سوشل انجینئرنگ یا سماجی تبدیلی کے اُن گہرے منصوبوں کو زیر بحث لائیں گے جو باطل طاقتیں اپنے مقاصد کے لیے اختیار کررہی ہیں ۔ اس بحث سے سوشل انجینئرنگ کی منصوبہ بند کوششوں کے عملی نمونے بھی ہمارے سامنے آئیں گے اوراب تک کی بحث مزید واضح ہوگی۔ اس کے ساتھ یہ بھی اندازہ ہوگا کہ بڑی طاقتیں سماج کو بدلنے کے لیے کس بڑے پیمانے پر اور کتنے منصوبہ بند طریقے سے کام کررہی ہیں اور اُن کے مقابلے میں اگرہم سماج میں صالح تبدیلی چاہتے ہیں تو ابھی کیا کچھ اور کتنا کچھ کرنا باقی ہے؟
اس وقت سماج میں تبدیلی لانے کے لیے بڑی طاقتیں کئی محاذوں پر کام کررہی ہیں ۔ مسلم سماج میں تبدیلی کے اہم اہداف میں ،” انقلابی سوچ” اور “بنیاد پرستی” کا خاتمہ، نام نہاد” ماڈریٹ اسلام” کا فروغ، حقوق نسواں اور آزادی نسواں کے مغربی ماڈل کانفاذ، جمہوریت اور حقوق انسانی کی ترویج، تعلیم اور جدید تعلیم کی اشاعت، غربت کا ازالہ و غیرہ جیسے امور شامل ہیں ۔ آج کی بحث کے لیے ہم نے سماجی تبدیلی سے متعلق ان طاقتو ں کا ایک ایسا ہدف منتخب کیا ہے جس پر اس وقت بڑا زور ہے اور ایک طرح سے جو اسلامی دنیا اور مغربی دنیا کے درمیان فکری وتہذیبی کشمکش کے بنیادی عوامل میں سے ایک عامل ہے، یعنی جنسی مساوات (gender equality) اور جنسی آزادی (sexual freedom)کے تصورات۔ان تصورات کی بنیاد پر سماج کو بدلنے کے لیے جو منظم کوششیں ساری دنیا میں ہورہی ہیں ، اُن کا مختصر تجزیہ ذیل کی سطور میں کیا جارہا ہے۔
جنسی مساوات اور بیجنگ لائحہ عمل
اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ جنسی مساوات اور جنسی آزادی سے متعلق مغربی دنیا کے کچھ خاص تصورات ہیں اور وہ ا ن تصورات کی بنیاد پر ساری دنیا میں سماجی تبدیلی لانا چاہتے ہیں ۔ اس مطلوب سماجی تبدیلی کے لیے جو کوششیں ہورہی ہیں وہ زیادہ تر خواتین کی آزادی اور خواتین کے مساوی حقوق کے نام پر انجام دی جارہی ہیں ۔ اس سلسلے میں عالمی سطح پر نہایت منظم کوششوں کا آغاز 1975 میں ہوا۔ اس سال کو اقوام متحدہ نے خواتین کا عالمی سال قرار دیا تھا اور اسی سال جون اور جولائی کے مہینوں میں ، پہلی بین الاقوامی کانفرنس برائے امور نسواں ، میکسیکو میں منعقد ہوئی جس میں 133ملکوں کے وفود نے شرکت کی۔ اس کے بعد جولائی 1980 میں کوپن ہیگن میں اور جولائی 1985 میں نیروبی میں ایسی ہی عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں ۔نیروبی کی کانفرنس میں ایک تفصیلی پلان منظور ہوا تھا جسے ‘نیروبی ترقی پسند حکمت عملی برائے ترقی نسواں ’ (Nairobi forward-looking strategies for the advancement of women)کہا گیا۔[1]لیکن جس کانفرنس نے ان سماجی مقاصد کی صورت گری میں بہت اساسی کردار ادا کیا وہ ستمبر 1995 کی کانفرنس تھی جو چین کے شہر بیجنگ میں منعقد ہوئی۔ اس عالمی کانفرنس میں 189 ملکوں کے وفود نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں دو اہم دستاویزات منظور کی گئیں ۔ ایک بیجنگ اعلامیہ (Beijing Declaration)اور دوسرے بیجنگ لائحہ عمل (Beijing Platform for Action)۔اس کے بعد سے، اس دستاویز کو، آزادی نسواں کے مغربی تصور کو دنیا بھر میں سماجی سطح پر نافذ کرنے کا نہایت اہم بلیو پرنٹ تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ یہ بلیو پرنٹ ہمارے خیال میں سوشل انجینئرنگ کی ایک بڑی مکمل مثال ہے۔ یہ دستاویز آسانی سے دست یاب ہے۔[2] اس کے مطالعے سے بڑی طاقتوں کے پیش نظر سماجی تبدیلی کے مقاصد سے بھی واقفیت ہوتی ہے اور ان کے گہرے اور ہمہ گیر طریقہ کار سے بھی۔
بیجنگ لائحہ عمل میں بارہ توجہ طلب میدان (areas of concern)متعین کیے گئے ہیں ۔ ہر میدان میں مطلوب اہداف کی بھی وضاحت کی گئی ہے اور ان اہداف کے حصول کے لیے حکومتوں کو کیا کرنا ہے؟ سماجی تنظیموں کو کیا کرنا ہے؟ کمپنیوں کو کیا کرنا ہے؟ ان سب باتوں کی تفصیلی وضاحت بھی موجود ہے۔ ان میں بعض باتیں ہمارے نقطہ نظر سے بہت اچھی بھی ہیں ۔ مثلاً عورتوں پر تشدد کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح دینے کا رجحان ختم ہونا چاہیے۔ عورتوں کے مالی حقوق کا احترام ہونا چاہیے۔ ان کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔ وغیرہ۔لیکن خاص طور پر درج ذیل باتیں ہمارے نقطہ نظر سے سخت قابل اعتراض ہیں اور خاص طور پر، مسلمان معاشروں میں ان حوالوں سے سماجی تبدیلی کی جو کوششیں ہورہی ہیں وہ باعث تشویش ہیں ۔
۱۔ جنسی رول (gender role)کے تصور کا خاتمہ یعنی اس تصور کو ختم کرنا کہ مرد اور عورت کے الگ الگ دائرہ ہائے کار اور ذمے داریاں ہیں ۔بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ تصور ہی ختم کردینا کہ مرد و عورت نام کی دو الگ جنسیں پائی جاتی ہیں ۔
۲۔ جنسی معاملات سے متعلق بے لگام آزادی یعنی زنا اور ہم جنسی کی مکمل آزادی اور اس آزادی پر قدغن لگانے والے سماجی معمولات کو ختم کرنا۔
۳۔ برتھ کنٹرول بلکہ اسقاط حمل کی لامحدود آزادی۔
۴۔ کم عمری میں شادی کی روک تھام لیکن اسی عمر میں ناجائز جنسی تعلق کو ایک اہم حق کے طور پر تسلیم کرنا۔
یہ مقاصد بیجنگ لائحہ عمل میں بڑی وضاحت کے ساتھ درج ہیں ۔ اور ان کی بنیاد پر سماج کو بدلنے کی سنجیدہ کوششیں مسلسل ہورہی ہیں ۔
2015میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پائیدار ترقیاتی اہداف (sustainable development goals) طے کیے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ 2030سے پہلے ساری دنیا میں ان اہداف کو حاصل کرنا ہے اس لیے انھیں ایجنڈا 2030بھی کہا جاتا ہے۔ اس ایجنڈے کے حصول کے لیے تمام ملکوں پر سخت دباو قائم کیا گیا ہے۔ اس میں پانچواں ہدف صنفی مساوات ہے۔ اس کی تشریح میں اوپر درج ساری باتیں شامل ہیں ۔ [3]
اس بات کی کوشش بیجنگ کانفرنس میں اور پھر پائیدار ترقیاتی اہداف کے تعین میں بھی ہوتی رہی کہ جنسی مساوات میں مرد و عورت کے علاوہ ” دیگر جنسیں “)یعنی مختلف قسم کے ہم جنس پرست جنھیں غیر ثنوی جنس (non-binary gender)کہا جاتا ہے (بھی شامل کی جائیں اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کو بھی اس تحریک کا حصہ بنایا جائے۔ بعض ملکوں کی مخالفت کی وجہ سے اس میں کام یابی نہیں ملی لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کے تمام ادارے، جنسی مساوات کی تشریح میں اسے بھی شامل کرتے ہیں اور ہم جنسی کے فروغ و تحفظ کی باقاعدہ کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ [4]
اہداف کے حصول کے لیے ہمہ گیر سماجی منصوبہ
مندرجہ بالا اہداف کے حصول کے لیے سماجی تبدیلی کا جو ہمہ گیر منصوبہ بنایا گیا ہے اور جس منظم طریقے سے سماج کو بدلنے کی کوششیں ہورہی ہیں ان کا اندازہ،لائحہ عمل سے متعلق مختلف دستاویزات سے ہوتا ہے۔
بیجنگ لائحہ عمل (Beijing Platform of Action)ایک تفصیلی دستاویز ہے جو تقریباً 132صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں پہلے مشن واضح کیا گیا ہے۔ پھر 12توجہ طلب امور کی فہرست بیان کی گئی ہے۔ اور اس کے بعد ان میں سے ہر ایک کے سلسلے میں تفصیل سے طے کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کیا کرے گا؟ اس کے منسلک ادارے کیا کریں گے؟ قومی حکومتیں کیا کریں گی؟ اور سماجی تنظیموں کو کیا رول انجام دینا ہوگا۔ ان سب کاموں کے جائزہ و نگرانی کا ایک مکمل نظام بھی اسی دستاویز میں تجویز کیا گیا ہے۔
اس دستاویز میں سوشل انجینئرنگ کے اُن تمام ذرائع کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو ہم اس سلسلہ مضامین میں زیر بحث لارہے ہیں ۔کچھ اہم تدابیر ذیل کے مطابق ہیں ۔
۱۔ حکومتوں پر مختلف نئے قوانین بنانے اور انھیں نافذ کرنے پر زور نیز مختلف موجود قوانین میں ترمیم و اصلاح پر زور، مثلاً خواتین کو مختلف زمروں میں ریزرویشن، بعض رسوم (مثلاً بعض ملکوں میں رائج عورتوں کا ختنہ یا کم عمری کی شادی وغیرہ)پر پابندی عائد کرنے کی سفارشات، کمپنیوں کو خواتین ملازمین کے تقرر پر مجبور کرنے والی پالیسیاں ،عورتوں کی مساوات کے لیے خصوص بجٹ کے لیے دباو وغیرہ۔
۲۔ طرح طرح کی غیر سرکاری تنظیموں کا فروغ اور انھیں بھاری امداد تاکہ لوگوں کے ذہنوں کی تبدیلی اور سماجی معمولات کی تبدیلی میں وہ سرگرم کردار ادا کرسکیں ، اس مقصد کے لیے ریسرچ کرسکیں اور حکومتوں اور غیر سرکاری اداروں کو مشورہ دے سکیں ۔
۳۔ تعلیمی نظام میں اس پہلو سے تبدیلی، نصاب کو بدلنا اور بچوں کے ذہن میں شروع سے جنس اور جنسی آزادی سے متعلق جدید مغربی تصورات کو راسخ کرنا۔ جنسی تعلیم کو اس مقصد کے لیے عام کرنا اور دیگر مضامین کی تعلیم میں بھی یہ پہلو پیش نظر رکھنا۔
۴۔ میڈیا، اخبارات، ٹیلی ویژن چینلز، انٹرنیٹ و غیرہ کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا، جنسی آزادی کو فروغ دینے والے ٹی وی سیریل، سوپ آپیرا، فلموں وغیرہ کی ہمت افزائی کرنا، انھیں ہر طرح کی مدد فراہم کرنا۔
۵۔ مشہور و مقبول شخصیتوں ، فلم اداکاروں ، کھلاڑیوں اور مذہبی وسماجی رہ نماوں کو آمادہ کرنا کہ وہ مطلوب تبدیلی کے رول ماڈل بنیں ۔ ان کی ایسی تصاویر اور ویڈیوز عام ہوں جن میں جنسی آزادی کی قدر سے ان کا گہرا تعلق نمایاں ہو۔ اس کے لیے خصوصی ٹی وی پروگرام وغیرہ چلانا (مثلاً بگ باس جیسے ریالیٹی شو)
۶۔کمپنیوں اور تجارتی اداروں کو اس مقصد کے لیے آمادہ کرنا کہ وہ جنسی آزادی کو فروغ دینے والی پالیسیاں ، اپنے کام کی جگہوں پر اختیار کریں اور اپنی تشہیری مہمات کے ذریعے اس مقصد کے حصول میں تعاون کریں ۔
۷۔ ان سب کے ذریعےسماجی معمولات کی تبدیلی کی ٹھوس منصوبہ بندی اورنئے معمولات کو رواج دینے کی تدابیر اختیار کرنا۔
۸۔ متعلق امور میں حساسیت پیدا کرنے یا مزاحم امور کے سلسلے میں حساسیت ختم کرنے کے لیے ٹھوس پروگرام اختیار کرنا۔
پلیٹ فارم آف ایکشن میں سماجی تنظیموں کےلیے، رہ نماوں کے لیے، علمی اداروں اور یونیورسٹیوں کےلیے، اخبارات اور میڈیا کے لیے، حتی کہ تجارتی کمپنیوں کے لیے بھی خصوصی منصوبے تجویز کیے گئے ہیں ۔ ان منصوبوں کو طرح طرح کی ترغیبات کے ساتھ جوڑا جاتاہے۔ مثلاً حکومتوں سے متوقع اقدامات کے ساتھ امدادی پیکیج اور قرضے جوڑ دیے جاتے ہیں ۔ اگر حکومتوں کو امداد حاصل کرنی ہے یا قرضے لینے ہیں تو انھیں ان سفارشات پر عمل کرنا ہوگا۔ غیر سرکاری تنظیموں کو ان مقاصد پر کام کرنے کے لیے بھاری مالی امداد کی پیش کش کی جاتی ہے۔ بڑی کمپنیوں کو ان منصوبوں کے نفاذ میں آگے لانے کے لیے طرح طرح کے پیکیج فراہم کیے جاتے ہیں اور بڑے ملکوں میں ان کی تجارتی توسیع کو ان پالیسیوں کے ساتھ مشروط کیا جاتاہے۔
دنیا بھر میں ان امور کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ایک پورا نظام قائم کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مختلف ذیلی اداروں ، مثلاً یونیسیف(United Nations International Children’s Emergency Fund)، یو این ڈی پی (United Nation Developmental Programme)، یو این ایف پی اے، (United Nations Fund for Population Activities)، وغیرہ کو کچھ اہم کام دیے گئے۔ بعض کاموں کے لیے بالکل نئے ادارے تشکیل دیے گئے۔ اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ایک خصوصی فنڈ تشکیل دیا گیا جسے ‘اقوام متحدہ ترقیاتی فنڈ برائے خواتین’ (United Nations Development Fund for Women)کہا جاتا ہے۔ایک خصوصی آفس قائم کیا گیا جسے ‘دفتر خصوصی مشیر برائے صنفی امور اور ترقی نسواں ’ (Office of the Special Adviser on Gender Issues and Advancement of Women) کہتے ہیں اور ‘بین الاقوامی تحقیقی او تربیتی ادارہ برائے ترقی نسواں’ International Research and Training Institute for the Advancement of Women کے نام سے ایک علمی و تحقیقی ادارہ بھی قائم کیا گیا۔چند سال پہلے بیجنگ لائحہ عمل سے متعلق تمام اداروں کو ایک دوسرے سے وابستہ کرکے ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا جس کا نام ‘اقوام متحدہ اکائی برائے صنفی مساوات و تمکین نسواں ’ (United Nation Entity for Gender Equality and Empowerment of Women) ہے۔ اسے عرف عام میں ‘ اقوام متحدہ خواتین’ (UN Women) بھی کہا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ نے ان تمام اداروں کو یہ ذمے داری دی کہ وہ حکومتوں ، سماجی تنظیموں ، میڈیا، تجارتی کمپنیوں ، بااثر افراد، وغیرہ کو ان مقاصدکے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر استعما ل کرے اور ان کے ذریعے سماج میں اس رخ پر ٹھوس تبدیلی کو یقینی بنائے۔
ان اہداف کے حصول کی سمت پیش رفت کے جائزے کا ایک ٹھوس منصوبہ بنایا گیا۔ اس جائزے کا کام ایک مستقل ادارے کے سپرد کیا گیا جسے ‘کمیشن برائے صورت حال خواتین’ (Commission on the Status of Women -CSW)کہتے ہیں [5]۔اس کمیشن کے تحت، بیجنگ لائحہ عمل پر عمل آوری کے جائزے کے لیے، ہر پانچ سال بعد اقوام متحدہ کی خصوصی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پہلے جائزے کے لیے 2000ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس کی سیاسی قرارداد میں ان مزید اقدامات (Further Actions and Initiative to Implement the Beijing Platform for Action)کی تفصیل بتائی گئی ہے جو بیجنگ کانفرنس کے مقاصد کے حصول کے لیے درکار ہیں ۔[6]اقوام متحدہ کی خصوصی کانفرنسوں کے علاوہ خود یہ کمیشن اپنے اجلاس منعقد کرتا ہے جن میں تفصیل سے عمل آوری کی کوششیں ، ان کے نتائج وغیرہ زیر بحث لائے جاتے ہیں ۔بیجنگ کا نفرنس کے بعدسے اب تک اس کمیشن کے چھبیس اجلاس ہوچکے ہیں ۔[7]
اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام (UNDP)کی رپورٹ
اس منصوبے پر اقوام متحدہ کے مختلف ادارے کس طرح منصوبہ بند طریقے سے کام کررہے ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام کی ایک اہم رپورٹ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ سماجی معمولات کا مقابلہ[8]
Tackling Social Norms: A Game Changer for Gender Inequalities
کے عنوان سے یہ رپورٹ چند ماہ پہلے شائع ہوئی۔ اقوام متحدہ کے مذکورہ منصوبوں پر پچیس سال کام کرنے کے بعد دنیا کے کئی ملکوں میں گہری اسٹڈی کرکے انھوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ جنسی تفریق سے متعلق معمولات (social norms) کو بدلنے میں کتنی کام یابی حاصل ہوئی ہے؟ ایک پیچیدہ اشاریہ تشکیل دیا گیا جسے اشاریہ برائے صنفی سماجی معمولات Gender Social Norms Index (GSNI)کا نام دیا گیا۔ اس رپورٹ میں تقریباً پچہتر ملکوں کا اس اشاریہ جی ایس این آئی کی بنیاد پر اسکوردیا گیا ہے اور ساتھ ہی سال بہ سال اس میں کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں اس کے رجحانات (trends) ظاہر کرنے والے جدول بھی فراہم کیے گئے ہیں ۔[9] اس رپورٹ میں اُن مختلف طریقوں کی تفصیل موجود ہے جو سماجی معمولات بدلنے کے لیے مقامی حالات اور مقامی روایات کو اچھی طرح سمجھ کر اختیار کیے گئے۔ مثلاً یوگنڈا میں نوعمروں کو ٹارگیٹ کیا گیا۔ اور رات میں آگ کے کنارے بیٹھ کر (Wangoo) یا قبائیلی داستان گوئی (Acholi)جیسے روایتی طریقوں کو اختیار کرکے صنفی مساوات اور جنسی آزادی کے مغربی تصورات انھیں ذہین نشین کرائے گئے۔ گھانا اور مالاوی میں 2003 سے 2008 تک ایک پانچ سالہ مہم اساتذہ کو ٹارگیٹ کرکے چلائی گئی تاکہ جنس سے متعلق ان کے تصورات میں تبدیلی لائی جائے اور اساتذہ کے بدلے ہوئے تصورات ان کے طلبا پر اثر اندا زہوں ۔[10]ان مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ لگے بندھے طریقے کے بجائے مقامی سماجوں کی گہری اسٹڈی کرکے ایسے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جو ان سماجوں پر اثر انداز ہوسکیں اور وہاں ٹھوس تبدیلی لانے میں کارگر ہوسکیں ۔
حساسیت ختم کرنے کی کوشش
سماجی رویہ کو بدلنے کے لیے بعض امور میں حساسیت پیدا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور بعض امور میں موجود حساسیت کو ختم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔جنسی آزادی کے مذ کورہ تصورات پر عمل آوری کے لیے ضروری ہے کہ روایتی سماجوں میں جنسی امور سے متعلق پہلے سے موجود حساسیت کو ختم کیا جائے۔ اس کے لیے میڈیا اور نظام تعلیم و غیرہ کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔وضاحت کے لیے ہم صرف ایک مثال پیش کریں گے۔ لباس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اس کا اولین مقصد ستر کی حفاظت ہے یا بَنِی آدَمَ قَدْ أَنْـزَلْنَا عَلَیكُمْ لِبَاسًا یوَارِی سَوْآتِكُمْ وَرِیشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ( اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا تاکہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکےاور تمہاری آرائش ہو۔الاعراف۲۶) اس کے برخلاف اسکولوں کی درسی کتابوں ،میڈیا اور اشتہارات سے لباس کا جو تصور قائم ہوتا ہے اس میں لباس حسن کی نمائش اور اسٹیٹس کے اظہار کا ذریعہ اور فیشن کی علامت قرار پاتا ہے۔مثلاً وکی پیڈیا میں لباس کے مقصد پر جو نوٹ ہے وہ ذیل میں درج ہے۔ یہی مقصد اسکول کی اکثر درسی کتابوں میں بھی درج ہے۔
’’لباس کے کئی مقاصد ہوتے ہیں ۔ یہ کھردری اشیا، جلد کو زخمی کرنے والے پیڑ پودے، کیڑے مکوڑے، نوکیلے کیلے، کانٹے، وغیرہ جیسی نقصان چیزوں سے جسم کی حفاظت کرتا ہے۔سردی اور گرمی جیسی موسمی کیفیات سے جسم کو تحفظ بخشتا ہے۔ زہریلے مادوں اور طرح طرح کے انفیکشن سے نیز ماحول میں پائی جانے والی گندگیوں سے جسم کو بچاتا ہے۔ لباس الٹراوائلیٹ شعاعوں سے بھی جسم کو محفوظ رکھتا ہے۔‘‘
اس تفصیلی بیان میں لباس کے اس مقصد کا کوئی ذکر نہیں کہ یہ جسم کے اعضا کو چھپاتا ہے۔ان باتوں کا یہ اثر ہوتا ہے کہ پڑھنے والوں کے لیے دھیرے دھیرے ستر کی حفاظت کا مقصد غیر اہم ہونے لگتا ہے اور بے حیائی اور نیم عریانی میں کوئی تکلف محسوس نہیں ہوتا۔
ہم نے یہ بات لکھی تھی کہ کسی مسئلے پر حساسیت ختم کرنے کے لیے شدید تر معاملے پر عمل شروع کردیا جاتا ہے۔ اگر کچھ لوگ کسی معاملے میں انتہا پر جاکر عمل شرو ع کردیں تو نسبتاًدرمیانی عمل سماج میں آسانی سے مقبول ہوجاتا ہے۔ چناں چہ اگر نیم عریاں لباس کو عام کرنا ہو تو کچھ لوگ مکمل عریاں ہوجائیں تاکہ نیم عریاں ملبوسات کےسلسلے میں شرم و جھجک ختم ہوجائے۔ چناں چہ عریانیت کو فروغ دینے کی منظم کوششیں جاری ہیں ۔فطرت پسند (naturist)کے خوش نما نام سے مکمل عریاں رہنے والوں کے کلب وجود میں آئے۔ اسے ایک لائف اسٹائل قرار دیا گیا۔ عریاں تفریح گاہیں ، ریسٹورنٹ، دفاتر، بلکہ اب ایر لائنس اور نیوز پروگرام تک شروع کرائے گئے۔ مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ شرم و حیا کے سلسلے میں حساسیت ختم ہوجائے۔ان مسائل پر ہم تفصیل سے اپنی کتاب “خواتین میں اسلامی تحریک” میں بحث کرچکے ہیں ۔[11]
کارپورریٹ پالیسیاں اور اشتہارات
اس منصوبے کا ایک اہم جز یہ ہے کہ اس میں سرکاروں ، سرکاری قوانین، بین الاقوامی اور قومی سطح کی متنوع ترغیبات، این جی اوز اور سماجی تحریکات وغیرہ کے ساتھ بڑی کام یابی سے کارپوریٹ سیکٹر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔کارپوریٹ سیکٹر کے تجارتی مفادات کو ان سماجی تبدیلیوں کے ساتھ وابستہ کردیا جاتا ہے۔ پھر بڑی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے لوگوں کے تصورات زندگی، ان کے تہذیبی معیارات، ان کے فطری جذبات، اخلاقی تصورات حتی کہ ان کی حسیات کو بھی متاثر کرنے کی کوششیں شروع کردیتی ہیں ۔
چند سال پہلے امریکی ادارہ فرنٹ لائن نے ایک ڈاکیومنٹری ’ترغیب دینے والا‘ (Persuaders) نشر کی تھی۔[12]
اس فلم نے ساری دنیا میں ہنگامہ مچادیا۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بڑی چشم کشا فلم تھی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مشتہرین اپنی اشیا کے فروغ کے لیے کیسے ہتھکنڈے اور نفسیاتی حربے اختیار کررہے ہیں ۔اور کیسے فروغ تجارت کے حقیر مقصد کی خاطر لوگوں کے تصورات، نظریات اور طرز ہائے زندگی میں منصوبہ بند طریقہ سے تبدیلیاں لارہے ہیں ۔کچھ تکنیکیں جن پر اس ڈاکیومنٹری میں روشنی ڈالی گئی ہے، نیچے درج کی جارہی ہیں ۔ان سے اس اشتہار بازی کی ہلاکت خیزی کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
۱۔ وجدانی اپیل(visceral appeal):یہ اشتہار کا بہت طاقتور جذباتی طریقہ ہے۔ اس میں اشیا کی خوبیوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا بلکہ نہایت کارگر طریقہ سے ناظرین کے حساس جذبات کا استحصال کرتے ہوئے لاشعور کے خوشگوار احساسات کو متعلقہ شئے کے ساتھ وابستہ کردیا جاتا ہے۔مثلاً ماں کی محبت کے ساتھ شرٹ کا کوئی برانڈ اس طرح وابستہ ہوجاتا ہے کہ خریدار جب بھی وہ شرٹ دیکھتا ہے، ماں کی محبت کا جذبہ غیر شعوری طور پر امڈ آتا ہے اور غیر محسوس طریقہ سے اس کا وجدان اس شرٹ کو خریدنے کے لیے اسے مجبور کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بعض غیر فطری جذبات پیدا کیے جاتے ہیں اور بعض فطری جذبات کو برانگیختہ کیا جاتا ہے۔وجدانی اپیل کے اس طریقے کو اشتہار کے ذریعے سماجی تبدیلی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔2016 میں لائیڈز بینک (Lloyds Bank)نے ایک اشتہاری مہم چلائی۔ انسانی زندگی کے انتہائی جذباتی مناظر پر مشتمل کئی چھوٹی چھوٹی فلموں پر مشتمل یہ نہایت متاثر کن اشتہار تھا۔ اپنے نومولود کو پہلی بار گود میں لیتے ہوئے ایک ماں ، اپنے شوہر کی تجہیز و تکفین سے لوٹنے والی ایک بوڑھی عورت اور اپنی بچی کو پہلی بار اسکول چھوڑ کر آرہا باپ۔ان سب کے ساتھ ایک ہم جنس جوڑے کا اشتہار جس میں ایک مرد دوسرے مرد کے شادی کے پیغام کو قبول کررہا ہے۔ اس آخری منظر کو خاص طور پر ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ اشتہار کا عنوان ہے۔He says yes (اُس نے ہاں کردی)۔[13] مقصد صاف ظاہر ہے۔ ہم جنسی کو ایک سماجی معمول بنا دینا ہے اور اس کے ساتھ بھی گہرے جذبات وابستہ کردینا ہے۔
۲۔ نیرو کاسٹنگ: یہ براڈ کاسٹنگ کا متضاد ہے۔ براڈ کاسٹنگ کسی پیغام کو سامعین کے وسیع تر طبقہ تک پہنچانے کا نام ہے۔ جب کہ نیرو کاسٹنگ کا مطلب یہ ہے کہ ناظرین کو چھوٹے چھوٹے الگ الگ طبقات میں تقسیم کیا جائے اور اشیا کو ہر طبقہ کے لیے الگ الگ طریقہ سے پر کشش بنایا جائے۔ ایک کار کا اشتہار کرنا ہو تو بچوں کے کارٹون کے دوران اسے بچوں کے کسی کارٹون کیرکٹر کے ساتھ وابستہ کردیا جاتا ہے۔ نیوز کے درمیان اس کے کسی طاقتور فیچر کا ذکر کرکے مردوں کے لیے پر کشش بنادیا جاتا ہے اور عورتوں کے سیریل کے دوران اس مقصد کے لیے نسوانی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے۔
۳۔ الگ الگ خیالی کائناتیں (virtual universes) :درج بالا مقصد یعنی نیرو کاسٹنگ کے لیے، ناظرین کو الگ الگ طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔سوشل میڈیا سائٹس، ای میل وغیرہ کے ذریعے ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات اور ان کی دل چسپیوں اور مشاغل کو معلوم کیا جاتا ہے۔ اور اس کی بنیاد پر ان کو الگ الگ زمروں میں تقسیم کرکے ہر ایک کے لیے الگ حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی ڈاٹا مائننگ اور ڈاٹا بروکرکمپنی ایکسیوم (Axiom)ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس دنیا کی دس فیصد آبادی کی مکمل معلومات (ان کا نام، خاندان، بیوی، بچے، تعلیم، مشاغل، وہ کیا کھاتے ہیں ؟ کیا پہنتے ہیں ؟ کتنا کماتے ہیں ؟ کتنا خرچ کرتے ہیں ؟ دل چسپیاں کیا ہیں ؟ کس سے رومانس ہے؟ کب کیا پڑھا ہے؟ کب کب کہاں کہاں کا سفر کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ) موجود ہیں ۔ مثلاً کسی نوجوان لڑکی کے ای میل اور سوشل میڈیا سے یہ معلوم ہوجائے کہ وہ روایت پسند ہے لیکن اب تھوڑا سا جدیدیت کی طرف مائل ہورہی ہے تو خود بخود سافٹ ویر اس کی ذہنی تربیت شروع کردیتےہیں ۔ اس کے کمپیوٹر پر ایسے پیغامات آنے لگتے ہیں جن میں روایتی عورتوں کو جدیدیت کی طرف مائل دکھا یا جاتا ہے۔ اس کے جذبات اور وجدان کو بہت چالاکی سے جدید طرز زندگی کے لیے بتدریج تیار کرایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مغربی ملبوسات وغیرہ خریدنے پر آمادہ ہوجائے۔ جیہی سے فلپ کارٹ سے ایک چست جینز آرڈر کرتی ہے، اس کا ڈاٹا بیس اپڈیٹ ہوجاتا ہے۔ اب اسے نیرو کاسٹنگ کے تحت اگلے زمرہ میں شامل کردیا جاتا ہے اور اگلے مرحلہ کی‘‘تربیت’’کے عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔یعنی نیم عریاں لباس کے لیے تیار کرنے کی مہم شروع ہوجاتی ہے۔
کچھ اہم اشتہاری مہمات
یونی لیور (Unilever)دنیا کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے 190 ملکوں میں اس کے چار سو سے زیادہ برانڈ فروخت ہوتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں یہ کمپنی ہندوستان لیور کے نام سے کام کرتی ہے اور شیمپو و صابن (ڈاو، حمام، ریکسونا، سن سلک) عطریات (ایکس، بروٹ)کپڑے دھونے کے پاوڈر (سرف، کمفرٹ) ٹوتھ پیسٹ (کلوز اپ، پیپسوڈنٹ)چاے (لپٹن، برو) جیسی متعدد گھریلو اشیا ء اسی کمپنی کی استعمال ہوتی ہیں ۔
کمپنی نے اپنے سماجی مقاصد کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ہر طرح کی صنفی تفریق کے خاتمے کو وہ اپنا کارپوریٹ مقصد قرار دیتے ہیں ۔ کمپنی کے پالیسی دستاویزات میں واضح طور پر درج ہے کہ:
“We envisage a world in which every woman can create the kind of life she wishes to lead, unconstrained by harmful norms and stereotypes. It is a vision in which women and girls have the same opportunities as men and boys, without fear of prejudice, harassment or violence and regardless of age, race, ethnicity, disability, religion or sexual orientation.”[14]
’’ہم ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھتے ہیں جس مین ہر عورت نقصان دہ سماجی معمولات اور اسٹیریو ٹائپ کی پروا کیے بغیر جس طرح کی زندگی وہ گذارنا چاہتی ہے وہ گذارسکے۔یہ وہ کواب ہے جس میں عورت یا لڑکی کو وہ سارے مواقع حاصل ہوں جو مردوں یا لڑکوں کو حاصل ہیں ۔ اور بلاتفریق عمر، نسل، قبیلہ، عذر، مذہب، یا جنسی رجحان کے، کوئی بھی خوف، جانب داری، ہراسانی، تشدد کا کوئی بھی نشانہ نہ بنے۔ ‘‘
اس دستاویز میں ان مفروضوں اور سماجی معمولات کی فہرست بھی درج ہے جسے وہ دنیا سے ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ عورت کا اصل میدان اس کا گھر ہے۔ یا یہ کہ بعض کام مردوں کے لیے زیادہ مناسب ہیں اور بعض عورتوں کے لیے۔ یا یہ کہ بچوں کے بغیر عورت ادھوری ہے۔ یا یہ کہ ایک اچھا مرد اپنی بیوی اور خاندان کی معاشی کفالت کرتا ہے اور بیوی کو کام پر مجبور نہیں کرتا۔ [15] ا ن سب باتوں کو کمپنی کے وژن کے مطابق نامطلوب اور ناپسندیدہ مفروضے اور سماجی معمولات قرار دیا گیا ہے جنھیں وہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ مقصد کمپنی کس طرح حاصل کرے گی، اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ:
From recruiting and employment to procurement and sales, to marketing and advertising, companies have a wide range of levers they can use to cultivate more positive and diverse images of women and enable new behaviours that level the playing field for all.[16]
’’ملازمین کی بھرتی اور روزگار سے لے کر خریداری اور فروخت تک، مارکیٹنگ اور اشتہارات تک، کمپنیوں کے پاس بہت سارے آلات ہوتے ہیں جن کا استعمال خواتین کے بارے میں زیادہ مثبت اور متنوع تصورات پیدا کرنے اور نئے رویے تخلیق کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے تاکہ سب کو مساوی مواقع حاصل ہوسکیں ۔‘‘
کمپنی کے بعض اشتہارات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے[17] کہ وہ کس طرح لوگوں کے ذہنوں اور ان کی سوچ پر اثرانداز ہونے کی خاموش مہم میں لگے ہوئے ہیں ۔ مثلاً ان کی ریسرچ ٹیم نے معلومات فراہم کی کہ کم عمر لڑکوں اورلڑکیوں کی اسی فیصد تعداد” محبت کی آزادی” چاہتی ہے۔لیکن دنیا میں یہ آزادی صرف چھپن فیصد لڑکے اور لڑکیوں کو حاصل ہے۔ چناں چہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے انھوں نے ایک مہم “محبت کی آزادی” (FreetoLove’) کلوز اپ (Closeup)برانڈ کی تشہیر کے بہانے سے شروع کی۔ چھوٹی چھوٹی فلموں کا طویل سلسلہ چلایا گیا،جس کے ذریعے یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہر انسان کو پوری آزادی حاصل ہے کہ وہ جس لڑکے یا لڑکی کے ساتھ محبت کرنا چاہے یا جسمانی تعلق قائم کرنا چاہے،کرےاوراس میں ماں باپ، سماج، مذہب، روایات، طبقاتی تفریق وغیرہ کسی بات کی اسے پروا نہیں کرنی چاہیے اور یہ بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ محبت اور جسمانی تعلق کے لیے شادی کی روایت کی کوئی ضرورت ہے۔
اسکپ، یونی لیور کا کپڑے دھونے کا پاوڈر ہے۔ اس کی تشہیری مہم کا عنوان ہے کپڑوں کے انداز نے بھی ترقی کی ہے (ClothesEvolved’)۔ اس میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ کپڑے صرف پہن لینے کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ آپ کی شخصیت، آپ کی شناخت، آپ کے احساسات، خیالات، وغیرہ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ دنیا ترقی کررہی ہے۔ کپڑے بھی ترقی کررہے ہیں ، واشنگ پاوڈر بھی اس کے ساتھ بدل رہا ہے اور آپ کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ اس اشتہار میں شدید جذباتی اپیل کے ذریعے نیم عریاں مغربی ملبوسات کو ترقی کی نشانی کے طور پر پروموٹ کیا گیا ہے۔ اور یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ کپڑوں کی تراش خراش کا کوئی تعلق جنس اور عمر سے نہیں ہے، صرف آپ کی سوچ سے ہے یعنی اس بات سے کہ آیا آپ روشن خیال ہیں یا پسماندہ ذہن کے مالک ہیں ۔
ہم جنسی کے فروغ کی کوششیں
ہم نے اوپر واضح کیا ہے کہ ہم جنسی کا فروغ بھی ان عالمی اداروں کا ایک اہم مقصد ہے۔ اس کے تحت وہ کئی محاذوں پر کام کرتے ہیں ۔ ذیل کی تفصیلات سے اس ہمہ گیر منصوبہ کا انداز ہ ہوگا۔
الف۔ نظریاتی سطح پر
۱۔یہ تصور عام کرنا کہ جنس صرف دو نہیں بلکہ کئی ہیں ۔ اس لیے مرد و عورت، دو جنسوں کی تقسیم کے فطری اور صدیوں سے مستحکم معمول کو چیلنج کرنا اور اسے بدلنا۔
۲۔نفسیات، میڈیکل سائنس وغیرہ کی تحقیقات پر اثر انداز ہوکر، ہم جنسی کو ایک مرض کے بجائے محض ایک رجحان اور فطری رجحان قرار دینا۔
۳۔ ہم جنسوں کو جنسی اقلیت قرار دینا اور اقلیتوں کے سلسلے میں تمام مسلمہ حقوق کا انھیں حق دار قرار دینا۔
ب) حکومتوں کی سطح پر
۱۔ ہم جنسی کی مخالفت پر مبنی تمام قوانین کے خاتمے کے لیے دباو۔ ان قوانین کو حقوق انسانی کی مخالفت باور کرنا
۲۔ ہم جنس پرستوں کو مراعات اور سہولتیں فراہم کرنے کے لیے دباؤ۔
ج) عوامی زندگی میں اور کارپوریٹ میں
۱۔ عوامی زندگی کی سطح پر دو جنسوں والے معمول کو چیلنج کرنے کے لیے، جنسی فرق سے پاک معمولات اور رویوں کو فروغ دینا۔ مثلاً یونی سیکس ٹائلٹ، یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ٹائلٹ پر مرد اور عورت لکھا ہوگا اس وقت تک یہ تصور باقی رہے گا کہ جنسیں صرف دو ہیں [18] اس لیے ٹائلٹ، سلون، جِم وغیرہ سب یونی سیکس ہونا چاہیے۔ یہاں دلی میں اوکھلا، ابوالفضل کے مسلم علاقے میں جگہ جگہ مجھے یونی سیکس سلون کے بورڈ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روایتی مسلم علاقوں پر بھی اب اس سوچ کے اثرات پڑنے لگے ہیں ۔اب یونی سیکس ناموں کی بھی ہمت افزائی کی جارہی ہےیعنی مردوں اور عورتوں کے ناموں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ [19]
۲۔ ملبوسات، عطریات، کاسمیٹکس وغیرہ ہر جگہ مردانہ اور زنانہ کی تفریق کو بتدریج ختم کرنا اور یونی سیکس پروڈکٹس کو فروغ دینا۔[20]اس وقت ہر بڑی کمپنی ایسی یونی سیکس پروڈکٹس تیار کررہی ہے اور انھیں پوری قوت سے فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
۳۔ ورجن ہالی ڈیز، سیر و تفریح کے ٹورز کو منظم کرنے والی مشہور عالمی کمپنی ہے۔ اس نے ایک مہم شروع کی ہے لوز دی لیبلز (LosetheLabels’)۔ اس کے تحت دنیا بھر کے ٹور آپریٹرز کی ایک کانفرنس صرف اس مقصد کے لیے رکھی گئی کہ ہم جنس پرستوں کی آسانی کے لیے ٹور پیکیج کیسے ہونے چاہئیں ؟ ہوٹلیں کیسے ہونے چاہئیں ؟ وہاں کیا سہولتیں ہونی چاہئیں ؟ وغیرہ۔ [21]
د) اشتہارات
اشتہارات کو یہاں بھی لوگوں کے ذہنوں اور رجحانات میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ہر کمپنی ایسے اشتہارات بنارہی ہے جن سے ہم جنسی کو معمول اور قابل قبول عمل بنایا جاسکے۔ یونی لیور کا ذکر آیا۔ اس کے ڈاو صابن کے ایک اشتہار میں پہلی بار باپ بننے والے افراد کو دکھا یا گیا ہے۔ باپ بننے والے افراد کواپنی بیویوں یعنی نومولود کی ماوں کے ساتھ اپنی زندگی کے اس انتہائی جذباتی لمحے میں دکھایا گیا ہے۔ ان جوڑوں میں ایک جگہ، ماں اور باپ دونوں مرد ہیں ۔ اشتہار کا مقصد یہ ہے کہ دو جنسی جوڑے کی طرح ہم جنس جوڑا بھی سماج میں قابل قبول معمول بن جائے اور یہ بات قابل قبول ہوجائے کہ مرد ماں اور مرد باپ مل کر بھی خاندان تشکیل دے سکتے ہیں ۔
خلاصہ بحث
اس بحث سے سوشل انجینئرنگ کا مطلب واضح ہوتا ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سماجی تبدیلی کا عمل کتنا ہمہ گیر، وسیع الاطراف اور منصوبہ بند ہے۔ نیز یہ کہ باطل طاقتیں کس قدر منظم انداز میں اپنے مقاصد کی خاطر سماج کو بدلنے کی کوشش کررہی ہیں ۔
سماجی تبدیلی کے لیے جو کوششیں ہورہی ہیں وہ صرف تقریر و تحریر اور رائے عامہ کی بیداری کے عام طریقوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ سماجی معمولات کو بدلنے، نئے تصورات کو ذہنوں میں راسخ کرنے، نئی حساسیت پیدا کرنے اور قدیم طریقوں کو ختم کرنے کے لیے بہت سے غیر محسوس لیکن نہایت کارگر طریقے اختیار کیے جارہے ہیں ۔ ایک اہم بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ سماجی تبدیلی کا کام اب صرف سماجی مصلحین تک محدود نہیں رہا۔ بلکہ سماجی تنظیموں ، حکومتوں ، میڈیا حتی کہ کاروباری اور تجارتی اداروں کا بھی اس میں نہایت سرگرم کردار ہے۔
یہ ہے وہ ہمہ گیر چیلنج جس کے پس منظر میں ہمیں مثبت سماجی تبدیلی کا کام انجام دینا ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ہم وہ سارےذرائع اختیار نہیں کرسکتے جو جدید سامراجی قوتیں کررہی ہیں ۔ ان میں سے بعض طریقے ہمارے اخلاقی تصورات سے راست متصادم ہیں ۔ لیکن ان کوششوں کا ہمیں مقابلہ کرنا ہے اور ان کو سامنے رکھ کر اور قرآن و حدیث کی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کے اسوے کو سامنے رکھ کر، جدید دور میں سماجی تبدیلی کا قابل عمل ماڈل تشکیل دینا ہے۔نہ صرف روایتی وعظ و نصیحت اور جلسہ و تقریر کے تقریروں پر اکتفا مناسب ہے اور نہ اتنی بڑی عالمگیر مہم کے مقابلے میں اسلامی تصورات کی بنیاد پر سماجی تبدیلی کا کام کوئی ایک جماعت بلکہ کوئی ایک طبقہ کرسکتا ہے۔ پوری ملت کو اس مقصد کے لیے اٹھنا ہوگا اور نہایت گہری منصوبہ بندی کے ساتھ اور سماج کے تمام طبقات، علما، دانش وران، نوجوان، خواتین، صحافی، بزنس مین اور صنعتی گھرانے، تعلیمی ادارے، سماجی تنظیمیں ، وغیرہ کے درمیان مناسب تال میل کے ساتھ اس کام کو انجام دینا ہوگا۔
ان شاء اللہ، اگلے ماہ ہم اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کسی ایک اہم مطلوب تبدیلی کو بنیاد بناکر سماجی تبدیلی کا اسلامی ماڈل تجویز کرنے کی کوشش کریں گے، اور یہ ان شاء اللہ اس بحث کی آخری قسط ہوگی۔
حواشی و حوالہ جات
[1] تقریباً 372 پیراگرافوں پر مشتمل یہ دستاویز اقوام متحدہ کی سائٹ پر دست یاب ہے:
https://www.un.org/womenwatch/confer/nfls/Nairobi1985report.txt
[2] اس دستاویز کو اقوام متحدہ کی سائٹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
https://www.un.org/womenwatch/daw/beijing/pdf/BDPfA%20E.pdf
[3]. دیکھیے اقوام متحدہ کی رپورٹ:
Transforming our world: the 2030 Agenda for Sustainable Development
https://sustainabledevelopment.un.org/content/documents/21252030%20Agenda%20for%20Sustainable%20Development%20web.pdf
[4] مثلاً دیکھیں اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام مین پالیسی اینڈ پروگرام سپورٹ کے ڈائرکٹر میگڈی سولیمان کا بیان:
[5] اس کمیشن کے تعارف اور اس کی مختلف رپورٹوں کے لیے دیکھیے کمیشن کی ویب سائٹ:
https://www.unwomen.org/en/csw
[6] اس اجلاس کی مکمل روداد، مختلف ممالک کی رپورٹیں ، منظور شدہ قرارداد،میٹنگ ریکارڈ و غیرہ تفصیلات، اقوام متحدہ کے آرکائیوز میں عوام کے لیے دست یاب ہیں ۔ ان کے تفصیلی جائزے سے بھی بہت سی اہم باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔
https://digitallibrary.un.org/record/428341?ln=en
[7] ہر سیشن کی تفصیل کمیشن کی سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے
https://www.unwomen.org/en/csw/previous-sessions
[8] United Nations Development Programme (2020)Tackling Social Norms: A Game Changer for Gender Inequalities (2020 Human Development Perspectives); UNDP; New York
[9] ایضاً ص 20تا 29
[10] . UKAid (January 2016); DFID Guidance Notes: Shifting Social Norms to Tackle Violence against Women and Girls; Action Aid; London. Pages 20,21
[11] سید سعادت اللہ حسینی (۲۰۱۸) خواتین میں اسلامی تحریک؛ ہدایت پبلشرز؛ نئی دہلی ص 73تا 79
[12] مکمل ڈاکیومنٹری یہاں دیکھی جاسکتی ہے:
https://www.pbs.org/wgbh/frontline/film/showspersuaders
[13] https://www.pinknews.co.uk/2016/03/14/lloyds-bank-features-same-sex-proposal-in-new-tv-ad/
[14] AHA Ltd (March 2017); (Unilever Document) Opportunities For Women: Challenging Harmful Social Norms and Gender Stereotypes to Unlock Women‘s Potentials; Unilever Chief Sustainability Office; page 4
[15] Ibid page 9.
[16] Ibid page 11
[17] ان اشتہارات کی تفصیل کے لیے دیکھیں :
[18] ایک دل چسپ مقالہ ملاحظہ فرمائیں :
Laura Portuondo (2018) the Overdue case against Sex-Segregated Bathrooms; Yale Journal of Law and Feminism;Vol 29; pages 465-526۔
[19] Pilcher, J. Names and ’’Doing Gender‘‘: How Names Contribute to Gender Identities, Difference, and Inequalities. Sex Roles 77, 812–822 (2017).
[20] https://doi.org/10.1007/s11199-017-0805-4
[21] اس موضوع پر دیکھیے انڈیپنڈنٹ کا مضمون:
https://www.independent.co.uk/life-style/gender-neutral-beauty-rise-trend-unisex-brands-grooming-marketing-diversity-stereotypes-a8325026.html
https://www.travelerstoday.com/articles/23610/20161009/one-three-lgbt-travelers-experience-discrimination.htm
مشمولہ: شمارہ مئی 2021