(عصری موضوعات کی جستجو میں رہنے والوں کے لیے اس مضمون میں دل چسپی کا کافی سامان ہے۔ مضمون نگار کی بعض آرا سے اختلاف بھی ممکن ہے اور اس اختلاف کے اظہار کے لیے زندگی نو کے صفحات کشادہ ہیں۔ امید ہے یہ مضمون نئی بحثوں اور کاوشوں کے لیے موقع فراہم کرے گا۔ مدیر)
بیسویں صدی ختم ہوئی تو سائنس کی دنیا ایک شدید بحران کا شکار ہوچکی تھی۔ کوانٹم نظریات کے اثرات تو عام انسانی نظر اور فہم سے خاصے بالا تھے لیکن ماحولیاتی انتشار نے ہر خاص و عام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی تھی۔ اس انتشار نے کائنات اور انسان کے باہمی رشتوں پر تازہ سوالات کھڑے کر دیے تھے اور اب کارتیسی نیوتنی بنیادوں پر ان کی باہمی تفہیم کارگر نہیں رہی تھی۔ ایک طرف ان کی گیرائی، گہرائی اور پیچیدگی بڑھتی جارہی تھی تو دوسری طرف عقلِ انسانی کی نارسائی کا احساس شدت سے ہونے لگا تھا۔ سائنس نے ٹکنالوجی کی شکل میں جو عظیم الشان اختراعات کرلی تھیں وہ بھی ان رشتوں کے سمجھنے میں اپنی ناکامی کا اعلان کر رہی تھی اور صاحبان فکر یہ سوچنے لگے تھے کہ ٹکنالوجی نہیں بلکہ اقدار ہی ان رشتوں کی حفاظت کرسکتی ہیں اور ترقی کو اس راہ پر جانے سے روک سکتی ہیں جس پر جاری رہنے کے نتیجہ میں مذکورہ بالا رشتوں میں آج دراڑیں پڑی ہوئی ہیں اور گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ global wierding وغیرہ انھی کا شاخسانہ ہے۔
اہل اسلام کے نزدیک مثلث نما رشتوں (انسان کے اپنی ذات، دوسرے انسانوں سے باہمی اور کائنات سے رشتے) کا اہم ترین تعکق خدا سے ہے اور اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ تینوں آپس مربوط ہیں بلکہ یہ علیحدہ علیحدہ بھی خدا سے منسلک ہیں۔ اس طرح اب یہ رشتوں کا مثلث نہ ہو کر ایک ہرم کی شکل (pyramid) اختیار کر گیا ہے۔ سائنس کی دنیا میں بین رشتگی (inter-raletedness)، انحصار (interdependence) اور بین مربوطیت (interconnectedness) کے الفاظ انھی رشتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ خالق سے رشتے کو سائنس اہمیت نہیں دیتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغربی ذہن خدا کو بطور تصور تو تسلیم کرتا ہے لیکن ایک ایسے وجود کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتا جو مخلوق سے ایک زندہ اور ہمہ وقت تعلق رکھتا ہو۔ مسلمانوں کے نزدیک خدا ہی اقدار کا اصل منبع ہے۔ یقیناً بعض اقدار ایسی بھی ہیں جو انسان اپنے مشاہدات اور تجربات سے سیکھتا ہے لیکن وہ قدریں جو رشتوں کے اس ہرم کی تعمیر کرتی اور انھیں انتشار سے بچاتی ہیں ان کا معتبر ترین ذریعہ وہ تصورات ہیں جو کبھی عقائد کی شکل میں اور کبھی ہدایتوں کی شکل میں ہمیں قرآن کریم اور رسول اﷲ ﷺکے عمل سے حاصل ہوتے ہیں۔
اکیسویں صدی کی اس فضا میں جہاں اقدار کی اہمیت واضح تر ہوتی جارہی ہے، وہیں اسلام کے تعارف کے سلسلے میں بعض غیر معمولی انداز فکر اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ غیر معمولی اس لیے ہے کہ آج انسان اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر اتنا کچھ حاصل کرچکا ہے جو چند دہائیاں قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ان کام یابیوں کے نتیجہ میں انسان خود اعتماد ی کے ہمالہ پر براجمان ہے اور اگر اسے مذکورہ بالا رشتوں میں خلفشار کا اندازہ نہ ہوا ہوتا تو ابھی ایک طویل عرصے تک اپنے نقطۂ نظر کی خرابی اس پر منکشف نہ ہوئی ہوتی۔ اس پس منظر میں اسلام کا تعارف دو بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ ایک طرف مشاہدے اور تجربہ و عقل کی اہمیت اور توصیف اور اسلامی فکریات میں اس کے مقام کی وضاحت کا ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف آزاد تجربات کی بنیاد پر ترقی کے ماڈل کے نقصانات کے پس منظر میں اس کی وضاحت کہ اسلام کے تصورات اور اقدار کس طرح ترقی کی ضمانت دیتے ہوئے مذکورہ نقصانات سے انسانیت کومحفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح آج یعنی اکیسویں صدی میں ہمیں درج ذیل موضوعات کے تحت اسلام کا تعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
۱۔ تصور حیات و کائنات (worldview)
ورلڈ ویو کی اصطلاح بڑی تیزی سے عام ہورہی ہے اور فلسفہ میں مستعمل اصطلاح weltanschauung کا انگریزی مترادف ہے جس کے معنی دنیا اور انسانی زندگی کے ایک ایسے جامع تصور کے ہیں جو ہمارے اعمال، تصورات اور تمام رشتوں کو معنویت عطا کرتا ہے۔اسلا م ایک ورلڈ ویو ہے جس میں انسان کے اپنی ذات، دوسرے تمام انسانوں، دنیا کی ذی روح اور غیر ذی روح مخلوق اور پھر پوری کائنات کے ساتھ اس کے رشتوں کی وضاحت اور ان کے ساتھ تعامل کے طریقوں سے متعلق تصورات اور اقدار پیش کی گئی ہیں۔ اسلام کے ورلڈ ویو میں وحی سے ماخوذ علم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جدید مروّج فکریات میں چوں کہ مذکورہ بالا تصورات اور اقدار کا منبع انسانی مشاہدات تجربات اور عقل تک محدود ہے جو بجائے خود غلط نہیں لیکن انھیں صحیح رخ پر قائم رکھنے کے لیے کوئی قدغن (check) نہ ہونے کی بنا پر انسان اس وقت ہی غلطیوں سے آگاہ ہوپاتا ہے جب وہ ان کے نتائج و عواقب کو دیکھ لیتا ہے۔ ماحولیاتی مسائل کی مثال بالکل واضح ہے۔ اس پس منظر میں اسلامی اور جدید ورلڈویو کے تقابلی تعارف کی ضرورت ہے۔
۲۔ اسلامی عقائد
اسلامی عقائدمیں اہم ترین توحید، رسالت اور آخرت ہیں جو انسانوں کے رویوں اور سرگرمیوں وغیرہ کو متاثر کرتے ہیں۔ توحید ہو یا رسالت ان دونوں عقائد کی تفہیم میں ہم نے بالعموم روایتی طرز اختیار کر رکھا ہے۔ توحید کو ہم نے شرک کے پس منظر میں ایک سے زیادہ خداؤں کے امکان اور ممکنہ فساد کو بنیاد بناکر تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح رسالت کا تعارف ہم وحی اور اس میں موجود تعلیمات کے پس منظر میں کراتے رہے ہیں۔تعارف کے یہ پہلو بجا لیکن اکیسویں صدی اس تعارف میں ایک اور جہت کےاضافے کی متقاضی نظر آتی ہے۔
توحید کے باب میں اﷲ کے ایک اسم الخالِقُ کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن اس پوری کائنات کا ایک ہی خالق ہونے کی بنا پر اس کی ہر نوع کی تخلیق میں ایک قسم کی یگانگت اور یکسانیت کا پایا جانا بھی فطری ہے۔ آج تخلیقی پروسیس اور متنوع تخلیقات میں ایک قسم کی ہم رشتگی اور باہم انحصاریت کے رشتے واضح ہو رہے ہیں جنھیں ماضی قریب میں نہ سمجھ پانے کی بنا پر ترقی کا ماڈل تیار ہوا ہے اس کے منفی اثرات نے کرۂ ارض میں پائے جانے والے توازن کو منہدم کردیا ہے۔ چناں چہ اس بات کی ا شد ضرورت ہے کہ عقیدۂ توحید کو کائنات میں پائی جانے والی بین مربوطیت (interconnectedness) کی رو شنی میں پیش کیا جائے تاکہ جدید ذہن اسے زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکے۔
اسی طرح رسالت کا عقیدہ ہے جو متعدد پہلوؤں کے ساتھ یہ واضح کرتا ہے کہ حیات انسانی کے ایسے پہلو بھی ہیں جنھیں انسان محض مشاہدہ، تجربے اور عقل کی بنیاد پر نہیں سمجھ سکتا۔ گوکہ یہ آلات بہت کارگر ہیں لیکن کائناتی رشتوں کی ہر جہت تک ان کی رسائی نہیں۔ یہ رسائی الہٰی پیغام رسانی یعنی وحی کے ذریعے حاصل ہو جاتی ہے۔گذشتہ صدیوں کے تجربات عقل کی اس نارسائی کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔ نا مکمل معلومات کی بنیاد پر جس ارتقا کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں اس کے منفی اثرات سے انسانی زندگی شدت سے متاثر ہو رہی ہے۔ عقیدہ رسالت کی تفہیم نو اس جہت سے ہونی چاہیے کہ صحت مند ارتقا کے لیے عقل کو بعض ایسی قدروں کی ضرورت ہے جو صرف اور صرف وحی کے ذریعے ہی اسے حاصل ہوسکتی ہیں اور دنیا کو ایک بہتر اور صحت مند مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہیں۔گویا عقیدہ رسالت عقل کا تزکیہ کرتے ہوئے اس کی حدوں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس طرح عقل کوایک صحت مند رخ عطا کرتا ہے۔
۳۔ دوسرے انسانوں سے تعلق
قرآن کریم نے بتایا ہے کہ تمام اقوام میں اﷲ نے اپنی ہدایت بھیجی ہے۔ یہ ہدایت کن شکلوں میں آئی تھی؟ قرآن بعض کے بارے میں تو واضح طور پر بتاتا ہے اور انھیں اہل کتاب کی حیثیت سے متعارف کراتا ہے۔ دوسرا معاملہ ان اقوام کا ہے جن کے بارے میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے البتہ ان کی روایتوں اور ان کے پاس موجود مذہبی کتابوں کا جائزہ لے کر ہم یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ یہ بھی کسی حد تک اس الہٰی سلسلہ ہدایت سے ماخوذ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں خدا اور اس سے مربوط رہنے کی تمنا ان قبائل میں بھی مختلف شکلوں میں پائی جاتی ہے جنھیں تہذیب کی ہوا بھی نہیں لگی۔
اس حقیقت کو سمجھ لینے کا ایک نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ ہم تسلیم کریں کہ حق اپنی محدود شکل میں ہی سہی ہر قوم اور ہر نسل میں پایا جاتا ہے اور اس میں صرف اسلام کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ہم جس بات کا دعویٰ کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ حق اپنی شفاف ترین اور تازہ ترین شکل میں اسلام میں ہی موجود ہے۔ ہمارا یہ بیانیہ افہام و تفہیم کے نئے دریچے وا کر سکتا ہے اور اقوام عالم کے ساتھ ہمارے رشتوں کو نئی گہرائی اور گیرائی عطا کرتے ہوئے دعوت اسلام کی راہیں آسان کرسکتا ہے۔ہمارے ملک ہندوستان میں خدائے واحد کا تصور، سورگ اور نرک کا تصور نیز عوام کی بہبود کے لیے دولت خرچ کرنے کی روایات بڑی گہری ہیں۔ بعض انفرادی کردار ایسے ہیں جو کسی مضبوط دینی روایت کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتے۔ قوت و اقتدار رکھنے کے باوجود انتہائی سادہ زندگی اور ریاستی وسائل کو اپنی ذات پر خرچ کرنے سے اجتناب کی خوب صورت مثالیں جدید ہندوستان میں ناپید نہیں۔ اسی طرح یہاں کے عوامی قصے کہانیوں میں پرہلاد کی کہانی جسے بادشاہ وقت نے آگ میں پھینک دیا تھا اور وہ زندہ و سلامت رہا تھا حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ کی یاد ضرور دلاتی ہے۔
ان واقعات اور روایتوں کو مناسب انداز میں تسلیم کرتے ہوئے ہمیں ہندوستان کے لیے ایک نیا بیانیہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان روایتوں کے امین اور نگہبان کی حیثیت میں پیش کرتے ہوئے اسلام کا تعارف کرانا چاہیے۔ سورۃ البقرہ کا پہلا رکوع جس میں ایسی صفات کے حامل افراد کو قرآن کریم کی دعوت تسلیم کرنےکے لیے موزوں ترین قراردیا ہے۔ شاید اس حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
۴۔ رشتوں کا تجزیہ
ہم اسلام کو رشتوں کے ایک ہرم کی شکل میں سمجھتے ہیں۔ اپنی ذات اور دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتوں کے بارے میں یہ بات بلا تکلّف کہی جاسکتی ہے کہ ہمارا موجودہ بیانیہ بالعموم قرآن کریم کے فراہم کردہ اقدار کے پس منظر میں کیا ہونا چاہیے کا تو احاطہ کرتا نظر آتا ہے لیکن تجربی مشاہدات (empirical studies) سے عام طور پر خالی ہونے کی بنا پر اپنے اندر اثریت کے بہت سے ضروری پہلو نہیں رکھتا۔
اس کا ایک اور پہلو بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ تجربی مطالعات کی بنا پر انسانی نفسیات کے بارے میں فرائڈ کے نظریات اور سرمایہ داری کے پس منظر میں سوشلزم پر جو کچھ لکھا گیا وہ ان کے منفی پہلو پر مشتمل تھا۔ قرآن کریم نے شہوانی قوتوں یا سرمایہ کی تنقیص نہیں کی بلکہ ان کاتزکیہ کرتے ہوئے ان جہات کا تذکرہ کیا ہے جو انسان کے پیش نظر رہنی چاہئیں تاکہ یہ قوتیں مثبت انداز میں ارتقا کرسکیں۔ مغربی ذہنوں کا ان قوتوں پر زور، ناجائز کسی بھی طرح نہیں، بلکہ صرف غیر مہذب ہے۔ چناں چہ انسانی ذات اور معاشرہ کے مطالعہ سے متعلق مغربی کاوشوں کے تئیں ہمارا رویہ ہم دردانہ ہونا چاہیے اور قرآن کریم کے متعلقہ اقدار کے پس منظر میں تجربی مطالعات کی بنیاد پر مغربی انسان کی کاوشوں کا تزکیہ کرنا چاہیے۔
لیکن آج کے پس منظر میں مذکورہ بالا رشتوں کے علاوہ انسان اور کائنات کے ر شتے کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ اسی رشتہ کے اظہار نے تحقیق و جستجوکے ذریعے دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنادیا ہے۔لیکن اس رشتے کے دوسرے اہم پہلوؤں سے آگہی نہ ہونے کے نتیجہ میں اس ترقی نے ماحولیاتی انتشار، گلوبل وارمنگ، ٹکنالوجی کی بڑھتی ہوئی پہنچ، معاشرتی انتشار کی مختلف شکلیں اور سرمایہ کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم سے پیداہونے والے مسائل پیدا کیے ہیں۔ اب ہم اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ان مسائل کی اہم وجہ انسان اور کائنات کے رشتوں کی اس جہت سے ناواقفیت ہے جو مشاہدہ، تجربہ اور عقل انسانی کی گرفت میں نہیں آ پاتے۔ ہماری ٹکنالوجی میں اس سطح کا ارتقا نہیں ہوا جو ان رشتوں کو گرفت میں لے سکے۔ چناں چہ اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان نامعلوم جہتوں کو گرفت میں لینے کا ذریعہ ٹکنالوجی نہیں بلکہ بعض اقدار ہیں جو ہماری تحقیق،جستجو اور اختراعات کو اس منفی سمت میں جانے سے روک سکتی ہیں جن کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ قدریں قرآن کریم فراہم کرتا ہے اور ان کا اظہار انسان اور کائنات کے باہمی رشتوں سے متعلق قرآنی آگہی ہمیں فراہم کرتی ہے۔ یہ کائنات، نسلوں، زبانوں اور رنگوں کا فرق اﷲ کی آیات ہیں چناں چہ قابل احترام ہیں۔ اسی طرح جس طرح خود قرآن کریم کی لفظی آیات محترم ہیں۔ اس نہج پر تحقیق و تصنیف کی ضرورت ہے۔
۵۔ تانیثیت یعنی فیمینزم
ہمارے حلقوں میں تانیثیت کو تحریک آزادیٔ نسواں کے پس منظر میں سمجھا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔تانیثیت آج کی شکل میں تانیثی نقطۂ نظر کو پہنچاننے اور اس نقطۂ نظر کے مطابق واقعات اور حالات اور نقطہ ہائے نظر کا تجزیہ کرنے کا نام ہے۔ گویا یہ اس قوت ادراک اور قوت فہم کا نام ہے جو عورت کو عورت ہونے کی بنا پر حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح یہ عورت کی خودی کی پہچان کی تحریک ہوکر ایک طرح کی علمی و فکری تحریک بنی ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو قرآن کریم کی ہدایات جہاں مردوں اور عورتوں کے لیے بلا تفریق ہیں وہیں عورتوں کے لیے بعض مخصوص بھی ہیں جو ان کے حیاتیاتی اختصاص کے پس منظر میں وارد ہوئی ہیں۔گویا ان مخصوص ہدایات کے علاوہ تمام دوسرے میدانوں میں ان کی صلاحیتوں اور فہم و ادراک کے ارتقا کے احکامات برابر ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں جہاں جہاں سہولیات میسر ہوئی ہیں خواتین نے اس سچائی کو ثابت کیا ہے۔ سائنس کے فلسفہ میں تانیثی نقطہ نظر نے جس طرح تشدد کے فلسفہ کی جگہ توجہ (care) اور محبت (love) کو متعارف کرایا ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جدید ترین میدان فکر میں تانیثی نقطۂ نظر اہم اور مثبت نتائج پیش کرسکتا ہے۔
اسلامی لٹریچر میں تا نیثیت کے تئیں سرد مہری ہونے کی بنا پر ہم ان کی استعداد کو دین کے فہم کے لیے استعمال نہیں کرسکے ہیں۔ فقہی، عائلی مسائل تو جیسے انھی کے میدان ہیں، علم و فکر کے دوسرے میدانوں میں بھی ان کی صلاحیتیں فکر اسلامی میں اضافہ کرسکتی ہیں اور بہت سے ایسے مسائل حل ہوسکتے ہیں جنھیں ہم آج مدافعانہ انداز میں پیش کرتے رہے ہیں۔ اس طرح تانیثی نقطہ نظر اہل اسلام کی خود اعتمادی میں اضافہ کا باعث ہوسکتا ہے۔
۶۔ فاستبقوا الخیرات
خدمت خلق ہماری انفرادی و اجتماعی سرگرمیوں میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ دینی سرگرمیوں میں اسے ایک باقاعدہ ادارے کی شکل دی گئی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسے عام ضروریات پوری کرنے یا اتفاقی حادثات سے پیدا ہونے والی ضرورتوں کے پس منظر میں ہی دیکھتے آئے ہیں۔ عوام کی ضرورتوں کو پور ا کرنے کے علاوہ ان کی روزمرّہ کی زندگی میں سہولیات پیدا کرنا زندگی کو آسان تر بنانا، صحت کو متاثر کرنے والے ماحول سے زندگیوں کو بچانا اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کی جانے والی علمی و فکری اور تحقیقی جستجوکرنا عام طور پر خدمت خلق میں شمار نہیں کیا جاتا۔ مدنی زندگی میں مسلمانوں کو جب پانی کی قلت ہوئی اور حضرت عثمانؓ نے یہودی کا کنواں خرید کر عام انسانوں کے لیے وقف کردیا تو اﷲ کے رسول ﷺنے بڑے والہانہ انداز میں حضرت عثمانؓ کی توصیف فرمائی تھی اور عظیم الشان انعام کی بشارت دی تھی۔ سوال یہ ہے کہ یہ و بشارت محض کنواں خریدنے کی حد تک تو محدود نہیں رہی ہوگی۔ کنواں کھدوانا، نہریں نکالنا، ہینڈ پمپ لگوانا، پھر دوسرے انتظامات مثلاً رہٹ لگوانا، ٹیوب ویل اور سبمرسبل کا انتظام کرنا، یہ سب انھی کاموں میں شمار ہوں گے، اور محض اتنا ہی نہیں بلکہ ہینڈ پمپ، ٹیوب ویل اور سبمرسبل کی تیاری اور اس سلسلے میں کی جانے والی ریسرچ و تحقیق اور پھر اسے ٹکنالوجی میں ڈھالنے کی کوششیں بھی انھی خدمات میں شمار ہوں گی جن سے رسول اﷲ ﷺ کو خوشی ملی تھی اور یہ بھی اسی عظیم الشان انعام کی مستحق ٹھہریں گی۔ بس شرط یہ ہے کہ انسانوں کی یہ سب خدمتیں ان کی زندگی کو آسان کرنے کی غرض سے کی جائیں۔ چناں چہ آج کے دور کی و ہ تمام ریسرچ و تحقیقات جو انسانی زندگی سے دکھوں کو دور کرنے، آسانیاں فراہم کرنے کی غرض سے کی جائیں انھیں خیر کے کاموں میں شمار کیا جائے گا جن میں سبقت حاصل کرنے کاحکم، یعنی غیر مسلموں سے آگے رہنے کا حکم قرآن کریم دے رہا ہے۔
خدمت خلق یعنی خیر کے کاموں کے اس تصور پر ہمارے یہاں کوئی علمی کام نہیں ہوا ہے۔ اس طرح کے لٹریچر کی شدید ضرورت ہے اور اکیسویں صدی اس اپروچ کو اپنانے کی طرف متوجہ کرتی نظر آتی ہے۔
۷۔ معاشرہ اور خاندان
مسلم معاشرہ اور خاندان کے بارے میں ہمارے لٹریچر میں رسمی روایات اور عائلی قوانین پر بہت زور ہے جس کے نتیجہ میں بعض انتہائی اہم خصوصیات دب کر رہ گئی ہیں۔ اس کا اثریہ ہوا ہے کہ ہم بالکل بھول گئے ہیں کہ قرآن ہم سے معاشرتی اور خاندانی سطح پر اور کیا کیا چاہتا ہے۔ شدید ضرورت ہے کہ ان قرآنی ہدایات کو واضح کیا جائے اور عملی کوشش کی جائے کہ یہ خصوصیات ہمارے معاشروں میں اجاگر ہوں۔ یہاں چند صفات پیش کی جاتی ہیں۔
الف۔ فکر و تدبر اور مشاہدہ و تعقّل: قرآن کریم نے سیکڑوں مقامات پر فطری مظاہر، قرآن کریم اور نفس انسانی پر فکر و تدبر کرنے اور مشاہدہ و تعقّل کے ذریعے نتائج اخذ کرنے پر زور دیا ہے اور اتنی بار دیا ہے کہ یہ ہر فرد کی صفت بن کر ابھرتا ہے۔ فطرت اور مظاہر فطرت کا مطالعہ و مشاہدہ اور اس پرتعقُّل اہل ایمان کا اسلامی تقاضا بن گیا ہے۔ مسلم معاشرے کی پہچان یہ ہے کہ اس کا ہر فرد غور و خوض کرتا ہے۔ فکر و تدبّر کرتا ہے اور فطرت سے مشاہدات کے ذریعے جڑا رہتا ہے۔
ب۔ دلیل: قرآن کریم اہل ایمان سے یہ بھی توقع کرتا ہے کہ وہ دلیل سے گفتگو کریں گے۔انھیں اہل عقل کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ البتہ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ اپنی عقل کا تزکیہ بھی کرتے ر ہیں اور عقل کو سلامت روی پر قائم رکھیں۔
ج۔ مشاورت: قرآن بتاتا ہے کہ مسلمان وہ ہیں جو اپنے کام باہمی مشورہ سے کرتے ہیں۔ یہ ایک مستقل اصول کے مانند ہے اور خاندان کے ایک یونٹ سے لے کر سیاسی سطح تک محیط ہے۔
د۔ آزادی: اسلام آزادیِٔ اظہار اور آزادیِٔ فکر کا علم بردار ہے۔ کوئی رائے قائم کرنے میں وہ کسی اجارہ داری (hegemony)کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ البتہ وہ معاشرے میں اہل علم اور عمر میں بڑوں کی عزت و احترام کی فضا قائم کرتا ہے۔ رنگ و نسل اور زبان کے فرق کو وہ اﷲ کی آیت قرار دے کر انھیں قابل احترام بناتا ہے۔صلاحیتوں اور ان کے استعمال کے باب میں صنفی اختلافات کو روا نہیں رکھتا، البتہ ایک خاندان میں مرد کو قوام کا درجہ دے کر ایک مضبوط معاشرہ کی بنیاد رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ گھریلو فضا میں مشاورت کی آبیاری کرتا اور بیوی کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنے علم، استعداد اور دولت کے اضافہ کے لیے ضروری اقدامات کرے۔ یہ وہ میدان ہیں جو آج خصوصی توجہ کے طالب ہیں لیکن ان کے بہت سے پہلوؤں پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔اسلام کے ابتدائی دور میں محض ۵۰ سال کے اندر جس طرح انسانی صلاحیتوں کا سیلاب آگیا تھا وہ تاریخ میں بے مثال ہے۔ اس کا سہرا اس آزاد فضا کے سر بندھتا ہے جو قرآن نے پیدا کردی تھی۔ اس موضوع پر پوری اہمیت کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔
ہ۔ حقوق: حقوق کے میدان میں قرآن بہت حساس ہے۔ ان میں مسلمانوں کے آپسی حقوق تو ہیں ہی لیکن دوسروں کے حقوق کی وضاحت ہمارے یہاں کم کی گئی ہے۔ اﷲ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا ہم پر حق ہے کہ ا ن کا استعمال ہو۔انھیں استعمال نہ کرنا ناشکری ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے ہر فرد پر یہ حق ہے کہ وہ جہاں رہتا ہے اس جگہ کی صفائی و ستھرائی کا خیال رکھے، راستوں کو آرام دہ بنائے رکھے اور ایسے اقدامات سے خود ہ بھی رُکے اور دوسروں کو بھی روکے جو راستوں کو تکلیف دہ بنانے والے ہوں۔ ماحول اور فضا کو ستھرا رکھنے میں اپنا حصہ ادا کرے۔ اپنے گھروں اور راستوں میں درخت لگائے اور فضائی آلودگی سے ماحول کو محفوط رکھے۔ جانور کسی بھی طرح کے ہوں ان کے بھی حقوق ہیں ہمارا دین ان کی حفاظت کرتا ہے۔ جدید رجحانات کی روشنی میں ان حقوق کی وضاحت ہونا چاہیے۔
۸۔ قرآن کریم کا موضوعاتی مطالعہ
مختلف موضوعات کے تحت قرآن کریم کا مطالعہ ایک معروف علمی طریقہ ہے اور ہم زندگی اور معاشرے سے متعلق مسائل کے بارے میں قرآن کریم کا نقط نظر اس طریقے سے اخذ کرتے آئے ہیں۔ جدید علوم کے میدان میں بھی اسی نوعیت کا استفادہ ہم قرآن کریم سے اسی طرح کرتے ہیں۔ البتہ سائنس اور متعلقہ میدانوںمیں قرآن سے استفادہ کی نوعیت یا تو قرآن کے مطالب کو ان علوم کی مدد سے سمجھنے کی رہی ہے یا ان علوم پر قرآن کے پس منظر میں نقد کرنے کی۔اور اس دوران ہم یا تو کبھی قرآن کو معیار مان لیتے ہیں یا پھر جدید علوم کو معیار مان کر اپنے قرآنی فہم میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان دونوں ہی اپروچ پر بڑی جامع تنقید ہوتی رہی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ جدید علوم بشمول سائنس ارتقا پذیر رہتے ہیں اور اسی طرح ہمارا قرآنی فہم بھی ارتقا پذیر رہتا ہے۔ اسی لیے یہ طریقہ ان ناقدین کے نزدیک کسی خطرہ سے خالی نہیں۔ لیکن یہ چوں کہ انسانی فطرت ہے کہ انسان الٰہی ہدایات کو اپنی زبان اور فہم کے تحت سمجھتا اور سوچتا ہے اس لیے وہ ایسا ہمیشہ کرتا رہے گا اور خطرات کا سامنا کرتا رہے گا۔
لیکن آج یعنی اکیسویں صدی میں سائنس کے بعض پہلو ایسے ابھرے ہیں جن کے بارے میں یہ خیال عام ہورہا ہے کہ ان پہلوؤں پر قرآن سے اخذ کردہ معلومات نئے دریچے کھول سکتی ہیں۔ بالخصوص کائنات کی تخلیق، ارتقائے حیات سے متعلق جدید سائنسی نقطہ نظر اور قرآن کریم کا فہم ایک ایسا سائنسی شاکلہ فراہم کرتا نظر آتا ہے جو شاید سائنس کے بعض سوالات کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو۔
اسی پس منظر میں قرآن کریم کے موضوعاتی (reductionist) مطالعہ کی اہمیت بڑ ھ جاتی ہے اور صرف سائنس یا متعلقہ میدانوں میں ہی نہیں بلکہ بعض اخلاقی احکامات کی تفہیم نو کے باب میں بھی مطالعہ کا یہ طرز بڑا سود مند ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم کی اصطلاحوں کے معنی میں فی زمانہ جو تبدیلیاں آتی رہیں ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ایک بار پھر اہلِ قریش کی طرف رجوع کرکے دیکھنے سے جو وسعتِ فہم حاصل ہو وہ ممکن ہے بہت سے سوالات حل کرنے اوراشکالا ت کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو۔
میری دانست میں یہ وہ عمومی موضوعات ہیں جن پر آج کے دور میں بحث بھی ہونی چاہیے، ریسرچ و تحقیق بھی اور تصنیف و تالیف کا کام بھی۔
مشمولہ: شمارہ جون 2022