’’لائحہ عمل ‘‘ نمبر آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اِس پر ہم اللہ کا شُکر ادا کرتے ہیں۔
یہ واقعہ ہے کہ ملک کی تازہ سیاسی تبدیلی نے یہاں کے مسلمانوں کو خود احتسابی کی جانب متوجہ کیا ہے۔ خود احتسابی کے اس عمل کو سمجھنے کے لیے آزادی ملک کے بعد کی مسلم سیاست پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ اس سارے عرصے میں ہندوستان میں مسلم سیاست کا مقصد یہ رہاکہ مسلمانوں کے جسمانی اور معنوی وجود کا تحفّظ کیاجائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مسلمانوں نے جو طریق کار اختیار کیا، اُس کابنیادی جُز یہ تھا کہ سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیوں کے سامنے اپنے مطالبات پیش کیے جائیں اور انتخابات میں اُن کی تائید کی جائے۔ مختلف عوامل کی بِنا پر ہوا یہ کہ مُلک میں مختصر وقفوں کے علاوہ مرکزی حکومت پر اُنہی سیاسی پارٹیوں کا قبضہ رہا جو سیکولر کہی جاتی ہیں۔ چنانچہ مسلمان یک گونہ خوش فہمی کا شکار رہے۔ ۲۰۱۴ کے الیکشن کے بعد یہ صورتحال بدل گئی اور اقتدار ایسی پارٹی کے ہاتھ میں آگیا جسے مسلمان، سیکولر نہیں سمجھتے۔ اِس صورتحال نے مسلمانوں کو اضطراب میں مبتلا کیا۔ اضطراب گرچہ ایک منفی کیفیت ہے لیکن اس کا ایک اچھا پہلو بھی ہے۔ اضطراب کے کیفیت کے نتیجے میں افراد اور گروہ اپنے طرزِ عمل کا احتساب کرنے کی طرف بھی متوجہ ہوتے ہیں۔ ایسے آثار نظرآرہے ہیں کہ مسلمان اب اپنے احتساب کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ جائزے کا یہ عمل حقیقت پسندانہ اور بے لاگ ہونا چاہیے۔ احتساب کے ضمن میں بنیادی نکات دو ہیں جو قارئین کی توجہ کے لیے پیش کیے جاتے ہیں:
(الف) مسلم سیاست کامقصد یعنی’’مسلمانوں کے جسمانی اور معنوی وجود ‘‘کا تحفظ ایک محدود مقصد تھا۔ مسلم سیاست کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ حق کی شہادَت، عدل کا قیام، معروف کا فروغ اور مُنکر کا ازالہ۔ اِس اعلیٰ مقصد کاایک جُز مسلمانوں کے وجود کا تحفّظ بھی ہے۔ اَب اس اعلیٰ مقصد پر مسلمانوں کی قیادت کو توجہ دینی چاہیے۔
(ب) مسلم سیاست کا طریق کار یعنی’’موجودہ سیکولر پارٹیوں پر مسلمانوں کا انحصار ‘‘ بھی صحیح نہ تھا۔ اس طریقے کے بجائے مسلمانوں کو چاہیے کہ نظامِ حکمرانی کو متاثر کرنے کے لیے عوام وخواص، سیاسی اداروں اور ذرائع اِبلاغ سے مؤثر رابطے کا منصوبہ بنائیں تاکہ عوام، خواص اور سیاسی و تمدنی اداروں کے کارفرما عناصر کے ذہن وفکر کی اِصلاح ہوسکے۔ یہ ایک وسیع کام ہے۔ اس کا ایک اہم جُز یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر نیز قانون سازی کے عمل پر نگاہ رکھی جائے اور غیرمنصفانہ اقدامات پر بروقت گرفت کی جائے۔ اِن کاموں کو انجام دینے کے لیے مناسب تنظیمیں فورمس اور گروپس تشکیل دیے جانے چاہئیں۔
مندرجہ بالا دو نکات وہ ہیں جن کا براہِ راست تعلّق سیاست سے ہے لیکن سیاست بہرحال زندگی کا محض ایک شعبہ ہے۔ سیاست کے ضمن میں کی جانے والی سرگرمیاں اُسی وقت مؤثر اور نتیجہ خیز ہوسکتی ہیں جب دعوتِ دین، تربیت و تزکیہ اور تعمیرِ ملت کا وسیع تر ایجنڈا بھی مسلمانوں کے سامنے ہو اور وہ اسی وسیع ایجنڈے کے مطابق منصوبہ بند کوششیں انجام دیں اِس پس منظر میں اس خاص نمبر سے استفادہ کیاجانا چاہیے۔’’لائحہ عمل نمبر‘‘ میں خود احتسابی کے جذبے کے تحت لکھی گئی اہلِ قلم کی تحریریں شامل ہیں، اِن سے حالات کا جائزہ لینے اور منصوبہ بنانے میں مدد ملے گی۔ تحریروں کو چار اجزاء میں تقسیم کیاگیا ہے:
(الف) محترم امیر جماعت اسلامی ہند کا خطاب اور انٹرویو
(ب) ماضی کے بزرگوں سے استفادہ
(ج) ارکان ِمجلس شوریٰ کے مضامین
(د) دیگر اصحابِ فکر ونظر کی تحریریں
اِن مضامین میں جو رائیں ظاہر کی گئی ہیں وہ اصحابِ قلم کی اپنی رائیں ہیں۔ ادارے کا ان سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔ اِن رایوں میں تنوع اور اختلاف کا ہونافطری ہے۔ اُن سب آراء میں قدرِ مشترک وہ فکری اساس ہے جو اِسلام فراہم کرتا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ ’’لائحہ عمل نمبر‘‘ خود احتسابی کے عمل کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔ قارئین کرام کو عیدالفطر کی مبارکباد پیش ہے۔
والسلام
(ایڈیٹر)
مشمولہ: شمارہ اگست 2014