اللہ کا ارشاد ہے:’’ پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کرو تاکہ تم فلاح پالو‘‘۔ (سورۃ۔جمعہ۔آیت۔10) یہ سورہ جمعہ کی آیت ہے اورقبل والی آیت نماز جمعہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانے اور تلاش رزق کی دوڑ دھوپ میں لگ جانے کی اجازت ہے۔ جمعہ کی اذان سن کر کاروبار چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا اس لیے فرمایا گیا کہ نماز ختم ہو جانے کے بعد تمہیں اجازت ہے کہ منتشر ہو جاؤ اور اپنا کاروبار حلال طریقے سے کرو۔یہ عام دنوں کے لیے بھی دلیل ہے کہ تم نماز فرض کے بعد منتشر ہو کر زمین میں اللہ کا فضل تلاش کرو۔رزق حلال اور دیگر معاملات کے لئے سعی کرو۔مذہب اسلام سستی اور کاہلی سے منع فرماتا ہے۔اللہ کے فضل کی تلاش کی اصطلاح تجارت یا دیگر ذرائع سے روزگار حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے مطلب یہ ہے کہ خرید وفروخت پر جو پابندی اذان کے بعد عائد ہوئی تھی، جمعہ کی نمازادا ہونے کے بعد وہ پابندی اٹھ جاتی ہے،اور خرید وفروخت جائز ہوجاتی ہے۔
تجارت کی اہمیت
صبح سویرے ہی سے تجارت وغیرہ کا آغاز کریں، اس طرح برکت حاصل ہوگی۔آپ ﷺ کا تعلق کاروبار سے تھا۔25 سال کی عمر میں آپ نے شام کا سفر کیا جو حضرت خدیجہ کے تجارتی سلسلے میں تھا۔ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمانداری کا نمونہ پیش کرکے خود کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔ ’’جوتاجر تجارت کے اندر سچائی اور امانت کو اختیار کر ے تو وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا‘‘(سنن الترمذي، حدیث نمبر۔ 1253) سیدنا زبیر بن عوام ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: آدمی اپنے کندھے پر رسی ڈال کر ایندھن کی لکڑیاں اٹھائے ہوئے بازار میں فروخت کے لیے لا رکھے اور اسی سے دولت کما کر اپنی ذات پرصرف کرے یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا پھرے و ہ اسے دیں یا نہ دیں۔ (مسند امام احمد ابن حنبل۔حدیث۔1407)سیدنا رافع بن خدیج ؓسے روا یت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: آدمی کے ہاتھ کی کمائی اور ہر مبرور تجارت۔ (مسند احمد:رقم حدیث ۔ 17397)
کمپنیوں کا فریب
آج کے اس پر خطر دور میں ہمارے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ملٹی نیشن کمپنیوں کی گرفت میں ہے یہ صورت حال ہمارے مذہب اسلام کے مزاج کے برعکس ہے۔ ہندوستان میں بیسویں صدی کی آخری دہائی میںکمپنیاں متعارف ہوئی ہیں، لیکن اس سے پہلے دیگر ممالک خاص کر یورپی ممالک اس تجربہ سے گزرچکے ہیں۔ کمپنیوں کا تعارف کرانے والے اس انداز سے بات کرتے ہیں کہ گویا یہ کمپنیاں ان ترقی یافتہ ممالک کو فیض یاب کرکے اب ہمارے ملک کو بھی فیض یاب کرنے آئی ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اِن کو اُن ممالک سے راندئہ درگاہ کردیاگیا ہے، وہاں کے ماہرینِ اقتصادیات نے انھیں مسترد کردیا ہے ۔ان کی بنیادی ساخت (System) میں دھوکہ اور تجارتی چال بازی (Business fraud) موجود ہے؛ اس لیے دنیا کے بہت سے ممالک میں ان پر پابندی ہے۔ حکومتوں نے ان کے ضرر سے بچنے کی تلقین کی ہے، ان کے نعرے ضرور دلکش ہیں لیکن حقیقت میں پرفریب ہیں، انجام کار ساری رقوم ان کمپنیوں کے مالکان کی جھولی میں چلی جاتی ہیں، ممبران کو سوائے سراب اور دھوکہ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
امریکہ میں اسی طرز کی ایک کمپنی اسکائی بزکوم (Skybiz.com) ہے،اس کمپنی کی شاخیں متعدد ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں، مگر خود امریکی حکومت نے مذکورہ کمپنی پر عوام کے ساتھ دھوکہ دہی اور چال بازی (Fraud) کا الزام عائد کیا ہے، اسی کے پیش نظر ’’اوکلاہومااسٹیٹ‘‘ کی عدالت نے کمپنی کی سرگرمیاں روک دینےکا حکم دیا ،اور کمپنی کے کارکنوں اورایجنٹ حضرات کا سرمایہ اوراجرت انھیں ادا کرنے کے لیے اس کمپنی کے اثاثے منجمد کردینے کا فیصلہ کیاہے۔ (دیکھئے امریکی وزارتِ تجارت کی ویب سائٹ: http://www.Ftc.gov/opa/2001/06sky.htmبحوالہ بحث ونظر شمارہ۔،68۔69 جنوری – جون 2005/ص۔163)
جاپان اور چین میں 1998 میں ایموے (Amway) اوراس طرز کی کمپنیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ (اخبار منصف: مینارئہ نور۔24/3/1428ھ) ۔
تجارت کے آداب
ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس ڈھیر میں ڈالا تو انگلیوں پرکچھ تری محسوس ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلے والے سے پوچھا یہ کیاہے؟ دوکان دارنے کہا: یارسول اللہ!اس ڈھیر پر بارش ہوگئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم نے بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھ دیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، جوشخص دھوکہ دے، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر۔295)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔خرید نے اور بیچنے والے اگر سچائی سے کام لیں اور معاملے کو واضح کر دیں تو ان کی خرید وفروخت میں بر کت دی جاتی ہے، اور اگر کوئی بات چھپالیں اور جھوٹ بولیں تو ان کے کا روبارسے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر۔1937)آپ نے ارشاد فرمایا۔ خدا اس شخص پر رحم فرمائے جو خرید و فروخت اور تقاضا کرنے میں نرمی اور خوش اخلاقی سے کام لیتا ہے‘‘(صحیح البخاري، حدیث نمبر۔2076)ہم غیر مسلموں کے ساتھ کاروباری معاملات کر سکتے ہیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہود کو کھیتی باڑی کیلئے دی، اور اس پر انہیں پیداوار کا نصف حصہ بھی دیا۔ بخاری: (2366)شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا کہ،کیا کوئی مسلمان کسی عیسائی کیساتھ کاروباری شراکت قائم کر سکتا ہے، مثلاً مل کر بکریاں پالیں، یا بکریوں کی تجارت کریں، یا کوئی اور کاروبار کریں‘‘؟
انہوں نے جواب دیا:’’ مسلمان کسی عیسائی کیساتھ یا کسی کافر کیساتھ تجارتی شراکت داری قائم کرے تواصل کے اعتبار سے یہ جائز ہے، بشرطیکہ کافر کے ساتھ دلی لگاؤ نہ ہو، بلکہ زراعت، پالتو جانور وغیرہ کے کاروبار میں تعاون ہو‘‘۔
مسلمانوں کی ابتر صورتحال
مسلمان دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے ہیں ، لاکھوں مسجدیں ہیں جہاں نماز ادا کی جاتی ہے اور قرآن مجید پڑھا جاتا ہے۔ ہرسال لاکھوں مسلمان حج وعمرہ کرتے ہیں اور بڑے بڑے مذہبی اجتماعات ہوتے ہیں۔ پھرمسلمان پیچھے کیوں رہ گئے؟ قرآن بتاتا ہے کہ پہلی قومیں کم تولنے، بُرے اخلاق، غریب لوگوں پر زیادتی، علم اور دولت کو عام انسانوں کی بھلائی کے لیے استعمال نہ کرنے، معاشرتی عیوب اور اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی وجہ سے تباہ ہوئیں۔
مسلمانوں نے جب اپنے نبی ﷺ کے پیغامات کو دل وجان سے تسلیم کیا،دنیا ان کی غلام ہوئی۔ پھران میں آپس کے اختلافات ہوئے اور خاندانی حکومتوں نے عوام کی آزادی اور عدالتوں کے اختیارا ت ختم کردیے۔ مسلمانوں میں آپس میں حکومت کے لیے لڑائیاں ہونے لگیں اور مسلمانوں میں فرقے بننے شروع ہوگئے ۔ اسلام ایک دین کی بجائے محدود مذہب بن گیا جو صرف مساجد میں نظر آتا تھا،جب کہ حکمران طبقہ اقتدار میں مگن رہا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ غوروفکر اور تحقیق پر قرآن بار بار زور دیتا ہے اور کائنات کا علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے اُسے ترک کرکے قرآن کو بغیر سمجھے پڑھنے کی رسم ادا ہونے لگی۔قرآن کی تعلیمات محض مذہبی زندگی تک محدود نہیں بلکہ یہ مفید علوم کو حاصل کرنے پر بھی زور دیتا ہے اُسے نظر انداز کردیا گیا۔ مذہبی رہنما اپنی ذمہ داریاں بھول گئے۔ اللہ کی حقیقی اطاعت کے بجائے رسمی عبادت رہ گئی ۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔حافظ ابن قیم نے کچھ علامات بیان فرمائی ہیں جب انسان کا دل دنیاوی لذتوں میں گم ہو کر آخرت کوبھلا بیٹھتا ہے،تو بیمار ہو جاتا ہے۔
دِل کی زندگی مطلوب ہے
پہلی علامت یہ ہے کہ انسان فانی چیزوں کو باقی چیزوں پر ترجیح دینے لگے، مثلاً دنیا کا گھر اچھا لگتا ہے مگر آخرت کا گھر بنانے کی فکر نہیں ہے۔ دنیا میں عزت مل جائے مگر آخرت کی عزت یا ذلت کی فکر دل میں نہیں۔ دنیا میں آسانیاں ملیں مگر آخرت کے عذاب سے بچنے کی پرواہ نہیں۔
دوسری علامت دل کی سختی ہے۔ اللہ کے ڈر سے انسان رونا بند کردے تو وہ سمجھ لے کہ اس کا دل سخت ہورہاہے۔ یاد رہے کہ کبھی انسان کی آنکھیں روتی ہیں اور کبھی انسان کا دل روتا ہے۔ دل کا رونا آنکھوں کے رونے پر فضیلت رکھتاہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آنکھ سے پانی نکلے۔ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے دل رو رہے ہوتے ہیں، حالانکہ آنکھوں سے پانی نہیں نکلتا، مگر دل سے رونا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو جاتا ہے اور ان کی توبہ کے لئے قبولیت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ تو دل اور آنکھوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور روئے۔ بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی دل اور آنکھ دونوں رو رہی ہوتی ہیں۔ دِل کی خرابی کی تیسری علامت یہ ہے کہ مخلوق سے ملنے کی تو تمنا ہو لیکن اللہ رب العزت سے ملنا یاد ہی نہ ہو۔ سمجھ لو کہ یہ دل کی موت ہے۔ لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں تو ان کے دل میں ایک دوسرے سے ملنے کی تمنا ہوتی ہے بہت سو ںکو اللہ رب العزت کی ملاقات یاد ہی نہیں ہوتی۔ چوتھی علامت۔انسان کا اللہ رب العزت کی یاد سے گھبرانا ہے۔ محض مخلوق کے ساتھ بیٹھنے سے خوش ہو تو وہ بھی دل کی موت کی پہچان ہے۔ اللہ کی یاد سے گھبرانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا دل تسبیح پڑھنے، ذکر اذکار کرنے اور مراقبہ سے گھبرائے۔ اسے مصلیٰ پر بیٹھنا بوجھ محسوس ہو۔
کاروبار کی ضرورت
دِل کی زندگی کے ساتھ، مسلمانوں کی حلال کاروبار پر توجہ ضروری ہے۔ ایک بار فاروق اعظم ؓ بازار میں گئے اور دیکھا کہ بازارپرغیر مسلموں کا تسلط ہوگیا ہے ،یہ دیکھ کر آپ ؓ کو فکر محسوس ہوئی کہ اگر ایسا ہوتا رہا تو ایک دن مسلمان کاروباری معاملے میں بالکل ہی پیچھے ہوجائیں گے،آپ ؓ نے ان حالات سے نپٹنے کے لئے تجار تی معاملات کو فروغ دیا،چند دنوں میں حالات قابو میں آگئے۔ اس مثال میں ہمارے لیے نمونہ ہے ۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2019