حدیث کی تشریعی حیثیت

(۱۹)

سنت پر عمل کس حد تک؟

قرآن فرماتا ہے: ’’ ہم نے جو رسول بھی بھیجا اسی لیے بھیجا کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘ (النساء: 64)، اور یہ بات بار بار کہی گئی ہے اللہ کی اطاعت کے لیے ضروری تھا کہ اس کے تمام پیغمبروں کی اطاعت کی جائے۔(دیکھیے آیات: آل عمران:50؛ الشعراء: 108، 110، 126، 131، 144، 150، 163، 179؛ نوح: 3) چوں کہ قرآن نسبتاً کم قوانین پر مشتمل ہے، لہذا رسول اللہ نے اپنے تئیس سالہ نبوی مشن میں بہت سی ایسی ہدایات جاری کی ہوں گی—خاص طور پر مدنی دور میں—جو کتاب اللہ میں مذکور نہیں ہوں گی اور صحابہ کرام نے یقینی طور پر ان احکامات پر یہ سمجھتے ہوئے عمل کیا ہوگا کہ وہ ’’اطاعتِ رسول‘‘ ہی کے حکم شامل ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ قرآن کریم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا واجب کردیا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ صحابہ کرامؓ کے درمیان موجود تھے تو لامحالہ ان کا اسوہ اس وقت کے معاشرے کے لیے رہ نمائی کا ایک بنیادی ذریعہ تھا، امام شافعیؒ کے نزدیک اب اس حکم کے دائرے میں ’’رسول اللہ ﷺ کے بعد تقریباً دو صدیوں کے دوران جمع ہونے والے احادیث کا ذخیرہ ،جو مستند سنت قرار دیا گیا، شامل ہے۔‘‘ امام شافعیؒ نے اس حکم کے لیے قرآن مجید سے ٹھوس دلیل کی ضرورت کو محسوس کیا کیوں کہ ان کے زمانے میں بہت سے لوگ حدیث کے بڑھتے ہوئے ذخیرے کی صداقت پر شک کرنے لگے تھے اور اس حکم کے ثبوت کے طور پر حدیث ہی کے روایت لانے کے دوری استدلال (circular argument)کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اگرچہ بہت سی آیات جنھیں عام طور پر دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان میں متعدد ایسی نہیں ہیں جو امام شافعیؒ کے استدلال پر پوری اترتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کو جو حکمت عطا کی گئی تھی اسے سنت میں تلاش کیا جائے۔ البتہ امام شافعی کے موقف کا دائرہ اس سے بھی وسیع تر ہے۔ ان کے نزدیک حکمت محض سنت نبوی پر مشتمل نہیں بلکہ دونوں بنیادی طور پر مماثل ہیں۔ اس کے عملی مضمرات میں سے ایک یہ ہے کہ تمام تر سنت نبوی مستند ہے، جس میں وہ بھی شامل ہے جو قرآنی احکامات سے براہ راست مربوط نہیں۔ امام شافعی نے قرآن مجید کے نبی ﷺ کی اطاعت کے حکم کو بطور دلیل پیش کرنے کے علاوہ اس بڑے دعوے کے لیے کوئی اور قرآنی دلیل پیش نہیں کی ہے، اور یہی چیز ان کے زمانے میں نقطہ نزاع بھی رہی۔

امام شافعیؒ کا الرسالہ خالصتاً علمی کام نہیں ہے جس میں طویل عرصے سے قبول شدہ موقف اور دلائل کا جائزہ لیا گیا ہو۔ یہ ایک محاکمہ ہے جس میں اس زمانے کے دیگر رائج تصورات کے خلاف کسی نقطہ نظر کی درستی اور صحت پر زور دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری اسلامی صدی میں بہت سے لوگ ایسے تھے جو حدیث کے بارے میں مخصوص رویہ رکھتے تھے۔ اکثر خوارج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس قول کی بنیاد پر احادیث کا مکمل طور پر انکار کرتے ہیں: لا حکم الا للٰہ (خدا کے سوا کسی کا فیصلہ قابل قبول نہیں)۔ معتزلہ نے رسمی وجوہات کی بنا پر حدیث پر شک کیا، کیوں کہ وہ حدیث کی پرکھ کے موثر ہونے پر شک کرتے تھے اور ان کی نظر میں بہت ساری احادیث یا تو دیگر احادیث سے، یا عقل سے، یا اس سے بھی بدتر صورت میں قرآن سے متعارض ہیں۔ الرسالہ ان رویوں کے ساتھ اور قدامت پسند شرعی علما کا بھی رد کرتا ہے جو احادیث کو استعمال کرنے کے لیے آمادہ تو تھے لیکن کسی بھی ایسی چیز کو قبول کرنے میں ہچکچاتے تھے جو قرآن میں مذکور نہیں ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس مسئلہ پر مسلم فقہا میں بہت بحث رہی ہے۔

كوئى بھى عالم اس ميں اختلاف نہيں كرتا كہ سنت تين زمروں ميں تقسیم کی گئی ہے، اور علما كا ان ميں سے دو پر اجماع ہے۔ ان کا ابھی ذکر کیا گیا ہے۔ تیسری قسم ان امور پر مشتمل سنتوں کی ہے جن کے بارے میں قرآن مجید میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ یہ تیسری قسم متنازعہ ہے۔

بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اللہ نے نبی کی اطاعت کی ذمہ داری عائد کرنے کے بعد اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ آپ ﷺ کو اسی چیز کی طرف ہدایت کرے گا جو اس کی رضا مندی کا باعث ہو، اللہ نے نبی کریمؐ کو اِن سنتوں کو قائم کرنے کا اختیار تفویض کردیا جن کا ذکر کتاب اللہ میں نہیں ہوا۔

بعض نے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ میں مذکور امور کے علاوہ کسی اور چیز پر کوئی سنت قائم نہیں کی، مثال کے طور پر وہ سنتیں جن میں روزمرہ کی نمازوں کی تعداد، ان کی انجام دہی کا طریقہ اور اوقات متعین کیے گئے ہیں، کیوں کہ نمازوں کا عمومی نفاذ قرآن مجید میں ہے۔ یہی بات تجارتی معاملات کی سنتوں پر بھی لاگو ہوتی ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جائیداد، فروخت، قرض، سود وغیرہ معاملات کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح کے تمام مسائل میں نبی کریم ﷺ نے جس چیز کو حلال یا حرام قرار دیا ہے، وہ نمازوں کی طرح اللہ کی طرف سے مثل بیان (توضیح) ہیں۔

تیسری اسلامی صدی کے اوائل میں مسلم فقہا کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو قرآن مجید میں مذکور مسائل سے متعلق احادیث کو قبول کرنے سے گریزاں تھی۔ اگرچہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ان کی ہچکچاہٹ اس مفروضے پر مبنی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف ان امور پر سنتیں متعارف کروائی ہیں جن کا ذکر کتاب اللہ میں کیا گیا ہے، لیکن یہ ان کے استدلال کی بہت سادہ شکل (oversimplication) ہو سکتی ہے۔ چوں کہ الرسالہ کا ایک بڑا حصہ احادیث کے استنداد کے بارے میں خدشات کو دور کرتا ہے، لہذا ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ ایک اہم عنصر تھا۔ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے یہ محسوس کیا ہو کہ ضرورت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ان مسائل کی وضاحت کے لیے سنت نبوی کی طرف رجوع کریں جن کے بارے میں قرآن مبہم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ حدیث کے وسیلے سے دین میں غیر ضروری جدت کو متعارف کرانے سے بھی محتاط تھے۔ بعض لوگوں نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ اگر قرآن بعض سنتوں پر خاموش ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اسلام کے پیغام کا لازمی اور ابدی حصہ نہیں تھیں۔ یہ بہرکیف قرآن کے اس دعوے کی ایک معقول تشریح ہوگی کہ یہ  تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ’’ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والا ‘‘ ہے(النحل: 89) اور مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ’’کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے‘‘ (الأنعام: 38)۔ بہرحال اس بات کا امکان کم ہے کہ قرآن سے غیر مربوط احادیث کو ترک کرنے کے ان کے محرکات یکساں تھے۔

امام شافعی کے مخالفین نے جو یہ موقف اختیار کیا کہ وہ صرف ان احادیث کو ہی لیں گے جو قرآن مجید کے واضح احکامات سے متعلق ہیں، اس موقف کے دورِ جدید کے حامی بھی موجود ہیں۔ یہ نظریات پچھلی صدی کے اوائل میں ہندوستان میں فروغ پا رہے تھے، حالاں کہ ان کے حامیوں نے شاید ہی اپنے اس موقف کی قدیم جڑوں کو تسلیم کیا ہو۔ آج، اس نقطہ نظر کی امریکی اور یورپی مسلم برادریوں میں تائید مفقود ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ تقریباً تمام مسلمانوں کو قدیم اہل حدیث کا یہ موقف ورثے میں ملا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت حیات نبوی کے بعد مستند احادیث کی تعمیل کی شکل میں کرنی ہے، جن میں ان مسائل سے متعلق گفتگو بھی شامل ہے جن کی طرف قرآن مجید میں اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔ مٹھی بھر مسلم مفکرین ایسے بھی ہیں جو حدیث کو دینی رہ نمائی کے ماخذ کے طور پر استعمال کرنے سے انکار کرتے ہیں، یہ اسی موقف کی بازگشت ہے جو ابتدائے اسلام کے منحرف خوارج سے منسوب ہے۔ جہاں روایات عقل یا قرآن سے تعارض سمجھا گیا وہاں سنت کے بارے میں اعتزالی شکوک و شبہات بھی دوبارہ ابھرے ہیں۔ لیکن میں کسی بھی معاصر مسلمان مفکر کو نہیں جانتا جو حدیث کے بارے میں ان قدامت پسندانہ تصورات کی ترویج کرتا ہو جن سے الرسالہ نے اختلاف کیا تھا، اور جن کے بارے میں امام شافعیؒ کی کوششوں کی شدت کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ان کے زمانے میں وسیع پیمانے پر رائج رہے ہوں گے۔ یہ بات اور بھی حیران کن ہے کہ متبادل نقطہ نظر بعض جدید مسلمانوں کے اس رجحان کے عین مطابق ہے کہ وہ حدیث کے کردار کو اس اندیشے سے محدود کر دیتے ہیں کہ غیر ضروری اور بوجھل عقائد اور اعمال کو احادیث کے ذریعے ایمان کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اس پر بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کی بعض خصوصیات اس تفہیم کی تائید کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ جب قرآن کریم رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے تو یہ کم و بیش ہر بار خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول کی اطاعت کا بھی حکم دیتا ہے۔ قرآن بار بار کہتا ہے ’’اللہ اور رسول کی اطاعت کرو‘‘، لیکن صرف ایک بار، میری گنتی کے مطابق، ہمیں ایک جگہ ملتا ہے، ’’رسول کی اطاعت کرو۔‘‘

’’نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رسولﷺ کی اطاعت کرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیاجائے گا۔‘‘(النور: 56)

اس استثنائی معاملے میں بھی، یہ آیت (النور: 56) اس سلسلہ آیات میں آئی ہے جہاں آیت 52 اور 54 میں خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا ذکر کیا گیا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے لیے قرآن کے احکامات لامحالہ ان حوالوں میں پائے جاتے ہیں جن میں دیگر مخصوص الہی ہدایات شامل ہیں۔یہ دونوں مشاہدات اس تشریح کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں کہ جس اطاعت پر زور دیا جا رہا ہے وہ قرآن میں خدا کے احکامات اور ان کے حوالے سے رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے۔(جاری)

 

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2022

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau