موضوع احادیث کا مسئلہ
ایک امریکی مسلم سے مجھے یہ ای میل موصول ہوا:
مجھے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ میں احادیث کے بارے میں جتنا زیادہ پڑھتا ہوں، اتنا ہی زیادہ میرا یقین ان پر سے اٹھتا جارہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جب کوئی حدیث قرآن کی وضاحت نہ کر رہی ہو یا جب اس سے متعارض ہو تو ہر طریقے سے اس کی عدم صحت کے جواز سامنے آنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے کئی بار سنا اور پڑھا ہے کہ امام بخاریؒ کا مجموعہ احادیث معتبر ترین ہے اور انھوں نے ہر حدیث کی صحت کی تحقیق کے لیے بہت محنت کی ہے۔ جب میں بخاری کی بعض احادیث کو دیکھ رہا تھا تو مجھے ایک حدیث نظر آئی جس میں کہا گیا ہے کہ عورتیں ذہانت اور اعتبار کے لحاظ سے مردوں سے کم تر ہوتی ہیں اور دوزخ کی آگ میں زیادہ تر عورتیں ہی ہوں گی۔ اگر میں اس حدیث کی صحت پر یقین کروں تو رسول اللہ ﷺ پر سوال اٹھتا ہے۔ اگر یقین نہ کروں تو دیگر کئی احادیث پر سوال اٹھتا ہے۔ ایک شخص نے احادیث کی تحقیق و تصدیق میں بہت جانفشانی سے کام لیا۔ اگر اس سے کسی ایک میں غلطی ہوئی تو کیا اس کا احتمال نہیں ہے کہ دوسری احادیث میں بھی میں غلطی ہوئی ہو؟
آپ کی کتاب Struggling to Surrenderمیں احادیث کا باب پڑھ رہا ہوں، لیکن میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ مجھے سمجھ میں آرہا ہے۔ کتاب کا یہ حصہ میرے لیے خاصا مشکل ہے۔ میں جانتا ہوں کہ عرب واقعی رسول اللہ ﷺ کے مقولات و معمولات کے بارے میں جاننا چاہتے تھے، لیکن احادیث نبوی کو آپ ﷺکی زندگی میں یا آپ کی وفات کے فوراً بعد مرتب نہیں کیا گیا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ کم از کم ابتدائی طور پر یہ احادیث زبانی طور پر سینہ بہ سینہ منتقل ہوئیں۔ اس حوالے سے مجھے ایک کھیل ‘ٹیلی فون’ نامی یاد آتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس زبانی کھیل میں محض پانچ یا دس افراد کے بیچ ہی معلومات کس طرح خلط ملط اور مسخ ہوجاتی ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہر حدیث غلط ہے، لیکن مجھے یہ کہنے میں باک نہیں ہے کہ احادیث کے بغیر اسلام پر ایمان لانا زیادہ آسان لگتا ہے۔ اس صورت میں میں تین بتوں کے بارے میں روایات اور حضرت عائشہؓ کی نکاح کے وقت عمر کے بارے میں متضاد روایات کو نظر انداز کرسکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے، اسلامی معیار کے مطابق، میں واقعی مسلمان نہیں ہوں۔
‘‘ ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز ماجشون نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن منکدر نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں (خواب میں) جنت میں داخل ہوا تو وہاں میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی بیوی رمیصاء کو دیکھا اور میں نے قدموں کی آواز سنی تو میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں اور میں نے ایک محل دیکھا اس کے سامنے ایک عورت تھی، میں نے پوچھا یہ کس کا محل ہے؟ تو بتایا کہ یہ عمر رضی اللہ عنہ کا ہے۔ میرے دل میں آیا کہ اندر داخل ہو کر اسے دیکھوں، لیکن مجھے عمر کی غیرت یاد آئی (اور اس لیے اندر داخل نہیں ہوا) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔ ’’—صحیح بخاری کی ایک حدیث۔
ہر حدیث کے دو جز ہوتے ہیں: سند یا سلسلہ اسناد جس کے ذریعے سے وہ منتقل ہوئی اور دوسرا جز حدیث کا متن یا روایت کے الفاظ۔ زیادہ تر مسلمانوں کے نزدیک حدیث رسول اللہ ﷺ کا قول ہے، اورتکنیکی اعتبار سے یہ اسلامی لٹریچر میں بھی ہر جگہ نظر آتا ہے۔ تاریخ، سیرت، تفسیر، الہیات، فقہ، سیاست، ادب، یہاں تک کہ لسانیات جیسے متنوع شعبوں میں بھی مصنفین اپنے خیالات کی حمایت میں ان روایات کو پیش کرنے کا واضح میلان ظاہر کرتے ہیں جو مختلف راویوں کے سلسلے کے ذریعے ان تک پہنچی ہیں۔
محض بیرونی ہیئت سے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی ثقافت میں سند کا کس قدر احترام پایا جاتا ہے۔ کسی مستند راوی کا نام لینا کسی کے دعوے کے دلیل کی ‘حمایت’ (prop) قرار پاتا ہے۔ عربی میں اس کے لیے تکنیکی اصطلاح سند ہے۔ سند ان لوگوں کے ناموں کی فہرست ہوتی ہے جنھوں نے یکے بعد دیگرے روایت کو منتقل کیا یہاں تک کہ وہ اس شخص کے پاس پہنچی جو ابھی اسے بیان کر رہا ہے۔ سند کی عام ظاہری شکل یہ ہے: ‘‘الف نے ب سے بیان کیا، ان سے ج نے نقل کیا، جن سے د نے بیان کیا جنھوں نے مجھے خبر دی—’’ (جان برٹن، انٹروڈکشن ٹو دی حدیث، ایڈنبرا یونیورسٹی پریس)
اسناد کا استعمال بڑے پیمانے پر من گھڑت روایات کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی تصدیق کے لیے کیا گیا۔ رسول اللہ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد موضوع روایات کا فتنہ شروع ہوگیا تھا۔ بے شمار روایات کو گھڑ لیا گیا اور انھیں سیاسی، گروہی، تربیتی، متعصبانہ، ذاتی اور یہاں تک کہ بغاوت کے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور روایات میں ردو بدل کیا گیا۔ عام طور پر مسلمانوں موضوع اور جعلی روایات کے اس فتنے کا آغاز تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ کی شہادت سے بتاتے ہیں جو حضرت علیؓ کے دور خلافت میں شدت اختیار کر گیا تھا۔ اس دور میں بڑے پیمانے پر حضرت علی ؓاور ان کی اولاد کے حق میں احادیث وضع کی گئیں۔ بنو امیہ کے دور میں یہ سلسلہ مزید دراز ہوگیا جو اپنی حکومت کے جواز میں حدیث کو پیش کرتے تھے۔ اور حضرت علیؓ کے خلاف اور حضرت معاویہؓ کی حمایت میں سرگرمی سے روایات پھیلاتے تھے۔ دور عباسی میں نبی ﷺ سے منسوب ان روایات کو خوب پھیلایا گیا جن میں ہر ایک بادشاہ کی حکم رانی کی پیش گوئی ہوتی تھی۔
مذہبی اختلافات نے جعلی احادیث کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اموی خلافت کے اواخر اور عباسی دور میں متعدد مذہبی اختلافات پیدا ہوئے جن کی وجہ سے مختلف فرقے جیسے قدریہ، جبریہ، معتزلہ، مرجیئہ، معطلہ وغیرہ پیدا ہوگئے۔ حدیث کو مختلف نقطہ ہائے نظر کی مذمت کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ مثال کے طور پر قدریہ (جو جبر کے عقیدے کی نفی کرتے ہیں) کی تردید و تضحیک میں یہ روایت پیش کی گئی:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، ان میں کوئی مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو، اور اگر کوئی بیمار پڑے، تو اس کی عیادت نہ کرو، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا۔’’
کہا جاتا ہے کہ زنادقہ (وہ لوگ جنھوں نے اسلام قبول کیا لیکن اس سے بغض اور نفرت رکھی) نے ہزاروں گم راہ کن روایات وضع کیں۔
پیشہ ور داستان گو جھوٹی روایات کے فروغ کا ایک اور بڑا وسیلہ تھے اور نو بہ نو کہانیاں گھڑنے کے لیے بدنام تھے، روایات کو مختلف نسلی و ذاتی تعصبات کی حمایت کے لیے بھی گھڑا کرتے، جیسے:
‘‘ایک زنجی (سیاہ فام شخص) جب آسودہ ہوتا ہے تو زنا کا ارتکاب کرتا ہے اور جب بھوکا ہوتا ہے تو وہ چوری کرتا ہے۔ ان میں سخاوت بھی ہے اور مدد کا جذبہ بھی۔ عربوں سے تین وجوہات کی بنا پر محبت کرو: میں ایک عرب ہوں، قرآن عربی میں ہے اور اہل جنت عربی میں گفتگو کریں گے۔ جس کے پاس صدقہ دینے کرنے کے لیے کچھ نہ ہو وہ کسی یہودی پر لعنت بھیج دے۔
میری جماعت میں محمد بن ادریس (امام شافعی) نام کا ایک شخص ہو گا جو ابلیس سے زیادہ خطرناک ہوگا اور ابو حنیفہ نامی ایک شخص ہوگا جو میری جماعت کا نور ہے۔’’
مختلف کہاوتیں، ضرب الامثال، توہمات اور آداب کو نبی کریم ﷺ سے منسوب کردیا گیا۔ احادیث کے بعض سب سے بڑے جعل سازمحدثین کی صفوں سے پیدا ہوئے۔ تقوی اور پرہیز گاری کی ترغیب دینے والی بے شمار روایات گھڑی گئیں اور ان کی حمایت میں ہزاروں اسناد ایجاد کرلی گئیں۔ وہ اپنی ان جعل سازیوں کو نیک اعمال سمجھتے تھے اور ان کے لیے خدا سے اجر کی توقع رکھتے تھے۔ ایسی احادیث جن میں عام اذکار و عبادات کے لیے انتہائی غیر معمولی اجر کا وعدہ کیا گیا ہے، اس قسم کے جعل سازوں کی طرف سے بڑی تعداد میں پیش کی گئی ہیں۔ البتہ ان جعل سازوں کی طرف سے وضع کردہ تمام روایات تقوی و پرہیزگاری پر مبنی نہیں ہیں۔ ان کے بیش تر حصے کی ترغیب مسلک (مکتب فکر) کے دفاع یا کسی کے علمی رتبے کو بڑھانے سے متعلق ہے۔ اگرچہ امام شافعیؒ ان جعل سازوں کے محرکات سے بحث نہیں کرتے تاہم وہ بعض ذاتی امنگوں اور دباؤ کے بارے میں ضرور گفتگو کرتے ہیں جن سے بعض اوقات محدثین کے نتائج متاثر ہوئے ہیں۔
‘‘بعض علما ایسے بھی ہیں جو حدیث کے وسیع تر اور جامع علم کے حصول کے خواہاں ہیں اور اس خواہش کے نتیجے میں انھوں نے راویوں سے بعض ایسی روایات کو بھی قبول کرلیا ہے جنھیں اگر نہ قبول کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ان میں سے اکثر غیر معتبر ہیں، کیوں کہ انھوں نے انھی راویوں سے ایسی [احادیث] کو قبول کیا ہے جن کی مماثل یا اس سے بہتر [احادیث] کو انھوں نے رد کیا ہے۔ وہ ان روایات کو بھی قبول کرلیتے ہیں جنھیں باطل قرار دیا گیا ہے اور غیر معتبر ذرائع سے ایسی روایات کو بھی لے لیتے ہیں جو ان کی رائے کے مطابق ہوتی ہیں جب کہ معتبر راویوں سے ایسی روایات کو رد کرتے ہیں جو ان کی اپنی رائے سے متصادم ہوں۔’’(امام شافعی، الرسالہ)
شعبہ بن حجاج سے یہ بیان منسوب کیا جاتا ہے جو دوسری صدی ہجری کے راویوں کے ایک دوسرے کے تئیں حسد یا بغض سے متعلق ہے: ‘‘راویوں کے باہمی حسد سے ہوشیار رہو کیوں کہ بکریوں سے زیادہ وہ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں۔’’
حدیث کے کسی بھی عالم کو، چاہے وہ قدیم ہو یا جدید، مسلم ہو یا غیر مسلم، اس بات میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد چوتھی دہائی تک آپ ﷺ سے منسوب روایات گھڑنے کا سلسلہ جاری رہا، لیکن اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس پیش رفت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کب شروع ہوئی۔ دفاع حدیث کے علما کا اصرار ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات و اعمال، آپ کی حیات طیبہ سے لے کر آج تک، ہمیشہ سے مسلمانوں کے لیے گہری جستجو اور مطالعے کا موضوع رہے ہیں۔ بہت سے غیر مسلم اسکالروں کا خیال ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی مستند روایات کو جمع کرنے کی کوئی منظم کوشش پہلی صدی ہجری کے اواخر تک ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ اس دعوے کی تردید کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔ مغربی نقادوں کے اس دعوے کہ حدیث کی ترسیل دوسری صدی ہجری تک صرف زبانی تھی، کے جواب میں علمائے حدیث تاریخی مصادر اور حدیث لٹریچر پیش کرتے ہیں جن میں ایسے سیکڑوں افراد کی مثالیں موجود ہیں جو احادیث کو لکھتے تھے یا ان کے پاس تحریری مجموعہ روایات تھے۔ محمد مصطفی اعظمی نے پچاس ایسے صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے جنھوں نے روایات کو تحریری شکل میں منتقل کیا۔ (محمد مصطفی اعظمی، Studies in Early Hadith Literature، انڈیانا پولس، 1968، ص 34-60) یہ شواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں بہت سے لوگ ایسے تھے جنھوں نے ابتدائی مراحل میں احادیث کے مجموعوں کے تحریری ریکارڈ رکھے تھے، نیز یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ سنت نبوی کو ریکارڈ کرنے اور مرتب کرنے کا کام بہت پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔
اس طرح پہلی صدی ہجری کے پہلے نصف میں دو متضاد رجحانات ابھر کر سامنے آئے جن میں سے رسول اکرم ﷺ کی روایات کو گھڑنے کا تھا تو دوسرا ان کی حفاظت کا۔ نوجوان امریکی مسلمان موضوع روایات کی بنا پر حدیث کی معتبریت پر سوال اٹھانا شروع کر رہے ہیں۔ ذخیرہ احادیث کا بڑے پیمانے پر وضع کیا جانا یقیناً صدمے اور شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ‘‘آخر مسلمان رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اتنے سارے جھوٹ کیسے منسوب کر سکتے ہیں؟’’ اس کے رسپانس میں مسلمان معلم حدیث کو جانچنے کے اسنادی نظام کا ذکر کرتے ہیں جو اللہ کے رسول ﷺ سے منسوب اقوال کے ڈھیر سے مستند روایات کو چھانٹنے کا ایک باقاعدہ علم ہے۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2023