انحرافی جنسی رویوں کا نفسی معاشرتی ڈسکورس

ادارہ نکاح و پرورش اطفال کے حوالے سے تنقیدی جائزہ (6)

عام جنسی نقطہ نظر (جنسی دوئی) اور انحرافی جنسی رویوں میں اکثر جس نکتے پر سب سے زیادہ بحث ہوئی ہے اور ہونا بھی چاہیے، وہ ادارہ نکاح اور پرورش اطفال پر جنسی انحرافی رویوں کے اثرات کے حوالے سے ہے۔

عام خاندان کی ساخت یہ ہوتی ہے کہ ایک ماں ہوتی ہے، ایک باپ ہوتا ہے اور ان سے اولاد ہوتی ہے، جس کی پرورش دونوں مل کر کرتے ہیں۔ جنسی دوئی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک مرد ایک عورت مل کر نکاح یا شادی کے ادارہ کی بنیادی اکائی ہوتے ہیں۔

انحرافی جنسی رویوں میں مبتلا افراد کے حوالے سے اگر ادارہ نکاح کی بنیادی اکائی کو دیکھا جائے تو دو مرد مل کر ‘شادی’ کرتے ہیں یا دو عورتیں مل کر’ شادی’ کرتی ہیں۔ اس طرح کی شادی کو تادم تحریر دنیا کے ۱۹۵ ممالک میں سے ۳۲ ممالک میں قانونی جواز حاصل ہوچکا ہے۔ اس جواز کے چلتے عام طور پر علمی حلقوں میں یہ گونج سنائی دیتی ہے کہ جنسی دوئی اور ادارہ نکاح اور +LGBTQ کے معاشرتی ڈسکورس اور اس کی عوامی مقبولیت و قانونی جواز کے سلسلے میں LGBTQ is a lost battle یعنی +LGBTQ ڈسکورس کے آگے جنسی دوئی والا ڈسکورس ایک ہاری ہوئی بازی ہے اور اس ضمن میں اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم سمجھتے ہیں یہ گونج +LGBTQ کی پروپیگنڈا مشینری کی کام یابی کے ساتھ ساتھ اس پورے نفسی معاشرتی ڈسکورس اور اس کے سلسلے میں ذہنی مرعوبیت کی نشانی ہے۔ پوری دنیا کے بڑے حصے میں آج بھی اس پورے معاملے کو اخلاقی طور پر برا مانا جاتا ہے۔اب بھی دنیا کے بڑے حصے میں اس طرح کے تعلقات کو قانونی جواز حاصل نہیں ہے۔ +LGBTQ ڈسکورس کے سلسلے میں یہ بات بہت اچھے طریقے سے سمجھنی چاہیے کہ یہ ڈسکورس بڑی چالاکی سے انسانی حقوق کے آڑ میں +LGBTQ ڈسکورس کے بے حیائی اور غیر فطری ہونے اور عام انسان کی اس سے ناگواری کو چھپا دیتا ہے۔مثلًا:

عام طور پر +LGBTQ افراد پر ہو رہے تشدد، جنسی ہراسانی، سماجی بائیکاٹ، ان کے استحصال وغیرہ کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں، +LGBTQ کی تنظیمیں وغیرہ مظاہروں، دھرنوں اور ریلیوں کا انعقاد کرتی ہیں، جلسے ہوتے ہیں اور ان کے انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے بیان جاری ہوتے ہیں۔ لیکن ان ریلیوں میں صرف +LGBTQ افراد ہی شامل نہیں ہوتے، بلکہ عام افراد جو انسانی حقوق کے لیے کام کرتے ہیں وہ بھی بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں۔ حتی کہ یورپ اور امریکہ میں بہت سارے مذہب پسند افراد بھی ان ریلیوں میں بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ لیکن بادی النظر میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اتنی کثیر تعداد صرف +LGBTQ کے جنسی حقوق کے لیے سڑکوں پر ہے۔

+LGBTQ افراد کے جنسی نظریات اور انسانی حقوق کو الگ الگ کرکے بات نہیں کی جاتی بلکہ سب کچھ حقوق کی آڑ میں چھپا دیا جاتا ہے۔ حد یہ کہ یورپ زدہ جدیدیت جس انفرادی حقوق کے اسپیکٹرم (spectrum) پر یقین رکھتی ہے، وہ اس طرح کے حقوق کو الگ کر کے نہیں دیکھتی حالاں کہ ان میں بھی بڑی تعداد ان لوگوں کی موجود ہے جو بڑے کینوس پر اس طرح کے رویوں کو انسانیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

اسی طرح دنیا کے بڑے حصے میں اب بھی +LGBTQ اور ادارہ نکاح اور پرورش اطفال کو لے کر تشویش موجود ہے۔ لیکن چوں کہ عام طور پر جو بھی غالب ریلا ہوتا ہے، اسی پرعوام الناس کے ذہنی مشاکلہ کی ترتیب اور ترکیب ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے بادی النظر میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کا معاشرتی ڈسکورس عام طور پر موجود جنسی دوئی کی بنیاد پر وجود میں آنے والے ادارہ نکاح اور پرورش اطفال کے ڈسکورس پر غالب آ چکا ہے۔

مزید یہ کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وکٹورین اخلاقیات کے خاتمہ کے بعد اور پچھلے دو سو برسوں میں یوروپ اور امریکا کے معاشرتی ڈسکورس کی بنیادوں میں دراڑیں پڑنے کے بعد (بعض کے نزدیک ان کے منہدم ہو جانے کے بعد!) یوروپ اور امریکہ دونوں جگہ ایک مضبوط، پائیدار اور عقل کو اپیل کرنے والی اخلاقی بنیادوں کا فقدان رہا۔ اسلام یہ بنیادیں دے سکتا تھا لیکن اس وقت کے ثقافتی ماحول میں اسلام ایک زوال یافتہ تہذیب کی حیثیت سے متعارف ہوا۔ نیز جدیدیت کے پورے ڈسکورس میں اسلامی اکادمیا نے اس کام یابی کے ساتھ اپنی جگہ نہیں بنائی جو اُس خلا کو بھر دیتی، جو عیسائی اخلاقیات یا وکٹورین اخلاقیات کے زوال پذیر ہونے کے بعد پیدا ہو گیا تھا۔

پھر اسلام کو بھی ‘روایتی مذہب’ کے عدسے سے دیکھا گیا۔ یہ شعوری اور لا شعوری سطح پر بھی ہوا اور خود مسلمانوں کے رویے اور اجتماعی شعور اور اس کے معاشرتی مظاہر کی سطح پر بھی۔ اس لیے ہم سر کی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ جدیدیت نے نظام خاندان، تصور خاندان، اظہار خاندان پر ایسی ضربیں لگائی ہیں کہ یہ محسوس ہوتا ہے گویا سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔

اس ادارہ اور اس سے جڑے مختلف علمی اور فکری ڈسکورس میں ہر جگہ اور ہر سطح پر جو افراتفری اور بے اعتدالیاں ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ سب مل کر نسل انسانی کے خاتمے کے لیے تیزی سے راہیں ہم وار کر رہے ہیں۔

غرضیکہ +LGBTQ کے جدید معاشرتی ڈسکورس کے ان نکات کے وجود میں آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ خود جدیدیت میں روایتی ادارہ نکاح اور پرورش اطفال کے سلسلے میں غیر معمولی تحقیر، سرد مہری اور بے التفاتی پائی جاتی ہے۔ انفرادی حقوق پر غیر معمولی زور اور اپنی خواہش نفس  (pleasure) پر غیر معمولی توجہ، انفرادیت پسندی (individualism)کے کھوکھلے مگر خوشنما فلسفے کے چلتے ‘اجتماعی’ کے لیے ‘انفرادی’ کو قربان کرنے کے سلسلے میں بے حسی اور خود غرضی نے اس ڈسکورس کو پنپنے میں غیر معمولی مدد کی ہے۔

لیکن دل چسپ اور متضاد بات یہ ہے کہ آخر یہ ڈسکورس جنسی دوئی کے ذریعے وجود میں آئے ادارہ اور نظاموں کے سلسلے میں اتنا حساس کیوں ہے؟ کیوں اس ڈسکورس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ادارہ نکاح اور ادارہ پرورش اطفال پر اس طرح کی طرز معاشرت (یعنی مرد ہم جنس پرست جوڑے اور والدین اور عورت ہم جنس پرست جوڑے) کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بلکہ جنسی دوئی کے روایتی فریم کے ذریعے وجود میں آنے والے اداروں کی طرح یہ بھی ہو بہو ویسا ہی ادارہ ہے؟

مثلا دو مرد ہم جنس افراد بھی اپنے آپ کو ‘شوہر’ اور ‘بیوی’ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور یہ ‘جنسی عمل’ کے حوالے سے طے کیا جاتا ہے! فاعتبروا یا اولی الابصار۔

مشہور زمانہ مصنف یووال نوحہ ہراری اپنے آپ کو ‘بیوی’ کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اس ضمن میں کچھ دل چسپ تحقیقات بھی آرہی ہیں۔ مثلًا یہ کہا جا رہا ہے کہ عام طور پر دو مرد ہم جنس پرست جوڑوں میں ایک recipient ہوتا ہے۔ جو نسبتا ‘زنانہ’ اسپیکٹرم کی طرف ہوتا ہے۔ اور ایک مردانہ ‘اسپیکٹرم’ کی طرف ہوتا ہے۔ +LGBTQ افراد اس طرح کی تحقیق کو homophobic بتا کر خارج کر دیتے ہیں۔ اور محققین پر تنگ نظر اور مذہبی ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ لیکن کیا اس طرح کی تحقیقات کسی خاص سمت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ وہ یہ کہ اس طرح کے ‘اسپیکٹرم’ عام نہیں ہیں۔ مطلب وہ ‘مختلف’ اور ‘غیر عام’ ہیں۔ تو پھر صحیح علمی رویہ یہ ہے کہ اس ضمن میں یہ تحقیق ہونی چاہیے کہ وہ کیوں اور کس طرح مختلف ہیں۔ نہ یہ کہ اس ضمن میں وہ کس طرح سے عام ہو سکتے ہیں، یا ہیں!

اور اگر اس طرح کے اسپیکٹرم رکھنے والے افراد کسی ایک جانب ہونے میں دل چسپی رکھتے ہوں تو ان کے لیے کیا کیا متبادلات اور انتخاب کے مواقع ہیں۔

یہ ہو سکتا ہے کہ +LGBTQ اسپیکٹرم رکھنے والے تمام افراد اس طرح کی دوئی میں دل چسپی نہ رکھتے ہوں لیکن جو رکھتے ہیں ان کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے یا کیا کیا جانا چاہیے۔ یہ زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔

اس نفسی معاشرتی ڈسکورس کے اس پہلو پر عیسائی حضرات نے درج ذیل اعتراض وارد کیے ہیں۔ لیکن ان تمام اعتراضات کا جواب بھی دیا جا چکا ہے۔ ذیل میں ان اعتراضات کا عام فہم تعارف اور ان کے رد میں دی گئی دلیلوں کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔

ہم جنس شادیاں، شادی کے ادارے کی بنیادی غرض یعنی ‘افزائش نسل’ کے پورے تصور کو مزید نقصان پہنچائیں گی۔ یہ ایک بہت مضبوط دلیل ہے۔ لیکن +LGBTQ ڈسکورس یہ کہتا ہے کہ +LGBTQ افراد کی تعداد ہی کتنی ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ انحرافی جنسی رویے یعنی مرد ہم جنس پرستی اور عورت ہم جنس پرستی اتنی زیادہ ہے کہ اسے ‘عام’ رویہ کے درجے میں رکھنا چاہیے۔ دوسری طرف جب شادی (نکاح) کے ادارے کی بات آتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ایسے افراد اور شادیوں کی تعداد ہی کتی ہوگی۔ (بہرحال، اس ضمن میں دلیل اور رد دلیل کا ایک لمبا سلسلہ ہے)

ہم جنس شادیاں paternal commitment میں مزید کمی کا باعث ہوں گی۔ یعنی پدرانہ عمومی ذمہ داریاں جیسے گھر کے اخراجات، بچوں پر خرچ، علاج و معالجہ کے سلسلے میں حساسیت اور خرچ وغیرہ میں کمی آئے گی۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اعداد و شمار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو جنسی دوئی والے جوڑوں میں بھی ان تمام حرکیات dynamics میں کمی ہوئی ہے۔ اس کا کیا جواب ہے!

عورتیں اور شادی آدمی کو ذمہ دار بناتی ہیں۔ یعنی ہم جنس پرست شادیوں میں چوں کہ دونوں فریق ایک ہی جنس سے ہوں گے اس لیے مرد ہم جنس پرست ‘مرد’ حضرات اس درجہ میں ذمہ دار نہیں بن پائیں گے۔ جیسے کہ غیر ہم جنس پرست حضرات۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے مشاہدہ کے لیے اعداد و شمار بہت ہی ابتدائی نوعیت کے ہیں اور ان سے اس سطح کا مشاہدہ اخذ کرنا علمی کم زوری ہے۔

ہم جنس پرست شادیاں انسانی تہذیب کے لیے سمّ قاتل ہیں۔ بہت زیادہ زور و شور سے دی جانے والی اس دلیل کو +LGBTQ ڈسکورس کے ماننے والے rhetoric سے تعبیر کرتے ہیں اور استدلال کرتے ہیں کہ ‘کیسے’! اور پھر ‘کیسے’ کے ضمن میں دی گئی دلیلوں کا یکے بعد دیگرے رد کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی دلائل ہیں لیکن وہ بچوں کی پرورش، ان کی نگہداشت اور ان کے مستقبل کے حوالے سے اندیشوں پر مبنی ہیں۔ ان کا تذکرہ پرورش اطفال کے تنقیدی جائزہ کے تحت آئے گا۔

جو قارئین شادی اور اس کے روایتی ادارے یعنی مرد و عورت کے حوالے سے عیسائی نقطہ نظر کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیں تو ‘ڈیویڈ پاپی نائے’ سارہ میکلیناہن اور لنڈا ویٹ کے ذریعے لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ تاہم اس وضاحت کے ساتھ کہ یہ تمام مصنفین شادی بحیثیت ادارہ، خاندان اور بچوں اور شادی کے روایتی نظام کے ذریعے وجود میں آنے والی نسل کے مثبت پہلوؤں پر بات کرتے ہیں، اس کے لیے شواہد لاتے ہیں اور سائنسی تحقیقات کے حوالے دیتے ہیں۔ لیکن ہم جنس شادیوں کے نقصانات کے حوالے سے، ان کے غیر معقول اور غیر فطری ہونے کے حوالے سے، اس سطح کی تحقیقات اور اعداد و شمار پیش نہیں کر پاتے۔ مزید یہ کہ اس طرح کے دلائل کے لیے درکار کسی epistemological فریم ورک کی نشان دہی بھی نہیں کر پاتے۔

ہمارے نزدیک ہم جنس شادیوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کا یہ نکتہ کہ “مرد ہم جنس پرست اور عورت ہم جنس پرست افراد بالکل عام افراد کی طرح شادی اور خاندان کے نظام کو قائم کر سکتے ہیں اور مددگار تولیدی ٹکنالوجیوں کا استعمال کرکے بچے بھی بنوا سکتے ہیں”۔ درج ذیل جہات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جن پر بات کیے بغیر یہ پورا ڈسکورس تشنہ رہے گا۔ یہ پہلو اپنے اندر وہ ایپسٹیمولوجیکل بنیادیں لیے ہوئے ہے، جن پر وہ premises طے ہوتے ہیں جو اس نکتہ کو قابل قبول یا نا قابل قبول کے خانوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ وہ پہلو/نکات درج ذیل ہیں۔

ادارہ نکاح بحیثیت ایک آفاقی قدر

ادارہ نکاح کی تہذیبی حیثیت

جنسی تلذذ کے حدود ادارہ نکاح کے حوالے سے

جنسی تلذذ کی اخلاقیات ادارہ نکاح کے حوالے سے

۱۔ادارہ نکاح بحیثیت ایک آفاقی قدر

اصل بات یہی ہے کہ ادارہ نکاح کو کس حیثیت سے دیکھا اور مانا جاتا ہے۔ آیا یہ محض ایک تہذیبی ضرورت ہے؟ کیا یہ محض افزائش نسل کا محفوظ اور دیرپا طریقہ ہے؟ کیا یہ محض ایک اخلاقی فریضہ ہے؟ کیا یہ محض قانونی جواز حاصل کرنے یا قانونی سند حاصل کرنے کا ذریعہ ہے؟ یا یہ ایک آفاقی قدر ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہم جنس پرست شادیوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کو دینا ضروری ہیں۔ اس ڈسکورس کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ان سوالات کے جوابات کس حیثیت میں دیتا ہے! اور کیا دیتا ہے۔ ان سوالات کے جوابات یہ طے کریں گے کہ اس نفسی معاشرتی ڈسکورس کا یہ نکتہ کس قدر حقیقت پسندانہ یا مبنی بر عقل و منطق ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ڈسکورس نے ان سوالات کے واضح جوابات ابھی تک نہیں دیے ہیں۔ یا جو دیے بھی ہیں وہ متضاد ہیں یا مختلف فیہ اور متفرق ہیں یا غیر واضح ہیں۔ اگر یہ ڈسکورس صرف یہ مانتا ہے کہ یہ صرف تہذیبی ضرورت ہے تو اس ڈسکورس کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ اس ڈسکورس کے نزدیک تہذیب کی کوئی خاص ضرورت یا شکل نہیں ہوتی۔ یہ ایک ارتقا پذیر شے ہے۔ یہ ڈسکورس اگر یہ مانتا ہے کہ یہ افزائش نسل کا محفوظ اور دیرپا طریقہ ہے تو جواب ہے، نہیں۔ اس ڈسکورس کی رو سے فطرت نے انھیں افزائش نسل کے لیے نہیں چنا ہے تو وہ ‘بچوں کی خواہش’ میں مددگار تولیدی ٹکنالوجیوں کا استعمال کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ ایک اخلاقی فریضہ ہے؟ لیکن اس ڈسکورس کے نزدیک شادی، اخلاق، افزائش نسل بالاصل اضافی اور انفرادی خوشیوں کے قاتل ادارے ہیں تو پھر ان اداروں میں سے ایک ‘شادی’ (نکاح) کے ادارے میں وہ کیوں داخل ہونا چاہتے ہیں!

غرض اس طرح یکے بعد دیگرے دلائل اور رد دلائل کا ایک لمبا سلسلہ قائم ہو جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک جنسی دوئی (عیسائی یا مذہبی) اور انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس میں اس نکتہ کے تحت یہ بات پورے شرح صدر کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جب تک نکاح کو ایک ایسی آفاقی قدر نہ مان لیا جائے جس کے حدود اور شرائط ناقابل تغیر non-variable ہوں تب تک ہم جنس پرست شادیوں کے قابل قبول اور ناقابل قبول ہونے کے سلسلے میں دلائل اور رد دلائل کا ایک لمبا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ چناں چہ بات وہیں آجاتی ہے کہ اسے آفاقی قدر کیسے اور کیوں تسلیم کیا جائے! اس لیے کہ کسی کتاب یا کسی برگزیدہ ہستی (نبی/یا عیسی) نے ایسا کہا ہے!

۲۔ ادارہ نکاح کی تہذیبی حیثیت

ہم جنس پرست شادیوں کے سلسلے میں حدود فیصل ہو نہیں سکتے جب تک ادارہ نکاح کی تہذیبی حیثیت کو متعین نہ کر لیا جائے۔ اگر اس کی حیثیت محافظ ‘ادارہ اخلاق’ ہے تو پھر ہم جنس پرست شادیوں کا جواز نہیں ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی روایتی اخلاق کا یکسر ہی منکر ہو جائے تو بات دیگر ہے۔ اگر تہذیبی حیثیت میں افزائش نسل اور انسانی نسل کی بقا کے لیے اپنا رول ادا کرنا ہے تو بھی اس کی حیثیت صفر ہوگی۔ ہاں اگر اس ڈسکورس کے تحت +LGBTQ کی کوئی تہذیبی حیثیت نہیں ہے تو پھر ہر طرح کا جواز تراشا جاسکتا ہے۔

۳۔ ادارہ نکاح اور جنس تلذذ کے حدود

عام طور پر روایتی ادارہ نکاح میں مرد و عورت جنسی سکون حاصل کرتے ہیں اور بیشتر مذاہب میں اسی جنسی دوئی میں نکاح کے اداروں کے تحت ہی جنسی تلذذ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لا محدود جنسی حقوق اور لا محدود انفرادی حقوق کے ڈسکورس میں یہ قید بے معنی ہے۔ لیکن اس ڈسکورس کو اپنے آپ کو کسی ایک جانب کھڑا کرنا ہوگا۔ اگر یہ لامحدود انفرادی حقوق کا قائل ہے تو اس کی رو سے اس کی مخالفت کرنے والے اور اس کے لیے عملی رد عمل دینے والے دونوں حق بجانب ٹھہرتے ہیں۔ (ہم یہاں تشدد اور جسمانی ایذا) والے رد عمل کی بات اور حمایت نہیں کر رہے ہیں۔

یہ نکتہ اس لیے بھی قابل توجہ ہے کہ بعض مذہبی افراد اور ادارے بھی اب اس ضمن میں مثبت پہلو تلاش کرنے میں جٹ گئے ہیں۔ بطور خاص بعض مغربی ملکوں میں ایک آدھ مسلم امام یا کچھ تنظیمیں جو مسلمانوں کی جانب سے نمائندگی کا دعوی بھی کرتی ہیں وہ بھی اب ہم جنس پرست شادیوں کو مذہبی جواز دینے اور مذہب کے ذریعے مقرر کیے گئے نکاح کے حدود میں ترمیم یا استخراج و استنباط اور اجتہاد کی باتیں کرنے لگی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہائی درجے کی بددیانتی ہے۔ اسلام میں ادارہ نکاح جنسی دوئی کے سلسلے میں اتنا واضح موقف رکھتا ہے کہ کوئی اندھا ہی اس ضمن میں ‘جدید انٹر پریٹیشن’ اور جدید ‘اجتہاد’ کی بات کر سکتا ہے۔

۴۔ جنسی تلذذ کی اخلاقیات ادارہ نکاح کے حوالے سے

جب تک جنسی تلذذ کے ‘حقوق’ اور ‘ذمہ داریاں’ بحوالہ اجتماعی ذمہ داری بضمن افزائش نسل طے نہیں ہو جاتے۔ ہم جنس پرست شادیوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کا معمہ حل نہیں ہو سکتا۔ اگر جنسی تلذذ کے لیے کوئی ‘شرط’ نہیں ہے تب تو ٹھیک ہے! جو جیسا چاہے رویہ اختیار کر لے۔ لیکن اگر کوئی ‘ادارہ کے قانونی جواز’ کے ساتھ تلذذ چاہتا ہے یا قانونی حفاظت چاہتا ہے تب تو پھر اسے ادارہ کے ذریعے قائم شدہ اخلاقیات قوانین، حدود، اور ذمہ داریوں کو ماننا ہوگا۔ یہ کسی منطق سے ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی شخص کسی ‘ادارہ’ کے ذریعے فوائد تو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے ذریعے عائد کردہ اخلاقیات کی پابندی نہیں کرنا چاہتا۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ‘ اس ادارہ’ کے حدود اور قوانین کون بناتا ہے۔ اگر انسان ہی بناتے ہیں تو وہ اس میں ترمیم کر دیں۔ اگر یہ قوانین کسی “non mutable source” سے آتے ہوں تو یہ ڈسکورس ڈھٹائی سے اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ ایسے کسی ذریعہ کو وہ نہیں مانتا! انسانی قوانین بنانے کے لیے انسانی عقل اور انسانی منطق کافی ہے۔

اصل بات یہی ہے کہ منبع قوانین و حدود کیا ہے! کیا عقل محض یا عقل جو کسی آفاقی قدروں کی تابع ہو!

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ چار بنیادی premises ہیں جن پر حتمی طور پر کسی جانب کھڑے ہوئے بغیر ہم جنس شادیوں کے سلسلے میں ‘قابل قبول’ اور نا قابل قبول رویے کی حیثیت فیصل نہیں کی جا سکتی۔

آئیے اب اس نفسی معاشرتی ڈسکورس کے اس نکتہ کے دوسرے اہم پہلو کی طرف آتے ہیں۔ یہ پہلو افزائش نسل کے حوالے سے ہے، یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ ہم جنس پرست شادیوں سے افزائش نسل کیسے ہوگی۔ اس کے جواب میں اس ڈسکورس کے ماننے والے یہ کہتے ہیں کہ افزائش نسل مددگار تولیدی ٹکنالوجیوں کے ذریعے انجام پائے گی۔ مثلًا: اگر کوئی ہم جنس پرست جوڑا ہے۔ ان دونوں ‘مردوں’ میں سے ایک اپنا مادہ منویہ دے گا اور کسی خاتون سے اس کا بیضہ لیا جائیگا۔ یہ بیضہ دینے والی خاتون ova donor ہوگی۔ ان دونوں کو ملاکر ایک جنین لیبارٹری میں تیار کیا جائے گا اور اسے کسی کرایے کے رحم (surrogate) میں داخل کیا جائے گا، جہاں یہ جنین نشو و نما پاکر ایک بچہ کی شکل میں عام طریقہ سے پیدا ہوگا۔

اگر مرد ہم جنس پرست جوڑا چاہے تو منویہ اور بیضہ دونوں خرید سکتے ہیں۔ اور اپنے لیے اور انسانیت کی ‘افزائش نسل’ کے لیے بچہ contribute کر سکتے ہیں۔

اس ضمن میں بہت سارے پہلوؤں پر بہت تفصیل سے کلام کی گنجائش ہے۔ لیکن اس مضمون میں صرف کچھ اشارے کیے جاتے ہیں۔

  1. مددگار تولیدی ٹیکنالوجیاں گو کہ بہت غیر معمولی ٹکنالوجیاں ہیں، لیکن ان کے اپنے مسائل ہیں یہ مسائل درج ذیل حوالے سے ہیں۔

ان کے لیے درکار مادّی وسائل

ان کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کے نفسیاتی مسائل

ان کے ذریعے پیدا ہوئے بچوں میں اپنے ‘حیاتیاتی ماں باپ’ تک پہنچنے کا غیر معمولی داعیہ جو بہت سے قانونی مسائل کا سرچشمہ بنتا ہے۔

ان کے ذریعے قانونی اور حقوق کے حوالے سے معاشرتی اور تہذیبی پیچیدگیاں۔

ان کے ذریعے بنائے گئے بچے اور نارمل طریقے ‘مرد و عورت’ کے ملاپ کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پہلے یہ مانا جاتا تھا کہ کوئی فرق نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں ان میں نمایاں فرق دیکھنے کو مل رہا ہے۔ درج ذیل ثقہ مشاہدات پیش خدمت ہیں:

ART کے ذریعے بنائے گئے بچوں میں عام طریقے سے پیدا ہوئے بچے کے مقابلے میں پیدائشی نقائص زیادہ پائے جاتے ہیں۔ (1)

ART اور نارمل بچوں میں بر تولیدی جنسیاتی تبدیلیوں (epigenetic changes) کے حوالے سے واضح فرق ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ تبدیلیاں انسان میں دیر پا اور دور رس جسمانی اور نفسیاتی مسائل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ (2)

ART اور نارمل بچوں کے تقابل میں ART کے ذریعے پیدا ہوئے بچوں میں بہت سارے میٹابولک ڈس آرڈر پیدائشی/جینی نقائص پائے گئے۔ (3)

یہ جینی نقائص ڈاؤن سنڈروم ‘قلبی بیماریاں’ اور دیگر بیماریوں کے حوالے سے تھے۔ مزید تفصیلات کے لیے قارئین حوالہ (4) ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

درحقیقت اب جدید تحقیقات اس بات کو تیزی سے واضح کر رہی ہیں کہ ART کے ذریعے بنائے گئے بچوں اور عام طریقہ افزائش نسل سے پیدا ہونے والے بچوں میں بہت واضح فرق ہے۔ اور یہ فرق محض جسمانی تبدیلیوں کے حوالے سے نہیں ہے۔ صرف بیماریوں کے کم یا زیادہ ہونے سے نہیں۔ بلکہ محتاط طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں جب نفسیاتی حوالوں سے طریقہ تحقیق مزید منضبط اور واضح ہو جائے گا تب ان دونوں میں کافی فرق رہے گا۔ تادم تحریر اس ضمن میں تحقیق بہت ابتدائی مرحلہ میں ہے کہ نفسیاتی سطح پر ان دو زمروں میں کیا فرق ہے۔ لیکن بہت جلد اس ضمن میں تحقیقات حقائق کو کھول دیں گی۔ (جاری)

حواشی و حوالہ جات

  1. Roseboom TJ, Eriksson JG. Children conceived by ART grow differently in early life than naturally conceived children but reach the same height and weight by age 17. Reassuring? Not so sure. Hum Reprod. 2021 Mar 18;36(4):847-849
  2. Magnus M, et al, Håberg SE.. Growth in children conceived by assisted reproductive technologies. Hum Reprod 2021;36:1074–1082.
  3. Scherrer, U., et al, 2012. Systemic and pulmonary vascular dysfunction in children conceived by assisted reproductive technologies. Circulation, 125(15), pp.1890-1896.
  4. Lv H, Diao F, et al. Assisted reproductive technology and birth defects in a Chinese birth cohort study. Lancet Reg Health West Pac. 2021 Jan 22;7:100090.

مشمولہ: شمارہ فروری 2023

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223