تعطیلات گرما اور مسلم طلبہ و طالبات

انگریزی تاریخ کے اعتبار سے ماہ اپریل ایسا مہینہ ہے ، جس میں اسکولس،کالجسس اور یونیورسٹیوں میں امتحان کا انعقاد عمل میں آتاہے اور پھر گرمائی تعطیلات کے نام سے تقریباً دو مہینے چھٹی دی جاتی ہے۔طلبہ وطالبات اس طویل تعطیلی ایام کویوں ہی بے مقصد گزار دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اپنے دوست واحباب، رشتے داروں، سرپرستوں اور سہیلیوں کے ساتھ سیروتفریح کا پروگرام بنایاجاتا ہے۔ مختلف شہروں میں مشہور مقامات کو دیکھنے،تقریبات میں شرکت کرنے اور متعدد کھیل کود کے ذریعے ذہنی آسودگی حاصل کی جاتی ہے۔ کوشش رہتی ہے کہ پورے سال تعلیمی نظام کی پابندی سے دل ودماغ پر جو تھکاوٹ ہے وہ کافور ہوجائے اور آیندہ سال تازہ دم ہو کر علمی سفرکا آغاز کرنے کے لائق ہوسکے۔ اسی پروگرام کی ترتیب اور اس کی انجام دہی میں دوماہ کی طویل مدت گزر جاتی ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘ ذہنی تفریح کے بجائے الجھنیں بڑھتی ہیں، سکون کی جگہ قلبی اوردماغی انتشار پیدا ہوتا ہے، فکری بالیدگی تو کیا ہوگی تھکاوٹ کا بوجھ مزید بڑھ جاتاہے اور نئے تعلیمی سال کا جب آغاز ہوتا ہے تو اختتام سال سے زیادہ اب تعب اورتھکن کا احساس ہوتا ہے اور بسا اوقات اخلاق سوز حرکتیں بھی طبیعت میں راسخ ہوجاتی ہیں اور پھر وہیں سے راستہ بدل جاتا ہے۔ تعلیم متاثر ہوتی ہے اور ایک نہ ایک دن اس کے خوفناک نتائج سامنے آتے ہیں۔

انھی باتوں کے پیش نظر ہمارے بزرگوں نے سر پرستوں کو ہدایت دی ہے کہ گرماکی تعطیلات میں اپنے بچوں کے دین واخلاق کو بہتر بنانے کی سعی کریں۔ صاحبِ حیثیت افراد خود اپنے گھروں میں ایسے علمائ اور مربی کا انتظام کریں جو بہتر اور مخلصانہ انداز میں ان کی تربیت کرسکیں ورنہ بعض ملی ودینی اداروں کی جانب سے اجتماعی طور پر تربیتی کیمپوں میں انہیں شریک کرائیں، اس سے طلبہ وطالبات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حاصل ہوگی۔ ضروری حدتک اسلامی طور طریقے اور اس کے اصول وآئین سے واقف ہوں گے۔ وضو، طہارت، غسل، نماز، روزہ اور دوسرے اسلامی احکام کا صحیح طرح علم ہوگا۔

مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا سرمایہ ایمان اور عمل صالح ہے۔ ایک شخص اگر انجینئر، ڈاکٹر اور پروفیسر ہوجائے یا اپنی دنیوی محنت کے نتیجے میں اچھے عہدے کا مالک بن جائے،لیکن وہ اسلامی تعلیمات اور ضروری احکام سے بھی ناواقف ہو، انبیائ، صلحائ،صحابۂ کرام، خلفائے راشدین اور بزرگوں کی سیرت کو وہ نہ جانتا ہو تو ایسے علم اور عہدے کا کیا حاصل؟دنیا کی چند بہاریں دیکھنے کے بعد آخرت کی زندگی شروع ہوگی تو وہ ناکام اور نامراد ہوگا ۔ حالاںکہ وہی ابدی زندگی ہے۔ وہاں کی راحت دائمی راحت ہے اور وہاں کی تھوڑی پریشانی کے مقابلے میں دنیا کی ساری کلفتیں اور پریشانیاں ہیچ ہیں۔ بلاشبہ دنیوی علوم وفنون اور عصری تعلیم جائز ہی نہیں، بل کہ اس کا سیکھنا حالات کا اہم تقاضا ہے تاکہ مسلمان غیر اقوام کے محتاج نہ رہیں۔ہر شعبے میں ہماری نمائندگی ہو اور بوقت ضرورت مطلوبہ شعبوں میں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کا تعاون کرسکیں۔ تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ ایک مسلمان پر سب سے پہلے ایسی تعلیم کا حصول لازم ہے ، جو بندوں کو خدا سے مربوط کرسکے اور دین اسلام سے اجنبیت ختم ہو۔ قرآن کریم میں جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ یہ تھی:

اِقْرأ بِاِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقْ  ﴿العلق :۱﴾

پڑھیے اپنے اس رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔

پیدا کرنا اور پھرساری نعمتوں سے نوازنا یہ عظیم احسان ہے جو سارے احسانات سے برتر ہے۔ لہٰذا جس خدانے یہ احسان کیا ہے ، سب سے پہلے ان کو راضی کرنے والی تعلیم حاصل کی جائے۔ تاکہ بعد میں دنیوی علوم وفنون اور علو مراتب سے ایمان وعقائد میں کوئی فرق نہ آسکے۔ اگر بچپن میں اس کا انتظام نہ ہوا، یا غفلت کے سبب اس کی طرف توجہ نہ کی گئی تو جب بھی اس کا موقع ملے فوری طور پر اس کا نظم کیا جانا چاہیے۔ ان ساری باتوں کا حاصل یہ ہے کہ انسان رفعتوں اور بلندیوں کی جس منزل پر بھی پہنچ جائے انسانیت اور عبدیت کے مقام کو فراموش نہ کرے۔

تواضع ، انکسار اور سادگی انسان کی زینت ہے۔ اس سے اپنی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس کا استحضار رہنا چاہیے اور پھر اپنے رب سے رشتہ مضبوط اور مستحکم رکھے۔ مال ودولت،علم وعہدہ اور عروج وترقی سے تکبر اور غرور کے شکار ہونے کی بجائے خدا کی عبودیت کا ہمیشہ دم بھرتا رہے اورہر صبح وشام سجدئہ شکر بجالائے کہ یہ ساری بہاریں اسی کی عطا کردہ ہیں۔ مشہور شاعر اکبرالٰہ آبادی نے اپنے ان اشعار میں صحیح ترجمانی کی ہے۔وہ کہتے ہیں:

تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں پھولو

جائز ہے غباروں میں اڑو، چرخ میں جھولو

بس ا یک سخن بندئہ عاجز کار ہے یاد

اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

ہندستان میں عصری تعلیم کے علمبردار سرسید احمد خاں ہیں۔ جنہوں نے زمانے کے تقاضوںکی تکمیل کے پیش نظر انگریزی تعلیم کو اہمیت دی اور اس کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیادرکھی۔ اس تعلیمی سفر کے آغاز میں انہوں نے اپنا مقصد واضح کرتے ہوئے کہا:

‘فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا، نیچرل سائنس بائیں ہاتھ میں اور کلمہ: ‘لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کا تاج سرپر’  ﴿موج کوثر صفحہ ۶۴۱﴾

وہ علی گڑھ کے طلبہ کو اپنے خطاب میں اسلامی تعلیمات کی پیروی پر ابھارتے اور انہیں یقین دلاتے تھے کہ خدا سے منہ موڑ کر کسی رتبے کو تم نہیں پاسکتے۔ایک موقع پر علی گرھ مسلم یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا:

’’یاد رکھو!سب سے سچا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔اس پر یقین کرنے سے ہماری قوم ،قوم ہے ۔اگر تم نے سب کچھ کیا اور اس پر یقین نہ کیا تو تم ہماری قوم نہ رہے،پھر اگر تم آسمان کے تارے ہوگئے تو کیا؟بس امید ہے کہ تم ان دونوں باتوں ﴿یعنی علم اور اسلام﴾کے نمونہ ہوگے اور جبھی ہماری قوم کو عزت ہوگی۔‘‘     ﴿حیات جاوید صفحہ۵۱۲﴾

والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے ایمان وعقائد، دین واخلاق اور ان کے اسلامی تشخص کی بقائ کی فکر کریں،یہ فکر دنیا اور اس کے اسباب ووسائل کی فکر پر غالب رہنی چاہیے کہ یہی دنیا وآخرت میں سرخروئی اور حقیقی کامیابی کا ذریعہ ہے، جس طرح ایک شخص اپنی اولاد کے مستقبل کے بارے میں ترقیاتی پروگرام ترتیب دیتا ہے اوراس کو تکمیل کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے تاکہ ان کے بعد بچے راحت کی زندگی گزار سکیں۔ ٹھیک اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ اپنی اولاد کے ایمان کی بقاء اور دین اخلاق سے متعلق سوچنا چاہیے کہ ان کے بعد ان کی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کس طرح کی جائے۔ قیامت میں باپ سے اولاد کے متعلق سوال کیا جائے گا:

ماذا علمتہ وماذا ادبتہ

‘تم نے بچوں کو کیا تعلیم دی اورکیسا ادب سکھایا۔’

ہر ماں باپ سے اولاد کے ایمان وعقائد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس لئے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا، علم دین سکھانا اور اسلامی آداب سے مزین کرنا بہت ضروری ہے، جس نے اپنی اولاد کو ادب سکھایا، اسلامی تہذیب اور اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا اس نے گویا ان کو لازوال نعمت عطا کی، اس کا اثر تادیر رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم (ص) نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:

مانحل والد ولدہ من نحل افضل من ادب حسن ۔﴿ترمذی﴾

‘والدین کا بہترین عطیہ اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت ہے ۔’

تربیت بہتر عطیہ اس لئے ہے کہ اولاد کو بہت ساری جائداد اور بلڈنگیں بنا کر دی جائیں۔ ان میں اگر اپنی خوبی نہیں ہے یا ان کی قسمت میں نہیں ہے تو دولت اور ملکیت رفتہ رفتہ کم ہوتی جائے گی اور ایک دن وہ خود محتاج بن جائے گا۔لیکن بہتر تعلیم وتربیت کے نتیجے میں ہر جگہ ان کی عزت ہوگی اور وہ ہمیشہ باقی رہے گی۔ اس کے کم یا چوری ہونے کا سوال نہیں ہے۔ اس لیے وہ شخص جس نے دین واخلاق سے اپنی اولاد کو محروم رکھا،اس نے بڑے خیر سے انہیں محروم کردیا۔

قرآن نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ اپنے کنبہ اور گھر والوں کو بھی آگ کے ایندھن سے بچانے کی فکر پیدا کرنے کی تلقین کی ہے’ ارشاد باری ہے :

قوا انفسکم واھلیکم ناراً وقودہا الناس والحجارۃ ﴿التحریم:۶﴾

‘اے ایمان والو!تم اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔’

مشہور مفسر قرآن حضرت مفتی محمد شفیعؒ مذکورہ آیت کے ذیل میں تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

لفظ ‘ أھلیکم ’ میں اہل وعیال سب داخل ہیں،نوکر چاکر بھی اس میں داخل ہوسکتے ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت ناز ہوئی تو حضرت عمر بن الخطاب ص نے عرض کیا : یارسول اللہ !اپنے کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آگئی کہ ہم گناہوں سے بچیں اور احکام الٰہیہ کی پابندی کریں ۔ مگر اہل وعیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں ؟ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اور جن کاموں کے کرنے کاحکم تم کو حکم دیا ہے تم ان کے کرنے کا اہل وعیال کو بھی حکم کرو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا۔حضرات فقہائ نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لئے کوشش کرے اوربعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب میں وہ شخص ہوگا جس کے اہل وعیال دین سے جاہل وغافل ہوں’۔﴿معارف القرآن﴾

یہ حقیقت ہے کہ آج عصری درسگاہوں میں دین واخلاق کی تعلیم نہیں ہے، جس کے سبب ان اداروں میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات اسلام کے بنیادی احکام اور اس کی ابتدائی تعلیمات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ خواہ وہ کسی کلاس میں پڑھتے ہوں۔ اس لئے والدین اور سرپرستوں کو ہی اس کا انتظام کرناہوگا۔ اسی کے ساتھ مختلف جماعتوں’ تنظیموں اور سماجی ادارو ںکی جانب سے بھی اس کا نظم کیاجاناچاہیے۔گرماکی تعطیلات میں طلبہ وطالبات کو دین واخلاق،سلامی تہذیب وتاریخ سے روشناس کرانے کی اجتماعی یا انفرادی جو بھی کوششیں ہوں،لائق تحسین اور قابل قدر ہیں۔ اس سے بہتر سماج کی تشکیل میں کافی مدد ملے گی۔ کیوں کہ یہی نوجوان اور طلبہ وطالبات مستقبل کے قائد اور معمار ہیں۔ ان کا وجود ملت کا عظیم اثاثہ ہے۔ جس ذہنیت کے ساتھ ان کی پرورش اور تربیت کی جائے گی،مستقبل میں وہی تاریخ کا اہم باب ہوگا۔ اگر اسلامی نقوش پر ان کی تعلیم وتربیت کی گئی تو دینی اور اسلامی شناخت قائم ہوگی، منکرات کا خاتمہ ہوگا اور نیکیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا ۔اس طرح بہتر معاشرے کی امید کی جاسکتی ہے۔ پھر آئندہ آنے والی نسلیں بھی اسی طرز پر تربیت حاصل کریں گی اور یہ تسلسل تادیر باقی رہے گا۔ گرمائی کورسس کا اہم فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بچے لغویات اور مخرب الاخلاق حرکتوں سے یہ نجات پاسکیں گے، جن سے غیر اختیاری طور پر اس طویل ایام میں متاثر ہوتے ہیں۔

گرمائی کورسیس چلانے والوں کو چاہیے کہ ان ایام میں پڑھانے کے لیے عمر اور صلاحیت کے لحاظ سے ایک مختصر مگر دلچسپ اور پرکشش نصاب تیار کریں، جس سے کم وقت میں دین کی بنیادی باتوں کے جاننے کے ساتھ اسلامی تاریخ وتہذیب سے طلبہ واقف ہوسکیں،ان کو یہ معلوم ہوجائے کہ ہمارا خدا اور اس کے رسول سے، مذہب اسلام سے،خلفاے راشدین اور صحابۂ کرام سے، دین کے بزرگوں سے کیا رشتہ ہے۔ آخرت اورمرنے کے بعدکی زندگی کس فلسفے کا نام ہے اور اس کا حقیقت سے کیا تعلق ہے۔ ایمان وعقائد میں استحکام اور بنیادی احکام کی تعلیم، جان کاری اور ان پر عمل کرکے بہکنے سے طلبہ وطالبات محفوظ رہیں گے۔ اہل علم اور اصحاب فکر کے تعاون سے ایسا کورس تیار کرایا جاسکتا ہے۔ لڑکیوں کے لئے تربیت کا علٰیحدہ انتظام کیاجائے اور ان کے لئے مذکورہ باتوں کے ساتھ گھریلو پکوان، سلائی،کڑھائی،دستکاری وغیرہ کو بھی جزوی طور پر نصاب میں شامل کیاجائے۔

گرمائی تعطیلات کا زمانہ گرچہ مختصر ہوتاہے ،مگر منظم کوششوں اور منصوبہ بند ایسی تحریکات سے بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔جو بھی وقت ملے طلبہ کے والدین ، سرپرستوں اور گرمائی کورسس کا نظم کرنے والوں کو اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے اور ایک صالح اور انقلابی جدوجہد کے ذریعے مسلم نوجوانوں کے رخ کو دین وآخرت کی طرف موڑنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2011

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223