لغت میں سنت کے معنی طریقے اور روش کے ہیں اور اسی اعتبار سے دین میں رائج طریقے کو سنت کہا جا تا ہے، (الطریقۃ المسلوکۃ فی الدین)دوسرے لفظوں میں رسول اللہ ﷺ سے منقول وہ قول و عمل سنت ہے جس میں تواتر کی شان پائی جاتی ہو او ر حدیث آنحضور ﷺکی طرف منسوب وہ قول و فعل ہے جو رایوں ذریعے منقول ہو ، ایک راوی ہوتو ’’خبر واحد‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔ سنت وحدیث دونوں شرعی دلیل ہیں ، البتہ حدیث کے مقابلے میں سنت کو ترجیح حاصل ہوگی ، حضرت عمرؓ نے فرمایا :
’’ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے کہنے سے نہیں چھوڑ سکتے کہ نہ معلوم اس نے یاد رکھاہے یا بھول گئی ہے ‘‘۔(رواہ مسلم ،نیل الاوطار :۲/۱۴۴۷)
خبر واحد کی حیثیت
معلوم ہوا کہ سنت ایک متواتر قول و عمل ہے ، اس لیے اس کے مقابلے میں کسی ’’خبر واحد‘‘ کو قبول نہیں کیاجائے گا ، جس کی سند کے صحیح ہونے کے باوجود راوی کی غلطی ، وہم اور نسیان کاامکان ہے اور اسی فرق کا لحاظ کرتے ہوئے محدثین کے یہاں یہ ضابطہ ہے کہ :
’’ وہ خبر واحد قبول نہیں کی جائے گی جو عقل ، قرآن کے ثابت اور محکم حکم اور معلوم سنت اور سنت کے قائم مقا م عمل اور کسی بھی قطعی دلیل کے خلاف ہو ‘‘۔ ( الکفایۃ فی علم الروایۃ للبغدادی:۴۳۲)
اسی فرق کی بنیاد پرامام مالک عمل اہل مدینہ کے مقابلے میں خبر واحد کو قبول نہیں کرتے اوران کے استاذ ربیعہ الرای کہاکرتے تھے کہ :
’’ہزاروں نے ہزاروں کوایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے ، یہ ایک ایک کی روایت سے بہتر ہے ‘‘۔(حلیۃ الاولیاء:۳/۲۶۱۔)
دونوں کے درمیان یہ فرق خود محدثین کے درمیان بڑا مشہور تھا اور اسی بنیاد پر وہ کسی کی اہمیت اور حیثیت کو متعین کیا کرتے تھے ، چنانچہ عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں :
’’سفیان ثوری حدیث میں امام ہیں سنت میں نہیں اور اوزاعی سنت میں امام ہیں ، حدیث میں نہیں اور مالک دونوں میں امام ہیں ‘‘۔( شرح الزرقانی علی المؤطا:۱/۳۔)
اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’خبر واحد ‘‘ کا ناقل خواہ ثقاہت وعدالت کے اعلیٰ معیار پر فائز ہو او ر بحث وتحقیق میں اس نے اپنی پوری طاقت لگا دی ہو ، اس کے باوجود وہ انسان ہے اور غلطیوں سے معصوم نہیں ہے ، اس کی تحقیق اور جستجو کو قطعیت کا درجہ دینے کامطلب ہےکہ اسے معصوم سمجھاجارہا ہے ، حدیثوںکے سلسلے میں محدثین نے تحقیق و جستجو کے جو ریکارڈ قائم کیے ہیں وہ ہمارے لیے سرمایہ افتخار ہیں لیکن ان سب کے باوجود خود انہیں اعتراف ہے کہ حدیث کی صحت وضعف کا فیصلہ ظنی ہے ، قطعی نہیں ،جیساکہ ’’تدریب الراوی‘‘ میں ہے کہ :
’’جب یہ کہاجائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو اس کا مفہوم وہی ہے جو گزرچکا یعنی مذکورہ اوصاف کے ساتھ اس کی سند متصل ہو تو ہم نے ظاہر سند پر عمل کرتے ہوئے اسے قبول کرلیا ہے ، نہ یہ کہ حقیقت میں بھی وہ یقینی طور پر صحیح ہے کیونکہ قابل اعتماد راوی سے بھی غلطی اور بھول ہوسکتی ہے ‘‘۔( تدریب الراوی:۴۳۔)
بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کیاکہ جس حدیث کو بخاری و مسلم دونوں نے یا ان میں سے کسی ایک نے نقل کیا ہو تو وہ ’’خبر واحد‘‘ہونے کے باوجود قطعی اور یقینی ہوتی ہے لیکن امام نووی جیسے محدث اور محقق نے سختی سے اس دعوے کی تردید کی ہے ،وہ لکھتے ہیں :
’’شیخ ابن صلاح نے ذکرکیاہے کہ جس حدیث کو بخاری و مسلم دونوں نے یا ان میں سے ایک نے روایت کیا ہو تو وہ یقینی طور پر صحیح ہے …لیکن محققین اور اکثر لوگ اس رائے کے برخلاف ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اگران کی روایت متواتر نہ ہو تو اس سے صرف ظن کا فائدہ حاصل ہوگا ‘‘۔(حوالہ مذکور:۹۲-۹۳۔)
اگرچہ علامہ سیوطی نے ا بن صلاح کی رائے کی تائید میں بڑازو ر لگایا ہے لیکن انہوں نے آخرمیں یہ کہتے ہوئے اس بحث کوختم کردیا ہے کہ ایسا ماننے کی صورت میں خود ابن صلاح کے کلام میں تضاد نظر آرہا ہے :
’’البتہ اس رائے اور ابن صلاح کے ذکرکردہ اس اصول میں مطابقت پیدا کرنا باقی ہے کہ جب محدثین کہتے ہیںکہ یہ حدیث صحیح ہے تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں صحیح ہونے کی شرطیں پائی گئی ہیں نہ یہ کہ وہ واقعہ میں صحیح ہے تواس رائے اور اس اصول میں تضاد ہے ، اس لیے تطبیق کے بارے میں سوچ لیا جائے کیونکہ یہ بہت مشکل ہے اور میں نے کسی کواس سے متنبہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔(حوالہ مذکور:۹۶۔)
راوی سے غلطی کا امکان:
علامہ نووی کی یہ بات بہت ہی منطقی اور فطری ہے کہ ’’خبر واحد ‘‘ کاناقل کوئی بھی ہو اس میں قطعیت اور یقین کی شان پیدا نہیں ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ راوی کومعصوم سمجھنے کے متراد ف ہے اور جب صحابہ کرام کی روایتوں میں غلطی اور بھول کاامکان ہی نہیں بلکہ واقعہ ہے تو پھر دوسرے کس شمار و قطار میں ، ام المومنین حضرت عائشہؓ سے نقل کیاگیاہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ زندہ لوگوں کے رونے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے ، یہ سن کر کہنے لگیں :
’’اللہ ابوعبدالرحمن(ابن عمر) کو معاف کرے ، انہوںنے جھوٹ نہیں کہا لیکن وہ بھول گئے ہیں یا ان سے غلطی ہوگئی ہے ، واقعہ یہ تھاکہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت کے گھر کے پاس سے گزرے جس پر اس کے گھر والے رورہے تھے تو آپؐ نے فرمایا کہ تم اس پر رورہے ہو حالانکہ اسے قبر میں عذاب دیا جارہا ہے ‘‘۔(صحیح بخاری:۱۲۸۹، صحیح مسلم۲۱۵۳۔)
قطع نظر اس سے کہ ابن عمر کی بات غلط تھی یا نہیں اوران کے کلام کی تاویل اور توجیہ ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یہاں صرف یہ دیکھنا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے بھول اور خطا کے پیش نظر ان کی بات کو قبول نہیں کیا اور یہ روایت گزر چکی ہے کہ حضرت عمرؓ نیز حضرت عائشہؓ نے اسی امکان کے پیش نظر حضرت فاطمہ بنت قیس کی روایت کو قبول کرنے سے انکار کر دیاتھا اور اسی طرح سے متعدد صحابہ کرام نے حضرت ابوہریرہؓ کی بعض روایتوں پر تنقید کی ہے ، انہوںنے حدیث بیان کی کہ آگ پر پکی ہوئی چیزوں سے وضو کرو ، ابن عباسؓ نے کہا کہ گرم پانی سے وضو کرنے کے بعد دوبارہ وضو کرنا ہوگا ، (سنن ابن ماجہ:۴۸۵، قال الالبانی حسن۔)اسی طرح سے انہوں نے بیان کیا کہ جو شخص جنازہ کو اٹھائے وہ وضو کرے توحضرت عائشہؓنے کہا، کیاکسی لکڑی کو پکڑنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، (الاجابۃ:۱۱ )ظاہر ہے اگرحضرت عائشہؓ ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ یہ سمجھتے کہ حضرت ابوہریرہؓ جو کچھ کہہ رہے ہیں و ہ یقینی طور پر اللہ کے رسولﷺ کا کلام ہے اور ان سے حدیث کو سمجھنے اور نقل کرنے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے تو وہ اعتراض کی جرأت نہیں کرسکتے ۔
اسی طرح خود صحیح بخاری ومسلم میں راوی کے وہم ، بھول اور غلطی کی مثالیں ملتی ہیں ، مشہور حدیث ہے کہ جنگ خندق کے بعد آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم عصر کی نماز بنو قریظہ ہی میں پڑھو ، صحیح بخاری اورحدیث کی دیگر کتابوں میں ’’عصر‘‘ کی نماز مذکور ہے ، لیکن صحیح مسلم میں عصر کی جگہ ’’ظہر‘‘ کا لفظ ہے جو یقینی طور پر راوی کا وہم ہے ، اسی طرح سے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ سات لوگ عرش الٰہی کے سائے میں ہوں گے ، ان میں سے ایک وہ ہے جو اپنے دائیں ہاتھ سے اللہ کی راہ میں اس طرح خرچ کرے کہ بائیں کوخبر نہ ہو مگر یہی حدیث صحیح مسلم میں ان الفاظ میں ہے کہ بائیں ہاتھ سے اس طرح خرچ کرے کہ دائیں کو خبرنہ ہو ، ظاہر ہے کہ الفاظ کی یہ تبدیلی راوی کی غلطی ہے ، اس جیسی مثالیں تلاش سے حدیث کی کتابوں میں مل سکتی ہیں ۔
صحت و ضعف کے اصول اجتہادی ہیں
عادل وضابط اور قابل اعتبار راوی سے بھی بھول اور غلطی ہوسکتی ہے بلکہ ہوئی ہے جس کی متعدد مثالیں گزرچکی ہیں ، اسی کے ساتھ کسی راوی کے عادل وضابط اور کسی حدیث کی صحت و ضعف کے جو اصول و ضوابط اور شرائط متعین کیے گئے ہیں وہ بھی ایک انسانی کوشش اور اجتہاد پر مبنی ہیں جس کی وجہ سے حدیث کے اماموں کے درمیان بڑا اختلاف پایا جاتا ہے ، اس سلسلے میں ’’تدریب الراوی ‘‘ اور ’’الباعث الحثیث‘‘کا مطالعہ کیاجاسکتا ہے ، یہاں تک کہ خودامام بخاریؒ و مسلمؒ کے درمیان بعض اصولوں میں شدید اختلاف ہے ، امام مسلمؒ کے نزدیک وہ حدیث جو عن فلان عن فلاں کے ذریعہ منقول ہو اس میں راوی اور جس سے روایت نقل کررہا ہے دونوں کا زمانہ ایک ہونا اور امکان ملاقات کافی ہے اور اس کے بر عکس امام بخاری وغیرہ کے نزدیک ثبوت ملاقات ضروری ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے بہت سی حدیثیںامام مسلمؒ کے نزدیک صحیح ہیں ، لیکن امام بخاریؒ کے یہاں صحیح نہیں ہیں۔(دیکھیے الہدی الساری لابن حجر:۱/۸)
اور اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہؒ کی یہ عبارت چشم کشا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
’’کوئی بھی امام جسے قبولیت عام حاصل ہو ، وہ جان بوجھ کر اللہ کے رسولؐ کی سنت کی مخالفت نہیں کرسکتا ہے ، خواہ وہ سنت بہت اہم ہو یامعمولی ، اس لیے اگر کسی امام سے ایسا قول منقول ہو جو کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو اسے اس حدیث کے ترک کرنے میں معذور سمجھنا چاہیے ‘‘۔
پھر انہوںنے ترک حدیث کے اسباب اور اعذار بیان کیے ہیں جس میں سے ایک سبب یہ ہے :
’’وہ اپنے اجتہاد کی وجہ سے کسی حدیث کو ضعیف سمجھتا ہے ، جسے دوسرے لوگ صحیح مانتے ہیں اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں ، ایک یہ کہ کسی راوی کو ایک مجتہد ضعیف سمجھتا ہے اور دوسرا اسے ثقہ قرار دیتا ہے اور حدیث کے راویوں کے جانچنے اور پرکھنے کا میدان بہت وسیع ہے اور ان کے بارے میں علما ء کے درمیان اسی طرح سے اختلاف و اتفاق ہے جیسا کہ دوسرے علو م میں ۔
اور ترک حدیث کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ خبر واحد کے سلسلے میں جسے کسی عادل اور ضابط نے نقل کیا ہو بہت سی شرطوں کے بارے میںاختلاف ہے ، جیسے بعض لوگوں کے نزدیک اسے کتاب و سنت پر پیش کیا جائے گا اور اسی وقت قبول کیا جائے گا جب کہ وہ ان کے موافق ہو اور بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ اگر کوئی حدیث خلاف قیاس ہو تو محدث کا فقیہ ہونا ضروری ہے اور بعض لوگوںنے یہ شرط لگائی ہے کہ اگرحدیث کا تعلق عام لوگوںسے ہواور اس طرح کے واقعات بکثرت پیش آتے ہوں تو ضروری ہے کہ وہ حدیث بہت سے لوگوں کو معلو م ہو ‘‘۔(رفع الاعلام:۱۵-۱۷۔)
اورامام ترمذی لکھتے ہیں کہ :
’’جیسے دوسرے علوم میں اختلاف ہے ، اسی طرح سے کسی راوی کو ضعیف قرار دینے میں اہل علم اماموں کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے ‘‘۔( (۲) اعلاء السنن: ۱۹/۵۲۔)
اور مشہور ناقد علامہ ذہبی رقم طراز ہیں :
’’یہ ان لوگوں کے ناموں کا تذکرہ ہے جو علم نبوی کے حاملین کی تعدیل کرتے ہیں او ر کسی راوی کوثقہ یا ضعیف یا کسی حدیث کوصحیح یا غلط قرار ددینے کے سلسلے میں جن کے اجتہاد کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ‘‘۔
(حوالہ مذکور:۱۹/۵۴۔)
اور کسی راوی کو عادل اور ضعیف کہنے میں اختلاف کاحال یہ ہے کہ بد تر سے بدترین راوی کو بھی ثقہ کہنے والے دو چار لوگ مل جائیں گے او ر عدالت و ثقاہت کے اعلیٰ معیار پر فائز شخصیت کو ضعیف کہنے والے کچھ لوگ نکل آئیں گے ، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں :
’’ذہبی نے کہا جو راویوں پر جرح وتعدیل کے سلسلے میں مکمل معلوما ت رکھتے ہیں کہ اس فن کے علماء میں سے دولو گ بھی کسی ضعیف کو ثقہ یا کسی ثقہ کو ضعیف کہنے میں متفق نہ ہوسکے ‘‘۔(نزھۃ الخواطر:۱/۱۳۸۔)
اسی کے ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جرح و تعدیل میں لوگوں کے شخصی ذوق و مزاج اور ذاتی رجحانات کا بھی خاصا اثرپڑا ہے اور ایسے لوگوںکو بھی ضعیف قراردیا گیا ہے یا کم سے کم انہیں نظر انداز کیاگیا ہے جوان کے نقطہ نظر کے موافق نہیں تھے ، امام احمدؒ جیسے محدث اور فقیہ بھی ان لوگوں سے حدیث نہیں لیتے تھے جو قیاس اور رائے کے مطابق فتویٰ دیتے تھے ، چنانچہ معلی بن منصور سے انہوںنے اسی بنیاد پر روایت نہیں لی ،(تہذیب التہذیب:۱۰/۲۳۸) اور اسی ’’جرم ‘‘کی وجہ سے امام مالکؒ کے استاذربیعہ پرکلام کیاگیا ، (ھدی الساری:۴۱۶۔)اور امام ابوحنیفہؒ اور دوسرے حنفی اماموں پر محدثین نے جو جرح کی ہے اس کی بھی بنیادی وجہ یہی رائے اور قیاس ہے ۔
اور علامہ ذہبی جیسے معتدل مزاج اور ماہرفن کے متعلق خود ان کے شاگرد علامہ سبکی کہتے ہیں :
’’وہ اہل سنت یعنی’’ اشاعرہ کے خلاف بے جا حملہ کرتے ہیں ، اس لیے اس معاملے میں ان پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا‘‘۔(ھدی الساری:۴۶۱)
یہاں تک کہ خود امام بخاری کو شخصی رجحانات کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور روئے زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور وہ موت کی تمنا کرنے لگے اور لوگ ان سے حدیث لینے اور ان سے سنی ہوئی حدیث کوبیان کرنے سے احتراز کرنے لگے ، چنانچہ ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب ’’الجرح والتعدیل ‘‘میں لکھا ہے کہ میرے والد ابو حاتم اور ابو زرعہ نے بخاری سے حدیثیں سنیں لیکن جب محمد بن یحییٰ نیشا پوری نے ان کے پاس لکھا کہ بخاری نے ان کی موجودگی میں کہا ہے کہ قرآن کا تلفظ مخلوق ہے تو ان دونوں نے ان کی حدیثیں چھوڑ دیں ۔ (قاعدۃ فی الجرح والتعدیل للسبکی:۱۴۔)
علاوہ ازیں جرح و تعدیل کرنے والے بھی ایک انسان تھے اور بغض وحسد جیسی انسانی کمزوریوں سے پاک نہیں تھے ، اس لیے جرح و تعدیل کا عمل اس سے بھی بہت زیادہ متاثر رہا ہے ، اس کی بے شمار مثالیں جرح وتعدیل کی کتابوں میں موجود ہیں ، علامہ ذہبی لکھتے ہیں :
’’ہم عصر لوگوںکا کلام ایک دوسرے کے بارے میں معتبر نہیں ہے ، خصوصاً جب کہ ظاہر ہوجائے کہ وہ حسد اور دشمنی پر مبنی ہے ، جس سے وہی شخص محفوظ ر ہ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ بچالے او ر میرے علم کے مطابق انبیاء اور صدیقین کے علاوہ کسی بھی زمانے کے لوگ اس سے محفو ظ نہیں رہے ہیں‘‘ ۔(اعلاء السنن: ۱۹/۱۷۷۔)
ظاہر ہے یہ ایک پوشیدہ کمزوری ہے ، اس لیے بعض علامتوں اور دلیلوں کی روشنی میں کچھ لوگوںکی جرح کے بارے میں معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ بغض و حسد یا معاصرانہ چشمک پر مبنی ہے لیکن تمام لوگوں کے بارے میں پتہ لگانا دشوار ہی نہیں بلکہ محال ہے ۔
سنت اور عملی تواتر
حقیقت یہ ہے کہ عبادتوںکی صورت گری اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں اصل کردار سنت اور عملی تواتر کا ہے ،اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد و عمل کوصحابہ کرامؓ نے اپنی زندگی کا حصہ بنالیا، آپ ﷺنے عبادت کے جو طریقے بتلائے ،صحابہ کرامؓ نے اسی کے مطابق عمل شرو ع کردیا ، پیدائش ووفات اور شادی بیاہ کے متعلق آپ نے جو ضابطے متعین کیے وہی معاشر ے میں رائج ہوگئے ، خریدو فروخت کے جوطریقے بتائے گئے بازاروں میں اسی کا چلن ہوگیا اور پھر ایک نسل کے ذریعے دوسری نسل تک منتقل ہوا ،اور ایک دن کے لیے بھی اس میں انقطاع نہیں ہو ا بلکہ قرآن کے بیان پر مشتمل معاشر ہ ایک تسلسل کے ساتھ ہم تک پہنچا ۔
امت کی سہولت کے پیش نظر بعض احکام میںتنوع او ر تعدد کی رعایت رکھی گئی اور اللہ کے رسول ﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام ان مختلف سنتوں پر عمل پیرا رہے اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد مختلف ذوق اور رجحانات کے حامل صحابہ کرام عالم اسلام کے متعد د شہروں میں رہائش پذیرہوگئے اور وہاں کے لوگوں نے ان کے ذریعے سے دین وشریعت کو سیکھا اور اس کے مطابق عمل کرتے رہے اور اگران کے پاس ایسی کوئی ’’خبر واحد‘‘پہنچتی جو ان کے معروف عمل کے خلاف ہوتی تو اسے قبول نہ کرتے ، امام مالک کے استاذربیعۃ الرای نے اس کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے :
’’ہزار نے ہزار سے سیکھا ، یہ ایک ایک کی روایت سے بہتر ہے ‘‘۔
عباسی خلیفہ ہارون رشید نے جب تمام لوگوں کو مؤطا میں مذکور روایتوں کے مطابق عمل کرنے کا پابند بنانا چاہا تو امام مالک نے فرمایا ،آپ ایسا نہ کریں، خود صحابہ کرام میں فروعات میں اختلاف رہا ہے او ر انہوںنے مختلف شہروں میں رہائش اختیار کی اور وہاں کے لوگ اس کے مطابق عمل پیر ا ہیںاور سب طریقے جاری ہوچکے ہیں ، ’’فقال لاتفعل فان اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اختلفوا فی الفروع وتفرقوا فی البلدان وکل سنۃ مضت‘‘(حجۃ اللّٰہ البالغۃ:۱/۲۷۰۔)
امام مالک کا عمل اہل مدینہ پر اصرار اور اس کی وجہ سے خود اپنی روایت کردہ حدیثوںپر عمل نہ کرنا اسی اصول پر مبنی ہے ، چنانچہ علامہ شا طبی ان کے متعلق لکھتے ہیں :
’’امام مالک اس عمل کو لیا کرتے تھے جس میں تسلسل پایا جاتا ہواور جس پر اکثر لوگوںکا عمل رہا ہو اور اس کے علاوہ کو چھوڑ دیتے تھے ، گرچہ وہ کسی حدیث سے ثابت ہو ، کیونکہ انہیں تابعین کا زمانہ ملا تھا اور ان کے عمل کو انہوںنے غو ر سے دیکھا تھا اور تابعین انہی چیزوںپر عمل پیرا رہے جنہیں انہوںنے صحابہ کرامؓ کو کرتے ہوئے دیکھااو رظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے یہاں انہی اعمال پر استمرار تھا جنہیں انہوںنے رسول اللہ ﷺ کو کر تے ہوئے پا یا ‘‘۔(الموافقات:۳/۲۷۰۔)
(جاری)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2018