قرآن حکیم میں سورہ مائدہ کی آیت ۷۷ نصرانیوں کی افراط و تفریط بیان کرتی ہے ’’کہو، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور اُ ن لوگوں کے تخیلات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا، اور ”سواء السّبیل” سے بھٹک گئے‘‘۔ یعنی جو لوگ راہِ راست سے بھٹک چکے ہیں ان کی اتباع اہل ایمان کو بھی برگشتہ ہدایت کردیتی ہے۔گزشتہ صدی میں مسلمانوں کا یہی سب سے بڑا المیہ رہا کہ اس کا مغرب زدہ دانشور طبقہ اپنی تاریخ میں پہلی بار یوروپ کی فکری غلامی میں مبتلا ہوا ،اور آنکھ موند کر اس کی پیروی اختیار کرلی۔ اس لیے یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکات اس طغیان کے خلاف ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔ اتفاق سے اس وقت یوروپ خود دو انتہاؤں پر کھڑا تھا۔ ایک جانب بے لگام سرمایہ دارانہ جمہوریت کی نیلم پری تھی تو دوسری طرف آمرانہ اشتراکیت کا دیو استبداد تھا۔
یہ دونوں نظریات بظاہر ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں ، لیکن ان کی فطرت میں بلا کی یکسانیت ہے۔ وقت کے ساتھ اشتراکیت کی زنجیریں کمزور ہوتی چلی گئیں اور ان سے آزاد ہو کر عالم انسانیت بتدریج سرمایہ دارانہ جمہوریت کے چنگل میں جکڑتا چلا گیا۔ الہامی اخلاقی اقدار کا منکر یہ دوسرا نظام حیات بھی نہ صرف فسطائی نظریات کی روک تھام میں ناکام ہوگیاہے، بلکہ عام لوگوں کے استحصال کا آلہ کار بن چکاہے۔ ایسے میں بعید نہیں کہ اس کے خلاف پھرکوئی کارل مارکس کا شاگرد علمِ بغاوت بلند کرے ،اور حیران وپریشان عالم انسانیت دوسری انتہا کی جانب گامزن ہو جائے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اہل اسلام کی یہ اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا بھر کے انسانوں کی سواء السبیل کی جانب رہنمائی کریں۔ اور انتہاپسندی کے مضر اثرات سے انہیں واقف کرائیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشی میدان میں امر بالمعروف اور نہی المنکر کی ذمہ داری ادا کرنے کی یہی واحد سبیل ہے۔ اس فرض منصبی کو ادا کرنے کی خاطر موجودہ تناظر میں ان باطل نظریات کو گہرائی میں جاکر سمجھنا اور پھر ان کی نقاب کشائی کرنا اشد ضروری ہے۔
انسانی معاشرے میں سیاست، صحافت اور تجارت کے درمیان ایک دلچسپ تعلق اور باہمی انحصار ہے۔ تجارت معاشرتی لین دین کو منظم کرنے کی ایک ضرورت ہے۔ دولت ایک جائز قوت ہے، مگر اس کے بیجا استعمال سے استحصال وجود میں آتا ہے۔ منافع خوری کے جنون میں مبتلا ہوکرخدافراموش سرمایہ داررسد اور کھپت کے مقدس توازن کو بگاڑکرباہمی انحصار کو معاشی استحصال میں بدل دیتا ہے۔ سرمایہ داروں پر لگام لگانے کے لیے عوام کو حکومت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ حکومت چلانے کے لیے سرمایہ کی ضرورت پڑتی ہے، جولوگوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس کی صورت میں وصول کیا جاتا ہے۔ سرکاری خزانے میں جمع ہونے والی دولت سے عوامی فلاح وبہبود کے کام ہوتے ہیں۔ اس طرح حکومت کے ذریعہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، اورانہیں عدل و انصاف مہیا کیا جاتا ہے۔ تجارت سے ان کی ضروریات زندگی کا سامان فراہم ہوتاہے۔ ان دونوں میں سے اگر کوئی اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کرے، تو صحافت آگے آکر عوام وخواص کو خبردار کرتی ہے۔ اس توازن کو قائم رکھنے کے لیے تجارت پرحکومت کی غیر جانبدارانہ نگاہ اور حکومت پر صحافت کی تنقیدی نظر لازم ہے۔
کارل مارکس کی نظر میں سارے فساد کی جڑ سرمایہ ہے۔ اس لیے اشتراکیوں نے سوچا کہ اگر سرمایہ دار کا قلع قمع کردیا جائے تو نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ ان لوگوں نے حکومت کی طاقت سے سرمایہ دار کو قابو میں رکھنے کے بجائے سرمایہ کی بیخ کنی کا ارادہ کیا۔ تاجر کے عدم وجود سے معاشرہ ایک اہم ستون سے محروم ہوگیا۔ لا محالہ اس ناگزیرضرورت کو پورا کرنے کا کام حکومت کو اپنے سر لینا پڑا۔ اشتراکی سماج سے سرمایہ دار اور منافع کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بعد عوامی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری سرکار پرآگئی اور شہریوں کی حیثیت حکومت کے آگے دامن پسارے حاجت مندوں کی ہو کررہ گئی۔ اس طرز فکر نے عوام کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچایا جس کے نتیجے میں ان کاجذبہ شوق و عمل ماند پڑگیا،بلکہ مسابقت کا خاتمہ آگے بڑھنے کی ترغیب وجستجو کو نگل گیا۔ افراد کے اندرون میں جڑ پکڑنے والی یاس و ناامیدی ملک وقوم کی ترقی پراثرانداز ہونے لگی۔ اس کے نتیجے میں سوویت یونین اور اس کے ماتحت مشرقی برلن ترقی کی دوڑ میں پچھڑتا چلا گیاجبکہ جرمنی کے زیر نگیں مغربی برلن آگے نکل گیا، یہاں تک کہ لوگوں نے ۱۹۸۹ میں سرخ آہنی دیوار کو گر ا کر وہاں اشتراکیت کو دفن کردیا۔
۱۹۱۷ کے سرخ انقلاب کے خلاف بپا ہونے والے اس انقلابِ معکوس کے پسِ پشت کارفرما مختلف وجوہات میں سے ایک سبب حکومت کی بے پناہ مرکزیت تھی۔ عوام کو ہر چیز سے محروم کردینے کے بعد تمام سرچشمہ قوت حکومت کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ اقتدارِ وقت نے اپنے آہنی پنجے سے اختلاف کے تمام راستوں کو بزور قوت کچل دیا تھا۔ انگریزی محاورہ ہے‘قوت بدعنوانی کو جنم دیتی ہے اور مکمل طاقت بدعنوانی کی تکمیل کردیتی ہے(power corrupts absolutely Power corrupts and and absolute)۔ اس طرح حکومت کے جبر و بدعنوانی نے ملک و سماج کو اندر ہی اندر کھوکھلا کردیا۔ یہ گھٹن جب ناقابل برداشت ہوگئی تو گلاسٹنوسٹ یعنی کھلا پن اور پریسٹوئیکا یعنی تنظیم نو کی ضرورت پیش آئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے سابق سکریٹری جنرل میخائیل گوربا چیف نے ۱۹۸۵ میں اس کی ضرورت محسوس کی اوران سیاسی و معاشی اصلاحات کی مدد سے ۶ دہائیوں پر پھیلی رازداری، شکوک وشبہات اور جبر کے خاتمہ کرنے کی مخلصانہ سعی کی۔
گلاسٹنوسٹ کے ذریعہ سوویت یونین کے اندرسماجی سطح پرخوف وجمود کو ختم کرنے کی غرض سے تنقید و تبدیلی کی اجازت دی گئی۔ حکومت یا حکمرانوں پر تنقید کی پاداش میں قیدو بند یا ملک بدر کرنے کے خطرات کا خاتمہ کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کو حکومتی شکنجے سے آزاد کرکے غیر سرکاری طریقوں سے بھی معلومات کے حصول کو ممکن بنایا گیا۔عوام کو اپنی تاریخ اور حکومتی پالیسیوں پر اظہار خیال کی ترغیب دی گئی اور اظہار رائے کی آزادی کو بحال کرنے کی خاطر کے جی بی پر لگام کسی گئی۔ معاشی اصلاحات کے لیے پریسٹوئیکا یعنی تنظیم نو کے تحت معیشت کے اندر نئی روح پھونکنے کے لیے لال فیتہ شاہی کی پکڑ ڈھیلی کی گئی۔ عوام کو حکومت کی دخل اندازی سے آزاد کرکے انفرادی کاروبار کی جانب راغب کیا گیا تاکہ قومی پیداوار میں اضافہ ہو۔ محنت کشوں کو کام کرنے کا محفوظ ماحول مہیا کیا گیا نیزتفریح کے مواقع بھی فراہم کیے گئے۔
ان اصلاحات کے بعد میخائیل گوربا چیف کو امید تھی کہ لوگ سستی و کاہلی چھوڑ کر محنت و مشقت کرنے لگیں گے۔ انفرادی سطح پر زیادہ اجرت کی خواہش مزدوروں کی دلچسپی میں اضافہ کرے گی ۔ گورباچیف اس خوش فہمی کاشکار بھی تھے کہ ان فیصلوں سے سوویت یونین میں بدعنوانی کی جگہ ایمانداری آجائے گی۔اس میں شک نہیں کہ سکریٹری جنرل کے اقدامات ثمر آور ہوئے۔ باشندگان وطن کے اندر آزادی اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کا جذبہ پیدا ہوا لیکن اسی کے ساتھ اشتراکی نظام کے تارو پود بکھرنے لگے ۔ ۱۹۸۹ میں برلن کی دیوار کے گرنے سے اس کا آغاز ہوااور ۱۹۹۱ کے اندر سوویت یونین پندرہ آزادممالک میں منقسم ہوگیا۔ اس طرح سیاست و تجارت کے غیر فطری امتزاج سے وجود میں آنے والی آمریت کا تجربہ ناکام ہوگیا۔
ہندوستان میں آمریت انتخابات کے راستے سے ایوانِ اقتدار پر قابض ہوگئی ہے۔ فسطائیت کا لبادہ اوڑھ کر اس نے پچھلے پانچ سالوں کے اندر نہ صرف ظلم و بربریت کا بول بالا کر رکھا ہے بلکہ وہ قومی معیشت کو بھی تباہی کی جانب لے جارہی ہے۔ جی ڈی پی کی کمی، کاروبار میں مندی اور بیروزگاری میں اضافہ زعفرانی آمریت کے معدودے چندمظاہر ہیں۔ اس کے چلتے بعید نہیں کہ آگے چل کرانارکی اس قدر قابو سے باہر ہوجائے کہ سوویت یونین کی مانند اس ملک کی ریاستیں بھی منتشر ہوجائیں۔ ہندوستان کا دفاقی ڈھانچہ ہی اس اتحاد کی بنیاد ہے اور آمریت اس کو کمزور کرتی ہے۔
وطن عزیز کے اندر امت مسلمہ ایک ایسے مکمل و منفرد نظریہ حیات کی حامل ہے جو مغرب سے مستعارشدہ نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے عصرِ حاضر میں دین اسلام کا ہی یہ امتیاز ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں وہ مغربی افکار ونظریات کو نہ صرف چیلنج کرتاہے بلکہ ان کا متبادل بھی پیش کرتا ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ اشتراکیت اور ہندوتو دونوں مغرب کی فکری غلامی کے پروردہ ہیں جبکہ اسلام مغرب کی فکری غلامی سے آزادکرتا ہے۔اس تاریخی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اپنے ابتدائی دنوں میں فسطائی نظریات کی حامل ہندو مہا سبھا نے ڈاکٹر بال کرشن مونجے کو اٹلی کے معروف فسطائی حکمراں بینیٹومسولینی کے پاس استفادے کی غرض سے بھیجا تھا اور اس پر عمل پیر ا ہونے کا عزم کیا تھا۔ یوروپ سے فسطائیت کو درآمد کرنے کے بعد اس پر ہندوتوا کی ملمع کاری سنگھ پریوار کے لیے اس لیے آسان ہوگئی کہ دونوں کے مزاج میں بلا کی ہم آہنگی تھی۔
جرمنی کے اندر نازی ازم کے نام پر جب نسلی تفاخر کی بنیاد پر ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیا تو ہندوتواوادیوں نے اسے اپنے لیے نمونہ سمجھااور اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہوگئے۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ کل تک یہودیوں کی نسل کشی پر ہٹلر کے مظالم کی پذیرائی کرنے والا سنگھ پریوارآج کل فلسطینیوں کے خلاف صہیونیت کو حق بجانب ٹھہرا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے سنگھ پریوار کا راج دھرم بلاتفریق مذہب و ملت ظالم کی حمایت و اطاعت ہے۔ آزادی کے بعد اشتراکیت کے حامل نہ صرف عوام و خواص میں بہت طاقتور تھے بلکہ وہی ایوانِ پارلیمان میں سب سے بڑا حزب اختلاف بھی تھے۔ اس وقت سنگھ پریوار ان کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا لیکن گردشِ زمانہ نے حالات بدل دیئے۔ اب اشتراکیت کے وجود کو سنگھ پریوار سے ویسا ہی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ وطن عزیز میں سنگھ پریوار کے زعفرانی جھنڈے کے بالمقابل عرصہ دراز تک سرخ پرچم لہراتا رہا لیکن سوویت یونین کے زوال نے ہندوستان میں بھی اشتراکیت کے اثرات زائل کردیئے۔
بدقسمتی سے سرزمینِ ہند پر مارکس اور لینن کے ماننے والے فی الحال کئی گروہوں میں منقسم ہیں۔ حالات کے دباو نے ان میں سے بیشتر کو بائیں محاذ میں جمع تو کردیا ہے لیکن یہ ان کی پسند نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ اندر ہی اندر ہر گروہ کا اپنے منفرد جماعتی ڈھانچے پر اصرار ہے۔ وہ اپنے الگ الگ تنظیمی ڈھانچوں کو تحلیل کرنے کیلیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ان میں سیاسی سطح پر سب سے فعال سی پی ایم شدید فکری انتشار کا شکار ہے۔موجودہ سربراہ سیتارام یچوری اور ان کے پیش رو پرکاش کرات کے درمیان دیگر جماعتوں کے ساتھ اشتراک و تعاون کے مسئلہ پر بنیادی نوعیت کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔اس کے منفی اثرات پارٹی کے کارکنان اور ان کی کارکردگی پر پڑ رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں پرکاش کرات کی وجہ سے کانگریس کے ساتھ اتحاد نہیں ہوسکا۔ ممتا بنرجی سے اشتراکی ووٹرکو اس قدر خوفزدہ کیا گیا کہ وہ مایوسی کا شکار ہوکر سنگھ کے لیے نرم چارہ بن گیا۔ تمل ناڈو میں سیتارام یچوری کے لیے آسانی یہ تھی کہ ڈی ایم کے کو حریف نہیں سمجھا گیا اس طرح کل یگ کا نام نہاد اسٹالن اشتراکی اتحاد کے لیے عظیم وردان بن گیا اور اس کے چار ارکان کامیاب ہوگئے۔ ان دو مختلف النوع تجربات سے بائیں محاذ کو سبق لے کر اپنی آئندہ کی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔
بائیں بازو کے معروف سیاسی مبصر رام چندر گہا نے امید ظاہر کی ہے کہ بی جے پی کا دباو اشتراکی گروہوں کو متحد ہونے پر مجبور کردے گا۔ اس صورت میں انہیں ایک نئے نام کی ضرورت پڑے گی۔ ایسے میں گہا نے بائیں بازو کی جماعتوں کو اپنے نام سے لفظ کمیونسٹ ہٹا کر خود کو سوشلٹ ڈیموکریٹک کہلوانے کی مشورہ دیا ہے۔ ان کو لفظـ’’ کمیونسٹ ‘‘سے آمریت کی بوُ آتی ہے لیکن یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ آیا ان جماعتوں کے اندر آمریت کے عناصر موجود بھی ہیں یا نہیں؟ اگر یہ برائی پائی ہی نہیں جاتی ، تو پھر نام بدلنے کی کیا ضرورت؟ اوراگر یہ نقص موجود ہے، تو کیا محض نام کی اصلاح سے کام بن جائے گا؟ اس کے علاوہ دو اور سوالات بھی اہم ہیں۔ اول تو یہ کہ ہندوستان بھر میں وہ کون سی سیاسی جماعت ہے جس کے اندر آمریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نہ ہو؟ اس کے باوجود کیا عوام اس کو ذرہ برابر اہمیت دیتے ہیں؟ ایک ایسے وقت میں جبکہ وزیراعظم نریندر مودی کی آمریت پسندی کو پارٹی کے اندر اور باہر پسند کیا جاتاہو ،کیا کمیونسٹ پارٹی کو نام بدلنے کی تلقین کرنا ایک بچکانہ مشورہ نہیں ہے؟۔
ا س حقیقت کو تسلیم کرلینے کے بعد کہ ہندوستان کے لوگوں نے فی الحال آمریت سے آگے بڑھ کر فسطائیت کو گلے لگارکھا ہے، چند ظاہری تبدیلیوں پر اکتفا کرنے کے بجائے گہرائی سے عوام کے ذہنیت میں ہونے والی تبدیلی کے پس پشت کارفرما عوامل کامعروضی مطالعہ کیاجانا چاہیے۔ اشتراکی تحریکات کے دانشوروں کو پہلی فرصت میں اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ انہیں ایک مذہب پسند سماج میں کام کرنا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کو اس کا ادراک تھا اس لیے انہیں اپنے ملحدانہ نظریات کو بالائے طاق رکھ کر لادینیت(سیکولرزم) کی ایک نئی تعریف وضع کرنے پر مجبورہونا پڑا۔ اس دیسی لادینیت کے اندر مذہب کا کامل انکار کے بجائے جزوی اعتراف کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس اشتراکی فکر کے حامل دانشوربلا احتیاط مذہب پر بیجا لعن طعن کرتے رہے۔ اس رویہ کے سبب عام لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی رہی، لیکن اس جانب توجہ دینے کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔ سنگھ پریوار نے ہندوعوام میں اپنے مذہب کی تضحیک و استہزاء کے خلاف پنپنے والے ردعمل کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور آگے چل کر اس کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف غم غصہ میں بدل دیا۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی سطح پر پاکستان کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا گیا۔ اس پر ائیر اسٹرائیک کا پروپیگنڈا کرکے اقتدار پر اپنی پکڑ مضبوط بنائی گئی۔ اس پورے معاملے کاادراک و احاطہ کئے بغیررام چندر گہا جیسے لوگوں کی سطحی تدابیر کارآمد نہیں ہوں گی بلکہ حقیقت پسندانہ جائزہ کی بنیاد پر وضع کی جانے والی حکمت عملی ہی سے ٹھوس نتائج برآمد ہو سکیں گے۔
تاریخ کے اس اہم موڑ پر امت کی یہ ذمہ داری ہے کہ سماج کے مذہب کی جانب پلٹنے کے عمل میں اپنے لیے دعوت و اشاعت کے مثبت امکانات تلاش کریں۔ عوام کی الحاد سے دوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کی توجہ ایک نمائشی اور فسطائی تصور دین سے ہٹا کر اسلام کے نظام ِ رحمت کی جانب مبذول کرائیں۔ اسلام کو ایک متبادل دین کی حیثیت سے عام لوگوں کے سامنے پیش کر نے کا یہ بہترین موقع ہے۔ عوام الناس کومدلل اندازمیں یہ سمجھا نا لازم ہے کہ سارے انسانوں کے خالق کا عطا کردہ دین اسلام ہی باعثِ فلاح و نجات ہے۔ یہ آفاقی پیغام رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر ہونے کے سبب ہرخطے کے رہنے والوں کو اپنے آغوش رحمت میں لینے کا دعویدار اور حقدار ہے۔ زمان ومکان کی قید سے آزاد ہونے کے سبب اس کی معنویت آج بھی اسی طرح ہے جیسی پہلے تھی اور مستقبل میں بھی رہے گی۔ اس پیغام حق کی قبولیت میں ملک و قوم کی کامیابی و کامرانی کا راز پنہاں ہے۔ اس موقع پر اہل فسطائیت کی مخالفت تو ضرور کریں مگر اپنے آپ کو اشتراکیت، لادینیت یا سرمایہ دارانہ جمہوریت کا آلہ کار نہ بنا ئیں۔
عصر حاضر میں اشتراکیت اور فسطائیت کا ابطال تو سہل ہے مگر سرمایہ دارانہ جمہوریت کا طلسم بھی توڑنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس لیے کہ بظاہرخوشنما نظر آنے والے اس نظام باطل کا جادو فی الحال سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں سیاست،تجارت اور صحافت بظاہر آزاد ہوتے ہیں لیکن اندر ہی اندر ان کے بیچ سانٹھ گانٹھ ہوتی ہے۔ انتخاب میں کامیابی کے لیے سیاستداں عوام کے مسائل حل کرنے کا وعدہ توکرتے ہیں مگر بعد میں انہیں فراموش کرکے عیش و عشرت میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ پانچ سال بعد دوبارہ انتخابات کے وقت ان کے پاس عوام کو بتانے کے لیے فلاح و بہبود کا کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوتا۔ اس لیے جذباتیت اور تشہیر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ ہنگامہ خیز انتخابی مہم شریف لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی اس لیے وہ دورہی رہتے ہیں۔ انتخابی عمل نااہل اور مجرم پیشہ افرادکی فوج ایوان پارلیمان میں بھیج دیتا ہے۔ اسی لیے بہت ساری اہم وزارتیں خزانہ، امورِ خارجہ، انسانی وسائل اور ریلوے وغیرہ ایسے لوگوں کے حوالے کرنے کی نوبت آتی ہے جو الیکشن نہیں لڑتے ۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بدعنوان حکمراں اور استحصال کرنے والوں کے درمیان کس طرح کا اشتراک عمل ہوتا ہے اس کو ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) کی رپورٹ سے جانا جاسکتا ہے۔ پچھلے دو مالی سالوں میں ملک کی قومی سیاسی جماعتوں میں سے تجارتی گھرانوں نے 6قومی سیاسی پارٹیوں کو 985 کروڑ روپے کا چندہ دیا ،جو کل جمع شدہ رقم کا 93 فیصدی ہے۔ اس میں سے بی جے پی کو 915 کروڑ روپے یعنی اس رقم کا 92.5 فیصدی چندہ ملا ہے اس لیے کہ وہ مرکز اور ملک کے زیادہ صوبوں میں برسرِ اقتدار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب سیاسی جماعتوں کا مکمل مالی انحصار کارپوریٹ گھرانوں پر ہوگیا ہے۔ اس لیے سرکاری خزانے سے عوام کے بجائے بی جے پی کے1751 اور کانگریس کے 153عطیہ کنندگان کی خدمت کوترجیح حاصل ہو جاتی ہے اور ان کے مفادات کاتحفظ ہوجاتا ہے۔ وہ بلاخوف و خطر عوام کو لوٹتے ہیں، اس لیے کہ سرکار ان کی مٹھی میں ہوتی ہے۔یہ سیاسی چندہ دینے والے اپناسرمایہ سود سمیت وصول کرلیتے ہیں۔
تاجروں کی گرفت میں چلے جانے کے بعد حکومت کے انہیں استحصال کی کھلی چھوٹ دینے کے علاوہ چارہ کار نہیں ہوتا۔ سرکاری خزانہ کوعوام کے بجائے سرمایہ داروں کے مفاد میں کھولنا ہی پڑتا ہے۔ ان کو عوام کے ساتھ ساتھ بنکوں کو لوٹ کر بھاگنے کی بھی اجازت دینی پڑتی ہے۔ فی الحال خود ساختہ جان بوجھ کر دیوالیہ ہونے والی نجی کمپنیوں کا بنکو ں پر ایک لاکھ پچاس ہزار کروڑ روپیہ بقایاہے، جس کے واپس لوٹنے کا امکان نہیں ہے۔ میوچیول فنڈ اور گھروں کے قرضوں میں ڈوبنے والی رقومات کو اس میں جوڑ دیا جائے تو یہ رقم تین لاکھ دس ہزار کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ عوام کی دولت ہے جسے سرمایہ دار ڈکار گئے ہیں۔ ان لوگوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور سرکار کانرم گوشہ بھی ہے اس لیے ان کا کچھ نہیں بگڑتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسی لوٹ کی رقم سے انتخابات جیتے جاتے ہیں۔ ان سرمایہ داروں کے ذریعہ سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کو ملنے والے چندے کا ایک حصہ تو ذاتی تعیش پر خرچ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ تشہیر کے لیے مختص رقم کا ایک بڑا حصہ ذرائع ابلاغ کی نذر ہوجاتا ہے یعنی صحافیوں پر یا ان کی زبان بندی پر خرچ کی جاتی ہے۔ اسی کے چلتے وطن عزیز میں ’گودی میڈیا‘ جیسی اصطلاحات وضع کرنے کی نوبت آتی ہے۔ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو بھونکنے والوں کو دم ہلانے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس کے باوجود جو باز نہیں آتے اور حکومت کی ناکامیوں کا پردہ فاش کرتے ہیں انہیں راندہ درگاہ کردیا جاتا ہے۔ پونیہ پرسون واجپائی کا حشر باضمیر اور دلیر صحافی برادری کیلیے نشانِ عبرت ہے۔
آج کل یہ کام صرف انتخاب کی مہم کے دوران نہیں ہوتا بلکہ سال بھر جاری رہتا ہے۔ اس معاملے کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ پہلے تو تشہیر صرف پارٹی کے خزانے سے یعنی سرمایہ داروں کے چندے سے ہوتی تھی لیکن اب اس کا دائرہ کار وسیع ہوگیا ہے۔ اب سرکاری خزانے سے ٹیلی ویژن چینلس اور اخبارات کے مالکان کو رشوت کے طور پر رقم فراہم کی جاتی ہے۔ ان مالکان میں سے اکثر بڑے سرمایہ دار ہیں مثلاً نیوز18 مکیش امبانی کی ملکیت ہے۔ این ڈی ٹی وی میں اس نے بڑی رقم لگا رکھی ہے۔بعید نہیں جو رقم مکیش امبانی بی جے پی کو چندے کے طور پر دیتا ہو اس سے زیادہ کا اشتہار اس کے چینل میں لوٹ آتا ہو۔ اس طرح میڈیا کے مالک سرمایہ کار حکمرانوں پر رقم خرچ کیے بغیر انہیں اپنے قابو میں رکھنے بلکہ بلیک میل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر روپیہ دو طریقہ سے خرچ کیا جاتا ہے۔ اول توبرسرِاقتدار جماعت سرکاری خزانے سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جمع کیا جانے والا ٹیکس کا پیسہ خرچ کرتی ہے اور دوم پارٹی کی تجوری سے جمع کیا جانے والا چندہ صرف کیا جاتا ہے۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے مطابق مرکزی حکومت نے سال 2014 سے لیکر 7 دسمبر 2018 تک سرکاری اسکیموں کی تشہیرو توسیع میں کل 5245.73 کروڑ روپے کی رقم خرچ کی ہے۔اس میں سے 2312.59 کروڑ روپے الیکٹرانک میڈیا اور 2282 کروڑ روپے پرنٹ میڈیا پر خرچ کئے گئے۔ آؤٹ ڈور پبلسٹی کے لیے صرف 651.14 کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یو پی اے حکومت نے اپنی دس سال کی مدت میں اوسطاً 504 کروڑ روپے ہرسال اشتہار پر خرچ کیا تھاجبکہ این ڈی اے نے ہرسال اوسطاً 1202 کروڑ روپے خرچ کئے۔ اس حساب سے یو پی اے حکومت کے مقابلے میں مودی حکومت میں اشتہار پر دوگنی سے بھی زیادہ رقم خرچ کی گئی ہے۔ یو پی اے حکومت کے دس سال میں کل ملاکر 5040 کروڑ روپے کی رقم خرچ ہوئی تھی۔ وہیں مودی حکومت کے پانچ سال سے کم مدت میں ہی 5245.73کروڑ روپے خرچ کردئیے۔ یہ رقم تعلیمی بجٹ کے چھ فیصد اور صحت یا منریگا کے تحت دی جانے والی روزگار اسکیم کا نو فیصد ہے جسے اپنے سیاسی مفاد کی نذر کردیا گیا۔
سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کے مطابق اس پارلیمانی انتخاب میں ساری جماعتوں نے مل کر کل۶۰ ہزار کروڑ اپنی تشہیر پر خرچ کیا جو ۲۰۱۴ کے مقابلے دوگنا سے بھی زیادہ تھا۔ اس میں سے اکیلی بی جے پی نے ۲۷ہزار کروڑ پھونک دیئے۔ فروری اور مارچ کے محض دو مہینوںمیں بی جے پی نے ایک کروڑ ۵۵لاکھ کے اشتہار تو فیس بک کو دے دیئے جو فیس بک پر ساری جماعتوں کے ذریعہ خرچ ہونے والی رقم کا ۸۹فیصد تھا۔ اقتدار میں ہونے اور اس سے محروم ہونے کے فرق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ۱۹۹۸ میں بی جے پی کل خرچ کا ۲۰ فیصد خرچ کرکے اقتدار میں آگئی تھی جبکہ ۲۰۱۹ میں اسے۴۵ فیصد خرچ کرنا پڑا۔ اس کے برعکس۲۰۰۹ میں اقتدار کے سبب کانگریس نے۴۰ فیصد رقم خرچ کی تھی جبکہ اس بار اسے۱۵ تا۲۰ فیصد پر اکتفاء کرنا پڑا۔ انتخاب پر خرچ ہونے والی کل رقم کا۲۰ تا ۲۵ فیصد مفلس رائے دہندگان کو تقسیم کردیا جاتا ہے اور اس پر بڑا شور و غوغا بھی ہوتا ہے مگر ۷۵ تا۸۰ فیصد مختلف میڈیا ہاوس کے مالکین کی جیب میں چلا جاتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ اس رفتار سے انتخابی خرچ بڑھتا رہا تو جو ۲۰۲۴ میں خرچ بڑھ کر ۱۰۰ ہزار کروڑ ہوجائے گا اور یہی ملک میں بدعنوانی کا سرچشمہ ہے۔
مرکزی حکومت کے علاوہ صوبائی سطح پر بھی عوام کا پیٹ کاٹ کر سرکاری خزانے کو ذرائع ابلاغ پر لٹایا جاتا ہے۔ بہار جیسی حکومت جو پسماندگی کے سبب عرصہ دراز سے خصوصی درجہ کا مطالبہ کررہی ہے، اپنے خزانے کے اندر سے پانچ سالوں میں تقریباً ۵ ارب روپیہ تشہیر پر خرچ کردیتی ہے۔ سرکاری خزانے کے اندر یہ رقم عوام کی جیب سے جاتی ہے۔ ٹیکس صرف امیر لوگ ادا نہیں کرتے بلکہ غریب بھی ادا کرتے ہیں۔ دولتمند تاجر عوام سے ٹیکس کی رقم بالواسطہ یا بلا واسطہ وصول کرلیتاہے۔ اس کے بعد بھی پورا ٹیکس نہیں بھرا جاتا بلکہ اس کا ایک حصہ دبالیتا ہے اور جو مجبوراً سرکاری خزانے میں جاتا ہے وہ بھی عوامی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اس سال بہار کے اندر چمکی بخار سے ۴۵۱ بچوں نے جان گنوائی اس میں سے ۷۳۱ صرف مظفر نگر ضلع کے ہیں۔ اس موقع پر یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ ان بچوں کے علاج کے لیے مناسب سہولیات مہیا نہیں کی گئی تھیں۔ یہ کس قدر افسوسناک پہلو ہے کہ حکومت کے پاس معصوم بچوں کے علاج کی خاطر تنگی ہے مگر اشتہار بازی کے لیے فراوانی ہے۔
جمہوری نظام کے اندر استحصال کی چکی میں پستے پستے جب عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا ہے تو وہ مجبوراً اپنا غصہ سرکار پر اتارتے ہیں اور انتخاب کے موقع پر لٹیرے حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرکے خوش ہوجاتے ہیں لیکن ان کی لوٹ کھسوٹ کی کوئی سزا نہیں دے پاتے۔ اس سبق سکھانے کے عمل سے سرمایہ دار کا کچھ بھی نہیں بگڑتا اس لیے کہ وہ نئے حکمرانوں کا ہمنوا بن جاتا ہے اور پھر ایک نئی سانٹھ گانٹھ ہوجاتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اس بیماری کا علاج کیا ہے؟ علاج سے قبل بیماری کی تشخیص ضروری ہے۔ اس نظام سیاست کی جڑ میں اصل جراثیم سیکولرنظریہ حیات ہے۔ مذہب کا کلی یا جزوی انکار کرنے والا یہ مادہ پرست نظریہ منتخب ہوجانے کے بعد حکمرانوں کو اپنی من مانی کی کھلی چھوٹ دے دیتا ہے۔ مستقل ضابطہ اخلاق سے عاری حکومت حسبِ ضرورت آئین سے کھلواڑ کرتی رہتی ہے۔ اس باطل نظریہ کے حامل اقتدار کو امانت نہیں بلکہ مال غنیمت سمجھتے ہیں۔ سرکاری خزانے پر عوام کا حق تسلیم کرنے کے بجائے اس پر من مانا تصرف کرنے لگتے ہیں کیونکہ ان کے اندر اپنے خالق و مالک کے آگے جوابدہی کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ ذہنیت جب تک نہیں بدلتی اس وقت تک افراد اور جماعتوں کے بدلنے سے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔
ملت اسلامیہ کی اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی سیاسی نظام کو عصر حاضر کے تناظر میں متبادل کے طور پر پیش کرے تاکہ عالم انسانیت کو فتنہ پرور باطل نظامہائے سیاست سے نجات حاصل ہوجائے۔بقول حکیم الامت علامہ اقبال ؔ
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
عصر حاضر میں یہ سیاسی جہاد ناگزیر ہوگیا ہے۔ امت اپنی بے سروسامانی اور سیاسی مشکلات کا حیلہ بہانہ کرکے اس سے روگردانی نہیں کرسکتی۔ حضرت یوسف ؑ کی کسمپرسی کا اندازہ لگائیں۔ دیارِ غیار میں ایک غلام کی حیثیت سے انہیں بلا قصور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ہے۔ ایسے میں کچھ قیدی آپ سے اپنے خوابوں کی تعبیر دریافت کرتے ہیں اور اس کے جواب میں آپ اسلام کی دعوت کو دو ٹوک انداز میں پیش فرمادیتے ہیں۔ ترجمہ ہے : ’’اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب غالب ہے؟اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی‘‘۔عقائد کی اصلاح کے بعد یوسف ؑ نے کس طرح اسلام کا سیاسی پہلو پیش فرمایا وہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ترجمہ ہے’’ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘ اس خطاب میں نہایت واضح انداز میں موثر مثال کی مدد سے نہ صرف شرک کا ابطال اور توحید کا اقرار کیا گیا ہے بلکہ اللہ کی حاکمیت کا اعلان کرنے کو ٹھیٹھ اور سیدھا طریق زندگی قرار دیا گیا ہے۔ خلافت کی اسی روح یعنی حاکمیت الہ کے عقیدہ کو متبادل سیاسی نظام کے طور پر پیش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2019