دورِ جدید کے فتنوں میں ایک بھیانک فتنہ دورِقدیم کا سا ہو کار ی نظام سود ہے جس کا وجود تاریخی حیثیت سے دو ہزار برس قبل مسیح ثابت ہے، آج وہ نئے ٹائٹل کے ساتھ معاشرے کے ریشے ریشے میں اپنے دانت گاڑچکا ہے ۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جو اس کے منحوس سائے سے محفوظ ہو۔ حال یہاں تک ابتر ہے کہ مسلم ممالک بھی جوکہ اپنی ایک الگ اور مستقل تہذیب رکھتے ہیں وہ مغرب کی ذہنی غلامی میں ابھی تک مبتلا ہیں وہ بھی اپنے ہاں اس منحوس شے کو انشورنس ، انعامی بانڈژوغیرہ ناموں سے تقویت پہنچا رہے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ سود ایک اہم معاشی ضرورت ہے جس سے طرفین کوفائدہ ملتا ہے ۔ دینے والا اپنے مال کا کرایہ لیتا ہے اور لینے والا اپنی ضرورت پوری کرتا ہے ۔ اس میں قباحت (Defect)کی کوئی بات نہیں ہے ۔ ذرا بلند پردازی ملاحظہ فرمائیے ۔ سرمایہ دار کسی غریب کی مدد اس لئےنہیں کرے گا کہ اس بیچارے کا بھی معیارِ زندگی تھوڑا بلند ہوجائے ۔ بلکہ جودے گا اپنے فائدے کے لیے دے گا اوراس کے لیے اسپر سود لادے گا۔
دوسری دلیل ارشاد ہوتی ہے کہ اس سے سرمایہ جمع ہوتا ہے ، عیاشی ختم ہوتی ہے اورکفایت شعاری کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ حالانکہ یہ بھی ایک تکلف ہے ، جواپنے ایک بھی حواری اگروہ قدرت کے معاشی نظام کوسمجھتا ہے توپیدا نہیں کرسکتا۔ اس کی اصل تعریف یہ ہے کہ سود ہی وہ حربہ ہے جس کے لالچ میں لوگ سرمایہ جمع کریں گے۔
تیسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ مال کی گردش مارکیٹ میں ٹھپ نہ ہو اس لئے سودی کاروبار کا دروازہ کھلا رکھنا ضروری ہے ۔ تاکہ ہر ضرورت مند آدمی اس سے اپنی ضرورت پوری کرسکے ۔ یہ بھی جی کوبہلانے کا ایک مہمل خیال ہے ۔ ورنہ اصلیت یہ ہے کہ مال کی گردش مال کوجمع کرنے سے نہیں بلکہ خرچ کرنے سے ہوگی۔ دوسرے سود کے بَل پر مال کو گردش کرانا مارکیٹ کا تقاضا نہیں بلکہ سود کی لالچ کا تقاضا ہے ۔
چوتھی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اگر کوئی کاروبار کے لیے کسی سرمایہ دار سے قرض لیتاہے توظاہر سی بات ہے کہ وہ اس سے منافع کمائے گا ۔ ایسے میں مہاجن کویہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اس سے شرح سو د پر سمجھوتہ کرے۔ تاکہ دونوں کو فائدہ مل سکے ۔ بڑی معقول دلیل ہے یہ ۔ لیکن ایک پہلو سے ۔ دوسرے پہلو سے صرف بلید ذہنی کا ثبوت لئے ہوئے ہے ۔ پہلی چیز تویہ کہ اسکی کیا گارنٹی کہ اس کا بزنس ضرور ہی چلے گا ، دوسرے یہ کہ اس کی کیا ضمانت کہ وہ ضرور فائدہ کمائے گا ۔ تیسرے یہ کہ یہ کیسے پتہ کہ وہ اس کا روبار سے اتنا منافع کمائے گا؟جس کی وجہ سے بیوپاری پر دس فیصد سو د لادا جارہا ہے ۔ یہ صرف ایک جاہلانہ قیاس ہے اورقیاس کی علمی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ۔ ورنہ عاقلانہ سوچ تویہ کہتی ہے کہ کیوںنہ مہاجن بیوپاری سے یہ سمجھوتہ کرےکہ میں کاروبار میں تمہاری مدد کروںگا ۔ لیکن ہم دونوں منافع سے اتنا اتنا لیں گے ۔ اس میں سود سے زیادہ فائدہ بھی مل سکتا ہے اور دوسرے یہ کتنی بڑی انسانیت کی بات ہوگی ۔ اگر قیاس کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے کاروبار نہ چلے اورپیسہ ڈوب جائے، اس لئے سود چاہئے توقیاس کویہ بھی سو چنا چاہئے کہ ہوسکتا ہے بزنس خوب چلے ، پیسہ بھی نہ ڈوبے اورسودسے بڑھ کر منافع حاصل ہو۔
اس جیسی سود کے متعلق تمام تفاسیر ہیں اوریہ خوش خیالی سب کا مشترک سرمایہ ہے ۔ اس معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے مغربی مفکرین ہوں یا ہمارے ہاں کے مغرب کے مقلدین ومعتقدین ہوں ان میں سے کوئی بھی حکیم نہیں ہے ۔ بلکہ سب کے سب وکیل کے بھیس میں اپنے موکل کوبچانے کے لئے بے سر پیر کی دلیلیں لے کر نمودار ہوگئے ہیں اوراس کی تہ میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اس سے دنیا کا کتنا بھلا ہوگا اورکتنا برا ۔ اور افسوس تویہ کہ خود قانون نے بجائے اس پر لگام لگانے کے اور اوپر سے مہر تصدیق ثبت کردی ۔ بالآخر جس کی انتہاء یہ ہوئی کہ اس شیطانی معاشی سسٹم میں ایسے ایسے جراثیم سٹر بازی، قماربازی ، کساد بازاری اور کالا بازاری کے داخل کردئے گئے جنہوںنے غریبوں کونوچنا شروع کردیا ، اخلاق کو کچلنا شروع کردیا اورمحبت وہمدردی کا جنازہ نکال دیا اورپوری زمین پر سود کا دورہ پڑا دیا ۔
لہٰذا یہ کہنا سب سے بڑا فراڈ ہے کہ معاشی نظام کوبڑھاوا دینے کے لئے سود یا اس جیسی اسکیمیں نہایت ضروری ہیں۔ اس سے غربت ختم ہوگی اورمعاشرے میں خوشحالی آئے گی ۔ اس طرح کی باتیں وہی کہہ سکتا ہے جو معاشی نظام کو نہیں بلکہ سرے سے لفظ معاش ہی کونہیں سمجھتا ہے ——سود نہ ہی کسی معاشی ضـرورت کی تکمیل کرتا ہے ، نہ ہی کوئی فائدہ دیتا ہے ، نہ ہی غربت کوختم کرسکتا ہے اورنہ ہی دولت کے توازن کوبرقرار رکھ سکتا ہے ۔یہ صرف ایک غیر انسانی فعل ہے ۔ اسے نہ ہی کوئی بخوشی لیتا ہے اورنہ ہی بخوشی لوٹا تا ہے ۔ بلکہ دل کوبرا محسوس کر(Suffer Grief patienly)اس طرح کا لین دین کرتا ہے ۔
اس طرح کے گلا ریتو کارباورسے وہ حضرات بھی بدکے ہوئے ہیں جواس کے حق میں دلیلیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لا رہے تھے ۔ مثال کے طورپر !’’ پچھلی جنگ عظیم کے زمانے میں برطانیہ نے امریکہ سے ایک بڑا قرض لیا ۔ برطانیہ چاہتا تھا کہ اس کا دوست امریکہ اسے بلا سود قرض دے ۔ لیکن امریکہ اس پر راضی نہ ہوا ۔ ’’لارڈکنیز ‘‘ جس نے یہ معاملہ طے کیا تھا برطانوی دار الامراء میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں ساری عمراس غم کو نہ بھول سکوںگا جومجھے اس بات سے ہوا ہے کہ امریکہ نے ہم کو بلا سود قرض دینا گوارا نہ کیا ۔‘‘
جب یہ آفت کسی کے سر پڑتی ہے تب اس کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے اورپھر چلانا شرو ع کردیتا ہے۔
اس طرح کے معاملات دینی حیثیت سے تومضر ہیں ہی ۔ لیکن دنیاوی حیثیت سے بھی کم مضر نہیں ہیں ۔ کیونکہ اس سے انسانیت ختم ہوتی ہے ، زبردستی پروان چڑھتی ہے ، بخیلی بڑھتی ہے ، فیاضی گھٹتی ہے ، محبت مٹتی ہے ، اور انسان صرف ایک ایسا حیوان نما انسان بنتا ہے جسے اپنے پیٹ کے سوا کسی اورچیز سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا ہے ۔
اس لئے اسلام معاشی نظام کا جوماڈل پیش کرتا ہے اس کا سب سے پہلا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اعمال حسنہ سخاوت ، دیانت ، تعاون ، خیر اورعدل وغیرہ کا جذبہ بیدار ہوا ور اس کے اندر سے اعمال رذیلہ شقاوت، بخالت ، خیانت ، بے اعتدالی اورمفاد پرستی وغیرہ کا خاتمہ ہو۔ مختصر یہ کہ کیپٹلزم اور سوشلزم کا پہلا اصول یہ ہے کہ معاشیات کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ لیکن اس کے برعکس اسلام کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ انسان کے ہر اعمال کا تعلق سب سے پہلے اخلاقیات ہی سے ہے ۔ انسان کے لیے اس پوری زمین پر سب سے قیمتی شے اس کی زندگی ہے ۔ اور اس کی زندگی کے لئے سب سے اہم چیز معاشی ہے اورمعاشی میں سب سے اہم چیز رزقِ حلال ہے۔
لیکن اس باب میں ہم دنیا کے بڑے بڑے مفکرین ’’افلاطون‘‘ سے لے کر ’’ولیم گاڑون‘‘ مارکولس واکند ورسٹ‘‘ ’’ ٹامس رابرٹ ماتھوس‘‘ ’’ مارکس‘‘ اور’’ لینن ‘‘ تک آتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ معاش کے متعلق انہوںنے جونظریہ پیش کیا ہے اس میں کہیں بھی یہ اصول نہیں ہے کہ معاش میں رزقِ حلال کا بھی کوئی رول ہے ۔ بلکہ سب کے سب افراط اور تفریط کا شکار ہوکررہ گئے ہیں۔
اس کے برعکس جب ہم ’’سید مودودیؒ‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تودیکھتے ہیں کہ آپ نے اوروں کی طرح سے کوئی تنگ نظر یہ نہیں ، کسی مخصوص حالات کے پیشِ نظر نہیں، سرمایہ داری کوبڑھاوا دینے کے لئے نہیں، بلکہ بڑے توازن کے ساتھ پورے سماج کی خوشحالی کو مدِّ نظر رکھ کر جائز حدود کے دائرے میں عین انسانی فطرت کے مطابق یہ دیا ہے ۔
بیسویں صدی میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلمانوں کوبھی معاشی حیثیت سے الٰہی قانون کی روشنی میں جتنے بڑے پیمانے پر سید مودودیؒ نے کام انجام دیا ہے ، اتنے بڑے پیمانے پر تاریخ کسی کا نام لینے سے خاموش ہے ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ’’سید مودودی‘‘ محض کوئی معلم اقتصادیات (Economics)نہ تھے ۔ بلکہ آپ تو ایک داعی تھے اورداعی کی بصیرت کا دائرہ محدود نہیں بلکہ لا محدود ہوا کرتا ہے ۔ یہی سبب ہوا کہ جہاں آپ نے بہت سے موضوعات پر انسانوں کی رہنمائی فرمائی وہیں معاشیات کے متعلق بھی انسان کے سامنے الٰہی اصول پیش کئے اوربتایا کہ یہی وہ سسٹم ہے جس سے معاش کی بگڑی ہوئی کل درست ہوسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ جتنے بھی ماڈل امریکہ یا برطانیہ ، روس یا چین، جاپان یا ہندوستان نے ایجاد کئے ہیں وہ انسان کے لئے ترقی نہیں بلکہ تباہی کے موجب ہیں۔
معاش کے الٰہی ماڈل کو آپ نے صرف علمی حیثیت سے نہیں بلکہ عقلی حیثیت سے بھی انسانی تجربہ کی بنیادوں پر پیش کیا اور بتایا کہ یہی وہ ماڈل ہے جس سے دنیا کے معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں ، ناہمواری ختم ہوسکتی ہے ، قوم ترقی کرسکتی ہے اورحرام خوری جیسی لت اورمہاجن کے روپ میں جو لوگ جونک کے مانند خون چوس رہے ہیں ان سبھی سے نجات مل سکتی ہے ۔
’’سید مودودیؒ‘‘ بیسویں صدی کے وہ پہلے اسلامی مفکر ہیں جنہوںنے معاشیات کے تعلق سے اتنے شرح وبسط کے اپنے نظریات پیش کیے ہیں کہ اسٹائل سے ابھی تک کوئی پیش نہیں کرسکا ہے ۔ آنجناب نے ہرچیز کے تعلق سے ، تقسیم دولت، شخصی ملکیت ، آزاد معیشت ، اقتصاد ، انفاق ، ملکیت زمین ، لگان اور مزارعت ، محنت واجرت، سود ، بنکاری ، بیع اور ربوا لفضل ، تجارتی قرض، قیمتوں کا تعین ، انشورنس، لاٹری ، انعامی بانڈز، احتکارالغرض کہ معاشیات کے رائج الوقت سبھی شعبوں پر تبصرہ کرکے بتادیا کہ اس میں اخلاقی حیثیت سے ،تمدنی حیثیت سے ، معاشی حیثیت سے معاشرے کا کتنا بڑا خسارہ ہے اوراسلامی نظم معیشت کوپیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ یہی وہ سسٹم ہے جوسب سے بہتر طریقےسےچل سکتا ہے اور صدیوں چلا کر یہ ثابت بھی کرچکا ہے کہ میں ایک آفاقی نظام رکھتا ہوں۔ یہ تودنیا کی تنگ نظری ہے کہ وہ اس دلیل پر دھیان نہیں دے رہی ہے اورشیطانی چکر کیطرف لپک کر حل نکالنا چا ہ رہی ہے ۔
’’سید مودودیؒ‘‘ سود کی خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
’’یہ وہ بلائے عظیم ہے جس میں ہر ملک کے غریب اورمتوسط الحال طبقوں کی بڑی اکثریت بری طرح پھنسی ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ سے قلیل المعاشی کارکنوں کی آمدنی کا بڑا حصہ مہاجن لے جاتا ہے ۔ شب وروز کی انتھک محنت کے بعد جوتھوڑی سی تنخواہیں یا مزدور یاں ان کوملتی ہیں ان میں سے سود ادا کرنے کے بعد ان کے پاس اتنا بھی نہیں بچتا کہ وہ دو وقت کی روٹی چلا سکیں۔ یہ چیز صرف یہی نہیں کہ ان کے اخلاق کوبگاڑتی اورانہیں جرائم کیطرف ڈھکیلتی ہے بلکہ ان کے معیارِزندگی کوپست اوران کی اولاد کے معیار تعلیم وتربیت کوپست تر کردیتی ہے ……سودی کاروبارکی یہ قسم صرف ایک ظلم ہی نہیں بلکہ اس میں اجتماعی معیشت کا بھی بڑا بھاری نقصان ہے ۔‘‘(سود ۔ ص ۷۱)
’’سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ دولت کوجمع کرکے اس کو سود پر چلانے سے دولت بڑھتی ہے ۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں۔ سود سے تودولت گھٹ جاتی ہے ۔ دولت بڑھانے کا ذریعہ نیک کاموں میں اسے خرچ کرنا ہے۔ یَمْحَقُ اللہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ ۔ اللہ سود کا منھ ماردیتا ہے اورصدقات کونشوونما دیتا ہے ۔‘‘(اسلام اورجدید معاشی نظریات۔ ص ۹۹)
سید مودودیؒ کی اس تحریر کو غور سے پڑھئے ، اورسوچئے کہ اس پرنہ عمل کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا اخلاقی حیثیت سے ، اقتصادی حیثیت سے اورسماجی حیثیت سے کتنا بڑا خسارہ ہے اور پھر بتائیے کہ کیا واقعی سود کوئی نعمت ہے یا لعنت۔
دوسری چیز یہ کہ سود سے دولت کا گھٹنا اور ’’صدقات ‘‘ سے دولت کا بڑھنا ، بظاہر یہ ایک عجیب نظریہ نظرآرہا ہے اور لوگ سوچیں گے کہ شاید اس کا تعلق زیادہ سے زیادہ نیک سیرتی سے ہے ۔ جواجروثواب پر منحصر ہے ۔ یقیناً ہے تویہ بھی ۔ لیکن اس کا تعلق بعد سے ہے ۔ پہلا تویہ ہے کہ اگر ذہن کوکشادہ کرکے دیکھا جائے تویہی ’’ صدقات‘‘ معاشرے کی خوش حالی کی ضمانت لئے ہوئے ہیں ۔ جوروحانی اوردنیاوی حیثیت سے اس طرح سے ہیں کہ یہ انسان کے اندر سے زرپرستی ، حرص وہوس، اور نجاست کوختم کرتے ہیں ، دولت کی گردش معاشرے میں کراتے ہیں ، کساد بازاری ، بلیک مارکیٹنگ کوپھٹکنے نہیں دیتے، مہاجن کے روپ میں کسی کوناگن بننے نہیں دیتے ہیں کہ وہ جب چاہے مارکیٹ پر قبضہ کرلے اور وہیں سے ڈستا اورنگلتا رہے۔ جیسا کہ اس وقت مودی کے دور کا ہندوستان چند سرمایہ داروں ریلائنس ، ٹاٹا ، برلا وغیرہ کی کنیز بنا ہوا ہے ۔
آپ سود سے ضرور تھوڑا بہت فائدہ اُٹھا بھی سکتے ہیں اورچند لوگوں کوفائدہ پہنچا بھی سکتے ہیں ۔ لیکن چند لوگوں سے معیشت نہیںچلتی ۔ نہ ہی یہ چند لوگ مارکیٹ کی ویلوبڑھاسکتے ہیں ، نہ ہی دولت کو پھیلاسکتے ہیں ، نہ ہی غربت کوختم کرسکتے ہیں ، اورنہ ہی کبھی ان کے اندر اچھے کام کے فروغ کے لئے خرچ کا جذبہ پیدا ہوسکتا ہے ۔ ان کی دوڑ صرف اپنے مفاد تک سمٹ کررہ جائے گی۔
سرمایہ داری کا یہ اصول دولت کی گردش کوروک کے مال کوجمع کرنا ، سود پر چلانا ، اورغربت پر دھیان نہ دینا ایک ظلم عظیم ہے ۔ جس کا اسلام خاتمہ چاہتا ہے ۔ اسلام کا اصول مال نہ جمع کرنا ، اس کو پھیلانا ، اور غربت کا خاتمہ کرنا ہے ۔ تاکہ پوری قوم کے پاس پیسہ ہو ،ہر وقت خرید وفروخت ہو، اشیاء کی مانگ بڑھے، معیشت ترقی کرے ، روزگار فراہم ہوں ، مارکیٹ چند لوگوں کی لونڈی نہ بنے اورسبھی کو بے حساب فائدہ ملے ۔ سود ایک لِمِٹ چیز ہے جس سے ایک لگا بندھا فائدہ ملتا ہے ۔ لیکن مارکیٹ میں مال کا ہونا ایک اِن لِمِٹ چیز ہے جس سے دس فیصد یا پندرہ فیصد نہیں بلکہ نہ جانے کتنے فیصد کا فائدہ ملے گا۔
یہ کوئی لچھیدار باتیں نہیں ہیں۔ بلکہ یہ زمین اس کا مشاہدہ کرچکی ہے کہ اسلامی حکومتیں جب اس اصول پرچلی ہیں توخوش حالی اس قدر آئی ہے کہ لوگ صدقات کے مستحقین کوڈھونڈتے پھرتے تھے مگر کوئی نہ ملتا تھا ۔ اس طرح کا نمونہ دنیا بہت پہلے دیکھ چکی ہے ۔ سو یہ کہنا کہ اب اس طرح کا اصول نہیں چل سکتا یہ صرف تاریخ اوراصولِ اسلام سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔ اب بحث یہ ہے کہ یہ صدقات ، یہ خیرات ، یا اس جیسے انفاق دولت کو پھیلاتے کس طرح سے ہیں اورمعاشی نظام کودرست کس طرح رکھتے ہیں۔
تقسیم دولت کے ذرائع:
اسلام نے دولت کے پھیلاؤ کا جوراستہ بنایا اوربتایا ہے اس میں سے ایک زکوٰۃ، دوسرے فی سبیل اللہ ، تیسرے اقتصاد، اورچوتھے وراثت ہے ۔ بظاہر تویہ چند مختصر نام نظر آتے ہیں ۔ لیکن ان کا دائرہ اتنا طویل ہے کہ اسپر تبصرہ کرنے کے لئے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔
ان کے تعلق سے ’’سید مودودیؒ‘‘ ارشاد فرماتے ہیں :۔
(۱) خرچ کرنے کا حکم:
’’اسلام خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ مگر خرچ کرنے سے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے عیش وآرام اورگلچھر ے اڑانے میں دولت لگائیں ۔ بلکہ وہ خرچ کرنے کا حکم فی سبیل اللہ کی قید کے ساتھ دیتاہے ۔ یعنی آپ کے پاس اپنی ضرورت سے جوکچھ بچ جائے اس کوجماعت کی بھلائی کے کاموں میں خرچ کردیں کہ یہی فی سبیل اللہ ہے ۔
(۲) زکوٰۃ:
اسلام قانون بناتا ہے کہ جولوگ فیاض کی اس تعلیم کے باوجود اپنی افتادِ طبع کی وجہ سے روپیہ جوڑنے اورمال سمیٹنے کے خوگر ہوں ، ان کے مال میں سے کم ازکم ایک حصہ سوسائٹی کی فلاح وبہبود کے لئے ضرور نکلوا لیا جائے ۔ اسی چیز کا نام زکوٰۃ ہے ۔
لفظ زکوٰۃ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مالدار آدمی کے پاس جودولت جمع ہوتی ہے وہ اسلام کی نگاہ میں ایک نجاست ہے اور وہ پاک نہیں ہوسکتی جبتک کہ اس کا مالک اس میں سے ہرسال کم از کم ڈھائی فیصدی راہِ خدا میں خرچ نہ کردے ۔
(۳) قانونِ شریعت:
اس قانون کا منشا ء یہ ہے کہ جوشخص مال چھوڑکر مرجائے خواہ وہ زیادہ ہویا کم ، اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر نزدیک و دور کے تمام رشتہ داروں میں درجہ بدرجہ پھیلا دیا جائے اور اگر کسی کا کوئی وارث بھی نہ ہو توبجائے اس کے کہ اسے متنبہٰ بنانے کا حق دیا جائے ، اس کے مال کو مسلمانوں کے بیت المال میں داخل کردینا چاہئے تا کہ اس سے پوری قوم فائدہ اُٹھائے۔
(۴)غنائمِ جنگ:
جنگ میں جومالِ غنیمت فوجوں کے ہاتھ آئے اس کے متعلق یہ قانون بنایا گیا ہے کہ اس کے پانچ حصے کئے جائیں ۔ چار حصے فوج میں تقسیم کردئے جائیں اور ایک حصہ اس غرض کے لئے رکھ لیا جائے کہ عام قومی مصالح میں صرف ہو ۔
(۵) اقتصاد:
اسلام ہر شخص کواپنے خرچ میں اقتصاد اورکفایت شعاری ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے ۔ تاکہ افراد اپنے معاشی وسائل سے کام لینے میں افراط یا تفریط کی روش اختیار کرکے تقسیمِ ثروت کے توازن کونہ بگاڑیں۔‘‘
(اسلام اورجدیدمعاشی نظریات۔ ص ۹۷۔۱۰۵۔۱۰۸۔۱۰۹۔۱۱۱)
یہ ہیں سید مودودیؒ کی زبان میں اسلام کے قوانین ۔ ان کوبنانے کی وجہ ایک تویہ ہے کہ اخلاقی حیثیت سے انسان کے اندر سے تنگدلی اورسنگدلی وغیرہ جیسے امراض کا خاتمہ کیا جائے اوررحم دلی وکشادہ دلی وغیرہ کا جذبہ پیدا کیا جائے تا کہ وہ بہتر انسان بنے۔ اور دوسرے یہ کہ دولت کوجمع کرکے ایک آدمی سانپ بن کر نہ بیٹھ جائے جس سے دولت کی گردش تھم جائے ۔ یا چند آدمی توسرمایہ دار بن کر بیٹھ جائیں اور پورا سماج اپنی ضروریات کولے کر کراہتا رہے اورمعیشت کا نظام ایکدم سے بگڑ کر رہ جائے ۔ اسلام میں ربوٰا کوحرام ہونے کے یہی وجوہات ہیں۔ اب کوئی ہمیں بتائے کہ کیا اس میں ساری انسانیت کا بھلا نہیں ہے ؟
یہ تو رہی سو د اوردولت کی گردش پربحث۔ اب اس کے بعد ہم سید مودودیؒ کے نظریۂ بینکنگ پر تبصرہ کریں گے کہ آپ نے اس کے تعلق سے بلا سود چلانے کے متعلق کس طرح کا نظریہ پیش فرمایا ہے ۔
بینکنگ:
بینک آج کی دنیا کا سب سے بڑا سودکا اڈا ہے ۔ بینک کے قیام سے پہلے جومہاجن کادوبار سود کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے بجائے اس کے کہ اس غیر قانونی اورغیر انسانی فعل پر گرفت کی جاتی الٹا قانون نے اسے بڑی بڑی ڈگری الاٹ کردی اوردورِ قدیم کے ساہوکاری سسٹم کو دورِ جدید میں بینک کی شکل میں ہر چوراہے پر لا کر کھڑا کردیا تا کہ لوگ بالکل آزادانہ طور سے آکر اپنی حاجت رفع کرسکیں۔
اس طرح کے کاروبار ی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اس بزنس کوسود کے سہارے چلانا مجبوری ہے ۔ کیو نکہ جب بینکوں سے سودکا دروازہ بند کردیا جائے گا توسرمایہ آنا بھی بند ہوجائے گا ۔ کیونکہ لوگ سود ہی کے لالچ سے اپنا مال بینک کے حوالے کرتے ہیں۔ اس طرح کی کج فہمی (wrong Headness)پر ’’سید مودودیؒ‘‘ کہتے ہیں کہ !ہم بینک کوبلا سو د کس طرح سے اسلامی شکل دے کر چلا سکتے ہیں اور اسکا چلنا کیوں کر یقینی بھی ہے ۔
’’لوگ یہ سمجھتے …..ہیں کہ جب سود ملنے کی توقع ہی نہ ہوگی تولوگ کیوں اپنی فاضل آمدنیاں بینک میں رکھوائیں گے ؟ حالاں کہ اس وقت سود کی نہ سہی نفع ملنے کی توقع توضرور ہوگی اورچونکہ نفع کا امکان غیر متعین اورغیر محدود ہوگا۔ اس لئے عام شرح سود کی بہ نسبت کم نفع حاصل ہونے کا جس قدر امکان ہوگا اسی قدر اچھا خاصا زیادہ نفع ملنے کا امکان بھی ہوگا ۔ لہٰذا یہ بالکل ایک یقینی بات ہے کہ جس مقدار میں اب سرمایہ بینکوں کے پاس آتا ہے اسی مقدار میں انسداد ِ سود کے بعد بھی آتا رہےگا……
بینکوں کے فکسڈ ڈیپازٹ کے متعلق دوصورتیں ہیں۔ جولوگ صرف اپنے روپے کی حفاظت چاہتے ہوں او ر اپنا روپیہ کسی کاروبار میں لگانے کے خواہش مند نہ ہوں ان کے روپے کوبینک امانت رکھنے کے بجائے قرض لیں۔ اسے کاروبار میں لگا کر منافع حاصل کریں ، اور ان کا اصل راس المال مدتِ مقررہ پرادا کرنے کی ضمانت دیں۔اورجولوگ اپنے روپے کوبینک کی معرفت کاروبار میں لگوانا چاہیں، ان کا روپیہ امانت رکھنے کے بجائے بینک ان سے ایک عام شراکت نامہ طے کرلے۔ ایسے تمام اموال کو مختلف قسم کے تجارتی، صنعتی، زراعتی یا دوسرے کاموں میں جوبینک کے دائرہ عمل میں آتے ہیں لگائے اور اس مجموعی کاروبار سے جومنافع حاصل ہو اسے ایک طے شدہ نسبت کے ساتھ ان لوگوں میں اس طرح تقسیم کرے جس طرح خود بینک کے حصہ داروںمیں منافع تقسیم ہوتا ہے ۔
’بینکوں کے کرنٹ اکاؤنٹ میں کاروباری لوگوں کی جورقمیں رہتی ہیں ان پر کوئی سود نہ دیا جائے ۔ بلکہ حساب وکتاب رکھنے کی اجرت لی جائےاوران رقموں کو قلیل المیعاد قرضوں کی صورت میں کاروباری لوگوں کوبلا سود دیا جائے ۔ ایسے قرضداروں سے بینک اس رقم کا سود تو نہ لیں ۔البتہ وہ اپنے دفتری اخراجات کی فیس ان سے لے سکتے ہیں۔‘‘ (سود ۔ ص ۱۵۵)
بینکنگ کے تعلق سے سید مودودیؒ نے اس طرح کے نظریات پیش فرمائے ہیں ۔ اگر ان جیسے خطو ط پر کوئی کام کرنا چاہے تووہ سو فیصد بلا سود کے اس طرح کا پروگرام کامیاب طریقے سے چلا سکتا ہے ۔ لیکن اصلی الجھن یہ ہے کہ پہلے ہم دماغ سے مغرب کے ڈالے ہوئے اس خیال کونکال باہرکریں کہ جدید معاشیات کے متعلق اسلام کے پاس کوئی اسکیم نہیں ہے ۔ پھر گہرائی سے اسلام کے اصول کوسمجھیں ، اس پر عمل کریں ، اور پھر مزید اجتہاد کے ذریعہ سے ایسے ایسے راستے نکالیں کہ ناقدین خود دم بخود (Aghast)رہ جائیں ۔ یہ تو صرف ایک مذاق ہے کہ معاش کے سلسلے میں صرف مغربی نظریات ہی انسان کوترقی کے بامِ عروج پر لے جاسکتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2016