سیّد مودودیؒ کی تحریروں کی روشنی میں انشورنس کا تجزیہ پیش نظر ہے۔
انشورنس کوعربی زبان میں ’’التامین علی الحیاۃ ‘‘کہتےہیں ۔ انگریزی میں ’’Life Insurance‘‘اوراردو میں ’’جان کا بیمہ ‘‘کہتے ہیں۔
اس کا آغاز تقریباً۱۴۹۸ء کولندن کے ایک مشہور قہوہ خانہ ’’ لوئڈز‘‘ میں ہوا تھا۔اوروہیں پر اس طرح کی ایک کمپنی کی بنیاد پڑی۔اس پالیسی کی تمام تر بنیاد قیاس پر مبنی ہے ۔ جس کے متعلق یوروپین ماہر اقتصادیات خود کہتے ہیں۔
’’لارڈ مانسفلیہ ‘‘ کہتا ہے :۔
’’بیمہ پالیسی کا دار ومدار اٹکل پر قائم ہے ۔‘‘
انگلینڈ کا ’’سلوٹر‘‘ (Slotor)کہتا ہے :۔
’’بیمہ دار کسی ناگہانی آفت سے بیچنے والے ضرر کے خون سے پیش بندی کے طور پر کمپنی سے معاوضـہ دینے کا عہد کرتی ہے— یہ پالیسی صرف اٹکل اوربے سبب دولت کمانے کا ذریعہ ہے ۔‘‘
یہ صرف قیاس اوراٹکل ہی پر نہیں بلکہ جوا اور سود پر بھی مبنی ہے اورایک ایسا خوبصورت فریب ہے جس کے متعلق کوئی نہیں جانتا ہے کہ کس کی جیب تراشی جائے گی اورکس کی بھرے گی ۔میرے نزدیک بیمہ پالیسی بیع غرر اور بیع حصاۃ کی ایک قسم ہے ۔ یعنی جس کاانجام نامعلوم ہو اورقسمت آزمائی کے لئے کیا گیا ہو۔ اسی طرح کی پالیسی اسلام میں حرام ہے۔ رسول اللہؐ نے اسے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے ۔
’’ ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضورؐ نے ان جانوروں کے خریدنے سے منع فرمایا ہے جوابھی پیٹ میں ہوں۔ جب تک کہ وہ پیدا نہ ہوجائیں ۔ اوراس دودھ کے خریدنے سے منع فرمایا ہے جوابھی تھنوں میں ہیں۔ ‘‘ (ابن ماجہ)
بیمہ پالیسی کے جوازکا ایک ہلکا سا اشارہ بھی ہمیں اسلام کے معاشی نظام سے نہیں ملتا ہے ۔ یہ صرف ایک سراب ہے جس کی تہ میں ایک بوندبھی پانی نہیں ہے ۔ اس طرح کی جتنی بھی پالیسیاں ہیں جن کی بنیاد اتفاقی معاملات پر ہے وہ قمار کی تعریف میں آتی ہیں ۔ اورقمار کوقدرت نے حرام قرار دیا ہے ۔ اب ہم دیکھیں گے کہ سیّد مودودیؒ نے اس بلا کے تعلق سے کیسا اصلاحی نظریہ پیش فرمایا ہے ۔
’’ سید مودودی ‘‘کہتےہیں: ۔
’’انشورنس کمپنیاں جوروپیہ پر یمیم کی شکل میں وصول کرتی ہیں اس میں بہت بڑے حصے کوسودی کاموں میں لگاکر فائدہ حاصل کرتی ہیں اوراس ناجائز کاروبار میں وہ لوگ آپ سے آپ حصہ داربن جاتے ہیں جوکسی نہ کسی مشکل میں اپنے آپ کو یا اپنی کسی چیزکو ان کے پاس انشور کراتے ہیں۔ موت یا حوادث یا نقصان کی صورت میں جورقم دینے کی ذمہ داری یہ کمپنیاں اپنے ذمہ لیتی ہیں اس کے اندر قمار کا اصول پایا جاتا ہے ۔
آدمی کے مرجانے کی صورت میں جورقم ادا کی جاتی ہے اسلامی شریعت کی رو سے اس کی حیثیت سے مرنے والےکے ترکے کی ہے جسے شرعی وارثوں میں تقسیم ہونا چاہیے ۔ مگر یہ رقم ترکے کی حیثیت میں تقسیم نہیں کی جاتی بلکہ اس شخص کو مل جاتی ہے جن کے لیے پالیسی ہولڈر نے وصیت کی ہو۔ حالانکہ وارث کے حق میں شرعاً وصیت ہی نہیں کی جاسکتی ۔‘‘ (رسائل ومسائل ۔ ص ۲۳۵۔ سوم)
یہ ہیں انشورنس کے بارے میں سید مودودی کے ارشادات جوثابت کررہے ہیں کہ بیمہ پالیسی جن اصول پر چل رہی ہے وہ اسلامی اصول کی ضد ہے ۔ لہٰذا وہ کسی بھی قیمت پر درست نہیں ہوسکتی ۔ ہم اس سے سمجھوتہ اس صورت میں کر سکتے ہیں کہ ایک تواس کے اندر سےقمار کی روح کو نکال دیا جائے اور دوسرے سرمائے کوایسے نفع بخش کاموں میں لگایا جائے جس سے بجائے سود کے حلال نفع حاصل ہو۔اس کے بعد ہم ایک اورچیز جسے ’’انعامی بانڈز‘‘ کے نام سے مشہور کیا گیا ہے جس کے اندر سود اورجو ا دونوں کی روح حلول (Penertration)کئے ہوئے ہے تبصرہ چاہتے ہیں کہ اسے مولانا مرحوم نے کس زمرے میں رکھا ہے ۔
انعامی بانڈز
’’سید مودودی ؒ ‘‘ کہتے ہیں :۔
’’انعامی بانڈز کے معاملہ میں صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈز بھی اس نوعیت کے قرضے ہیں جوحکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لئے لوگوں سے لیتی ہے ، اور ان پر سود ادا کرتی ہے …….اس میں سود بھی ہےاورروحِ قمار بھی۔ جوشخص یہ وثائق خریدتا ہے وہ اولاً اپنا روپیہ جان بوجھ کر ایسے کام میں قرضے کے طور پر دیتا ہے جس میں سود لگایا جاتا ہے ۔ ثانیاًجس کے نام پر انعام نکلتا ہے اسے در اصل وہ سود اکٹھا ہوکر ملتا ہے جوعام سودی معاملات میں فرداً فرداً ایک ایک وثیقہ دار کو دیا جاتا تھا ۔ ثالثاً جوشخص بھی یہ وثیقے خریدتا ہے وہ مجرد قرض نہیں دیتا۔ بلکہ اس لالچ میں قرض دیتا ہے کہ اسے اصل سے زائد انعام ملے گا ۔ اس لئے اس میں نیت سودی لین دین ہی کی ہوتی ہے ۔
رابعاً جمع شدہ سود کی وہ رقم جوبصورتِ انعام دی جاتی ہے اسکا کسی وثیقہ دار کوملنا اس طریقے پر ہوتا ہے جس پر لاٹری میں لوگوں کے نام انعامات نکلا کرتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا تمام باقی لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کومل جاتا ہے ۔ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل رقم قرض نہیں ماری جاتی ۔ بلکہ صرف وہ سودجو سودی کا روبار کے عام قاعدے کے مطابق ہردائن کو اس کی دی ہوئی رقم قرض پر مدد کرتا ہے ، انہیں نہیں ملتا ۔ بلکہ قرعہ کے ذریعہ سے نام نکل آنے کا اتفاقی حادثہ ان سب کے حصوں کا سود ایک یا چند آدمیوں تک اس کے پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ اس بنا پر یہ بعینہٖ قمار تونہیں ہے ، مگر اس میں روحِ قمار ضرور موجود ہے ۔‘‘ (رسائل ومسائل ۔ ص ۲۵۲۔۲۵۳۔ سوم)
یہ ہے انعامی بانڈز کے تعلق سے سید مودودی کی تحریر جس میں آنجناب اس کے سسٹم کودیکھتے ہوئے اسے جو اہی کے کھانچے میں رکھتے ہیں ۔ لہٰذا شریعت سے اس کے متعلق بھی کوئی جواز نہیں نکلتا ہے ۔ تا آنکہ اس کے اندر جوسودمی اورقمار می نجاست ہے اسے نفاست سے بدل نہ دیا جائے ۔ اس کے بعد ہم ایک اورموضوع ’’ربوا الفضل ‘‘ (یعنی وہ زیادتی جوایک ہی جنس کی چیزوں کے لین دین میں ہو، ) پر تبصرہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ اس کے تعلق سے سید مودودی نے کس طرح کی رہنمائی فرمائی ہے ۔
ربوا الفضل
اس موضو ع پر بھی سید مودودی نے اچھی خاصی بحث کی ہے اوراحادیث وغیرہ سے طویل دلیل دے کر اس کی کنڈیشن کودیکھتے ہوئے فیصلہ فرمایا ہے ۔ نیز صحابہ وفقہاء کے احکام واختلافات کی روشنی میں اس کاجائزہ لیا ہے ۔
’’سید مود ودی ‘‘ کہتے ہیں:۔
’’ربوالفضل اس زیادتی کوکہتے ہیں جوایک ہی جنس کی دو چیزوں کے دست بدست لین دین ہو……ایک ہی جنس کی دو چیزوں کوبدلنے کی ضرورت صرف اس صورت میں پیش آتی ہے جبکہ اتحاد جنس کے باوجود ان کی نوعیتیں مختلف ہوں۔ مثلاً چاول اورگیہوں کی ایک قسم اوردوسری قسم ۔ عمدہ سونا اور گھٹیا سونا ۔ ان مختلف اقسام کی ہم جنس چیزوں کوایک دوسرے کے ساتھ بدلنا اگرچہ بازار کے نرخ ہی کوملحوظ رکھ کر ہو ۔ بہرِ حال ان میں کمی بیشی کے ساتھ مبادلہ کرنےسے اس ذہنیت کے پرورش پانے کا اندیشہ ہے جوبالآخر سود خوارمی اورناجائز نفع اندوزی تک جا پہنچتی ہے ۔ اس لئے شریعت نے قاعدہ مقرر کردیا کہ ہم جنس اشیاء کے مبادلہ کی اگر ضرورت پیش آئے تولازماً حسبِ ذیل دو شکلوں میں سے ہی کوئی ایک شکل اختیار کرنی ہوگی۔ایک یہ کہ ان کے درمیان قدر وقیمت کا جو تھوڑا سا فرق ہوا سے نظر انداز کرکے برابر سرابر پر مبادلہ کرلیا جائے۔ دوسرے یہ کہ چیز کاچیز سے براہِ راست مبادلہ کرنے کے بجائے ایک شخص اپنی چیز روپے کے عوض بازار کے بھاؤ بیج دے اوردوسرے شخص سے اس کی چیز روپے کے عوض بازار کے بھاؤ خرید لے ۔‘‘(سود۔ ص ۱۱۳)
یہ ہے ’’ ربوا الفضل ‘‘ کے متعلق سید مودودی کا نظریہ ۔ مولانا نے کئی مقامات پر اس کے تعلق سے بڑی صراحت (Specifice)کے ساتھ اس سے ہونے والے منفعت اور مضرت پر شریعت کی روشنی میں تبصرہ کیا ہے ۔ جس سے ساری حقیقت عیاں ہوگئی ہے ۔ اس کے تعلق سے جوبھی مسائل رونما ہوںگے ان کی کنڈیشن کودیکھتے ہوئے اس کی روشنی میں اس کا تصفیہ (Purification)کیا جاسکتا ہے۔
اب ہم اسلام کے ایک ہم رکن اوراسلامی معاشیات کی بنیاد ’’زکوٰۃ‘‘ پر سید مودودی کی تحریروں کی روشنی میں تذکرہ کریں گے ۔ کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو دینی اوردنیاوی اعتبار سے اپنے اندر جوجورول رکھتی ہے وہ دنیا کے کسی بھی معاشی ماڈل میں نہیں ہے اورنہ ہی دنیا آج تک اس کا نعم البدل پیدا کرسکتی ہے اوراگر کچھ کوشش بھی کی گئی ہے تواس کےناکامی کا نظارہ بھی سامنے آچکاہے ۔
زکوٰۃ
زکوٰۃ کوئی ٹیکس ، کوئی چندہ یا کوئی اگریمنٹ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک مالی عبادت ہے جسے ہر صاحبِ حیثیت کو ادا کرنا ہے ۔ یہ وہ سسٹم ہے جومال کے میل کوٹھیک اسی طرح سےصاف کردیتی ہے جس طرح سے پانی بدن کے میل کو صاف کردیتا ہے ۔ بلکہ پانی توصرف بدن ہی کوصاف کرتا ہے ، لیکن زکوٰۃ مال کے ساتھ روح تک کے میل کودھل دیتی ہے ۔دنیا میں معاش کے بہت سے شعبے وجود میں آئے۔لیکن آج تک کوئی ایسا شعبہ نہیں رکھا جس کا تعلق عبادت اورمعاشی دونوںسے اس کی دیکھا دیکھی ٹیکس تولایا گیا مگر دنیا جانتی ہے کہ ٹیکس کوتھوپا جاتاہے۔ جسے لوگ بخوشی نہیں، بلکہ کراہیت کے ساتھ دیتے ہیں۔ اس کے برعکس زکوٰۃ جولوگ اس کی اہمیت کوسمجھتے ہیں وہ دور کردیتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کے مستحقین کوڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے گھر پہنچا تے ہیں۔
پھر ٹیکس گھٹایا ، بڑھایا اورہٹایا جاسکتا ہے ۔ لیکن زکوٰۃ کو گھٹانے ، بڑھانے اورہٹانے کا پاور پوری دنیا کے مسلمانوں کو مل کر بھی نہیں ہے ۔ بلکہ اگر اس طرح کی کوئی کوئی ادنیٰ کوشش بھی کرے گا تواس کا شمار خدا کے باغیوں میں ہوگا۔جدید معاشی نظریات نے جتنے بھی پھوڑے پھیلائے ہیں ان سب کا علاج زکوٰۃ اتنے بہتر طریقے سے کرتی ہے کہ ان سب کا ہمیشہ کے لئے آپریشن ہوجاتا ہے — اسلام میں دو رکن ایسے ہیں ایک صلوٰۃ ، دوسرے زکوٰۃ جنہیں میں دو بہنوں سے تعبیر کرتا ہوں ، کیونکہ قرآن میں جہاں صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے وہیں زکوٰۃ کا بھی آیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سر کو جھکانا اورمال کودینا خدا کے سامنے اپنی عاجزی کا سب سے بڑاثبوت اورمالک کے نزدیک سب سے محبوب فعل ہے ۔بار بار صلوٰۃ وزکوٰۃ کے تذکرے سے یہ ظاہر ہوجارہا ہےکہ اخلاقیات اورمعاشیات سب سے پہلے اورسب سے بڑے پیمانے پر انہیں دونوں پر منحصر ہیں ۔ اس کے علاوہ انسان نے جتنے بھی شعبے اخلاق اورمعاشی کے گڑھے (Contrivance)ہیں خواہ یہودیت رہی ہو یا ہنودیت ، اشتراکیت رہی ہو یا فاشیٹ ان کے نسخوں نے سب سے پہلے اپنی ہی علوم پر شنجوں مارا ہے پھر پوری دنیا پر اپنا زہر اگل دیا ہے۔
جد ید تاریخ میں اسکی سب سے بڑی نظیر روس ہے ۔ کوئی وہاں کی عوام سے پوچھ لے کہ جب مارکسیٹ کا سیلاب آیا ہے توانہوںنے کس کس طرح سے مالی، جانی اورجسمانی قیمت چکائی ہے۔اس زمین پر صرف زکوٰۃ کانظریہ ہی انسان کوانصاف اورامن دے سکتا ہے اورجس سے صرف مسلمان کا نہیں بلکہ انسان کا فائدہ ہے ۔ یہ توہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اس الٰہی اسکیم سے صرف نظر کررہے ہیں اور جاہلی شعبوں سے نظر لڑا رہے ہیں ۔ جوعالمگیر فساد کا باعث بنی ہوئی ہیں۔آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے اس مقدس (Sanc tifiecd)فریضے سے بیگانہ ہوگئی ہے ۔ زکوٰۃ دینے کی بات تو دور کی ہے سود تک کھانے لگےہیںاورجو زکوٰۃ نکلتی بھی ہے وہ اصل مقام پر نہیں پہنچتی ہے۔ بلکہ کچھ دوسرے ہی لوگ اسے اچک لے جاتے ہیں ۔ اگر زکوٰۃ صحیح طرح سے نکلتی اورصحیح مقام پر پہنچتی توشاید ابتک اس ملک سے غربت ختم ہوگئی ہوتی ۔ غریبی کاجوں کا توں بحال رہنا اس بات کاثبوت ہے کہ یا تو خود کھائی جارہی ہے ، یا غلط جگہ پہنچائی جارہی ہے ، یا پھر غلط کام میں استعمال ہورہی ہے ۔ غلط کام سے مراد مسجد ، مدرسہ ، خانقاہ اورمسافر خانہ وغیرہ بھی ہے ۔ کیونکہ اسکا ثبوت قرآن وحدیث سےنہیں ملتا۔ ہاں جب زکوٰۃ کے ایک بھی مستحقین نہیں ملیں گے تب یہ سوچا جائےگا کہ اس حدسے اب کیا کرناہے ۔ جولوگ اس سے پہلے سوچ رہےہیں وہ اسلامی قانون میں اضافہ کررہے ہیں اور خوش قسمتی یہ کہ اسلامی قانون نامکمل نہیں ہے ۔
یہ تو رہی اپنی بات ۔ اب ہم آپ کو سید مودودی کی تحریروں کی طرف لے چلنا چاہیں گے کہ زکوٰۃ کے تعلق سے مولانا محترم نے کس طرح کی آراء پیش فرمائی ہیں ۔ معاشیات میں یہی ایک شعبہ ایسا ہے جس پر مولانا نے بڑا طویل کا م کیاہے اورمیری سمجھ سے شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جسے مولانا نے تمشنہ چھوڑا ہو ۔ سید مودودیؒ نے نظام زکوٰۃ کے قیام پر بڑی شدت کے ساتھ زور دیا ہے اور بتادیا ہے کہ یہی وہ سسٹم ہے جوہر طرح کی خرابیوں کوختم کرکے پوری دنیا کے انسان کومعاشی حیوان نہیں بلکہ فطری انسان بنا سکتا ہے اوراس کے بعد ہمیں کسی بھی مغربین اورمشرقین کی بنائی ہوئی معاشی تفسیر کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
’’سیدّ مودویؒ‘‘ کہتے ہیں:۔
’’سرمایہ داری کا اقتضا ء یہ ہے کہ روپیہ جمع کیا جائے اوراس کو بڑھانے کے لئے سود لیا جائے۔ تاکہ ان تالیوں کے ذریعہ سے آس پاس کے لوگوں کا روپیہ بھی سمٹ کر اس جھیل میں جمع ہوجائے۔اسلام اس کے بالکل خلاف یہ حکم دیتاہے کہ روپیہ اول تو جمع ہی نہ ہو، اور اگر جمع ہوبھی تواس تالاب میں سے زکوٰۃ کی نہریں نکال دی جائیں تاکہ جوکھیت سوکھے ہیں ان کوپانی پہنچے اور گر دو پیش کی ساری زمین شاداب ہوجائے ۔ سرمایہ داری کے تالاب سے پانی لینے کے لئے ناگزیرہے کہ خاص آپ کا پانی پہلے سے وہا ں موجود ہو، ورنہ آپ ایک قطرۂ آب بھی وہاں سے نہیں لے سکتے۔ اسکے مقابلہ میں اسلام کے خزانۂ آب کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کےپاس ضرورت سے زیادہ پانی ہووہ اس میں لا کر ڈال دے اور جس کوپانی کی ضرورت ہو وہ اس میں سے لے لے۔
اسلام ایک طرف انسان پر فرداً فرداً یہ اخلاقی فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے اور پرائے جس فرد بشر کوبھی مدد کا محتاج پائے اس کی مدد اپنی حد استطاعت تک ضرور کرے……..اوراس پر مزید یہ کہ وہ پورے معاشرے اورریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ اس کے حدود عمل کے اندر رہنے والا کوئی شخص کم سے کم ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ معاشرے کے اندر جولوگ بے روزگار ہوجائیں ، یا کسی عارضی سبب سے ناقابل کار ہوں ، یا کسی حادثے اورآفت کے شکار ہوں، ان سب کو سہارا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ وہ بچے جن کا کوئی سر پرست نہیں ان کی سرپرستی کرنا ریاست کا فرض ہے ۔ حد یہ ہے کہ جوشخص قرضدار ہو اوراپنا فرض ادا نہ کرسکے اس کا قرض بھی بالآخر ریاست پر جاپڑتا ہے ۔ یہ سوشل انشورنس کی ایک وسیع ترین اسکیم ہے ۔ اس کے لئے مالی وسائل کی فراہمی کا انتظام اسلام حسب ذیل طریقوں پر تجویز کرتا ہے ۔
۱۔ ہر شخص جس نے ایک مقرر حدِّ نصاب سے زائد سرمایہ جمع کررکھاہے ۔ اپنےسرمایہ کا ۲/۱ فی صد حصہ سالانہ پیداوار کا ۵ فی صد حصہ اس مد میں ادا کرے ۔
۲۔ ہر زمیندار وکاشت کار اپنی بارانی زمینوں کی پیداوار کا دس فی صد اورچاہی ونہری زمینوں کی پیدوار کا ۵ فی صد حصہ اس میں ادا کرے۔
۳۔ ہر صنّاع اورتاجر ہر سا ل کے اختتام پر اپنے اموالِ تجارت کی مالیت کا ۲ ۱/۲ فی صد حصہ دے۔
۴۔ ہر گلّہ بان جو ایک خاصی مقدار نصاب سے زیادہ مویش رکھتا ہو ایک خالص تناسب کے مطابق اپنی حیوانی دولت کا ایک حصہ ہر سال حکومت کے حوالہ کرے۔
۵۔ معدنیات اورزمینوں میں سے بھی خُمس لیا جائے۔
۶۔ اورکوئی جنگ پیش آئے تواموال غنیمت میںسے ۲۰ فی صد حصہ ان اغراض کے لئے الگ کرلینا چاہئے۔
کسی صاحب نظر سے یہ بات مخفی نہیں کہ اشتراکیت ، فاشزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت تینوں نے ابتک سوشل انشورنس کا جووسیع نظام سوچا ہے زکوٰۃ اس سے بہت زیادہ وسیع پیمانے پر اجتماعی انشورنس کا انتظام کرتی ہے ۔‘‘ (اسلام اورجدید معاشی نظریات ۔ ص ۱۰۷۔ و ۱۳۰۔۱۳۱)
سید مودودی کی یہ تحریر آپ کے سامنے ہے جس میں اسلام کے اصول کوبیان کردیا گیا ہے ۔ اس میں سے کون سا اصول ایسا ہے جوانسانیت کے لئے منفعت بخش نہ ہو ، اور جس سے معاش کی ہر کل درست نہ ہوسکتی ہو ۔ صحیح تویہ ہے کہ اگردنیا زکوٰۃ جیسے فارمولے کواپنالے تواسے روز معاش کے متعلق نئے نئے فارمولے گڑھنے کی جھنجھٹ سے جس سے انسانیت کا بھلا بھی نہیں ہے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے اورانسان کواس دردِ سر سے جومعاش کے متعلق در بدر دوڑتا ہے امن وامان مل جائے۔ سید مودودی نے زکوٰۃ کے تعلق سے جواصول پیش کئے ہیں اس میں ایک بڑی چیز یہ ہے کہ اس میں آنجناب کا اجتہاد بھی جھلکتا ہے ۔ مثال کے طور پر ہم اسے مختصراً پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
ادائیگی زکوٰۃ کے متعلق سید مودودی کا نظریہ
’’فاتر العقل لوگوں کے معاملے میں……ہمارے نزدیک قوال راج یہی ہے کہ مجنون کے مال میں زکوٰۃ واجب ہے اوراس کا ادا کرنا مجنون کے ولی کے ذمّے ہے ۔
مسافر پر بھی زکوٰۃ واجب ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ وہ مسافر ہونے کی حیثیت سے زکوٰۃ کا مستحق ہے ۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگروہ صاحبِ نصاب ہے توزکوٰۃ کا فرض اسپر سے ساقط ہوجائےگا۔
زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے لئے کسی عمر کی قید نہیں ہے۔ جبتک کوئی یتیم سنِ رشید کونہ پہنچے اس کی زکوٰۃ ادا کرنا اس کے ولی کے ذمے ہے ۔
زیور کی زکوٰۃ کے بارے میں ایک مسلک یہ ہے کہ زکوٰہ واجب نہیں ہے …….دوسرا مسلک یہ ہے کہ عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ زیور پر زکوٰۃ دے دینا کافی ہے ۔ تیسرا مسلک یہ ہے کہ جوزیور ہر وقت پہنے رہتی ہواسپر زکوٰۃ نہیں ہے ……چوتھا مسلک یہ ہے کہ ہر قسم کے زیور پر زکوٰۃ ہے ۔ ہمارے نزدیک یہی صحیح ہے ۔
کمپنیوں کے بارے میں ہمارا خیال یہ ہے کہ جو حصہ دار قدرِ نصاب سے کم حصےرکھتے ہوں ، یا جو ایک سال سے کم مدت تک اپنے حصے کے مالک رہے ہوں ان کومستثنیٰ کرکے باقی تمام حصے داروں کی اکٹھی زکوٰۃ کمپنیوں سے وصول کی جانی چاہئے۔
کارخانوں کی مشینوں اورآلات پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی۔ صرف اس مال کی قیمت پر جوآخرسال میں ان کے پاس خام یا مصنوع شکل میں اوراس نقد روپے پر جوان کے خزانے میں موجود ہوعائد ہوگی۔ اسی طرح سے تاجروں کے فرنیچر ، اسٹیشنری ، دوکان یا مکان اور اس نوعیت کی دوسری اشیاء پر زکوٰۃ عائد نہ ہوگی ۔ صرف اس مال کی قیمت پر جوان کی دوکان میں اور اس نقد روپے پر جوان کے خزانے میں ختم سال پر موجود ہو عائد ہوگی— جوکاروبار اس نوعیت کے ہوں کہ ان کی زکوٰۃ کا حساب اس طرح نہ لگایا جاسکے مثلاًاخبار، ان کے کاروبار کی مالیت ان کی سالانہ آمدنی کے لحاظ سے رائج الوقت قاعدوں کے مطابق مشخص کی جائے اور اسپر زکوٰۃ عائد کی جائے۔
نقدی سونے ، چاندی اورزیورات پر زکوٰۃ ہے ۔ زیور کی زکوٰۃ میں صرف اس سونے یا چاندی کے وزن کا اعتبار کیا جائے گا جوان میں موجود ہوں ۔ جواہر خواں زیور میں جڑے ہوئے ہوںیا کسی اورصورت میں ہوں زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص جواہر کی تجارت کرتا ہو تواسپر وہی زکوٰۃ عائد ہوگی جودوسرے اموال تجارت پر ہے ۔
دھات کے سکّے اورکاغذی سکّے محل زکوٰۃ ہیں۔ کیونکہ ان کی قیمت ان کی دھات یا ان کے کاغذ کی وجہ سے نہیں ہے ۔ بلکہ اس قوتِ خرید کی بنا پر ہے جوقانوناً ان کےاندر پیدا کردی گئی ہے۔
بینکوںمیں جوامانتیں رکھی ہوں وہ پوری محل زکوٰۃ ہیں— قرضے اگر ذاتی حوائج کے لئے ، لئے گئے ہوں اورخرچ ہو جائیں توان پر زکوٰۃ نہیں۔ اگرقرض لینے والا سال بھر تک ان کورکھے رہے اوروہ بقدر نصاب ہوں توان پر زکوٰۃ ہے ۔
رہونہ جائیداد کی زکوٰۃ اس شخص سے وصول کی جائے گی جس کے قبضے میں وہ ہو۔
عطیہ اگر بقدر نصاب ہو اوراسپر سال گزرجائے توجس شخص کووہ دیا گیا ہو اس سے زکوٰۃ لی جائے گی۔
بیمہ اورپراویڈنٹ فنڈ اگر جبری ہوںتو……جب ان کی رقم واپس مل جائے توصرف ایک سال کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی اوراگروہ اختیاری ہوگی توہمارے نزدیک ہر سال کے خاتمے پر جتنی رقم ایک شخص کے حساب میں بیمہ کمپنی یا پراویڈنٹ فنڈ میں جمع ہواسپر زکوٰۃ وصول کی جانی چاہئے۔
ڈیری فارم کے مویشی عوامل کی تعریف میں آتے ہیں اس لئے ان پرزکوٰ ۃ نہیں ہے۔
زرعی پیداوار میں جوچیز ذخیرہ کرکے رکھنے کے قابل ہوں ان پر عشر یا نصب عشر ہے اور یہی حکم ان پھلوں کا بھی ہے جوذخیرہ کرکے رکھے جاسکتے ہوں۔
معدنیات کے بارے میں ہمارے نزدیک……وہ تمام چیز جوزمین سے نکلتی ہیں خواہ وہ دھات کی قسم سے ہوں یا پٹرول ، پارہ وغیرہ کی قسم سے یا گندھک وغیر ہ کی قسم سے ان سب پر ڈھائی فیصدی زکوٰۃ ہے ۔جبکہ ان کی قیمت بقدر نصاب ہو۔
آثار قدیمہ یعنی وہ قیمتی نوادر جوکسی نے بطور یادگار اپنے گھر میں رکھ چھوڑے ہوں ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے ۔ البتہ اگروہ بغرض تجارت ہوں توان پر تجار تی زکوٰۃ ہے ۔
شہد کے بارے میں یہ بات مختلف فیہ ہے ……ہمارے نزدیک بہتر یہ ہے کہ شہد کی تجارت پر زکوٰۃ عائد کی جائے۔
مچھلی بجائے خود محلِ زکوٰۃ نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی تجارت پر وہی زکوٰۃ واجب ہے جواموال تجارت پر ہے ۔
موتی ، عنبر اور دوسری وہ چیزیں جوسمندروں سے نکلتی ہیں وہ ہمارے نزدیک معدنیات کے حکم میں ہیں اور ان پر زکوٰۃ عائد ہونی چاہئے۔
جواشیا ء کرایہ پردی جاتی ہیں ان کی مالیت رائج الوقت قواعد کے مطابق ان کے منافع سے تشخیص کی جائے اوراسپر ڈھائی فیصدی زکوٰۃ لی جائے۔
مویشی اونٹ ، گائے ، بھینس ، بکری اورجوان کے مانند ہوں اگر افزائش نسل کی غرض سے پالے جائیں اور بقدر نصاب یا اس سے زائد ہوں توان پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔
مویشی کی زکوٰۃ نقدی کی صورت میں بھی وصول کی جاسکتی ہے ۔ اور خود مویشی بھی زکوٰۃ میں لئے جاسکتے ہیں۔
متوفی کے ترکے سے پہلے وہ قرضے ادا کئے جائیں گے جواس نے دوسرے لوگوں سے لئے ہوں …..صاحبِ مال کی موت کی وجہ سے اسکی زکوٰۃ ساقط نہیں ہوجاتی ۔ اس نے چاہے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو…..بعض فقہاء نے یہ رائے دی ہے کہ اگر صاحبِ مال نے زکوٰۃ کے لئے وصیت کی ہو تووہ نکالی جائےگی ورنہ نہیں۔ مگر ہماری رائے میں اسکا تعلق اموالِ باطنہ سے ہے ۔ کیونکہ اس میں اس امر کا احتمال ہے کہ صاحبِ مال نے اپنی موت سے پہلے زکوٰۃ نکال دی ہو اور دوسروں کو ا س کی خبر نہ ہو۔‘‘
تشریح ملاحظہ فرمائیں :۔ ( معاشیاتِ اسلام ۔ص ۳۳۶۔ تا ۳۴۶۔ و ۳۵۱)
یہ ہیں سید مودودی کی آراء جسے میں نے محض اس لئے پیش کردیا ہے کہ اس طرح کی بہت سی وہ عام چیزیں ہیں جس پر انسان دھیا ن نہیں دیتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزیں زکوٰۃ سے آزاد ہیں ۔
دوسرے یہ کہ اس میں سید مودودی نے جو اجتہاد پیش فرمایا ہے ، وہ سو فیصد دل ودماغ کواپیل کرتا ہے ۔ نہ ہی اس میں کسی طرح کا تجاوز ہے اورنہ ہی کوئی سطحی رنگ ہے ۔ بلکہ اپنے اندر بڑا بیلنس لئے ہوئے ہے ۔
’’زکوٰۃ ‘‘ قدرت کا بنا ہوا ایک فنڈ ہے ۔ جسکا دائرہ ڈھائی فیصد سے اتنا وسیع اور ساتھ ہی ہموار ہے کہ انسان بلا کسی بوجھ اوربلا کسی جبر کے اگر دینے پر آجائے توبڑے حوصلے سے دے سکتا ہے اور ہرطرح کی معاشی ناہمواری کو ختم کرسکتا ہے ۔ لیکن آج اس کی سب سے بڑی رکاوٹ ایک تو اس کی افادیت کونہ سمجھنا ہے اوردوسرے حرص وہوس، اور زرپرستی ہے ۔ جس کی وجہ سے اسکا صحیح سسٹم معطل (Effects)ہو کر رہ گیا ہے۔ کاش ہر مسلمان یہ سمجھ جاتا کہ زکوٰۃ قدرت کا ایک عظیم منصوبہ ہے جس سے دنیا کا معاشی نظام درست ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ سارے نظام دھن بٹورنے کے ایک مُہرے ہیں جواپنےاندر یہ پلان رکھتے ہیں کہ جوامیر ہیں وہ اورامیر ہوجائیں، اور جوغریب ہیں وہ ہمیشہ غریب ہی رہیں۔
لیکن زکوٰۃ کہتی ہے کہ میں غربت کی دشمن ہوں ، میں سبھی کی خوشحالی کی خواہاں ہوں ۔ میں ہر یتیم ، ہر غریب ، ہر بیوہ الغرض کہ ہر طرح کے پریشان حال لوگوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لئے بھی عنایت ہو جوآج امیر ہیں اورکل غریب ہوجائیں ۔ میں مال کو گردش کرانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوں ۔ میں وہ فنڈ ہوں جس میں صرف مسلمان نہیں بلکہ انسان حالات کے لحاظ سے بغیر کسی انشورنس کے ، بغیر کسی ای ، پی ، ایف ، کے اور بغیر کسی فائیننس کے لئے سکتا ہے۔
اب اگر کوئی میری طرف متوجہ نہیں ہوتا ہے تومیں کیا کروں۔ بد قسمت ہیں وہ لوگ جومیری جیسی نعمت سے اپنی زندگی سے لے کر اپنے ملک تک کومحروم رکھے ہوئے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2016